دفن، فقہی اصطلاح میں میت کو سپرد خاک کرنے کو کہتے ہے۔ مسلمان میت کو غسل، کفن اور نماز جنازہ کے بعد شرعی احکام کے مطابق دفن کیا جاتا ہے۔ یہ عمل واجب کفائی ہے۔

فقہی منابع

جامع فقہی کے مآخذ میں، کتاب الطہارہ یا کتاب الصلاہ کا ایک حصہ احکام اموات سے مختص ہے۔ ان مباحث میں بعض امور جیسے وہ شخص کہ جسے اپنی موت کا یقین ہو گیا ہے اس کے احکام (جیسے توبہ، حق اللہ اور حق الناس ادا کرنا)، احتضار کے احکام (جیسے کہ حالت احتضار میں رو بہ قبلہ لٹایا جائے اور تلقین) اور وہ کام جو موت کے بعد دوسرے افراد پر واجب ہیں (غسل، کفن، حنوط، نماز جنازہ اور دفن) کے بارے میں بحث کی گئی ہے. یہ تمام کام میت کے احترام کو ثابت کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے میت کے گناہ معاف ہوتے ہیں،[1]وہ احکام جو ضروری نہیں (مستحب اور مکروہ) ان کی تفصیل بھی فقہی آثار میں بیان ہوئی ہے۔ میت سے متعلق احکام فقہ کے قدیمی منابع اور حدیث، یا کتاب الجنائز یا باب فی احکام الجنائز میں بیان ہوئے ہیں.[2] میت کے امور جو انسان پر واجب ہیں وہ واجب کفائی ہیں اور ان میں سے بعض (کفن، حنوط اور دفن) میں قربت کی نیت ضروری نہیں ہے اور بعض دیگر (غسل اور نماز جنازہ) ان میں قربت کی نیت ضروری ہے اور خاص وجوہات کی وجہ سے، اگر بعض افراد کے لئے یہ واجبات انجام دینا ممکن نہ ہو تو، ان کے لئے ضروری نہیں کہ وہ انجام دیں۔[3]

دفن میت کے مقدمات

امامیہ فقہاء کی نظر میں میت کو تین پانی سے غسل دیا جاتا ہے پہلے آب سدر (بیری کے پانی سے) پھر آب کافور(یعنی جس پانی میں کافور ملایا جائے) اور اس کے بعد خالص پانی سے. اس کے بعد حنوط یعنی کافور کو سجدے والی سات جگہ (پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے اور پاؤں کے انگوٹھوں کے سرے) پر لگانا واجب ہے۔ مسلمان میت کو کفن پہنانا واجب ہے اور کفن کے تین کپڑوں سے اس کا پورا بدن ڈھانپا جاتا ہے۔ میت کی تدفین کے تمام مراحل، اوراس کے شرائط و آداب اور احکام مفصل طور پر بیان ہوئے ہیں.[4]اہل سنت کی شریعت میں بھی میت کو غسل اور کفن دینا واجب ہے (جزئیات میں اہل تشیع کے احکام سے تھوڑے مختلف احکام ہیں) لیکن حنوط واجب نہیں ہے۔[5] فقہ امامیہ (اہل تشیع) اور فقہ اہل سنت کے مطابق، شہید کو غسل دینا یا کفن پہنانا، شرط محقق ہونے کی صورت میں، ضروری نہیں ہے.[6] احادیث میں[7]اور فقہ امامی و اہل سنت کے منابع میں، مسلمان کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے کی بہت فضیلت اور ثواب ہے اور اس کی بہت تاکید کی گئی ہے۔[8] ان تمام مراحل کے بعد مسلمان میت جس کی عمر چھ سال سے زیادہ ہے، اس پر نماز ادا کی جاتی ہے۔[9]

دفن میت کا فلسفہ اور احکام

 
دفن میت کا منظر

دفن کرنا یعنی زمین کے ایک حصے کو کھود کر میت کو اس کے اندر چھپانا، اس طرح سے کہ میت زمین کے نیچے چھپ جائے اور اس کے اوپر مٹی ڈال دی جائے.[10]آیات قرآن،[11]سنت معصومین(ع)، مسلمانوں کی سیرت اور تمام فقہاء کی نظر میں میت کو دفن کرنا واجب ہے.[12] احادیث میں[13]، دفن کرنے کی وجہ درج ذیل ہے، جیسے جنازے کا احترام، اس کا لوگوں کی نظروں سے چھپا رہنا، میت کا دشمنوں کے خطرے سے محفوظ ہونا، دوستوں کو پریشان ہونے سے نجات اور یہ کہ میت کی بو سے لوگوں کو اذیت نہ ہو. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قبر کی گہرائی کم نہ ہو اتنی ہو کہ باہر والے عوامل سے محفوظ رہے.[14]اگر میت کا دفن کرنا ممکن نہ ہو تو، کسی دوسرے طریقے سے میت کو ڈھانپا جائے جیسے کہ میت کو رکھ کر اس کے ہر طرف دیوار تعمیر کی جائے یا اسے تابوت میں رکھا جائے. غیر ضروری مواقع پر میت کو تابوت میں دفن کرنا اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کی نظر میں مکروہ ہے.[15]اگر کوئی شخص دریا کے اندر کشتی میں فوت ہو جائے اور خشکی میں آنے اور دفن کرنے تک میت خراب ہو جائے تو فقہی منابع میں جو شرائط بیان ہوئی ہیں انکو مدنظر رکھتے ہوئے غسل وکفن اور نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد میت کو دریا میں گرا دیا جائے.[16] میت کو دفن کرنے اور اسے زمین میں چھپانے کے علاوہ مواراہ المیت فی الارض فقہی نگاہ کے مطابق، واجب ہے کہ میت کو قبر میں دائیں پہلو اور رو بہ قبلہ لٹایا جائے.[17]وہ آداب و احکام (مستحب و مکروہ احکام) جن کی تاکید دفن کرنے سے پہلے، دفن کرنے کے دوران اور دفن کرنے کے بعد منابع فقہی میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے،[18] من جملہ نماز وحشت قبر کا پڑھنا، میت کے لئے مجلس کا اہتمام کرنا، میت کے گھر والوں کو حوصلہ دینا اور انکے ساتھ ہمدردی کرنا، اور زیارت اہل قبور پڑھنا ہے۔[19]

میت پر رونے کا حکم

میت پر رونا اور سوگواری کرنا جائز ہے اس شرط کے ساتھ کہ قضاء الہی کو قبول کیا جائے، لیکن دوسرے کام جیسے کہ اپنے چہرے کو زخمی کرنا، یا جسم پر کوئی زخم کرنا یا بالوں کو نوچنا وغیرہ ان سے منع کیا گیا ہے اور مصیبت زدہ افراد کو صبر کی تاکید کی گئی ہے.[20]

مسلمان میت کو دوسرے شہر منتقل کرنا

مذہب حنفی، شافعی اور حنبلی میں اگر کوئی شخص ایک شہر میں انتقال کرتا ہے تو دفن کرنے کے بعد (خاص وجوہات کے علاوہ) دوسری جگہ منتقل کرنا جائز نہیں ہے، لیکن ان میں سے اکثر، بعض شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے دفن سے پہلے دوسری جگہ منتقل کرنے کو جائز سمجھتے ہیں. مالکی مذہب میں میت کو منتقل کرنا، دفن سے پہلے ہو یا دفن کرنے کے بعد، اس شرط کے ساتھ کے میت کی بے حرمتی نہ ہو اور وہ انتقال اس کی مصلحت میں ہے تو، جائز ہے.[21]

امامی فقہاء نے میت کو دفن کرنے سے پہلے مشاہد مشرفہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسری جگہ منتقل کرنے کو مستحب کہا ہے، لیکن دفن کرنے کے بعد منتقل کرنے کے بارے میں نظرات مختلف ہیں، اگرچہ ان میں سے اکثر نے منتقل کرنے کو جائز اور حتی مستحب کہا ہے. اس لئے، مشاہد مشرفہ کو مدنظر رکھتے ہوئے میت کو منتقل کرنے کے لئے اس کی قبر کو کھولنا جائز ہے اور اکثر یہ عمل انجام دیا جاتا ہے.[22] مثال کے طور پر میت کو امانت کے طور پر رکھا جائے (تودیع المیت)، تدفین میں تمام شرائط کی رعایت کی جائے اور کہا گیا ہے کہ اگر میت کو منتقل کرنا ہے تو بہتر ہے کہ جب اسے دفن کیا جائے تو تابوت میں میت کو رکھا جائے تا کہ منتقل کرتے میت کی بے حرمتی نہ ہو.[23]

قبر کا کھولنا حرام

تمام اہل تشیع کے فقہاء کی نظر میں قبر کو کھولنا حرام ہے. قبر کھولنے کا مطلب یہ کہ میت کا جسم نمایاں کیا جائے ، اور ایسی قبر کو کھولنا کہ جس میں میت کا نام و نشان ختم ہو چکا ہو اور مٹی ہو گیا ہو یا یہ کہ جہاں میت تابوت کے ساتھ دفن کیا گیا ہو، یہ قبر کھولنے کا مصداق نہیں ہے. چند جگہوں پر قبر کو کھولنا حرام نہیں ہے، من جملہ دفن کی جگہ یا میت کا کفن اگر غصبی ہو، میت کو بغیر غسل وکفن کے دفن کیا گیا ہو یا انکو صحیح طریقے سے انجام نہ دیا گیا ہو، کسی حق کا ثابت کرنا میت کے بدن کے دیکھنے ہی پر موقوف ہو اور میت کو کسی ایسی جگہ پر دفن کر دیا گیا ہو جہاں اس کی بے حرمتی ہو، جیسے کہ مسلمان کو کافروں کے قبرستان میں دفن کیا گیا ہو یا ایسا مکان جہاں کوڑا و غلاظت ڈالا جاتا ہے. امام زادوں، عالموں اور شہیدوں کی قبر اگرچہ دفن کے بعد بہت مدت ہی کیوں نہ گزر گئی ہو کھولنا جائز نہیں ہے.[24]اہل سنت کے عالم بھی بعض خاص وجوہات کے علاوہ قبر کھولنے کو حرام سمجھتے ہیں.[25]


حوالہ جات

  1. طوسی، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۴۱۹؛ حرّ عاملی، ج۳، ص۲۱۹
  2. رای نمونہ رجوع کریں مالکبن انس، ج ۱، ص ۲۲۲؛ شافعی، ج ۱، ص ۳۰۱؛ کلینی، ج ۳، ص ۱۱؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۱، ص ۱۷۴؛ اس بارے میں بعض مستقل آثار کی طرف رجوع کریں آقابزرگ طہرانی، ج ۲، ص ۲۹، ج ۸، ص ۲۳۳، ج ۱۶، ص ۵۶، ج ۱۷، ص ۲۹۳۰؛ نیز برای آثاری با عنوان «احکام الاموات» و «احکام الجنائز» رجوع کریں همان، ج ۱، ص ۲۹۴۲۹۶، ۴۵۱، ۵۳۲، ج ۳، ص ۱۵۸، ۴۷۳، ج ۵، ص ۱۴۸۱۵۰، ج۲۰، ص ۱۱۷، ۳۳۹، ج ۲۵، ص ۷۶
  3. طباطبائی یزدی، ج ۱، ص ۳۷۶، ۳۹۵، ۴۰۳، ۴۱۴، ۴۲۱، ۴۳۷؛ زحیلی، ج ۲، ص ۱۵۰۸
  4. نراقی، ج ۳، ص ۸۶۲۵۰؛ نجفی، ج ۴، ص ۱۱۸۲۶۳
  5. زحیلی، ج ۲، ص ۱۴۸۳۱۵۰۷
  6. وسی، ۱۳۸۷، ج ۱، ص ۱۸۱ ۱۸۲؛ نجفی، ج۴، ص۸۶۹۳؛ زحیلی، ج۲، ص۱۵۸۳۱۵۸۸
  7. بخاری، ج ۱، ص ۱۷؛ حرّ عاملی، ج ۳، ص۱۴۱۱۴۸
  8. نجفی، ج۴، ص۲۶۳۲۶۴؛ الموسوعۃ الفقہیۃ، ج۱۶، ص۱۳
  9. طوسی، ۱۳۸۷، ج ۱، ص ۱۸۳۱۸۶؛ علامہ حلّی، ج ۱، ص ۲۲۸۲۳۲؛ غروی تبریزی، ج ۹، ص ۲۵۴۲۶۰؛ زحیلی، ج ۲، ص ۱۵۱۳ ۱۵۳۶
  10. طباطبائی یزدی، ج ۱، ص ۴۳۶؛ الموسوعۃالفقہیۃ، ج۲۱، ص۸
  11. مائده: ۳۱؛ مرسلات: ۲۵۲۶؛ عبس: ۲۱
  12. نجفی، ج ۴، ص ۲۸۹۲۹۰؛ زحیلی، ج ۲، ص ۱۵۴۷؛ نیز رجوع کنید به جَصّاص، ج ۲، ص ۵۰۶؛ قطب راوندی، ج ۱، ص ۱۶۳۱۶۴
  13. حرّعاملی، ج ۳، ص ۱۴۱
  14. غرویتبریزی، ج ۹، ص۲۹۳ ۲۹۵؛ زحیلی، ج۲، ص۱۵۴۹
  15. نجفی، ج ۴، ص ۲۹۱؛ طباطبائی یزدی، ہمانجا؛ الموسوعۃالفقہیۃ، ج ۲۱، ص ۱۶
  16. ابنقدامہ، ج ۲، ص ۳۸۱؛ نووی، ج ۵، ص ۲۸۵ ۲۸۶؛ نجفی، ج ۴، ص ۲۹۲۲۹۶؛ غرویتبریزی، ج ۹، ص ۲۹۷۳۰۱
  17. علامہ حلّی، ج ۱، ص ۲۳۲؛ نراقی، ج ۳، ص ۲۸۹۲۹۱
  18. شمس الائمہ سرخسی، ج ۱، ص ۲۱۳؛ نووی، ج ۵، ص ۲۹۳؛ بہوتی حنبلی، ج ۲، ص ۱۶۱؛ آبی ازہری، ص ۲۷۳۲۷۴
  19. نراقی، ج ۳، ص ۲۶۸۲۸۳، ۲۹۴۳۱۴؛ نجفی، ج ۴، ص ۲۹۹۳۵۲؛ زحیلی، ج ۲، ص ۱۵۶۷۱۵۷۳
  20. نجفی، ج ۴، ص ۳۶۴۳۷۱؛ غرویتبریزی، ج ۹، ص ۳۴۱ ۳۴۹؛ زحیلی، ج ۲، ص ۱۵۷۳۱۵۷۸
  21. خطیب شربینی، ج ۱، ص ۳۶۵۳۶۶؛ دسوقی، ج ۱، ص ۴۲۱؛ ابنعابدین، ج ۶، ص۷۵۰۷۵۱؛ الموسوعۃالفقهیۃ، ج ۲۱، ص ۹۱
  22. بحرای، ج ۴، ص ۱۴۶۱۵۱؛ نراقی، ج ۳، ص ۲۸۴ ۲۸۹؛ غروی تبریزی، ج ۹، ص ۳۳۱۳۴۱
  23. غروی تبریزی، ج ۹، ص ۳۶۳؛ امام خمینی، ج ۱، ص ۸۳؛ سیستانی، ج ۱، ص ۱۱۵
  24. نجفی، ج ۴، ص ۳۵۳۳۵۹؛ غرویتبریزی، ج ۹، ص ۳۴۹۳۶۵
  25. زحیلی، ج ۲، ص ۱۵۵۵۱۵۵۷

مآخذ

  • قرآن.
  • صالح عبدالسمیع آبی ازهری، الثمر الدانی فی تقریب المعانی: شرح رسالة ابن ابیزید القیروانی، بیروت: المکتبة الثقافیة، بی‌تا.
  • آقابزرگ طهرانی.
  • ابن عابدین، حاشیة ردّ المحتار علی الدّر المختار: شرح تنویر الابصار، چاپ افست بیروت ۱۳۹۹/۱۹۷۹.
  • ابن قدامه، المغنی، بیروت: دارالکتابالعربی، بی‌تا.
  • امام خمینی، تحریرالوسیلة، قم ۱۳۶۳ش.
  • یوسف بن احمد بحرانی، الحدائق الناضرة فی احکام العترةالطاهرة، قم ۱۳۶۳۱۳۶۷ش.
  • محمدبن اسماعیل بخاری، صحیحالبخاری، چاپ محمد ذهنی افندی، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱، چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • منصوربن یونس بهوتی حنبلی، کشّاف القناع عن متن الاقناع، چاپ محمدحسن شافعی، بیروت ۱۴۱۸/ ۱۹۹۷.
  • احمدبن علی جَصّاص، احکام القرآن، چاپ عبدالسلام محمدعلی شاهین، بیروت ۱۴۱۵/۱۹۹۴.
  • حرّعاملی.
  • محمدبن احمد خطیب شربینی، مغنی المحتاج، بی‌جا: دارالفکر، بی‌تا.
  • محمدبن احمد دسوقی، حاشیة الدسوقی علی الشرح الکبیر، بیروت: داراحیاء الکتب العربیة، بی‌تا.
  • وهبه مصطفی زحیلی، الفقه الاسلامی و ادلّته، دمشق ۱۴۱۸/ ۱۹۹۷.
  • علی سیستانی، منهاجالصالحین، قم ۱۴۱۴ ۱۴۱۶.
  • محمدبن ادریس شافعی، الاُمّ، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
  • محمدبن احمد شمس الائمه سرخسی، کتاب المبسوط، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶.
  • محمدکاظم بن عبدالعظیم طباطبائی یزدی، العروةالوثقی، بیروت ۱۴۰۴/۱۹۸۴.
  • محمدبن حسن طوسی، تهذیبالاحکام، چاپ علی اکبر غفاری، تهران ۱۳۷۶ش.
  • همو، المبسوط فی فقه الامامیة، ج ۱، چاپ محمدتقی کشفی، تهران ۱۳۸۷.
  • حسن بن یوسف علامه حلّی، قواعدالاحکام، قم ۱۴۱۳۱۴۱۹.
  • علی غروی تبریزی، التنقیح فی شرحالعروة الوثقی: الطهارة، تقریرات درس آیت اللّه خویی، در موسوعة الامام الخوئی، ج ۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۲۶/۲۰۰۵.
  • سعیدبن هبةاللّه قطب راوندی، فقه القرآن، چاپ احمد حسینی، قم ۱۴۰۵.
  • کلینی.
  • مالکبن انس، المُوَطَّأ، چاپ محمدفؤاد عبدالباقی، بیروت ۱۴۰۶.
  • الموسوعة الفقهیة، کویت: وزارة الاوقاف و الشئون الاسلامیة، ج ۱۶، ۱۴۰۹/ ۱۹۸۸، ج ۲۱، ۱۴۱۰/ ۱۹۸۹.
  • محمدحسن بن باقر نجفی، جواهرالکلام فی شرح شرائع الاسلام، ج ۴، چاپ عباس قوچانی، بیروت ۱۹۸۱.
  • احمدبن محمدمهدی نراقی، مستند الشیعة فی احکام الشریعة، ج ۳، قم ۱۴۱۵.
  • یحیی بن شرف نووی، المجموع: شرح المُهَذّب، بیروت: دارالفکر، بی‌تا.