تبوک
شخصیتها | |
---|---|
پیغمبر اسلامؑ • حضرت علیؑ • حضرت فاطمہؑ • صحابہ | |
غزوات | |
غزوہ بدر • غزوہ احد • غزوہ خندق • غزوہ خیبر • غزوہ فتح مکہ • دیگر غزوات | |
شہر اور مقامات | |
مکہ • مدینہ • طائف • سقیفہ • خیبر • جنۃ البقیع | |
واقعات | |
بعثت • ہجرت حبشہ • ہجرت مدینہ • صلح حدیبیہ • حجۃ الوداع • واقعۂ غدیر | |
متعلقہ مفاہیم | |
اسلام • تشیع • حج • قریش • بنو ہاشم • بنو امیہ | |
محل وقوع اور تاریخ
تبوک کا نام اسلامی مآخذوں میں اس جنگ کے عنوان سے مشہور ہوا جو رسول اللہؐ کی حیات مبارکہ کے آخری سالوں میں انجام پاچکا ہے۔ اس غزوے میں رومیوں کے ساتھ جنگ نہيں ہوئی۔ تاہم اس کی بعض خصوصیات جزیرہ نمائے عرب کے اس دور ترین مقام تک عزیمت ـ وہ بھی اس زمانے کی بڑی طاقتوں یعنی ایران اور روم کی آنکھوں کے سامنے ـ اس غزوے کی اہمیت کا ثبوت ہے۔
تبوک ایک وادی کا نام ہے جو حجاز کے انتہائی شمال میں اور حِجر و شام کے بالکل درمیانی نقطے پر واقع ہے۔[1]۔[2]۔[3] بعض مؤرخین اور جغرافیہ دانوں نے اس علاقے کو شام کا حصہ قرار دیا ہے۔[4]۔[5]۔[6] یہ وادی حجر سے 4 منازل، مدین سے 12 منازل اور مدینہ سے 11 منازل کے فاصلے پر اور مدینہ اور دمشق کے راستے کے درمیان واقع ہے۔[7]۔[8]
وجۂ تسمیہ
تبوک کی وجۂ تسمیہ میں اختلاف ہے؛ بعض راویوں نے اس وادی میں موجودہ چشمے کے بارے میں رسول اللہؐ کے ایک قول کو اس کا سبب گردانا ہے۔[9]۔[10]
جبکہ بعض دوسروں نے اس علاقے میں رسول اللہ(ص) کی اس علاقے میں تشریف آوری سے قبل، موجود اسی نام کے چشمے کے بارے میں معاذ بن جبل کے قول سے استناد کیا ہے[11] اور ان کے بقول اسی وجہ سے اس وادی کا نام تبوک پڑا ہے۔[12] بطلیموس نے اس کو اپنی جغرافیہ میں اس علاقے کا تذکرہ "تپوا" کے عنوان سے کیا ہے۔[13]
تہذیب کا گہوارہ
تبوک 2500 سالہ پرانی تہذیب کا گہوارہ ہے[14] جو سنہ 500 قبل از مسیح کے دوران نبطیوں کی عظیم تہذیب کا عینی گواہ رہا ہے۔[15] یہ سرزمین اصحاب ایکہ کی سکونت گاہ تھی جس کے پیغمبر حضرت شعیب علیہ السلام تھے۔[16]۔[17]۔[18] جس کا تذکرہ قرآن میں 4 مرتبہ آیا ہے۔۔[19]
ثمود کا کنواں جس سے صالح(ع) کی اونٹنی کو پانی پینا تھا، سرزمین حجر اور اسی وادی کی طرف جانے والے راستے میں واقع ہوا ہے۔[20] قحطانی (جنوبی) عرب، بنو عذرہ اور[21] بنو کلب،[22]۔[23] ـ جو قضاعہ کے ذیلی قبائل تھے ـ نیز جذام، لخم[24]۔[25] بنو عَبس، مُرہ اور ذِبیان زمانۂ جاہلیت اور عصر اسلامی کے آغاز میں اسی علاقے میں سکونت پذیر تھے۔[26] تبوک کے شمال مغرب میں حِسمی اور شمال مغرب میں شَرَورَی اس علاقے کے پہاڑوں کے نام ہیں۔[27]
تاریخی مقامات
تبوک کا مشہور چشمہ بنام "مُولَہ" ـ جو رسول اللہ(ص) کی برکت سے دوبارہ پھوٹ پڑا اور سنہ 1367 ہجری تک حجاج اور علاقے کے باشندوں کی پیاس مٹاتا رہا ہے،[28] قلعۂ تبوک ـ جہاں یہ چشمہ واقع تھا ـ اور وہ دیوار جس کے ساتھ آپ(ص) نے ٹیک لگائی تھی،[29]۔[30] نیز مسجد توبہ ـ جو عمر بن عبدالعزیز (حکومت: سنہ 99 تا101 ه) نے سنہ 99 ه میں اس مقام پر تعمیر کی تھی جہاں رسول خدا(ص) نے 10 روز تک نماز ادا کی تھی ـ[31]۔[32]۔[33] اس علاقے کے اسلامی آثار میں شامل ہیں۔
حجاج کا راستہ
تبوک شام کے حجاج کے راستوں میں سے ایک ہے[34]۔[35]۔[36] اور شام سے نکل کر مکہ عزیمت کرنے والے حجاج کی پانچویں منزل سمجھا جاتا ہے۔[37]۔[38]۔[39]۔خطا در حوالہ: Closing </ref>
missing for <ref>
tag۔[40]۔[41] کہا جاتا ہے کہ حجاج چشمے کے کنارے آرام کرتے اور وہیں سے پانی اٹھا کر مکہ کی جانب روانہ ہوجایا کرتے تھے۔[42] عثمانیوں نے تبوک میں حجاج کے آرام کے لئے یہاں قلعے بعنوان "حصن الحجاج" تعمیر کئے تھے۔[43]۔[44]
آج کا تبوک
آج کے زمانے میں تبوک، سعودی عرب کے شمال میں سب سے بڑا خطہ ہے[45] جس کا مرکز شہر تبوک ہے[46]۔[47] اور 5 صوبوں یعنی "املج، حَقل، وَجه، ضَباء اور تيماء" نیز دسوں دیہاتوں پر مشتمل ہے۔[48]
ترقی کا راز
تبوک کی ترقی کا راز ریل پٹڑی ہے جس نے سنہ 1324 تا 1326 ه /1906 تا 1908 ع کے دوران حجاز کو شام سے ملا لیا۔ جبکہ قبل ازاں اس علاقے کی پوری آباد 200 افراد پر مشتمل تھی؛[49]۔[50] جبکہ یہ آبادی آج 150000 تک پہنچ چکی ہے۔[51]
متعدد پکی سڑکوں نے اس شہر کو دوسرے شہروں سے متصل کردیا ہے اور تبوک سے مدینہ جانے والی شاہراہ اس خطے کی اہم ترین سڑک سمجھی جاتی ہے جس کی مسافت 700 کلومیٹر [52] اور بقولے 674 کلومیٹر [53] اور تبوک کا ہوائی اڈہ شمالی سعودی عرب کا اہم ترین ہوائی اڈہ ہے۔
فوجی چھاؤنی
تبوک کی فوجی چھاؤنی سعودی عرب کی بڑی فوجی چھاؤنیوں میں سے ایک ہے جو اردن اور شام کی سرحدوں کے قریب واقع ہونے کے بموجب خاص اہمیت رکھتی ہے۔[54]
متعلقہ مضمون
حوالہ جات
- ↑ ابن حوقل، صورة الارض، ج1، ص32۔
- ↑ البکری، معجم ما استعجم، ج1، ص12۔
- ↑ الحموي، معجم البلدان، ج2، ص219۔
- ↑ الحموي، فتوح البلدان، ج1، ص71۔
- ↑ اليعقوبي، تاريخ اليعقوبي، ج2، ص67۔
- ↑ المسعودي، التنبيه والإشراف، ص230۔
- ↑ الحموي، معجم البلدان، ج2، ص14
- ↑ العزيزي، المسالك و الممالك، ص22۔
- ↑ الجوهري، الصحاح، ج4، ص1576-1577۔
- ↑ ابن اثير، مبارك، النهاية، ج1، ص162۔
- ↑ الفهري، ملء العيبة، ج1، ص9۔
- ↑ الموسوعة العربية العالمية، ج6، ص86۔
- ↑ جواد علی، المفصل، ج7، ص251۔
- ↑ الموسوعة العربية العالمية، ج6، ص86۔
- ↑ حمود بن الضاوي، شمال الحجاز، ج1، ص93۔
- ↑ الإصطخري، المسالك والممالك، .ص20۔
- ↑ ابو الفداء، تقويم البلدان، ص94۔
- ↑ حافظ ابرو، جغرافياي حافظ ابرو، ج1، ص215۔
- ↑ سوره حجر، آیه 78؛ سوره شعراء، آیه 176؛ سوره ص، آیه 13؛ سوره ق، آیه 14۔
- ↑ الإصطخري، المسالك والممالك، ص20۔
- ↑ الحموي، معجم البلدان، ج2، ص14۔
- ↑ کرد علی، خطط الشام، ج1، ص28۔
- ↑ حمود بن الضاوي، شمال الحجاز، ج1، ص110۔
- ↑ الإدریسی، نزهة المشتاق، ج1، ص352۔
- ↑ الهمداني، صفة جزيرة العرب، ج2، ص243۔
- ↑ حمود بن الضاوي، شمال الحجاز، ج1، ص110۔
- ↑ الحموي، معجم البلدان، ج2، ص14، 258۔، البغدادي، مراصد الاطلاع، ج1، ص403۔
- ↑ الجاسر، المعجم الجغرافي للبلاد العربية، ج3، ص1291۔
- ↑ الإصطخري، المسالك والممالك، ص20۔
- ↑ حافظ ابرو، جغرافياي حافظ ابرو، ج1، ص215۔
- ↑ المطري، التعريف بما آنست، ص201۔
- ↑ المرجاني، بهجة النفوس، ج1، ص633۔
- ↑ السمهودی، وفاء الوفاء، ج3، ص179۔
- ↑ البغدادی، (قدامة بن جعفر) الخراج و صناعة الكتابه، ص85۔
- ↑ الحازمي الهمداني، الاماكن، ص127۔
- ↑ الحموي، معجم البلدان، ج3، ص212۔
- ↑ ابن رستة، الاعلاق النفيسة، ص183۔
- ↑ ابن خرداذبه، المسالك و الممالك، ص150۔
- ↑ ابن العديم، بغية الطلب، ج8، ص3602۔
- ↑ ابن بطوطة، رحلة ابن بطوطة، ج1، ص347-348۔
- ↑ حمود بن الضاوي، شمال الحجاز، ج1، ص88۔
- ↑ ابن بطوطة، رحلة ابن بطوطة، ج1، ص347۔
- ↑ حمد الجاسر، في شمال غرب الجزيرة، ص443۔
- ↑ حمد الجاسر، الموسوعة العربية العالمية، ج6، ص90۔
- ↑ حمد الجاسر، المعجم الجغرافي للبلاد العربية، ج1، ص314۔
- ↑ حمود بن الضاوي، شمال الحجاز، ج1، ص83۔
- ↑ حمد الجاسر، المعجم الجغرافي للبلاد العربية، ج1، ص116
- ↑ حمد الجاسر، الموسوعة العربية العالمية، ج6، ص85۔
- ↑ فاطمة محجوب، الموسوعة الذهبية، ج8، ص469
- ↑ حمود بن الضاوي، شمال الحجاز، ج1، ص95۔
- ↑ حمد الجاسر، الموسوعة العربية العالميه، ج6، ص87۔
- ↑ حمود بن الضاوي، شمال الحجاز، ج1، ص84-85
- ↑ حمد الجاسر، الموسوعة العربية العالميه، ج6، ص87۔
- ↑ حمد الجاسر، الموسوعة العربية العالمية، ج6، ص88۔
مآخذ
- حافظ ابرو، عبداللہ بن لطف اللہ خوافی، جغرافیای حافظ ابرو (متوفی 833 ہ)، مقدمہ، تصحیح و تحقیق صادق سجادی، مشخصات نشر : تہران: بنیان: دفتر نشر میراث مکتوب، 1375 ہ ش
- ابن اثير، مبارك، النہايۃ، (المتوفی 606 ہ)، بہ كوشش الزاوي و الطناحي، قم، اسماعيليان، 1367 ہ
- ابن بطوطۃ، محمدبن عبداللہ اللواتی الطنجی، (703- 779ہ)، رحلۃ ابن بطوطۃ، المحقق: عبدالہادی التازی. رباط (مغرب = مراكش): اكاديميۃ المملكۃ المغربيۃ، 1417 ہ ق = 1997 ع 1376 ہ ش
- ابن حوقل، محمد النصيبي (المتوفی 367 ہ)، صورۃ الارض، بيروت، دار صادر، 1938 ع
- ابن خرداذبہ، عبيداللہ بن عبداللہ (المتوفی 300 ہ)المسالك و الممالك، ، بہ كوشش محمد المخزوم، بيروت، دار احياء التراث العربي، 1408ہ
- ابن رستۃ، أحمد بن عمر الإصفہاني، الاعلاق النفيسۃ ويليہ الكتاب البلدان، (المتوفی قرن3 ہ)، بيروت، دار صادر، 1892 ع
- ابن العديم، عمر بن أحمد أبي جرادۃ (المتوفی 660 ہ)، بغيۃ الطلب في تاريخ حلب، ت سہيل زكار، دار الفكر – بيروت.
- ابو الفداء، إسماعيل بن محمد بن عمر صاحب حماہ، (ت 732ہـ)، تقويم البلدان، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، القاہرۃ، الطبعۃ الأولی، سنۃ النشر 2007 ع
- الإدریسی، الشریف، نزہہ المشتاق فی اختراق الآفاق، الناشر: عالم الکتب للطباعۃ والنشر والتوزیع، تاریخ النشر: 1989 ع
- الاصطخري، ابراہيم الفارسي، (المتوفی 346 ہ)، المسالك و الممالك، بہ كوشش الحسيني، وزارۃ الثقافۃ و الارشاد، 1381 ہ
- البغدادي، صفي الدين عبدالمؤمن (المتوفی 739 ہ)، مراصد الاطلاع، بيروت، دار الجيل، 1412 ہ
- البكري الاندلسي، الوزير الفقيہ أبو عبيد عبد اللہ بن عبد العزيز (المتوفی 487 ہ)، معجم ما استعجم، المحقق: مصطفى السقا، بيروت، عالم الكتب، 1403 ہ
- جواد علي، المفصل في تاريخ العرب قبل الإسلام، بيروت، دار العلم للملايين، 1976 ع
- الجوہري، الصحاح، (المتوفی 393 ہ)، بہ كوشش العطار، بيروت، دار العلم للملايين، 1407 ہ
- الحازمي الہمداني، أبو بكر محمد بن موسى بن عثمان (المتوفى: 584ہـ)، الأماكن أو ما اتفق لفظہ وافترق مسماہ من الأمكنۃ، المحقق: حمد الجاسر، دار اليمامۃ للبحث والترجمۃ والنشر 1415 ہ
- حمد بن محمد الجاسر، في شمال غرب الجزيرۃ (نصوص ، مشاہدات، انطباعات)، منشورات دار اليمامۃ للبحث ولترجمۃ والنشر، الرياض. 1401 ہ
- حمد بن محمد الجاسر، المعجم الجغرافي للبلاد العربيۃ السعوديۃ، منشورات دار اليمامۃ للبحث ولترجمۃ والنشر، الرياض۔
- حمود بن الضاوي، شمال الحجاز، العصر الحديث، بيروت، 1412ہ
- الحموي، ياقوت (المتوفی 626 ہ)، معجم البلدان، بيروت، دار صادر، 1995 ع
- السمہودی، نور الدین علی بن احمد، وفاء الوفاء باخبار المصطفی دار المصطفی، المحقق: خالد عبدالغنی محفوظ، دارالکتب العلميۃ - بیروت - لبنان الطبعۃ الاولی 2006 ع
- العزیزی، الکتاب العزيزي أو المسالك والممالك، (المتوفی سنہ 380 ہ)، جمع وتعليق: تيسير خلف۔
- فاطمۃ محجوب، الموسوعۃ الذہبيۃ للعلوم الإسلاميۃ، دار الغد العربي- القاہرۃ- 1995 ع
- الفہري، محمد بن رشيد (المتوفی 721 ہ)، ملء العيبۃ، بہ كوشش ابن الخوجہ، بيروت، دار الغرب الاسلامي، 1408 ع
- کرد علی، محمد (متوفی 1372 ہ)، خطط الشام، مکتبۃ النوري، بیروت الطبعۃ الثالثۃ، سنۃ النشر 1403 ہ
- المرجاني، عبد اللہ بن عبد المك (متوفی 770 ہ)، بہجۃ النفوس والاسرار في تاريخ دار ہجرۃ النبي المختار، تصحيح: محمد عبدالوہاب، بيروت، دار الغرب الاسلامي، 2002 ع
- المسعودي، علی بن حسین بن علی (متوفی 345ہ)، التنبیہ والاشراف، بيروت، دار صعب۔
- المطري، جمال الدين محمد بن أحمد، التعريف بما أنست الہجرۃ من معالم دار الہجرۃ، تحقیق: أ.د. سليمان الرحيلي ، ادارۃ الملك عبد العزيز ، الرياض ، 1426 ہ / 2005 م
- الموسوعۃ العربيۃ العالميۃ، الناشر: مؤسسۃ أعمال الموسوعۃ للنشر والتوزيع ۔ الرياض ـ سنۃ النشر: 1419 ہ / 1999 ع
- الہمداني، الحسن بن أحمد بن يعقوب (المتوفی 334 ہ)، صفۃ جزيرۃ العرب، بہ المحقق: محمد بن علي الأكوع الحوالي، صنعاء، مكتبۃ الارشاد، الطبعۃ الأولى 1410ہـ -1990 ع