غزوہ

wikishia سے
پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق 1ھ
معراج 622ء بمطابق 1ھ
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان سنہ 2ھ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال سنہ 2ھ
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال سنہ 3ھ
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق سنہ 4ھ
غزوہ احزاب 627ء بمطابق سنہ 5ھ
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق سنہ 5ھ
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق سنہ 5 یا 6ھ
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق سنہ 6ھ
غزوہ خیبر 628ء بمطابق سنہ7ھ
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق 7ھ
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق 8ھ
فتح مکہ 630ء بمطابق 8ھ
غزوہ حنین 630ء بمطابق 8ھ
غزوہ طائف 630ء بمطابق 8ھ
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق 9ھ
غزوہ تبوک 632ء بمطابق 9ھ
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ

غَزوَہ صدر اسلام کی ان جنگوں کیلئے بولا جاتا ہے جس میں رسول اللہؐ نے بذات خود شرکت کی ہے؛ خواہ آپؐ خود لڑے ہوں یا نہ لڑے ہوں۔ بدر، احد، خندق اور خیبر کے غزوات رسول خداؐ کے اہم غزوات میں شامل ہیں۔ غزوات کی تعداد کے سلسلے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ اور بعض نے ان کی تعداد 26 اور بعض سے 27 بتائی ہے۔

غزوہ کے معنی

غَزْوَہ ـ بفتح اول اور سکون دوئم جس کی جمع "غَزْوات" ہے، مادۂ "‌غ ز و" سے ماخوذ ہے۔ جس کے لغوی معنی لڑنے کے ہیں، اس کا اسم فاعل "غازی" ہے جس کی جمع "‌غُزاۃ" اور "‌غُزّی" ہے؛ جیسے قاضی کی جمع قضاۃ ـ سابق کی جمع سُبّق؛ جس کے معنی دشمن کے ساتھ جنگ میں چلے جانے اور اس کے غارت کرنے کے ہیں۔[1] اور اصطلاح میں غزوہ کے معنی ہر اس جنگ کے ہیں جس میں رسول خداؐ نے ذاتی طور پر اس میں شرکت کی ہو۔[2]

غزوات کا آغاز

ابن اسحق نے لکھا ہے کہ رسول اللہؐ [ہجرت کے] پہلے سال کے یکم ربیع الاول کو مدینہ پہنچے تو اس وقت سے دوسرے سال کے ماہ صفر تک آپؐ نے کوئی جنگ نہیں لڑی،[3] لیکن واقدی کا کہنا ہے کہ سریہ حمزہ، عبیدہ بن حارث اور سریہ سعد بن ابی وقاص ہجرت کے پہلے سال ہی انجام پائے۔[4]

غزوات کی تعداد

مسعودی نے رسول خداؐ کے غزوات کی تعداد 26 اور بعض دوسروں نے 27 بیان کی ہے۔ اختلاف کا سبب یہ ہس کہ اول الذکر تعداد بیان کرنے والوں نے آپؐ کی "خیبر" سے "وادی القری" واپسی کو "غزوہ خیبر" کا حصہ قرار دیا ہے لیکن مؤخر الذکر رائے رکھنے والوں نے غزوہ خیبر اور غزوہ ام القری کو دو الگ الگ غزوات جانا ہے۔ بایں وجود، ابن اسحق بھی ـ جنہوں نے غزوہ خیبر کے بعد کے بعد وادی القری کا ذکر نہیں کرتے، ـ نے بھی غزوات کی تعداد 27 بیان کی ہے۔ اور "عمرۃ القضاء" کو غزوات کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔[5]۔[6]

غزوات رسولؐ

رسول خداؐ کی جنگوں (غزوات) کی فہرست درج ذیل ہے۔

جنگ کا نام لشکر اسلام لشکر دشمن مقام جنگ وقت جنگ مختصر نتایج
غزوۃ الابواء 200 سوار اور پیادے نامعلوم ودان صفر سنہ 2 ہجری لشکر اسلام قریشیوں کو آ نہ لے سکا
قبیلہ بنی ضمرہ کے ساتھ معاہدہ مودت
غزوہ بواط 200 سوار 100 افراد بواط ربیع الاول سنہ 2 ہجری ----
غزوہ ذوالعشیرہ 200 سوار قریش، مدلج اور بنو ضمرہ کا مشترکہ لشکر العشیرہ جمادی الاول سنہ 2 ہجری جنگ بندی اور قبیلہ مدلج نیز مدلج اور ضمرہ کے حلیفوں کے ساتھ معاہدہ مودت
غزوہ بدر اولی 200 سوار ایک شخص کی سرکردگی میں تھوڑے سے افراد بدر جمادی الثانی سنہ 2 ہجری فرار مشرکان
غزوہ بدر الکبری 313 افراد، دو گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ 950 سواراور پیادے بدر رمضان سنہ2 ہجری قریش پر مسلمانوں کی فتح
غزوہ بنی قینقاع مدینہ کے مسلمان مدینہ کے یہودی مدینہ شوال سنہ 2 ہجری کے ابتدائی ایام مدینہ کو یہودیوں سے خالی کیا گيا
غزوہ بنی سلیم 200 سوار بنو سلیم اور بنوغطفان مکہ اور مدینہ کے درمیان شوال سنہ 2 ہجری کے آخری ایام بنو سلیم کا فرار
جنگ میں اپنا مال و اسباب چھوڑ گئے
غزوۃ السویق مختصر سا لشکر 200 افراد قرقرۃ الکدر ذو‌الحجہ سنہ 2 ہجری قریش کا فرار
غزوہ ذو امر 450 افراد بنو ثعلبہ و بنو محارب علاقہ ذو امر، نجد محرم سنہ 3 ہجری بنو ثعلبہ کا فرار ہوجانا
ان کے علاقے میں مسلمانوں کا مہینہ بھر قیام
غزوہ بحران 300 سوار بنو سلیم بحران (حجاز کی ایک کان، یا ذابع کی ایک وادی) ربیع الثانی سنہ 3 ہجری ----
غزوہ احد 700 سوار اور پیادے، مدینہ کے اطراف میں 2900 تا 3000 افراد کوہ احد کا دامن شوال سنہ 2 ہجری حمزہ سمیت 70 مسلمانوں کی شہادت
کفار فیصلہ کن فتح نہ پاسکے
لشکر اسلام کی محاصرے سے نجات
غزوہ حمراء الاسد 630 سوار اور پیادے قریش کے 9279 افراد حمراء لاسد، مکہ اور مدینہ کے درمیان شوال سنہ 3 ہجری مشرکین قریش کا فرار ہوجانا
غزوہ بنی نضیر مدینہ کے عام مسلمان بنو نضیر کے یہودی مدینہ کے اطراف ربیع الاول سنہ 4 ہجری بنو نضیر کو مدینہ کے اطراف سے کوچ کرایا گیا
غزوہ ذات الرقاع 400 سوار اور پیادے بنو محارب ذات الرقاع، نجد شعبان سنہ 4 ہجری بنو ثعلبہ اور بنو محارب کا فرار ہونا
بدر ثالثہ 1000 افراد 2000 افراد بدر ــــ جھڑپ نہيں ہوئی
غزوہ دومۃ الجندل 1000 سوار اور پیادے دومۃ الجندل کے قبائل دومۃ الجندل ربیع الاول سنہ 4 ہجری جند قبائل شکست کھا کر فرار ہوئے
غزوہ بنی مصطلق 1000 سوار اور پیادے بنو مصطلق المریسیع شعبان سنہ 5 ہجری مشرکین مختصر مزاحمت کے بعد فرار ہوئے
غزوہ خندق 3000 افراد مشرک قبائل کے 10000 افراد مدینہ شوال سنہ 5 ہجری احزاب کی شکست اور کامیاب ہوئے بغیر واپسی
غزوہ بنی قریظہ 3000 افراد 600 تا 700 افراد مدینہ کے اطراف ذو‌القعدہ سنہ 5 ہجری بنو قریظہ پر لشکر اسلام کی فتح
غزوہ بنی لحیان تقریبا 3000 افراد قبیلۂ لحیان علاقۂ غران جمادی الاول سنہ 6 ہجری بنو لحیان کا فرار
غزوہ ذی قرد ---- غطفان ذی قرد جمادی الاول سال 6 ہجری 2 مسلمانوں کی شہادت، چند مشرکین کی ہلاکت اور
غارت شدہ اونٹوں میں سے کچھ کا لوٹایا جانا
غزوہ حدیبیہ 1600 افراد قریش حدیبیہ ذوالقعدہ|ذو‌القعدہ سنہ 6 ہجری مسلمین اور قریش کے درمیان معاہدہ امن
غزوہ خیبر 1600 افراد خیبر کے یہودی خیبر محرم سنہ 7 ہجری خیبریوں کا زوال اور شکست
غزوہ عمرۃ القضاء 1400 افراد قریش مکہ ذو‌الحجہ سنہ 7 ہجری مسلمین کے حوصلوں کی بلندی اور
مشرکین کا کمزور پڑ جانا
غزوہ فتح مکہ 10000 افراد قریش اور بنو بکر مکہ رمضان سنہ 8 ہجری فتح مکہ
غزوہ حنین 12000 افراد ہوازن اور ثقیف طائف کے قریب شوال سنہ 8 ہجری ہوازن اور ثقیف کی شکست
غزوہ طائف 12000 افراد قبیلہ بنو ثقیف اور ہوازن طائف شوال سنہ 8 ہجری کامیابی حاصل کئے بغیر مدینہ واپسی
غزوہ تبوک 30000 افراد روم اور اس کے حلیف تبوک رجب سنہ 8 ہجری رومیوں کی طرف سے مسلمانوں کو مالی مصالحت کی تجویز۔[7]

غزوات کا اجمالی تعارف

سنہ 5 ہجری تک

غزوہ وَدّان ـ المعروف بہ غزوہ اَبواء - ماہ صفر سنہ 2 ہجری۔ اس جنگ میں پرچم حمزہ سید الشہداء کے پاس تھا۔[8]۔[9]
غزوہ بُواط ـ بمقام "‌رَضوَٰی" – ربیع الاول سنہ 2 ہجری۔[10] یا ربیع الثانی سنہ 2 ہجری۔[11] طبرسی کے مطابق اس موقع پر کوئی جھڑپ نہیں ہوئی۔[12]
غزوہ عُشَیرہ ـ بمقام "‌بطن الیَنبُع" ـ جمادی الاول سنہ 2 ہجری۔[13]۔[14]۔[15] عشیرہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے؛خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag اس مہم کے دوران لڑائی نہیں ہوئی۔[16]
4 ۔ غزوہ بدر اولی ـ یعنی: غزوہ "‌سفوان" – جمادی الثانی سنہ 2 ہجری۔[17] یا ربیع الاول سنہ 2 ہجری۔[18]۔[19]۔[20]
غزوہ بدر الکبری - 17 رمضان سنہ 2 ہجری۔[21]
غزوہ بنی سُلَیم ـ سرزمین "قرقرۃ الکدر" تک – شوّال سنہ 2 ہجری۔[22]۔[23]
غزوہ بنی قَینُقاع ـ شوال سنہ 2 ہجری۔[24]۔[25] ابن اسحق[26] اور مسعودی[27] نے اس کو غزوات کے زمرے میں شمار نہیں کیا ہے۔
غزوہ سَویق ـ سرزمین "‌قرقرۃ الکدر" تک – ذوالحجّہ سنہ 2 ہجری۔[28]۔[29]
غزوہ غَطَفان ـ یعنی: غزوہ "‌ذی أمَرّ"، سرزمین "نجد" ـ محرم سنہ 3 ہجری۔ رسول اللہؐ اس مہم کے دوران دشمن کا سامنا کئے بغیر مدینہ پلٹ آئے۔[30]
10۔ غزوہ بُحران، بحران علاقہ "فرع" میں واقع ایک کان کا نام ہے؛ ربیع الثانی سنہ 3 ہجری۔[31]۔[32]
11۔ غزوہ احد ـ شوّال سنہ 3 ہجری۔[33]۔[34]۔[35]
12۔ غزوہ حَمراء الاسد ـ شوّال سنہ 3 ہجری۔[36]
13۔ غزوہ بنی نَضیر ـ ربیع الأوّل سنہ 4 ہجری۔[37]۔[38]
14۔ غزوہ ذات الرِّقاع ـ بمقام "نخل‌" – جمادی الأولی سنہ 4 ہجری۔[39]۔[40]
15۔ غزوہ بدر ثالثہ ـ "‌بدر الموعد"، "بدر الصفراء‌" – شعبان سنہ 4 ہجری۔[41] اس جنگ کو بدر الموعد کہا جاتا ہے کیونکہ ابو سفیان نے احد سے واپسی کے وقت چلّا کر کہا: "ہمارا وعدہ ایک سال بعد بدر الصفراء کے مقام پر۔[42]
16۔ غزوہ دُومۃ الجَندَل ـ ربیع الأوّل سنہ 5 ہجری۔[43]

سنہ 5 ہجری کے بعد

17۔ غزوہ خندق ـ "جنگ احزاب – شوّال سنہ 5 ہجری۔[44]۔[45]۔[46]
18۔ غزوہ بنی قُرَیظہ ـ ذوالقعدہ اور ذوالحجہ سنہ 5 ہجری۔[47]۔[48]
19۔ غزوہ بنی لِحیان ـ یعنی غزوہ "‌عُسفان" جو "ہُذَیل" نامی قبیلے کی وجہ سے ہوا۔ جمادی الأولی سنہ 6 ہجری۔[49]
20۔ غزوہ ذی قرد ـ غزوہ "‌غابہ"، غزوہ "‌فَزَع‌" ـ بلاذری کے بقول یہ جنگ ربیع الاول[50] اور واقدی کے بقول ربیع الآخر[51] ربیع الآخر سنہ 6 ہجری۔
21۔ غزوہ بنی مصطلق ـ غزوہ "مریسیع‌"؛ سبب جنگ قبیلہ خزاعہ- شعبان سنہ 6 ہجری۔[52]
22۔ غزوہ حدیبیہ ـ ذوالقعدہ سنہ 6 ہجری: اس جنگ کا دوسرا نام میثاق حدیبیہ یا صلح حدیبیہ ہے۔[53]۔[54]
23۔ غزوہ خیبر ـ محرّم سنہ ہفتم؛ عمرہ القضاء- ذوالقعدہ سنہ 7 ہجری۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag۔[55]
24۔ غزوہ عمرۃ القضاء، ذو‌الحجہ سنہ 7 ہجری۔[56]
25۔ غزوہ فتح مکہ ـ رمضان سنہ 8 ہجری۔[57]۔[58]
26۔ غزوہ حنین ـ شوّال سنہ 8 ہجری۔[59]۔[60]
27۔ غزوہ طائف ـ شوّال سنہ 8 ہجری۔[61]۔[62]
28۔ غزوہ تبوک ـ رجب سنہ 9 ہجری۔[63]۔[64]

جنگ موتہ

اس کے باوجود کہ پیغمبر خداؐ جنگ موتہ میں شریک نہیں ہوئے لیکن اس جنگ کو غزوہ کا نام دیا گیا ہے۔[65]

رسول اللہؐ نے لڑائی میں حصہ لیا

ابن اسحق نے اپنی کتاب سیرۃ النبیؐ میں اور طبرسی نے اپنی کتاب اعلام الوری میں لکھا ہے کہ رسول اللہؐ کو بدر کے غزوات، احد، بنی قریظہ، بنی مصطلق، خیبر، خندق، حنین اور طائف میں دشمن کے ساتھ لڑنا پڑا؛ تاہم مسعودی نے مصطلق کے بجائے تبوک کا تذکرہ کیا ہے۔[66]۔[67]

مزید معلومات کے لئے

  • تاریخ پیامبر اسلامؐ، محمد ابراہیم آیتی
  • کتاب سیرت رسول خداؐ، رسول جعفریان

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ج15، ص123۔
  2. لغت نامہ دہخدا، ذیل لفظ "غزوہ"۔
  3. ابن اسحاق، سیرۃ النبی، ج2، ص223۔
  4. مقریزی، امتاع الاسماع، ص53۔
  5. ابن اسحاق، سیرۃ النبی، ج4، ص280- 281۔
  6. مسعودی، مروج الذہب، ج2، ص287- 288۔
  7. حسنی، تاریخ تحلیلی صدر اسلام، ص93-94۔
  8. ابن خلدون، العبر، ج‏1، ص408۔
  9. مجلسی، بحار الانوار، ج19، ص187۔
  10. ابن ہشام، السیرة النبویۃ ج‏1، ص598۔
  11. بیہقی، دلائل النبوۃ، ج‏3، ص11۔
  12. طبرسی، إعلام الوری، ج‏1، ص164۔
  13. طبرسی، إعلام الوری، ج‏1، ص164۔
  14. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏1، ص599۔
  15. بیہقی، دلائل النبوۃ، ج‏5، ص469۔
  16. اندلسی‏، جوامع السیرۃ النبویۃ، ص78۔
  17. خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ، ص20۔
  18. واقدی، المغازی، ج‏1، ص12۔
  19. ابن سید الناس‏، عیون الأثر، ج1، ص263۔
  20. امین عاملی، اعیان الشیعۃ، ج‏1، ص246۔
  21. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏1، ص240۔
  22. بیہقی، دلائل النبوۃ، ج‏3، ص163۔
  23. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏2، ص43 – 44۔
  24. طبرسی، إعلام الوری، ج‏1، ص175۔
  25. واقدی، المغازی،ج‏1، ص176۔
  26. ابن اسحاق، سیرۃ النبی، ج4، ص280- 281۔
  27. مسعودی، مروج الذہب، ج2، ص288۔
  28. بیہقی، دلائل النبوۃ، ج‏3، ص164۔
  29. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏2، ص44۔
  30. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏2، ص46۔
  31. ابن حبیب، المحبر، ص112۔
  32. ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج2، ص24۔
  33. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏2، ص60۔
  34. بیہقی، دلائل النبوۃ، ج‏3، ص177۔
  35. اندلسی‏، جوامع السیرۃ النبویۃ، ص140۔
  36. واقدی، المغازی،ج‏1، ص334۔
  37. ابن سید الناس‏، عیون الأثر، ج‏2، ص70۔
  38. واقدی، المغازی،ج‏1، ص363۔
  39. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏2، ص203۔
  40. سہیلی، الروض الأنف، ج‏6، ص221 – 222۔
  41. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏2، ص209۔
  42. امین عاملی، أعیان الشیعۃ، ج‏1، ص261۔
  43. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏2، ص213۔
  44. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏2، ص214۔
  45. اندلسی‏، جوامع السیرۃ النبویۃ، ص147۔
  46. حموی، أنیس المؤمنین‏، ص21۔
  47. واقدی، المغازی،ج‏2، ص496۔
  48. بلاذری، أنساب الاشراف، ج‏1، ص347۔
  49. بیہقی، دلائل النبوۃ، ج‏3، ص364۔
  50. بلاذری، أنساب الاشراف، ج‏1، ص349۔
  51. واقدی، المغازی،ج‏2، ص537۔
  52. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏2، ص289۔
  53. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏2، ص308۔
  54. امین عاملی، أعیان الشیعۃ، ج‏1، ص268۔
  55. بیہقی، دلائل النبوۃ، ج‏4، ص197۔
  56. ابن‌ہشام، السيرۃالنبويہ، ابن‌ہشام، ج3، ص827 مطبعۃ المدني القاہرۃ 1383 ہ‍ - 1963 م۔
  57. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏2، ص389۔
  58. سہیلی، الروض الأنف، ج‏7، ص49۔
  59. بیہقی، دلائل النبوۃ، ج‏5، ص156۔
  60. واقدی، المغازی،ج‏3، ص892۔
  61. طبرسی، إعلام الوری، ج‏1، ص233۔
  62. بیہقی، دلائل النبوۃ، ج‏5، ص156۔
  63. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج‏2، ص515۔
  64. بیہقی، دلائل النبوۃ، ج‏5، ص469۔
  65. جعفریان، سیرہ رسول خداؐ، ص464۔
  66. طبرسی، اعلام الوری، ج1، صص168-200۔
  67. مسعودی، مروج الذہب، ج2، صص280 اور بعد کے صفحات۔



مآخذ

  • ابن اسحاق، سیرۃ النبی، چاپ مصطفی الحلبی، 1355 ہجری قمری.
  • ابن حبیب، محمد، المحبر، بہ کوشش ایلزہ لیشتن اشتتر، حیدرآباد دکن، 1361 ہجری قمری /1942عیسوی۔
  • ابن حزم اندلسی‏، جوامع السیرۃ النبویۃ، ص76، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، بی‌تا۔
  • ابن خلدون‏، تاریخ ابن خلدون‏، آیتی، عبد المحمد، العبر: تاریخ ابن خلدون، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ اول، 1363 ہجری شمسی۔
  • ابن سعد، محمد، کتاب الطبقات الکبیر، بہ کوشش ادوارد زاخاو، لیدن، 1321- 1325 ہجری قمری۔
  • ابن سید الناس‏، عیون الأثر، دار القلم‏، بیروت، چاپ اول، 1414 ہجری قمری۔
  • ابن ہشام، عبد الملک، السیرۃ النبویۃ، تحقیق: السقا، مصطفی، الأبیاری، ابراہیم، شلبی، عبد الحفیظ، دار المعرفۃ، بیروت، چاپ اول، بی‌تا۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ناشر، دار صادر، بیروت، چاپ سوم، 1414 ہجری قمری۔
  • امین عاملی‏، سید محسن، اعیان الشیعۃ، دار التعارف للمطبوعات‏، بیروت، 1403 ہجری قمری۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الاشراف، دار الفکر، بیروت، چاپ اول، 1417 ہجری قمری۔
  • بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین، دلائل النبوۃ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، تحقیق: قلعجی، عبد المعطی، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، چاپ اول، 1405 ہجری قمری۔
  • جعفریان رسول؛ سیرت رسول خداؐ، قم، انتشارات دلیل ما، 1383ہجری شمسی۔
  • حسنی، علی اکبر، تاریخ تحلیلی صدر اسلام، تہران، انتشارات پیام نور۔
  • حموی، محمد بن اسحاق‏، أنیس المؤمنین‏، بنیاد بعثت‏، تہران، 1363 ہجری شمسی۔
  • سہیلی، عبد الرحمن، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ، دار احیاء التراث العربی، بیروت، چاپ اول، 1412 ہجری قمری۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری بأعلام الہدی، مؤسسہ آل البیت(ع)، قم، چاپ اول، 1417 ہجری قمری۔
  • دہ‏خدا، علی اکبر، لغت نامہ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، مؤسسۃ الوفاء، بیروت، 1404 ہجری قمری۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، بیروت، دار الکتب العلمیہ۔
  • یاقوت حموی، شہاب الدین ابو عبد اللہ، معجم البلدان، دار صادر، بیروت، چاپ دوم، 1995عیسوی۔
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، مؤسسۃ الأعلمی، بیروت، چاپ سوم، 1409 ہجری قمری۔