غَزوَہ صدر اسلام کی ان جنگوں کو کہا جاتا ہے جن میں رسول اللہؐ نے بذات خود شرکت فرمائی۔ تاریخی منابع میں ان کی تعداد 26 یا 27 بیان کی گئی ہے جن میں سے صرف 9 غزوات میں مسلحانہ جد و جہد کی نوبت آئی جبکہ باقی غزوات بغیر تصادم کے اختتام پذیر ہوئے۔ محققین کے مطابق غزوہ احد کے علاوہ باقی تمام غزوات میں پیغمبر اکرمؐ کو فتح نصیب ہوئی۔

غزوہ اور سریہ میں فرق

تاریخ اسلام سے مربوط منابع میں پیغمبر اکرمؐ کی جنگوں کو غَزْوہ اور سَرِیّہ میں تقسیم کی گئی ہے۔[1] جن جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ نے خود شرکت فرمائی، غَزْوہ جبکہ جن جنگوں میں آپ نے خود شرکت نہیں کی بلکہ کسی اور کو جنگ کا سپہ سالار منتخب کیا، سریہ کہا جاتا ہے۔[2] البتہ بعض محققین غزوہ اور سریہ کی مذکورہ تعریف کو مکمل تعریف نہیں سمجھتے بلکہ ان کے خیال میں غزوہ ان جنگوں کو کہا جاتا ہے جن میں پیغمبر اکرمؐ نے علنا ایک منظم لشکر کے ساتھ جنگ کی جبکہ جن جنگوں کو مخفیانہ طور پر یا مختصر لشکر کے ساتھ انجام دیے سریہ کہا جاتا ہے۔[3] دونوں گروہ غزوات اور سریوں کی تعداد میں اختلاف نظر نہیں رکھتے کیونکہ آخری تعریف کے مطابق جن جنگوں کو مختصر لشکر کے ساتھ دشمن کی شناخت یا ان کے تحرکات کو روکنے کے لئے لڑی جاتی، ان میں پیغمبر اکرمؐ شرکت نہیں فرماتے تھے۔[4]

مسلحانہ جد و جہد تک منتہی ہونے والے غزوات

کتاب اَلسّیرۃُ النَّبَویہ میں ابن‌ ہشام[5] اور اِعلامُ‌ الوری میں طَبْرسی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے غزوات میں سے غزوہ بَدْر، اُحُد، خَنْدق، بنی‌ قُرَیْظہ، بنی‌ مُصْطَلِق، خیبر، فتح مکہ، حُنَیْن اور طائف ایسے غزوات ہیں جن میں فریقین کے درمیان باقاعدہ مسلح لڑائی ہوئی۔[6]کتاب مروج‌ الذَّہَب کے مصنف مسعودی نے غزوہ بنی‌ مُصْطَلِق کی جگہ غزوہ تبوک کا نام لیا ہے۔[7] جن جنگوں میں مسلحانہ لڑائی کی نوبت آئی ان میں سے 5 جنگیں انتہائی اہمیت کے حامل تھیں جن میں لڑائی شد اختیار کر گئی۔[8]

کامیابی نصیب ہونے والے غزوات

 
فاتح خیبر سائن بورڈ، حسن روح الامین کے قلم سے، سنہ 2018ء

غزوہ احد کے علاوہ باقی تمام غزوات میں لشکر اسلام کو کامیابی ملی۔[9] بعض محققین کے مطابق فوجی دستوں کو مؤثر اور منظم طریقے پر ترتیب دینا ان جنگوں میں کامیابی کا اہم سبب قرار دیا جاتا ہے۔[10] کہا جاتا ہے کہ ان غزوات میں ایک خاص جنگی حکمت عملی اپنائی گئی جو درج ذیل چار مراحل پر مشتمل ہوتی تھی:

  1. ‌ حرکت سے پہلے کی حکمت عملی؛
  2. حرکت کرنے کے بعد کی حکمت عملی ؛
  3. میدان جنگ میں جنگ سے پہلے کی حکمت عملی؛
  4. جنگ کے دوران اپنائی جانے والی حکمت عملی۔[11]

اس دور میں پہلے دو مرحلوں کو جنگی حکمت عملی اور آخری دو مرحلوں کو جنگی ٹیکنیک سے تعبیر کی جاتی ہے۔[12]

تعداد

اکثر تاریخی منابع میں پیغمبر اکرمؐ کے غزوات کی تعداد 26 یا 27 بتائی گئی ہے۔[13] البتہ بعض منابع میں ان کی تعداد کچھ اور بھی دیکھنے کو ملتی ہے مثلا بعض میں 18[14] بعض میں 21،[15]اور بعض میں 28 غزوات کا ذکر ملتا ہے۔[16] غزوہ بنی‌ قَینُقاع، غزوہ وادی‌ القُری اور عُمْرَۃ القَضاء جیسی جنگوں کو غزوات میں شامل کرنے‌ اور نہ کرنے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[17] کہا جاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ پیغمبر اکرمؐ نے جنگ موتہ میں شرکت نہیں فرمائی، لیکن بعض نے اسے بھی غزوات میں شمار کیا ہے۔[18] کتاب تاریخ پیغمبر اسلام کے مصنف محمد ابراہیم آیتی نے پیغمبر اکرمؐ کے غزوات کی تعداد 27 ذکر کی ہے جن کی تفصیل بالترتیب درج ذیل ہے:[19]

نام لشکر اسلام کی تعداد دشمن سپاہیوں کی تعداد مکان زمان مختصر نتیجہ
1 غزوہ ابواء(وَدّان) 200 نفر[20] قریش کا ایک کاروان[21] ابواء (مکہ اور مدینہ کے درمیان ودّان کے قریب ایک بڑا گاؤں)[22] صفر [23] یہ غزوہ لڑائی کے بغیر اختتام کو پہنچا اور قبیلہ بنی‌ ضمرہ کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کاروائی نہ کرنے کا معاہدہ ہوا۔[24]
2 غزوہ بُواط 200 نفر[25] 100 نفر، اُمَیّۃ بن خَلَف کی سربراہی میں[26] بواط ربیع‌ الاول[27] یا ربیع الاخر[28] یہ غزوہ بغیر لڑائی اختتام کو پہنچا۔[29]
3 غزوہ عُشَیرہ یا ذی‌ العُشَیرہ 150 یا 200 نفر[30] قریش کے مختلف کاروان[31] ذی‌العُشَیرہ (مکہ و مدینہ کے درمیان ایک مقام)[32] جُمادی‌الاول سنہ 2ھ[33] لڑائی کے بغیر ختم ہوا اور قبیلہ مُدلِج اور ان کے‌ اتحادیوں کے‌ ساتھ دوستی کا معاہدہ ہوا۔[34]
4 غزوہ بدر اول بعض مہاجرین[35] کُرْز بن جابر کی سربراہی میں بعض ڈاکو[36] منطقہ بدر[37] جمادی‌ الثانی سنہ 2ھ[38] یا ربیع‌ الاول سنہ 3ھ[39] ڈاکو فرار اختیار کر گئے[40]
5 غزوہ بدر کبری 313 نفر[41] 950 نفر[42] منطقہ بدر 17 رمضان سنہ 2ھ[43] قریش پر مسلمانوں کی فتح، مشرکین کے 70 افراد مالے گئے اور 70 افراد اسیر ہوئے[44]
6 غزوہ بنی‌ سُلَیم 200 نفر[45] قبیلہ بنی‌ سُلَیم و غَطَفان[46] منطقہ قَرقَرۃ الکُدْر، مدینہ سے تقریبا 170 کیلومتر کے فاصلے‌ پر [47] شوّال سنہ 2ھ[48] بنی‌ سلیم اموال کو چھوڑ کر میدان سے بھاگ گئے[49]
7 غزوہ بنی‌ قَینُقاع مدینہ کے مسلمان بنی‌ قَینُقاع کے یہودی[50] مدینہ 15 شوال سنہ 2ھ[51] مدینہ سے یہودیوں کا مکمل انخلاء[52]
8 غزوہ سَویق مہاجرین اور انصار میں سے 200 نفر[53] ابوسفیان کی قیادت میں مشرکین کے 200 نفر[54] قَرقَرۃ الکُدْر[55] ذی‌ الحجہ سنہ 2ھ[56] مشرکین مکہ بھاگ گئے[57]
9 غزوہ ذی‌ اَمَرّ یا غزوہ غَطَفان 450 نفر، دُعْثور بن حارث کی سربراہی میں[58] بنی‌ ثَعلَبہ از قبیلہ غَطَفان[59] منطقہ نَجد[60] صفر 3ھ[61] دشمن پہاڑوں پر بھاگ گئے[62]
10 غزوہ بُحران 300 نفر[63] بنی‌ سُلَیم[64] بُحران (حجاز میں وادی فُرع کا معدنی مقام)[65] ربیع‌ الثانی سنہ 3ھ[66] مسلح لڑائی کے بغیر ختم ہوا۔[67]
11 غزوہ اُحُد 700 نفر[68] مشرکین قریش کے 3000 نفر[69] کوہ اُحُد شوّال سنہ 3ھ[70] مشرکین کو کامیابی ملی اور 70 مسلمان شہید ہوئے۔[71]
12 غزوہ حَمراء الاَسَد 630 نفر[72] مشرکین قریش[73] منطقہ حَمراء الاسد، مدینہ کے جنوب میں تقریبا 20 کیلومیٹر کے فاصلے پر [74] شوّال سنہ 3ھ[75] مشرکین قریش بھاگ کھڑے ہوئے[76]
13 غزوہ بنی‌ نَضیر مہاجرین و انصار کا ایک گروہ[77] بنی‌ نَضیر کے‌ یہودی مدینہ کا ایک مقام[78] ربیع‌ الاوّل سنہ 4ھ[79] بنی‌ نضیر کا مدینہ سے انخلاء[80]
14 غزوہ ذات الرِّقاع صحابہ میں سے 400 نفر[81] بنی‌ محارب[82] منطقہ نَجد میں کوہ ذات‌ الرقاع [83] ربیع الاول سنہ 4ھ[84] دشمن پہاڑ پر بھاگ گئے اور پیغمبر اکرمؐ مدینہ واپس آئے[85]
15 غزوہ بدر الموعد 1500 نفر[86] مشرکین مکہ میں سے 2000 نفر[87] بدر[88] شعبان سنہ 4ھ[89] مسلح لڑائی کے بغیر ختم ہوا۔[90]
16 غزوہ دُومۃالجَندَل 1000 نفر[91] قبیلہ دومۃ الجندل[92] دومۃ الجندل[93] ربیع‌ الاوّل سنہ 5ھ[94] قبیلہ دومۃالجندل فرار اختیار کر گئے[95]
17 غزوہ خندق مسلمانوں میں سے 3000 نفر [96] قریش اور ان کے اتحادیوں میں سے 10000 نفر[97] مدینہ شوّال سنہ 5ھ[98] عمرو بن عبدود کا قتل اور مشرکین کی شکست[99]
18 غزوہ بنی‌ قُرَیظہ 3000 نفر[100] قبیلہ بنی‌ قُرَیظہ[101] جنوب مدینہ، قلعہ بنی‌ قریظہ[102] ذی‌ قعدہ و ذی‌ الحجّہ سنہ 5ھ[103] بنی‌ قریظہ پر مسلمانوں کی فتح[104]
19 غزوہ بنی‌ لِحیان 200 نفر[105] قبیلہ لحیان[106] غران[107] جمادی‌ الاولی سنہ 6ھ[108] فرار بنی‌ لِحیان[109]
20 غزوہ ذی‌ قَرَد یا غزوہ غابہ 500-700 نفر[110] غَطَفان[111] ذی‌ قَرَد ربیع‌ الاول[112]و ربیع‌ الثانی سنہ 6ھ[113] پیغمبر اکرمؐ کے اموال کی واپسی اور ابوذر غفاری کی زوجہ کی رہائی[114]
21 غزوہ بنی‌ مُصْطَلِق یا مُرَیْسیع 100 نفر گھڑ سوار[115] بنی‌ مُصْطَلِق، حارث بن ابی‌ ضرار کی سربراہی میں[116] منطقہ قُدَید میں دریائے مُرَیسیع کے قریب[117] شعبان سنہ 6ھ[118] (یا 5ھ[119]) بنی‌ مُصْطَلِق کی شکست اور ان کا اسیر ہونا[120]
22 غزوہ حُدَیْبیّہ 1400 تا 1600 نفر[121] قریش[122] حُدَیبیہ[123] ذی‌ القعدہ سنہ 6ھ[124] مسلمانوں اور قریش کے درمیان صلح[125]
23 غزوہ خیبر 1400 نفر[126] خیبر کے یہودی خیبر صفر سنہ 7ھ[127] اہل خیبر کی شکست اور امام علیؑ کے ہاتھوں قلعہ خیبر کی فتح[128]
24 غزوہ فتح مکہ 10000 نفر[129] قریش[130] مکہ رمضان سنہ 8ھ[131] مشرکین کی شکست اور فتح مکہ[132]
25 غزوہ حُنَین 12000 نفر[133] قبیلہ ہوازِن و ثَقیف[134] حُنَین شوّال سنہ 8ھ[135] مسلمانوں کی فتح[136]
26 غزوہ طائف 12000 نفر[137] قبیلہ ثقیف[138] طائف[139] شوّال سنہ 8ھ[140] کامیابی کے بغیر مکہ واپسی[141]
27 غزوہ تبوک 30000 نفر[142] روم اور ان کے اتحادی[143] تبوک[144] رجب سنہ 9ھ[145] تبوک میں ساکن عیسائی قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرنے کا معاہدہ[146] اور روم کے سپاہیوں کا پراکندہ ہونا [147]

حوالہ جات

  1. سبحانی، فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام، 1386ش، ص216۔
  2. سبحانی، فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام، 1386ش، ص216۔
  3. قائدان، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیامبر»، ص79-80۔
  4. قائدان، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیامبر»، ص80۔
  5. ابن‌ہشام، السیرۃ النوبیہ، دار المعرفہ، ج2، ص608۔
  6. طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج1، ص163۔
  7. مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج2، ص280۔
  8. علیخانی، «تحلیل سیاسی جنگ‌ہای پیامبر اکرم راہبردی برای امروز» ص71۔
  9. قائدان، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیامبر»، ص75۔
  10. قائدان، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیامبر»، ص75۔
  11. قائدان، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیامبر»، ص80۔
  12. قائدان، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیامبر»، ص81۔
  13. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص7؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص280؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1414ھ، ج2، ص3؛ ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص608؛ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص152۔
  14. فسوی، المعرفۃ و التاریخ، 1401ھ، ج3، ص261۔
  15. بیہقی، دلایل النبوہ، 1405ھ، ج5، ص460۔
  16. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص241۔
  17. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج3، ص173؛ صالحی شامی، سبل الہدی، 1414ھ، ج4، ص8؛ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص152؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص281؛ قاضی ابرقوہ، سیرت رسول‌خدا(ص)، 1377ہجری شمسی، ج2، ص848۔
  18. جعفریان، سیرہ رسول خدا(ص)، 1383ہجری شمسی، ص464۔
  19. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1369ھ، ص238-240۔
  20. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص424۔
  21. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص12۔
  22. ابن‌رستہ، الاعلاق النفیسہ، 1892م، ج7، ص178۔
  23. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص11۔
  24. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص12۔
  25. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج2، ص407۔
  26. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص12۔
  27. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج2، ص407۔
  28. بیہقی، دلایل النبوہ، 1405ھ، ج5، ص469۔
  29. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص12۔
  30. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص12۔
  31. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج2، ص408۔
  32. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج4، ص127۔
  33. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج1، ص599؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج1، ص164۔
  34. بیہقی، دلایل النبوہ، 1405ھ، ج3، ص16۔
  35. بیہقی، دلایل النبوہ، 1405ھ، ج3، ص16۔
  36. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص12۔
  37. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص12۔
  38. ابن‌خیاط، تاریخ خلیفۃ، 1415ھ، ص20۔
  39. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص12۔
  40. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص12۔
  41. بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج1، ص290۔
  42. بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج1، ص290۔
  43. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج1، ص626۔
  44. سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، 1385ہجری شمسی، ص496۔
  45. صالحی شامی، سبل الہدی، 1414ھ، ج4، ص172۔
  46. صالحی شامی، سبل الہدی، 1414ھ، ج4، ص172۔
  47. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج4، ص441۔
  48. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص43–44۔
  49. صالحی شامی، سبل الہدی، 1414ھ، ج4، ص172۔
  50. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص177۔
  51. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص176؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص206۔
  52. سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ہجری شمسی، ج1، ص516۔
  53. صالحی شامی، سبل الہدی، 1414ھ، ج4، ص174۔
  54. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج2، ص483-484۔
  55. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج2، ص484۔
  56. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص181۔
  57. صالحی شامی، سبل الہدی، 1414ھ، ج4، ص174۔
  58. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص194۔
  59. بیہقی، دلائل النبوہ، 1405ھ، ج3، ص168۔
  60. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص153۔
  61. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج2، ص46۔
  62. بیہقی، دلائل النبوہ، 1405ھ، ج3، ص168۔
  63. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1414ھ، ج2، ص27۔
  64. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص196۔
  65. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1414ھ، ج2، ص27۔
  66. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص46۔
  67. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص196-197۔
  68. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص65۔
  69. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص204۔
  70. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص60۔
  71. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص325۔
  72. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایہ، 1407ھ، ج4، ص50۔
  73. بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج1، ص338
  74. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1414ھ، ج2، ص38۔
  75. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص334۔
  76. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص340۔
  77. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص364۔
  78. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج5، ص290۔
  79. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص363۔
  80. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص374۔
  81. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص396۔
  82. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص203۔
  83. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج5، ص276۔
  84. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص203۔
  85. بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج1، ص340
  86. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص387۔
  87. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص214۔
  88. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج1، ص358۔
  89. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج1، ص67۔
  90. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج1، ص67۔
  91. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص403۔
  92. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص213۔
  93. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، دار الحدیث، ج10، ص105۔
  94. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص402۔
  95. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص402۔
  96. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص220۔
  97. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص444۔
  98. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج2، ص214۔
  99. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج1، ص50۔
  100. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1414ھ، ج2، ص57۔
  101. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1414ھ، ج2، ص57۔
  102. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، دار الحدیث، ج9، ص130۔
  103. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص496۔
  104. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص501۔
  105. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص280۔
  106. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص279۔
  107. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص280۔
  108. بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج3، ص364
  109. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص536-537۔
  110. جعفریان، سیرہ رسول خدا(ص)، 1383ہجری شمسی، ص573۔
  111. بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج4، ص180۔
  112. بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج1، ص349۔
  113. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص537
  114. بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج4، ص188۔
  115. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص405۔
  116. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص404۔
  117. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج5، ص118۔
  118. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج2، ص289
  119. بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج1، ص341۔
  120. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص407۔
  121. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص574۔
  122. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص310۔
  123. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص447۔
  124. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص308۔
  125. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص316۔
  126. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص689۔
  127. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص634۔
  128. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص655۔
  129. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص458۔
  130. بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج5، ص5۔
  131. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص389۔
  132. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص460۔
  133. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص62۔
  134. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص885۔
  135. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص892۔
  136. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص912۔
  137. حسنی، تاریخ تحلیلی صدر اسلام، انتشارات پیام نور، ص94۔
  138. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1414ھ، ج2، ص120۔
  139. ابن‌سید الناس، عیون الأثر، 1414ھ، ج2، ص250۔
  140. طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج1، ص233۔
  141. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1414ھ، ج2، ص120۔
  142. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ج5، ص70۔
  143. بلاذری، فتوح البلدان، 1988م، ص67۔
  144. بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج5، ص469۔
  145. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج2، ص516۔
  146. بلاذری، فتوح البلدان، 1988م، ص67۔
  147. سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ہجری شمسی، ص873۔


مآخذ

  • ابن اسحاق، سیرۃ النبی، چاپ مصطفی الحلبی، 1355 ہجری قمری۔
  • ابن حبیب، محمد، المحبر، بہ کوشش ایلزہ لیشتن اشتتر، حیدرآباد دکن، 1361 ہجری قمری /1942عیسوی۔
  • ابن حزم اندلسی‏، جوامع السیرۃ النبویۃ، ص76، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، بی‌تا۔
  • ابن خلدون‏، تاریخ ابن خلدون‏، آیتی، عبد المحمد، العبر: تاریخ ابن خلدون، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ اول، 1363 ہجری شمسی۔
  • ابن سعد، محمد، کتاب الطبقات الکبیر، بہ کوشش ادوارد زاخاو، لیدن، 1321- 1325 ہجری قمری۔
  • ابن سید الناس‏، عیون الأثر، دار القلم‏، بیروت، چاپ اول، 1414 ہجری قمری۔
  • ابن ہشام، عبد الملک، السیرۃ النبویۃ، تحقیق: السقا، مصطفی، الأبیاری، ابراہیم، شلبی، عبد الحفیظ، دار المعرفۃ، بیروت، چاپ اول، بی‌تا۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ناشر، دار صادر، بیروت، چاپ سوم، 1414 ہجری قمری۔
  • امین عاملی‏، سید محسن، اعیان الشیعۃ، دار التعارف للمطبوعات‏، بیروت، 1403 ہجری قمری۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الاشراف، دار الفکر، بیروت، چاپ اول، 1417 ہجری قمری۔
  • بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین، دلائل النبوۃ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، تحقیق: قلعجی، عبد المعطی، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، چاپ اول، 1405 ہجری قمری۔
  • جعفریان رسول؛ سیرت رسول خداؐ، قم، انتشارات دلیل ما، 1383ہجری شمسی۔
  • حسنی، علی اکبر، تاریخ تحلیلی صدر اسلام، تہران، انتشارات پیام نور۔
  • حموی، محمد بن اسحاق‏، أنیس المؤمنین‏، بنیاد بعثت‏، تہران، 1363 ہجری شمسی۔
  • سہیلی، عبد الرحمن، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ، دار احیاء التراث العربی، بیروت، چاپ اول، 1412 ہجری قمری۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری بأعلام الہدی، مؤسسہ آل البیت(ع)، قم، چاپ اول، 1417 ہجری قمری۔
  • دہ‏خدا، علی اکبر، لغت نامہ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، مؤسسۃ الوفاء، بیروت، 1404 ہجری قمری۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، بیروت، دار الکتب العلمیہ۔
  • یاقوت حموی، شہاب الدین ابو عبد اللہ، معجم البلدان، دار صادر، بیروت، چاپ دوم، 1995عیسوی۔
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، مؤسسۃ الأعلمی، بیروت، چاپ سوم، 1409 ہجری قمری۔