سنہ 10 ہجری
سنہ ۱۱ ہجری سنہ ۹ ہجری | |
631 اور 632ء | |
---|---|
امامت | |
پیغمبر اکرمؐ کی نبوت | |
اسلامی ممالک کی حکومتیں | |
پیغمبر اکرمؐ، مدینہ | (حکومت: 1 ـ 11ھ) |
اہم واقعات | |
حجہ الوداع | |
عید غدیر اور پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کا اعلان | |
نزول آیت تبلیغ | |
نزول آیت اکمال | |
خاتم بخشی امام علیؑ | |
ولادت | |
محمد بن ابی بکر | |
وفات / شہادت | |
وفات ابراہیم ابن رسول خدا |
سنہ 10 ہجری ہجری کیلنڈر کا دسواں سال ہے۔ اس سال کا پہلا دن 1 محرم بروز منگل بمطابق 12 اپریل 631 عیسوی اور آخری دن بروز ہفتہ 30 ذی الحجہ بمطابق 31 مارچ 632 عیسوی ہے۔[1]
حَجّّۃُ الوِداع، واقعہ غدیر اور پیغمبر اسلامؐ کی جانب سے امام علیؑ کی جانشینی کا اعلان، پیغمبر اکرمؐ کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ اور یمن میں سَرِّیہ امام علی اور وہاں کے لوگوں کا مسلمان ہونا اس سال کے اہم واقعات میں شمار کئے جاتے ہیں۔
اہم واقعات
- حجۃ الوداع کی انجام دہی، ماہ ذی الحجہ میں۔[2]
- واقعہ عید غدیر اور آنحضرت (ص) کا جانشین معین کرنا۔[3]
- حجۃ الوداع میں آیہ تبلیغ کا نزول، 18 ذی الحجہ۔[4]
- حجۃ الوداع میں آیہ اکمال کا نزول، 18 ذی الحجہ۔[5]
- جارود بن معلی کا اسلام لانا۔[6]
- پیغمبر اکرمؐ کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ[7] مشہور مورخین کے مطابق لیکن غیر مشہور اس واقعے کو سنہ 9ھ مانتے ہیں۔[8]
- پیغمبر اسلامؐ نے خالد بن ولید کو 400 افراد کے ساتھ بنی حارث (بلحارث بن کعب) کی طرف نجران و یمن بھیجا اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔[9]
- پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو یمن بھیجا اور فرمایا: خالد کو واپس بھیجو۔[10]
- آنحضرتؐ کا خالد بن سعید کو نجران و زبید کے درمیانی علاقوں کی حکومت پر مامور کرنا۔[11]
- اسود عنسی نے یمن میں نبوت کا دعوی اور بغاوت کی۔[12]
- ایک قول کے مطابق حضرت علیؑ کا رکوع کی حالت میں سائل کو انگشتری عطا کرنا (آیہ ولایت) 24 ذی الحجہ۔[13]
- مختلف قبائل کے نمائندوں کی مدینہ میں حاضری اور اسلام قبول کرنا۔[14]
ولادت
- محمد بن ابی بکر۔[15]
- محمد، ابو بکر بن حزم کا باپ۔[16]
وفات
حوالہ جات
- ↑ سایت تبدیل تاریخ ہجری۔
- ↑ واقدی، ج3، ص1088 ـ1089؛ کلینی، ج4، ص244
- ↑ طبرسی، ج 1، ص56 ؛ مفید، ص91 ؛ حلبی، ج 3، ص308
- ↑ قمی، ج1، ص179؛ عیاشی، ج1، ص331ـ332؛ فیض کاشانی، ج2، ص51؛ کلینی، ج1، ص290، ح 6؛ حُوَیزی، ج1، ص653ـ 655؛ بحرانی، ج1 ص490 ح 11؛ علامہ طباطبائی، ج6، ص48 ؛ سیوطی، ج2، ص298؛ آلوسی، ج6، ص194؛ نیشابوری، ج1، ص250
- ↑ کافی، ج1، ص292 ـ 289؛ بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ج1، ص447 ـ 434 ؛ تفسیر القرآن العظیم، ج2، ص14 ؛ سیوطی، الدر المنثور، ج3، ص19
- ↑ طبری، ج3، ص136؛ ذہبی، حوادث و وفیات 11ـ40، ص239
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ہجری شمسی، ج3، ص139۔
- ↑ رجوع کریں: محمدی ریشہری، فرہنگنامہ مباہلہ، 1395ہجری شمسی، ص83-87۔
- ↑ واقدی، 1966، ج 3، ص883 ـ 884؛ ابن ہشام، ج 4، ص239ـ240؛ طبری، ج 3، ص126ـ 128
- ↑ طبری، ج 3، ص131ـ132؛ قس ابن ہشام، ج 4، ص290ـ291
- ↑ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص336۔
- ↑ رجوع کنید بہ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص337۔
- ↑ شیخ مفید، مسار الشیعہ، 1414ھ، ص41۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص130-145۔
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج4، ص326۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج5، ص 69
- ↑ ابن ہشام، سیرۃ النبویۃ،ج 2، ص424؛ طبری، سلسلہ 1، ص1740
مآخذ
- ابناثیر، علی بن ابیالکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر- دار بیروت، 1385ھ۔
- ابناثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ، بیروت، دارالفکر، 1409ھ۔
- ابنجوزی، عبد الرحمن بن علی بن محمد، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1412ھ۔
- ابنسعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1410ھ۔
- ابنہشام، السیرۃ النبویۃ، تحقیق محمد محیالدین عبدالحمید، قاہرہ، 1383ھ۔
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، تفسیر روض الجنان و روح الجنان، محقق ابوالحسن شعرانی و علی اکبر غفاری، تہران، 1382-1387ہجری شمسی۔
- امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، تہران، بینا، 1366ہجری شمسی۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت، دارالفکر، 1417ھ۔
- حسینی میلانی، علی، نفحات الازہار فی خلاصۃ عبقات الانوار، قم، مرکز تحقیق و ترجمہ و نشر آلاء، 1423ھ۔
- ذہبی، محمدبن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، 1417ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، مسار الشیعہ، بیروت، دار المفید، 1414ھ۔
- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، مشہد، نشر المرتضی، چاپ اول، 1403ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دارالتراث، 1387ہجری شمسی۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، بہ کوشش ہشام رسولی محلاتی، تہران، المکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، 1380ھ۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1412ھ۔
- کلینی، محمدبن یعقوب، الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، بیروت، دارالتعارف، 1401ھ۔
- مسعودی، علی بن الحسین، التنبیہ و الإشراف، تصحیح عبد اللہ اسماعیل الصاوی، قاہرۃ، دارالصاوی، بیتا۔
- واقدی، محمدبن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن 1966۔