ابو عبیدہ جراح
ابو عبیدہ جراح (38 قبل از ہجرت- 18ھ/639ء) پیغمبر اکرم کے اصحاب اور حضرت ابو بکر و عمر کے نزدیکیوں میں سے تھا اور اپنے اصلی نام کی بجائے اَبو عُبَیده جَرّاح کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ اس نے واقعۂ سقیفہ میں خلافت ابو بکر کی صرف حمایت ہی نہیں بلکہ مخالفین خلافت ابو بکر سے بیعت حاصل کرنے خاص طور پر حضرت علیؑ سے بیعت لینے میں نمایاں کردار ادا کیا نیز ابتدائی خلافتوں کی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سنہ 17 یا 18 ھ میں وفات پائی۔
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | عامر بن عبدالله بن جراح |
کنیت | ابو عبیدہ |
لقب | جراح |
تاریخ پیدائش | 38 سال ہجرت سے پہلے، مکہ |
محل زندگی | مکہ، حبشہ، مدینہ |
وفات | 18ھ |
دینی معلومات | |
جنگوں میں شرکت | بدر، احد ... |
ہجرت | حبشہ، مدینہ |
وجہ شہرت | صحابی |
زندگی
جنگ فجار میں اس کا باپ عبد اللہ قریش کے سرداروں میں سے تھا[3] اور وہ بعثت سے پہلے فوت ہوا[4] اس کی والدہ بھی قریش سے تھی جس نے بعد اسلام قبول کیا۔[5]
کہتے ہیں کہ ابو عبیدہ نے ارقم بن ابی ارقم اور عثمان بن مظعون کے ہمراہ پیغمبرؐ کے پاس اسلام قبول کیا۔[6] ایک اور قول کے مطابق اس نے ابتدا میں ابوبکر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔[7] حبشہ ہجرت کرنے والوں میں سے تھا۔[8]
ہجرت
ابو عبیدہ نے رسول خدا کی مدینہ ہجرت کے بعد حبشہ سے مکہ واپس آ کر مدینہ ہجرت کی[9] پیامبرؐ نے سعد بن معاذ[10] یا ابو حذیفہ کے غلام سالم[11] کے درمیان اخوت قائم کی اور باہمی میراث پانے میں محمد بن مسلمہ کے درمیان اخوت قائم کی۔[12]
جنگوں میں شرکت
ابو عبیدہ نے غزوات میں شرکت کی. ایک نقل کے مطابق غزوہ بدر[13] میں اس نے اپنے باپ عبد اللہ کو قتل کیا اور اسی وجہ سے اس کی شان میں ایک آیت رسول خدا پر نازل ہوئی۔[14] لیکن واقدی کی یہ تصریح کہ اس کا باپ اسلام کے آنے سے پہلے فوت ہو چکا تھا۔[15]، ابو عبیدہ کے بعد اس کے فضائل میں جعل کئے جانے کا احتمال ہے۔
ایک تاریخی نقل کے مطابق جنگ احد میں رسول خدا کو تمام صحابہ کے چھوڑ جانے کے موقع پر ابو عبیدہ ان افراد میں سے ہے جس نے آپ کو تنہا نہیں چھوڑا۔[16] لیکن اسکے مقابلے میں دیگر مآخذ جیسے تاریخ الاسلام ذہبی و سیرت ابن ہشام نے اس کا نام ذکر نہیں کیا نیز دیگر تاریخی منابع مانند تاریخ طبری و یعقوبی نے ان افراد کے نام ہی ذکر نہیں کئے ہیں۔
اسی طرح جنگ احد میں خَود کے آہنی دو حلقے رسول اللہ کے جسم اطہر میں اس طرح داخل ہو گئے کہ ابو عبیدہ کو مجبورا دانتوں سے انہیں باہر نکالنا پڑا۔ اسی وجہ سے اس کے سامنے کے دو دانت گر گئے۔[17]
ابو عبیدہ نے دیگر جنگوں میں بھی شرکت کی۔[18] نیز ایک سریے میں اور ایک غزوے میں سپہ سالاری اس کے سپرد تھی[19] صلح حدیبیہ کے شاہدوں میں سے بھی ہے۔[20]
تاریخی منابع میں رسول اکرم کے ساتھ بعض نمائندہ گروہوں کے عہدناموں پر ان کے اسلام لانے کی بابت گواہی مذکور ہے۔[21] کہتے ہیں رسول اللہ نے اسے تبلیغ دین کیلئے بحرین[22] یا نجران یا یمن بھیجا۔[23]
اسامہ کی قیادت
پیغمبر ؐ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسامہ بن زید کی قیادت میں شام کی سرحدوں کی طرف روانہ کیا کہ جس میں ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابو عبیده جیسے اصحاب موجود تھے۔ لیکن بعض لشکریوں کی مخالفت کی وجہ سے اسامہ نے رسول اللہ کی شہادت تک مدینے کے قریب ہی پڑاؤ ڈالے رکھا۔ وہ لشکر رسول اکرم کی شہادت کی خبر سن کر مدینے واپس لوٹ آیا۔[24] پیغمبر ؐ نے اسامہ کے لشکر کے شرکت میں شرکت نہ کرنے والوں پر لعنت فرمائی۔
ابوبکر کو خلافت تک پہنچانے میں کردار
وفات پیغمبر ؐ کے بعد انصار میں سے ایک جماعت سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ کے تعین کیلئے اکٹھا ہوئی جن میں خلافت کا امیدوار سعد بن عباده تھا۔[25] جب عمر بن خطاب کو اس کی خبر ملی تو اس نے ابوبکر اور ابو عبیده کو سقیفہ بھیجا۔[26]
وہاں مہاجرین اور انصار کے درمیان مجادلے اور جھگڑے کے بعد حضرت ابوبکر کا خلیفہ کے عنوان سے چناؤ ہوا اور وہاں موجود افراد نے اس کی بیعت کی۔ یہانتک نقل ہوا ہے کہ ابوبکر کی بیعت ابو عبید یا عمر کی خواست پر ہوئی۔[27]
ابوعبیده نے ابو بکر کی بیعت کے بارے میں انصار سے کہا: اے انصار کی جماعت! تم رسول خدا کی حمایت کرنے والے پہلے گروہ ہو لیکن اب اسلام کو سب سے پہلے دگرگوں کرنے والے مت بنو۔[28]
مخالفین حکومت سے بیعت
حضرت ابوبکر کے خلافت حاصل ہونے کے بعد پہلے خلیفہ کے مخالفین خاص طور پر حضرت علی سے بیعت لینے میں ابو عبیدہ نے اہم کردار ادا کیا۔[29] ابو عبیده نے ابوبکر کی بیعت کرنے کیلئے ابوبکر، عمر اور مغیرہ بن شعبہ کے ساتھ مل کر رسول کے چچا عباس کی تلاش شروع کی۔[30] حضرت ابو بکر کی خلافت کے استحکام کے بعد بیت المال سنبھالنے کا عہدہ اس کے سپرد ہوا نیز زندگی کے آخری ایام تک وہ خلافت کے اہم تریں ارکان میں سے رہا۔[31]
ابو عبیده اور جنگیں
رسول خدا کی وفات کے بعد فتنۂ ارتداد نے سر اٹھایا۔ اس دوران جھوٹے مدعیان نبوت کے خلاف ہونے والی جنگوں میں ابو عبیدہ اور عمر، حضرت ابو بکر کو استحکام خلافت سے پہلے عوام سے زکات لینے کے معاملے میں زیادہ سختگیری کرنے سے روکتے تھے۔[32] شاید اسی وجہ سے ان جنگوں سے مربوط واقعات میں ابو عبیدہ کا کوئی زیادہ واضح کردار نظر نہیں آتا ہے۔ اسکے باوجود شام کی فتح کے موقع پر خلیفہ کی طرف سے رائے طلب کرنے موقع پر وہ خلیفہ کے بہترین مشاورین میں تھا۔[33]
فتوحات اسلامی میں شرکت
فتح شام
فتوحات شام سے مربوط روایات میں ابو عبیدہ کی شرکت اور سرگرمیاں بہت زیادہ غیر واضح ہیں۔ اس کا سبب ایران و شام کی سرزمینوں کی فتح سے متعلق روایات میں پایا جانے والا تناقض ہے۔ طبری[34] کی ابن اسحاق سے مروی روایت کے مطابق ابو عبیده ابوبکر کی جانب سے ان چند سرداروں میں تھے جو شام کی طرف گئے[35] اگرچہ اس معاملے میں تمام سپاہ کی سرداری ابو عبیدہ کے حوالے کرنے کی روایات بھی مذکور ہیں لیکن یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شام کی زمینوں کے فتح کے موقع کے حالات سپہ سالاری ایک فرد کے حوالے کرنے کے موافق نہیں تھے۔[36]
جب دمشق مسلمانوں کے محاصرے میں تھا۔ اس وقت ابوبکر کی وفات ہوگئی اور حضرت عمر شروع سے ہی خالد بن ولید کے موافق نہیں تھے۔[37] لہذا انہوں نے خلافت پر تخت نشین ہوتے ہی کسی قیل قال کے بغیر ابو عبیدہ کو مسلمانوں کے لشکر کا سپہ سالار بنا دیا۔[38]
طبری [39] کی سیف بن عمر سے منقول خبر کے مطابق خالد نے شروع میں لشکر کے اندر پھوٹ پڑنے کے خطرے کے پیش نظر اپنے معزول ہونے کی خبر کو لشکریوں چھپائے رکھا۔ لکھتے ہیں کہ ابو عبیده نے بھی شروع میں اپنے سپہ سالار بننے کی خبر کو آشکار نہیں کیا۔[40]
بعلبک و حمص
ابو عبیده دمشقیوں سے صلح کے بعد حمص روانہ ہو گیا اور پہلے بعلبک والوں سے صلح کی اور پھر اس نے حمص پر حملہ کیا۔[41] لیکن لاذقیہ کا علاقہ سخت جنگ کے بعد فتح ہوا۔[42] بلاذری[43] کے مطابق رجب سنہ 15 ہجری میں یرموک کی سخت جنگ کے بعد ابو عبیده نے قنسرین اور انطاکی کو فتح کیا۔[44] عمرو بن عاص] کے ذریعے ہونے والی اردن اور فلسطین کی مانند سرزمینوں کی فتوحات میں ابو عبیدہ نے نظارت کے فرائض انجام دیئے۔[45]
کہتے ہیں کہ جب ابوعبیده (17 ھ) میں بیت المقدس کی فتح میں سرگرم تھا، شہر کے لوگوں نے صلح اور جزیے دینے کا اس شرط پر ارادہ ظاہر کیا کہ خلیفہ خود صلح کرنے کیلئے شام آئے۔ ابو عبیده نے عمر کو خط لکھا تو عمر جابیہ (دمشق) آئے اور پھر وہاں سے بیت المقدس آ کر صلح نامے پر دستخط کی۔[46]
وفات
ابو عبیده جراح 17 یا 18 ھ میں شام کے علاقے میں طاعون کی بیماری میں مبتلا ہو کر چل بسا۔[47] کہتے ہیں اس کی قبر اردن میں ہے۔[48] ابو عبیده کی کوئی اولاد باقی نہیں رہی۔[49]
اہل سنت اور شیعوں کی مختلف رائے
اہل سنت صحابی ہونے اور ان کی کتابوں میں رسول اللہ سے منقول روایات کی بنا پر اس کی مدح کے قائل ہیں۔[50] اسی طرح اس کے لیے فضائل نقل کرتے ہیں۔[51] عمر بن خطاب سے منقول ایک روایت کی بنا پر اسے عشره مبشّره یعنی ایسے صحابی جنہیں رسول اللہ نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی۔[52] نیز ذکر کرتے ہیں کہ عمر اس پر اس قدر اعتماد کرتے تھے کہ اس کے متعلق کہا: اگر مجھے موت آ گئی اور ابو عبیده زنده ہو تو وہ اسے اپنی جگہ نامزد کرے گا۔[53]
لیکن شیعہ حضرات لشکر اسامہ کے معاملے میں دستور پیامبر سے سر پیچی،[54] واقعہ سقیفہ میں ابوبکر و عمر بن خطاب کے تعاون اور خلافت ابوبکر کیلئے بیعت کی کوششیں کرنے کی وجہ سے اسے اچھا نہیں سمجھتے اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔[55] بلکہ ابو عبیده کے متعلق شیعہ روایات موجود ہیں جن میں اسے امام علیؑ کا دشمن کہا گیا ہے۔[56]
حوالہ جات
- ↑ کلبی، جمہره النسب، ص.۱۲۵
- ↑ جنگ بدر میں اس کا سن 41 سال ذکر ہوا ہے۔ملاحظھ کریں: ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص۴۱۴؛ ابن قتیبہ، المعارف، ص۲۴۸؛ ابونعیم، معرفۃ الصحابہ، ج۲، ص۲۰، ۲۴.
- ↑ ابن حبیب، المحبَّر، ص۱۷۰؛ ابو الفرج، الاغانی،ج۲۲، ص۶۲ ۶۳.
- ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ص۲۶۷؛ ابن حجر، ج۲، ص۱۱.
- ↑ خلیفہ، الطبقات، ج۱، ص۶۲.
- ↑ ابن ہشام، السیره النبوه، ج۱، ص۲۵۲ ۲۵۳؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص۳۹۳.
- ↑ محب طبری، الریاض النضره فی مناقب العشره، ج۳، ص۳۴۶؛ : ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص۱۴۰.
- ↑ ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص.۱۷۷؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص.۴۱۰؛ بلاذری، انساب، ۲/گ ۳۴۶ الف.
- ↑ رک : ابن ہشام، السیره النبوه، ج۱، ص۳۶۹؛ ابو نعیم، معرفۃ الصحابہ، ج۲، ص۲۰.
- ↑ ابن هشام السیره النبوه،، ج۱، ص۵۰۵؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص۴۲۱.
- ↑ ابن حبیب، المحبَّر، ص۷۱؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۲۷۰؛ قس: احمد بن حنبل، مسند، ج۳، ص۱۵۲؛ ابن حجر، ج۱، ص۱۷۱.
- ↑ بلاذری، انساب، ج۱، ص۲۷۰ ۲۷۱؛ ابن حبیب، المحبَّر، ص۷۵.
- ↑ ابن هشام، السیره النبوه، ج۱، ص۶۸۵؛ واقدی، المغازی، ج۱، ص۱۵۷.
- ↑ ابو نعیم، معرفۃ الصحابہ، ج۲، ص۲۱ ۲۲؛ طبرانی، المعجم الكبیر، ج۱، ص۱۱۷ ۱۱۸.
- ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ص۲۶۷؛ ابن حجر، ج۲، ص۱۱.
- ↑ بلاذری، انساب، ج۱، ص۳۱۸.
- ↑ بلاذری، انساب، ج۱، ص۳۲۱.
- ↑ واقدی، المغازی، ج۱، ص۳۴۰ ۳۴۱، ج۲، ص۴۹۸؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص۴۱۰.
- ↑ واقدی، المغازی، ج۱، ص۴۵، ۶، ج۲، ص۵۵۲؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۲، ص۸۶، ۱۳۲.
- ↑ واقدی، المغازی، ج۲، ص۶۱۲.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۱، ص۳۵۲، ۳۵۴.
- ↑ احمد بن حنبل، مسند، ج۴، ص۱۳۷؛ بخاری، صحیح، ج۴، ص۶۲ ۶۳.
- ↑ موسی بن عقبہ، ص۴۶۵؛ احمد بن حنبل، مسند، ج۵، ص۴۰۰ ۴۰۱؛ بخاری، صحیح، ج۸، ص۱۳۴.
- ↑ واقدی، المغازی، ج۳، ص۱۱۲۰.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۲، ص۲۶۲؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۰ ۵۸۱؛ یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۱۲۳.
- ↑ طبری، ج۳، ص۲۱۹.
- ↑ ر.ک : زہری، المغازی النبویہ، ص۱۴۲؛ واقدی، الرّده، ص۲۳، ۲۶؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۶، ص۸، ۱۰، به نقل از جوہری.
- ↑ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۲۳.
- ↑ واقدی، الرّده، ص۲۹.
- ↑ یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۱۲۴ ۱۲۵؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج۱، ص۱۲۹ ۲۲۰.
- ↑ خلیفہ، الطبقات، ج۱، ص۱۰۸؛ احمد بن حنبل، العلل، ج۳، ص۴۹۱؛ طبری، ج۳، ص۴۲۶.
- ↑ کلاعی، الاكتفا، ۱/گ ۷۳ الف.
- ↑ ازدی، تاریخ فتوح الشام، ص۲؛ کلاعی، الاكتفا، ۱/گ ۱۴۲ الف و ب.
- ↑ طبری، ج۳، ص۳۸۷.
- ↑ طبری، ج۳، ص۳۹۴.
- ↑ بلاذری، فتوح، ج۱، ص۱۲۸؛ قس: ازدی، تاریخ فتوح الشام، ص۱۶ ۱۸.
- ↑ طبری، ج۳، ص۴۳۶.
- ↑ زہری، المغازی النبویہ، ص۱۵۱؛ بلاذری، فتوح، ج۱، ص۱۳۷؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۷، ص۳۹۷.
- ↑ ج۳، ص۳۹۸.
- ↑ طبری، ج۳، ص۴۳۵؛ زہری، المغازی النبویہ، ص۱۷۴.
- ↑ بلاذری، فتوح، ج۱، ص۱۵۴، ۱۵۶.
- ↑ بلاذری، فتوح، ج۱، ص۱۵۷.
- ↑ فتوح، ج۱، ص۱۶۲.
- ↑ فتوح، ج۱، ص۱۷۲ ۱۷۴.
- ↑ ازدی، تاریخ فتوح الشام، ص۱۰۷.
- ↑ بلاذری، فتوح، ج۱، ص۱۶۴؛ طبری، ج۳، ص۶۰۸ ۶۰۹، قس: ج۴، ص۵۶ ۵۷.
- ↑ ازدی، تاریخ فتوح الشام، ص۲۶۷؛ بلاذری، فتوح، ج۱، ص۱۶۵؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ص۳۱۹ ۳۲۲.
- ↑ ازدی، تاریخ فتوح الشام، ص۲۶۷؛ ابو زرعہ، تاریخ، ج۱، ص۲۱۸؛ ابن اعثم، كتاب الفتوح، ج۱، ص۳۱۱؛ ابو نعیم، معرفۃ الصحابہ، ج۲، ص۲۰.
- ↑ ابن قتیبہ، المعارف، ص۲۴۷؛ ابن حزم، جمہرۃ انساب العرب، ص۱۷۶؛ ذهبی، سیر اعلام النبلاء،ج۱، ص۸، بہ نقل از زبیر بن بکار.
- ↑ ابو نعیم، معرفۃ الصحابہ، ج۲، ص۲۸ کے بعد؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۱، ص۶ ۷؛ مزی، تحفۃ الاشراف، ج۴، ص۲۳۱ ۲۳۳.
- ↑ احمد بن حنبل، الزہد، ص۲۳۰؛ حاکم، المستدرك علی الصحیحین، ج۳، ص۲۶۲ ۲۶۸؛ ابن سلام، ص۷۳ ۷۴.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۲، ص۷۹۳؛ محب طبری، الریاض النضره فی مناقب العشره، ج۳، ص۳۵۰ ۳۵۱.
- ↑ احمد بن حنبل، مسند، ج۱، ص۱۸؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص۳۴۳؛ بلاذری، انساب، ۲/گ۳۴۶ الف، طبری، ج۴، ص۲۲۷.
- ↑ جوہری، السقیفہ و فدک، ص ۷۴.
- ↑ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۲۳.
- ↑ خصیبی، الہدايہ الكبری، ۱۴۱۹ق، ص۱۱۷.
مآخذ
- ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہره، ۱۳۷۸ ۱۳۸۴ ھ
- ابن اسحاق، محمد، السیر و المغازی، کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۳۹۸ق/ ۱۹۷۸ ء
- ابن اعثم کوفی، احمد بن علی، کتاب الفتوح، حیدرآباد دکن، ۱۳۹۲ق/ ۱۹۷۲ ء
- ابن حبیب، محمد، المحبَّر، کوشش ایلزه لیشتن، اشتتر، حیدرآباد دکن، ۱۳۶۱ق/ ۱۹۴۲ ء
- ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ، قاہره، ۱۳۲۸ ق.
- ابن حزم، علی بن احمد، جمہره انساب العرب، کوشش محمد عبدالسلام ہارون، قاہره، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ ء
- ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر.
- ابن سلام اباضی، بده الاسلام و شرائع الدین، کوشش ورن رشوارتز و سالم بن یعقوب، ویسبادن، ۱۴۰۶ق/ ۱۹۸۶ ء
- ابن عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب، کوشش علی محمد بجاوی، قاہره، ۱۳۸۰ق/ ۱۹۶۰ ء
- ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینه دمشق، کوشش شکری فیصل، دمشق، ۱۴۰۶ق/ ۱۹۸۶ ء
- ابن قتیبہ، عبدالله بن مسلم، المعارف، کوشش ثروت عکاشہ، قاہره، ۱۹۶۰ء
- ابن ہشام، عبدالملک، السیره النبوه، کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاہره، ۱۳۷۵ق/ ۱۹۵۵ء
- ابو حیان توحیدی، رسالہ السقیقہ ثلاث رسائل، کوشش ابراہیم کیلانی، دمشق، ۱۹۵۱ء
- ابو زرعہ دمشقی، عبدالرحمن بن عمرو، تاریخ، کوشش شکرالله بن نعمت الله قوجانی، دمشق، ۱۴۰۰ق/۱۹۸۰ء
- ابو الفرج اصفہانی، الاغانی، قاہره، دارالکتب المصریہ.
- ابو نعیم اصفہانی، احمد بن عبدالله، معرفۃ الصحابہ، کوشش محمد راضی حاج عثمان، ریاض، ۱۴۰۸ق/ ۱۹۸۸ء
- احمد بن حنبل، الزہد، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء
- احمد بن حنبل، العلل و معرفۃ الرجال، کوشش وصی الله عباس، بیروت، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸ء
- احمد بن حنبل، مسند، قاہره، ۱۳۱۳ ھ
- ازدی، محمد بن عبدالله، تاریخ فتوح الشام، کوشش عبدالمنعم عامر، قاہره، ۱۹۷۰ء
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح، بولاق، ۱۳۱۵ ھ
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۱، کوشش محمد حمیدالله، قاہره، ۱۹۵۹ء
- بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، نسخہ خطی کتابخانہ عاشر افندی استانبول، شم ۵۹۸.
- بلاذری، فتوح البلدان، کوشش صلاح الدین منجد، قاہره، ۱۹۵۶ء
- حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، حیدرآباد دکن، ۱۳۳۴ ء
- خصيبى، حسين بن حمدان، الہدايۃ الكبرى، بیروت، البلاغ، ۱۴۱۹ھ
- خلیفہ بن خیاط، الطبقات، کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۶ء
- ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، کوشش شعیب ارنؤوط و حسین اسد، بیروت، ۱۴۰۵ق/ ۱۹۸۵ء
- زہری، محمد بن مسلم، المغازی النبویہ، کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۴۰۱ق/ ۱۹۸۱ء
- طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، کوشش حمدی عبدالمجید سلفی، بغداد، وزاره الاوقاف.
- طبری، تاریخ؛ ظاہریہ، ریان، خطی (تاریخ).
- کلاعی، سلیمان بن موسی، الاکتفا، نسخہ خطی کتابخانہ چستربیتی، شم ۳۸۹۲.
- کلبی. ہشام بن محمد، جمہره النسب، کوشش ناجی حسن، بیروت، ۱۴۰۷ق/ ۱۹۸۶ء
- محبّ طبری، احمد بن محمد، الریاض النضره فی مناقب العشره، بیروت، ۱۴۰۵ق/ ۱۹۸۴ ء
- مزی، یوسف بن عبدالرحمن، تحفہ الاشراف، بمبئی، ۱۳۹۲ق/ ۱۹۷۲ء
- مسلم بن حجاج نیشابوری، صحیح، کوشش فؤاد عبدالباقی، قاہره، ۱۹۵۵ء
- موسی بن عقبہ، «المغازی» (نک : مل، زاخاو).
- واقدی، محمد بن عمر، الرده، کوشش محمد حمید اللہ، پاریس، ۱۹۸۹ء
- واقدی، المغازی، کوشش مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶ ء
- یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ، بیروت، دار صادر، بیتا.
Sachau, E., ”Das Berliner Frament des Musa ibn‘Ukba…“, Sitzungsberichte… der Berliner, Akademie der wissenschaften, Berlin, 1904, vol. XXV.