خبیب بن عدی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | خُبَیب بن عَدِی بن مالک بن عامر اَوْسی انصاری |
محل زندگی | مدینہ |
مہاجر/انصار | انصار |
شہادت | صفر ۴ ق، تنعیم، سولی اور نیزہ کے ذریعہ |
دینی معلومات | |
اسلام لانا | صدر اسلام |
جنگوں میں شرکت | بدر، احد |
وجہ شہرت | پیغمبر اکرم (ص) کے صحابی، |
خُبَیب بن عَدِی بن مالک بن عامر اَوْسی انصاری، اصحاب رسول خداؐ اور صدر اسلام کے شہدا میں سے ہیں۔ وہ عَضَل اور قارَہ کے طائفوں کی فرمائش پر ان کے پاس تبلیغ کیلئے گئے لیکن انہوں نے خیانت کی اور انہیں گرفتار کر کے شہید کر دیا۔
اسیری
وہ اوس کے قبیلے، انصار اور اصحاب بدر میں سے تھے۔[1] نیز انہوں نے جنگ احد میں رسول کے ساتھ شرکت کی۔[2]
خبیب بن عدی ان مبلغین میں سے تھے جنہیں رسول خدا نے چوتھے سال صفر کے مہینے میں عَضَل و قارَه کی درخواست پر تبلیغ دین اسلام کیلئے ان کے پاس بھیجا لیکن وہاں کے نمائندوں نے خیانت کی اور بنی لحیان کی مدد سے بعض اصحاب پیامبر کو شہید کر دیا۔[3] اس واقعہ میں خبیب بن عدی اور زید بن دَثنہ کو گرفتار کر کے انہیں مکہ لے گئے۔ مکہ میں ہذیل کے دو اسیروں کے بدلے میں بیچ دیا۔[4] چونکہ خبیب کی اسیری کا واقعہ ماہ حرام ذیقعدہ میں ہوا تھا اس لئے بنی حارث نے ارادہ کیا کہ اسے کچھ مدت کیلئے اسیری میں رہنے میں دیں۔
خبیب بن عدی کو ماویہ[5] نامی خاتون کے گھر یا حارث بن عامر کی بیٹی کے گھر یا عقبہ بن حارث کی بیٹی، [6] قید کیا۔ کہا گیا ہے کہ جس عورت کے گھر خبیب بن عدی کو قید کیا گیا تھا اس نے اس کے ہاتھوں بعض کرامات دیکھیں۔ ان میں سے ایک کرامت یہ تھی کہ اس عورت نے خبیب کو ایک گچھا انگور کھاتے ہوئے دیکھا جبکہ اس زمانے میں مکہ میں انگور کا کوئی باغ نہیں تھا۔[7] اسیری کے دوران خبیب کو انتقام کی فرصت ملی لیکن انہوں نے غدر و خیانت نہیں کی۔ یہ دیکھ کر اس عورت نے کہا اس سے بہتر میں کوئی قیدی نہیں دیکھا۔
شہادت
جب قریش نے ان کے قتل کا ارادہ کیا تو انہیں تَنْعیم لے گئے۔[8] مکہ کے لچھ لوگ انکے ہمراہ گئے۔[9] خبیب نے ان سے دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت مانگی۔ بنی حارث نے قبول کیا اور خبیب نے شہادت سے پہلے دو رکعت نماز پڑھی۔ جن لوگوں کو جبری موت دی جاتی ہے ان کیلئے رہتی دنیا تک خبیب کا یہ فعل سنت قرار پایا۔[10] انہوں نے نماز کے بعد اپنے قاتلوں سے کہا: اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تم مجھے موت سے خوفزدہ کہو گے تو میں دو رکعت اور نماز پڑھتا۔ یہ کہہ کر ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے، اپنے قاتلین پر نفرین و بد دعا کے بعد اشعار پڑھے، ان میں سے دو شعر درج ذیل ہیں:[11]
ولست أبالي حين اقتل مسلما | على أي شق كان في الله مصرعي | |
مجھے اپنے مسلمان قتل ہونے پر کوئی افسوس نہیں | اللہ کی راہ میں کس پہلو قتل ہوتا ہوں | |
وذلك في ذات الإله وإن يشأ | يبارك على أوصال شلو ممزع | |
اگر ذات باری تعالی ارادہ کرے | تو اس گوشت کے ایک ایک ٹکڑے میں برکت ڈال دے |
خبیب سب سے پہلے مسلمان ہیں جنہیں دار پہ لٹکایا گیا۔[12] انہیں لکڑی کے تنے پر باندھا گیا۔ بدر کے چالیس مقتولوں کے بیٹوں نے نیزے کی ضربوں سے ان کے پاؤں جدا کئے۔[13] کہا گیا: جب انہیں قتل کیا گیا تو ان کا چہرہ قبلہ کی جانب تھا۔ انہوں نے جس قدر چاہا کہ ان کے چہرے کو قبلے سے موڑ دیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے اور آخرکار انہوں نے انہیں اسی حال میں چھوڑ دیا۔ [14] جب انہیں لکڑی پر باندھ رہے تھے انہوں نے کہا:اللهم انا قد بلغنا رسالة رسولک فبلغه الغداة ما یصنع بنا۔[15]
اگرچہ عقبہ بن حارث بن عامر کو قاتل خبیب بن عدی سمجھتے ہیں،[16] کہا گیا کہ عقبہ نے قسم اٹھا کر کہا میں نے انہیں قتل نہیں کیا میں اس وقت اس عمر میں نہیں تھا کہ یہ کام انجام دے سکوں۔ اس سے منقول ہے: «ابا مَیسَرَه نے میرے ہاتھ میں نیزہ پکڑایا پھر ابا میسرہ نے میرے نیزے والا ہاتھ پکڑ کر وار کیا اور انہیں قتل کر دیا۔[17]
خبیب اپنے ایمان پر اس قدر محکم قائم رہے کہ قتل کے وقت ان سے کہا گیا: تم رسول اور اسلام سے روگردانی اختیار کر لو تا کہ تمہیں آزاد کر دیں۔ انہوں نے جواب میں کہا: جو کچھ زمین میں ہے وہ میرا ہو جائے تو بھی رسول اور اسلام سے منہ نہیں موڑوں گا۔ مشرکوں نے قتل کے وقت ان سے کہا: کیا تم اسے دوست رکھتے ہو کہ تم اپنے اہل خانہ کے پاس اور تمہاری جگہ محمد ہوں۔ انہوں نے جواب دیا: میں اسے دوست نہیں رکھتا کہ میری جگہ محمد کے پاؤں میں کانٹا تک چبھویا جائے۔[18]
خبیب بن عدی ایک ایسے شہید ہیں کہ جنہیں بہت مظلومیت اور اسیری میں شہید کیا گیا۔[19] خبیب اور دوسرے اصحاب کہ جنہیں تبلیغ پر بھیجا گیا[20] اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اہل علم و فضل اور احکام اسلامی سے آشنا تھے۔ حسّان بن ثابت[21] نے ان کی شہادت کی مناسبت سے اشعار کہے ان میں سے ایک درج ذیل ہے:
صقرا توسّط فی الانصار منصبه | سمح السجیة محضا غیر مؤتشب |
حوالہ جات
- ↑ ابن عبدالبرّ، ج ۲، ص۴۴۰؛ ابن قدامہ، ص۳۰۵؛ ابن حجر عسقلانی، ج ۲، ص۲۶۲ـ۲۶۳
- ↑ ذہبی، ج ۱، ص۲۴۶
- ↑ ابن سعد، ج ۲، ص۵۵ـ۵۶؛ ر.ک: به واقدی، ج ۱، ص۳۵۴ـ۳۵۷؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۲، ص۱۶۷
- ↑ ابن ہشام، ج ۳، ص۱۸۰
- ↑ واقدی، ج ۱، ص۳۵۷
- ↑ ر.ک:ابن اثیر، اسدالغابہ، ج ۲، ص۱۲۰ـ۱۲۱
- ↑ واقدی، ج ۱، ص۳۵۷ ابن سعد، ج ۸، ص۳۰۱ـ۳۰۲؛ ابن عبدالبرّ، ج ۲، ص۴۴۰
- ↑ ابن کلبی، ج ۱، ص۶۲۹؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج ۲، ص۱۲۱
- ↑ واقدی، ج ۱، ص۳۵۸
- ↑ ابن ہشام، ج ۳، ص۱۸۲؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۲، ص۱۶۸؛ ر.ک: د. اسلام، چاپ دوم، ذیل مادّه
- ↑ الزفزاف، «منبر الاسلام»، ص۱۰۶
- ↑ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج ۲، ص۱۲۲
- ↑ ر.ک:واقدی، ج ۱، ص۳۶۱
- ↑ ابن حجر عسقلانی، ج ۲، ص۲۶۴
- ↑ الزفزاف، «منبر الاسلام»، ص۱۰۶
- ↑ ر.ک:ابن اثیر، اسدالغابہ، ج ۲، ص۱۲۱
- ↑ ابن ہشام، ج ۳، ص۱۸۲،واقدی، ج ۱، ص۳۶۱
- ↑ واقدی، ج ۱، ص۳۶۰
- ↑ د. اسلام، ذیل ماده
- ↑ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۲، ص۱۶۷
- ↑ حسّان بن ثابت،ج ۱، ص۲۱۳.
مآخذ
- ابن اثیر، اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ، چاپ محمد ابراہیم بنا و محمد احمد عاشور، قاہره ۱۹۷۰ـ۱۹۷۳.
- ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت ۱۳۸۵ـ۱۳۸۶/ ۱۹۶۵ـ۱۹۶۶، چاپ افست ۱۳۹۹ـ۱۴۰۲/ ۱۹۷۹ـ ۱۹۸۲.
- ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
- ابن سعد (بیروت).
- ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
- ابن قدامہ، الاستبصار فی نسب الصحابہ من الانصار، چاپ علی نویہض، بیروت ۱۳۹۲/ ۱۹۷۲.
- ابن کلبی، جمہرۃ النسب، ج ۱، چاپ ناجی حسن، بیروت ۱۴۰۷/۱۹۸۶.
- ابن ہشام، السیرة النبویہ،، چاپ مصطفی سقا، ابراہیم ابیاری، و عبدالحفیظ شلبی، قاہره ۱۳۵۵/۱۹۳۶.
- حسّان بن ثابت، دیوان، چاپ ولید عرفات، لندن ۱۹۷۱.
- ذهبی.
- الزفزاف، فوزی فاضل ، منبر الاسلام السنہ السادسون، رمضان ۱۴۲۲ - العدد ۹
- مصعب بن عبداللّه، کتاب نسب قریش، چاپ لوی پرووانسال، قاہره ۱۹۵۳.
- محمدبن عمر واقدی، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن ۱۹۶۶.
- EI2, s.v."khubayb" (by A. J. Wensinck).
بیرونی ربط
- تلخیص مقالہ: دانشنامہ جہان اسلام۔