حضرت موسیٰ علیہ السلام اولو العزم پیغمبر، صاحبِ شریعت نبی اور بنی اسرائیل کے پیشوا تھے۔ حضرت موسیٰ کے قصے اور معجزات، قرآن مجید میں دوسرے انبیاء کی نسبت زیادہ ذکر ہوئے ہیں۔ حضرت موسیٰ کے اہم القاب میں سے ایک کلیم اللہ ہے، جو انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ براہ راست گفتگو کرنے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔

حضرت موسی
تیسرا اولوالعزم پیغمبر
حضرت موسی کوہ طور پر (فرہاد رفیعی کی فنکاری)
حضرت موسی کوہ طور پر (فرہاد رفیعی کی فنکاری)
قرآنی نام:موسی
کتاب مقدس میں نام:Moses
جائے پیدائش:مصر میں حضرت ابراہیم سے 250 سال پہلے
قوم کا نام:بنی اسرائیل
قبل از:حضرت عیسی
کتاب کا نام:دس احکامالواح موسی • تورات (عہد قدیم)
مشہوراقارب:عمران • یُوکابَد
معجزات:عصا کا بڑے سانپ میں تبدیل ہونا • سمندر پھٹ جانا • ید بیضا
ہم عصر پیغمبر:حضرت ہارونحضرت شعیب
پیروکار:آسیہ زوجہ فرعونمؤمن آل فرعون • یہودیان
دین:یہودیت
عمر:120 سال
قرآن میں نام کا تکرار:36 سوروں کی 131 آیات میں 136 مرتبہ
مخالفین:فرعونسامری
اہم واقعات:قبطی کا قتلبنی اسرائیل کا سمندر پار کرنابنی اسرائیل کی گوسالہ پرستیداستان خضر و موسیاللہ کی حضرت موسی سے ہم کلامی
اولوالعزم انبیاء
حضرت محمدؐحضرت نوححضرت ابراہیمحضرت موسیحضرت عیسی

قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے بارے میں ذکر ہونے والے قصوں میں؛ حضرت موسی کی کسی ولی اللہ کی ہمراہی، شیعہ روایات میں انہیں حضرت خضر کہا گیا ہے، اور موسیٰ کے دریا میں پھینکے جانے کا قصہ شامل ہیں۔ موسیؑ کو دریا میں پھینکنے والے قصے کے مطابق حضرت موسیٰ کی والدہ نے اس ڈر سے کہ اس کا بیٹا فرعون کے سپاہیوں کے ہاتھوں مارا جائے گا، انہیں ایک صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا۔ حضرت موسیٰ فرعون کے محل میں پہنچے اور وہیں پلے بڑھے۔ ایک قِبطی شخص کے ساتھ موسیٰ کی لڑائی کی کہانی بھی ان قرآنی قصوں میں سے ایک ہے، جس کے مطابق قبطی شخص کو قتل کر دیا گیا جس کی وجہ سے حضرت موسیٰؑ کو مصر سے بھاگ کر مدین جانا پڑا۔

حضرت موسیٰؑ نے مدین میں حضرت شعیب کی بیٹی سے شادی کی اور دس سال تک مال مویشی چراتا رہا۔ چالیس سال کی عمر میں، طور کی سرزمین پر اللہ کی طرف سے آپ پر وحی ہوئی اور رسالت پر مبعوث ہوئے اور بعض تعلیمات اور احکامات نازل ہوئے جن میں توحید، عبادتِ الٰہی کا لازم ہونا، نماز ادا کرنا، اور قیامت کا مسئلہ شامل تھے۔ آپ اپنے بھائی ہارون کے ساتھ فرعون کے پاس گئے تاکہ اس سے بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کرے؛ لیکن فرعون نے موسیٰؑ کے معجزات دیکھنے کے باوجود ان کی حقانیت کو قبول نہیں کیا اور بنی اسرائیل پر ظلم و ستم جاری رکھا۔ اللہ تعالی کے حکم سے حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو لیکر مصر سے نکلے اور معجزے کے ذریعے سمندر کے درمیان سے راستہ بنا۔ قرآن مجید اور معصومینؑ کی روایتوں میں حضرت موسیٰ کے لیے دیگر معجزات بھی بیان ہوئے ہیں؛ جن میں عصائے موسی کا اژدھا میں بدل جانا اور ید بیضا شامل ہیں۔

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت موسیٰ سمیت تمام انبیاء اپنی پیدائش سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک گناہ سے پاک اور معصوم ہیں۔ تاہم، بعض اہل سنت مفسرین نے قرآن مجید میں مذکور حضرت موسیٰ کی زندگی کے کچھ واقعات سے استناد کرتے ہوئے عصمت کو مورد سوال ٹھہرایا ہے، ان واقعات میں، قِبطی کا قتل کر اور غصے میں تختیوں کو پھینکنا شامل ہیں۔ شیعہ مفسرین نے شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ ان واقعات کا مطلب حضرت موسی کی عصمت کو نفی کرنا نہیں ہے۔

حضرت موسیٰ، ان کی زندگی اور ان کی نبوت کے بارے میں آرٹ اور تحریر کے بہت سے آثار تیار اور شائع کیے گئے ہیں، جن میں محمود فرشچیان کی عصائے موسیٰ کا سانپ میں تبدیل ہونے کی پینٹنگ بھی شامل ہے۔ سعدی شیرازی، رومی، علامہ اقبال اور پروین اعتصامی جیسے شاعروں نے بھی موسیٰ کے بارے میں نظمیں لکھی ہیں۔ حضرت موسیٰ کے بارے میں فلمیں بھی بنائی گئی ہیں جن میں دس احکامات والی فلم بھی شامل ہے۔

موسی بنی اسرائیل کے سب سے بڑے نبی

حضرت موسی بن عمران[1] بنی اسرائیل کے سب سے بڑے نبی اور اس قوم کے سردار تھے[2] جنہوں نے ان کو مصریوں کی قید سے آزاد کرا کر موعود کی سرزمین کی طرف لے گئے۔[3]
حضرت موسیٰ علیہ السلام اولو العزم،[4] یعنی صاحبِ شریعت[5] پانچ انبیاء میں سے ایک تھے۔[6] قرآن مجید میں حضرت موسیٰؑ کا نام 136 مرتبہ آیا ہے[7] اور ان کے بہت سے معجزات قرآن میں بیان کیے گئے ہیں۔[8] قرآن میں حضرت موسیؑ کی زندگی کی قصے، دوسرے انبیاء کی نسبت زیادہ بیان ہوئے ہیں۔[9] وہ حضرت شعیب علیہ السلام کے داماد تھے۔[10] حضرت یوشع حضرت موسیٰ کے جانشین اور وصی تھے۔[11]

«وَاذْکرْ فِی الْکتَابِ مُوسَی إِنَّہُ کانَ مُخْلَصًا وَکانَ رَسُولًا نَّبِیا...وَقَرَّبْنَاہُ نَجِیا؛ اور (اے رسول) کتاب (قرآن) میں موسیٰ کا ذکر کیجئے! بےشک وہ اللہ کے برگزیدہ بندے اور نبی مرسل تھے۔ اور ہم نے کوہِ طور کی دائیں جانب سے آواز دی اور راز و نیاز کی باتیں کرنے کیلئے انہیں اپنا مقرب بنایا۔ »[12]

قرآن حضرت موسیٰؑ کو ایک رسول اور نبی کے طور پر متعارف کراتا ہے[13] اور انہیں اپنی رسالت اور خدا کے ساتھ گفتگو کرنے کی وجہ سے اپنی قوم پر فوقیت دیا ہے۔[14] حضرت موسی پر الواح[15] اور تورات نازل ہوئیں۔[16] آپ آسمانی کتاب اور شریعت کے مالک تھے[17] اور ان کی شریعت کو ادیان الہی میں سب سے زیادہ اسلام کے قریب سمجھا جاتا ہے۔[18]
شیعہ عالم محمد حسین فضل اللہ کے مطابق، حضرت موسیٰ کی رسالت کسی مخصوص گروہ یا مقام تک محدود نہیں تھی؛ بلکہ آفاقی اور ہمہ گیر تھی؛[19] تاہم، بعض محققین، قرآن اور تورات کی آیات کی روشنی میں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہودی مذہب اور تورات صرف اور صرف بنی اسرائیل (یعقوب کی اولاد) تک محدود تھیں اور دوسری قوموں کے لئے نہیں تھیں۔[20]

اللہ تعالی سے ہمکلام ہونا

 
پینٹنگ "کوہ طور پر"، فرہاد رفیعی کی، ایکریلک تکنیک کے ساتھ (2011)۔[21]

"کلیم اللہ" (یعنی وہ جس سے خدا نے کلام کیا ہے) کی صفت حضرت موسیٰؑ کے لیے مخصوص سمجھی گئی ہے؛[22] البتہ بعض محققین کے مطابق اللہ تعالی نے پیغمبر اکرمؐ سے بھی معراج پر بلاواسطہ بات کی ہے۔[23]

اللہ تعالی نے حضرت موسیٰؑ سے براہ راست بات کی۔[24] ناصر مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی خلا یا اشیاء میں آواز کی لہریں اور الفاظ پیدا کرتا تھا اور اس طرح سے وہ کلام کرتا تھا۔[25] اس کے برعکس، سید محمد حسین طباطبایی کا کہنا ہے کہ خدا نے بات کرنے کے انداز ذکر نہیں کیا ہے اور ہم اس گفتگو کے انداز کو قرآن کی تشریحات سے معلوم نہیں کر سکتے ہیں۔[26] ان کے مطابق، حضرت موسیٰ سے خدا کا کلام کسی واسطے[27] اور کسی حقیقی چیز کے ذریعے تھا جس کے اگرچہ عام اثرات تھے، لیکن اس کے لیے منہ جیسے مادی اعضاء اور جوارح کی ضرورت نہیں تھی۔[28]

سوانح حیات

حضرت موسیٰؑ عمران کے بیٹے اور حضرت یعقوب کے بیٹے لاوی کی نسل سے ہیں۔[29] تورات میں ان کے والد کا نام عمرام ہے جو عربی لہجے میں عِمران میں تبدیل ہوگیا ہے اور مسلمان بھی انہیں عمران کہتے ہیں۔[30] حضرت موسیٰؑ کی پیدائش حضرت ابراہیمؑ کی وفات کے تقریباً 250 سال بعد ہوئی۔[31] مسعودی نے اپنی کتاب اثبات الوصیة میں کہا ہے کہ موسیٰؑ اور ابراہیمؑ کے درمیان 468 سال کا فاصلہ تھا۔[32]
حضرت موسیٰؑ کی پیدائش ایسے وقت میں ہوئی جب فرعون نے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے اور ان کی بیٹیوں کو قید کرنے کا حکم دیا تھا۔[33] تورات کے مطابق فرعون نے بنی اسرائیل کو اقتدار ملنے اور اس کے دشمنوں سے اتحاد کرنے کے خوف سے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔[34] شیعہ مفسر ناصر مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ قرآنی آیات کے مطابق فرعون نے بنی اسرائیل کو کمزور کرنے کے لئے ان کے بیٹوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔[35] بعض نے اس حکم کی علت فرعون کا خواب قرار دیا ہے جس میں فرعون نے دیکھا تھا کہ مصر کی طرف ایک آگ آتی ہے جو بنی اسرائیل کو نقصان پہنچائے بغیر مصریوں کو ہلاک کر دیتی ہے۔[36] ایک اور نقل کے مطابق فرعون نے خواب دیکھا کہ بنی اسرائیل سے ایک بیٹا پیدا ہوگا جو اس کی سلطنت کو ختم کردے گا۔[37]

پیدائش اور بچپن تا مصر سے جانے تک

قرآنی آیات کے مطابق حضرت موسیٰؑ کی پیدائش کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ ( یوکابَد[38]) کو وحی کی کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلائے اور جب اسے موسی کی جان کا خطرہ محسوس ہو[39] تو اسے ایک صندوق میں رکھ کر[40] دریا میں چھوڑ دے اور اس کی جان کی پرواہ نہ کرے۔[41]

اپنے بچے کو دودھ پلانے کے بعد (تورات کے مطابق، تین ماہ تک[42]) موسیٰ کی ماں نے ممکنہ خطرات سے ڈر کر ان کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا[43] اور اپنی بیٹی کو صندوق کے پیچھے بھیج دیا۔[44] اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی والدہ کو ان کی پریشانی کی وجہ سے طاقت دی[45] اور یہ خوشخبری دی کہ وہ موسیٰؑ کو آپ کی طرف لوٹائیں گے اور ان کو انبیاء میں قرار دیں گے۔[46]

فرعون کے خاندان کے ایک فرد نے حضرت موسیٰ کو پانی سے باہر نکالا۔[47] تورات میں اس شخص کا تعارف فرعون کی بیٹی کے طور پر ہوا ہے۔[48] قرآن کے مطابق، فرعون کی بیوی (آسیہ [49]) نے موسیٰ کو اپنا اور فرعون کا نور چشم کہا اور امید ظاہر کی کہ وہ اس کے لیے فائدہ مند ہو گا یا اسے اپنا بیٹا بنا لیا جائے گا۔[50]

دریا سے نجات پانے کے بعد موسیٰؑ نے کسی عورت کا دودھ نہیں پیا اور موسیٰ کی بہن کے کہنے پر ان کی والدہ کو ان کے پاس لایا گیا اور اس طرح موسیٰ اپنی والدہ کے پاس واپس آگئے۔[51] قرآنی آیات سے استناد کرتے ہوئے ناصر مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ موسیٰ اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے گھر میں پلے بڑھے اور بعض اوقات انہیں فرعون کی بیوی کے پاس لے جایا جاتا تھا۔[52] مکارم شیرازی نے فرعون کے موسیٰ کے لیے کہے گئے الفاظ، «کیا تمہیں بچپن میں ہم نے اپنے درمیان نہیں پالا؟»[53] سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضرت موسیٰ فرعون کے محل میں کم از کم ایک مدت تک رہے ہیں۔[52] تورات کے مطابق بھی موسیٰ بچپن میں اپنی ماں کے ساتھ تھے اور جب وہ بڑے ہوئے تو فرعون کے محل میں چلے گئے ہیں۔[54]

کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو اس لیے موسیٰ کہا گیا کیونکہ انہیں پانی اور درخت کے درمیان سے اٹھائے گئے۔ قبطی زبان میں "مو" کا مطلب پانی ہے اور "سا" کا مطلب درخت ہے۔[55]

حضرت موسیٰ نے ایک اسرائیلی اور ایک مصری (قِبطی) کے درمیان ہونے والی لڑائی کے دوران ایک ہی مُکے سے مصری کو مار ڈالا۔[56] اس واقعے کے بعد فرعون کے کارندوں نے انہیں قتل کرنے کا فیصلہ کیا[57] اور وہ فرار ہو کر مصر سے باہر چلے گئے۔[58]

 
عصائے موسی کا سانپ میں تبدیل ہونا، محمود فرشچیان کی فنکاری

مدین کی زندگی، نبوت، اور مصر واپسی

ایک قبطی آدمی سے لڑائی اور اسے مارنے کے بعد حضرت موسیٰ حکومتی اہلکاروں سے بچنے کے لیے مدین بھاگ گئے۔[59] وہاں انہوں نے مال مویشی چرانے والی دو لڑکیوں (جن کا نام صفراء اور لیا[60]تھا) کے جانوروں کو پانی پلانے میں ان کی مدد کی۔[61] ان لڑکیوں کے والد، جنہیں احادیث اور تاریخ میں حضرت شعیب کے نام سے جانا گیا ہے،[62] نے حضرت موسیٰ کا واقعہ جاننے کے بعد انہیں اپنے پاس بلایا[63] اور اپنے ہاں کام کرنے اور اپنی بیٹی سے شادی کرنے کی پیشکش کی۔[64]

حضرت موسیٰؑ نے مدین میں قیام کیا اور حضرت شعیبؑ کی بیٹی سے شادی کی اور ان کی بھیڑ بکریاں چرانے کی ذمہ داری سنبھالی۔[65] قرآن اور شیعہ تفاسیر کے مطابق، موسیٰؑ دس سال تک مدین میں حضرت شعیبؑ کے ساتھ رہے اور بکریاں چراتے رہے۔[66] اس کے بعد مدین سے مصر کی طرف واپسی پر اہل و عیال ان کے ساتھ تھے اور رات کے وقت جب راستہ بھٹک گئے،[67] تو انہوں نے طور کی سمت آگ دیکھی اور آگ کی خبر لینے یا آگ لانے کے لیے اس طرف گئے۔[68] حضرت موسیٰ جب آگ کے قریب گئے تو دائیں طرف سے ایک درخت سے آواز آئی: "اے موسیٰ، میں اللہ، رب العالمین ہوں۔"[69] ’’میری ہی عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو‘‘۔[70]

حضرت موسیٰ، طور سینا پر نبوت پر مبعوث ہوئے[71] اور اللہ نے انہیں اپنی لاٹھی پھینکنے کا حکم دیا[72] اور انہوں نے اپنی لاٹھی کو گرا دیا جو اچانک سانپ میں بدل گیا۔[73] انہیں کہا گیا کہ وہ نہ ڈرے اور اسے اٹھا لے، لاٹھی اپنی اصلی حالت میں واپس آجائے گی؛[74] اسی طرح یہ حکم بھی ہوا کہ آپ اپنا ہاتھ اپنی گریبان میں ڈالیں، اس سے آپ کا ہاتھ سفید اور چمکدار ہو گیا۔[75] کوہ طور پر حضرت موسیٰ کے ان معجزات کا مقصد، انہیں فرعون کے سامنے انجام دینے کے لیے موسیٰؑ کی تیاری سمجھا گیا ہے۔[76]

دعوت کے آغاز سے بنی اسرائیل کے مصر سے خروج تک

قرآن کی آیات کے مطابق اللہ تعالی کی طرف سے موسیٰؑ کو فرعونیوں کی طرف بھیجا گیا۔[77] حضرت موسیٰ نے اللہ تعالی کو بتایا وہ ان کو جھٹلانے سے ڈرتے ہیں[78] اور وہ اُن کے انکار کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔[79] اس کی زبان فصیح نہیں ہے[80] اور فرعونی یہ خیال کریں گے کہ موسیٰ قبطی کو قتل کرنے کا مجرم ہے۔[81] اس لئے خدا سے ہارون کو بھی رسول بنانے کی درخواست کی۔[82] حضرت موسیٰؑ اپنے بھائی ہارون کے ساتھ فرعون کے پاس گئے[83] اور بنی اسرائیل کی رہائی کی درخواست کی۔[84]

حضرت موسیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے لئے عصا کا سانپ بننے اور ید بیضا کا معجزہ لے آیا تاکہ وہ ان کی بات کو مان لیں؛[85] لیکن فرعونیوں نے ان پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا۔[86] آخر میں، موسیٰؑ کے لیے جادوگروں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اجلاس کا اہتمام کیا گیا۔ حضرت موسیٰؑ نے جادوگروں کے جادو کو باطل کر دیا اور جادوگروں نے ایمان لے آیا۔[87] تاہم، فرعون نے جناب موسیؑ کی درخواست کو تسلیم نہیں کیا اور مصریوں پر بلائیں نازل ہوئیں.[88] اللہ نے موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ رات کو بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے نکل جائیں۔[89] بنی اسرائیل کے جانے کے بعد فرعون اور اس کی فوج نے ان کا تعاقب کیا۔[90] بنی اسرائیل ایک طرف سمندر اور دوسری طرف فرعون کی فوج کے درمیان پھنس گئے۔[91] حضرت موسیٰ نے اللہ کے حکم سے اپنی لاٹھی سمندر پر ماری اور پانی میں سے ایک راستہ کھل گیا۔[92] بنی اسرائیل کو نجات ملی؛[93] لیکن فرعون کی لشکر پانی میں ڈوب گئی۔[94]

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: مؤمن آل فرعون اور بنی اسرائیل کا سمندر پار کرنا

سرزمین موعود کی طرف ہجرت

مصر سے نجات پانے کے کچھ عرصہ بعد حضرت موسیٰ میقات تشریف لے گئے۔[95] بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کی عدم موجودگی میں سونے کا ایک بچھڑا بنایا اور اس کی پرستش کی۔[96] بنی اسرائیل کے بچھڑے کی پوجا دیکھ کر حضرت موسیٰؑ نے غصے میں آکر وہ دو تختیاں جو ان پر کوہ سینا پر نازل ہوئی تھیں، انہیں زمین پر دے مار کر توڑ دیا۔[97] اللہ نے بھی بنی اسرائیل کی ملامت کی۔[98] حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے ستر برگزیدہ لوگوں کے ساتھ میقات پر تشریف لے گئے۔[99][یادداشت 1] ان میں سے بعض لوگوں نے اللہ پر ایمان لانے کو اللہ کی رؤیت سے مشروط کیا۔[100]

خدا کو دیکھنے میں ان کی نااہلی ظاہر کرنے کے لئے بجلی کا ایک جھونکا پہاڑ پر ٹکرا گیا، اور وہ سب چمکتی ہوئی بجلی اور اس کی خوفناک آواز سے مر گئے۔[101] بعض نے بجلی گرنے کو عذاب سمجھا ہے۔[102] موسیٰؑ نے اللہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ کیا تو ہمیں اس وجہ سے ہلاک کردے گا جو ہماری بیوقوف قوم نے کیا؟[103] اور انہوں نے خُدا سے اُن کو دوبارہ زندہ کرنے کی درخواست کی۔ خدا نے موسیٰؑ کی درخواست کو قبول کیا اور انہیں دوبارہ زندہ کیا۔[104]

 
صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کے واقعات سے مربوط ہاتھ کا بِنا ہوا قالین

صحرا میں سرگردان

فرعون کی ہلاکت کے بعد، وعدہ دی گئی مقدس سرزمین (بعض کے مطابق، شام)[105] کی طرف جاتے ہوئے بنی اسرائیل کا سامنا بعض طاقتور لوگوں سے ہوا جن سے انہیں لڑنا پڑا۔[106] بنی اسرائیل نے لڑنے سے انکار کر دیا اور حضرت موسیٰ سے کہا کہ "تم اور تمہارا خدا جاؤ ان سے لڑو، ہم یہیں رہیں گے"۔ خدا نے انہیں چالیس سال تک سر زمینِ موعود میں داخل ہونا ان پر حرام کر دیا۔[107] اور انہیں چالیس سال کی آوارگی کی سزا سنائی گئی۔[108] اس آوارگی کے زمانے میں بنی اسرائیل کو بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جسے اللہ تعالی نے حل کر دیا۔[109] اللہ تعالی نے ان پر بادل کا سائباں بنایا اور بھوک مٹانے کے لئے مَنّ و سَلوی بھیج دیا۔[110]

قرآنی آیات کے مطابق حضرت موسیؑ نے بنی اسرائیل کے لیے اللہ سے پانی مانگا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنا عصا پتھر پر ماریں۔ ایسا کرنے سے اس چٹان سے بارہ چشمے پھوٹے جو بنی اسرائیل کے قبیلوں کی تعداد کے مطابق تھے اور ہر قبیلے کا اپنا چشمہ تھا۔[111]

بعض نے حضرت موسیٰ کے اس قصے اور معجزے کو صحرا میں بھٹکنے کے زمانے کا سمجھا ہے،[112] جبکہ بعض نے اسے اس سے پہلے کا تصور کیا ہے۔[113] کہا جاتا ہے کہ خدا کو دیکھنے کی درخواست، قارون کا زمین میں دھنس جانا، سامری کا بچھڑا، بنی اسرائیل کی گائے، تختیوں کا نزول اور پہاڑ کا پھٹ جانا یہ سب واقعات حضرت موسی اور ان کے پیروکاروں کی سرگردانی کے زمانے میں پیش آئے۔[114]

وفات

حضرت موسی صحرا میں سرگردانی کے دوران[115] 120[116] یا 126[117] سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ رسول اللہؐ کی ایک روایت کے مطابق آپ 126 سال زندہ رہے۔[118] حضرت موسیٰ کی وفات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح کی پیدائش سے تقریباً سترہ صدیاں پہلے وفات پاگئے ہیں۔[119] بعض روایات کے مطابق ان کی قبر چھپائی گئی تھی۔[120]

نبوت

حضرت موسیٰ پر پہلی وحی چالیس سال کی عمر میں[121] طور سینا[122]پر ایک درخت سے خطاب کی صورت میں آیا،[123] اور وہیں آپ کو نبی کے طور پر چنا گیا۔[124] آپ اولوالعزم انبیاء میں سے تھے۔[125] کچھ مفسرین، قرآنی تعبیر "وَ أَنَا اخْتَرتُک؛ میں نے تمہیں چن لیا ہے"[126] کی بنیاد پر یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ موسیٰ اسی جگہ اور اسی تعبیر کے ساتھ نبوت پر مبعوث ہوئے۔[127] رسالت پر مبعوث ہونے کے بعد اللہ تعالی نے انہیں کچھ ہدایات دیں:

دس احکام:

  1. میں اللہ تمہارا خدا ہوں۔
  2. میرے سوا تیرا کوئی اور معبود نہ ہو۔
  3. میں جو تمہارا اللہ ہوں میرے نام کا غلط استعمال نہ کریں۔
  4. سبت کے دن (ہفتہ) کو یاد رکھیں اور اسے مقدس سمجھیں۔
  5. اپنے والدین کا احترام کریں۔
  6. قتل نہ کرو۔
  7. زنا نہ کرو۔
  8. چوری مت کرو۔
  9. جھوٹ مت بولو۔
  10. دوسروں کے مال اور ناموس کی لالچ نہ کرو۔
  • سب سے پہلے توحید سے شروع کیا[128]: اوز کہا "اے موسیٰ، میں خدا ہوں، تمام جہانوں کا رب۔"[129]
  • پھر اللہ کی عبادت کا حکم دیا[130]
  • حکم دیا کہ نماز خدا کے ذکر کے لیے ادا کی جائے[131]
  • اس کے بعد قیامت کے مسئلے کو بیان کیا۔[132]

دس احکام اور تورات

دس احکام وہ احکامات ہیں جو اللہ کی طرف سے تختیوں پر لکھے گئے تھے اور حضرت موسی پر نازل ہوئے۔[133] تورات سے مراد حضرت موسیٰ کی پانچ کتابیں ہیں۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ کتابیں حضرت موسیٰ پر نازل ہوئی ہیں۔[134] یہ اسفار (کتابیں) تکوین کا سفر (پیدائش)، خروج، لاویان، اعداد اور تثنیہ ہیں۔[135] بعض اوقات تورات یہودیوں کی پوری کتاب مقدس کو بھی کہا جاتا ہے۔[136] مسلمانوں کا کہنا ہے کہ تورات میں تحریف ہوئی ہے۔[137]

شریعت

قرآن مجید کی بعض آیات کی بنیاد پر مفسرین نے حضرت موسیٰ کو ان انبیاء میں شمار کیا ہے جن کے پاس کتاب اور شریعت تھی۔[138] شریعت، ایک خاص معنی میں ان رسوم و ضوابط کو کہا جاتا ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے وضع کیے ہیں اور ان میں فقہی اور اخلاقی احکام شامل ہیں۔[139]

 
امریکی ایوان نمائندگان میں حضرت موسیٰؑ کا مجسمہ، ممتاز قانون سازوں میں سے ایک کے طور پر

قرآن میں موسیٰ کی شریعت

مفسرین نے حضرت موسیٰ کی شریعت کے بارے میں قرآن مجید کی تین طرح کی آیات سے استناد کیا ہے:

  • آیات کا ایک گروہ[140] حضرت موسیٰ کو فرعون اور قبطیوں کی طرف بھیجنے کو بیان کرتا ہے۔[141]
  • ایک گروہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت موسی کو کتاب کے ساتھ بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا ہے۔[142] بعض مفسرین نے ان آیات میں "کتاب" سے مراد تورات لیا ہے[143] جو توحید کے علاوہ[144] بنی اسرائیل کے لیے حضرت موسیٰ کے احکام، ممنوعات اور شریعت پر مشتمل ہے۔[145]
  • آیات کا ایک اور گروہ حضرت موسیٰ کی دعوت کی آفاقیت[146] اور ان کی شریعت کا نہ صرف بنی اسرائیل بلکہ تمام انسانوں کے لیے معتبر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔[147]

تورات میں موسیٰ کی شریعت

کچھ محققین کے مطابق، حضرت موسیٰ کی شریعت 613 شرعی احکامات پر مشتمل ہے۔[148] ان میں سے 248 احکام واجبات سے متعلق ہیں اور 365 احکام شرعی محرمات کے بارے میں ہیں۔[149] یہودی اپنے مذہبی رسوم و قوانین کو جن اہم ذرائع سے اخذ کرتے ہیں ان میں سے ایک حضرت موسیٰؑ کے احکام ہیں، جو تورات خاص طور پر اسفار پنجگانہ میں سے لاویان، اعداد اور تثنیہ تینوں میں موجود ہیں:[150]

  1. سِفر لاویان (تورات کے اسفار پنجگانہ میں سے تیسرا سِفر) جو پادریوں، قربانیوں اور ہدایا و نذورات کے قوانین اور احکام پر مشتمل ہے۔[151] اسی طرح اس میں حلال گوشت اور حرام گوشت جانوروں سے مربوط احکام،[152] پاکیزگی اور نجاست،[153] گناہوں کا کفارہ،[154] جنسی جرائم جیسے زنا اور گناہوں کی سزا،[155] مقدس تہواروں کے ضوابط[156] اور اوقاف کے احکام[157] ذکر ہوئے ہیں۔
  2. کتاب اعداد (تورات کے اسفار پنجگانہ میں سے چوتھا سِفر) میں عورتوں کے بارے میں کچھ احکام بیان ہوئے ہیں؛ وع عورتیں جن پر ان کے شوہر سوء ظن اور شک کرتے ہیں،[158] اسی طرح قتل کی ممانعت اور اس کی سزا سے متعلق قوانین،[159] نذر کے ضوابط،[160] قربانی کے قوانین،[161] کاہنوں اور لاویوں کی ذمہ داریاں،[162] اور مال غنیمت کی تقسیم[163] کا ذکر ہوا ہے۔
  3. کتاب تثنیہ (تورات کے اسفار پنجگانہ میں سے آخری سِفر) میں درج ذیل احکام بیان ہوئے ہیں: دس احکام،[164] تنازعات کو حل کرنے کے لیے ججوں کی تقرری،[165] عدالت میں گواہی،[166] جنگ کے قوانین اور احکام،[167] اور شادی کے احکام۔[168]

معجزے

سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 101 اور سورہ نمل کی آیت نمبر 12 کے مطابق حضرت موسیٰ کی نو نشانیاں اور معجزات تھے۔ مسلم مفسرین کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ نو معجزات کیا تھے؟[169] علامہ طباطبائی اور مکارم شیرازی کے مطابق، ان معجزات میں لاٹھی کا ایک بڑے سانپ میں تبدیل ہونا، ید بیضا (ہاتھ کی چمک)، طوفان بھیجنا، ٹڈیاں، مینڈک، جوئیں، خون، قحط اور پھلوں کی کمی[170] یہ نو معجزے شامل ہیں ان کے علاوہ وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ نے فرعون کے مقابلے میں اور اس کو دعوت دینے کے دوران پیش کئے ہیں ورنہ ان کے معجزات نو سے زیادہ تھے۔[171]

قرآن میں حضرت موسیٰ کے سولہ معجزوں کی طرف اشارہ ہوا ہے اور ان میں سے بعض کا ذکر متعدد آیات میں ہوا ہے: سمندر کا پھٹ جانا سترہ آیات میں،[172] لاٹھی کا بڑے سانپ میں تبدیل ہونا آٹھ آیات میں،[173] ہاتھ کی چمک پانچ آیات میں،[174] بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ کا بلند ہونا چار آیات میں،[175] بنی اسرائیل پر بجلی گرنا تین آیات میں،[176] بنی اسرائیل کے لیے من و سلویٰ (کھانے) کا نزول تین آیات میں ذکر ہوا ہے۔[177] آپ کے دوسرے معجزات میں: بادلوں کو سائباں کے طور پر استعمال کرنا،[178] لوگوں کو ناک سے خون بہنا یا دریائے نیل کا پانی سرخ اور پینے کے قابل نہ ہونا،[179] خشک سالی،[180] طوفان بھیجنا،[181] ٹڈی،[182] جوئیں[183] کڑک،[184] اور بنی اسرائیل کے قتل ہونے والے افراد کا زندہ ہونا[185] شامل ہیں۔

عصا کو اژدھا میں بدلنا

حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ میں تبدیل ہونے کا معجزہ قرآن کی پانچ سورتوں اور آٹھ آیات میں ذکر ہوا ہے۔[186] قرآن مجید کی آیات کے مطابق موسیٰ کا عصا تین واقعات میں سانپ بن گیا:

  1. کوہ طور پر عصا کا سانپ میں تبدیل ہونا: سورہ قصَص، نمل اور سورہ طہ تینوں میں جو بیان ہوا ہے[187] اس کے مطابق حضرت موسیٰ کا عصا زمین پر گرنے کے بعد[188] ایک "جانّ"[189] یا "حیہ"[190] میں تبدیل ہو گیا، جس کا مطلب سانپ ہے۔[191]
  2. فرعون کے سامنے لاٹھی کا اژدھا میں تبدیل ہونا: قرآن کی آیات کے مطابق جب موسیؑ فرعون کے پاس راہ حق کی دعوت دینے گئے تو فرعون نے ان سے اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے کوئی گواہ طلب کیا اور حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی کو زمین پر پھینک دیا اور اسے "ثُعبان" میں تبدیل کردیا۔[192] ثعبان کا مطلب بہت بڑا سانپ ہے۔[193]
  3. جادوگروں کے سامنے لاٹھی کو سانپ بنا دینا: شعراء، اَعراف اور سورہ طہ میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے اپنی لاٹھی کو اژدھا میں تبدیل کیا[194] اور جادوگروں سے مقابلہ کرنے کے لیے فرعون کی درخواست کی تعمیل کرتے ہوئے آپ نے اپنی لاٹھی کو زمین پر پھینک دیا اور وہ ایک سانپ میں تبدیل ہو گئی جس نے جادوگروں کی تمام رسیاں نگل لیں جو سانپوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔[195] یہ واقعہ جادوگروں کے ایمان لانے کا باعث بنا[196] اور ساتھ ہی ساتھ جادوگروں نے فرعون کو بھی مسترد کر دیا۔[197]

ید بیضا (چمکتا ہوا ہاتھ)

ید بیضا کا معجزہ جس کو سید عبد اللہ شبر[198] اور فضل بن حسن طبرسی[199] جیسے مفسرین نے اسے روشن اور چمکدار ہاتھ کے معنی میں لیا ہے اور شیخ طوسی[200] اور محمد جواد مغنیہ[201] جیسے مفسرین نے اسے سفید ہاتھ کہا ہے، یہ معجزہ قرآن میں حضرت موسیٰ کے ذکر ہونے والے نو معجزات میں سے ایک ہے۔[202] اس معجزہ کا تذکرہ سورہ اعراف، طہٰ، شعراء، نمل اور قصص میں کیا گیا ہے۔[203]
قرآن کی آیات کے مطابق یہ معجزہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ کا فرعون سے ملنے سے پہلے حضرت موسیٰ کو تیار کرنے کے لیے پیش آیا[204] اور دوسری بار فرعون کے پاس واقع ہوا۔[205]

سمندر کا شگافتہ ہونا

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 50 کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو شگافتہ کر کے انہیں بچا لیا جبکہ اس کے مقابلے میں فرعون کے پیروکاروں کو غرق کر دیا۔[206] اس آیت میں سمندر کیسے پھٹ گیا ہے اس کا طریقہ نہیں بتایا گیا ہے۔ لیکن سورہ شعراء کی آیت نمبر 63 میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ کو وحی کی کہ وہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارے اور جب موسیٰ نے ایسا کیا تو سمندر پھٹ گیا اور پانی جمع ہو کر دیوار کی طرح بن گیا۔[207] اسی طرح ایک اور آیت میں فرعون کے غرق ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے۔[208]

موسیٰؑ اور خضرؑ کا قصہ

حضرت خضر اور حضرت موسیٰ کا قصہ موسیٰؑ کی جناب خضرؑ سے ملاقات اور ان کی ہمراہی کے بارے میں ایک قرآنی قصہ ہے۔[209] اس قصے میں موسیٰؑ ایک ایسے شخص سے ملتے ہیں جسے قرآن نے "ان بندوں میں سے ایک بندہ جسے رحمت اور علم دیا گیا ہے" کہا ہے۔ ان سے ملنے کے بعد اس کے ساتھ جانے اور اس سے کچھ سکھانے کی درخواست کرتے ہیں۔[210] شیعہ روایات میں اس شخص کا تعارف حضرت خضرؑ کے نام سے ہوا ہے۔[211]
یہ ہمراہی حضرت موسیٰؑ کی درخواست اور اصرار سے ہوئی تھی۔[212] ابتدائی مخالفت کے باوجود خضرؑ نے انہیں ساتھ لے جانے کو اس شرط پر قبول کیا کہ موسیٰؑ ان سے کوئی سوال نہیں کریں گے۔[213] اس سفر میں، حضرت خضر نے تین کام کیے: کشتی کو سوراخ کرنا،[214] ایک نوجوان کو مارنا،[215] اور ایک پرانی دیوار کی مرمت کرنا۔[216] حضرت موسیٰؑ نے تینوں موقعوں پر اعتراض کیا[217] اور اس کی وجہ سے دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔[218] آخر میں حضرت خضر نے اپنے کیے کی وجہ بیان کی۔[219] یہ قصہ قرآن مجید میں ایک بار بیان ہوا ہے، اور مفسرین، متکلمین اور عرفا کے درمیان اس پر بہت سی بحثیں ہوئی ہیں۔[220]

حضرت موسی کی عصمت

سید مرتضیٰ کے مطابق، اہل سنت کے بر خلاف شیعہ تمام انبیاء علیہم السلام کو ان کی پیدائش سے لے کر ان کی عمر کے آخری لمحے تک تمام گناہوں سے پاک اور معصوم سمجھتے ہیں۔[221]

قبطی کا قتل

 
حضرت موسیٰ کے ہاتھوں ایک قبطی کے قتل کی تصویر کشی

ایک قبطی اور بنی اسرائیل کے ایک شخص کے درمیان لڑائی کے موقعے پر قبطی شخص حضرت موسیٰ کے ہاتھوں مارا گیا۔[222] یہ قصہ سورہ قصص کی آیت نمبر 15 میں بیان کیا گیا ہے۔[223] بعض کا خیال ہے کہ قبطی کو قتل کرنا حضرت موسیٰ کی عصمت سے سازگار نہیں ہے[224] اور اس ناسازگاری کو درج ذیل صورت میں بیان کیا ہے:

  • اگر قبطی آدمی قتل کا مستحق تھا تو سورہ قصص کی آیت نمبر 15 کے مطابق حضرت موسیٰؑ نے اس فعل کے ارتکاب کے بعد یہ کیوں کہا کہ ’’یہ شیطان کا کام ہے‘‘[225] اور اس کے بعد والی آیت میں فرمایا: "اے اللہ میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے، تو مجھے بخش دے "؛[226] نیز سورہ شعراء کی آیت نمبر 20 میں فرمایا: ’’میں نے ایسا اس وقت کیا جب میں بے خبر تھا‘‘[227]
  • اگر قبطی قتل کا مستحق نہ تھا تو حضرت موسیٰ نے ایک بے گناہ کو قتل کر کے گناہ کیا ہے اور یہ ان کے معصوم ہونے سے سازگار نہیں ہے۔[228]

اس کے برعکس، مفسروں کا کہنا ہے کہ قبطی شخص قتل کا مستحق تھا اور اسے قتل کرنا گناہ شمار نہیں ہوتا تھا؛ البتہ اگر حضرت موسیٰ اسے قتل کرنے میں تاخیر کرتے تو بہتر تھا؛ کیونکہ اس کی وجہ سے انہیں تکلیف اٹھانی پڑی اور مصر چھوڑنا پڑا۔ یہ مفسرین حضرت موسیٰ کے اس فعل کو ترک اولی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی استغفار بھی اسی ترک اولی کی وجہ سے تھی۔[229]

بعض اہل سنت مفسرین کا خیال ہے کہ قبطی کو قتل کرنا قتل خطائی (غلطی سے قتل) تھا، اور غلطی سے قتل کرنا ایک گناہ صغیرہ ہے اور حضرت موسیٰ نے اس گناہ صغیرہ کے ارتکاب کی معافی مانگی ہے۔[230]

غصے میں تختیاں پھینکنا

ایک چیز جو حضرت موسیٰ کی عصمت کو مجروح کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہے وہ کوہ طور سے واپسی کے بعد ان کی قوم کے بچھڑے کی پرستش کے جواب میں ان کا طرز عمل ہے۔[231] سورہ اعراف کی آیت نمبر 150 میں بتایا گیا ہے کہ جب موسیٰؑ کوہ طور سے واپس اپنی قوم کے پاس آئے اور ان کے بچھڑے کی پوجا دیکھی تو انہوں نے جو تختی پکڑا ہوا تھا اسے غصے سے زمین پر پھینک دیا اور غصے سے بھائی کا سر پکڑا اور اسے اپنی طرف کھینچا۔[232] تورات میں یہ واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے: "جب موسیٰ خیمہ پر پہنچے اور بچھڑا اور رقاصوں کو دیکھا تو ان کے غصے سے آگ بگولہ ہوئے اور انہوں نے تختیاں اپنے ہاتھوں سے پھینک دیں اور انہیں توڑ دیا۔"[233]

اس بات کے بعض جوابات دئے گئے ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

  • تفسیر مجمع البیان کے مصنف فضل بن حسن طبرسی کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اپنے طرز عمل سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ ان کے اس عمل سے سخت ناراض ہیں اور اس طرح سے آپ ان کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ ان کا عمل کتنا برا ہے تاکہ پھر سے اس طرح کے کام میں مرتکب نہ ہوں اور یہ ان کی عصمت سے منافی نہیں ہے۔[234]
  • علامہ طباطبائی نے موسیٰ اور ہارون کے درمیان اختلاف کو ان دونوں انبیاء کی عصمت کے منافی نہیں سمجھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقدار میں اختلاف معمولی ہے جو اختلافِ سلیقہ اور طریقہ کار میں فرق کی وجہ سے ہوسکتا ہے اور یہ کہ عصمت صرف اور صرف احکام الٰہی کے ساتھ مخصوص ہے۔[235]
  • اہل سنت مفسر زَمَخْشَری کے مطابق، یہاں حضرت موسیٰ کا غصہ خدا کے لیے اور دینی غیرت کی وجہ سے تھا۔[236]

بعض محققین کا کہنا ہے کہ موجودہ تورات میں نہ صرف حضرت موسیٰ کی عصمت کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ بعض انبیاء خصوصاً حضرت موسیٰ[237] کی طرف بعض ناروا نسبتیں بھی دی گئی ہیں جو ان کی عملی عصمت سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔[238] بعض نے تورات کے بعض فقروں سے انبیاء کی عصمت کو استنباط کیا ہے؛ جیسے کہ تورات میں کہا گیا ہے: "[اے نوح] تم اور تمہارے گھر والے کشتی میں داخل ہوجائیں؛ ’’کیونکہ میں نے تم کو اس زمانے میں اپنے حضور عادل پایا‘‘ اس جملے کو عصمت کے معنی میں لیا ہے۔[239]

آثار ہنری

 
بنی اسرائیل کا سمندر پار کرنے کی عکاسی کا قالیچہ

مختلف صدیوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے بہت سے فن پارے تخلیق کیے گئے ہیں؛[240] کئی فلمیں تیار کی گئیں جن میں سب سے مشہور فلم سنہ 1956 کی فلم دس احکام (The Ten Commandments) ہے جسے سنیما کی تاریخ کی عظیم ترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔[241]

فلم "خروج:خدایان اور بادشاہ" (Exodus: Gods and Kings) حضرت موسیٰؑ کے بارے میں ایک اور مشہور فلم ہے، جو 2007 میں بنائی گئی۔[242] اس میدان میں متحرک تصاویر (انیمیشن) بھی تیار کی گئی ہیں۔ اینیمیٹڈ میوزیکل "دی پرنس آف مصر" ان میں سے ایک ہے جو 1988 میں بنائی گئی تھی۔[243]
ایران میں بھی حضرت موسیٰ اور ان کی زندگی کے واقعات پر متعدد قالین بُنے گئے ہیں۔[244] حضرت موسی کے بارے میں ایک اور مشہور آرٹ ان کا مجسمہ ہے جسے مائیکل اینجلو نے 16ویں صدی میں تخلیق کیا تھا اور اس وقت اٹلی کے شہر روم میں موجود ہے۔[245] حضرت موسیٰ کی کے بارے بہت سی پینٹنگز بھی بنائی گئی ہیں۔[246]

حضرت موسی فارسی اشعار میں

سعدی شیرازی نے موسیٰ کی خدا کو دیکھنے کی درخواست اور اللہ کی طرف سے اس کا جواب، "«لَنْ تَرانی؛ "تم مجھے کبھی نہیں دیکھو گے"،[247] کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:

موسی طور عشقم در وادی تمنا - مجروح لن ترانی چون خود ہزار دارم[248]

رومی اپنی نظموں میں بنی اسرائیل کے قتل اور فرعون کے گھر میں حضرت موسی پرورش پانے کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

صد ہزاران طفل می کشت او برون _ موسی اندر صدر خانہ در درون[249]

علامہ اقبال نے بھی حضرت موسیٰ کی زندگی کے ایک پہلو پر گفتگو کی ہے:

جانم ملول گشت ز فرعون و ظلم او _ آن نور جیب موسی عمرانم آرزوست[250]

پروین اعتصامی نے "لطف حق" کے عنوان سے حضرت موسیٰ کی والدہ کے بارے میں ایک نظم لکھی ہے اور اس میں وہ موسیٰؑ پر بھی گفتگو کرتی ہیں۔[251] حافظ[252] اور شہریار[253] سمیت دیگر شعراء نے بھی اپنی نظموں میں موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا ہے۔

 
مینیاتور «موسی و شبان»، اثر حسین بہزاد.

مونوگرافس

حضرت موسیٰ اور ان کی زندگی کے قصوں اور ان کے معجزات کے بارے میں بہت سی کتابیں فارسی، عربی اور انگریزی میں شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں سے کچھ کچھ کتابیں بچوں اور نوعمروں کے لیے ہیں۔ حضرت موسیٰ کے بارے میں کچھ تصانیف درج ذیل ہیں:

  1. تاریخ پیامبران: حضرت موسیٰ، محمد باقر مجلسی کی تصنیف: یہ کتاب انبیاء کے بارے میں دس جلدوں پر مشتمل سیریز کی چوتھی جلد ہے؛
  2. رسالت حضرت موسی(ع) در تورات و قرآن، مرتضی زاہد زادہ کی تحریر، فارسی میں 164 صفحات پر مشتمل ہے؛
  3. قِصَص موسی(ع): قرآن مجید کی آیات پر مبنی ایک عرفانی تفسیر، جسے معین الدین ابن محمد فراہی نے تحریر کی ہے، جو ہندوستان میں "اعجاز موسوی" کے عنوان سے شائع ہوئی ہے؛[254]
  4. العبور: قصَّةُ سیدِنا موسی، عربی زبان میں کمال السید کی تحریر ہے جو 112 صفحات پر مشتمل ہے؛
  5. عصایی کہ مار شد: جسے بہروز رضائی کہریز نے لکھا، کاظم طلائی نے گرافک، اور نیلوفر برومند و غلام علی مکتبی نے تصویرگری کی، بچوں کے لیے فارسی میں 16 صفحات پر مشتمل ہے۔

حوالہ جات

  1. حجازی، التفسیر الواضح، 1413ھ، ج1، ص746۔
  2. شبستری، اعلام القرآن، 1387شمسی، ص937۔
  3. خرمشاہی، «موسی(ع)»، ج2، ص2180۔
  4. زحیلی، تفسیر الوسیط، 1422ھ، ج2، ص1181۔
  5. شبستری، اعلام القرآن، 1387شمسی، ص937۔
  6. زحیلی، تفسیر الوسیط، 1422ھ، ج2، ص1181۔
  7. رہبریان، «موسی»، ص1123۔
  8. رہبریان، «موسی»، ص1123۔
  9. رہبریان، «موسی»، ص1123۔
  10. اعلمی، تراجم أعلام النساء، 1407ھ، ج2، ص145۔
  11. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص82۔
  12. سورہ مریم، آیہ 51-52۔
  13. سورہ مریم، آیہ 51۔
  14. سورہ اعراف، آیہ 144۔
  15. ابن عطیہ، المحرر الوجیز، 1422ھ، ج1، ص148۔
  16. زحیلی، التفسیر المنیر، 1418ھ، ج21، ص216۔
  17. رہبریان، «موسی»، ص1123۔
  18. حجازی، التفسیر الواضح، 1413ھ، ج1، ص746۔
  19. فضل اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج14، ص28۔
  20. احمدی، «نظریہ ای دربارہ محدود بودن شریعت حضرت موسی و حضرت عیسی بہ بنی اسرائیل»، پرتال جامع علوم انسانی۔
  21. «در کوہ طور»، آرتیبیشن۔
  22. فضل اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج20، ص202۔
  23. بروجردی، تفسیر جامع، 1366شمسی، ج2، ص462
  24. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج2، ص495۔
  25. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج6، ص363۔
  26. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص316۔
  27. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج16،ص32۔
  28. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص315۔
  29. ملا حویش، بیان المعانی، 1382ھ، ج2، ص394۔
  30. خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص2180۔
  31. مصطفوی، التحقیق، 1360ھ، ج11، ص206۔
  32. مسعودی، اثبات الوصیة، نشر انصاریان، ج1 ص64۔
  33. بروجردی، تفسیر جامع، 1366شمسی، ج5، ص147۔
  34. خروج، فصل اول، آیہ9 -10۔
  35. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج16، ص12-13۔
  36. جرجانی، جلاء الأذہان، 1377شمسی، ج7، ص153۔
  37. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج3، ص83۔
  38. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج6، ص51۔
  39. سورہ قصص، آیہ7۔
  40. سورہ طہ، آیہ38۔
  41. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج16، ص10۔
  42. کتاب خروج، فصل دو، آیہ 3۔
  43. طیب، أطیب البیان، 1378شمسی، ج10، ص207۔
  44. سورہ قصص، آیہ11۔
  45. سورہ قصص، آیہ10۔
  46. سورہ قصص، آیہ7۔
  47. سورہ قصص، آیہ 8۔
  48. خروج، فصل2، آیہ9۔
  49. ملاحویش، بیان المعانی، 1382ھ، ج6، ص239؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج3، ص84۔
  50. سورہ قصص، آیہ9۔
  51. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص13۔
  52. اس تک اوپر جائیں: 52.0 52.1 مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج16، ص36۔
  53. سورہ شعراء، آیہ 18۔
  54. خروج، فصل دوم، آیات9-10۔
  55. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج3، ص84۔
  56. سورہ قصص، آیہ 15۔
  57. سورہ قصص، آیہ 20۔
  58. سورہ قصص، آیہ 21۔
  59. طالقانی، پرتوی از قرآن، 1362شمسی، ج3، ص88۔
  60. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج3، ص85۔
  61. سورہ قصص، آیہ 24۔
  62. قمی، تفسیر القمی، 1367شمسی، ج2، ص138؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج3، ص85۔
  63. سورہ قصص، آیہ25۔
  64. سورہ قصص، آیہ27۔
  65. سورہ قصص، آیات27-28۔
  66. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج16، ص72۔
  67. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج 16، ص31۔
  68. سورہ نمل، آیہ7۔
  69. سورہ قصص، آیہ30۔
  70. سورہ طہ، آیہ14۔
  71. سورہ طہ، آیہ13۔
  72. سورہ طہ، آیہ19۔
  73. سورہ طہ، آیہ20۔
  74. سورہ طہ، آیہ21۔
  75. سورہ طہ، آیہ22۔
  76. قرائتی، تفسیر نور، 1383شمسی، ج7، ص333۔
  77. سورہ شعراء، آیہ10-11۔
  78. سورہ شعراء، آیہ12۔
  79. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج7، ص292۔
  80. سورہ شعراء، آیہ13۔
  81. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج15، ص197۔
  82. طبرسی، جوامع الجامع، 1377شمسی، ج3، ص152۔
  83. سورہ شعراء، آیہ15۔
  84. سورہ شعراء، آیہ17۔
  85. سورہ شعراء، آیات30-33۔
  86. سورہ شعراء، آیہ34۔
  87. سورہ شعراء، آیات 38- 48۔
  88. سورہ اعراف، آیہ133۔
  89. طیب، أطیب البیان، 1378شمسی، ج2، ص30۔
  90. طیب، أطیب البیان، 1378شمسی، ج2، ص30۔
  91. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج15، ص243۔
  92. سورہ شعراء، آیہ63۔
  93. سورہ شعراء، آیہ35۔
  94. سورہ بقرہ، آیہ50۔
  95. حسینی شیرازی، تبیین القرآن، 1423ھ، ص170۔
  96. سورہ اعراف، آیہ148۔
  97. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج2، ص388۔
  98. سورہ اعراف، آیہ152۔
  99. سورہ اعراف، آیہ155۔
  100. سورہ بقرہ، آیہ 55۔
  101. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص258۔
  102. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج1، ص105۔
  103. سورہ اعراف، آیہ155۔
  104. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص258۔
  105. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج3، ص87۔
  106. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج11، ص333۔
  107. سورہ مائدہ، آیہ26۔
  108. سورہ مائدہ، آیہ26۔
  109. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص261۔
  110. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص261۔
  111. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص272۔
  112. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج3، ص87؛ مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج1، ص111۔
  113. طالقانی، پرتوی از قرآن، 1362شمسی، ج1، ص171۔
  114. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج3، ص88۔
  115. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج3، ص87؛ ثعلبی نیشابوری، الکشف و البیان، 1422ھ، ج4، ص45۔
  116. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج3، ص277۔
  117. مسعودی، اثبات الوصیة، نشر انصاریان، ص64۔
  118. شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج2، ص524۔
  119. مصطفوی، التحقیق، 1360شمسی، ج14، ص276۔
  120. مسعودی، اثبات الوصیة، 1384شمسی، ص63۔
  121. شبر، تفسیر القرآن الکریم، 1412ھ، ص308۔
  122. سورہ نمل، آیہ7۔
  123. سورہ قصص، آیہ30۔
  124. سورہ طہ، آیہ13۔
  125. شبستری، اعلام القرآن، 1387شمسی، ص937۔
  126. سورہ طہ، آیہ13۔
  127. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج14، ص139۔
  128. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج7، ص10۔
  129. سورہ طہ، آیہ13۔
  130. سورہ طہ، آیہ14۔
  131. سورہ طہ، آیہ14۔
  132. سورہ طہ، آیہ15۔
  133. موسوی سبزواری، مواہب الرحمان، 1409ھ، ج10، ص109۔
  134. بستانی، دائرةالمعارف، دارالمعرفة، ج 7، ص264۔
  135. بستانی، دائرةالمعارف، دارالمعرفة، ج 7، ص264۔
  136. موسی پور، «تورات»، ج8، ص443۔
  137. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص210۔
  138. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج9، ص287؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج27، ص587؛ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج2، ص141۔
  139. ازہری، تہذیب اللغة، 1421ھ، ج1، ص272۔
  140. سورہ یونس، آیہ 75؛ سورہ غافر، آیات 23 و 24؛ سورہ زخرف، آیہ 46؛ سورہ شعراء، آیات 16 و 17۔
  141. سبحانی، مفاہیم القرآن، 1421ھ، ج3، ص79-80۔
  142. سورہ اسراء، آیہ 2؛ سورہ سجدہ، آیہ 23؛ سورہ غافر، آیہ 53۔
  143. فخر رازی، تفسیر الکبیر، 1420ھ، ج20، ص297؛ آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج8، ص15۔
  144. فخر رازی، تفسیر الکبیر، 1420ھ، ج20، ص297۔
  145. مکارم شیرازی، فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص587؛ شلبی، مقارنة الادیان الیہودیة، 1992م، ص238۔
  146. سورہ انعام، آیہ 91؛ سورہ انبیاء، آیہ 48۔
  147. سبحانی، مفاہیم القرآن، 1421ھ، ج3، ص86۔
  148. سلیمانی، «احکام 613گانہ تورات»، ص153۔
  149. سلیمانی، «جرایم در حقوق کیفری یہود»، ص142۔
  150. لوی، احکام و مقررات حضرت موسی، 1375شمسی، ص22۔
  151. ہاکس، قاموس کتاب مقدس، 1394شمسی، ص760۔
  152. تورات، سفر لاویان، باب 11، فقرات 1-47۔
  153. تورات، سفر لاویان، باب 12، فقرات 1-7 و باب 15، فقرات 1-33۔
  154. تورات، سفر لاویان، باب 16، فقرات 5-27۔
  155. تورات، سفر لاویان، باب 18، فقرات 6-30 و باب 20، فقرات 10-21؛ نیز دیکھئے؛ سفر تثنیہ، باب 22، فقرات 14-20۔
  156. تورات، سفر لاویان، باب 23، فقرات 5-44۔
  157. تورات، سفر لاویان، باب 27، فقرات 14-31۔
  158. تورات، سفر اعداد، باب 5، فقرات 12-31۔
  159. تورات، سفر اعداد، باب 35، فقرات 16-32۔
  160. تورات، سفر اعداد، باب 6، فقرات 1-21۔
  161. تورات، سفر اعداد، باب 15، فقرات 1-31۔
  162. تورات، سفر اعداد، باب 18۔
  163. تورات، سفر اعداد، باب 31، فقرات 26-54۔
  164. تورات، سفر تثنیہ، باب 4، فقرات 4-21۔
  165. تورات، سفر تثنیہ، باب 1، فقرات 15-18 و باب 16، فقرات 18-21 و باب 17، فقرات 6-12۔
  166. تورات، سفر تثنیہ، باب 19، فقرات 15-21۔
  167. تورات، سفر تثنیہ، ابواب 20، فقرات 1-20۔
  168. تورات، سفر تثنیہ، باب 24، فقرات 1-5۔
  169. طبرسی، مجمع البیان، 1406ھ، ج6، ص684-685۔
  170. طباطبایی،المیزان، 1393ھ، ج13، ص217؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج12، ص311 و 312۔
  171. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص217؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج12، ص311۔
  172. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص69؛ بقرہ، 50؛ اعراف، 136-138؛ یونس، 90؛ اسراء، 103؛ طہ، 77و78؛ شعراء، 63و66؛ قصص، 40؛ زخرف، 55؛ دخان، 23-24؛ ذاریات، 40؛ قمر، 42؛ نازعات، 25۔
  173. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص69؛ اعراف، 107و117؛ طہ، 20و69؛ شعراء، 32و45؛ نمل، 10؛ قصص، 31۔
  174. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص69؛ اعراف، 108؛ طہ، 22؛ شعراء، 33؛ نمل، 12؛ قصص، 32۔
  175. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص70؛ بقرہ، 63و93؛ نساء، 154؛ اعراف، 171۔
  176. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص69؛ بقرہ، 55و56؛ نساء، 153۔
  177. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص70؛ بقرہ، 57؛ اعراف، 160؛ طہ، 80۔
  178. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص70؛ بقرہ، 57؛ اعراف، 160۔
  179. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص69؛ اعراف، 133۔
  180. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص69؛ اعراف، 130۔
  181. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص69؛ اعراف، 133۔
  182. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص69؛ اعراف، 133۔
  183. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص69؛ اعراف، 133۔
  184. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص69؛ اعراف، 133۔
  185. نیک منش، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی...، 1387شمسی، ص69؛ بقرہ، 67-74۔
  186. رہنما و پارچہ باف، «تأملی در تعریف کلامی معجزہ...»، ص5۔
  187. رہنما و پارچہ باف، «تأملی در تعریف کلامی معجزہ...»، ص8-9۔
  188. سورہ طہ، آیہ 19۔
  189. سورہ قصص، آیہ 31؛ سورہ نمل، آیہ 10۔
  190. سورہ طہ، آیہ 20۔
  191. گروہ فرہنگ و ادب بنیاد پژوہش ہای اسلامی، فرہنگنامہ قرآنی، 1372شمسی، ج2، ص602۔
  192. سورہ شعراء، آیہ 32۔
  193. طریحی، مجمع البحرین، 1375شمسی، ج2، ص17-18۔
  194. سورہ شعراء، آیہ 32۔
  195. سورہ اعراف، آیہ 117۔
  196. سورہ اعراف، آیہ 120، 121؛ سورہ طہ، آیہ 70؛ سورہ شعراء، آیہ 46-48۔
  197. سورہ اعراف، آیہ 123؛ سورہ طہ، آیہ 71؛ سورہ شعراء، آیہ 49۔
  198. شبر، تفسیر القرآن الکریم، 1412ھ، ج1، ص180۔
  199. طبرسی، مجمع البیان،1372شمسی، ج4، ص705۔
  200. شیخ طوسی، التبیان، ج4، ص492۔
  201. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج3، ص375۔
  202. سورہ نمل، آیہ 12۔
  203. سورہ اعراف: آیہ 108؛ سورہ طہ، آیہ 22؛ سورہ شعراء، آیہ 33؛ سورہ نمل، آیہ 12؛ سورہ قصص، آیہ 32۔
  204. سورہ طہ، آیہ 22-24۔
  205. سورہ شعراء، آیہ 33-34۔
  206. سورہ بقرہ، آیہ 50۔
  207. سورہ شعراء، آیہ 63۔
  208. سورہ اسراء، آیہ 103۔
  209. سورہ کہف، آیات 60-82۔
  210. سورہ کہف، آیہ65۔
  211. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج3، ص250۔
  212. سورہ کہف، آیہ 66۔
  213. سورہ کہف، آیات 67-69۔
  214. سورہ کہف، آیہ 69۔
  215. سوررہ کہف، آیہ 74۔
  216. سورہ کہف، آیہ 77۔
  217. سورہ کہف، آیات71، 74 و 77۔
  218. سورہ کہف، آیہ 78۔
  219. سورہ کہف، آیہ 78۔
  220. ملاحظہ کریں: گنابادی، قرآن مجید و سہ داستان اسرار آمیز عرفانی، 1360شمسی، ص51۔
  221. سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء، الشریف الرضی، ص2۔
  222. راوندی، قصص الانبیا، 1368شمسی، ص154-155؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1353شمسی، ج16، ص54۔
  223. سورہ قصص، آیہ 15۔
  224. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج24، ص585۔
  225. فاضل مقداد، اللوامع الالہیة، 1380شمسی، ص259۔
  226. سورہ قصص، آیہ16۔
  227. سورہ شعراء، آیہ 20.۔
  228. فاضل مقداد، اللوامع الالہیة، 1380شمسی، ص259۔
  229. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج8، ص137؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، 1380شمسی، ص259۔
  230. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج3، ص398؛ آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج10، ص264۔
  231. فخر رازی، عصمة الانبیاء، 1409ھ، ص92۔
  232. سورہ اعراف، آیہ 150۔
  233. تورات، سفر خروج، باب 32، فقرہ 19۔
  234. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج4، ص743۔
  235. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج8، ص251۔
  236. زمخشری، الکشاف، 1418ھ، ج2، ص161۔
  237. برای نمونہ نگاہ کنید بہ:سفر پیدایش، باب 19، فقرہ 21 و فقرات 30-38؛ سفر خروج، باب 4، فقرات 8-14۔
  238. کاوہ، «عصمت فعلی انبیای الہی در کتب ادیان بزرگ»، ص37-38۔
  239. اشرفی و رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عہدین»، ص29۔
  240. میرعبداللہ لواسانی، «تصویر حضرت موسی(ع) درآثار ہنری جہان»، انجمن کلیمیان تہران۔
  241. «دہ فرمان چگونہ ساختہ شد؟»، سینما سنتر۔
  242. «نقد و بررسی فیلم ہجرت: خدایان و پادشاہان»، سایت موی مگ۔
  243. «روایت تاریخی_فرہنگی انیمیشن شاہزادہ مصر»، خبرگزاری ایمنا۔
  244. میرعبداللہ لواسانی، «نگرشی بر تصویر حضرت موسی(ع) در فرش ایران»، انجمن کلیمیان تہران.۔
  245. رمضان ماہی، «تحلیل مجسمہ موسی ساختہ میکل آنژ»، سایت تبیان۔
  246. میرعبداللہ لواسانی، «تصویر حضرت موسی(ع) درآثار ہنری جہان»، انجمن کلیمیان تہران۔
  247. سورہ اعراف، آیہ143۔
  248. سعدی، غزلیات، غزل389. سایت گنجور۔
  249. مولانا، مثنوی معنوی، دفتر سوم، «بخش 36 - وحی آمدن بہ مادر موسی کی موسی را در آب افکن»، سایت گنجور۔
  250. اقبال لاہوری، جاویدنامہ، تمہید زمینی - آشکارا می شود روح حضرت رومی و شرح میدہد اسرار معراج را.، سایت گنجور۔
  251. اعتصامی، «دیوان اشعار، لطف حق»، سایت گنجور۔
  252. حافظ، «غزلیات، غزل شمارۂ 373»، سایت گنجور۔
  253. شہریار، «غزل شمارۂ 7»: طور تجلی»، سایت گنجور۔
  254. فراہی ہروی، قصص موسی(ع)، 1393شمسی، مقدمہ مصحح، صفحہ سیزدہ۔

نوٹ

  1. بعض نے اس میقات کو وہی چالیس دن والا میقات قرار دیا ہے (مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج6، ص342-343) بعض نے اسے کوئی اور میقات قرار دیا ہے (ملاحویش، بیان المعانی، 1382ھ، ج1، ص431-432).

مآخذ

  • آلوسی، محمود بن عبد اللہ، روح المعاني في تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، بیروت، دارالکتب العلمية، چاپ اول، 1415ھ۔
  • ابن عطیہ، عبدالحق بن غالب، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، تحقیق: عبدالسلام عبدالشافی محمد، بیروت، دارالکتب العلمیة، چاپ اول، 1422ھ۔
  • ازہری، محمد بن احمد، تہذیب االلغة، بیروت، دارإحياء التراث العربی، 1421ھ۔
  • اشرفی، عباس و ام البنین رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عہدین»، پژوہش نامہ معارف قرآنی، شمارہ 12، بہار 1392ہجری شمسی۔
  • اعتصامی، پروین، «دیوان اشعار، لطف حق»، سایت گنجور، تاریخ بازدید: 3آذر 1400ہجری شمسی۔
  • اعلمى، محمدحسين‏، تراجم أعلام النساء، بيروت‏، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات‏، 1407ھ۔
  • اقبال لاہوری، محمد، «جاویدنامہ، تمہید زمینی - آشکارا می شود روح حضرت رومی و شرح میدہد اسرار معراج را»، سایت گنجور، تاریخ بازدید: 3آذر 1400ہجری شمسی۔
  • امین، مہدی، کلیات تاریخ ادیان از دیدگاہ قرآن و حدیث، قم، بیان جوان، 1389ہجری شمسی۔
  • بروجردی، سید محمدابراہیم، تفسیر جامع، تہران، انتشارات صدر، چاپ ششم، 1366ش
  • بستانی، بطرس، دائرہ المعارف، بیروت، دار المعرفہ، بی تا.
  • ثعلبی نیشابوری، احمد بن ابراہیم، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • جرجانی، حسین بن حسن، جلاء الأذہان و جلاء الأحزان، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1377ہجری شمسی۔
  • حجازی، محمد محمود، التفسیر الواضح، بیروت، دارالجیل الجدید، چاپ دہم، 1413ھ۔
  • حسینی شیرازی، سید محمد، تبیین القرآن، بیروت، دار العلوم، چاپ دوم، 1423ھ۔
  • خرمشاہی، قوام الدین، «موسی(ع)»، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، دوستان، 1377ہجری شمسی۔
  • «در کوہ طور»، آرتیبیشن، تاریخ بازدید: 14 خرداد 1401ہجری شمسی۔
  • «دہ فرمان چگونہ ساختہ شد؟»، سینما سنتر، تاریخ بازدید: 3آذر 1400ہجری شمسی۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات في غريب القرآن، دمشق، دارالقلم، چاپ اول، 1412ھ۔
  • راوندی، قطب الدین، قصص الانبیا، مشہد، آستان قدس رضوی، 1368ہجری شمسی۔
  • رمضان ماہی، سمیہ، «تحلیل مجسمہ موسی ساختہ میکلانژ»، سایت تبیان، تاریخ بازدید:3آذر 1400ہجری شمسی۔
  • «روایت تاریخی_فرہنگی انیمیشن شاہزادہ مصر»، خبرگزاری ایمنا، تاریخ بازدید:3آذر 1400ہجری شمسی۔
  • رہبریان، محمدرضا، «موسی»، دانشنامہ معاصر قرآن کریم، سرویراستار: سید سلمان صفوی، قم، آکادمی مطالعات ایرانی لندن، 2018م.
  • زحیلی، وہبة بن مصطفی، التفسیر المنیر فی العقیدة و الشریعة و المنہج، بیروت، دمشق، دارالفکر المعاصر، چاپ دوم، 1418ھ۔
  • زحیلی، وہبة بن مصطفی، تفسیر الوسیط، دمشق، دارالفکر، چاپ اول، 1422ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عبداللہ، الکشاف، ریاض، مکتبة العبیکان، 1418ھ۔
  • ساقی، ابوالفضل، ترجمہ فارسی تورات، تہران، پژوہش ہای حقوق و ادیان، 1398ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، مفاہیم القرآن، قم، مؤسسة الامام الصادق عليہ السلام، چاپ سوم، 1421ھ۔
  • سعدی شیرازی، مصلح بن عبداللہ، «غزلیات، غزل 389»، سایت گنجور، تاریخ بازدید: 3آذر 1400ہجری شمسی۔
  • سلیمانی، حسین، «احکام 613گانہ تورات»، ہفت آسمان، شمارہ 18، تابستان 1382ہجری شمسی۔
  • سلیمانی، حسین، «جرایم در حقوق کیفری یہود»، ہفت آسمان، شمارہ 16، زمستان 1381ہجری شمسی۔
  • سید مرتضی، علم الہدی، تنزیہ الانبیاء، قم، الشریف الرضی، بی تا.
  • شبر، سید عبد اللہ، تفسیر القرآن الکریم، بیروت، دار البلاغة للطباعة و النشر، چاپ اول، 1412ھ۔
  • شبستری، عبدالحسین، اعلام القرآن، قم، بوستان کتاب، 1387ہجری شمسی۔
  • شلبی، احمد، مقارنة الادیان الیہودیة، قاہرہ، مکتبة النہضة المصریة، چاپ دہم، 1992م.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، عیون اخبار رضا(ع)، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، چاپ اول، 1404ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمة، تہران، اسلامیہ، چاپ دوم، 1395ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق احمد قصیر عاملی، بیروت، داراحیاءالتراث العربی، بی تا.
  • طالقانی، محمود، پرتوی از قرآن، تہران، سہامی انتشار، 1362ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ محمدجواد بلاغی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفة، چاپ اول، 1412ھ۔
  • طریحی، فخرالدین بن محمد، مجمع البحرین، تہران، انتشارات مرتضوی، 1375ہجری شمسی۔
  • طیب، عبد الحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، 1378ہجری شمسی۔
  • فاضل مقداد، عبد اللہ بن مقداد، لوامع اللہیة فی المباحث الکلامیة، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1380ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1420ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، عصمة الانبیاء، بیروت، دار الكتب العلمیة، 1409ھ۔
  • فراہی ہروی، معین الدین، قصص موسی(ع): تفسیری عرفانی بر پایہ آیات قرآن مجید، بہ اہتمام و تصحیح محسن کیانی و احمد بہشتی شیرازی، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، 1393ہجری شمسی۔
  • فضل اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دارالملاک للطباعة و النشر، چاپ دوم، 1419ھ۔
  • فیض کاشانی، ملامحسن، تفسیر الصافی، تحقیق: اعلمی، حسین، انتشارات الصدر، تہران، چاپ دوم، 1415ھ۔
  • قرائتی، «مثنوی موسی و شبان مولوی کاملا ضد قرآنی است»، سایت خبرآنلاین. تاریخ بازدید:3آذر 1400ہجری شمسی۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس ہایی از قرآن، 1383ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، قم، دارالکتاب، 1367ہجری شمسی۔.
  • کاوہ، محمد، «عصمت فعلی انبیای الہی در کتب ادیان بزرگ»، اندیشہ نوین دینی، شمارہ 20، بہار 1389ہجری شمسی۔
  • کریمی، حمید، «بررسی مسئلہ جہانی بودن رسالت موسی و عیسی(ع) از نگاہ قرآن و عہدین»، اندیشہ نوین دینی، شمارہ 22، پاییز 1389ہجری شمسی۔
  • گروہ فرہنگ و ادب بنیاد پژوہشہای اسلامی (آستان قدس رضوی)، فرہنگنامہ قرآنی، با نظارت محمدجعفر یاحقی، مشہد، مؤسسہ چاپ و انتشارات آستان قدس رضوی، 1372ہجری شمسی۔
  • «لقب حضرت موسی بہ فارسی چہ می باشد و نبوت ایشان چگونہ بود؟»، انجمن کلیمیان تہران، تاریخ بازدید: 18 آبان 1400ہجری شمسی۔
  • لوی، حبیب، احکام و مقررات حضرت موسی، تہران، بی نا، 1375ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیة للامام على بن ابی ‏طالب(ع)‏، نشر انصاریان، چاپ سوم، 1384 / 1426ھ۔
  • مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، 1360ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، تہران، دارالکتب الإسلامیة، چاپ اول، 1424ھ۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، بی تا.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیة، چاپ اول، 1374ش
  • مکارم شیرازی، ناصر، موسوعة الفقہ الاسلامی المقارن ، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب، 1427ھ۔
  • ملاحُوَیش، آل غازی عبدالقادر، بیان المعانی، دمشق، مطبعة الترقی، 1382ہجری شمسی۔
  • موسوی سبزواری، سید عبدالاعلی، مواہب الرحمان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ اہل بیت(ع)، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • موسی پور، ابراہیم، «تورات»، دانشنامہ جہان اسلام، زیرنظر غلامعلی حداد عادل، تہران، بنیاد دایرہ المعارف اسلامی، 1383ہجری شمسی۔
  • مولوی، جلال الدین، «مثنوی معنوی»، سایت گنجور، تاریخ بازدید: 3آذر 1400ہجری شمسی۔
  • میرعبداللہ لواسانی، افشین، «تصویر حضرت موسی(ع) در آثار ہنری جہان»، انجمن کلیمیان تہران، تاریخ بازدید:3 آذر 1400ہجری شمسی۔
  • میرعبداللہ لواسانی، افشین،«نگرشی بر تصویر حضرت موسی(ع) در فرش ایران»، انجمن کلیمیان تہران، تاریخ بازدید: 3آذر 1400ہجری شمسی۔
  • «نقد و بررسی فیلم ہجرت: خدایان و پادشاہان»، سایت موی مگ، تاریخ بازدید:3آذر1400ہجری شمسی۔
  • نیک منش، لیلا، بررسی معجزات نہ گانہ حضرت موسی(ع) در قرآن و تطبیق آن با عہد عتیق، رشتہ علوم قرآن و حدیث، تہران، دانشگاہ تربیت معلم، دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی، 1387ہجری شمسی۔
  • ہاکس، جیمز، قاموس کتاب مقدس، تہران، اساطیر، 1394ہجری شمسی۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، چاپ پنجم‏، 1417ھ۔