سعد بن مالک بن سنان (متوفی 74 ھ/612/613 ء) ابو سعید خُدری کے نام سے مشہور، رسول خدا (ص) و امام علی (ع) کے معروف صحابی اور راوی احادیث ہیں۔ انصار کے بزرگان میں سے گنے جاتے ہیں نیز حدیث غدیر کے راویوں میں سے ہیں۔ ان کے والد بھی صحابہ رسول اللہ میں سے تھے۔ مختلف غزوات میں پیامبر (ص) کے ساتھ شریک رہے اور جنگ صفین و نہروان میں امام علی (ع) کی ہمراہی کی۔ مورخین انہیں فقیہ سمجھتے ہیں اور شیعہ رجال میں ان کی تعریف مذکور ہے۔ اکثر منابع تاریخی ان کی وفات ۷۴ ھ لکھتے ہیں لیکن بعض واقعہ حرّه کے ایک سال بعد ۶۴ ھ کہتے ہیں۔ بعض مآخذ نے ان کی جائے دفن مدینہ کا قبرستان بقیع ذکر کیا ہے۔

ابو سعید خدری
کوائف
مکمل نامسعد ن مالک بن سنان
کنیتابو سعید
لقبخدری
تاریخ پیدائشہجرت سے ۱۰ سال قبل
محل زندگیمدینہ
مہاجر/انصارانصار
نسب/قبیلہقبیلہ بنی عوف کی شاخ بنی خدرہ
وفاتسنہ 74 ہجری مدینہ
مدفنجنت البقیع
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتمختلف غزوات میں شرکت بشمول جنگ صفین و جنگ نہروان

نسب

تاریخ اسلام کے منبع میں یوں ان کا ذکر آیا ہے: سعد بن مالک بن سنان بن عبید بن ثعلبہ بن [عبید بن] الأبجر.[1] کنیت‌ ابو سعید اور اپنے جد خُدره کے نام سے منسوب ہیں جو ابحر سے مشہور تھے۔[2] بنو خدره انصار کے بنی عوف کی شاخ تھی۔ ان کے والد مالک بن سنان صحابہ پیغمبر (ص) تھے جو جنگ احد میں شہید ہوئے۔[3] ماں کا نام انیسہ بنت ابی حارثہ ہے جو قبیلۂ بنی نجار سے تھی۔[4]

ذاتی فضیلتیں اور مذہبی مقام

تاریخ و سیرت نگاری کے منابع ابو سعید کو انصار کا ایک بزرگ سمجھتے ہیں [5] اسکی فقاہت کی تاکید کرتے ہیں۔[6] ابو سعید صحابہ کے درمیان زہد و پارسائی میں مشہور تھے۔ اسکے متعلق ابونُعیم نے حلیۃ الاولیاء[7] اور ابن جوزی در صفۃ الصفوة[8] انکی شخصیت پر گفتگو کی ہے۔ شیعہ رجال شناسوں نے نے بھی اسے بزرگ اور بہت زیادہ تعریف کی ہے۔[9] انہیں اصحاب پیامبر(ص) میں سلمان و ابوذر کے ردیف میں قرار دیا ہے اور اصحاب امام علی (ع) کے اصحاب میں «اصفیاء» کے زمرے میں گنا ہے انہیں امام علی برگزیدہ اصحاب کہا ہے [10] رجال کشی میں امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ ابو سعید دین کا پابند اور حق سے آشنا تھا نیز فضل بن شاذان سے مروی ہے کہ ابو سعید اپنے زمانے کے سابقین اصحاب میں تھے۔[11]

روایت

ابو سعید پیامبر(ص) اسلام کے ان برجستہ ترین اصحاب میں سے ہے جس مہاجر و انصار نے روایت نقل کی ہے۔[12] پیغمبر(ص) کی ۱۱۷۰ احادیث اس سے منقول ہیں۔ بعض انہیں راوئ صحاح ستہ کہتے ہیں چونکہ مسلم اور بخاری وغیرہ نے اس نقل کیا ہے [13] بقی بن خلد نیز دیگران نے اپنی مسند کبیر میں ان سے مروی روایات کو اکٹھا کیا ہے۔[14] ابو سعید سے منقول روایات میں حدیث غدیر شیعوں کے نزدیک زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اس نے دیگر مشہور اصحاب سے بھی اسے نقل کیا ہے۔ جنہوں نے اس سے روایات نقل کی ہیں رسول کے مشہور اصحاب میں سے عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، جابر بن عبداللہ انصاری، زید بن ثابت اور انس بن مالک نیز بہت سے تابعین جیسے سعید بن مسیب، عطاء بن یسار اور نافع اس میں شامل ہیں [15]

سیاسی مقام

ابو سعید نبی اکرم(ص) اور امام علی(ص) کے زمانے میں سیاسی اور فوجی لحاظ سے کافی متحرک تھے۔ جنگ احد کے موقع پر اس کے والد انہیں ۱۳ سال کی عمر میں رسول کی خدمت میں لے گئے کہ اسے جنگ میں شرکت کی اجازت دیں لیکن رسول اللہ نے چھوٹی عمر کی وجہ سے شرکت کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد مختلف غزوات میں شریک ہوئے [16] دوسری اور تیسری صدی کے سیرت نگار واقدی سے منقول ہے: جنگ خندق پہلی جنگ ہے جس میں ابو سعید خدری نے شرکت کی۔[17]ابن کثیر (م. ۷۷۴ق.) کے مطابق بارہ جنگوں میں رسول کے ساتھ شریک ہوئے۔[18] خلافت حضرت علی (ع) کے دور میں صفین و نہروان میں علی کا ساتھ دیا۔[19]

ابو سعید کا بنی امیہ کے ساتھ دوستانہ رابطہ نہیں تھا مختلف اوقات میں فرصت ملنے پر ان پر تنقید کرتے تھے۔ ان میں سے ایک موقع خطبۂ عید کا ہے جب مروان بن حکم نے خطبۂ عید کو نماز پر مقدم کیا تو اسے ابو سعید کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔[20] اسی طرح خلافت معاویہ اس کے ناجائز کاموں پر تنقید کرنے کیلئے شام گئے [21] این خبر کہ ابو سعید نے ۷۳ق ایک خط کے ضمن میں عبدالملک بن مروان کی بیعت کی نیز عبدالملک نے خلافت سے پہلے حدیث سنی تھی، [22]، زمانی لحاظ سے اور بنو امیہ سے خراب رابطے کی بنا پر قابل تردید ہے۔

ابن قتیبہ[23] کے بقول ابوسعید واقعہ حرّه کے موقع پر شامی فوجیوں کے مدینہ میں حملہ کے وقت خانہ نشین رہے۔لیکن اسکے باوجود شامیوں نے اس کے گھر پر حملہ کیا اور اس سے رقم اور مال کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اسے شکنجہ کیا۔ ایک روایت کے مطابق ابو سعید نے اس دن ایک غار میں پناہ حاصل کی۔ ایک اور روایت کے مطابق اس نے غار میں پناہ لی ہوئی تھی کہ ایک شامی اسے قتل کی نیت سے آیا،اس نے ابو سعید کو پہچان لیا تو اسے چھوڑ دیا اور کہا کہ میرے لئے استغفار کرنا۔[24]

وفات

اکثر مؤرخین ان کی وفات ۷۴ ھ لکھتے ہیں [25] لیکن بعض نے واقعہ حره کے ایک سال بعد ۶۴ق کہی ہے۔[26] کہتے ہیں: ابو سعید کا وقت احتضار تین دن تک رہا۔ ان کے محل دفن میں بعض نے تصریح کی ہے انہیں مدینہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔[27] لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کے نام کا مزار اس وقت ترکی کے شہر استنبول میں موجود ہے۔[28]

حوالہ جات

  1. الاستیعاب، ج۲،ص:۶۰۲.
  2. طبری، المنتخب من کتاب ذیل المذیل، ج۱۱، ص۵۲۵.
  3. الاستیعاب، ج۲، ص۱۳۵۲.
  4. خلیفہ بن خیاط، الطبقات، ج۱، ص۲۱۶.
  5. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۶۰۲؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱، ص۱۸۰؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۲، ص۲۸۹.
  6. ابن سعد، طبقات، ج۲، ص۳۷۲؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱، ص۱۸۰؛ ابواسحاق شیرازی، طبقات الفقہاء، ص۵۱؛ نووی، تہذیب الاسماء و اللغات، ج۲، ص۲۳۷؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص۱۷۰؛ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج۲، ص۳۵.
  7. ابونعیم اصفہانی، حلیۃ الاولیاء، ج۱، صص۳۷۱ ۳۶۹.
  8. ابن جوزی، صفۃ الصفوة، ج۱، صص۷۱۵۷۱۴.
  9. برقی، الرجال، ص۲.
  10. برقی، احمد بن محمد، الرجال، ص۳.
  11. طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، صص۳۸-۳۰.
  12. الاستیعاب،ج۲،ص:۶۰۲.
  13. نووی، تہذیب الاسماء و اللغات، ۲/۲۳۷.
  14. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص۱۷۱.
  15. نووی، تہذیب الاسماء و اللغات، ج۲، ص۲۳۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۲، ص۲۸۹.
  16. طبری، المنتخب من کتاب ذیل المذیل، ج۱۱، صص۵۲۶ ۵ ۵۲؛ حاکم نیشابوری، مستدرک الصحیحین ۳/۵۶۳؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۶۰۲
  17. نک: الاستیعاب، ج۱،ص:۱۵۶.
  18. البدایہ والنہایہ،ج۹،ص:۴.
  19. ابن حبیب، المُحبّر، ص۲۹۱؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱، ص۱۸۰.
  20. صفدی، الوافی بالوفیات، ج۱۵، ص۱۴۸.
  21. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق،ج۷، صص۱۸۳ ۱۸۲؛ معاویہ سے اس کی انتہائی مخالفت دیکھنے کیلئے دیکھیں: نصر بن مزاحم منقری، وقعہ صفین، ص۲۱۶.
  22. ابن سعد، طبقات، ج۵، صص۲۳۴-۲۲۹
  23. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص۲۱۳.
  24. ذهبی، تاریخ الاسلام، ج۳، صص۲۲۱ ۲۲۰
  25. خلیفہ بن خیاط، الطبقات، ج۱، ص۲۱۶؛ ابن قتیبہ، المعارف، ج۱۱، صص۲۶۷ و ۵۲۶؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ج۶، ص۴۰؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۶۰۲؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد،ج۱، ص۱۱۸.
  26. ابن حیان، مشاہیر علماء الامصار، ص۱۱.
  27. حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، مستدرک الصحیحین، ج۲، ص۲۳۷.
  28. ایشلی، ۷۰-۷۳ isli, Necdet, Istanbul‘da sahabe kabir ue makamlan, Ankara, Renk ofset matbaacilik.

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ، بیروت، دار احیاء التراث العربی.
  • ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، صفۃ الصفوة، محمود فاخوری و محمد رواس قلعجی، بیروت، ۱۴۰۶ق/ ۱۹۸۶م.
  • ابن حبیب، محمد، المُحبّر، حیدرآباد دکن، ۱۳۶۱ق/ ۱۹۴۲م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ، قاہره، ۱۳۲۸ق.
  • ابن حیان، محمد، مشاہیر علماء الامصار، تحقیق فلایشہامر، قاہره، ۱۳۷۹ق/ ۱۹۵۹م.
  • ابن سعد، محمد، طبقات، بیروت، دارصادر.
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب، قاہره، ۱۳۸۰ق/ ۱۹۶۰م.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، عمان، دارالبشیر.
  • ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، قاہره، ۱۹۶۰م.
  • ابن قتیبہ، عبدالله بن مسلم، الامامہ و السیاسہ، قاہره، ۱۳۸۸ق/ ۱۹۶۹م.
  • ابواسحاق شیرازی، ابراہیم بن علی، طبقات الفقہاء، تحقیق احسان عباس، بیروت، ۱۴۰۱ق/ ۱۹۸۱م.
  • ابونعیم اصفہانی، احمد بن عبداللہ، حلیۃ الاولیاء، قاہره، ۱۳۵۱ق/ ۱۹۵۹ م.
  • برقی، احمد بن محمد، الرجال، تحقیق جلال الدین محدث، تہران، ۱۳۴۲ ش.
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، مستدرک الصحیحین، حیدر آباد دکن، ۱۳۲۴ ق.
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، قاهره، ۱۳۴۹ ق.
  • خلیفہ بن خیاط، الطبقات، تحقیق سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۶ م.
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، تحقیق شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۵/ق ۱۹۸۵ م.
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، قاہره، ۱۳۶۸ ق.
  • صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات،تحقیق برند راتکہ ویسبادن، ۱۳۹۹ق/ ۱۹۷۹ م.
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبدالمجید سلفی، بغداد، ۱۳۹۹ ق/ ۱۹۷۹ م.
  • طبری، «‌المنتخب من کتاب ذیل المذیل »، ہمراه تاریخ طبری.
  • طوسی، محمد بن حسنِ، اختیار معرفة الرجال، تحقیق حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ ش.
  • نصر بن مزاحم منقری، وقعۃ صفین، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، قاہره، ۱۳۸۲ ق.
  • نووی، یحیی بن شرف، تہذیب الاسماء و اللغات، قاہره، ادارة الطباعہ المشیریہ.