جبرائیل

ویکی شیعہ سے

جبرئیل یا جبرائیل وحی کے حامل اور خدا کے چار مقرب ترین فرشتوں میں ایک فرشتے کا نام ہے۔ یہ لفظ قرآن پاک کی تین آیات اور متعدد احادیث میں آیا ہے۔ اسلامی مصادر میں وحی پہنچانے کے علاوہ دیگر افعال جیسے انبیا کی مدد کرنے، کافروں کو عذاب دینے اور مؤمنین کو تسلی دینے، کی نسبت ان کی طرف دی گئی ہے۔ فلسفہ و عرفان میں ان کی حقیقت اور مقام و منزلت کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ اسلامی فلاسفہ اور حکما نے ان کیلئے عقل فعال جیسی تعبیریں استعمال کی ہیں۔ یہودیت اور مسیحیت کی دینی تعلیمات میں بھی ان کا تذکرہ موجود ہے۔

لغوی معنا

جبرئیل عبرانی زبان کا لفظ ہے اور ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سریانی زبان سے عربی میں داخل ہوا ہے۔[1] عربی زبان کے محققین نے اس لفظ کے غیر عربی ہونے کی وضاحت کی ہے۔ [2] ابو حیان غرناطی[3] رسم الخط کے لحاظ سے اس کی مختلف تیرہ صورتیں: جِبْریل، جَبْریل، جَبَرئیل، جَبَرئِل، جَبرائل، جَبرائیل ذکر ہوئی ہیں۔ [4] اسی طرح دانی[5] قرآن میں اس کلمے کی مختلف صورتوں کو شمار کیا ہے [6] اور ذکر کیا ہے کہ اہل حجاز کے نزدیک «جِبْرِیل» مشہور ترین اور فصیح‌ ترین صورت ہے اور قراء سبعہ میں سے ابو عمرو، نافع اور ابن عامر کی قرات ہے۔[7]

بعض عرب لغویوں نے اس لفظ کو مرکب ذکر کیا ہے اور کہا کہ یہ لفظ جَبْر با معنائے بادشاہ، بندہ، شجاع، مرد،[8] اور ایل عبرانی زبان میں خدا کے اسما سے مرکب ہے۔ [9] جبرئیل کو میکائیل اور اسرافیل کی مانند مرکب سمجھتے ہیں اس لحاظ سے جبرئیل («جَبْر» + «ایل») سے مرکب اور بندۂ خدا (عبد اللہ) کے معنا میں ہے۔

عبرانی زبان میں جبروت کا معنا طاقت اور قدرت کو دیکھتے ہوئے [10] احتمال ہے کہ جبرئیل جبروت سے مشتق ہے۔[11] «جَبَر» عبرانی زبان میں قدرت رکھنے اور طاقتور کے معنا میں اور «جبرئیل» بھی قدرت مند شخص کے معنا میں آنے [12] کے احتمال کی تقویت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ «شدیدالقوی» اور «ذومرّة» جیسے عربی الفاظ جبرئیل کے مترادف سمجھے جاتے ہیں۔[13]

جَبْر حبشی، سریانی، آرامی اور عبری زبانوں میں مرد، قہرمان اور دلاور کے معنا میں آتا ہے اور جبرئیل ان زبانوں میں مرد خدا اور قہرمان خدا کے معنا میں ہو گا۔[14] بعض نے ایل کو بندہ اور جبرئیل، میکائیل و اسرافیل کو عبد اللہ، عبد الرحمان اور عبد القدوس کے معنا میں سمجھتے ہیں۔ [15]

قرآن

قرآن پاک کی تین مدنی سورتوں کی آیات میں یہ لفظ آیا ہے۔[16] جبرائیل کا اصلی وظیفہ خدا کی وحی کو انبیا تک پہنچانا سورہ بقرہ کی اس آیت...فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلَیٰ قَلْبِک بِإِذْنِ اللَّہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَینَ یدَیہِ وَہُدًی وَبُشْرَیٰ لِلْمُؤْمِنِینَ میں بیان ہوا ہے اگرچہ آیت میں وحی آنے کی کیفیت کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔[17]

قرآن پاک میں دیگر ایسی تعبیریں بھی آئی ہیں جو مفسرین[18] کے نزدیک جبرائیل کی طرف ناظر ہیں جیسے:

  1. «الروح الامین»[19] کہ وحی پہنچانے اور امانتداری کو بیان کرتی ہے۔
  2. «رسولٍ کریم»[20] کہ جو نیک صفات پر دلالت کرتی ہے۔
  3. «شدیدالقوی»، «ذومِرّۃ» اور «ذی قوۃ»[21] کہ جو طاقت اور امور الہی بجالانے کی قدرت اور طاقت کو بیان کرتی ہے۔
  4. «مَکین» اور «مُطاع»[22] کہ جو خدا کے نزدیک اور دوسرے فرشتوں میں مخصوص مقام و منزلت سے حکایت ہے۔
  5. «روح القُدُس»[23]

ولادت حضرت عیسی

حضرت عیسیؑ کی ولادت کے ماجرے میں جبرائیل کا نہایت واضح کردار رہا ہے۔ اسی نے ولادت عیسی کی خوشخبری حضرت مریم کو دی[24] نیز اسے صورت انسان کی تمثیل میں بیان کیا گیا۔[25] اور اسی نے روح الہی کو مریم کے رحم میں پھونکا۔[26] اور آخر کار خدا نے عیسی کی مدد اور اسے قوت بخشنے کیلئے جبرائیل کو اس کے پاس بھیجا۔[27]

مفسرین نے جبرائیل کے توسط سے ولادت عیسی ہونے میں کسی قسم کی تردید نہیں کی آیات میں استعمال ہونے والے لفظ روح سے جبرائیل ہی سمجھتے ہیں۔[28]

روح

لفظ روح سے جبرائیل کی طرف اشارہ کرنے کے سبب کے بارے میں مفسرین مختلف اقوال ذکر کئے ہیں مثلا اس کا تعلق مجردات اور روحانیات کے عالم سے ہے، ولات کے بغیر تکوینی پیدائش، اس میں حیات کا غلبہ، افاضۂ حیات، اس کے توسط سے احیائے شریعت یا اس کی دگر فرشتوں پر برتری[29]

سورہ قدر میں ملائکہ کے ساتھ مذکور لفظ کے روح کی مراد اور روح کے ساتھ جبرائیل کی نسبت کے متعلق[30] اور اسکے بارے میں سوالیہ صورت میں پوچھے گئے سوال میں [31] اختلاف مذکور ہے۔ بعض اسے جبرائیل سمجھتے ہیں نیز اسے ارواح پر مؤکل یا ملائکہ میں اعلی ترین موجود قرار دیتے ہیں اور ایک جماعت اس سے جبرائیل مراد لیتے ہیں اور روح کی تعبیر کو جبرائیل دیگر ملائکہ پر برتری اور عظمت پر دال سمجھتے ہیں۔[32]

یہودیوں کے سوئے ظن کا رد عمل

جبرائیل کے بارے میں یہودیوں کے سوئے ظن کے بارے میں سورۀ بقرہ کی 97اور 98ویں آیات میں تہدید اور تنبیہ کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔[33] یہودیوں نے رسول اکرم سے پوچھا کہ ان کے پاس کون سا فرشتہ آتا ہے تو جب جواب میں جبرائیل کا نام سنا تو جبرائیل کے متعلق موجود کینے کی بنا پر جبرائیل کو اپنا دشمن کہنے لگے۔

ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جبرئیل کو مصیبتیں، سختیاں اور جنگ و قتال کے فرمان دینے والا فرشتہ سمجھتے تھے اور میکائیل کو رحمت اور قوم یہود کو بشارت دینے والا فرشتہ سمجھتے تھے۔[34] اس لحاظ سے بقرہ کی ۹۸ویں آیت جبرئیل سے دشمنی کو میکائیل، دیگر فرشتوں حتا کہ خدا سے دشمنی کے مساوی قرار دیتی ہے۔ گویا یہودی بہانے کی تلاش میں تھے تا کہ وہ اپنے آپ کو اسلام کی قبولیت سے روک سکیں کیونکہ اس سوال سے پہلے بھی انہوں دیگر سوالات کئے تھے تا کہ رسول اکرم کی نبوت کو آزمائیں۔ جب حضرت نے انکے سوالات کے جوابات دئے تو انہوں نے فرشتے کی وحی کے متعلق سوال کیا[35] جبکہ یہودیوں کے علما میں سے عبداللّہ بن سلام سوچتا تھا کہ ان سوالوں کے جواب صرف انبیاء ہی جانتے ہیں اور رسول کے جوابات سن کر وہ مسلمان ہو گیا[36]

خیانت جبرائیل کا افسانہ

بعض اہل سنت شیعوں کو اس بات پر متہم کرتے ہیں کہ وہ اس معقتد ہیں کہ جبرئیل نے وحی پہنچانے میں خیانت کی اور حضرت علی کے بجائے رسالت رسول اللہ کو پہنچا دی اور اسی وجہ سے نماز کے اختتام پر اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ اوپر اٹھا کر: خانَ الاَمینُ (امین نے خیانت کی) کہتے ہیں۔

وہابی علما میں سے ابن تیمیہ کہتا ہے: یہود اس طرح جبرائیل کے عیب و نقص اور ملائکہ میں سے اسے اپنا دشمن سمجھنے کے درپے تھے جس طرح شیعہ کہتے ہیں کہ جبرائیل نے رسالت پہنچانے میں علی کی بجائے محمد کو رسالت پہنچانے میں اشتباہ کیا ہے۔[37]

جبکہ شیعہ اس قسم کا کوئی عقیدہ نہیں رکھتے ہیں اور ان کے علما نے اس تہمت کا جواب دیا ہے۔(مطالعہ بیشتر: سایت ولی عصر-عج-)

نزول وحی

مصادر اسلامی میں موجود روایات کے مطابق جبرئیل نے قرآن کی پہلی آیات[38] کی وحی غار حرا میں رسول اللہ تک پہنچائی۔ اسکے بعد پیامبرؐ حضرت خدیجہؑ کے پاس واپس آئے اور انہیں اس اہم واقعہ سے آگاہ کیا۔[39]

اہل سنت کا نظریہ

اہل سنّت کے قدیمی مصادر میں متعدد روایات کے مطابق پیغمبرؐ وحی حاصل کرنے کے بعد تردید کا شکار ہو گئے کہ میں نے وحی کا فرشتہ دیکھا ہے یا شیطان سے ملاقات کی ہے اور انکی زوجہ کے نصرانی رشتے دار: وَرَقَۃ بن نَوْفَل فردی نصرانی نے ان سے کہا کہ یہ وہی صاحب فرشتہ ہے جو اس سے پہلے حضرت موسی پر نازل ہوا تھا۔ رسول اللہ یہ سن کر مطمئن ہوگئے۔[40]

ان کے بعد آنے والے دیگر اہل سنت مؤرخین، محدّثین اور مفسرین نے اسے قبول کیا ہے[41] یہاں تک کہ یہ حدیث شیعہ کے حدیثی اور تفسیری مصادر میں بھی پائی جاتی ہے۔[42]

شیعہ عقیدہ

شیعہ علما نے اس حدیث کی سند اور مضمون کی مکمل تحقیق کی اور اس پر تنقید و اعتراض کئے ہیں۔ ان میں سے اس حدیث کے سلسلے کا کسی عینی شاہد پر منتہی نہ ہونا، داستان کے نقل میں اختلاف اس کے جعلی اور بناوٹی ہونے، حقیقت وحی میں رسول اکرم کی تردید اور ان کا فرشتے یا شیطان سے ملاقات میں شک و شبہ کا شکار ہونا پیغمبر کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔[43]

یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیعہ مصادر میں آغاز وحی کی کیفیت نقل ہوئی ہے جو اہل سنت مصادر میں موجود حدیث کی مشکلات سے خالی اور مبرا ہے نیز وہ پیغمبر کے مقام اور ان کی عصمت سے سازگار ہے۔[44]

مدد پیغمبرؐ

جبرئیل رسول اللہ کی رسالت کے دوران مسلسل ان کے ولی اور مدگار رہے:

  1. رسول اللہؐ کی شرح صدر اور تطہیر میکائیل نے انجام دی۔[45]
  2. وضو اور نماز پڑھنے کی تعلیم دی۔[46]
  3. معراج میں رسول کے ہمسفر اور راہنما رہے۔[47] اگرچہ سدرۃ المنتہی کے مقام پر رسول کی ہمراہی سے رہ گیا اور اس کے بعد رسول اللہ نے اکیلے معراج کی سیر کو رکھا۔[48]
  4. اپنے خاندان کو پیغام خدا دینے کے موقع پر۔[49] جبرئیل نے اس کام کے انجام دینے کی تاکید کی۔ [50]
  5. اسی طرح ہجرت سے پہلے کفار کی جانب سے رسول کے قتل کی سازش سے آگاہ کیا۔[51]
  6. غزوۂ بدر کے موقع پر ہزاروں فرشتوں کے ساتھ رسول اللہ اور ان کے اصحاب کی مدد کی۔[52]

جبرئیل رسول اکرم کی خدمت میں تواضع کے ساتھ حاضر ہوتے اور پہلے آپ سے اجازت طلب کرتے۔ مسجدالنبی میں رسول کی خدمت میں حاضری کے مقام کا نام مقام جبرئیل ہے۔[53] جبرائیل ہر سال پیامبرؐ پر ایک مرتبہ ماہ رمضان میں قرآن لے کر حاضر خدمت ہوتے تھے۔[54] کہا گیا ہے کہ جبرائیل رسول اللہ کی خدمت میں ساٹھ ہزار مرتبہ آئے۔[55]

رؤیت جبرئیل

روایات کے مطابق جبرئیل وحی لانے کیلئے کبھی حقیقی شکل، کبھی خوبصورت نوجوان کی شکل اور بعض اوقات غیر مرئی صورت میں رسول اکرم کے پاس آتے تھے۔[56]

حقیقی چہرہ

اہل سنّت و شیعہ کتب کے مطابق،[57] پیامبرؐ نے دو مرتبہ جبرئیل کو حقیقی صورت میں مشاہدہ کیا:[58]

  1. ایک مرتبہ «افق اعلی» میں جب رسول اللہ نے ان سے حقیقی صورت دیکھنے کی درخواست کیا۔
  2. دوسری مرتبہ معراج میں سدرۃ المنتہی کے نزدیک ۔

نیز کہتے ہیں ایک مرتبہ رسول اللہ نے انہیں آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا، اس کے بعد سورۂ مدثر کی آیات آپ پر نازل ہوئیں۔[59] جبرئیل کی حقیقی صورت کی توصیف بیان کرتے ہوئے بعض نے کہا: در و مروارید سے آراستہ چھ سو پر رکھتا ہے اور عظمت کے لحاظ سے عالم کے شرق و غرب کو پُر کرتا ہے۔[60]

صورت انسانی

رسول اکرم نے فرمایا: جبرائیل اکثر ایک خوبصورت نوجوان دحیہ کلبی کی صورت میں ظاہر ہوتے تھے۔[61] بعض نے کہا کہ بعض صحابہ اور حضرت عائشہ نے ان خصوصیات کے ساتھ دیکھا اور گمان کیا کہ وہ دحیۂ کلبی ہے۔[62]

اہل سنت کی بعض روایات کے مطابق وہ ایک مرتبہ دینی تعلیم دینے والے شخص کی صورت میں صحابہ کے درمیان آئے۔[63] وہ اکثر ایک عام شخص کی صورت میں ظاہر ہوتے۔ سبز رنگ کے لباس، سر پر ابریشم کے عمامے اور گھوڑے پر سوار ہوتے۔[64]

آئمہؑ کی مدد

احادیث کے مطابق شیعہ ائمہ بھی جبرائیل کی مدد سے فائدہ حاصل کرتے تھے۔ چنانکہ علامہ مجلسی[65] نے اس عنوان سے ایک باب ذکر کیا اور اس میں بہت سی احادیث ذکر کی ہیں۔

نیز کہا گیا کہ جبرائیل نے دعائے لیلۃ السبت حضرت علیؑ کو تعلیم دی۔[66] رسول اللہ کے وصال کے بعد جبرائیل حضرت فاطمہؑ کو مطالب القا کرتے اور حضرت علی انہیں مصحف میں لکھ لیتے جو مصٖحف فاطمہ کے نام سے مشہور ہوا۔[67]

نبی، رسول اور امام میں فرق

روایات کے ایک مجموعے میں جبرائیل کے نازل ہونے کی کیفیت کے لحاظ سے رسول، نبی اور امام کے درمیان فرق بیان ہوا ہے۔ چنانکہ رسول جبرئیل کو دیکھتے ہیں اور ان سے بات چیت کرتے ہیں، نبی انہیں خواب میں دیکھتے اور اس کی آواز سنتے ہیں جبکہ امام صرف ان کی آواز سنتے ہیں۔ صفار قمی[68] نے ان روایات کو ایک باب کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے۔[69]

قصص انبیاء

انبیا کے قصص میں بھی جبرائیل کا ایک بنیادی کردار رہا ہے کیونکہ وہ حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسی تک انبیا کا معلم اور مددگار رہے ہیں۔ انہوں نے حضرت آدم کو زراعت اور لوہے کے استعمال کی کیفیت اور مناسک حج؛ حضرت نوح کو کشتی بنانے، حضرت داؤد کو زرہ بنانے کی تعلیم دی؛ حضرت ابراہیم کو آتش نمرود سے رہائی دی؛ حضرت اسماعیل کے ذبح کے وقت اور حضرت یوسف کو کنویں میں گرانے کے موقع پر رہائی دی اور حضرت موسی کے فرعونیوں سے مقابلے کے موقع پر ان کی حمایت کیلئے فرعونیوں کی سرخ سمندر کی طرف راہنمائی کی اور انہیں غرق کیا۔ ان میں سے اکثر داستانوں کو کعب الاحبار اور وَہْب بن مُنَبِّہ (کہ جو غیر موثق ہیں) نے روایت کیا ہے اور ان کی تفصیل ثعلبی کی قصص الانبیاء[70] مذکور ہوئی ہیں۔

القاب

روایات میں جبرائیل کیلئے آنے والے القاب: طاووس الملائکہ، افضل الملائکہ، ناموس اکبر (صاحب خبر خیر کہ جو صاحب خبر شر کے مقابلے میں ہے)۔[71]

جبرئیل ایک برگزیدہ فرشتہ ہیں اور ان کا شمار ان مقرب ترین فرشتوں میں سے ہوتا ہے جن کے ذمے اس عالم کی تدبیر ہے؛[72] جبرئیل وحی لانے والے، میکائیل رزق اور بارش کے مؤکل، اسرافیل صور پھونکنے اور عزرائیل موت کے فرشتہ ہیں۔

بلند مرتبہ فرشتہ

روایات کی روشنی میں جبرائیل پر دیگر تین فرشتے برتری رکھتے ہیں۔ چنانچہ نزول وحی میں میکائیل و اسرافیل کے واسطہ ہونے یا میکائیل کے بزرگ ہونے کی دلیل یا عزرائیل کے وسیلے سے جبرائیل کے مرنے کو مذکورہ فرشتوں کی جبرائیل پر فضیلت کے دلائل سے شمار کیا ہے؛[73] لیکن جبرائیل کی سب پر فضیلت کا نظریہ صحیح تر ہے۔[74]

یہودیت اور مسیحیت میں جبرائیل

عبری زبان کا لفظ Gaḇrīēl یونانی زبان میں Gabriel بولا جاتا ہے جس کا معنا خدا قادر ہے، یا مرد خدا اور قہرمان خدا کے معنا میں ہے۔[75] جبرائیل کا نام چار مرتبہ عہدین میں آیا ہے:

  1. دانیال نبی کی کتاب میں دو مرتبہ:
    1. کتاب دانیال نبی،[76] میں ہے کہ جبرائیل انسانی صورت میں دانیال پر ظاہر ہو جائے گا تا کہ اس کے خواب کو اس کیلئے بیان کرے۔ جبرئیل کا حضور ایسے جذبے کے ساتھ ہے کہ دانیال اس سے مدہوش ہو جائے گا۔
    2. کتاب دانیال نبی،[77] میں ایک اور جگہ آیا ہے جس وقت دانیال دعا اور قربانی میں مشغول تھے تو اس وقت جبرئیل پرواز کرتے ہوئے ان کے پاس آئے تا کہ اسرار سے پردہ اٹھا کر انہیں واضح کریں۔ ان مقامات پر جبرائیل کا نام نہیں آیا بلکہ صرف موجود آسمانی کا ذکر ہے کہ جسے خدا کا پیام لانے والا سمجھا جا سکتا ہے کہ جس کا حضور جذبہ اور قدرت الہی کے ساتھ موجود ہے۔[78]
  2. انجیل لوقا میں دو مرتبہ:
    1. حضرت زکریا کیلئے حضرت یحیی کی ولادت کی خوشخبری لانے والے[79]
    2. حضرت مریم کیلئے حضرت عیسی کی پیدائش کی خوشخبری لانے والے[80]

کہا گیا ہے کہ عہد قدیم میں جبرائیل کا وجود صرف قدرت الہی کے مظہر کے طور پر آیا ہے لیکن عہد جدید میں اسکے علاوہ آرام، سکون اور اطمینان کی صفات بھی بیان ہوئی ہیں۔[81] اسی طرح کہا گیا ہے کہ کتاب مقدس میں ہر چوتھی بار جبرائیل کا حضور ظہور مسیح کے وعدۂ الہی کی طرف ناظر ہے۔[82]

غیر آسمانی آثار

توریت اور انجیل[83] کے درمیان کے غیر آسمانی آثار میں جبرائیل کا فراواں اور اس کے بعد اس کا بہت زیادہ ذکر ملتا ہے اور اس نے مَلَک مقرب کی حد تک ارتقا پیدا کر لیا۔ توریت کے ترجمے اور تفسیر آرامی میں جبرائیل کا نقش اور زیادہ پُر رنگ ملتا ہے۔ اس کی طرف ایسے افعال کی نسبت دی گئی ہے کہ جو عہد عتیق کے ابتدائی زمانوں میں واقع ہوئے مثلا جبرائیل وہ ہے جو یوسفؑ کی راہنمائی کرتا ہے[84] یا موسیؑ کے دفن میں شریک ہوتا ہے۔[85]

اسی طرح یہودیوں کے نوشتہ جات میں جبرائیل کو آگ سے بنایا گیا ہے، اس کے ساتھ میکائیل، اوریل اور رافائل وہ چار فرشتے ہیں جو عرش الہی کے اطراف میں موجود ہیں۔ اسکے علاوہ وہ ابراہیمؑ سے ملاقات کرنے والے فرشتوں میں سے ہے نیز اسے قوم لوط کے شہر سَدوم ویران کرنے والوں میں سے جانا گیا ہے۔[86]

فرشتوں کے درمیان مقام

ہر چند جبرئیل نے یہودی اور مسیحی کے مذہب میں زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اہمیت، ارج اور زیادہ قرب پید کیا یہاں تک کہ انکے شعبۂ آرٹ میں پروں والے فرشتے کی صورت میں اسکی تصاویر بنائی جانے لگیں البتہ نہ تو یہودی آئین (کہ جس میں میکائیل کو ہمیشہ قوم یہود کا مدافع سمجھا جاتا ہے) اور نہ مسیحی آئین میں جبرئیل میکائیل کا مرتبہ حاصل کر سکا بلکہ اسکا مقام و مرتبہ میکائیل کے مقابلے میں ہمیشہ ثانوی ہی رہا ہے۔[87]

فلسفہ

فلسفی اور عرفانی تعلیمات میں جبرائیل عقل و روح کے مفاہیم سے جڑا ہوا ہے۔

ابن سینا

ابن سینا کے بیانات میں عقول سے مراد مقرب ملائکہ ہیں نیز کیفیت وحی کی تبیین میں معتقد ہے کہ رسول خدا عقل فعّال کے ذریعے متصل ہیں اور دینی معارف اس کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔ [88] ابن سینا وحی نازل کرنے والے فرشتے کو روح القُدُس کہتا ہے اور اس کے نزدیک شریف ترین ارواح اور قدسی نفس ہیں یا واجب الوجود اور عقل اول کے درمیان واسطہ کہتا ہے۔[89]

شیخ اشراق

شہاب الدین سہروردی[90] بھی جبرائیل کو سیر نزولی میں عقول اور کلمات الہی، آخرین کلمہ اور عقل دہم سمجھتا ہے۔ فلسفۂ اشراق کی اصطلاح میں جبرائیل انوار قاہرہ اور ان میں سے بزرگ‌ ترین اور صاحب طلسم نوع انسانی ہے۔[91] سہروردی عنصری اور محسوس عالم نیز انسانوں کی ارواح کو فعل جبرئیل کا معلول سمجھتا ہے۔[92] حیات ادا کرنے کے علاوہ علم و فضیلت عطا کرنے کو بھی اس کی طرف نسبت دیتا ہے۔[93]

سہروردی[94] کے عقیدے کے مطابق جبرائیل یا روح القدس نفوس انسانی کو قوت سے فعل میں لاتا ہے اور اگر انسان اپنے اندر صلاحیت پیدا کر لیں تو وہ اس سے متصل ہو سکتے ہیں اور اس کے گنجینۂ علم و فضائل سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس نظریے میں جبرائیل جو انسانی نفوس کے ساتھ نسبت رکھتا ہے وہ خورشید کی آنکھ سے نسبت کی مانند ہے یا قلم کی لوح سے تمثیل بیان کی گئی ہے۔ اس ترتیب کے لحاظ سے جبرائیل واسطۂ وجود ہے اور نفوس انسانی کی معرفت کا منشا ہے۔

ملاصدرا

ملا صدرا[95] جبرائیل، روح القدس اور عقل فَعّال کو ایک سمجھتا ہے۔ اس کے عقیدے کے مطابق [96] جبرائیل ہدایت کا فرشتہ ہے اور فرشتوں کے درمیان تکمیل نفوس میں برجستہ کردار رکھتا ہے اور اس کے واسطے سے علوم نفوس کو اور وحی انبیا کو افاضہ کی جاتی ہے۔ ملا صدرا کی رائے کے مطابق[97] تمام انسانوں میں علم کا فیض پہنچانے کے لحاظ سے جبرائیل کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ علوم و معارف کے کسب کا میزا ن اور درجہ ان کی ان استعدادوں اور نفوس کی ان قابلیتوں کے تفاوت سے تعلق رکھتا ہے کہ جس قدر وہ جبرائیل اور عقل کے ساتھ انکے ارتباط کو فراہم کرتی ہیں۔ملا صدرا کی رائے کے مطابق[98] جبرئیل دو مَقام رکھتا ہے اور ان مقامات کی مناسبت سے اسے دو لقب دئے گئے ہیں: جب تک اس نے آسمانِ تجرد اور قرب سے نزول نہیں کیا اس کے لئے «روح القدس» کا لقب شائستہ ہے اور جب وہ اس مقام سے تنزل کر لے اور متناسب صورت میں متمثل ہو جائے تو اس کے لئے روح کی تعبیر استعمال کی جاتی ہے۔

اسماعیلیہ

ابو یعقوب سجستانی (متوفی ۳۵۳ق)، اسماعیلی «جَدّ»، «فتح» اور «خیال» کی اصطلاحات کی توضیح کے ضمن میں انہیں جبرئیل و میکائیل و اسرافیل پر تطبیق کرتا ہے۔ «جدّ» وہی «بخت» ہے اور اسے انسانوں میں شقاوت و سعادت کی تعیین کرنے والا عامل سمجھتا ہے کہ اگر پاک نفس کو مورد توجہ قرار دے تو یہ فرد اپنے زمانے کا مربی ہو جاتا ہے اور وہ لوگوں کو رضوان الہی کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ انوار ملکوتی اس جدّ کے ذریعے اس فرد تک پہنچتے ہیں اور اگر یہ پیغامات مجمل و مبہم ہوں تو فتح (میکائیل) انہیں سلجھاتا اور بیان کرتا ہے۔[99]

انہی عقائد اور افکار کا پابند ناصرخسرو (متوفی ۴۸۱) جبرائیل، میکائیل و اسرافیل کو تین القاب «جدّ» «فتح» و «خیال» سے یاد کرتا ہے۔ سات نور ازلی کے زمرے میں عقل و نفس کے بعد اس کا نام لیتا ہے۔[100]

عرفانی تعلیمات

عرفانی تعلیمات میں جبرائیل مبدائے حیات، علم حق تعالی کا مظہر، متمثلۂ عقل کی صورت، تحصیل علوم اور تدبیر معاش پر مؤکل اور رسل کا استاد مذکور ہے۔[101] اور وہ قیامت سے پہلے ان چار فرشتوں میں سے نیز قیامت کے موقعہ پر عرش الہی اٹھانے والے آٹھ فرشتوں میں سے ایک ہو گا۔[102]

فناری[103] کے مطابق مقام جبرئیل سدرۃ المنتہی میں ہے۔ یہ مقام عالم طبیعت کلی ثابت اور برزخ کے درمیان ہے کہ جو عالم مثال، عرش، کرسی اور اس سے متعلق اشیا پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے جبرائیل کی صورت جو ظاہر ہوئی وہ سدرہ اور اس کے ما سوا سے بالا تر ہے۔ جبرئیل کلمۂ الہی کا نقل کرنے والا ہے:[104]

  1. فعلی: حضرت مریمؑ اور تولد عیسیؑ ک واقعے میں کلمۂ الہی کا منتقل کرنا پہلی قسم سے ہے اور اسی اعتبار سے اسے روح القدس کہا گیا ہے۔
  2. قولی: روح الامین کا لقب اسے دوسرے لحاظ (قول) سے ہے۔

سید حیدر آملی[105] کو ایک اعتبار سے عقل اول ہی سمجھتے ہیں اور اعتقاد جیلی[106] کے مطابق خدا نے جبرئیل کو عقل اول سے ازل میں خلق کیا ہے کہ جو روحانیت حضرت محمدؐ ہے۔ اسی وجہ سے رسول اکرمؐ جبرئیل کے باپ اور تمام عالَم کی اصل ہیں۔ نیز یہی وجہ ہے کہ شب معراج، مراتب بالا میں ایک مقام سے آگے رسول خدا کے ساتھ نہیں گیا۔

وہ معتقد ہے «حقیقت محمدیہ» یا «روح» فرشتوں اور تمام موجودات سے اشرف و افضل ہے نیز جبرائیل سمیت کئی فرشتے اس اسکی صورت اور مخلوق ہے۔[107] روح القدس اور روح الامین جیلی کے نزدیک جبرئیل کا مخصوص لقب نہیں ہے بلکہ اس کے نزدیک جبرئیل کو روح الامین نام رکھنا اصل(عقل اول) کے لحاظ سے فرع(جبرائیل) کے نام رکھنے کے باب میں سے ہے۔[108] اصطلاح اہل تصوف میں جبرائیل کو روح القاء (قلوب پر القائے علم غیب کا واسطہ) بھی کہا گیا ہے۔[109]

عرفانی ادبیات

انطباق سیمرغ

سیمرغ کی خیالی تصویر

عرفانی ادبیات میں جبرائیل پر سیمرغ کی خصوصیات منطبق کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سیمرغ ایک افسانوی اور خیالی پرندہ ہے جو مقدّس اور طبیعت سے ماوراء ہے جیسے جبرائیل کی بڑے پروں اور بہت بڑی جسمات کے ساتھ اس کی توصیف بیان ہوئی ہے۔[110] سیمرغ کا سفیدی (روشنی) کا حامی ہونا اور غیبی قوتوں کے منتقل کرنے میں اس کا واسطہ ہونا، جبرائیل کے رسول خدا کے ساتھ باہمی ارتباط میں کسی شباہت سے خالی نہیں ہے۔[111]

درخت یا پہاڑ کہ جس پر سیمرغ کا آشیانہ ہے نیز اسکی خصوصیات بھی غیر مادی ہیں:

اس درخت کا نام طوبیٰ ہے جو پہاڑوں کے درمیان سے نکلا ہوا ہے اور وہ تمام جڑی بوٹیوں اور زمین سے اگنے والی تمام ہریالی اور سبزے کی اصل ہے۔ سیمرغ جب صبح کے وقت جب اپنے آشیانے سے باہر نکل کر پرواز کرتا ہے تو اس کے پر ساری زمین پر پھیل جاتے ہیں۔ ہر درخت کا پھل و میوہ اسی کے اثر سے ہے۔[112]
مکان جبرئیل کو سدرۃ المنتہی سمجھتے ہیں کہ جو ایک باعظمت درخت ہے کہ جہاں خلائق کا علم و عمل اور مقامات انبیا و ملائکہ ختم ہوتے ہیں۔[113]
سیمرغ، تمام پرندوں کا بادشاہ ہے۔[114] وہ چیزیں جو رسالہ الطیر ابن سینا[115] اور داستان مرغان احمد غزالی[116] میں، سیمرغ کی طرف پرندوں کے پرواز اور مراحل و مدارج کے طے کرنے کے بارے میں آیا یہ تکامل نفس کے مراحل و مدارج اور عقل مستفاد کے مرحلے اور عقل فعال (جبرائیل) کے مشابہ ہے۔[117]


ملا صدرا[118] نے نیز اہل عرفان سے نقل کیا ہے کہ تمام مخلوقات ممکنہ کمالات تک رسائی اور ااسی طرح سالکوں کا اپنے مقاصد اور چاہتوں تک پہنچنا اسی مقدس پرندے کی بدولت ہے۔

جبرائیل کی عرفانی خصوصیات

سہروردی در رسالۂ آواز پر جبرئیل،[119] قرآن[120] میں وصف بال ملائک اور جو روایات میں جبرائیل کے پروں کے بارے میں اس سے متاثر ہونے کی وجہ سے قائل ہے کہ جبرئیل اپنے دو پروں کی بدولت ان سب ملائکہ سے برتر ہے جو دو، تین یا چار پر رکھتے ہیں کیونکہ دو کا عد ایک کے زیادہ نزدیک ہے۔ نیز اس نے جبرائیل کے دائیں کے روشن اور بائیں پر کے تاریک ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سہروردی کے مطابق نور علامت وجود و ظلمت و تاریکی عدم کی علامت ہے اور نور الانوار کہ صرف نور اور واجب الوجود بالذات ہے، کے علاوہ ہر موجود دیگری ممکن الوجود ہے اسی امکان کے سبب اس کا جبرائیل کا بایاں پر تاریک ہے۔ جبرائیل کے بائیں نورانی پر سے نفوس اور بائیں پر مادی عالم وجود میں آتا ہے۔ انبیا اور اولیا کو حقائق کا القا دائیں پر سے اور قہر، صیحہ اور حوادث بائیں پر سے منسوب ہیں۔[121]

صدر الدین شیرازی[122] کے مطابق اہل عرفان کے نزدیک یہ پرندۀ قدسی کہ جو کوہ قاف میں ہے، اس کی صدا خواب ظلمت والوں کیلئے بیداری اور ذکر آیات الاہی سے غافلین کیلئے ہوشیاری کا موجب بنتی ہے لیکن اس کی آواز کو سننے والے اور اس کی آواز کی شناخت کرنے والے بہت کم لوگ ہیں۔ جو اس کی آواز کو سمجھ لیتا ہے وہ تمام پرندوں کی آواز کو سمجھ لیتا ہے۔

منظوم شاعری میں پرِ جبرئیل بہت استعمال ہوئی ہے۔[123] دشمنوں کے مقابلے میں محافظت، آگ اور پانی سے بچاؤ زخموں کا مندمل ہونا اس کی خصوصیات میں سے بیان ہوئی ہیں۔[124] جبرئیل کو «طاووس الملائکہ»، «اَبِ ما» (پانی کا باپ) اور عقل کل نیز کہا گیا ہے۔[125]

باب جبرئیل

مسجد النبی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ باب جبرائیل کے نام سے مشہور ہے۔ کہا گیا ہے کہ باب جبرائیل وہ مقام ہے جہاں جبرائیل آکر ٹھہرتے تھے اور رسول اللہ سے شرف یابی کی اجازت طلب کرتے تھے۔[126] زیارت قبر پیامبر کے آداب میں آیا ہے کہ زائر مسجد نبی میں اس دروازے میں وارد ہو۔[127]

حوالہ جات

  1. جفری، ص 100101.
  2. ر ک: جوالیقی، ص327؛ ابوحیان غرناطی، ج 1، ص317؛ مرتضی زبیدی، ج 10، ص357۔
  3. ابو حیان غرناطی، ج 1، ص317و318.
  4. ر ک: جوہری، ذیل «جبر»؛ جوالیقی، ص۱۱۳۱۱۴.
  5. دانی، ص ۷۵.
  6. دیکھیں: بہابن جزری، ج 2، ص219۔
  7. سمین حلبی، ج ۲، ص۱۸.
  8. ر ک: بہازہری، ج 11، ص58و59؛ ابن سیدہ، ج 7، ص407؛ مرتضی زبیدی، ج 10، ص348.
  9. ر ک: خلیل بن احمد؛ جوہری، ذیل «ایل».
  10. ر ک: مشکور، ایضا۔
  11. رک: ابو حیان غرناطی، ایضا
  12. زامیت، ص116، 530؛ مشکور، ایضا
  13. ر ک: بہجفری، ص100؛ مشکور، ج 1، ص126و127؛ جُعَیط، ص63.
  14. زامیت، ص116؛ مشکور، ج 1، ص126۔
  15. رک: ابن کثیر، ج1، ص205؛ مرتضی زبیدی، ج 10،ص 357۔
  16. مراجعہ کریں: بقرہ: ۹۷، ۹۸؛ تحریم: ۴.
  17. مراجعہ کریں: فخر رازی، ج ۲، ص۳۲؛ صدر الدین شیرازی، ج ۱، ص۲۹۶۳۰۱.
  18. برای نمونہ رک: طبری، جامع؛ طوسی، التبیان؛ فضل بن حسن طَبْرِسی، ذیل آیات.
  19. شعراء: ۱۹۳.
  20. حاقہ: ۴۰؛ تکویر: ۱۹.
  21. نجم: ۵، ۶؛ تکویر: ۲۰.
  22. تکویر: ۲۰، ۲۱.
  23. نحل: ۱۰۲؛ کہ جو اس آیت: قُلْ نَزَّلَہ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّکَ... کے مضمون اور سورہ بقرہ کی 97ویں آیت:  : قُل مَنْ کانَ عَدُوّاً لِجِبریلَ فَاِنَہُ نَزَّلَہُ عَلی قَلِبکَ بِاذِنِ اللّہِ... کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے کہ جس میں واضح طور پر تنزیل قرآن کو جبرائیل کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ دیگر احتمالات جاننے کیلئے دیکھیں: میبدی، ج 1، ص263و264؛ فخررازی، ج 3، ص177.
  24. رک: فضل بن حسن طبرسی؛ طباطبائی، ذیل آل عمران: 45.
  25. مریم: ۱۷؛ نیز رک: طبری، جامع؛ طوسی، التبیان، ذیل آیت.
  26. رک: طبری، جامع، ذیل مریم: 22؛ تحریم: 12؛ طوسی، التبیان، ذیل انبیاء: 91؛ تحریم: 12.
  27. رک: طبری، جامع؛ طوسی، التبیان، ذیل بقرہ: 87، 253؛ مائدہ:110.
  28. دیگر احتمالات کیلئے رک: نحاس، ج 4، ص318؛ فضل بن حسن طبرسی، ذیل مریم: 17.
  29. رک: طوسی، التبیان، ج 1، ص40و341، ج 7، ص114، ج 8، ص62؛ فخر رازی، ج 24، ص166و165.
  30. رک: نحل: 2؛ معارج: 4؛ نبأ: 38؛ قدر: 4.
  31. رک: اسراء: ۸۵.
  32. رک: طوسی، التبیان، ج 6، ص359و360، ج 10، ص249؛ فخر رازی، ج 21، ص36تا39.
  33. رک: ابن سعد، ج 1، ص175و176؛ واحدی نیشابوری، ص17تا19.
  34. رک: طبری، جامع؛ زَمَخْشَری، ذیل بقرہ: 97.
  35. رک: طبری، ایضا
  36. بخاری، ج ۴، ص۲۶۸.
  37. منہاج السنۃ النبویہ ج۱ ص۶ ۸.
  38. علق: ۱ ۵.
  39. رک: عاملی، ج ۱، ص۲۳۳.
  40. رک: ابن ہشام، ج ۱، ص۱۵۵۱۵۷؛ ابن سعد، ج ۱، ص۱۹۴ ۱۹۵؛ طبری، تاریخ، ج ۲، ص۲۹۸۳۰۳؛ ایضا، جامع، ذیل علق؛ اس روایت کو کچھ اختلاف سے ذکر کیا۔ رک:ابن حنبل، ج ۱، ص۳۱۲، ج ۶، ص۲۲۳؛ بخاری، ج ۱، ص۳، ج ۴، ص۱۲۴، ج ۶، ص۸۸.
  41. مثال کے طور پر رک: قُرطُبی، ج ۱، ص۱۱۵۱۱۶؛ ابن کثیر، ج ۳، ص۵ ۶، ۱۳؛ ابن حَجَر عَسقَلانی، ج ۸، ص۵۴۹ ۵۵۴.
  42. مثال کے طور پر دیکھیں: ابو الفتوح رازی؛ فضل بن حسن طبرسی، ذیل آیات ابتدای سورۃ علق؛ ابن شہر آشوب، ج ۱، ص۴۲.
  43. رک: عاملی، ج 1، ص220و223؛ سبحانی، ج 1، ص188تا190؛ دوانی، ص157تا260؛ شرف الدین، ص421؛ معرفت، ج 1، ص80تا82.
  44. رک: ابن شہر آشوب، ج ۱، ص۴۳؛ نہج البلاغۃ، خطبۃ ۱۹۲؛ بَحْرانی، ذیل علق؛ مجلسی، ج ۱۷، ص۳۰۹۳۱۰.
  45. ابن حنبل، ج 3، ص149؛ طبری، تاریخ، ج 2، ص308.
  46. ابن ہشام، ج 1، ص161؛ طبری، تاریخ، ج 2، ص307.
  47. ابن حنبل، ج 3، ص148و149؛ بخاری، ج 4، ص77و78؛ طبری، تاریخ، ج 2، ص308و309.
  48. ابن بابویہ، 1386، ج 1، ص277؛ قرطبی، ج 3، ص425.
  49. رک: شعراء: ۲۱۴.
  50. طبری، جامع، ذیل شعراء:214؛ ایضا، تاریخ، ج 2، ص320.
  51. ابن ہشام، ج 2، ص333؛ طبری، تاریخ، ج 2، ص372.
  52. ابن سعد، ج 2، ص16؛ طبری، جامع، ذیل انفال : 9؛ مجلسی، ج 56، ص198و199۔
  53. رک: کُلَینی، ج 4، ص452؛ ابن بابویہ، 1404، ج 2، ص570؛ ایضا، 1363ش، ج 1، ص85؛ طوسی، مصباح المتہجّد، ص710.
  54. رک:ابن حنبل، ج 1، ص276، 325و326، 363؛ بخاری، ج 2، ص228، ج 6، ص101و102.
  55. ابن شہر آشوب، ج ۱، ص۴۱.
  56. فرہنگنامہ علوم قرآن، ج1، ص1899
  57. رک: ابن حنبل، ج 1، ص395، 398، 407، ج 6، ص241؛ بخاری، ج 4، ص82و83، ج 6، ص50؛ طبری، جامع، ذیل نجم : 8و11، 1216، 1817؛ ابن بابویہ، 1387، ص263؛ احمد بن علی طبرسی، ج 1، ص362.
  58. رک: نجم : 181.
  59. رک: ابن حنبل، ج 3، ص377؛ بخاری، ج 1، ص4، ج 6، ص7576؛ طبری، جامع؛ طوسی، التبیان، ذیل مدثر.
  60. رک: ابن حنبل، ج 1، ص407؛ بخاری، ج 4، ص8483؛ مقدسی، ج 1، ص173؛ قزوینی، ص9192؛ قس الاختصاص، ص4546 کہ جس میں ابن عباس سے اس کی جزئیات بیان ہوئی ہیں۔
  61. رک: ابن سعد، ج 4، ص250؛ ابن شہر آشوب، ج 2، ص254؛ ابن طاووس، ص129 130، 148؛ سیوطی، ج 1، ص205۔
  62. رک: ابن سعد، ج ۳، ص۴۲۲، ۴۸۸، ج ۴، ص۲۵۰؛ طبری، تاریخ، ج ۲، ص۵۸۲ ۵۸۳؛ ایضا، جامع، ذیل احزاب : ۲۶۲۷؛ کلینی، ج ۲، ص۵۸۷؛ احمدبن علی طبرسی، ج ۱، ص۱۹۵.
  63. رک: ابن حنبل، ج 1، ص27، 5253؛ بخاری، ج 1، ص18.
  64. رک: ابن ہشام، ج 3، ص716؛ ابن سعد، ج 2، ص26؛ طبری، تاریخ، ایضا
  65. مجلسی، بحار، ج 25، ص47 کے بعد.
  66. طوسی، مصباح المتہجّد، ص420.
  67. رک: صفار قمی، ص۱۷۴؛ کلینی، ج ۱، ص۲۴۱، ۴۵۸.
  68. صفار قمی، ص ۳۸۸۳۹۴.
  69. نیز رک: کلینی، الکافی، ج ۱، ص۱۷۶۱۷۷.
  70. رک: ثعلبی، ص ۳۲، ۳۴، ۴۸، ۶۷ ۶۸، ۸۲، ۱۰۰، ۱۷۶، ۲۴۵.
  71. رک: نَوَوی، ج 1، ص144؛ قزوینی، ص91؛ سیوطی، ج 1، ص92؛ مجلسی، ج 17، ص309، ج 18، ص228، ج 56، ص258.
  72. رک: ابن بابویہ،1404، ج 4، ص236؛ سیوطی، ج 1، ص9394؛ مجلسی، ج 56، ص170، ج 65، ص18.
  73. رک: سیوطی، ج 1، ص9293؛ مجلسی، ج 6، ص329، ج 56، ص223.
  74. رک: مجلسی، ج ۵۶، ص۲۰۶، ۲۴۹، ۲۵۸.
  75. دانش نامہ معیار کتاب مقدّس، ذیل "Gabriel" ؛ دائرۃ المعارف جدید کاتولیک، ذیل "Gabriel, Archangel".
  76. دانیال نبی، ۸:۱۶.
  77. دانیال نبی، ۹:۲۱.
  78. نیز رک: کتاب دانیال نبی، ۱۰:۱۸.
  79. لوقا، ۱: ۱۹.
  80. لوقا، ۱:۲۱.
  81. رک: دانشنامہ معیار کتاب مقدّس، ذیل "Gabriel".
  82. رک: دانشنامۃ معیار کتاب مقدّس، ذیل "Gabriel".
  83. برای نمونہ کتاب اول خنوخ.
  84. رک: سفر پیدایش، ۳۷:۱۵.
  85. رک: سفر تثنیہ، ۳۴:۶؛ دانش نامہ معیار کتاب مقدّس، ذیل "Gabriel".
  86. رک: د. جودائیکا، ذیل "Michael and Gabriel".
  87. رک: دایرۃ المعارف جدید کاتولیک، ذیل "Gabriel, Archangel"؛ د. جودائیکا، ذیل "Michael and Gabriel".
  88. ابن سینا، ۱۳۶۳ش، ص۱۰۳، ۱۱۶.
  89. رک: ابن سینا، ۱۴۰۴، ج ۱، ص۴۴۲؛ ایضا، ۱۳۶۵ش،ص ۸۹ ۹۰.
  90. سہروردی، ج ۲، ص۲۶۵.
  91. رک: سہروردی، ج ۲، ص۲۰۰۲۰۱.
  92. سہروردی، ج ۳، ص۲۰۹، ۲۱۷ ۲۱۸.
  93. سہروردی، ج ۲، ص۲۰۱.
  94. سہروردی، ج ۳، ص۱۷۹۱۸۰.
  95. صدر الدین شیرازی، ۱۳۳۷ش، سفر ۳، ج ۲، ص۲۳.
  96. ملا صدرا، ۱۳۳۷ش، سفر ۱، ج ۲، ص۶۳، سفر ۴، ج ۲، ص۱۴۲۱۴۳.
  97. ملاصدرا، ۱۳۳۷ش، سفر ۴، ج ۲، ص۱۴۴.
  98. ملاصدرا، ۱۳۶۷ش، ج ۲، ص۴۴۹.
  99. رک: سجستانی، ص ۴۳۴۴.
  100. رک: ناصر خسرو، ص۱۰۹، ۱۳۸.
  101. رک: نَسَفی، ص147؛ ابن عربی، الفتوحات المکیۃ، ج 3، ص400؛ ایضا، فصوص الحکم، ج 1، ص138؛ فناری، ص509؛ لاہیجی، ص81، 227.
  102. ابن عربی، الفتوحات المکیۃ، ج ۱، ص۱۴۷ ۱۴۸؛ فناری، ص۴۴۹.
  103. فناری، ص ۵۱۸.
  104. فناری،ص ۴۰۲.
  105. آملی، ص۶۸۸.
  106. جیلی، ج ۱، ص۲۷۳۰.
  107. رک: جیلی، ج ۱، ص۱۵۱۷؛ قس عطار، ۱۳۵۶ش، ص۳۵۹ اس آیت کے مطابق «قُلِ الرُّوحُ مِن اَمْرِ رَبّی»، اسرا: ۸۵، جبرئیل کو امر ربی کا ظہور یا ظاہر بیان کیا ہے۔
  108. رک: جیلی، ج ۱، ص۱۳ ۱۵، ۳۰.
  109. رک: عبد الرزاق کاشی، قسم ۱، ص۱۶۹؛ نقشبندی خالدی، ص۶۱.
  110. رک: فردوسی، ج ۱، ص۱۳۸، ج ۶، ص۱۷۰۳؛ اسدی طوسی، ص۱۵۳؛ عطار، ۱۳۵۶ش، ص۶۶؛ مولوی، ج ۲، دفتر ۴، بیت ۳۷۶۹؛ پورنامداریان، ۱۳۷۴ش، ص۷۵، ۸۱ ۸۲؛ منزوی، ص۴۹۵۰؛ نیز رک: خاقانی، ص۳۷؛ قس صدر الدین شیرازی، ۱۳۳۷ش، سفر ۴، ج ۲، ص۱۴۳ ۱۴۴، نے کہا ہے کہ عرفا اس روحانی فرشتے کو عنقا کہتے ہیں۔
  111. پورنامداریان، ۱۳۷۴ش، ص۸۲۸۴.
  112. رک: سہروردی، ج ۳، ص۲۳۲.
  113. رک: میبدی، ج ۹، ص۳۶۰؛ طوسی، ص۲۵.
  114. فردوسی، ج ۱، ص۱۳۹.
  115. ابن سینا، ص ۱۹۲۷.
  116. غزالی احمد، ص ۲۶۳۵.
  117. رک: پورنامداریان، ۱۳۶۴ش، ص۲۵۵۲۵۶؛ ایضا، ۱۳۷۴ش، ص۸۷ ۸۸؛ ستاری، ص۱۲۲۱۲۴، ۱۲۸۱۲۹.
  118. ملاصدرا، ۱۳۳۷ش، سفر ۴، ج ۲، ص۱۴۶.
  119. سہروردی، ج ۳، ص۲۲۰۲۲۲.
  120. فاطر: ۱.
  121. رک: پورنامداریان، ۱۳۶۴ش، ص۱۷۰۱۷۱؛ نیز در وصف بال و پر جبرئیل رک: روزبہان بَقْلی، ص۲۳۵.
  122. صدرالدین شیرازی، ۱۳۳۷ش، سفر ۴، ج ۲، ص۱۴۵.
  123. رک: سنایی، ص۶۷۶؛ انوری، ج ۱، ص۶۵؛ خاقانی، ص۳۱، ۱۸۱، ۲۲۳، ۳۴۰؛ نظامی، ج ۳، اقبال نامہ، ص۲۱۲؛ عطار، ۱۳۵۶ش، ص۶۶ ۶۷؛ مولوی، ج ۲، دفتر ۳، بیت ۱۵۱۵، دفتر ۴، بیت ۳۷۶۹، ج ۳، دفتر ۶، بیت ۴۱۳۹؛ جامی، ج ۱، تحفۃ الاحرار، ص۴۸۹؛ فروغی، ص۹، ۴۸، ۱۶۷.
  124. رک: مسعود سعد سلمان، ص۲۷۱، ۳۲۰؛ سنایی، ص۱۶۸، ۲۰۱؛ خاقانی، ص۳۷، ۵۶۰.
  125. رک: انوری، ج ۱، ص۳۶۷؛ عطار، ۱۳۷۱ش، ص۱۳۲۱۳۳.
  126. مجلہ فرہنگ زیارت، فروردین ۱۳۸۸، ش۱، انتشار: ۵ اردیبہشت ۱۳۹۴، بازبینی: ۲۶ اردیبہشت ۱۳۹۶ش.
  127. ابن براج، المہذب، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۲۷۵.؛ شہید اول، الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۹.

مآخذ

  • قرآن
  • ابن بابویہ، التوحید، چاپ ہاشم حسینی طہرانی، قم ۱۳۸۷؛
  • ابن جزری، النشر فی القراءات العشر، چاپ علی محمد ضباع، مصر ?[ ۱۹۴۰ ]، چاپ افست تہران [ بی‌تا. ] ؛
  • ابن حجر عسقلانی، فتح الباری : شرح صحیح البخاری، بیروت : دارالمعرفۃ، [ بی‌تا. ] ؛
  • ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، استانبول ۱۴۰۲/۱۹۸۲؛
  • ابن سعد (بیروت)؛ ابن سیدہ، المحکم والمحیط الاعظم، چاپ عبد الحمید ہنداوی، بیروت ۱۴۲۱/۲۰۰۰؛
  • ابن سینا، رسالۃ الطیر، در شکوفہ تقی، دوبال خرد: عرفان و فلسفہ در رسالۃ الطیر ابن سینا، تہران ۱۳۸۲ش ؛
  • ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، نجف ۱۹۵۶؛
  • ابن طاووس، الیقین باختصاص مولانا علی (علیہ‌السلام) بامرۃ المؤمنین، چاپ انصاری، قم ۱۴۱۳؛
  • ابن عربی، الفتوحات المکیۃ، بیروت : دار صادر، [ بی‌تا. ] ؛
  • ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت ۱۴۱۲؛
  • ابن ہشام، سیرۃ النبی، چاپ محمد محیی الدین عبد الحمید، [ قاہرہ ] ۱۳۸۳/۱۹۶۳؛
  • ابو الفتوح رازی، روض الجِنان و روح الجَنان فی تفسیر القرآن، چاپ محمد جعفر یاحقی و محمد مہدی ناصح، مشہد ۱۳۶۵۱۳۷۶ش ؛
  • ابو القاسم فردوسی، شاہنامہ فردوسی، از روی چاپ وولرس، تہران ۱۳۱۴ش ؛
  • ابو حیان غرناطی، تفسیر البحر المحیط، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳؛
  • ابو یعقوب سجستانی، کتاب الافتخار، چاپ مصطفی غالب، [ بیروت ] ۱۹۸۰؛
  • احمد نقشبندی خالدی، کتاب جامع الاصول فی الاولیاء، مصر ۱۳۳۱، چاپ افست قاہرہ [ بی‌تا. ].
  • احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، چاپ محمد باقر موسوی خرسان، نجف ۱۳۸۶/۱۹۶۶، چاپ افست قم [ بی‌تا. ] ؛
  • احمد بن محمد غزالی، داستان مرغان : متن فارسی رسالۃ الطیر خواجہ احمد غزالی، چاپ نصر اللّہ پور جوادی، تہران ۱۳۵۵ش ؛
  • احمد بن محمد میبدی، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، چاپ علی اصغر حکمت، تہران ۱۳۶۱ش ؛
  • احمد بن محمد نَحاس، معانی القرآن الکریم، چاپ محمد علی صابونی، مکہ ۱۴۰۸۱۴۱۰؛
  • احمد بن یوسف سمین حلبی، الدر المصون فی علوم الکتاب المکنون، چاپ احمد محمد خرّاط، دمشق ۱۴۰۶۱۴۱۴/ ۱۹۸۶۱۹۹۳؛
  • اسماعیل بن حماد جوہری، الصحاح : تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، چاپ احمد عبد الغفور عطار، بیروت [ بی‌تا. ]، چاپ افست تہران ۱۳۶۸ش ؛
  • الاختصاص، [منسوب بہ] محمد بن محمد مفید، چاپ علی اکبر غفاری، قم : جامعہ مدرسین حوزۃ علمیۃ قم، [ بی‌تا. ] ؛
  • الیاس بن یوسف نظامی، سبعۃ حکیم نظامی، چاپ حسن وحید دستگردی، تہران ۱۳۶۳ش ؛
  • بدیل بن علی خاقانی، دیوان، چاپ علی عبد الرسولی، [ تہران ] ۱۳۱۷ش ؛
  • تقی پور نامداریان، دیدار با سیمرغ : ہفت مقالہ در عرفان، و شعر و اندیشۃ عطار، مقالۃ ۲: «سیمرغ و جبرئیل»، تہران ۱۳۷۴ش ؛
  • جعفر سبحانی، فروغ ابدیت، قم ?[ ۱۳۴۵۱۳۵۱ش ] ؛
  • جلال الدین محمد بن محمد مولوی، کتاب مثنوی معنوی، چاپ رینولد آلن نیکلسون، تہران : انتشارات مولی، [ بی‌تا.] ؛
  • جلال ستاری، مدخلی بر رمز شناسی عرفانی، تہران ۱۳۷۲ش ؛
  • حیدر بن علی آملی، کتاب جامع الاسرار و منبع الانوار، بہ انضمام، رسالۃ نقد النقود فی معرفۃ الوجود، چاپ ہانری کوربن و عثمان اسماعیل یحیی، تہران ۱۳۴۷ش ؛
  • خلیل بن احمد، کتاب العین، چاپ مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم ۱۴۰۵؛
  • روزبہان بقلی، شرح شطحیات، چاپ ہانری کوربن، تہران ۱۳۶۰ش ؛
  • زمخشری ؛
  • سیوطی ؛
  • طباطبائی ؛
  • عباس بن موسی فروغی، دیوان کامل فروغی بسطامی، چاپ م. درویش، [تہران] ۱۳۶۸ش ؛
  • عبد الحسین شرف الدین، النّص و الاجتہاد، چاپ ابو مجتبی، قم ۱۴۰۴؛
  • عبد الرحمان بن احمد جامی، مثنوی ہفت اورنگ، چاپ جابلقا داد علی شاہ و دیگران، تہران ۱۳۷۸ش ؛
  • عبد الرزاق کاشی، اصطلاحات الصوفیۃ، چاپ عبد العال شاہین، قاہرہ ۱۴۱۳/۱۹۹۲؛
  • عبد الکریم بن ابراہیم جیلی، الانسان الکامل فی معرفۃ الاواخر و الاوائل، قاہرہ ۱۳۹۰/۱۹۷۰؛
  • عثمان بن سعید دانی، کتاب التیسیرفی القراءات السبع، چاپ اوتو پرتسل، استانبول ۱۹۳۰؛
  • عزیز الدین بن محمد نسفی، مجموعۃ رسائل مشہور بہ کتاب الانسان الکامل، چاپ ماریژان مولہ، تہران ۱۳۴۱ ش؛
  • علی بن ابی طالب ؑ، امام اول، نہج البلاغۃ، چاپ صبحی صالح، بیروت ?[ ۱۳۸۷ ]، چاپ افست قم [ بی‌تا. ]؛
  • علی بن احمد اسدی طوسی، گرشاسب نامہ، چاپ حبیب یغمائی، تہران ۱۳۵۴ش ؛
  • علی بن احمد واحدی نیشابوری، اسباب النزول، بیروت : دار الکتب العلمیۃ، [ بی‌تا. ]، چاپ افست قم ۱۳۶۸ش ؛
  • علی دوانی، «آغاز وحی و بعثت پیامبرؐ در تاریخ و تفسیر طبری (بررسی و نقد)»، در یادنامۃ طبری، ویراستار: محمد قاسم زادہ، تہران : وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، سازمان چاپ و انتشارات، ۱۳۶۹ش ؛
  • علی نقی منزوی، سی مرغ و سیمرغ، تہران ۱۳۵۹ش ؛
  • فضل بن حسن طبرسی ؛ طبری، تاریخ (بیروت)؛
  • کتاب مقدّس ؛
  • کلینی ؛
  • مجدود بن آدم سنایی، کتاب حدیقۃ الحقیقہ و شریعۃ الطریقہ، چاپ محمد تقی مدرس رضوی، [ تہران ? ۱۳۲۹ش ] ؛
  • مجلسی ؛
  • محمد بن ابراہیم عطار، مصیبت نامہ، چاپ نورانی وصال، تہران ۱۳۵۶ش ؛
  • محمد بن ابراہیم صدر الدین شیرازی، الحکمۃ المتعالیہ فی الاسفار العقلیۃ الاربعہ، تہران ۱۳۳۷ش ؛ چاپ افست قم [ بی‌تا. ] ؛
  • محمد بن احمد ازہری، تہذیب اللغہ، ج ۱۱، چاپ محمد ابو الفضل ابراہیم، قاہرہ [ بی‌تا. ] ؛
  • محمد بن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، بیروت ۱۴۰۵/۱۹۸۵؛ زکریا بن محمد قزوینی، عجائب المخلوقات و غرائب الموجودات، چاپ فاروق سعد، بیروت ۱۹۷۸؛
  • محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱؛ احمد بن محمد ثعلبی، قصص الانبیاء، المسمی عرائس المجالس، بیروت : المکتبۃ الثقافیۃ، [ بی‌تا. ] ؛
  • محمد بن حسن صفار قمی، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آل محمد ؑ، چاپ محسن کوچہ باغی تبریزی، تہران ۱۳۶۲ش ؛
  • محمد بن حسن طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت [ بی‌تا.] ؛
  • محمد بن حمزہ فناری، مصباح الانس، در محمد بن اسحاق صدر الدین قونیوی، مفتاح الغیب، چاپ محمد خواجوی، تہران ۱۳۷۴ش ؛
  • محمد بن عمر فخر رازی، التفسیر الکبیر، قاہرہ [ بی‌تا. ]، چاپ افست تہران [ بی‌تا. ] ؛
  • محمد بن محمد (علی) انوری، دیوان، چاپ محمد تقی مدرس رضوی، تہران ۱۳۳۷۱۳۴۰ش ؛
  • مرتضي زبیدی، محمد بن محمد، تاج العروس من جواہر القاموس، دار الفکر، بیروت، ۱۴۱۴ق.
  • محمد بن محمود طوسی، عجایب المخلوقات، چاپ منوچہر ستودہ، تہران ۱۳۴۵ش ؛
  • محمد بن یحیی لاہیجی، مفاتیح الاعجاز فی شرح گلشن راز، چاپ محمد رضا برزگر خالقی و عفت کرباسی، تہران ۱۳۷۱ش ؛
  • محمد جواد مشکور، فرہنگ تطبیقی عربی با زبانہای سامی و ایرانی، تہران ۱۳۵۷ش ؛
  • محمد ہادی معرفت، التمہید فی علوم القرآن، قم ۱۴۱۱۱۴۱۲؛
  • مسعود سعد سلمان، دیوان، چاپ غلام رضا رشید یاسمی، تہران ۱۳۱۸ش ؛
  • مطہر بن طاہر مقدسی، کتاب البدء و التاریخ، چاپ کلمان ہوار، پاریس ۱۸۹۹۱۹۱۹، چاپ افست تہران ۱۹۶۲؛
  • موہوب بن احمد جوالیقی، المعرّب من الکلام الاعجمی علی حروف المعجم، چاپ احمد محمد شاکر، قاہرہ ۱۳۶۱؛
  • ناصر خسرو، کتاب جامع الحکمتین، چاپ ہانری کوربن و محمد معین، تہران ۱۳۶۳ش ؛
  • ہاشم بن سلیمان بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، چاپ محمود بن جعفر زرندی، تہران ۱۳۳۴ش، چاپ افست قم [ بی‌تا. ] ؛
  • ہشام جعیط، الوحی و القرآن و النبوۃ، بیروت ۲۰۰۰؛
  • ایضا، الشفاء، الالہیات، ج ۱، چاپ ابراہیم مدکور، جورج شحاتہ قنواتی، و سعید زاید، قاہرہ ۱۳۸۰/۱۹۶۰، چاپ افست قم ۱۴۰۴؛
  • ایضا، المبدأ و المعاد، چاپ عبداللّہ نورانی، تہران ۱۳۶۳ش ؛
  • ایضا، تفسیر القرآن الکریم، چاپ محمد خواجوی، قم ۱۳۷۹۱۳۸۰ش ؛
  • ایضا، جامع ؛
  • ایضا، رمز و داستانہای رمزی در ادب فارسی : تحلیلی از داستانہای عرفانی فلسفی ابن سینا و سہروردی، تہران ۱۳۶۴ش ؛
  • ایضا، شرح اصول الکافی، ج ۲، چاپ محمد خواجوی، تہران ۱۳۶۷ش ؛
  • ایضا، علل الشرایع، نجف ۱۳۸۶/۱۹۶۶، چاپ افست قم [ بی‌تا. ] ؛
  • ایضا، فصوص الحکم و التعلیقات علیہ بقلم ابو العلاء عفیفی، تہران ۱۳۷۰ش ؛
  • ایضا، کتاب من لایحضرہ الفقیہ، چاپ علی اکبر غفاری، قم ۱۴۰۴؛
  • ایضا، کمال الدین و تمام النعمۃ، چاپ علی اکبر غفاری، قم ۱۳۶۳ش ؛
  • ایضا، مصباح المتہجّد، بیروت ۱۴۱۱/۱۹۹۱؛ جعفر مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم صلی اللّہ علیہ وآلہ و سلم، قم ۱۴۰۳؛
  • ایضا، معراج نامہ، چاپ نجیب مایل ہروی، مشہد ۱۳۶۵ش ؛
  • ایضا، ہیلاج نامہ، چاپ احمد خوش نویس، [ تہران ] ۱۳۷۱ش ؛
  • یحیی بن حبش سہروردی، مجموعہ مصنّفات شیخ اشراق، تہران ۱۳۸۰ش ؛
  • یحیی بن شرف نووی، تہذیب الاسماء و اللغات، مصر: ادارۃ الطباعۃ المنیریہ، [ بی‌تا. ]، چاپ افست تہران [ بی‌تا. ]؛
  • ابن براج طرابلسی، عبدالعزیز بن براج، المہذب، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۰۶ق.
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ، قم، دفتر انتشارت اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ق.
  • Arthur Jeffery, The foreign vocabulary of the Qur , a ¦n , Baroda 1938; Martin R. Zammit, A comparative lexical study of Qur , anic Arabic , Leiden 2002.
  • Encyclopaedia Judaica , Jerusalem 1978-1982, s.v. "Michael and Gabriel" (by Harold Louis Ginsberg);
  • The International standard Bible encyclopedia , ed. Geoffrey W. Bromiley, Michigan: William B. Eerdmans, 1979-1988, s.v. "Gabriel" (by L. Hunt); New Catholic encyclopedia , Detroit: Thomson, 2003, s.v. "Gabriel, Archangel" (by T. L. Fallon).