صفیہ بنت عبد المطلب
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | صفیہ بنت عبد المطلب |
محل زندگی | مکہ، مدینہ |
مہاجر/انصار | مہاجر |
مدفن | جنت البقیع، مدینہ |
دینی معلومات | |
اسلام لانا | حضرت حمزہ کے بعد، رسول خدا کے زید بن ارقم میں گھر میں ورود کے دن۔ |
جنگوں میں شرکت | جنگ احد، جنگ خندق، جنگ خیبر۔ |
ہجرت | حبشہ و مدینہ |
وجہ شہرت | صحابیہ ، رسول خدا (ص) کی پھوپھی۔ |
صفیہ بنت عبد المطلب (۵۳ قبل ہجرت۔۲۰ ھ)، پیغمبر اکرم (ص) کی پھوپھی اور زبیر بن عوام کی والدہ ہیں۔ انہوں نے آنحضرت (ص) سے روایات بھی نقل کی ہیں۔ صفیہ صدر اسلام کے بعض غزوات میں مجاہدین کی مدد کرتی تھیں اور انہوں نے غزوہ خندق میں یہودی کو قتل بھی کیا۔ انہوں نے سن ۲۰ ہجری میں عمر بن خطاب کی خلافت کے زمانہ میں وفات پائی اور بقیع میں دفن ہیں۔ بقیع میں ان کی قبر کے اوپر گنبد اور روضہ بنا ہوا تھا جسے بعد میں وہابیوں نے مسمار کر دیا۔
سوانح حیات
صفیہ بنت عبد المطلب ہجرت سے ۵۳ برس قبل (عام الفیل سے ۱۰ سال پہلے) مکہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد حضرت عبدالمطلب (پیغمبر اکرم (ص) کے دادا) اور ان کے والدہ هالہ بنت وہیب بن عبد مناف بن زہره بن کلاب بن مرّه (پیغمبر اسلام (ص) کی خالہ) تھیں۔ صفیہ کے ۱۰ بھائی اور ۶ بہنیں تھیں۔ حضرت حمزہ، مقوم اور حجل ان کے مادری بھائی ہیں۔[1]
دور جاہلیت میں صفیہ کی شادی پہلے حارث بن حرب بن امیہ اور اس کے بعد عوام بن خویلد سے ہوئی۔[2] عوام بن خویلد حضرت خدیجہ (س) کے بھائی تھے جو جنگ فجار میں قتل ہوئے۔[3] صفیہ کے یہاں پہلے شوہر سے صبقاء[4] یا صفیا[5] نامی ایک بیٹی اور دوسرے شوہر سے زبیر، سائب اور عبد الکعبہ نامی تین بیٹے پیدا ہوئے۔[6] بعض نے نقل کیا ہے کہ عوام بن خویلد سے قبل اور ان کے پہلے شوہر کا نام عمیر بن وہب بن عبد بن قصی تھا۔[7]
اسلام
تمام مورخین ان کے اسلام لانے کے سلسلہ میں یقین رکھتے ہیں۔ اگر چہ رسول خدا (ص) کی دیگر پھوپھیوں کے اسلام قبول کرنے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[8] تاریخی مصادر میں صفیہ کے اسلام لانے کے بارے میں کوئی تفصیل درج نہیں ہوئی ہے۔ بس اس قدر کہا جا سکتا ہے کہ وہ مکہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں ہیں۔ انہوں اپنے بھائی حمزہ کے بعد اس وقت اسلام قبول کیا جب پیغمبر اکرم (ص) زید بن ارقم کے گھر میں مقیم تھے۔[9]
صفیہ نے مسلمانوں کے گروہ کے ساتھ پہلے حبشہ اور اس کے بعد اپنے بیٹے زبیر کے ہمراہ مدینہ ہجرت کی۔[10] تاریخی منابع میں صفیہ سے ان کے بھائی ابو لہب کو آنحضرت (ص) کی دعوت اسلام کو قبول کرنے کے سلسلہ میں نصیحت آمیز باتیں نقل ہوئی ہیں۔[11]
معاشرہ میں مرتبہ
صفیہ بنت عبد المطلب ان خواتین میں سے ہیں جنہوں نے رسول خدا (ص) کے ساتھ بیعت کی[12] اور ان کا شمار ان خواتین میں سے ہوتا ہے جنہوں نے آپ (ص) سے روایات نقل کی ہیں۔[13]
بنی ہاشم کی خواتین کے بعض امور بھی ان کے ذمے تھے۔ مثال کے طور پر صفیہ سے نقل ہوا ہے کہ جس وقت امام حسین (ع) کی ولادت ہوئی، میں بھی ان کی ولادت کے سلسلہ پیش آنے والے کاموں میں شریک تھی۔
اسی طرح سے انہوں نے ام کلثوم بنت رسول اللہ کے غسل کی ذمہ داری بھی ادا کی۔[14]
یہ بھی نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے احتضار کے وقت وہ ان کے پاس موجود تھیں اور آپ (ص) نے صفیہ اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کو مخاطب کرکے فرمایا: اے فاطمہ!، دختر رسول خدا اور اے صفیہ! رسول خدا کی پھوپھی، روز حساب اور ان ذمہ داریوں کے لئے جو اللہ کی طرف سے آپ دونوں کے حوالے کی جائیں گی، نیک اور خالص عمل کریں۔ اس لئے کہ خداوند عالم کے سامنے میں آپ کی جگہ جوابدہ نہیں بن سکتا اور آپ کی طرف سے دفاع بھی نہیں کر سکتا ہوں۔[15]
ابن قتیبہ کے نقل کے مطابق، زبیر بن عوام اس اعتبار سے کہ ان کی والدہ بنی ہاشم سے تھیں، خود کو بنی سے سمجھتے تھے، جبکہ ان کا تعلق قبیلہ بنی اسد بن عبد العزی سے تھا، پھر وہ خود کو قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے منتسب کرتے تھے۔[16] [نوٹ۱]
اسی طرح سے عبد اللہ بن زبیر نے عبد الملک بن مروان کو لکھے اپنے خط میں مجادلہ لفظی کے بعد اپنی دادی صفیہ بنت عبد المطلب کی وجہ سے جن کا نام جنت کی پیر خواتین کے عنوان سے لیا جاتا ہے، تفاخر کیا ہے۔[17]
غزوات میں شرکت
تاریخی نقل کے مطابق، صفیہ نے سوم شوال سن 3 ہجری میں غزوہ احد میں شرکت کی اور جس وقت مسلمان میدان جنگ کو ترک کر رہے تھے، انہوں نے اپنے ہاتھ میں ایک نیزہ لے کر انہیں فرار سے روک رہی تھیں اور جو لوگ رسول خدا (ص) کا ساتھ چھوڑ رہے تھے ان کی مذمت کر رہی تھیں۔
اسی طرح سے حضرت حمزہ کی شہادت اور ہندہ (ابو سفیان کی بیوی) کے ذریعہ ان کے جنازہ کو مثلہ کرنے کے بعد صفیہ نے ان کے جنازہ پر جانے کا ارادہ کیا اور ان کے ہاتھ میں دو لباس تھے جن کے ذریعہ وہ اپنے بھائی کو کفن دینا چاہتی تھیں،[18] رسول خدا (ص) نے ان کے بیٹے زبیر بن عوام کو حکم دیا کہ وہ اپنی والدہ کو روکیں تا کہ وہ اپنے بھائی کا مثلہ کیا ہوا لاشہ نہ دیکھ سکیں۔ زبیر نے جب ان سے کہا کہ رسول خدا (ص) کا حکم ہے کہ آپ مدینہ لوٹ جائیں تو صفیہ نے کہا: کیوں؟ مجھے معلوم ہے کہ حمزہ کا جنازہ مثلہ کیا جا چکا ہے۔ چونکہ انہیں راہ خدا میں ایسا کیا گیا ہے، میں اس سے راضی اور تسلیم رضائے الہی ہوں۔ میں بردبار ہوں اور ان شاء اللہ صبر کروں گی۔ جب رسول خدا (ص) کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے زبیر سے کہا: انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو، صفیہ حمزہ کے جنازہ پر آئیں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کی۔ اس کے بعد آنحضرت (ص) نے ان کو دفن کرنے کا حکم دیا۔[19]
غزوہ خندق میں رسول خدا (ص) پھوپھی صفیہ خواتین اور بچوں کے ایک گروہ اور عصر نبوی کے مشہور شاعر حسان بن ثابت کے ہمراہ قلعہ فارع میں تھے۔ صفیہ کہتی ہیں: ایک یہودی مرد ہمارے قریب آ کر قلعہ کے پاس چکر لگا رہا تھا۔ رسول خدا (ص) اور سارے مسلمان دشمن کے ساتھ مشغول تھے اور ان کی توجہ ہماری طرف نہیں تھی۔ میں نے حسان سے کہا: خدا کی قسم، مجھے اس یہودی مرد سے ڈر لگ رہا ہے تم نیجے آو اور اسے ختم کر دو۔ حسان نے جواب دیا: اے عبد المطلب کی بیٹی، خدا تمہاری مغفرت کرے، خدا کی قسم تمہیں معلوم ہے کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ صفیہ کہتی ہیں کہ جب میں نے دیکھا کہ حسان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو میں نے خود کو تیار کیا اور ایک گرز اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے قتل کر ڈالا۔ جب میں اس سے فارغ ہوئی اور قلعہ کی طرف گئی اور کہا: اے حسان اب تو نیچے آ کر اس کا اسلحہ اور جامہ لے لو۔ حسان نے کہا: اے عبد المطلب کی بیٹی، مجھے اس کے اسلحہ اور جامہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔[20] بعض مورخین کا ماننا ہے کہ صفیہ اولین خاتون ہیں جنہوں نے رسول خدا (ص) کے دشمن کو قتل کیا ہے۔[21] پیغمبر اکرم (ص) نے غزوہ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ کے ختم ہونے کے بعد صفیہ اور بعض دیگر خواتین کے لئے جو اس غزوہ میں حاضر تھیں، فئی میں ایک خاص حصہ قرار دیا۔[22]
اسی طرح سے صفیہ نے بعض دیگر خواتین کے ساتھ غزوہ خیبر میں بھی شرکت کی[23] اور پیغمبر اکرم (ص) نے غنائم میں سے انہیں کوئی حصہ نہ دیکر فئی میں سے ان کا حصہ قرار دیا۔[24]
ان کے اشعار
صفیہ نے اپنے خاندان کے ذریعہ زمزم کا کنواں کھودنے،[25] اپنے والد عبد المطلب،[26] جنگ احد کے بعد اپنے بھائی حمزہ[27] و زبیر بن عبد المطلب اور اپنے بیٹے سائب کے مراثی میں اشعار نظم کئے ہیں۔ اسی طرح سے انہوں نے رسول خدا (ص) کے فراق میں اشعار نظم کئے ہیں۔ جیسے صفیہ کا یہ شعر جسے حضرت فاطمہ زہرا (س) نے قبر پیغمبر (ص) کے پاس پڑھا کرتی تھیں:
|
اسی طرح سے انہوں نے ان اشعار کے ذریعہ آنحضرت (ص) کا مرثیہ نظم کیا ہے:
|
رسول خدا (ص) کے بعد
خلفاء کے دور میں ان کے زندگی کے بارے میں کوئی خاص مطالب ذکر نہیں ہوئے ہیں سوائے اس بات کہ عمر بن خطاب نے مسلمانوں کے درمیان بیت المال کی تقسیم کی روش کو بدلنے کے بعد صفیہ کے لئے اس عنوان سے کہ وہ پیغمبر اکرم (ص) کی پھوپھی ہیں اور ان کا تعلق بنی ہاشم کی خواتین میں سے ہے، 6 ہزار درھم وظیفہ مقرر کیا۔
صفیہ بنت عبد المطلب نے سن 20 ہجری میں عمر بن خطاب کی خلافت کے زمانہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔[31] اسماء بنت عمیس نے انہیں غسل دیا۔[32]
ان کا مقبرہ
تفصیلی مضمون: بقیع کے روضے
بقیع کی قبروں میں سے ایک قبر جس پر روضہ بنا ہوا تھا، رسول خدا (ص) کی صفیہ بنت عبد المطلب کی قبر تھی۔ یہ قبر چودہویں صدی ہجری کے نیمہ دوم تک قبرستان بقیع کے باہر مغربی سمت میں ایک کوچہ میں واقع تھی۔[33]
اس قبر کے اطراف کی زمین عثمان بن عفان نے مغیرہ بن شعبہ کے حوالے کی تھی اور مغیرہ نے اس زمین میں اپنے لئے گھر بنا لیا تھا۔[34] اس لحاظ سے صفیہ کی قبر اس گھر کی دیوار کے بغل میں تھی۔ مطری نے اس قبر پر گنبد بنانے کی معماروں کی ناکام کوشش کا ذکر کیا ہے۔[35]
سمہودی نے اس قبر پر ایک بناء کا ذکر کیا ہے جس پر گنبد نہیں تھا۔ سید اسماعیل مرندی نے اپنے سفر نامے میں سن 1255 ھ ق میں اس قبر کی عمارت پر ایک گنبد کا تذکرہ کیا ہے۔[36] لہذا اس گنبد کی تعمیر کو دسویں صدی ہجری سے لیکر تیرہویں صدی ہجری تک سمجھنا چاہئے۔ سن 1373 ھ میں مدینہ کے بلدیہ نے قبرستان بقیع اور اس کوچہ کی دیوار کو گرا کر جس میں صفیہ کی قبر تھی، اس کوچہ اور اس کے آس پاس کی 3493 میٹر مربع مساحت زمین کو قبرستان بقیع سے ملحق کر دیا۔[37]
حوالہ جات
- ↑ ابن الاثیر الجزری، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۷۲
- ↑ ابن قتیبہ الدینوری، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۱۲۸.
- ↑ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبہ الثقافہ الدینیہ، ج۵، ص۸۳
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۹۴.
- ↑ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۱۱، ص۶۲۰.
- ↑ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۱۱، ص۶۲۰؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۷۳
- ↑ ابن حبیب البغدادی، المحبر، دار الآفاق الجدیدة، ص۶۳
- ↑ ابن کثیر الدمشقی، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۱۰۵
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۲۸۴
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۰۲؛ الشامی، سبل الہدی و الرشاد، ۱۴۱۴ق، ج۱۱، ص۳۱۲
- ↑ الشامی، سبل الہدی و الرشاد، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۲۳؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۱۹
- ↑ ابن حبیب البغدادی، المحبر، دار الآفاق الجدیدة، ص۴۰۶
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۳۵۱؛ ابن حجر العسقلانی، الاصابه، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۱۴
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۳۱؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۳، ص۱۲۴.
- ↑ مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۱۳۴؛ ج۱۴، ص۴۷۴؛ ابن کثیر الدمشقی، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۹
- ↑ ابن قتبیہ الدینوری، الامامہ و السیاسہ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۸
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۱۳۲
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۱۱
- ↑ ابن ہشام، السیره النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۹۷؛ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۹۰؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۴۸؛ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۷۰؛ بیہقی، دلائل النبوه، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۲۸۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۲، ص۵۲۹؛ ابن الاثیر الجزری، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۷۳؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۱۶۷؛ الشامی، سبل الہدی و الرشاد، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۲۲۴؛ ابن کثیر الدمشقی، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۴۱و ۴۲
- ↑ ابن ہشام، السیره النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۲۲۸؛ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۸۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۲، ص۵۷۷؛ ابن الاثیر الجزری، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۸۴؛ زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۳، ص۲۰۶؛ ابن کثیر الدمشقی، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۰۸؛ ذهبی، تاریخ الاسلام، ۱۹۹۳م، ج۲، ص۲۹۲
- ↑ بیهقی، دلائل النبوه، ج۳، ص۴۴۳
- ↑ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۲۲؛ سبل الہدی، ج۵، ص۱۶
- ↑ السیره النبویہ، ج۲، ص۳۳۴؛ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۶۸۵؛ تاریخ طبری، ج۳، ص۱۱و عیون الاثر، ج۲، ص۱۷۷
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۳۴؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۳۲۱
- ↑ معجم البلدان، ج۳، ص۱۴۹ و انساب الاشراف، ج۱، ص۷۸
- ↑ ابن ہشام، السیره النبویہ، دار المعرفہ، ج۱، ص۱۶۹
- ↑ ابن هشام، السیره النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۱۶۷؛ الشامی، سبل الہدی و الرشاد، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۲۳۹؛ ابن کثیر الدمشقی، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۵۹
- ↑ مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۳۰۴
- ↑ ابن حجر العسقلانی، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۱۵
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۵۹۴
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۷۳؛ ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۹۹۳م، ج۳، ص۲۲۱؛ ابن خیاط، تاریخ خلیفہ، ۱۴۱۵ق، ص۸۳
- ↑ ابن حجر العسقلانی، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۴۶۰
- ↑ نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع، ۱۳۸۶ش، ص۳۹۴.
- ↑ ابن شبہ، تاریخ المدینہ المنوره، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۲۶-۱۲۷.
- ↑ مطری، التعریف بما آنست الہجره، ۱۴۲۶ق، ص۱۲۱.
- ↑ توصیف مدینہ، ص۱۱۸.
- ↑ حافظ، فصول من تاریخ المدینہ المنوره، ۱۴۱۷ق، ص۱۷۳.
مآخذ
- توصیف مدینہ، میقات حج (فصلنامہ)، تہران، حوزه نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارت، شماره ۵
- ابن الاثیر الجزری، علی بن محمد، اسد الغابہ فی معرفت الصحابہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ه.ق/۱۹۸۹ع
- ابن جوزی، ابو الفرج عبدالرحمن بن علی القرشی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، الطبعه الأولی، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ع
- ابن حبیب البغدادی، المحبر، تحقیق ایلزة لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیدة، بیتا
- ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، الإصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیہ، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ع
- ابن خیاط، ابو عمرو خلیفہ بن خیاط لیثی عصفری، تاریخ خلیفہ بن خیاط، تحقیق فواز، بیروت، دار الکتب العلمیہ، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ع
- ابن سعد، محمد ہاشمی بصری، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰ع
- ابن سید الناس، ابو الفتح فتح الدین محمد بن محمد یعمری ربعی، عیون الأثر فی فنون المغازی و الشمائل و السیر، تعلیق ابراہیم محمد رمضان، بیروت، دار القلم، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۳ع
- ابن شُبّہ، تاریخ المدینة المنوره، بہ كوشش شلتوت، قم، دار الفكر، ۱۴۱۰ق
- ابن عبد البر، ابو عمر یوسف بن عبد الله، الاستیعاب فی معرفت الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۲ق / ۱۹۹۲ع
- ابن قتیبہ الدینوری، ابو محمد عبدالله بن مسلم، الإمامہ و السیاسہ المعروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الأضواء، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰ع
- ابن قتیبہ الدینوری، ابو محمد عبدالله بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عُکاشہ، القاہره، الہیئہ المصریہ العامہ للکتاب، الطبعہ الثانیہ، ۱۹۹۲ع
- ابن کثیر الدمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق/ ۱۹۸۶ع
- ابن ہشام، عبد الملک الحمیری المعافری، السیرة النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفہ، بیتا
- الشامی، محمد بن یوسف الصالحی، سبل الہدی و الرشاد فی سیرة خیر العباد، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیہ، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۴ه.ق/۱۹۹۳ع
- بلاذری، احمد بن یحیی، کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶ع
- بیہقی، ابوبکر احمد بن حسین، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشریعہ، تحقیق عبد المعطی قلعجی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ط الأولی، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵ع
- حافظ، علی، فصول من تاریخ المدینہ المنوره، جده، شركہ المدینہ المنوره، ۱۴۱۷ق
- ذہبی، ابو عبدالله شمس الدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، الطبعہ الثانیہ، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳ع
- زرکلی، خیر الدین، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دار العلم للملایین، الطبعہ الثامنہ، ۱۹۸۹ع
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، الطبعہ الثانیہ، ۱۹۶۷ع
- مسعودی، أبو الحسن علی بن الحسین بن علی، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الہجرة، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق
- مطری، محمد، التعریف بما آنست الہجره، بہ كوشش الرحیلی، ریاض، دار الملك عبد العزیز، ۱۴۲۶ق
- مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبہ الثقافہ الدینیہ، بی تا
- مقریزی، تقی الدین احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدة و المتاع، تحقیق محمد عبد الحمید النمیسی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، الطبعہ الأولی، ۱۴۲۰ق/۱۹۹۹ع
- نجمی، محمد صادق، تاریخ حرم ائمہ بقیع، تہران، مشعر، ۱۳۸۶ش
- واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسہ الأعلمی، الطبعہ الثالثہ، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹ع
- یاقوت حموی، ابو عبد الله شہاب الدین، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، الطبعہ الثانیہ، ۱۹۹۵ع
- یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب واضح الکاتب العباسی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بیتا.