خالد بن ولید مخزومی صدر اسلام کے جنگی افسروں میں سے ایک تھا جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل بدر، احد اور احزاب کی جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف حصہ لیا اور فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد، اس نے جنگ موتہ، فتح مکہ، اور جنگ حنین میں حصہ لیا۔

خالد بن ولید
کوائف
مکمل نامخالد بن ولید بن مُغیرۃبن عبداللّہ بن عمر(عُمَیر) بن مَخزوم قرشی مخزومی
لقبسیف اللہ المسلول
محل زندگیمکہ، مدینہ
مہاجر/انصارانصار
وفات21 یا 22ھ شام
مدفنحمص
دینی معلومات
اسلام لانا1 صفر 8 ھ، فتح مکہ سے پہلے
جنگوں میں شرکتجنگ بدر، احد اور احزاب میں اسلام کے خلاف؛ اسلام لانے کے بعد: جنگ موتہ، فتح مکہ، جنگ حنین؛ خلفا کے دور میں: ردّہ کی جنگیں، ایران سے جنگ اور فتح شام
دیگر فعالیتیںبنو جذیمہ کے متعدد افراد کا اسلام قبول کرنے کے بعد قتل؛ دُومَۃُ الْجَنْدَل کے عیسائی حکمران أُکَیدِر بن عبدالملک کو شکست دینا اور امام علیؑ کے خلاف خفیہ اقدامات

خالد بن ولید کے بارے میں سب سے مشہور واقعہ صحابی رسول مالک بن نویرہ کے ساتھ ان کا سلوک ہے۔ اس واقعہ میں، اگرچہ مالک بن نویرہ اور اس کا قبیلہ بنو تمیم مسلمان تھے، لیکن خالد نے انہیں گرفتار کیا اور پھر مالک بن نویرہ اور اس کے قبیلے کے افراد کو قتل کرنے کا حکم دیا، اور اسی رات اس نے مالک بن نویرہ کی بیوی کے ساتھ ہمبستری کیا۔ عمر بن خطاب خالد کو مالک کے قتل کے بدلے قصاص اور اس کی بیوی سے ہمبستری کے جرم میں سنگسار کا مستحق سمجھتے تھے۔ لیکن ابوبکر کا موقف تھا کہ خالد نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا ہے اور اس لئے وہ معذور ہے۔

کہا جاتا ہے کہ خالد امام علیؑ کے دشمنوں میں سے تھا اور آپ کے قتل کی کوششوں میں کردار ادا کیا تھا۔

سوانح اور مقام

خالد بن ولید قریش کے قبیلہ بنو مخزوم سے تھا۔[1] بنو مخزوم قریش کا ایک بڑا اور اہم قبیلہ تھا س کی بنو ہاشم سے رقابت رہتی تھی۔[2] مورخین کے اندازوں اور وفات کے وقت ان کی عمر کے مطابق خالد، رسول اللہؐ کی بعثت سے 26 سال پہلے مکہ میں پیدا ہوا ہے۔ ان کے باپ ولید بن مغیرہ کا شمار قریش کے بزرگوں اور اشراف میں ہوتا تھا۔[3]

اسلام سے پہلے خالد کا شمار قبیلہ کے بزرگوں اور قریش کا جنگجوؤں میں ہوتا تھا۔[4] ہجرت کے دوسرے سال مسلمانوں کے خلاف جنگ بدر میں شریک ہوئے[5] اور واقدی کے مطابق اسی جنگ میں گرفتار ہو گئے۔[6] تین ہجری کو جنگ احد میں قریش کے سپہ سالاروں میں شمار ہوتا تھا اور مسلمانوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوا[7] اور ہجرت کے پانچویں سال غزوۂ خندق یا احزاب میں بھی شریک ہوئے۔[8]

خالد بن ولید نے بالآخر اسلام قبول کر لیا۔ اس کے اسلام قبول کرنے کی تاریخ کے بارے میں آراء مختلف ہیں؛ تاہم مشہور نظریہ یہ ہے کہ اس نے فتح مکہ سے پہلے یکم صفر سنہ 8 ہجری کو اسلام قبول کیا۔[9] بعض دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نے پانچ ہجری کو جنگ بنو قریظہ کے بعد یا صلح حدیبیہ (ذی القعدہ، چھ ہجری) اور فتح خیبر (محرم، سات ہجری) کے درمیانی عرصے میں[10] یا سات ہجری کو جنگ خیبر کے بعد اسلام قبول کیا۔[11]

امام علی سے دشمنی

اہل سنت مورخین کے ایک گروہ نے خالد بن ولید کو ایک بہادر، ذہین، مہربان، تدبیر والا، باوقار اور پر امید کمانڈر سمجھا ہے؛[12] البتہ سلیم بن قیس کی کتاب میں لکھا ہے کہ خالد نے خلیفہ اول کے لیے امام علیؑ سے زبردستی بیعت لینے کے واقعہ میں حصہ لیا۔[13] شیعہ منابع میں یہ بھی منقول ہے کہ خالد امام علیؑ کے خلاف بعض خفیہ کارروائیوں میں ملوث تھا اور آپؑ کے قتل کی سازش میں بھی شریک تھا۔ اسی وجہ سے اور ان کے دیگر اقدامات کی وجہ سے ان پر شدید تنقید کی جاتی تھی۔[14]

حدیث کے راوی

خالد نے رسول اللہؐ سے بعض احادیث روایت کی ہیں۔[15] عبداللہ بن عباس، مِقدام بن مَعدی کَرَب اور مالک بن حارث الاشتر نے ان سے روایت کی ہے۔[16]

جنگوں میں کردار

اسلام قبول کرنے کے بعد، خالد نے سنہ 8 ہجری کو جنگ موتہ میں شرکت کی اور مسلمان سپہ سالاروں کی شہادت کے بعد فوج کی کمان سنبھالی اور باقی فوج کو مدینہ واپس کر دیا۔[17] 20 رمضان المبارک سنہ 8ھ کو فتح مکہ کے دوران بھی حاضر تھا۔[18] اور ایک گروہ کی سربراہی میں حضور اکرمؐ کے حکم پر قریش کے سب سے بڑے بت العُزَّی کو مسمار کر دیا۔[19]

لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا مشن

رجب سنہ 9 ہجری میں خالد کو رسول اللہؐ نے 420 سواروں کے ساتھ دَوْمَۃُ الْجَنْدَل کے عیسائی حکمران أُکَیدِر بن عبد الملک کے پاس جانے کا حکم دیا۔ مختصر لڑائی کے بعد خالد نے اسے گرفتار کر لیا اور پھر اس سے صلح کر لی۔[20] دسویں ہجری کو بھی رسول اللہؐ نے خالد کو 400 افراد کے ساتھ نجران میں بنی حارث کی طرف بھیجا اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔[21]

اسی سال پیغمبر اکرمؐ نے خالد کو یمن بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو بھی اسلام کی دعوت دیں۔ اس نے چھ مہینے یمن میں لوگوں کو دعوت دینے میں گزارے؛ لیکن کسی نے بھی ان کی دعوت کا مثبت جواب نہیں دیا اور اس کے نتیجے میں پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کو یمن بھیجا اور انہیں خالد کو واپس بھیجنے کا حکم دیا۔[22]

بے گناہوں کے قتل میں لاپرواہی اور بے باکی

خالد بن ولید نے کئی مواقع پر بے گناہ لوگوں کو قتل کیا اور نبی اکرمؐ نے ان کے اس عمل کو ناپسند کیا یا انہیں بچوں، عورتوں اور غلاموں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ آٹھ ہجری کے شوال کے اوائل میں، رسول اللہؐ نے خالد بن ولید کو مہاجرین، انصار اور بنی سُلَیم کے 350 افراد کے ایک گروہ کی سربراہی میں مکہ کے باہر بنی جَذیمہ کے پاس بھیجا تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ اگرچہ بنو جذیمہ نے خود کو مسلمان قرار دیا اور ہتھیار ڈال دیے، لیکن خالد نے ان میں سے بعض کے سر قلم کرنے کا حکم دیا۔ جب پیغمبر کو اطلاع ملی تو خالد کے اس عمل کی مذمت کی اور انہوں نے امام علیؑ کو مقتولین کا خون بہا ادا کرنے کے لئے بھیجا۔ عبد الرحمٰن بن عوف کا خیال تھا کہ خالد کا یہ عمل صرف اپنے چچا فاکۃ بن مغیرہ کے خون کا بدلہ لینا تھا۔[23]

اس کے علاوہ جب آٹھویں ہجری میں مشرک قبیلہ ہوازن سے لڑنے کے لیے مکہ سے جنگ حنین کے لیے روانہ ہوئے تو خالد، بنی سلیم کے گھڑ سواروں کے ساتھ لشکر کے آگے آگے حرکت کر رہا تھا؛ لیکن بعد میں جنگ سے بھاگنے والوں میں شامل ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بعد میں پھر واپس آیا اور جنگ میں حصہ لیا اور زخمی بھی ہوگیا۔ اس جنگ میں ایک عورت سمیت کئی لوگوں کو ہلاک کر دیا؛ پھر نبی اکرمؐ نے بچوں، عورتوں اور غلاموں کو قتل کرنے سے اسے منع فرمایا۔[24]

ابوبکر اور عمر کے دور میں

واقدی کا کہنا ہے کہ خالد حجۃالوداع میں شریک ہوئے[25] اور حضور پاکؐ کی رحلت کے بعد ابوبکر کے حامیوں میں شامل ہوا۔[26] اسی وجہ سے خلیفہ کے پاس خالد کا بڑا مقام تھا اور ہمیشہ ان کی حمایت حاصل تھی۔[27]

ردّہ کی جنگوں میں ابوبکر نے خالد کو حکم دیا کہ پہلے اکناف میں قبیلہ طَی، پھر بُزاخہ میں طُلَیحۃ بن خُوَیلِد اسدی کی طرف اور اس کے بعد بُطاح میں مالک بن نُوَیرہ کی طرف چلا جائے اور اگر وہ دوبارہ سے اسلام قبول نہ کریں تو ان سے لڑیں۔[28] ابوبکر نے بعد میں خالد کو بُزاخہ بھیجنے پر افسوس کا اظہار کیا۔[29] خالد نے ایک سخت لڑائی میں طلیحہ جو نبوت کا مدعی تھا کو شکست دی اور اس کے ساتھیوں کو بھی سرکوب کیا۔[30] پھر مالک بن نویرہ اور اس کے قبیلے کو مسلمان ہونے کے باوجود قتل کیا اور مالک بن نویرہ کی بیوی سے ہمبستری کیا۔[31]

خالد کے اس غیر شرعی کام پر بعض صحابہ نے اعتراض کیا۔[32] عُمَر بن خَطّاب، خالد بن ولید کو مالک کے قتل کے بدلے قصاص کا مستحق اور ان کی بیوی سے ہمبستری کی سزا میں سنگسار کا حقدار سمجھتا تھا۔[33] ان کے مقابلے میں ابوبکر نے یہ کہہ کر نہیں معاف کیا کہ وہ اپنی اجتہاد میں غلطی کر گیا ہے۔[34]

عمر کی خلافت کے آغاز میں (وسط جمادی الآخر، 13 ہجری)، ان کے حکم پر خالد بن ولید کو شامی فوج کی کمان سے برطرف کر دیا گیا اور اس کی کمان ابو عبیدہ جراح کو سونپی گئی۔[35]

 
شام کے شہر حِمْص کی مسجد خالد بن الولید میں خالد کا مقبرہ

سنہ 17 ہجری میں جب عمر شام گئے تو انہوں نے خالد کی دلجوئی کی اور ایک روایت کے مطابق انہیں جزیرے کے بعض شہروں (رُ ہا، حَرّان، رَقّہ، تَلّمَوْزِن و آمِد) کا گورنر مقرر کیا اور خالد ایک سال تک ان علاقوں میں رہے۔[36] ایک اور روایت کے مطابق خالد ابو عبیدہ کی طرف سے قنّسرین کا حکمران تھا اور اس دوران اس نے ایشیائے صغیر میں رومی سرحدی علاقوں پر بہت سے حملے کیے اور بہت زیادہ مال غنیمت حاصل کیا۔ ان غنایم سے خالد کی بذل و بخشش خاص کر خطیر رقم جو اَشعَث بن قَیس کو دیا تھا اس کی خبر جب خلیفہ دوم تک پہنچی تو بڑا غصہ ہوا اور ابوعبیدہ کو خالد عزل کرنے اور اس مال کے بارے میں تحقیق کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد خلیفہ نے خالد کی نصف جائیداد کو ضبط کیا۔[37]

وفات

 
تخریب کے بعد خالد بن ولید کی قبر

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ استعفیٰ دینے یا برطرف ہونے کے بعد خالد مدینہ چلا گیا اور کچھ عرصہ بعد بیمار ہو کر وہیں انتقال کر گئے اور خلیفہ دوم نے ان کے جنازے میں شرکت کی۔[38] ایک اور روایت کے مطابق جو زیادہ مشہور ہے، خالد نے معزول ہونے کے بعد عمرہ کیا۔ پھر حمص میں گوشہ نشینی کی زندگی گزاری۔ اس نے عمر کو اپنا وصی مقرر کیا۔ زیادہ مشہور قول کے مطابق آخر کار سنہ 21ھ میں یا ایک دوسرے قول کے مطابق سنہ 22ھ میں وفات پائی۔[39] اور حمص کے مضافات میں دفن ہوئے۔[40] خالد کی وفات کے وقت اس کی عمر ساٹھ سال تھی۔[41]

حمص میں مسجد خالد بن ولی اپنے نو گنبد اور دو میناروں کی وجہ سے مشہور تھی؛ لیکن سنہ 2011ء کے بعد داعش کے حملوں کے دوران اس پر بھی حملہ کیا گیا اور اس کے کچھ حصوں کو نقصان پہنچا۔[42]

حوالہ جات

  1. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1968ء، ج7، ص394؛ زبیری، نسب قریش، 1953ء، ص320؛ ابن عبدالبرّ، الإستیعاب، 1412ھ، ج2، ص427۔
  2. شلبی، تاریخ سیف اللّہ خالد بن الولید، 1933ء، ص20-24۔
  3. ابوالفرج اصفہانی، كتاب الاغانى، قاہرہ، ج16، ص194۔
  4. ابن عبدربّہ، العقد الفرید، دار الاح‍ی‍اء ال‍ت‍راث ال‍ع‍رب‍ی ، ج3، ص278؛ ابن عبدالبرّ، الإستیعاب، 1412ھ، ج2، ص427۔
  5. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1968ء، ج7، ص394۔
  6. واقدی، المغازی، 1989ء، ج1، ص130۔
  7. ابن اسحاق، سیرہ ابن اسحاق، 1401ھ، ص305؛ واقدی، المغازی، 1989ء، ج1، ص220 و 229 و 232 و 275 و 283؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، 1936ء، ج3، ص70 و 91۔
  8. واقدی، المغازی، 1989ء، ج2، ص465-466 و 470 و 472-473 و 490۔
  9. واقدی، المغازی، 1989ء، ج2، ص661؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، 1936ء، ج3، ص290ـ291؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1968ء، ج4، ص252۔
  10. خلیفۃ بن خیاط، تاریخ، 1415ھ، ص40؛ ابن عبدالبرّ، الإستیعاب، 1412ھ، ج2، ص427؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، 1415ھ، ج2، ص140۔
  11. ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ، 1412ھ، ج2، ص251۔
  12. ازدی، تاریخ فتوح الشام، 1970ء، ص96 و 99؛ زبیری، نسب قریش، 1953ء، ص320؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، ج16، ص250۔
  13. سلیم بن قیس ہلالی، کتاب سلیم، 1426ھ، ص386-387؛ نیز رجوع کنید بہ ابن ابی الحدید، ج2، ص57
  14. سلیم بن قیس ہلالی، کتاب سلیم، 1426ھ، ص394؛ ابن شاذان، الایضاح، 1363شمسی، ص155-158؛ ابن بابویہ، علل الشرائع، بی تا، ج1، ص191ـ192؛ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، 1404ھ، ج2، ص695۔
  15. احمد بن حنبل، مسند، 1313ھ، ج4، ص88-89؛ فسوی، المعرفۃ التاریخ، 1401ھ، ج1، ص312؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، ج16، ص216-219؛ ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ، 1412ھ، ج2، ص295-298۔
  16. ابن ابی حاتم، ج3، ص356؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، ج16، ص216۔
  17. واقدی، المغازی، 1989ء، ج2، ص761-765؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، 1936ء، ج4، ص19-22 و 25۔
  18. واقدی، المغازی، 1989ء، ج2، ص819 و 825-826 و 838-839؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، 1936ء، ج4، ص49-50۔
  19. ابن کلبی، کتاب الاصنام، 1914ء، ص24-27؛ واقدی، المغازی، 1989ء، ج1، ص6؛ ج3، ص873-874؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، 1936ء، ج4، ص79۔
  20. واقدی، المغازی، 1989ء، ج3، ص1025-1030؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، 1936ء، ج4، ص169-170۔
  21. واقدی، المغازی، 1989ء، ج3، ص883-884؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، 1936ء، ج4، ص239-240؛ طبری، تاریخ الأمم، دار التراث، ج3، ص126-128۔
  22. طبری، تاریخ الأمم، دار التراث، ج3، ص131-132؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، 1936ء، ج4، ص290-291۔
  23. واقدی، المغازی، 1989ء، ج3، ص875-882؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، 1936ء، ج4، ص70-74۔
  24. ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، 1936ء، ج4، ص100؛ ابوالفرج اصفہانی، كتاب الاغانى، قاہرہ، ج16، ص195۔
  25. واقدی، المغازی، 1989ء، ج3، ص884۔
  26. زبیر بن بکّار، الأخبار الموفقیات، 1972ء، ص581۔
  27. زبیری، نسب قریش، 1953ء، ص320۔
  28. واقدی، کتاب الردہ، 1990ء، ص69-70؛ طبری، تاریخ الأمم، دار التراث، ج3، ص249 و 253-255۔
  29. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص137۔
  30. واقدی، کتاب الردہ، 1990ء، ص81-94۔
  31. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص131-132۔
  32. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج5، ص159۔
  33. ابی الفداء، تاریخ ابی الفداء، 1417ھ، ج1، ص222۔
  34. ابن کثیر، البدایۃ و النہایہ، 1407ھ، ج6، ص323۔
  35. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص139ـ140؛ طبری، تاریخ الأمم، دار التراث، ج3، ص435-436 و 441۔
  36. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص157۔
  37. طبری، تاریخ الأمم، دار التراث، ج4، ص66-67؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص157۔
  38. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص157؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، ج16، ص270؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1401-1409ھ، ج1، ص381۔
  39. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1968ء، ج7، ص397؛ بلاذری، فتوح البلدان، 1413ھ، ص172-173؛ طبری، تاریخ الأمم، دار التراث، ج4، ص144 و 160؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج4، ص120۔
  40. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1968ء، ج7، ص397؛ بلاذری، أنساب الاشراف، دمشق، ج8، ص320؛ ذہبی، 1401-1409ھ، ج1، ص367
  41. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1401-1409۔
  42. «مزار ویران شدہ خالد بن ولید، یادگار تروریست ہا در حمص + تصاویر»، خبرگزاری ابنا؛ «قبر ویران شدہ خالد بن ولید، یادگار تروریست ہا در حمص»، خبرگزاری تسنیم۔

مآخذ

  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، كتاب الاغانى، قاہرہ، بی نا، 1383ھ۔
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، 1385-1387ھ/ 1965-1967ء۔
  • ابن ابی حاتم، کتاب الجرح و التعدیل، حیدرآباد دکن، 1371-1373ھ/ 1952-1953ء۔
  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، تحقیق علی محمد معوض و عادل احمد عبدالموجود، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • ابن اسحاق، سیرۃ ابن اسحاق، تحقیق محمد حمیداللّہ، قونیہ، بی نا، 1401ھ/1981ء۔
  • ابن بابویہ، علل الشرایع، چاپ افست قم، بی تا۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق علی محمد بجاوی، بیروت‬‏‫، دار الجیل‏‫، 1412ھ/1992ء۔
  • احمد ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، قاہرہ، 1313ق ۔
  • ابن سعد، الطبقات الكبرى، تحقیق احسان عباس، بيروت، دار صادر، چاپ اول، 1968ء۔
  • ابن شاذان، الایضاح، تحقیق جلال الدین محدث ارموی، تہران، 1363ہجری شمسی۔
  • ابن عبدالبرّ، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، 1412ھ/1992ء۔
  • ابن عبدربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الاح‍ی‍اء ال‍ت‍راث ال‍ع‍رب‍ی ، 1408-1411ھ/ 1988-1990ء۔
  • ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق عمرو بن غرامۃ العمري، بیروت، دار الفکر للطباعۃ والنشر و التوزیع، 1415-1421ھ/ 1995-2001ء۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، ج4، چاپ احمد ابوملحم و دیگران، بیروت، بی تا۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
  • ابن کلبی، ہشام بن محمد، کتاب الاصنام، تحقیق احمد زکی پاشا، قاہرہ، بی نا، 1332ھ/1914ء۔
  • ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، تحقیق مصطفی سقا، ابراہیم ابیاری و عبدالحفیظ شلبی، قاہرہ، بی نا، 1355ھ/1936ء۔
  • ابی الفداء، اسماعیل بن علی، تاریخ ابی الفداء، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1417ھ۔
  • ازدی، محمدبن عبداللہ، تاریخ فتوح الشام، تحقیق عبدالمنعم عبداللہ عامر، قاہرہ، بی نا، 1970ء۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الاشراف، تحقیق محمود فردوس عظم، دمشق، بی نا، 1996-2000ء۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، تحقیق دخویہ، لیدن، 1866ء۔
  • خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق مصطفی نجیب فوّاز و حکمت کشلی فوّاز، بیروت، بی نا، 1415ھ/ 1995ء۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، تحقیق شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، 1401-1409ھ/ 1981-1988ء۔
  • زبیر بن بکّار، الاخبار الموفقیات، تحقیق سامی مکی عانی، بغداد، بی نا، 1972ء۔
  • زبیری، مصعب بن عبداللہ، نسب قریش، تحقیق لوی پرووانسال، قاہرہ، دار المعارف، 1953ء۔
  • سلیم بن قیس ہلالی، کتاب سُلیم بن قیس الہلالی، تحقیق محمدباقر انصاری زنجانی، بیروت، 1426ھ/ 2005ء۔
  • طبری، محمد بن جرير، تاريخ الطبرى: تاريخ الامم والملوك، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہيم، بيروت، دار التراث، 1382-1387ھ/ 1962-1967ء۔
  • فسوی، یعقوب بن سفیان، کتاب المعرفۃ والتاریخ، تحقیق اکرم ضیاء عمری، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ دوم، 1401ھ۔
  • «قبر ویران شدہ خالد بن ولید، یادگار تروریست ہا در حمص»، خبرگزاری تسنیم، تاریخ اشاعت: 22 اردیبہشت 1393شمسی، تاریخ مشاہدہ: 11 دی 1403ہجری شمسی۔
  • محمدبن عمر کشی، اختیار معرفۃ الرجال، المعروف برجال الکشی، تلخیص محمدبن حسن طوسی، تصحیح و تعلیق محمدباقر بن محمد میرداماد، تحقیق مہدی رجائی، قم، 1404ھ۔
  • واقی، محمد بن عمر، کتاب الردۃ، روایۃ احمد بن محمد بن اعثم کوفی، تحقیق یحیی جبوری، بیروت، 1410ھ/ 1990ء۔
  • «مزار ویران شدہ خالد بن ولید، یادگار تروریست ہا در حمص + تصاویر»، خبرگزاری ابنا، تاریخ اشاعت: 21 اردیبہشت 1393شمسی، تاریخ مشاہدہ: 11 دی 1403ہجری شمسی۔
  • مَقْدِسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بیروت، پورت سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، بی تا۔
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، تحقیق مارسدن جونز، لندن، 1966ء۔
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاريخ اليعقوبى، بيروت، دارصادر، [بى تا]۔

بیرونی روابط