مندرجات کا رخ کریں

امر بالمعروف و نہی عن المنکر

ویکی شیعہ سے
(نہی عن المنکر سے رجوع مکرر)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مطلب ہے لوگوں کو پسندیدہ کام کی طرف ترغیب دینا اور برے اور گناہ کے کام سے روکنا۔ اسے مہمترین دینی واجبات میں شمار کیا گیا ہے اور قرآن و روایات میں اس کی انجام دہی پر زور دیا گیا ہے۔ شیعہ فقہا کے نزدیک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب کفائی ہیں؛ یعنی اگر کچھ لوگ اس ذمہ داری کو ادا کریں تو باقی سب سے یہ وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ شیعہ امامیہ کے عقیدے کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فروع دین میں شامل ہیں؛ لیکن معتزلہ اور زیدیہ جیسے اسلامی فرقوں کے نزدیک یہ ان کے پانچ اصولِ عقائد میں شمار ہوتے ہیں۔

فقہا کے مطابق چار شرائط کی موجودگی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہوتا ہے: امر و نہی کرنے والا شریعت کے مطابق نیکی اور برائی کو پہچانتا ہو؛ یہ امکان ہو کہ اس کی بات یا عمل دوسرے پر اثر ڈالے گا؛ جانتا ہو کہ برائی کرنے والا دوبارہ اس کو دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے؛ اس عمل سے خود یا دوسرے مؤمنین کی جان، مال یا عزت و آبرو کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔

نیز فقہا نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تین مرحلے بیان کیے ہیں: انکارِ قلبی اور برائی پر غیر کلامی انداز میں ناراضگی کا اظہار کرنا؛ یہ مرحلہ کارآمد نہ ہونےکی صورت میں زبان سے سمجھانا اور روکنا؛ اگر زبانی مرحلہ بھی اثر نہ کرے تو عملی قدم اٹھانا؛ البتہ عملی اقدامات صرف امام یا نائب امام کی اجازت سے جائز ہیں۔

اہمیت

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو مہم ترین واجبات میں شمار کیا گیا ہے[1] اور ائمہ معصومینؑ کی روایات میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔[2] فقہی کتابوں میں اس پر بحث کرنےکے لیے الگ ابواب مرتب کیے گئے ہیں۔[3] مثلاً کتاب اللمعۃ الدمشقیۃ کی "کتاب الجہاد" میں اس کے لیے ایک مستقل باب متعین کیا گیا ہے۔[4] الکافی جیسی کتب احادیث کے مجموعہ جات میں بھی اس کے لیے مستقل ابواب موجود ہیں۔[5] شیعہ فقیہ حر عاملی نے اپنے حدیثی اور فقہی مجموعے وسائل‌ الشّیعہ میں باقاعدہ ایک حصہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مختص کیا ہے اور 41 عناوین کے تحت اس کے احکام، شرائط اور ضوابط پر روایات جمع کی ہیں۔[6] علم کلام میں اسے "قاعدہ لطف" کے مصادیق میں سے شمار کیا گیا ہے[7] اور اس پر بحث ہوئی ہے کہ آیا یہ واجب عقلی ہے یا واجب شرعی۔[8]

قرآن میں کئی مقامات پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر آیا ہے۔[9] بعض آیات میں اسے امتِ محمدیؐ کی خاص ذمہ داری قرار دیا گیا ہے اور اسے ایمان، نماز اور زکات جیسے بنیادی عقائد و اعمال کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔[10] امام علیؑ سے روایت ہے کہ تمام نیکیاں اور حتیٰ کہ راہ خدا میں جہاد بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے سمندر کے سامنے آب دہان۔[11] امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ تمام واجبات امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے قائم رہتے ہیں؛ اس سے راستوں میں امن قائم ہوتا ہے، کاروبار حلال ہوتے ہیں، لوگوں کے حقوق ادا ہوتے ہیں، زمینیں آباد ہوتی ہیں اور دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے۔[12]

آئین جمہوری اسلامی ایران کے آرٹیکل 8 میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایک اجتماعی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔[13] اسی مقصد کے لیے ایران میں "ستاد امر بالمعروف و نہی از منکر" کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے جو اس دینی حکم کی ترویج کے لیے کام کرتا ہے۔[14]

فقہی تعریف

«امر بالمعروف» کا مطلب ہے لوگوں کو کسی پسندیدہ اور شرعی طور پر جائز عمل پر آمادہ کرنا اور «نہی عن المنکر» کا مطلب ہے لوگوں کو کسی برے اور گناہ والے عمل سے روکنا۔[15] یہ "امر" یا ترغیب دلانا یا "نہی" اور روکنا صرف زبانی نہیں بلکہ غیر زبانی بھی ہوسکتا ہے اور عملی اقدام کے ذریعے بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔[16]

شیعہ مرجع تقلید سید علی حسینی سیستانی کے مطابق معروف سے مراد وہ نیک عمل ہے جس کی خوبی کو عقل بھی سمجھتی ہے یا جس کے نیک ہونے کی طرف شارع نے رہنمائی کی ہو۔ اسی طرح منکر وہ برا اور ناپسندیدہ عمل ہے جس کی برائی کو عقل بھی درک کرتی ہے یا جس کے برے ہونے سے شارع نے آگاہ کیا ہو۔[17]

محقق حلی اور علامہ حلی جیسے فقہاء نے اس تعریف میں ایک اور شرط شامل کی ہے؛ معروف وہ نیک عمل ہے جو نہ صرف بذات خود نیک ہو بلکہ اس کو انجام دینے والا بھی اسے نیکی کے طور پر پہچانتا ہو؛ اور منکر وہ برا عمل ہے جو نہ صرف بذات خود برا ہو بلکہ اس کا مرتکب بھی اسے برائی کے طور پر جانتا ہو۔[18]

حکم فقہی

محمد حسن نجفی المعروف صاحب‌ جواہر

اثر کے اعتبار سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سب سے بڑے، اعلیٰ اور مضبوط ترین مراتب میں سے؛ خصوصاً دینی رہنماؤں کے درمیان، یہ ہے کہ وہ خود نیکیوں کا لباس زیب تن کریں خواہ وہ واجب ہوں یا مستحب، اور برائیوں کا لباس اُتار پھینکیں خواہ وہ حرام ہوں یا مکروہ۔ نیز اپنے آپ کو نیک اخلاق سے آراستہ کریں اور برے اخلاق سے پاک کریں۔ ایسا کرنے سے لوگ نیکیوں کی طرف راغب اور محرمات سے دور رہتے ہیں، خاص طور پر جب یہ عمل پند و نصیحت اور تنبیہات کے ساتھ مکمل کیا جائے؛ کیونکہ ہر مقام کا اپنا مخصوص کلام اور ہر مرض کی اپنی مخصوص دوا ہوتی ہے اور روحوں اور عقلوں کا علاج، بدنوں کے علاج سے کہیں زیادہ بلند مقام رکھتا ہے۔

شیعہ فقہا کی رائے کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے۔[20] بعض نے اس کے وجوب کو ضروریاتِ دین میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی شخص علم و آگاہی کے ساتھ اس کے وجوب کا انکار کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔[21] اسی طرح فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی معروف (نیکی) مستحب ہو اور منکر (برائی) مکروہ ہو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا بھی مستحب ہے۔[22]

واجب کفائی یا عینی؟

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب کفائی ہے یا واجب عینی، اس سلسلے میں فقہا کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[23] اکثر فقہا اسے واجبِ کفائی قرار دیتے ہیں، یعنی اگر کچھ لوگ اسے انجام دیں تو باقی سب سے یہ وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔[24] شہید ثانی کے مطابق شریعت کا مقصد یہ ہے کہ معروف انجام پائے اور منکر ترک ہو۔ لہٰذا یہ ذمہ داری کسی ایک فرد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ سب مکلفین پر ہے اور اگر ایک گروہ اس پر عمل کرے تو باقی سب سے یہ ذمہ ساقط ہو جاتا ہے۔[25]

البتہ بعض شیعہ فقہا جیسے شیخ طوسی نے کتاب النہایۃ میں[26]، ابن حمزہ نے الوسیلۃ میں[27] اور محقق کرکی[28] نے اسے واجبِ عینی شمار کیا ہے۔

واجب عقلی یا واجب شرعی؟

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے واجب شرعی ہے یا واجبِ عقلی ہونے کے بارے میں بھی شیعہ علما کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔[29] زیادہ تر شیعہ فقہا اور متکلمین اسے واجبِ شرعی سمجھتے ہیں اور اس کے لیے قرآن کی آیات، ائمہ معصومینؑ کی متواتر روایات اور اجماع کو دلیل قرار دیتے ہیں۔[30]

جبکہ بعض نے اسے واجبِ عقلی قرار دیتے ہوئے اپنے مدعا پر اس طرح دلائل پیش کیے ہیں:

  • قاعدہ لطف کے مطابق: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چونکہ بندے کو اطاعت کے قریب کرتا ہے، لہٰذا یہ لطف ہے اور عقل کے مطابق لطف اللہ پر واجب ہے۔ پس خدا کی طرف سے اس عمل کے لیے وجوب کا حکم دینا بھی واجب ہے۔[31]
  • ضرر کے اصول کے مطابق: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنے سے دنیاوی اور اخروی ضرر کا احتمال ہے اور عقل کے مطابق احتمالی ضرر کو دور کرنا واجب ہے۔ لہٰذا اس کے ترک سے پیدا ہونے والے ضرر کو دور کرنا بھی واجب ہے۔[32]

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط

فقہا کے فتؤوں کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کچھ شرائط ہیں اور انہی کے پائے جانے پر ہی یہ واجب ہوتا ہے:[33]

  • امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کرنے والا شخص، شریعتِ اسلام کی نظر میں معروف اور منکر کے بارے میں آگاہی رکھتا ہو؛
  • یہ احتمال ہو کہ اس کا کہنا یا روکنا دوسرے شخص پر اثر ڈالے گا؛
  • وہ جانتا ہو کہ جس شخص سے منکر صادر ہوا ہے وہ اس عمل کو دوبارہ دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگر معلوم ہو کہ وہ شخص اس منکر سے تائب ہوچکا ہے اور دوبارہ کرنے پر مُصِر نہیں ہے تو اس پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں؛
  • امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے اسے یا دیگر مؤمنین کی جان، مال یا آبرو کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر نقصان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔[34]

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراتب

فقہا کے نزدیک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تدریجی مراحل پر مشتمل ہے اور ان مراتب کو ترتیب کے ساتھ بجا لانا ضروری ہے:[35]

دل سے انکار

دل سے انکار کرنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پہلا درجہ ہے۔[36] اس کا مطلب یہ ہے کہ امر کرنے والا یا نہی کرنے والا منکر کے بارے میں اپنے دل سے ناراضگی اور نفرت کا اظہار کرے۔ جیسے چہرہ بگاڑنے کے ذریعے، نظریں پھیر لینا، تیور چڑھانا، منہ موڑ لینا، تعلق ختم کرنا یا میل جول کم کر دینا وغیرہ۔[37]

قولی امر و نہی

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دوسرا درجہ قولی امر و نہی ہے۔[38] یعنی اگر پہلا درجہ اثر نہ کرے تو زبان سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا واجب ہے؛[39] اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے نرمی اور نصیحت کے ساتھ بات کی جائے۔ اگر اسی سے مقصد حاصل ہوسکتا ہو تو اسی پر اکتفا کیا جائے، اس سے آگے بڑھنا جائز نہیں۔[40]

عملی اقدامات اور زور کا استعمال

عملی طور قدم اٹھانا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تیسرا درجہ ہے۔[41] جب پہلے دو مرحلے اثر نہ کریں تو یہ تیسرا درجہ واجب ہوتا ہے، لیکن اسے بھی بتدریج اختیار کرنا چاہیے؛ پہلے ہلکے اقدامات، پھر سخت اقدامات۔[42]

عملی اقدام سے مراد ایسے اقدامات ہیں جیسے ڈانٹنا، سختی کرنا، محدود کرنا، یا قید کرنا وغیرہ۔ لیکن یہ اس حد تک نہیں ہونا چاہیے کہ جسم کا کوئی عضو ٹوٹ جائے، زخمی ہو یا ایسا نقصان پہنچے جو دیہ یا قصاص کا موجب بنے۔[43]

زخمی اور قتل کرنا، امام یا نائب امام کی اجازت کے بغیر جائز نہیں

مشہور شیعہ فقہا کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کسی کو زخمی کرنا یا قتل کرنا جائز نہیں، مگر یہ کہ امام یا ان کے نائب کی اجازت حاصل ہو۔[44] بعض فقہا کے نزدیک زمان غیبت میں امامؑ کا نائب جامع الشرائط فقیہ ہے۔[45]

تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ صاحب جواہر کا کہنا ہے کہ اگر تمام مکلفین کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں زخمی کرنا یا قتل کرنا امام یا نائب امام کی اجازت کے بغیر جائز قرار دیا جائے تو یہ فساد، ہرج و مرج اور بے نظمی پیدا کرے گا، جن سے دینِ اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔[46]

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ارشادِ جاہل میں فرق

ارشاد جاہل وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی شخص کسی حکم یا موضوع یا دونوں سے جاہل ہو۔ جبکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص جان بوجھ کر حکم شرعی کی خلاف ورزی کرے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص نہیں جانتا کہ شراب پینا حرام ہے، یا یہ جانتا ہے کہ شراب نوشی حرام ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ یہ مائع شراب ہے، تو ایسے شخص کو آگاہ کرنا اور روکنا ارشادِ جاہل کہلاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ بھی جانتا ہے کہ شراب حرام ہے اور یہ بھی کہ اس کے سامنے مائع شراب ہے، پھر بھی وہ اسے پینے لگے تو اس کو روکنا نہی عن المنکر کہلائے گا۔[47]

دیگر اسلامی فرقوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم

معتزلہ کے نزدیک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس فرقے کے پانچ اصولوں میں سے ایک ہے۔[48] وہ سمجھتے ہیں کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ کافر اور فاسق دونوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے۔[49] کہا جاتا ہے کہ زیدیہ کا بھی عقیدہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ان کے اصولِ اعتقادی میں سے پانچواں اصل ہے؛[50] زیدیہ کے پہلے پیشوا، زید بن علی، نے اپنے قیام کی بنیاد اسی پر رکھی تھی۔[51] شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کے نزدیک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فروع دین میں سے ہیں۔[52]

مونوگرافی

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے موضوع پر متعدد مستقل کتابیں تحریر کی گئی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: کتاب "امر بالمعروف و نہی عن المنکر"؛ تألیف حسین نوری ہمدانی۔ یہ مباحث انہوں نے حوزہ علمیہ قم کے طلاب کو درس میں بیان کیے، پھر انہیں مرتب کرکے کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا۔ اصل کتاب عربی میں ہے اور محمد محمدی اشتہاردی نے اسے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔[53] کتاب "امر بالمعروف و نہی عن المنکر در اندیشہ اسلامی"؛ اس کتاب کا مولف انگلستان کے مؤرخ اور اسلام شناس مائیکل ایلن کُوک (Michael Allen Cook) ہے۔ اس کتاب میں اسلامی مختلف فرقوں کے نظریات کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ احمد نمائی نے اسے انگریزی سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے اور یہ کتاب دو جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔[54]

حوالہ جات

  1. نوری ہمدانی، امر بہ معروف و نہی از منکر، 1377شمسی، ص21۔
  2. ملاحظہ کیجیے: حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1416ھ، ج16، ص119۔
  3. ملاحظہ کیجیے: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص310؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج2، ص409؛ خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص439۔
  4. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ق، ج2، ص409۔
  5. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص55-60۔
  6. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1416ھ، ج16، ص115-281۔
  7. ملاحظہ کیجیے: فاضل مقداد، إرشاد الطالبین إلى نہج المسترشدین، 1405ھ، ص380۔
  8. ملاحظہ کیجیے: علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص578۔
  9. ملاحظہ کیجیے: سورہ آل عمران، آیات 104 و 110؛ سورہ حج، آیہ 41۔
  10. ملاحظہ کیجیے: سورہ آل عمران، آیات 104 و 110؛ سورہ حج، آیہ 41۔
  11. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، حکمت 374، ص542۔
  12. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1416ھ، ج16، ص119۔
  13. قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران، اصل ہشتم۔
  14. «دربارہ ما»، وبگاہ ستاد امر بہ معروف و نہی از منکر۔
  15. علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص578؛ سجادی، فرہنگ معارف اسلامی، ج1، ص297-298۔
  16. فاضل مقداد، إرشاد الطالبین إلى نہج المسترشدین، ص380۔
  17. حسینی سیستانی، «معنای معروف و منکر»، سایت رسمی دفتر مرجع عالیقدر آقای سیدعلی حسینی سیستانی۔
  18. ملاحظہ کیجیے: محقق حلی، شرایع الاسلام، ج1، ص310؛ علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص437۔
  19. نجفی، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، 1404ھ، ج21، ص382-383۔
  20. ملاحظہ کیجیے: شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج2، ص413؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج21، ص363؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص439۔
  21. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص439۔
  22. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج21، ص363-365؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص440۔
  23. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص442۔
  24. ملاحظہ کیجیے: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص310؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج3، ص101؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج2، ص413؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص439۔
  25. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج3، ص101۔
  26. شیخ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص299۔
  27. ابن‌حمزہ، الوسیلۃ، ص207۔
  28. محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج3، ص485۔
  29. علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص578؛ علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص441۔
  30. شیخ طوسی، الاقتصاد، ص146؛ حلی، کتاب السرائر، 1410ھ، ج2، ص21-22۔
  31. فاضل مقداد، إرشاد الطالبین إلی نہج المسترشدین، 1405ھ، ص380۔
  32. شیخ طوسی، الاقتصاد، 1400ھ، ص147۔
  33. ملاحظہ کیجیے: علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص442-443۔
  34. حلی، السرائر، ج2، ص23؛ تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص443؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج2، ص414-415؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج3، ص486؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص442-448۔
  35. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص453؛ نوری ہمدانی، امر بہ معروف و نہی از منکر، 1377شمسی، ص281۔
  36. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص443؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج2، ص416؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج21، ص374۔
  37. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص453۔
  38. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص444؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج2، ص416؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج21، ص374؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص454۔
  39. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص444۔
  40. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص444؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص454۔
  41. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص443؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج2، ص416؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج21، ص374؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص456۔
  42. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص443؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج2، ص416؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج21، ص374؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص456۔
  43. حسینی سیستانی، «مراتب امر بہ معروف و نہی از منکر»، سایت رسمی دفتر مرجع عالقدر آقای سیدعلی حسینی سیستانی۔
  44. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج3، ص105؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج21، ص383۔
  45. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج3، ص105؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص458۔
  46. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج21، ص383۔
  47. خوئی، موسوعۃ الامام الخوئی، مؤسسۃ الامام الخوئی، ج4، ص343۔
  48. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، ص417-418۔
  49. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، ص417-418۔
  50. آقاجانی قناد، «درآمدی بر بررسی تطبیقی امر بہ معروف و نہی از منکر از دیدگاہ معتزلہ و دیگر فرق اسلامی (1)»، ص38۔
  51. آقاجانی قناد، «درآمدی بر بررسی تطبیقی امر بہ معروف و نہی از منکر از دیدگاہ معتزلہ و دیگر فرق اسلامی (1)»، ص42۔
  52. مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج26، ص257۔
  53. نوری ہمدانی، امر بہ معروف و نہی از منکر، 1377شمسی، ص24۔
  54. کوک، امر بہ معروف و نہی از منکر در اندیشہ اسلامی، 1384شمسی، ج1، ص10-13۔

مآخذ

  • ابن‌حمزہ طوسی، محمد بن علی، الوسیلۃ إلی نیل الفضیلۃ‌، محقق و مصحح، محمد حسون‌، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1408ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، تحریر الوسیلہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، بی‌تا۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، تصحیح سید محمدرضا حسینی جلالی، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1416ھ۔
  • حسینی سیستانی، سیدعلی، «مراتب امر بہ معروف و نہی از منکر»، سایت رسمی دفتر مرجع عالقدر آقای سیدعلی حسینی سیستانی، تاریخ بازدید: 20 فروردین 1404ہجری شمسی۔
  • حسینی سیستانی، سیدعلی، «معنای معروف و منکر»، سایت رسمی دفتر مرجع عالیقدر آقای سیدعلی حسینی سیستانی، تاریخ بازدید: 20 فروردین 1404ہجری شمسی۔
  • حلی، ابن ادریس، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • خوئی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الامام الخوئی، قم، مؤسسۃ الامام الخوئی، بی‌تا۔
  • «دربارہ ما»، وبگاہ ستاد امر بہ معروف و نہی از منکر، تاریخ بازدید: 6 اردیبہشت 1404ہجری شمسی۔
  • سجادی، سیدجعفر، فرہنگ معارف اسلامی، تہران، نشر کومش، 1373ہجری شمسی۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تعلیقہ و تصحیح سیدمحمد کلانتر، قم، انتشارات داوری، 1410ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الافہام، قم، بنیاد معارف اسلامی، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد الہادی الی طریق الرشاد، تہران، انتشارات نجاح، 1400ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ، بیروت، دار الکتاب العربی، 1400ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، 1414ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1437ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، إرشاد الطالبین إلى نہج المسترشدین، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آيت اللہ العظمی مرعشی نجفی، 1405ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
  • کوک، مایکل آلن، امر بہ معروف و نہی از منکر در اندیشہ اسلامی، ترجمہ احمد نمایی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1384ہجری شمسی۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، قم، انتشارات اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار احیاء تراث العربی، 1404ھ۔
  • نوری ہمدانی، حسین، امر بہ معروف و نہی از منکر، ترجمہ محمد محمدی اشتہاردی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1377ہجری شمسی۔
  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، مرکز البحوث الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔