ابان بن سعید

ویکی شیعہ سے
ابان بن سعید
کوائف
مکمل نامابان بن سعید بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔
دینی معلومات
اسلام لاناتقریبا سنہ 7 ہجری، صلح حدیبیہ و جنگ خیبر کے درمیان۔
جنگوں میں شرکتسریہ نجد۔
وجہ شہرتصحابی۔
دیگر فعالیتیںآنحضرت (ص) کی طرف سے بحرین میں زکات و جزیہ کی جمع آوری کی ذمہ داری، سریہ نجد کی سرداری، ابو بکر کی بیعت نہ کرنا اور کاتب پیغمبر (ص)۔


ابان بن سعید (متوفی سنہ 13 ہجریپیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب میں سے ہیں جو تقریبا ساتویں صدی ہجری میں اسلام لائے اور آپ (ص) کی طرف سے چند سرایا کی سرداری انہیں عطا کی گئی اور یمن میں جزیہ و مالیات جمع کرنے کی ذمہ داری ان کی سپرد کی۔ پیغمبر اسلام (ص) کی وفات کے بعد انہوں نے شروع میں حضرت ابو بکر کی بیعت سے پرہیز کیا لیکن حضرت علی (ع) کے بیعت کرنے کے بعد انہوں نے بھی بیعت کر لی۔ ایک قول کے مطابق سنہ 27 ہجری میں حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں طبیعی طور پر ان کی وفات ہوئی۔

نسب

ان کا مکمل سلسلہ نسب اس طرح ہے: ابان بن سعید بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔ دیگر امویوں کی طرح ان کا سلسلہ نسب بھی پیغمبر اکرم (ص) ان کے پانچویں جد (عبد مناف) کے ساتھ مشترک ہے۔ ان کی ماں صفیہ یا ہند مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم کی بیٹی ہیں۔[1]

ان کا اسلام لانا

وہ ابتداء میں پیغمبر اکرم (ص) کے سر سخت دشمنوں میں سے تھے اور جب ان کے دو بھائی عاص و عبیدہ جنگ بدر میں حضرت علی (ع) اور زبیر کے ہاتھوں قتل ہو گئے تو انہوں نے تجارت کی غرض سے مکہ کا شام کا قصد کیا۔ موجود منابع نے ان کی نصرانی راہب سے ملاقات کی داستان تفصیل سے ذکر کی ہے۔ اس میں اشارہ ہوا ہے کہ اس ملاقات سے ان کی روح کے اندر ایک اثر پیدا ہوا اور شاید اسی سبب تھا کہ جب عثمان پیغمبر کی طرف سے مکہ آئے تو ابان نے اچھے طریقہ سے ان کا استقبال کیا اور انہیں اپنے گھوڑے پر بیٹھا کر مکہ کے اندر لے گئے اور عثمان نے ان کی پناہ میں اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح سے ادا کیا اور پیغمبر کی خدمت میں واپس آ گئے۔ ابان نے فتح مکہ سے پہلے صلح حدیبیہ (سنہ 6 ھ) اور جنگ خیبر (سنہ 7 ھ، 628 ء) کے درمیان اسلام قبول کیا۔

پیغمبر اکرم کی طرف سے ذمہ داری

اسلام لانے کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے انہیں مدینہ میں سریہ کی ذمہ داری عطا کی۔ اس سریہ میں حاصل ہونے غنائم اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ انہوں نے آپ (ص) سے جنگ خیبر کے بعد ملاقات کی۔ اس کے حضرت نے انہیں نجد میں ایک سریہ کی ذمہ داری عنایت کی۔[2] سن 9 ہجری میں جب پیغمبر اسلام (ص) نے علاء بن حضرمی کو بحرین کی گورنری سے سبکدوش کیا تو وہاں کی ذمہ داری ابان کے سپرد کیا۔ انہوں نے صدقات (زکات) کے حصول و جمع آوری، جزیہ اور تجارت میں حاصل فائدہ کے سلسلہ میں حضرت سے فرمان و حکم کا تقاضا کیا۔

آنحضرت (ص) نے انہیں ایک دستور العمل عطا کیا جس کے مطابق انہیں تمام یہودی، عیسائی اور مجوسی بالغ مرد و عورت سے ایک دینار لینا تھا۔ اس کے علاوہ حضرت نے تحریر فرمایا: اسلام کو مجوسیوں کے سامنے پیش کرو اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے ہیں تو ان سے جزیہ کا مطالبہ کرو۔[3] بحرین کے مجوسیوں سے جو اہل کتاب نہیں تھے، جزیہ طلب کرنے کے حضرت کے فرمان پر عربوں کے ایک گروہ نے اعتراض کیا۔ جنہیں بلاذری نے عرب منافقین میں شمار کیا ہے۔ ابان ہمیشہ اپنے منصب پر باقی رہے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد بعض بحرینی عرب (جن میں اہل ہجر شامل تھے) نے طغیان کیا اور اسلام قبول کرنے سے انکار کیا۔ جب ابان نے حالت دیکھی تو واپس لوٹ جانے کا قصد کیا اور ایک لاکھ درہم کے ساتھ مدینہ میں وارد ہوئے اور ابو بکر کے اعتراض کے مقابلہ میں واضح طور پر کہا کہ وہ آنحضرت (ص) کے بعد کسی کی بھی طرف سے یہ ذمہ داری قبول نہیں کریں گے۔[4]

ابو بکر کی بیعت نہ کرنا

ابان نے شروع میں ابو بکر کی بیعت سے انکار کیا لیکن امام علی (ع) کے بیعت کرنے کے بعد انہوں نے بھی بیعت کر لی۔[5] اس چیز کے مد نظر یہ بات کہ ابو بکر نے انہیں یمن کا والی بنا کر بھیجا ہو صحیح نہیں معلوم ہوتی ہے۔[6]

کاتب پیغمبر (ص)

ایک روایت کے مطابق جو بہت واضح نہیں ہے اور جسے بلاذری نے نقل کیا ہے: ان کا شمار قریش کے ان 17 افراد میں تھا جنہیں ورود اسلام کے وقت لکھنا پڑھنا آتا تھا۔[7] اسی طرح سے ان کا نام رسول خدا (ص) کے کاتبوں میں بھی ذکر ہوا ہے۔[8] عثمان کے حکم سے زید بن ثابت پر پیش کئے جانے والے املائے قرآن کی نسبت بعض اوقات ان کی طرف بھی دی گئی ہے جو درست معلوم نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ متعدد اقوال کے مطابق ابان کی وفات ابو بکر یا عمر کے زمانہ میں ہوئی ہے۔[9]

وفات

ان کی تاریخ وفات کے سلسلہ میں متعدد اقوال ذکر ہوئے ہیں: یوم اجنادین (سنہ 13 ھ، 634 ء) میں قتل ہوئے، مرج الصفر (سنہ 14 ھ، 635 ء) و یوم الیرموک (سنہ 15 ھ، 636 ء)۔ لیکن بعض کا کہنا ہے کہ وہ قتل نہیں ہوئے بلکہ (سنہ 27 ھ، 648 ء) میں عثمان کے دور خلافت میں انہوں نے طبیعی طور پر وفات پائی ہے۔

حوالہ جات

  1. خلیفہ بن خیاط، ج۱، ص۲۵؛ ابن حبان، ج۳، ص۱۳؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۱، ص۳۵
  2. ابن حجر، ج۱، ص۱۳-۱۴؛ ابن عبد البر، ج۱، ص۶۲؛ ابن عساکر، ج۲، ص۱۲۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۱، ص۳۶
  3. ابن عساکر، ج۲، ص۱۲۷-۱۲۸
  4. ابن عساکر، ج۲، ص۱۲۹.
  5. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۱، ص۳۶؛ مامقانی، ج۱، ص۵؛ خویی، ج۱، ص۱۵۴
  6. ابن حجر، ج۱، ص۱۴؛ ابن عساکر، ج۲، ص۱۲۵
  7. ص ۲۲۵
  8. طبری، ج۴، ص۱۷۸۲؛ بلاذری، ۲۲۶؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۱۳
  9. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۱، ص۳۷

مآخذ

  • آذرنوش، آذرتاش، راهہای نفوذ فارسی در فرہنگ و زبان تازی، تہران، ۱۳۵۴ش.
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ، تہران، المکتبہ الاسلامیہ.
  • ہمو، الکامل، بیروت، ۱۳۹۹ق/۲/۲۰۳.
  • ابن حبان بستی، محمد بن بحمد، الثقات، حیدرآباد دکن، ۱۹۷۳ع
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ، بیروت، ۱۳۲۸ق.
  • ابن عبد البر، محمد، الاستیعاب، بہ کوشش علی محمد بجاوی، مصر، مکتبہ النہضہ، ۱/۶۵.
  • ابن عساکر، علی ابن حسن، التاریخ الکبیر، بہ کوشش عبد القادر افندی، ۱۳۳۰ق.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، ترجمہ آذرتاش آذرنوش، تہران، ۱۳۶۴ش.
  • خلیفہ بن خیاط، الطبقات، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۶م، ۱/۲۴.
  • خویی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، بیروت، ۱۴۰۳ق، ۱/۱۵۵.
  • طبری، تاریخ، بہ کوشش دخویہ، لیدن، ۱۸۷۹-۱۸۸۱م، ۳/۱۵۴۲، ۱۵۴۳، ۴/۲۱۰۱، ۵/۲۳۴۹.
  • مامقانی، محمد حسین، تنقیح المقال، نجف، ۱۳۵۰ق.
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، بہ کوشش محمود محمد شاکر، قاہره، ۱۹۴۸م، ص۳۸۹.