کلام اسلامی اسلامی علوم کی ایک شاخ ہے جس میں دینی عقائد کے بارے میں بحث کی جاتی ہے اور ان کا دفاع کیا جاتا ہے۔ نیز اس علم میں شرعی احکام کی علل و اسباب، دینی تعلیمات کے مجموعے اور افعال الہی کے بارے میں پیش کردہ سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں۔ اس علم کا ماہر یعنی متکلم، کلامی مسائل کے اثبات اور مخاطب کو کافی و شافی جواب دینے کے لئے منطق کی مختلف روشوں جیسے قیاس، تمثیل و جدل کو بروئے کار لاتا ہے۔ اس علم کو علم اصول دین، علم اصول عقائد اور فقہ اکبرکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

اس علم کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ صدر اسلام سے ہی اس کا آغاز ہوگیا تھا اور اس کا پہلا مسئلہ جبر و اختیار تھا۔ صفات خداوند، خاص طور پر توحید و عدل الہی، مسئلہ حسن و قبحِ افعال، قضا و قدر، نبوت، معاد اور امامت علم کلام کے اہم ترین مباحث میں سے ہیں۔

علم کلام کے مباحث میں اختلاف رائے کے بموجب دین اسلام میں متعدد کلامی فرقے ظہور پذیر ہوئے۔ شیعوں کے اہم ترین کلامی فرقے امامیہ، زیدیہ، اسماعیلیہ، کیسانیہ کہلاتے ہیں جبکہ اہل سنت کے اہم ترین کلامی فرقے مرجئہ، اہل حدیث، اشاعرہ، ماتُریدیہ اور وہابیت ہیں۔ شیخ مفید (متوفیٰ:413ھ)، خواجہ نصیر الدین طوسی(متوفیٰ: 672ھ) اور علامہ حلی(متوفیٰ:726ھ) مذہب امامیہ کے سرخیل متکلمین میں شمار ہوتے ہیں اور قاضی عبد الجبار معتزلی، ابوالحسن اشعری، ابو حامد غزالی اور فخر رازی اہل سنت کے مشہور متکلمین میں سے ہیں۔کتاب‌ تصحیح الاعتقاد، تجرید الاعتقاد اور کشف المراد شیعہ کلامی کتب شمار ہوتی ہیں اور "شرح الاصول الخمسہ"، "شرح المقاصد" اور "شرح المواقف" اہل سنت کے کلامی آثار میں سے ہیں۔

کلام جدید ایسا علم ہے جس میں علم کلام (قدیم) سے ہم آہنگ یا اس سے مختلف ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ علم کلام جدید کے کچھ مباحث یہ ہیں: تعریف علم کلام جدید، منشا و منبع کلام جدید، دین کی زبان اور اس کا قلمرو، بشریت کے لئے دین کی ضرورت، عقل و دین، عقل و ایمان، علم (سائنس) اور دین اور مذہبی تجربہ اور مذہبی تکثیریت(Religious pluralism)۔

تعریف و نام

علم کلام اسلامی علوم کا وہ حصہ ہے جس میں اسلامی عقائد [یادداشت 1]کے بارے میں بحث ہوتی ہے؛[1] اس طرح سے کہ اس میں ان عقائد کی وضاحت کی جاتی ہے اور ان کا دفاع کیا جاتا ہے۔[2] بعض محققین کیے مطابق یہ علم کلام کی بہترین تعریف ہے؛ کیونکہ اس میں علم کلام کا موضوع، ہدف اور روش سب کا احاطہ کیا ہوا ہے، اس تعریف میں نہ صرف کلامی کا دفاعی پہلو بلکہ اس کے اثباتی پہلو کو بھی مد نظررکھا گیا ہے۔[3] البتہ اس کی دوسری تعریفیں بھی بیان ہوئی ہیں، جن میں سے ہر ایک میں اس کی خصوصیت کو بیان کیا گیا ہے۔[4] مثال کے طور کسی نے علم کلام کی تعریف یوں کی ہے: علم کلام ایک نظری علم ہے جس کی مدد سے دینی عقائد کو استدلال کے ساتھ اثبات کیا جا سکتا ہے۔[5] یا ایسا علم ہے جس میں ذات و صفات و افعال خداوند سے بحث ہوتی ہے۔[6] زمخشری نے علم کلام کو فقہ اکبر کے نام سے یاد کیا ہے۔[7] فیض کاشانی نے اپنی کتاب "مفاتیح الشرایع" میں علم کلام سیکھنے کو قلبی اطاعت گزاری کے لحاظ سے مستھب عمل ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اہل بدعت کو جواب دینا میسر ہوتا ہے۔[8]

  • نام اور وجہ تسمیہ

اس علم کا سب سے مشہور نام "کلام" ہے اور اس علم میں مہارت رکھمنے والے کو متکلم کہتے ہیں۔[9] اس علم کو کیوں "کلام" کہتے ہیں اس کے بارے میں مختلف علتیں پائی جاتی ہیں۔[یادداشت 2] ان میں سے بہترین[10] تعریف یہ ہے کہ علم کلام انسان کے اندر مناظرہ و جدل کی طاقت کو تقویت پہنچاتا ہے اور مناظرہ تو تکلم و گفتگو ہی کا نام ہے۔[11] ماضی میں علم کلام کو دوسرے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا تھا جیسے: علم اصول دین، علم اصول عقائد، فقہ اکبر، علم توحید، علم الذات و الصفات۔[12]

موضوع، اہداف اور روشیں

  • موضوع

متکلمین علم کلام کے موضوع کے بارے میں اتفاق نظر نہیں رکھتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس علم کا کوئی متعین موضوع نہیں ہے۔[13] البتہ جو اس کے لئے موضوع کے قائل ہیں ان میں سے ہر ایک نے اس کے لئے ایک موضوع ذکر کیا ہے۔ ان میں سے اہم ترین یہ ہیں: [14] موجود بما ھو موجود علم کلام کا موضوع ہے،[15] معلومات خاص (وہ معارف جن سے عقائد دینی کے اثبات کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے۔)،[16] وجود خداوند، وجود ممکنات، ذات و صفات خداوند،[17] دینی عقائد،[18] اسی طرح سے کہا گیا ہے کہ طول تاریخ میں علم کلام کا تکامل و ارتقاء سبب بنا ہے کہ مختلف ادوار میں اس کے موضوعات مختلف ہوں۔[19]

  • اہداف و فوائد

مسلمان علماء و مفکرین نے علم کلام کے چند اہداف ذکر کیے ہیں؛ ان میں بعض یہ ہیں:

  1. اسلامی عقائد کا استخراج و استنباط (تحقیقی دینی معرفت)،[20]
  2. اسلامی اعتقادات کے مفاہیم و مسائل کی توضیح و تشریح،[21]
  3. عقائد کے نظریات کو منظم طور پر پیش کرنا،[22]
  4. اعتقادات و تعالیم دینی کا اثبات،[23]
  5. شبہات و اعتراضات کے مقابلہ میں دینی عقائد کا دفاع۔[24]
  • روش

علم کلام اپنے اہداف، نقطہ نظرات، مسائل و مخاطبین کے مطابق استدلال میں مختلف روشوں سے استفادہ کرتا ہے۔[25] کہتے ہیں کہ یہ علم شناخت عقائد دینی اور اس کے اثبات کے لئے ایسی روش کا محتاج ہے جو یقین آور ہو؛ جیسے روش قیاس (قیاس منطقی مد نظر ہے) البتہ یہ اپنے دوسرے اہداف کے لئے جن میں دینی عقائد کا دفاع شامل ہے، ان یقین آور روشوں کے علاوہ دوسری روشوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جیسے تمثیل، خطابہ، جدل وغیرہ کی روشیں اور روش عقلی و نقلی، تجربیاتی و تاریخی۔[26]

تاریخچہ، عوامل پیدائش اور توسیع

علم کلام کے تاریخچہ کے بارے میں ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ علم کلام اور عقائد جو کہ اعلیٰ ترین علوم میں سے ہیں، امام علیؑ کے کلام سے اخذ کیے گیے ہے۔[27] محقق اربلی نے یہ بھی صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے رہنماؤں؛ یعنی اشاعرہ، معتزلہ، شیعہ اور خوارج سب علم کلام کے آغاز کو امام علیؑ سے منسوب کرتے ہیں۔[28]

مشہور نظریہ یہ ہے[29] کہ اسلامی فتوحات اور حکومت اسلامی کے قلمرو میں پھیلاؤ کے بعد مسلمانوں کا دوسرے ادیان و مذاہب کے افراد کے ساتھ آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا جس سے دوسرے ادیان و مذاہب کے آرا و نظریات وسیع سطح سطح پر پھیل گئے۔ لہذا مسلمانوں نے اپنے عقائد و نظریات کے دفاع اور اعتقادی اعتراضات و شہبات کے جواب کے لئے علم کلام کے مباحث اور روشوں کو رونق بخشی اور یہی چیزعلم کلام کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔[30]

کچھ دیگر نظریات کے مطابق، علم کلام کی تاریخ کو واضح کرنے کے لئے ہمیں ابتدائی طور پر علم کلام سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت کرنا پڑے گی۔[31] اگر علم کلام سے مراد دینی عقائد کے سلسلہ میں گفتگو کرنا ہو تو اس کی تاریخ ظہور اسلام سے ملتی ہے۔ اس لئے کہ یہ مباحث قرآن و احادیث، پیغمبر خدا(ص) کی بت پرستوں اور اہل کتاب کے ساتھ والی گفتگو، توحید، نبوت اور معاد کے سلسلے ملتے ہیں۔[32]

لیکن اگر اس سے مراد مسلمانوں کے درمیان پیش آنے والے کلامی مباحث اور دینی و کلامی فرقوں کی پیدائش ہو تو اس کی تاریخ کی ابتداء رحلت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد ہوتی ہے۔ اس زمانہ کے اہم ترین اختلاف کے موضوعات امامت و خلافت، قضا و قدر، صفات خداوند اور حکمیت جیسے مسائل و مباحث ہیں جن کے نتیجہ میں قدریہ، مشبہہ، خوارج اوردیگر فرقے وجود میں آئے۔[33] اگر علم کلام سے مراد ان مذاہب و فرق اسلامی کا وجود میں آنا ہے جنہوں نے علم کلام میں کسی معین روش اور اصول و قواعد بنائے ہیں تو ان کی تاریخ کی دوسری صدی ہجری سے ملتی ہے۔[34]

ظہور و ارتقاء کے اسباب و عوامل

علم کلام کی پیدائش اور مسلمانوں کے درمیان اس کے ارتقاء کے مختلف اسباب و عوامل بیان ہوئے ہیں:

  1. قرآنی و روائی تعلیمات اورلوگوں کی ضرورت: علم کلام کی پیدائش کا سب سے پہلا سبب قرآنی اور روائی تعلیمات اور لوگوں کے ان کے درک و فہم کی ضرورت ہے۔[35] قرآن کریم نے عقیدتی امور پر خاص توجہ مبذول کی ہے اور ان پر ایمان رکھنے کو لازمی امر قرار دیا ہے۔[36] اسی بناء پر علماء نے ان تعلیمات کو سمجھنے کے لئے علم کلام کی بنیاد رکھی۔[37] [یادداشت 3]
  2. سیاسی تنازعات اور اختلافات: بعض سیاسی و سماجی اختلافات بھی علم کلام کی رونق بخشی کا سبب بنے اور بتدریج علم کلام وجود میں آیا۔ مثلا رحلت پیغمبر(ص) کے بعد امامت و خلافت کے مسئلہ میں بحث، ایمان و ارتکاب گناہ کبیرہ کا مسئلہ اور حکمیت جسے موضوعات کو خوارج نے پیش کیا یا مثلاً مسئلہ جبر و اختیار کو بنی امیہ نے اپنی حکومت کی حقانیت کے لئے پیش کیا۔[38]
  1. مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین روابط: جس وقت مسلمانوں اور غیر مسلموں جیسے ایرانیوں، رومیوں، مصریوں کے مابین روابط قائم ہوئے؛اسلامی عقائد

کے دوسرے مذاہب کے ساتھ اختلافات آشکار ہوئے اور ان میں تعارض کا آغاز ہوگیا۔ مسلمانوں نے اسلام کے بنیادی عقائد کے دفاع میں علم کلام کی بحثوں کو شروع کیا اور انہیں رونق بخشی۔ اس طرح سے کلامی بحثیں وسیع سطح پرعام ہونے لگیں۔[39]

  1. دوسرے مذاہب کے ساتھ روابط: اسلامی ریاستوں میں وسعت کے بعد دیگر ادیان و مذاہب کے لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اسلامی عقیدتی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے اسلام مخالف امور کو ترک کردیا لیکن بعض چیزوں جن کے بارے میں ابتداء میں اسلامی نقطہ نظر واضح نہیں تھا، کے بارے میں قرآنی و اسلامی نقطہ نگاہ سے تفسیریں پیش کی گئیں؛[یادداشت 4] لہذا مسلمان علماء نے کوشش کی کہ علم کلام کے مباحث کی مدد سے اسلامی نقطہ نظر کو واضح کریں اور دیگر ادیان کے عقائد کو اسلامی عقائد کا حصہ بننے سے روکا جائے۔[40]
  1. تحریک ترجمہ: کلام اسلامی کے بعض مسائل کا ظہور، انہیں تخصصی اور منظم انداز میں پیش کرنا، تحریک ترجمہ کے دوران پیش آیا۔ اس تحریک کا آغاز دوسری صدی ہجری کے دوسرے نصف (سنہ 150 ھ) میں ہوا اور اس کا سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا۔[41]

تغیر و تبدیلی کے مراحل

اسلامی کلام مختلف مراحل میں تحول و تغیر کا شکار رہا ہے۔ تاریخ علم کلام کے محقق محمد تقی سبحانی نے مذکورہ تغیر و تبدل کے چار مراحل ذکر کئے ہیں اور وہ لکھتے ہیں اس عمومی مرحلہ بندی میں اسلامی مذاہب کے مابین اختلاف بھی پایا جاتا رہا ہے: 1: اصالت و استقلال کا مرحلہ 2: مقابلہ اور روابط کا مرحلہ 3: مخلوط اور تبدیلی کا مرحلہ 4: احیاء اور تجدید کا مرحلہ۔[42] یہ تقسیم بندی علم کلام کے دیگر علوم خاص طور پر فلسفہ کے ساتھ رابطے کے نتیجے میں انجام پائی۔[43]

محمد تقی سبحانی کے بقول: پہلا مرحلہ صدر اسلام کی پانچ صدیوں پر مشتمل ہے اور خود اس مراحل میں مزید تین مراحل شامل ہیں: الف) پیدائش اور ساخت، ب) کلام نظری کی پیدائش، ج) جامع کلامی کتب کی تدوین۔[44] دوسرے مرحلے میں (مقابلہ اور روابط کا مرحلہ) متکلمین نے کھلے ذہن کے ساتھ فلسفیانہ مفاہیم اور روشوں کو کلامی مباحث میں داخل کرنا شروع کیا اورعلم کلام کی تجدید نوکرتے ہوئے اس میں نئے مفاہیم شامل کیے۔ دوسری طرف انہوں نے سختی کے ساتھ فلسفی نظریات کے مقابلہ میں علم کلام کے عقائد کے دفاع میں اقدامات کیے۔ یہ مرحلہ پانچویں صدی ہجری سے نویں صدی ہجری تک جاری رہا۔[45]

تیسرے مرحلے میں (یعنی مخلوط اور تبدیلی کے مرحلے میں) علم کلامِ اہل سنت شدید زوال کا شکار ہوگیا جبکہ علم کلام شیعہ مکمل طور پر فلسفہ کے زیر سایہ آیا۔[46] چوتھے مرحلے (احیاء و تجدید نو کا مرحلہ) کا آغاز بارہویں صدی ہجری سے ہوا۔ اس مرحلہ میں بعض علماء نے کلام جدید کی تاسیس کی ضرورت کے بارے میں گفتگو کی اور علم کلام کی توسیع کے سلسلہ میں سعی کی۔ اس ضمن میں جدید سوالوں کے جوابات دینے کی کوششیں کی گئیں۔ اس جدید سلسلہ کے تعارف میں "معتزلی جدید"، "اشعری جدید" اور "سلفی جدید" جیسی اصطلاحات کا استعمال کیا گیا۔ عالم تشیع میں علم کلام میں ملا صدرا کے افکار و نظریات کو زندہ کرنے کے ساتھ، جسے فلسفہ نو صدرائی سے بھی یاد کیا جاتا ہے، مکتب کلامی متاخرین کا احیاء ہوا جس میں علامہ حلی جیسے فقہاء اور کوفہ اور قم کے فکری مکاتب کا احیاء شامل ہے، جسے غالباً "مکتب تفکیک" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔[47]

علم کلام کا قلمرو اور اس کے اہم ترین مباحث

علم کلام کے مسائل اصول دین یا اصول عقائد میں منحصر نہیں ہیں۔ بلکہ متکلم کا فریضہ ہے کہ وہ مجموعہ احکام و تعالیم دینی کے بارے میں پیش آنے والے تمام سوالوں کا جواب فراہم کرے۔ لہذا علم کلام کا فریضہ ہے کہ وہ اصول دین کا بھی دفاع کرے اور فروع دین کا بھی۔[48] مثلا فلسفہ حجاب کے بارے میں ہونے والے سوالات کے جوابات یا یہ کہ کیوں قرآن تدریجی طور پر نازل ہوا ہے؟ یا اعجاز قرآن یا فصاحت قرآن پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینا علم کلام کی ذمہ داری ہے۔ البتہ حکم حجاب کا تعین کرنا فقیہ کی ذمے داری اور تعیین مراد و معانی آیات حجاب علم تفسیر کے دائرہ کار میں آتی ہے۔[49]

کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان پہلا کلامی مسئلہ جبر و اختیار کا مسئلہ تھا۔[50] علم کلام کے دیگر اہم مباحث یہ ہیں: بحث صفات خداوند مخصوصا توحید و عدل الہی، مسئلہ حسن و قبح افعال، قضا و قدر، مسئلہ نبوت، معاد، تکالیف الہی و معجزہ وغیرہ۔[51]

شیعہ اثنا عشری علم کلام میں مذکورہ بالا مباحث کے علاوہ دلائل اثبات وجود خدا، عصمت انبیاء و ائمہؑ، اثبات معاد جسمانی، شفاعت، تقیہ، رجعت اور بداء کے سلسلہ میں بھی بحث ہوتی ہے۔[52]

علم کلام اور فلسفہ میں فرق اور تعلق

اگرچہ ان دونوں علوم میں عقلی مسائل پر بحث ہوتی ہے لیکن ان کے مابین کچھ اہم اختلافات بھی ہیں۔ اس بارے میں بہت سی باتیں کہی گئی ہیں لیکن آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر خدا اور دنیا جس کا ہم بھی حصہ ہیں، کے بارے میں آزادانہ طور پر بحث کی جائے اور اس میں کوئی دینی ہونے یا نہ ہونے کی شرط نہیں رکھی جائے جس کا نتیجہ لازمی طور پر یہ نکلے کہ یہ بحثیں کسی دین یا مذہب سے متفق ہو یا نہ تو اس نوعیت کی بحث کو فلسفیانہ بحث کہتے ہیں۔ لیکن اگر مفکر اس بات کا پابند ہو اور مذہب کو مخالفین سے محفوظ رکھے اور استدلال میں دین کی حرمت کو نہ چھوڑے تو اس طرح کی بحث و تحقیق کلامی بحثیں شمار ہونگی۔[53] بعض مفکرین کا خیال ہے کہ کلامی مباحث کی ترقی اور وسعت کے ساتھ، کلام میں بہت سے فلسفیانہ مسائل شامل ہوئے، جیسے جواہر، اعراض اور ترکیب جسم از اجزاء کی بحث وغیرہ؛ اس کے نتیجے میں بہت سے مسائل جو کہ فلسفہ کے دائرے میں تھے وہ بھی علم کلام کے دائرے میں داخل ہوئے اور یہ اس حد تک شامل ہو گئے کہ اگر کوئی علم کلام کی کتابوں کا مطالعہ کرے- خاص کر علم کلام کی وہ کتابیں جو ساتویں صدی ہجری کے بعد لکھی گئیں- تو اسے معلوم ہوگا کہ زیادہ تر اسلامی کلامی مسائل وہی ہیں جو فلسفیوں نے - خاص طور پر اسلامی فلسفیوں نے اپنی کتابوں میں بیان کیے ہیں۔[54] دوسرے بعض مفکرین کا خیال ہے کہ فلسفہ اور علم کلام کے درمیان بنیادی فرق ان کے اصولوں اور مبانی کے لحاظ سے ہے۔ بعبارت دیگر "فلسفہ" کے مسائل عقلی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اصول اور مبانی بھی عقلی ہیں، لیکن اگر علم کلام میں اگرچہ مسائل عقلی ہوں، اس کے اصول اور مبانی وحی سے ماخوذ ہیں اور اس کا مقصد وحی کے مسائل اور عقیدتی اصول ثابت کرنا ہے؛ یعنی یہ وحی اور اس کی فرعی چیزوں کو مسلّمہ مانتا ہے اور انہیں ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن فلسفہ، اس کی اپنی تعریف کے مطابق، اپنے اصولوں اور مبانی کو عقل سے لیتا ہے اور کسی ایسی چیز کو فرض نہیں کرتا جس میں عقلی لحاظ سے مسلمہ نہ ہو۔ البتہ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ فلسفی معتقد نہ ہے۔ فلسفہ اور کلام میں بنیادی فرق دراصل یہ ہے کہ کلام میں وحی کا التزام ہوتا ہے جبکہ فلسفہ میں اسی کا عدم التزام ہے۔ لیکن اس التزام کے معنی اعتقاد نہیں ہے۔[55]

کلامی فرق و مذاہب

کلامی فرقوں سے مراد وہ فرقے ہیں جن کی پیدائش کا سبب خاص اعتقادی و کلامی آرا و نظریات تھے۔[56] سب سے پہلا عقیدتی اختلاف[57] اور مسلمانوں کے درمیان اہم ترین اور بنیادی اختلاف جانشینی پیغمبر اکرم (ص) کا مسئلہ تھا۔[58] یہ اختلاف دو اہم اسلامی مذاہب شیعہ و سنی کے وجود میں آنے کا سبب بنا۔[59]

شیعہ کلامی فرقے

اہم ترین شیعہ فرقے یہ ہیں: امامیہ، زیدیہ، اسماعیلیہ اور کیسانیہ۔[60] غالیوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ چونکہ یہ لوگ امام علیؑ کی الوہیت کے قائل تھے لہذا انہیں اسلام سے خارج سمجھا جانا چاہیے۔ [61] لہذا وہ اسلامی فرقوں میں شامل ہی نہیں۔

  • امامیه

امامیہ یا شیعہ اثنا عشری اصطلاح میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ امام علی پیغمبر اکرم (ص) کے بلا فصل جانشین ہیں اور ان کے بعد ان کے فرزند امام حسن (ع) و امام حسین (ع) اور ان کے بعد امام حسین کی نسل سے ان کے نو فرزند امام ہیں۔[62] کہتے ہیں کہ شیعہ اصطلاح رسول خدا (ص) کے زمانہ میں ہی رائج تھی۔ لیکن بنی امیہ دور کے میں شیعوں پر گھٹن ماحول حاکم ہونے کی وجہ سے وہ ایک منظم گروہ اور ایک خاص کلامی مکتب کی شکل میں موجود نہیں تھے۔ لیکن امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے دور میں باقاعدہ طور شیعہ کے عنوان سے ظہور پذیر ہوئے۔ ان دونوں اماموں کو موقع میسر آیا تو انہوں نے شیعہ معارف و امامیہ علم کلام کی بنیاد رکھی اور اس زمانہ (دوسری صدی ہجری) میں برجستہ شیعہ متکلمین ہشام بن حکم، ہشام بن سالم و مؤمن طاق جیسے شاگردوں کی تربیت کی۔[63]

امامیہ علم کلام کے توصیف میں آیا ہے کہ کلام امامیہ نہ اصحاب حدیث و حنبلیوں کی عقل گریزی کے موافق ہے نہ ہی وہ معتزلہ کی افراطی عقلیت پسندی کی حمایت کرتا ہے اور اسی طرح سے نہ وہ اشاعرہ کی طرح فکری جمود کا شکار ہے اور اس کی طرف سے استخراج عقائد میں عقل کے کردار کی نفی کا حامی ہے۔ امامیہ تعلیمات کے منابع و مآخذ قرآن کریم، سنت پیغمبر (ص) و ائمہ اور عقل ہیں۔ پانچ اصول توحید، عدل، نبوت، امامت اور قیامت، امامیہ کے اصول عقائد میں سے ہیں۔[64]

  • زیدیہ

زیدیہ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو امام حسین (ع) کے بعد امام علی بن الحسین (ع) کے فرزند زید بن علی کی امامت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔[65] ان کے عقائد کے مطابق آنحضرت (ص) نے فقط ابتدائی تین اماموں کی امامت کی تصریح فرمائی تھی اور ان کے بعد امام وہ ہے جس میں ظالم کے خلاف علی الاعلان جہاد کرنے اور مسلحانہ قیام جیسے شرائط پائے جاتے ہوں۔[66] زیدیہ کے بعض کلامی نظریات یہ ہیں: نظریہ توحید، اس معنی یہ ہیں کہ خداوند عالم سے تشبیہ کی نفی کی جائے، اصل وعد و وعید، اصل امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور یہ کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا نہ مومن ہے نہ کافر بلکہ وہ فاسق ہے۔[67]

  • اسماعیلیہ

اسماعیلیہ وہ فرقہ ہے جو شیعوں کے بارہ میں سے ابتدائی چھ اماموں کی امامت کا قائل ہے۔ ان کے مطابق امام جعفر صادق (ع) کے بعد ان کے بڑے فرزند اسماعیل یا ان کے بیٹے محمد امام ہیں۔[68] اس فرقہ کی اہم ترین خصوصیت باطنیت پسندی اور آیات و روایات و احکام اور معارف اسلامی کی تاویل ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ دینی متون و اسلامی معارف ظاہر و باطن رکھتے ہیں۔ امام ان کے باطن کو جانتا ہے اور فلسفہ امامت تعلیم باطن دین و بیان معارف باطنی ہے۔[69]

اہل سنت کے کلامی فرقے

مرجئہ، اصحاب حدیث، اشاعرہ، ماتریدیہ اور وہابیت اہل سنت کے کلامی فرقے ہیں۔[70] خوارج جو کہ واقعہ حکمیت کے بعد وجود میں آئے؛[71] ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گروہ اگرچہ ابتداء میں ایک سیاسی گروہ کے طور پر ابھرا تھا، لیکن آگے جا کر یہ ایک دوسرے مکاتب سے جداگانہ عقائد کے ساتھ کلامی فرقوں میں شامل ہوگیا۔ خوارج کا اہم ترین عقیدہ یہ ہے کہ مرتکب گناہ کبیرہ کافر ہے۔[72]

خوارج کے عقائد کے مقابلے میں دو فرقے مرجئہ و معتزلہ کے نام سے وجود میں آئے۔ مرجئہ کا عقیدہ تھا کہ عمل صالح یا گناہ کا ایمان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے؛ لیکن معتزلہ نے ایک درمیانی راستہ اختیار کرتے ہوئے[73] کہا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ مومن ہے نہ کافر بلکہ وہ ان دونوں کے مابین ایک درمیانی درجے پر قائم ہے۔[74] معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ ظاہری آنکھوں سے خداوند عالم کو دیکھنا غیر ممکن ہے۔ جبر و اختیار کی بحث میں معتزلہ انسان کے اختیار مطلق کے قائل ہیں۔[75]

اہل حدیث کا ماننا ہے کہ عقائد کو فقط ظاہر قرآن و حدیث سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس فرقہ کے ماننے والے علم کلام کے مخالف تھے چاہے وہ علم کلام عقلی ہو جس میں عقائد کے لئے عقل کو ایک مستقل دلیل مانتے ہیں یا چاہے علم کلام نقلی؛ جس میں عقل سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس گروہ کی مشہور ترین شخصیت احمد بن حنبل ہیں۔[76] اہل حدیث کے نزدیک خداوند قدوس کو ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔[77] جبر و اختیار کی بحث میں اہل حدیث انسان کے مجبور محض ہونے کے قائل ہیں۔[78]

اشاعرہ ابو الحسن علی اشعری (260-324 ھ) کے ماننے والوں کو کہا جاتا ہے۔[79] اشاعرہ متون دینی میں استعمال ہونے والی صفات خداوند کی تاویل کو قبول نہیں کرتے ہیں جیسے ید اللہ (اللہ کے ہاتھ) اوروجہ اللہ (اللہ کا چہرا) کا مطلب ہے اللہ کے ہاتھ اور چہرہ ہیں؛لیکن اس کی کیفیت کے بارے مٰں ہم نہیں جانتے۔[80] اشاعرہ اسی طرح سے جبر و اختیار کے مسئلہ میں نطریہ کسب کا قائل ہیں جو جبر و اختیار کا درمیانی راستہ ہے۔[81]

ماتریدیہ فرقہ کے بانی ابو منصور ماتریدی (متوفیٰ: 333ھ) ہیں۔ یہ بھی مذہب اشعری کی طرح ایک ایسی راہ کی فکر میں تھے جو اہل حدیث و معتزلہ کے درمیانی راستہ ہو۔ ماتردیہ عقل کو معتبر مانتے ہیں اور اصول عقائد کے کشف و دریافت کے لئے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ مذہب حسن و قبح افعال کو قبول کرتا ہے۔ انسان کے ارادہ کو کام کے انجام دینے میں دخیل مانتا ہے اور رویت خداوند کو ممکن مانتا ہے۔[82]

وہابیت کی بنیاد محمد بن عبد الوہاب (متوفی: 1206 ھ) کے ہاتھوں رکھی گئی۔ وہابی دیگر مسلمانوں کو عبادت میں شرک اور دین میں بدعت پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔[83] وہابی تعلیمات کے مطابق، اولیائے الہی سے توسل کرنا، ان سے شفاعت طلب کرنا، قبر پیغمبر(ص) و اہل بیتؑ کی زیارت کے قصد سے سفر کرنا، اولیائے الہی کے آثار کا تبرک کرنا اور ان سے شفا طلب کرنا، اولیائے الہی کی قبروں کی زیارت یا انہیں تعمیر کرنا، ان کی قبروں کے پاس مسجد تعمیر کرنا اور اہل قبور کے لئے نذر کرنا ۔۔۔ سارے کے سارے شرک ہیں۔[84]

علم کلام کی اہم کتابیں اور مشہور متکلمین

کتاب‌ اوائل المقالات، تصحیح الاعتقاد، تجرید الاعتقاد اور کشف المراد، اہم ترین شیعہ امامیہ کلامی کتابیں ہیں۔[85] شیخ مفید (336 یا 338-413 ھ)، خواجہ نصیر الدین طوسی (597-672 ھ) اور علامہ حلی (648-726 ھ) برجستہ امامیہ متکلمین ہیں۔[86]

بعض اہل سنت متکلمین، ان کی اہم کتابیں اور ان کے کلامی مذہب کو ذیل میں بیان کرتے ہیں:

  • معتزلہ: قاضی عبد الجبار، کتاب: شرح الاصول الخمسہ۔[87]
  • اشاعرہ: ابو الحسن اشعری، کتاب: مقالات‌ الاسلامیّین۔[88] قاضی ابوبکر باقِلانی، کتاب: تمہید الاَوائِل، ابو حامد غزالی، کتاب: الاقتصاد فی الاعتقاد، فخر الدین رازی، کتاب: المُحَصَّل الاَربعین فی اصول الدین، سعد الدین تفتازانی، کتاب: شرح‌ المقاصد۔
  • ماتُریدیہ: ابو منصور ماتُریدی، کتاب: التوحید۔
  • سلفیہ: ابن‌ تیمیہ، کتاب: مِنہاج السّنۃ النبویہ۔[89]

کلام جدید

کلام جدید کی ماہیت اور اس بارے میں کہ کیا وہ کلام قدیم (کلام اسلامی) سے مکمل طور الگ اور مختلف ہے یا نہیں؟، اس سلسلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض کا یہ ماننا ہے کہ کلام جدید وہی کلام قدیم ہے، اس فرق کے ساتھ کہ جدید شبہات و مسائل اس علم میں بیان ہوئے ہیں یا اس کے قالب اور موضوع میں ایک تبدیلی و انقلاب ایجاد کیا گیا ہے؛ البتہ بعض دیگر علماء ان دونوں علوم کو ایک دوسرے مکمل الگ مانتے ہیں[90] اور ایک خاص دینی التزام اور جانبدارانہ نظریات کو کلام قدیم کی خصوصیات میں شمار کرتے ہیں۔[91]

دوسری طرف کہا گیا ہے کہ جس چیز کو فارسی زبان میں کلام جدید کہا جاتا ہے غالباً وہی چیز ہے جسے مغربی ممالک میں فلسفہ دین کا نام دیتے ہیں۔[92] جو مباحث کلام جدید میں بیان ہوتے ہیں وہ اکثر اس طرح سے ہیں: تعریف دین، سرچشمہ دین، ضرورت دین، دائرہ دین، زبان دین، عقل و دین، عقل و ایمان، علم و دین، مذہبی تجربہ، مذہبی تکثیریت(Religious pluralism)۔[93]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مطہری، مجموعہ آثار، 1389شمسی، ج3، ص57۔
  2. مطہری، مجموعہ آثار، 1389شمسی، ج3، ص57۔
  3. ملاحظہ کیجیے: گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص61 تا 64؛ جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص39ـ40۔
  4. علم کلام کی دیگر تعاریف سے آگاہی کے لیے رجوع کیجیے: ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص61. کاشفی، کلام شیعہ، ص24۔
  5. ایجی، المواقف، عالم الکتب، ص7. با اندکی تفاوت: لاہیجی، شوارق الالہام، 1425ھ، ج1، ص51۔
  6. جرجانی، التعریفات، 1370شمسی، ص80۔
  7. زمخشری، کشاف٬ ج1، ص87۔
  8. فیض کاشانی، مفاتیح الشرایع، ج2، ص16۔
  9. ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص67۔
  10. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص38۔
  11. ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص73۔
  12. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص37، پانویس 2؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص67۔
  13. مطہری، مجموعہ آثار، 1389شمسی، ج3، ص63۔
  14. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص41۔
  15. علامہ حلی، نہایة المرام، مؤسسہ امام صادق(ع)، ج1، ص12؛ لاہیجی، شوارق الالہام، 1425ھ، ج1، ص3۔
  16. ملاحظہ کیجیے: تفتازانی، شرح‌ المقاصد، 1412ھ، ج1، ص173۔
  17. ملاحظہ کیجیے: تفتازانی، شرح ‌المقاصد، 1412ھ، ج1، ص180۔
  18. ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص31و32۔
  19. طبقات المتکلمین، مؤسسہ امام صادق (ع)، ج1، ص17۔
  20. لاہیجی، شوارق‌ الالہام، 1425ھ، ج1، ص؟۔
  21. ایجی، المواقف، عالم الکتب، ص8۔
  22. کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص37۔
  23. شوارق الالہام، 1425ھ، ج1، ص73ـ74۔
  24. لاہیجی، شوارق ‌الالہام، 1425ھ، ج1، ص73و74. فارابی، احصاء العلوم، ص76و77۔
  25. ملاحظہ کیجیے: کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص41 و 42؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص55۔
  26. جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص43و44۔
  27. ابن أبي الحديد، شرح نہج البلاغہ، 1383شمسی، ج1، ص17۔
  28. اربلی، كشف الغمّہ في معرفة الأئمة، 1381ھ، ج1، ص131۔
  29. ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص109۔
  30. شبلی، تاریخ علم کلام، 1386شمسی، ص8۔
  31. ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص109۔
  32. ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص109؛‌ ملاحظہ کیجیے: مطہری، مجموعہ آثار، ج3، ص59۔
  33. ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص109ـ110۔
  34. ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص110۔
  35. ملاحظہ کیجیے: کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص48۔
  36. مثل آیہ 136 و 162 سورہ نساء، آیہ 15 سورہ حجرات، آیہ 177 سورہ بقرہ، آیہ 111 سورہ مائدہ، آیہ 158 سورہ اعراف
  37. کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص48۔
  38. کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص49۔
  39. شبلی، تاریخ علم کلام، 1328شمسی، ص8۔
  40. کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص49و50۔
  41. کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص49 و50۔
  42. سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ ‌ہا و رویش‌ ہا»، ص10۔
  43. سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ ‌ہا و رویش‌ ہا»، ص10۔
  44. سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ ‌ہا و رویش‌ ہا»، ص12ـ18۔
  45. سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ‌ ہا و رویش‌ہا»، ص18ـ20۔
  46. سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ ہا و رویش‌ ہا»، ص20ـ21۔
  47. سبحانی، «کلام امامیہ ریشہہ ہا و رویش ‌ہا»، ص21ـ22۔
  48. ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، ص102؛ کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص40۔
  49. ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، ص102۔
  50. مطہری، مجموعہ آثار، 1389شمسی، ج3، ص60۔
  51. ملاحظہ کیجیے: فہرست کتاب‌ ہای کلامی. مزید: ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی، 1383شمسی، پیشگفتار؛ کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص57 و61۔
  52. ملاحظہ کیجیے: فہرست کتاب‌ ہای کلامی مثل علامہ حلی، کشف‌ المراد، 1413ھ؛ شیخ صدوق، الاعتقادات، کنگرہ شیخ مفید؛ بحرانی، قواعد ‌المرام، 1406ھ۔
  53. حلبی، تاريخ علم كلام در ايران و جہان، 1376شمسی، ص7
  54. مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، 1389شمسی، ج3، ص60-61۔
  55. .http://www.buali.ir/fa/article/394/
  56. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص9۔
  57. اشعری، مقالات الاسلامیین، بیروت، ص2۔
  58. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص16و17۔
  59. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص16ـ17۔
  60. صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388شمسی، ج2، ص32؛ برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص62۔
  61. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص62۔
  62. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383شمسی، ص197 و198؛ برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص65و66۔
  63. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص65و66۔
  64. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص81 و 82۔
  65. سلطانی، تاریخ و عقائد زیدیہ، نشر ادیان، ص17 و 18۔
  66. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص89۔
  67. صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388شمسی، ج2، ص81تا85۔
  68. شہرستانی، الملل و النحل، 1375شمسی، ج1، ص170و171۔
  69. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص95۔
  70. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص107ـ150۔
  71. شہرستانی، الملل و النحل، 1375شمسی، ج1، ص106۔
  72. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص17تا20۔
  73. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389ش، ص17ـ20۔
  74. تاریخ فلسفہ در اسلام، مرکز نشر دانشگاہی، ج1، ص284۔
  75. شہرستانی، الملل و النحل، 1375شمسی، ج1، ص49-50۔
  76. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص120تا123۔
  77. سبحانی، بحوثٌ فی الملل و النحل، ج1، ص226۔
  78. سبحانی، بحوثٌ فی الملل و النحل، ج1، ص220-221۔
  79. شہرستانی، الملل و النحل، 1375شمسی، ج1، ص86۔
  80. شہرستانی، الملل و النحل، 1375شمسی، ج1، ص91-92۔
  81. شہرستانی، الملل و النحل، 1375شمسی، ج1، ص88-89۔
  82. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص136تا141۔
  83. ربانی گلپایگانی، فرق و مذاہب کلامی، 1377شمسی، ص175و176۔
  84. برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص146تا147۔
  85. کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص52۔
  86. کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص52
  87. ضمیری، کتاب شناسی تفصیلی مذاہب اسلامی، 1382شمسی، ص284-285
  88. ضمیری، کتاب شناسی تفصیلی مذاہب اسلامی، 1382شمسی، ص284۔
  89. حسینیان، «فهرستی از مهم‌ترین منابع دست‌اول کلامی».
  90. ملاحظہ کیجیے: خسرو پناہ، مسائل جدید کلامی و فلسفہ دین، 1388شمسی، ص23 تا 30؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص143۔
  91. یوسفیان، کلام جدید، 1390شمسی، ص15و16۔
  92. یوسفیان، کلام جدید، 1390شمسی، ص18۔
  93. ربانی گلپایگانی، درآمدی بر کلام جدید، 1389شمسی، فہرست کتاب۔

نوٹ

  1. یعنی دینی تعلیمات و مسائل جن کی شناخت کرنے کے بعد ان پر دل سے ایمان لایا جائے، جیسے مسئلہ توحید، صفات ذات باری تعالی، نبوّت عامّہ و خاصّہ وغیرہ۔ (مجموعہ آثار، ج3، ص57)
  2. وہ دلائل جو علم کلام کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں بیان ہوئے ہیں: 1: مہم ترین یا سب سے پہلا مسئلہ جس کے بارے میں متکلمین نے بحث کی ہے وہ کلام الہی کے حادث و قدیم کے بارے میں ہے۔ 2: اس علم کے ابواب کا آغاز "الکلام فی کذا۔۔۔" سے ہوتا ہے۔ 3: علم کلام انسان میں مناظرہ، جدل و گفتگو کی طاقت کو تقویت پہنچاتا ہے اور مناظرہ تکلم اور گفتگو ہی کا دوسرا نام ہے۔ 4: دلائل کی مضبوطی، سخن اور گفتگو کی مضبوطی کا سبب ہے اور علم کلام میں مضبوط و محکم دلائل سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ 5: متکلمین نے اپنے علم کا نام کلام رکھا ہے تا کہ وہ فلاسفہ کے مقابلہ میں علم منطق سے بے نیازی کا اظہار کر سکیں۔ (جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص37ـ38) ان مذکورہ علل پر اعتراضات کئے گئے ہیں؛ منجملہ پہلی وجہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کلام الہی کے حدوث و قدم کی بحث سے پہلے بھی علم کلام اسی نام سے مشہور تھا۔ (رجوع کیجیے: ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص70)
  3. یہ بات قابل ذکر ہے کہ عصر پیغمبر خدا(ص) میں غیر مسلم بھی علم کلام سے متعلق سوالات کرتے تھے۔ اس سے کبھی ان کا قصد دین اسلام کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ہوتا تھا تو کبھی آنحضرت (ص) کا امتحان لینے کے لئے بھی ایسا کیا کرتے تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) کے بت پرستوں اور اہل کتاب کے ساتھ توحید، نبوت اور معاد جیسے موضوعات پر بحث و تمحیص ہوتی تھی جن کا ذکر قرآن مجید اور تاریخی کتابوں میں آیا ہے۔ (رجوع کیجیے: ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص110)
  4. مثلا یہودی خدا کی جسمانیت، خدا کی عصمت، امکان نسخ شریعت، یا جیسے عیسائی عینیت صفات و ذات خداوند، کلام الہی کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے یا زرتشتی خیر و شر جیسے مسائل میں کوشش کرتے تھے کہ اپنے دین اور اسلام دونوں کی مشترک تفسیر ان کے سامنے پیش کریں۔

مآخذ

  • اشعری، علی بن اسماعیل، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، تصحیح: ہلموت ریتر، بیروت، دارالنشر و فرانز شتاینر، [بی‌تا]۔
  • ایجی، عضدالدین عبدالرحمان بن احمد، المواقف فی علم الکلام، بیروت، عالم الکتب، [بی‌تا]۔
  • بحرانی، ابن میثم، قواعد المرام فی علم الکلام، تحقیق: علی حسینی اشکوری، قم، مکتبۃ آیت‌اللہ العظمی المرعشی النجفی، 1406ھ۔
  • برنجکار، رضا، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، قم، کتاب طہ، چ4، 1389ہجری شمسی۔
  • تاریخ فلسفہ در اسلام، بہ کوشش: میرمحمد شریف، ترجمہ فارسی: زیر نظر نصراللہ پورجوادی، تہران، مرکز نشر دانشگاہی، 1362ہجری شمسی۔
  • تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، تحقیق: عبدالرحمن عمیرہ، قم، الشریف الرضی، 1412ھ۔
  • جبرئیلی، محمدصفر، سیر تطور کلام شیعہ، دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیر طوسی، تہران، انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1396ہجری شمسی۔
  • حسینیان، «فہرستی از مہم‌ترین منابع دست‌اول کلامی»، وبگاہ ثقلین، تاریخ درج مطلب: 2 بہمن 1395، تاریخ بازدید: 13 دی 1399شمسی۔
  • خسروپناہ، عبدالحسین، مسائل جدید کلامی و فلسفہ دین، قم، انتشارات بین المللی المصطفی، چ1، 1388ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بر علم کلام، قم، دارالفکر، چ1، 1387ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، فرق و مذاہب کلامی، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، چ1، 1377ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، کلام تطبیقی (توحید، صفات و عدل الہی)، قم، انتشارات مرکز جہانی علوم اسلامی، چ1، 1383ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بر کلام جدید، قم، مرکز نشر ہاجر، چ5، 1389ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، بحوثٌ فی الملل و النحل، قم، مؤسسہ امام صادق، چاپ اول، 1427ھ۔
  • شبلی نعمانی، تاریخ علم کلام، ترجمہ سیدمحمدتقی فخر داعی، تہران، اساطیر، چ1، 1386ہجری شمسی۔
  • شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق محمد بن فتح‌اللہ بدران، قم، الشریف الرضی، 1375ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، علی بن محمد، الاعتقادات، تحقیق: علی میرشریفی و عصام عبدالسید، قم، کنگرہ شیخ مفید، [بی‌تا]۔
  • ضمیری، محمدرضا، کتابشناسی تفصیلی مذاہب اسلامی، قم، مؤسسہ آموزشی‌پژوہشی مذاہب اسلامی، چاپ اول، 1382ہجری شمسی۔
  • صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، تہران، انتشارات سمت، چ5، 1388ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، شیعہ در اسلام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1383ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تحقیق: حسن حسن‌زادہ آملی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1413ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہایۃ المرام، تحقیق: فاضل عرفان، اشراف: جعفر سبحانی تبریزی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، [بی‌تا]۔
  • فارابی، ابونصر محمد بن محمد، احصاء العلوم، تحقیق: علی بو ملحم، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، 1996ء۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن، مفاتیح الشرایع، بی نا، بی تا، بی تا۔
  • کاشفی، محمدرضا، کلام شیعہ، ماہیت، مختصات و منابع، قم، انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ، چ3، 1387ہجری شمسی۔
  • لاہیجی، عبدالرزاق، شوارق الالہام فی شرح تجرید الاعتقاد، اکبر اسد علیزادہ، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1425ھ (کتابخانہ دیجیتال نور)۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران ـ قم، انتشارات صدرا، چ15، 1389ہجری شمسی۔
  • معجم طبقات المتکلمین، اشراف: جعفر سبحانی، قم، اللجنۃ العلمیہ فی مؤسسۃ الامام الصادق(ع)، [بی‌تا]۔
  • یوسفیان، حسن، کلام جدید، تہران، انتشارات سمت، چ3، 1390ہجری شمسی۔
  • محدث اربلى، ‏كشف الغمۃ في معرفۃ الأئمۃ، تبريز، بنى ہاشمى، چ1، ‏1381ھ۔
  • ابن ابى الحديد، شرح نہج البلاغۃ، قم، ‏مكتبۃ آيۃ اللہ المرعشي،‏ 1383ہجری شمسی۔