خالد بن ولید

ویکی شیعہ سے
خالد بن ولید
کوائف
مکمل نامخالد بن ولید بن مُغیرۃبن عبداللّہ بن عمر(عُمَیر) بن مَخزوم قرشی مخزومی
لقبسیف اللہ المسلول
محل زندگیمکہ، مدینہ
مہاجر/انصارانصار
وفات۲۱ یا ۲۲ق شام
مدفنحمص
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتجنگ بدر، احد اور احزاب میں اسلام کے خلاف؛ اسلام لانے کے بعد: جنگ موتہ، فتح مکہ، جنگ حنین؛ خلفا کے دور میں: ردّہ کی جنگیں، ایران سے جنگ اور فتح شام


خالد بن ولید مخزومی صدر اسلام کے کمانڈروں میں سے ہے اور اہل سنت کے ہاں سیف اللہ یا سیف اللہ المسلول سے مشہور ہے۔ اسلام لانے سے پہلے بدر، احد اور احزاب میں مسلمانوں سے لڑا اور فتح مکہ سے پہلے اسلام لے آیا۔ جنگ موتہ اور فتح مکہ میں شرکت کی جبکہ جنگ حنین میں بھاگنے والوں میں سے تھا۔

پیغمبر اکرمؐ کے صحابی مالک بن نویرہ سے بدسلوکی خالد ابن ولید کا مشہور‌ واقعہ ہے۔ مالک بن نویرہ اور ان کا قبیلہ نیز قبیلہ بنی تمیم مسلمان ہونے کے باوجود خالد نے انہیں گرفتار کیا اور مالک اور اس کے قبیلہ والوں کو قتل کیا اور اسی رات مالک کی بیوی سے زنا کیا۔

امام علیؑ کے خلاف مخفی طور پر ہونے والی بعض حرکتوں میں وہ بھی شامل تھا اور اسی وجہ سے اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر اس کی مذمت ہوئی ہے۔

کنیت اور قبیلہ

خالد بن ولید بن مُغیرۃ بن عبداللّہ بن عمر(عُمَیر) بن مَخزوم قرشی مخزومی، بنی‌مخزوم خاندان اور قریش سے تھا۔ ان کی کنیت ابوسلیمان[1]اور ایک روایت کے مطابق ابوالولید[2]تھی۔ اس کی خاندان قریش قبیلے کی بڑی خاندانوں میں سے ایک تھی اور بنی ہاشم سے ہمیشہ رقابت کرتے تھے۔[3]

حسب اور نسب

اگرچہ مورخوں نے ولید کی تاریخ پیدائش کا تذکرہ نہیں کیا ہے لیکن تاریخ وفات اور مرتے وقت اس کی عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بعثت سے 26 سال پہلے مکہ میں پیدا ہوا ہے۔ اس کا والد ولید بن مغیرہ قریش کے اشراف اور بزرگوں میں شمار ہوتا تھا۔[4] اور اس کی ماں، عَصْماء (لُبابہ صغرا یا کبرا) بنت حارث بن حَرْب (یا حَزْن/ حَزْم) تھی جس کا نسب قَیس عیلان بن مُضَر قبیلے تک پہنچتا ہے۔[5]

ولید کے چچوں میں زیادہ مشہور ابواُمَیۃ بن مغیرہ تھا کہ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جب کعبہ کی مرمت کے دوران حجر اسود کو دیوار میں نصب کرنے کے لیے قریش کے قبایل میں جب اختلاف ہوا تو اس کی تجویز سے اختلاف حل ہوا۔ اس نے کہا کہ جو بھی شخص مسجد میں پہلے پہنچے گا اسی کو ثالث بنادینگے۔[6] دوسرا چچا، ہشام بن مُغیرہ بھی قریش کے اشراف اور بزرگ نیز جنگ فِجار میں بنی مخزوم کا سپہ سالار تھا۔ اس کے مرنے پر قریشیوں نے تین سال تک بازار کو رونق نہیں دی۔ اور اس کی موت کو تاریخ کی ابتدا قرار دی۔[7] میمونہ بنت حارث (پیغمبر اکرم کی زوجہ)، لُبابہ، امّ الفضل (زوجۂ عباس بن عبدالمطلب اور عباسی خلیفوں کی دادی) خالد کی خالائیں تھیں۔[8]

اسلام لانے سے پہلے

جاہلیت کے دور میں خالد قریش کے اشراف اور بہادروں میں شمار ہوتا تھا اور فوج کی تیاری اور سوار فوج کی سربراہی بھی اس کے دوش پر تھی۔[9]

سنہ ۲ ہجری کو جنگ بدر میں مسلمانوں کے خلاف لڑا[10] اور واقدی کے کہنے کے مطابق[11] وہ گرفتار ہوا۔

سنہ 3 ہجری قمری کو جنگ اُحُد میں قریش کی سوار فوج کی میمنہ کا سالار تھا اور ایک گھاٹی پر پہرہ دینے میں بعض مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوا۔[12]

سنہ 5 ہجری قمری کو جنگ خندق یا احزاب میں بھی شرکت کی اور ان لوگوں میں سے تھا جو خندق پار کرنا چاہتے تھے لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔[13]

شوال سنہ 8 ہجری قمری کو ایک قول کے مطابق خالد قریش کے مشرکوں میں سے دو سو سوار کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کو مناسک حج سے روکنے مکہ سے کُراع الغَمیم نامی جگہ چلا گیا۔[14]

سنہ 7 ہجری قمری کو پیغمبر اکرمؐ اور مسلمان عمرہ ادا کرنے مکہ کی طرف روانہ ہوئے جبکہ خالد کو اسلام اور مسلمانوں سے اتنی نفرت تھی کہ وہ شہر چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔[15]


اسلام لانے کے بعد

خالد نے کب اسلام قبول کیا اس بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے پانچ ہجری کو غزوہ بنی قُرَیظہ کے بعد، یا صلح حدیبیہ اور فتح خیبر کے درمیان، (ذیقعدہ 6 ہجری اور محرّم سات ہجری کے درمیان)[16] یا سات ہجری کو فتح خیبر[17] کے بعد کو قرار دیا ہے لیکن مشہور قول یہ ہے کہ 8 ہجری صفر کے مہینے میں فتح مکہ سے پہلے اسلام لایا ہے۔[18]

جنگ موتہ

اسلام لانے کے چند مہینے بعد خالد نے جمادی الاولی 8 ہجری کو جنگ مؤتہ میں شرکت کی اور اسلامی فوج کے کمانڈروں کی شہادت کے بعد فوجی کی کمانڈ سنبھالی اور انہیں مدینہ لوٹایا۔[19]بعد میں خود خالد نے کہا ہے کہ اس جنگ میں میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں ہیں۔[20]کہا گیا ہے کہ اسی جنگ کے بعد اسے سیف اللّہ کا لقب ملا اور بعض روایات کے مطابق یہ لقب رسول خداؐ نے دیا ہے۔[21]

فتح مکہ

۲۰ رمضان سنہ 8 ہجری کو فتح مکہ کے دوران رسول اللہ کے حکم سے خالد کی سربراہی میں ایک سوار گروہ مکہ کے جنوب میں لیط کی سمت سے مکہ کی طرف حرکت کیا اور راستے میں انہیں قریش کے بعض مشرکوں کا سامنا کرنا ہوا اور خَنْدَمہ کی جگہے پر ان سے لڑائی ہوئی اور بعض لوگوں کو قتل کیا اور مکہ پہنچ کر رسول اللہؐ کے پاس اپنے اس کام کی توجیہ پیش کی۔[22]جب پیغمبر اکرمؐ کعبہ میں داخل ہوئے تو خالد دروازے پر کھڑے کسی اور کو داخل ہونے سے روک دیا۔[23]فتح مکہ کے بعد خالد بن ولید اگر سوار گروہ کے ساتھ آنحضرتؐ کے حکم سے بَطن نخلہ گیا اور وہاں پر قریش کا سب سے بڑا اور مشہور بت العُزَّی کو توڑ دیا۔[24]

سنہ 8 ہجری

8 ہجری شوال کے ابتدائی دنوں آنحضرتؐ نے خالدبن ولید کو مہاجرین، انصار اور بنی سُلَیم کا 350 نفر پر مشتمل گروہ کے ساتھ مکہ کے اطراف میں بنی جَذِیمہ کو اسلام کی دعوت دینے بھیجا۔ بنی جذیمہ کا اسلام لانے اور اسلحہ تسلیم کرنے کے باوجود خالد نے بعض کو قتل کرنے کا حکم دیا اور جب حضور پاکؐ کو اس بات کا پتہ چلا تو خالد کے اس اقدام سے بیزاری کااعلان کیا اور حضرت علی(ع) کو بھیجا تاکہ مقتولین کا دیہ دیا جائے۔ عبدالرحمن بن عوف نے خالد کے اس اقدام کو ان کے چچا فاکہ بن مغیرہ کے خون کا انتقام قرار دیا ہے۔[25]

8 ہجری کو جب حضورؐ پاک ہوازن قبیلے کے مشرکوں سے لڑنے مکہ کی طرف جنگ حنین کے لیے نکلے تو بنی سُلَیم کے سوار افراد کے ساتھ خالد نے فوج سے پہلے حرکت کیا لیکن جنگ سے بھاگ گیا۔ کہا گیا ہے کہ وہ دوبارہ واپس آکر پھر سے لڑا اور زخمی بھی ہوا نیز بعض لوگوں کو مارا بھی ان میں سے ایک عورت بھی تھی؛ پھر حضور پاکؐ نے بچے، خواتین اور غلاموں کو قتل کرنے سے منع کیا۔[26] اسی طرح 8 ہجری کو جب حضور پاکؐ، قبیلہ ثقیف کے ساتھ لڑنے طائف چلے تو خالد فوج کے ابتدائی دستے میں تھا۔[27]

نو ہجری

رجب سنہ 9 ہجری، کو پیغمبر اکرم جب تبوک میں تھے تو خالد کو 420 افراد پر مشتمل ایک دستے کی سربراہی دے کر مسیحی حاکم أُکَیدِربن عبدالملک کے پاس دَوْمَۃُ الْجَنْدَل بھیجا اور مختصر جنگ کے بعد اسے گرفتار کیا اور پھر ان سے صلح کی۔[28]

دس ہجری

ربیع الثانی یا جمادی الاولی دس ہجری کو رسول اللہ نے خالد کو 400 کے لشکر کے ساتھ نجران میں بنی حارث/ بَلْحارث بن کعب کی طرف بھیجا اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔[29]اسی سال پیغمبر اکرمؐ نے خالد کو یمن بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دے۔ خالد 6 مہینے یمن میں رہا اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی لیکن کسی نے قبول نہیں کیا تو آنحضرتؐ نے علیؑ کو یمن بھیجا اور خالد کو واپس بھیجنے کا کہا۔[30]

پہلے خلیفے کا دور

واقدی [31]کا کہنا ہے کہ خالد حجۃالوداع میں شریک تھا اور حضور پاکؐ کی رحلت کے بعد ابوبکرؓ کے حامیوں میں سے بنا۔[32]اسی وجہ سے ان کے پاس خالد کا بڑا مقام تھا اور ہمیشہ خلیفہ کی حمایت حاصل تھی۔[33]

ردّہ کی جنگوں میں ابوبکر نے خالد کو حکم دیا کہ پہلے قبیلہ طَی، پھر بزاخہ میں طُلَیحۃبن خُوَیلِد اسدی کی طرف اور اس کے بعد بطاح میں مالک بن نُوَیرہ کی طرف چلا جائے اور اگر وہ دوبارہ سے اسلام قبول نہ کریں تو ان سے لڑیں۔[34] ابوبکر نے بعد میں خالد کو بُزاخہ بھیجنے پر افسوس کا اظہار کیا۔[35] خالد نے ایک سخت لڑائی میں طلیحہ جو نبوت کا مدعی تھا کو شکست دی اور اس کے ساتھیوں کو بھی سرکوب کیا۔[36] پھر مالک بن نویرہ اور اس کا قبیلہ نیز بنی تمیم مسلمان ہونے کے باوجود انہیں گرفتار کیا اور پھر خالد کے حکم سے مالک بن نویرہ اور اس کے قبیلے کے افراد کو قتل کیا اور اس کی بیوی سے زنا کیا۔[37]خالد کے اس پلید کام سے بعض مورخوں نے صرف نظر کرنے کی کوشش کی ہے یا کم از کم توجیہ کرنے لگے ہیں۔[38]اور یہ کام مسلمانوں کے غم و غصے کا باعث بنا جن میں سے اس کا ماموں زاد بھائی عمرؓ بھی تھے۔ انہوں نے ابوبکر سے خالد کو سزا دینے کی درخواست کی لیکن خلیفہ نے نہیں مانا اور کہا کہ خالد سے غلطی ہوئی ہے۔ اور جب خالد مدینہ پہنچا تو اس کی عذر قبول کی۔[39]

مسیلمہ کذاب سے جنگ

سنہ 11 ہجری قمری کے اواخر میں خالد یمامہ کی جانب چلا اور عقرباء نامی جگہ پر نبوت کا جھوٹا دعویدار مسیلمہ کذاب اور قبیلہ بنی حنیفہ سے اس کے ساتھیوں کے ساتھ لڑا اور مسیلمہ کو قتل کیا اور فتنہ کو خاموش کیا۔[40]پھر بعد میں خالدبن ولید مُجَّاعَۃ بن مُرارَہ حنفی کے فریب میں آکر اس سے صلح کی۔[41]پھر اس کی بیٹی سے شادی کی اور ابوبکرؓ نے اس کام پر اس کو محکوم کیا۔[42]

ایران سے جنگ

۱۱ ہجری یا 12 ہجری کے محرّم کو ابوبکر کے حکم سے خالد ایران کے زیر تسلط بعض علاقے فتح کرنے کو یمامہ سے عراق کی جانب نکلا۔[43]لیکن خالد کہاں سے اور کیسے عراق پہنچا نیز عراق میں ہونے والی جنگوں کے بارے میں مورخوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[44]

خالد ابوبکر کے حکم کے مطابق أبُلَّہ (بصرہ کے مشرق میں دجلہ) کے کنارے سے شروع کیااور اپنی فوج کے ساتھ عراق کی بعض جگہے جیسے مَذار، وَلَجہ، اُلّیس (نَہر الدَم) اور أَمْغیشیا میں بعض فتوحات انجام بھی دئے۔ [45]اور 12 ہجری کو ملوک لَخمی کا دار الخلافہ؛ حیرہ فتح کرنے کے بعد عراق کی بعض دیگر اہم شہروں کو بھی جنگ یا صلح سے فتح کیا۔[46]

۲۵ ذی‌القعدہ 12 ہجری کو حیرہ کی طرف واپس لوٹتے ہوطے خالد مخفی طور پر اپنی فوج سے الگ ہوا اور مکہ جاکر مناسک حج انجام دیا اور پھر جلدی سے اپنی لشکر سے آ ملا۔ ابوبکر نے اس کے اس کام کی مذمت کی۔[47]

خالد بن ولید کا مقبرہ مسمار کے بعد

شام کی فتح

اس کے بعد ابوبکر کے حکم سے خالد نے عراق میں اسلامی لشکر کی سپہ سالاری مُثَنّی بن حارثہ کے سپرد کیا اور خود بعض سپاہیوں کو لیکر شام میں اسلامی فوج کی مدد کو پہنچا اور شام میں پوری فوج کی کمانڈ سنبھالی۔[48]خالد کی فوج کے تعداد کے بارے میں تاریخ میں اختلاف ہے۔[49]اور اس بارے میں بھی کہ کس راستے سے گیا اور کسی تاریخ کو گیا اس میں بھی اختلاف ہے۔[50]

بہت سارے مورخین کے مطابق خالد کی فوج ربیع الآخر یا ربیع الاول 13 ہجری کو حیرہ سے یا ایک قول کے مطابق عین التّمر سے روانہ ہوئی اور پینے کا پانی اپنے ساتھ لیکر رافع بن عُمَیرہ طایی کی راہنمائی میں شام کے اس دشتوار راستے کو مشرق میں قَراقِر سے مغرب میں سُوی کی جانب 5 یا 8 دنوں میں طے کیا۔[51]

دَوْمَۃالجَنْدَل، تَدمُر، اور مَرج راہط جیسی شہروں کو فتح کرنے کے بعد بُصری میں اسلامی لشکر سے جا ملے۔ پھر بُصری شہر کو محاصرہ کیا اور لوگوں کا صلح کے لیے تیار ہونے تک محاصرہ جاری رہا۔[52]

اجنادین اور یرموک کی جنگیں

اگرچہ دو سرنوشت ساز جنگیں أَجنادِین (فلسطین کا ایک شہر)اور یرموک کے بارے میں مورخین میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[53] مختلف قرائن اور شواہد کے مطابق دمشق کے اطراف میں خالد اسلامی فوج کے ساتھ عمرو بن عاص کی فوج کی فلسطین میں مدد کرنے اور اجنادین میں رومی فوجیوں کو نابود کرنے جنوب کی طرف روانہ ہوا اور 18 یا 28 جمادی الاولی کو (ایک اور قول کے مطابق 2 یا 28)جمادی الثانی) 13 ہجری کو رومیوں کے مقابلے میں گیا اور انہیں شکست دی۔[54]اس جنگ کے بعد خالد اپنے سپاہیوں کے ہمراہ شام کے شمال کی جانب نکلا اور 13 ہجری یا 15 یا 16 ہجری کو دریاے یرموک کے کنارے رومیوں کو جنگ یرموک میں شکست دی۔[55]

خلیفہ دوم کا دَور

عمرؓ کی خلافت کے آغاز (جمادی الثانی 13 ہجری کے درمیانی دنوں) میں خالد بن ولید، خلیفہ کے حکم سے شام کی سپہ سالاری سے معزول ہوئے اور اس کی جگہ ابوعبیدہ جراح منصوب ہوئے۔[56]

14 ہجری محرّم کے ابتدا میں جنگ مَرج الصُّفَّر میں خالد ابوعبیدہ کا مشاور تھا بود، 16 محرم کو دمشق کے مشرقی حصے میں فوج نے پڑاؤ ڈالا[57]اور رجب کے مہینے میں شہر کو کچھ عرصہ محاصرہ کرنے کے بعد جنگ کے ذریعے یا صلح کے ذریعے مشرقی دروازے سے دمشق داخل ہوگئے۔[58]

رجب یا ذیقعدہ 14 ہجری یا ذی الحجہ 13 ہجری کو خالد نے جنگ فَحْل میں رومیوں کو شکست دی۔[59] اور 14 یا 15 ہجری کو بعد میں ابوعبیدہ کے حکم سے اس نے بعلبک اور بقاع کو فتح کیا پھر ابوعبیدہ کے ساتھ حِمص کا محاصرہ کیا یہاں تک کہ لوگ صلح پر راضی ہوئے۔[60]

ابوعبیدہ نے خالد کو حمص سے قِنَّسرین بھیجا اور اس نے رومیوں کو شکست دی اور قنسرین کا محاصرہ کیا اور شہر فتح کر کے شہر کے قلعوں کو ویران کیا۔[61]بعض روایات کے مطابق بعض جزیرہ کے شہر جیسے نصیبین و آمِد کو فتح کرنے میں بھی خالد شریک تھا۔[62]

قنسرین کا حاکم

جب عمرؓ 17ھ کو شام گئے تو خالد کی دلجوئی کی اور ایک نقل کے مطابق اسے جزیرہ کی شہریں جیسے رُ‌ہا، حَرّان، رَقّہ، تَلّمَوْزِن اور آمِد کی امارت پر منصوب کیا اور خالد ایک سال تک وہاں رہا۔[63]ایک اور روایت کے مطابق قنسرین کا حاکم ابوعبیدہ نے اس عرصے میں روم کے باڈر ایریا کی شہروں پر مختلف حملے کیا اور ایشیائے صغیر سے بہت ساری غنیمت حاصل کیا۔ ان غنایم سے خالد کی بذل و بخشش خاص کر خطیر رقم جو اَشعَث بن قَیس کو دیا تھا اس کی خبر جب عمرؓ تک پہنچی تو بڑا غصہ ہوا اور ابوعبیدہ کو خالد عزل کرنے اور تحقیق کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد خلیفہ نے خالد کی نصف جائیداد کو ضبط کیا۔[64]

حکومت سے برطرفی

ابوعبیدہ کی جانب سے تحقیقات کے بعد ابوعبیدہ اسے برطرف کرنے کی خبر سنانے میں لیت و لعل سے کام لے رہا تھا اور قنسرین واپس لوٹا و آخر کار خلیفہ نے خود ہی خالد کو عزل کر کے انہیں مدینہ بلایا۔[65]

خالد نے مدینہ میں اصحاب کے پاس جاکر عمرؓ کی شکایت کی پھر عمر کے پاس گیا اور مال کہاں سے جمع کیا تھا اس کی وضاحت دینے کے بعد بیس ہزار درہم یا مال کا نصف حصہ واپس کر کے خلیفہ نے اس کی دلجوئی کی۔[66]اور پھر خالد کو عزل کرنے کے علل و اسباب لوگوں کو بیان کیا۔[67]

وفات

ایک روایت میں آیا ہے کہ خالد استعفی دینے یا برطرف ہونے کے بعد مدینہ چلا گیا اور اس کے کچھ عرصے بعد بیمار ہوا اور وہیں پر وفات پایااور خلیفہ نے اس کے جنازے میں شرکت کی۔[68]ایک اور مشہور روایت کے مطابق خالد برطرف ہونے کے بعد عمرہ انجام دیا۔ پھر حِمْص میں گوشہ نشین زندگی کی۔ اس نے عمر کو اپنا وصی بنایا اور مشہور قول کے مطابق 21ھ کو یا 22ھ کو وہاں پر وفات پایا۔[69]اور شہرِ حِمْص کے اطراف میں دفن ہوا۔[70]ان کی عمر 60 سال تھی۔[71]

ان سے گھوڑا، اسلحہ اور غلام ارث میں باقی رہے۔[72]مرتے وقت وہ کہہ رہا تھا کہ سو جنگوں میں شرکت کی ہے اور بدن کا کوئی ایسا حصہ باقی نہیں تھا جہاں پر زخم کے نشان نہ ہوں۔[73]بنی مخزوم کی عورتوں نے اس کی وفات پر گریہ کیا اور غم میں اپنے گیسوں کو کاٹ کر اس کی قبر پر رکھ دیا۔[74]

مسجد خالد بن ولید 9 گنبد اور 2 میناروں کی وجہ سے بہت مشہور تھی لیکن سوریہ میں حالیہ جنگ کی وجہ سے اس مقبرے کو بھی تکفیری گروہ نے اس کے بعض حصوں کو مسمار کردیا۔[75]

خصوصیات

سوریہ، حمص شہر کی مسجد خالد بن ولید میں خالد کا مقبرہ

بعض تاریخ نگاروں نے خالد بن ولید کو ایک بہادر کمانڈر، عاقل، مہربان، مدبر، باوقار اور خوش سلیقہ قرار دیا ہے لیکن اسے کے باوجود کہا گیا ہے کہ جہاد کی وجہ سے قرآن حفظ نہیں کر سکا ہے۔[76] اس کے باوجود کہا گیا ہے کہ خلیفہ اول کے لیے علیؑ سے بیعت لیتے وقت خالد بھی انہی لوگوں میں شامل تھا۔[77]

علیؑ سے دشمنی

شیعہ کتابوں میں منقول بعض روایات کے مطابق خالد امام علیؑ کے خلاف مخفیانہ ہونے والی تحریکوں میں شرکت تھا اور آپؑ کے قتل کی سازش کرنے والوں میں بھی شامل تھا اور اسی وجہ سے اور بعض دیگر موارد کی وجہ سے ان کی ملامت ہوئی ہے۔[78]

احادیث کا راوی

خالد نے حضور پاکؐ سے بعض روایات نقل کی ہے۔[79] عبداللّہ بن عباس، مِقدام بن مَعدی کَرَب اور مالک بن حارث الاشتر نے خالد سے روایت نقل کی ہے۔[80]

خالد کی نسل

شام میں خالد کی بہت اولاد تھی ان میں سے مہاجر، عبداللّہ، سلیمان، و عبدالرحمان شام میں طاعون کی بیماری آنے سے مرگئے اور بعض روایات کے مطابق طاعون سے اس کے چالیس بچے مرگئے ہیں اور اس کی نسل ختم ہوگئی۔[81]لیکن بعض معاصر مورخین کا کہنا ہے کہ خالد کی بہت ساری نسل باقی ہے۔[82]

حوالہ جات

  1. ابن سعد، ج ۷، ص۳۹۴؛ مصعب بن عبداللّہ، ص۳۲۰؛ ابن عبدالبرّ، ج ۲، ص۴۲۷
  2. ابنعبدالبرّ، ہمانجا
  3. شلبی، ص۲۰ـ۲۴
  4. ابوالفرج اصفہانی، ج ۱۶، ص۱۹۴
  5. ابن سعد، ہمانجا؛ مصعب بن عبداللّہ، ص۳۲۲؛ خلیفۃبن خیاط، ۱۴۱۴، ص۵۱؛ ابن عساکر، ج ۱۶، ص۲۲۰
  6. ابن ہشام، ج ۱، ص۲۰۹
  7. ابن قدامہ، ص۳۵۵؛ شلبی، ص۲۶
  8. ابن قتیبہ، ۱۹۶۰، ص۲۶۷
  9. ابن حبیب، ۱۳۸۴، ص۵۲۸؛ ابن عبدربّہ، ج ۳، ص۲۷۸؛ ابن عبدالبرّ، وہی ماخذ
  10. ابن سعد، ہمانجا؛ قس ابن قتیبہ، ہمانجا، کہ منکر شرکت خالد در این جنگ شدہ است
  11. ۱۹۶۶، ج ۱، ص۱۳۰
  12. مراجعہ کریں: ابن اسحاق، ص۳۰۵؛ واقدی، ۱۹۶۶، ج ۱، ص۲۲۰، ۲۲۹، ۲۳۲، ۲۷۵، ۲۸۳؛ ابن ہشام، ج ۳، ص۷۰، ۹۱؛ قس ابن قتیبہ، وہی مآخذ
  13. واقدی، ۱۹۶۶، ج ۲، ص۴۶۵ـ۴۶۶، ۴۷۰، ۴۷۲ـ۴۷۳، ۴۹۰؛ قس ابن قتیبہ، وہی مآخذ
  14. واقدی، ۱۹۶۶، ج ۲، ص۵۷۹ـ۵۸۲؛ ابن ہشام، ج ۳، ص۳۲۲ـ۳۲۳
  15. واقدی، ۱۹۶۶، ج ۲، ص۷۴۶؛ مصعببن عبداللّہ، ص۳۲۴
  16. مراجعہ کریں: خلیفۃبن خیاط، ۱۴۱۵، ص۴۰؛ ابن عبدالبرّ، ہمانجا؛ ابن اثیر، ج ۲، ص۱۰۹
  17. ابن حجر عسقلانی، ۱۴۱۲، ج ۲، ص۲۵۱
  18. واقدی، ۱۹۶۶، ج ۲، ص۶۶۱؛ ابن ہشام، ج ۳، ص۲۹۰ـ۲۹۱؛ ابن سعد، ج ۴، ص۲۵۲
  19. واقدی، ۱۹۶۶، ج ۲، ص۷۶۱ـ۷۶۵؛ ابن ہشام، ج ۴، ص۱۹ـ۲۲، ۲۵
  20. ابن سعد، ج ۴، ص۲۵۳؛ قس ابن اثیر، ج ۲، ص: ۱۱۰ ہفت شمشیر
  21. ابن سعد، ج ۷، ص۳۹۵؛ مصعب بن عبداللّہ، ص۳۲۰؛ بخاری، ج ۳، جزء۲، قسم ۱، ص۱۳۶
  22. واقدی، ۱۹۶۶، ج ۲، ص۸۱۹، ۸۲۵ ـ۸۲۶، ۸۳۸ ـ ۸۳۹؛ ابن ہشام، ج ۴، ص۴۹ـ ۵۰
  23. ازرقی، ج ۱، ص۲۶۷
  24. ابن کلبی، ص۲۴ـ۲۷؛ واقدی، ۱۹۶۶، ج ۱، ص۶، قس ج ۳، ص۸۷۳ ـ ۸۷۴؛ ابن ہشام، ج ۴، ص۷۹
  25. واقدی، ۱۹۶۶، ج ۳، ص۸۷۵ـ۸۸۲؛ ابن ہشام، ج ۴، ص۷۰ـ۷۴؛ ابن حبیب، ۱۳۸۴، ص۲۴۸، ۲۵۲، ۲۵۹ـ۲۶۰
  26. ابن ہشام، ج ۴، ص۱۰۰؛ ابوالفرج اصفہانی، ج ۱۶، ص۱۹۵
  27. واقدی، ۱۹۶۶، ج ۳، ص۹۲۳
  28. واقدی، ۱۹۶۶، ج ۳، ص۱۰۲۵ـ ۱۰۳۰؛ ابن ہشام، ج ۴، ص۱۶۹ـ۱۷۰
  29. واقدی، ۱۹۶۶، ج ۳، ص۸۸۳ ـ ۸۸۴؛ ابن ہشام، ج ۴، ص۲۳۹ـ۲۴۰؛ طبری، ج ۳، ص۱۲۶ـ ۱۲۸
  30. طبری، ج ۳، ص۱۳۱ـ۱۳۲؛ قس ابن ہشام، ج ۴، ص۲۹۰ـ۲۹۱
  31. ۱۹۶۶، ج ۳، ص۸۸۴
  32. زبیربن بکّار، ص۵۸۱
  33. مصعب بن عبداللّہ، ص۳۲۰
  34. واقدی، ۱۹۹۰، ص۶۹ـ۷۰؛ طبری، ج ۳، ص۲۴۹، ۲۵۳ـ۲۵۵
  35. یعقوبی، ج ۲، ص۱۳۷
  36. رجوع کنید بہ واقدی، ۱۹۹۰، ص۸۱ ـ۹۴
  37. واقدی، ۱۹۹۰، ص۱۰۳ـ۱۰۷؛ خلیفۃبن خیاط، ۱۴۱۵، ص۵۳؛ طبری، ج ۳، ص۲۷۶ـ۲۷۸
  38. ہیکل، ص۱۵۳ـ۱۶۳؛ عقاد، ص۷۸ـ۸۰
  39. ابن سلام جمحی، سفر۱، ص۲۰۴، ۲۰۸؛ خلیفۃبن خیاط، ۱۴۱۵، ص۵۳ـ۵۴؛ یعقوبی، ج ۲، ص۱۳۹؛ طبری، ج ۳، ص۲۷۸ـ۲۸۰؛ خالد کی یہ حرکت اور خلیفہ کا دفاع کے نقد کے لیے مراجعہ کریں: شرف الدین، ج ۲، ص۹۹ـ۱۱۹
  40. واقدی، ۱۹۹۰، ص۱۱۲ـ۱۴۶
  41. بلاذری، ۱۴۱۳، ص۹۰
  42. یعقوبی، ج ۲، ص۱۳۱؛ ابناعثم کوفی، ج ۱، ص۳۶ـ۳۷
  43. واقدی، ۱۹۹۰، ص۲۱۸ـ۲۲۱
  44. ان اختلافات اور مختلف نظریات سے آشنائی کے لیے مراجعہ کریں: ہاشمی، ۱۳۷۳، ص۵۷ ـ۹۰؛ ہمو، ۱۳۷۴، ص۲۳۱ـ ۲۶۹؛ ہمو، ۱۳۷۵، ص۴۶ـ۸۳
  45. طبری، ج ۳، ص۳۵۱ـ۳۵۸؛ خالد کی فتوحات کے بارے میں دیگر روایت کے لیے مراجعہ کریں:ابویوسف، ص۲۸، ۱۴۲؛ خلیفۃبن خیاط، ۱۴۱۵، ص۶۱ـ۶۲، ۶۹؛ بلاذری، ۱۴۱۳، ص۲۴۱ـ۲۴۲، ۳۴۰
  46. مراجعہ کریں:ابویوسف، ص۲۸، ۱۴۲ـ۱۴۷؛ ابن آدم، ص۵۲؛ بلاذری، ۱۴۱۳، ص۲۴۳ـ ۲۴۸؛ دینوری، ص۱۱۱ـ۱۱۲؛ طبری، ج ۳، ص۳۴۳ـ ۳۴۶، ۳۷۶ـ۳۸۴
  47. طبری، ج ۳، ص۳۸۴
  48. ازدی، ص۶۸ـ۶۹؛ بسوی، ج ۳، ص۲۹۱ـ۲۹۲؛ طبری، ج ۳، ص۳۸۴، ۳۹۳، ۴۱۵؛ قس ابوزرعہ دمشقی، ج ۱، ص۱۷۲ـ۱۷۳
  49. بلاذری، ۱۴۱۳، ص: ۱۱۰ ؛ 800، 600 یا 500 سپاہی؛ ابوزرعہ دمشقی، ج ۱، ص: ۱۷۲ سہ ہزار تن؛ طبری، ج ۳، ص: ۴۰۸ نصف کے قریب سپاہیوں کے ساتھ
  50. ہاشمی، شوال ۱۳۷۱، ص۳۹۴ـ۴۰۷؛ ہمو، محرّم ۱۳۷۲، ص۵۴۲ـ۵۵۸؛ ہمو، ربیع الآخر ۱۳۷۲، ص۴۵ـ۶۰؛ ہمو، رجب ۱۳۷۲، ص۲۲۸ـ۲۴۱
  51. ابن حبیب، ۱۳۶۱، ص۱۹۰؛ بلاذری، ۱۴۱۳، ص۱۱۰، ۲۵۰؛ یعقوبی، ج ۲، ص۱۳۳ـ۱۳۴؛ طبری، ج ۳، ص۴۰۶ـ ۴۰۹، ۴۱۵ـ۴۱۷
  52. ازدی، ص۸۱ـ۸۲؛ بلاذری، ۱۴۱۳، ص۱۱۱ـ۱۱۳؛ طبری، ج ۳، ص۴۰۷، ۴۱۷؛ ابناعثم کوفی، ج ۱، ص۱۱۲ـ۱۱۳
  53. باشمی، ص۱۳۲ـ۱۴۶
  54. ازدی، ص۸۴ـ۹۳؛ بلاذری، ۱۴۱۳، ص۱۱۳ـ ۱۱۴؛ طبری، ج ۳، ص۴۱۷ـ۴۱۹؛ ہاشمی، ۱۳۷۱، ص۶۹ـ ۱۰۲
  55. بلاذری، ۱۴۱۳، ص۱۳۵ـ ۱۳۷؛ یعقوبی، ج ۲، ص۱۴۱؛ طبری، ج ۳، ص۴۴۱؛ ابن اعثم کوفی، ج ۱، ص۲۰۷
  56. یعقوبی، ج ۲، ص۱۳۹ـ۱۴۰؛ طبری، ج ۳، ص۴۳۵ـ۴۳۶، ۴۴۱
  57. بلاذری، ۱۴۱۳، ص۱۱۸ـ۱۲۱؛ ابن اعثم کوفی، ج ۱، ص۱۱۸ـ۱۱۹؛ قدامۃبن جعفر، ص۲۹۱ـ۲۹۳
  58. ازدی، ص۱۰۴ـ۱۰۵؛ خلیفۃبن خیاط، ۱۴۱۵، ص۶۷ـ۶۸؛ ابن قتیبہ، ۱۹۶۰، ص۱۸۲؛ بلاذری، ۱۴۱۳، ص۱۲۰ـ۱۲۴
  59. خلیفۃبن خیاط، ۱۴۱۵، ہمانجا؛ بسوی، ج ۳، ص۲۹۶؛ ابوزرعہ دمشقی، ج ۱، ص۱۷۱؛ طبری، ج ۳، ص۴۳۴ـ۴۳۵، ۴۴۱ـ۴۴۳
  60. ازدی، ص۱۴۴ـ۱۴۵؛ خلیفۃبن خیاط، ۱۴۱۵، ص۶۸، ۷۰؛ قس بلاذری، ۱۴۱۳، ص۱۲۹ـ۱۳۱
  61. طبری، ج ۳، ص۶۰۱
  62. خلیفۃبن خیاط، ۱۴۱۵، ص۷۷؛ ہمو، ۱۴۱۴، ص۵۸۳
  63. یعقوبی، ج ۲، ص۱۵۷
  64. طبری، ج ۴، ص۶۶ـ۶۷؛ قس یعقوبی، ج ۲، ص۱۵۷: خالد استعفا کرد و بہ مدینہ بازگشت
  65. ابن عساکر، ج ۱۶، ص۲۶۶ـ۲۶۸؛ صفدی، ج ۱۳، ص۲۶۷
  66. طبری، ج ۳، ص۴۳۷، ج ۴، ص۶۸؛ ابن عساکر، ج ۱۶، ص۲۶۶؛ ابن کثیر، ج ۴، جزء۷، ص۱۱۸
  67. مصعب بن عبداللّہ، ص۳۲۱؛ ابن عساکر، ج ۱۶، ص۲۶۸، ۲۷۴ـ۲۷۵؛ ابن حجر عسقلانی، ۱۴۱۲، ج ۲، ص۲۵۶
  68. یعقوبی، ج ۲، ص۱۵۷؛ ابن عساکر، ج ۱۶، ص۲۷۰؛ ذہبی، ۱۴۰۱ـ۱۴۰۹، ج ۱، ص۳۸۱
  69. ابن سعد، ج ۷، ص۳۹۷؛ بلاذری، ۱۴۱۳، ص۱۷۲ـ۱۷۳؛ طبری، ج ۴، ص۱۴۴، ۱۶۰؛ ابن کثیر، ج ۴، جزء۷، ص۱۲۰
  70. ابن سعد، ہمانجا؛ بلاذری، ۱۹۹۶ـ۲۰۰۰، ج ۸، ص۳۲۰؛ ہروی، ص۸ـ۹؛ ذہبی، ۱۴۰۱ـ۱۴۰۹، ج ۱، ص۳۶۷
  71. ذہبی، ۱۴۰۱ـ۱۴۰۹، ہمانجا؛ ہمو، ۱۴۱۷، حوادث ۱۱ـ۴۰ہ.، ص۲۳۲
  72. ابن سعد، ج ۷، ص۳۹۷ـ۳۹۸؛ ابن عساکر، ج ۱۶، ص۲۷۶ـ ۲۷۷
  73. واقدی، ۱۹۶۶، ج ۳، ص۸۸۴؛ ابن قتیبہ، ۱۹۸۵، ج ۱، جزء۱، ص۲۵۷؛ ابن قدامہ، ص۳۴۶
  74. ابوالفرج اصفہانی، ج ۱۶، ص۱۹۶
  75. مسجدخالدبن‌ولید سوریہ کے دہشتگردوں سے آزاد ہونے کے بعد؛دہشتگردوں نے خالد بن ولید کے مقبرہ کو ویران کر دیا۔خالد بن ولید کی ویران شدہ قبر حمص میں دہشتگردوں کا تحفہ
  76. ازدی، ص۹۶، ۹۹؛ مصعب بن عبداللّہ، ص۳۲۰؛ ابن عساکر، ج ۱۶، ص۲۵۰؛ ذہبی، ۱۴۱۷، ہمانجا
  77. سُلیم بن قیس ہلالی، ص۳۸۶ـ ۳۸۷؛ نیز مراجعہ کریں:ابن ابی الحدید، ج ۲، ص۵۷
  78. مراجعہ کریں: سلیم بن قیس ہلالی، ص۳۹۴؛ ابن شاذان، ص۱۵۵ـ۱۵۸؛ ابن بابویہ، ج ۱، ص۱۹۱ـ۱۹۲؛ کشی، ج ۲، ص۶۹۵
  79. ابن حنبل، ج ۴، ص۸۸ـ۸۹؛ بسوی، ج ۱، ص۳۱۲؛ ابن عساکر، ج ۱۶، ص۲۱۶ـ۲۱۹؛ ابن حجر عسقلانی، ۱۴۱۴، ج ۲، ص۲۹۵ـ۲۹۸
  80. ابن ابی حاتم، ج ۳، ص۳۵۶؛ ابن عساکر، ج ۱۶، ص۲۱۶
  81. مصعب بن عبداللّہ، ص۳۲۴ـ۳۲۵، ۳۲۷ـ۳۲۸؛ ابن قتیبہ، ۱۹۶۰، ص۲۶۷؛ ابن حزم، ص۱۴۷ـ۱۴۸
  82. خالدی، ص۹؛ محمدسلیمان طیب، ج ۶، ص۴۴۶ بہ بعد

مآخذ

  • ابن آدم، کتاب الخراج، چاپ احمد محمدشاکر، بیروت؟ (۱۳۴۷)، در موسوعۃالخراج، بیروت: دارالمعرفۃ، ۱۳۹۹/۱۹۷۹.
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ ۱۳۸۵ـ۱۳۸۷/ ۱۹۶۵ـ۱۹۶۷، چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • ابن ابی حاتم، کتاب الجرح و التعدیل، حیدرآباد، دکن ۱۳۷۱ـ۱۳۷۳/ ۱۹۵۲ـ۱۹۵۳، چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • ابن اثیر، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، چاپ محمد ابراہیم بنا و محمد احمد عاشور، قاہرہ ۱۹۷۰ـ۱۹۷۳.
  • ابن اسحاق، سیرۃ ابن اسحاق، چاپ محمد حمیداللّہ، قونیہ ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
  • ابن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۱۴/۱۹۹۱.
  • ابن بابویہ، علل الشرایع، چاپ افست قم، بی‌تا.
  • ابن حبیب، کتاب المُحَبَّر، چاپ ایلزہ لیشتن اشت‌تر، حیدرآباد، دکن ۱۳۶۱/۱۹۴۲، چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • ہمو، کتاب المُنَمَّق فی اخبار قریش، چاپ خورشید احمد فارق، حیدرآباد، دکن ۱۳۸۴/۱۹۶۴.
  • ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
  • ہمو، اطراف مسند الامام احمدبن حنبل، چاپ زہیر ناصر، دمشق ۱۴۱۴/۱۹۹۳.
  • ابن حزم، جمہرۃ انساب العرب، چاپ عبدالسلام محمد ہارون، قاہرہ (۱۹۸۲).
  • ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، (قاہرہ) ۱۳۱۳، چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • ابن سعد، الطبقات‌الكبرى، چاپ احسان عباس، بيروت ۱۴۰۵/ ۱۹۸۵.
  • ابن سلام جمحی، طبقات فحول الشعراء، چاپ محمود محمد شاکر، جدہ، (۱۴۰۰/ ۱۹۸۰).
  • ابن شاذان، الایضاح، چاپ جلال الدین محدث ارموی، تہران ۱۳۶۳ش.
  • ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
  • ابن عبدربّہ، العقد الفرید، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۰۸ـ۱۴۱۱/ ۱۹۸۸ـ۱۹۹۰.
  • ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۵ـ۱۴۲۱/ ۱۹۹۵ـ۲۰۰۱.
  • ابن قتیبہ، عیون الاخبار، چاپ یوسفعلی طویل و مفید محمد قمیحہ، بیروت (۱۹۸۵).
  • ہمو، المعارف، چاپ ثروت عکاشہ، قاہرہ ۱۹۶۰.
  • ابن قدامہ، التبیین فی انساب القرشیین، چاپ محمدنایف دلیمی، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸؛
  • ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج ۴، چاپ احمد ابوملحم و دیگران، بیروت، بی‌تا.
  • ابن کلبی، کتاب الاصنام، چاپ احمد زکی پاشا، قاہرہ ۱۳۳۲/۱۹۱۴.
  • ابن ہشام، السیرۃالنبویۃ، چاپ مصطفی سقا، ابراہیم ابیاری، و عبدالحفیظ شلبی، قاہرہ ۱۳۵۵/۱۹۳۶.
  • ابوالفرج اصفہانی، كتاب‌الاغانى، قاہرہ ۱۳۸۳، چاپ افست بيروت [بى‌تا.].
  • ابوزرعہ دمشقی، تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی، چاپ شکراللّہ قوجانی، دمشق، بی‌تا.
  • ابویوسف، کتاب الخراج، بیروت ۱۳۹۹/۱۹۷۹.
  • محمدبن عبداللّہ ازدی، تاریخ فتوح الشام، چاپ عبدالمنعم عبداللّہ عامر، قاہرہ ۱۹۷۰.
  • محمدبن عبداللّہ ازرقی، اخبار مکۃ و ماجاء فیہا من الآثار، چاپ رشدی صالح ملحس، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳؛ چاپ افست قم ۱۳۶۹ش.
  • محمداحمد باشمیل، حروب الاسلام فی الشام، بیروت ۱۴۰۴/۱۹۸۴.
  • محمدبن اسماعیل بخاری، کتاب التاریخ الکبیر، (بیروت ۱۴۰۷/ ۱۹۸۶).
  • یعقوب بن سفیان بسوی، کتاب المعرفۃ والتاریخ، چاپ اکرم ضیاء عمری، بغداد ۱۳۹۴ـ۱۳۹۶/ ۱۹۷۴ـ۱۹۷۶.
  • احمدبن یحیی بلاذری، انساب الاشراف، چاپ محمود فردوسعظم، دمشق ۱۹۹۶ـ ۲۰۰۰؛
  • ہمو، کتاب فتوح البلدان، چاپ دخویہ، لیدن ۱۸۶۶، چاپ افست فرانکفورت ۱۴۱۳/ ۱۹۹۲.
  • زہیر صادق رضا خالدی، بنوخالد فی العراق و الوطن العربی، بغداد ۱۹۸۸.
  • خلیفۃبن خیاط، تاریخ خلیفۃبن خیاط، چاپ مصطفی نجیب فوّاز و حکمت کشلی فوّاز، بیروت ۱۴۱۵/ ۱۹۹۵.
  • ہمو، کتاب الطبقات، روایۃ موسی بن زکریا تستری، چاپ سہیل زکار، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۳.
  • احمدبن داوود دینوری، الاخبار الطِّوال، چاپ عبدالمنعم عامر، قاہرہ ۱۹۶۰، چاپ افست قم ۱۳۶۸ش.
  • محمدبن احمد ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، حوادث و وفیات ۱۱ـ۴۰ہ.، بیروت ۱۴۱۷/۱۹۹۷.
  • ہمو، سیر اعلام النبلاء، چاپ شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت ۱۴۰۱ـ۱۴۰۹/ ۱۹۸۱ـ۱۹۸۸.
  • زبیربن بکّار، الاخبار الموفقیات، چاپ سامی مکی عانی، بغداد ۱۹۷۲.
  • سلیم بن قیس ہلالی، کتاب سُلیم بن قیس الہلالی، چاپ محمدباقر انصاری زنجانی، بیروت ۱۴۲۶/ ۲۰۰۵.
  • عبدالحسین شرف الدین، موسوعۃ الامام السید عبدالحسین شرف الدین، بیروت ۱۴۲۷/ ۲۰۰۶.
  • ابوزید شلبی، تاریخ سیف اللّہ خالدبن الولید البطل الفاتح، قاہرہ ۱۳۵۲/ ۱۹۳۳.
  • صفدی، خليل‌بن ايبك، كتاب‌الوافى بالوفيات، ويسبادن ۱۹۶۲ـ۲۰۰۹.
  • طبری، محمدبن جرير، تاريخ‌الطبرى: تاريخ‌الامم والملوك، چاپ محمد ابوالفضل ابراہيم، بيروت ۱۳۸۲ـ۱۳۸۷/۱۹۶۲ـ ۱۹۶۷.
  • عباس محمود عقاد، عبقریۃ خالد، قاہرہ ۲۰۰۵.
  • قدامۃبن جعفر، الخراج و صناعۃالکتابۃ، چاپ محمدحسین زبیدی، بغداد ۱۹۸۱.
  • محمدبن عمر کشی، اختیار معرفۃ الرجال، المعروف برجال الکشی، (تلخیص) محمدبن حسن طوسی، تصحیح و تعلیق محمدباقربن محمد میرداماد، چاپ مہدی رجائی، قم ۱۴۰۴.
  • محمد سلیمان طیب، موسوعۃ القبائل العربیۃ، قاہرہ ۱۴۲۱/ ۲۰۰۱.
  • مصعببن عبداللّہ، کتاب نسب قریش، چاپ لوی پرووانسال، قاہرہ ۱۹۵۳.
  • محمدبن عمر واقدی، کتاب الردۃ، روایۃ احمدبن محمدبن اعثم کوفی، چاپ یحیی جبوری، بیروت ۱۴۱۰/ ۱۹۹۰.
  • ہمو، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن ۱۹۶۶.
  • طہ ہاشمی، «خالدبن الولید فی العراق»، مجلۃ المجمع العلمی العراقی، ج ۳،ش ۱ (۱۳۷۳)،ش ۲ (۱۳۷۴)، ج ۴،ش ۱ (۱۳۷۵).
  • ہمو، «سفر خالدبن الولید من العراق الی الشام»، مجلۃالمجمع العلمی العربی، ج ۲۷،ش ۳ (شوال ۱۳۷۱)،ش ۴ (محرّم ۱۳۷۲)، ج ۲۸،ش ۱ (ربیع الآخر ۱۳۷۲)،ش ۲ (رجب ۱۳۷۲).
  • ہمو، «معرکۃ اجنادین»، مجلۃ المجمع العلمی العراقی، ج ۲،ش ۲ (۱۳۷۱).
  • علی بن ابی بکر ہروی، ہکتاب الاشارات الی معرفۃ الزیارات، چاپ ژانین سوردل ـ تومین، دمشق ۱۹۵۳.
  • محمدحسین ہیکل، الصدیق ابوبکر، (قاہرہ) ۱۳۶۲.
  • یعقوبی، احمدبن‌اسحاق، تاريخ اليعقوبى، بيروت: دارصادر، [بى‌تا.]، چاپ افست قم [بى‌تا.].

بیرونی روابط