ابو سفیان

ویکی شیعہ سے
(ابوسفیان سے رجوع مکرر)
ابو سفیان
کوائف
مکمل نامصَخر بن حَرب بن اُمَیَّہ بن عبد الشمس بن عبد مَناف
کنیتابو سفیان، ابو حنظلہ
محل زندگیمکہ، مدینہ
وفاتدور خلافت عثمان
دینی معلومات
اسلام لانافتح مکہ
جنگوں میں شرکتجنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق (مسلمانوں کے خلاف لڑیں)، جنگ یرموک، حنین
وجہ شہرتصحابی


ابو سفیان ظہور اسلام کے وقت کی ایک معروف شخصیت ہے۔ اس کا اصل نام صَخر بن حَرب بن اُمَیَّہ بن عبدالشمس بن عبد مَناف تھا۔ رسول اللہ کی دعوت اسلام کے آغاز میں وہ آپ کا نہایت سر سخت دشمن تھا۔ جنگ بدر، احد اور خندق میں مسلمانوں کے خلاف اس نے اہم کردار کیا۔ اس نے ہجرت کے آٹھویں سال اسلام قبول کیا۔ رسول اکرم کی طرف سے نجران کا والی مقرر ہوا۔ خلیفۂ اول و دوم کے ساتھ رہا اور خلافت عثمانی کی حمایت کی۔ اس کے بیٹے معاویہ کا پہلی صدی ہجری میں اہم سیاسی کردار رہا اور اس نے بنی امیہ کی حکومت کی بنیاد ڈالی۔

تعارف

صَخر بن حَرب بن اُمَیَّہ بن عبد الشمس بن عبدمَناف نام تھا۔ اَبو سُفیان اس کی معروف کنیت اور کبھی اسے ابو حنظلہ بھی کہا گیا [1] اس کا نسب تیسرے جد عبد مناف سے رسول اکرم سے مل جاتا ہے۔ پیدائش کی تاریخ دقیق معلوم نہیں لیکن ایک روایت کے مطابق عام الفیل (560 عیسوی) سے 10 سال پہلے پیدا ہوا۔[2]

اس کی والدہ کا نام صفیہ بنت حَز‍ن بن بُجَیر بن ہُزَم اور باپ کا نام حرب تھا۔ اس کا باپ اپنے زمانے میں بنی امیہ کا سربراہ اور فجار کی جنگوں میں سپہ سالار تھا۔[3]

سیاسی و سماجی شخصیت

صدر اسلام کی تاریخ میں ابو سفیان کے مشہور ہونے کے باوجود اسلام سے پہلے کی زندگی کے متعلق کوئی خاص معلومات مذکور نہیں ہیں۔ مؤرخین کے بعض اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسلام سے پہلے قریش کے بزرگوں میں سے تھا اور تجارت کے پیشے سے وابستہ تھا۔[4] ابن حبیب [5] اسے قریش کے حکام میں سے قرار دیتا ہے۔ وہ قریش کے اعلی مرتبہ سربراہوں میں سے تھا اور جاہلیت کے زمانے کے ان 4 سربراہوں میں سے ایک تھا جن کا حکم نافذ ہوتا تھا۔[6]

پیامبر(ص) کی دعوت اسلام کے ساتھ ہی ابو سفیان رسول کا سخت ترین جانی دشمن ہو گیا۔ اتنی سخت دشمنی کے باوجود اسے قریش کے دیگر سرداروں ابوجہل اور ابولہب سے کمتر دشمن سمجھتے تھے۔[7]

فتح مکہ کے بعد اگرچہ اس نے اسلام قبول کیا لیکن ردہ کے ماجرا میں اس کی نسبت ایسی گفتگو منسوب ہے جو اس کی پہلے مذہب سے وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔[8] ابن حبیب [9] نے اسے زنادقۂ قریش‌ میں سے کہا ہے۔

ابو سفیان نے رسول اکرم سے روایات بھی نقل کی ہیں۔[10]

پیغمبر کے روبرو

جنگ بدر

رسول اللہ کی مدینہ ہجرت کے دوسرے سال ابو سفیان شام سے تجارتی سفر سے واپس آ رہا تھا۔ پیغمبر نے اپنے سپاہیوں کی مدد سے حملہ کی تیاری کی تو دوسری جانب ابو سفیان نے ایک طرف مکہ سے مدد طلب کی اور اس نے اپنے راستے کو بدلا اور کاروان کو مکہ پہنچایا۔ ابو جہل رسول اکرم کی دھمکی سے بہت زیادہ غضبناک ہوا اس نے ارادہ کیا کہ وہ اہل یثرب سے مقابلہ کئے بغیر مکہ واپس نہیں جائے گا۔[11]

جنگ بَدر میں قریش شکست سے دوچار ہوئے اس معرکہ میں ابو سفیان کا بیٹا حنظلہ مارا گیا اور دوسرا بیٹا اسیر ہوا جو بعد آزاد ہو گیا۔[12]

کھجوروں کے باغات کو آگ لگانا

بدر کی شکست نے قریش کو اس طرح غضبناک کیا کہ انہوں نے دوبارہ رسول اللہ اور مسلمانوں سے جنگ کیلئے مدینے کا ارادہ کیا۔ پس ابو سفیان نے 200 سواروں کے ساتھ مدینہ کا قصد کیا اور بنی نضیر کے رئیس سلّام بن مِشْکم سے مذاکرات کے بعد افراد کو مدینہ روانہ کیا جنہوں نے عُریض‌ نامی جگہ پر کھجوروں کے باغات کو آگ لگا کر وہاں سے فرار ہو گئے۔ پیغمبر نے ابو سفیان کا پیچھا کیا لیکن اس تک رسائی حاصل نہ کر سکے اور آپ واپس مدینہ تشریف لے آئے۔[13]

جنگ احد

ہجرت کے تیسرے سال ابو سفیان نے بڑے لشکر کے ساتھ مسلمانوں سے انتقام کیلئے مدینہ کی طرف حرکت کی۔[14] مدینہ کے نزدیک احد کے نزدیک جنگ ہوئی، مسلمان شکست سے دوچار ہوئے اور رسول کے چچا حمزہ جیسے سردار شہید ہوئے۔ اس جنگ کے بعد ابو سفیان نے پہاڑ پر چڑھ کر بتوں کی تعریف کی اور رسول کو دوبارہ بدر میں جنگ کرنے کا وعدہ دیا۔ [15]

ایک سال بعد پیامبر(ص) بدر میں آئے لیکن ابو سفیان نے اپنے وعدے کے مقام پر پہنچنے سے پہلے قریش کو قائل کیا کہ وہ مکہ واپس چلے جائیں۔[16]

جنگ خندق

آئندہ سال ابو سفیان نے مدینہ کے یہودیوں سے مل کر خندق کو رسول اکرم کے خلاف ترتیب دیا۔[17]، لیکن رسول اللہ کی عقلمندی اور تدبیر کی بدولت ابو سفیان کی سپاہ اور اس کے اتحادی ناکام واپس لوٹ گئے اور یوں مدینہ نے رہائی حاصل کی۔[18]

جنگ خندق کے ایک سال بعد رسول اللہ اور مکہ کے مشرکین کے درمیان صلح حدیبیہ ہوئی۔ ابھی اس معاہدے کو دو سال نہیں گزرے تھے قریش مکہ نے اپنے عہد کو توڑ ڈالا۔ ابو سفیان خود ذاتی طور پر عذر خواہی کیلئے مدینہ گیا لیکن کسی نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور اس کا عذر نہیں سنا گیا۔[19]

اسلام ابوسفیان

مسلمانوں سے متعدد جنگیں کرنے کے بعد ابو سفیان آخرکار ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کے بعد عباس بن عبدالمطلب کی وساطت سے رسول اکرم کے پاس آیا اور اس نے اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا۔[20] رسول خدا نے اس کے گھر کو امن کی پناہ گاہ کا اعلان کیا۔ [21] اسکے بعد ابو سفیان اور اس کے اہل خانہ مسلمانوں میں شمار ہونے لگے۔[22] اسی سال غزوہ حنین کی سپہ سالاری اس کے حوالے کی گئی اور جنگ کے آخر میں رسول خدا نے ابو سفیان اور اس کی بیٹوں میں غنیمت کا مال زیادہ تقسیم کیا۔[23]

بعض اقوال کی بنا پر پیامبر (ص) نے ابو سفیان کو نجران کی امارت پر منصوب کیا [24] اگرچہ اس قول کے مخالف بھی موجود ہیں۔[25]

بعض مصادر کے بقول غزوہ طائف تھا کہ جس میں ابو سفیان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ [26] اس کے بعد آپ نے اسے طائف سے تحائف کی جمع آوری کیلئے روانہ کیا۔[27]

ابوسفیان اور تین خلافتیں

بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم کی رحلت کے وقت ابو سفیان والئ نجران تھا۔[28] اور اس وقت وہ مکہ آیا کچھ روز وہاں رہنے کے بعد مدینہ میں ساکن ہو گیا۔

خلافت ابوبکر

حضرت ابوبکر قریش کے پست قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے اسی وجہ سے وہ اس کے خلیفہ بننے پر زیادہ خوش نہیں تھا اور شاید وہ فتہ برپا کرنے کے در پے تھا۔[29]

اس کے باوجود 15 ہجری قمری میں اپنے بیٹے یزید کی سپہ سالاری میں جنگ یرموک میں شریک ہوا اور جنگ میں اسلامی لشکر کی ہمت بڑھاتا رہا۔[30]

کہتے ہیں کہ اس جنگ میں اس کی دوسری آنکھ بھی کام آگئی۔[31]

خلافت عمر

روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو سفیان اپنے بیٹے معاویہ کو خلافت عمر کی مخالفت سے ڈراتا تھا اور اس سے سفارش کرتا کہ اسے چاہئے کہ وہ اسکی پیروی کرے۔[32] ابو سفیان خلافت عمر بن خطاب کے دوران بعض ناپسندیدہ افعال کا مرتکب ہوا جس کی وجہ سے اس کی سرزنش کی گئی۔

خلافت عثمان

عثمان کے مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد ابو سفیان نے امویوں کے مجمع میں کہا: اب خلافت تمہاری گود میں آ گئی اور اسے اپنے درمیان ہی گھماؤ اسے اپنے ہاتھوں سے باہر نہ جانے دو۔[33]

وفات

اسکی تاریخ وفات بھی کوئی واضح نہیں ہے۔ واقدی[34] قتل عثمان سے 5 سال پہلے 30 ہجری میں کہتا ہے لیکن 31 سے 33 ہجری کے درمیان کے سال بھی اس کی وفات کے سال مذکور ہیں۔[35]

اولاد

ابو سفیان کے متعدد بیٹے تھے ان میں سے معاویہ وہ ہے جس نے پہلی صدی ہجری قمری میں سیاسی کردار ادا کیا اور اموی خلافت کی بنیاد ڈالی۔

اس کا ایک بیٹا یزید تھا کہ جسے حضرت ابوبکر نے سپہ سالار بنایا اور پھر حضرت عمر بن خطاب نے امارت اس کے سپرد کی۔ ایک اور بیٹا عتبہ تھا جس نے حضرت عائشہ کے ساتھ جمل میں شرکت کی اور معاویہ نے اسے مصر کی امارت دی۔[36]

ام حبیبہ کے نام سے اس کی ایک بیٹی نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور پھر مدینہ واپس آ کر رسول اللہ(ص) سے ازدواج کی۔[37]

ابوسفیان اور ذرائع ابلاغ عامہ

ایران اور دیگر ممالک کے سینما اور ٹیلی ویژن سیریلز میں ابو سفیان کے کردار کو پیش کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض فیلموں اور سیریلز کے اسماء یہ ہیں:

  • فیلم الرسالہ: پروڈیوسر مصطفی عقاد، مائیکل آنسارا (انگلش) اور حمدی غیث مصری اداکار نے ابو سفیان کا کردار کیا۔ [38]
  • پناہندہ و سیاہ سپید (ٹیلی ویژن فیلم) پروڈیوسر حجت الاسلام محمد تقی انصاری. حسن جوہرچی نے ابو سفیان کا کردار ادا کیا۔ [39]
  • فیلم محمد(ص): پروڈیوسر مجید مجیدی اس میں داریوش فرہنگ نے ابو سفیان کا کردار کیا۔[40]
  • امام علی (ٹیلی ویژن سیریل): پروڈیوسر داود میر باقری جس میں ابو سفیان کا کردار داریوش فروہر نے پیش کیا۔[41]

حوالہ جات

  1. واقدی، ج۲، ص۸۱۷؛ ابن اثیر، ج۳، ص۱۲
  2. بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۱۳
  3. ابوالفرج، ج۶، ص۳۴۱؛ ابن قدامہ، ص۲۰۲
  4. رک‍: بلاذری، فتوح، ص۱۲۹
  5. ص ۳۶۸
  6. عبدالبر، ج۲، ص۷۱۵
  7. بلاذری، انساب، ج۱، ص۱۲۴
  8. بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۱۳
  9. ص ۳۸۸
  10. مثلاً رک‍: بخاری، ج۱، ص۹۱، ج۲، ص۱۰۸؛ مزی، ج۴، ص۱۵۸ـ۱۵۹
  11. عروہ بن زبیر، ص۱۳۱ـ ۱۳۷
  12. ابن ہشام، ج۲، ص۳۰۵ـ۳۰۶؛ ابن قتیبہ، ص۳۴۴ـ۳۴۵
  13. ابن اسحاق، ص۳۱۰ـ۳۱۲؛ واقدی، ج۱، ص۱۸۱؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۳۱۰
  14. بلاذری، انساب، ج۱، ص۳۱۲
  15. ابن اسحاق، ص۳۳۳ـ۳۳۴؛ ابن ہشام، ج۳، ص۹۹ـ ۱۰۰؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۳۲۷
  16. ابن ہشام، ج۳، ص۲۲۰ـ۲۲۱
  17. ابن ہشام، ج۳، ص۲۲۵-۲۲۶
  18. بلاذری، انساب، ج۱، ص۳۴۳ـ۳۴۵
  19. ابن ہشام، ج۴، ص۳۷ـ۳۹
  20. واقدی، ج۲، ص۸۱۷ـ۸۱۸
  21. واقدی، ج۲، ص۸۱۷ـ۸۱۸؛ ابن ہشام، ج۴، ص۴۶
  22. کلبی، ص۴۹
  23. واقدی، ج۲، ص۹۴۴ـ۹۴۵؛ طبری، ج۱، ص۱۶۷۹
  24. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲، ج ۲، ص ۷۱۴.
  25. ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵،، ج ۳، ص ۳۳۳.
  26. بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۸
  27. ابن قتیبہ، الإمامہ و السياسہ، ص ۳۴۴؛ قس: بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۳۰
  28. کلبی، ص۴۹؛ بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۷، ۱۲
  29. بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۲۹، ۵۸۸؛ طبری، ج۱، ص۱۸۲۷
  30. بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۱۱؛ ابن اثیر، ج۳، ص۱۳
  31. طبری، ج۱، ص۲۱۰۱
  32. بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۹
  33. بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۱۲، قس: ج۴ (۱)، ص۱۳؛ ابوالفرج، ج۶، ص۳۵۶
  34. رک‍: بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۱۳
  35. رک‍: بلاذری، انساب، ج۴ (۱)، ص۱۳؛ طبری، ج۱، ص۲۸۷۱
  36. ابن قتیبہ، ص۳۴۴ـ۳۴۵
  37. ابن سعد، ج۸، ص۹۶
  38. (The Message (1977
  39. تولید تلہ فیلم «پناہندہ» در شبکہ سحر بہ پایان رسید
  40. آشنایی با مہمترین بازیگران فیلم محمد (ص) مجید مجیدی +عکس
  41. فرہنگ سریال‌ہای تلویزیونی ایران از آغاز تا امروز؛ ماہنامہ سینمایی «فیلم»، شمارہ ۲۴۵، ۱۵ آذر ۱۳۷۸.

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغاب‍ـہ، قاہرہ، ۱۲۸۰ ق.
  • ابن اسحاق، محمد، السیر، والمغازی، کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۳۹۸ق/۱۹۷۸ م.
  • ابن حبیب، محمد، المنمق فی اخبار قریش، کوشش خورشید احمد فارق، بیروت، ۱۴۰۵ق/ ۱۹۸۵ م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق: عبد الموجود، عادل احمد، معوض، علی محمد،‌ دار الکتب العلمیہ، بیروت، چاپ اول، ۱۴۱۵ق.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر.
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب، کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، ۱۳۸۰ق/ ۱۹۶۰ م.
  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، ۱۹۶۰ م.
  • ابن قدامہ مقدسی، عبداللہ بن احمد، التبیین فی انساب القرشیین، کوشش محمد نایف دلیمی، بیروت، ۱۴۰۸ق/ ۱۹۸۸ م.
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرہ النبوی‍ـہ، کوشش ابراہیم ابیاری و دیگران، قاہرہ، ۱۳۷۵ ق/۱۹۵۵ م.
  • ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، قاہرہ، دارالکتب المصری‍ـہ، بخاری، محمدبن اسماعیل، صحیح، بولاق، ۱۳۱۵ ق.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، کوشش محمد حمیداللہ، قاہرہ، ۱۹۵۹ م، ج۴، کوشش احسان عباس، بیروت، ۱۴۰۰ق/۱۹۷۹ م.
  • ہمو، فتوح البلدان، کوشش دخویہ، لیدن، ۱۸۶۶ م.
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیراعلام النبلاء، کوشش شعیب ارنؤوط، بیروت، ۱۴۰۵ق/ ۱۹۸۵ م.
  • طبری، تاریخ، کوشش دخویہ و دیگران، لیدن، ۱۹۶۴ م.
  • عروہ بن زبیر، مغازی رسول اللہ(ص)، کوشش محمد مصطفی اعظمی، ریاض، ۱۴۰۱ق/ ۱۹۸۱ م.
  • کلبی، ہشام بن محمد، جمہرہ النسب، کوشش ناجی حسن، بیروت، ۱۴۰۷ق/ ۱۹۸۶ م.
  • ماہنامہ سینمایی فیلم، شمارہ ۲۴۵، آذر ۱۳۷۸ش.
  • مزّی، یوسف بن عبدالرحمن، تحف‍ـہ الأشراف، بمبئی، ۱۳۹۶ق/ ۱۹۷۶ م.
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶ م.

بیرونی رابط