تابعین، ان مسلمانوں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے خود پیغمبر اکرمؐ کو تو نہیں دیکھا لیکن آپ کے کسی صحابی سے ملاقات یا مصاحبت کی ہو۔ یہ اصطلاح قرآنی آیات اور احادیث سے لی گئی ہے۔

تابعین کی دقیق تعداد کا یقینی علم نہیں ہے لیکن اسلام میں مختلف سیاسی اور سماجی واقعات نیز مختلف علوم و فنون من جملہ حدیث، تفسیر، فقہ، سیرہ نگاری اور تاریخ نگاری میں ان کا بڑا کرار رہا ہے۔

تابعین کے اطلاق میں اختلاف

تابعین عربی زبان کا ایک لفظ ہے جو تابع یا تابعی کا جمع ہے۔[1] اکثر علماء تابعی صدق آنے کیلئے پیغمبر اکرمؐ کے بعض اصحاب سے صرف ملاقات کرنے کو کافی سمجھتے ہیں۔[2]

لیکن خطیب بغدادی [3] اس بات کے معتقد ہیں کہ صرف ملاقات کافی نہیں بلکہ مصاحبت اور مجالست بھی ضروری ہے صحابہ کے برخلاف کہ صرف رسول اکرمؐ سے ملاقات کرنا ہی اس عنوان کے صدق آنے کیلئے کافی ہے۔

اسی طرح ابن حِبّان کا خیال ہے کہ تابعی کا عنوان صدق آنے کیلئے مذکورہ شخص کا ایک ایسی عمر میں ہونا ضروری ہے جس میں جس صحابہ سے ملاقات کی ہے اس سے احادیث یاد کر سکتا ہو۔ اسی بنا پر خَلَف بن خلیفہ کو تبع تابعی کہا جاتا ہے حالانکہ اس نے بچپنے میں عَمرو بن حُرَیث سے ملاقات کی تھی۔[4]

بعض علماء حدیث سننے کی ساتھ ساتھ صحابہ سے ملاقات کا دورانیہ زیادہ ہونا اور اچھے اور برے کی تمیز کرنے کی صلاحیت رکھنے کو بھی شرط قرار دیتے ہیں۔[5] لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو اس عنوان کے صدق آنے کیلئے صرف ملاقات ہی کافی ہے۔

ابن صلاح [6] صرف ملاقات کو کافی سمجھتے ہیں۔ ابن حَجَر [7] کا بھی یہی نظریہ ہے۔

بعض علماء نے متعدد ایسے تابعین کا ذکر کیا ہے جن کا کسی صحابی سے حدیث سننا ثابت نہیں ہے۔[8] جو لوگ اس عنوان کے صدق آنے میں صرف ملاقات کو کافی سمجھتے ہیں ان کے مطابق یہ شرط پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث سے سمجھ میں آتا ہے جس میں آپ نے فرمایا: "طوبی ' لِمَن رَآنی و آمن بی، و طوبی ' لمن رأی مَن رآنی‌ (ترجمہ: خوش نصیب ہے وہ شخص جس نے مجھ سے ملاقات کی اور مجھ پر ایمان لے آیا اسی طرح وہ شخص بھی خوش نصیب ہے جس نے ایک ایسے شخص سے ملاقات کی جس نے مجھ سے ملاقات تھی۔)[9]

اس اطلاح کا قرآن و حدیث سے مأخوذ ہونا

تابعین کی اصطلاح آیت مجیدہ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ... (ترجمہ: اور مہاجرین و انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خدا سے راضی ہیں)[؟–100]سے لیا گیا ہے۔ البتہ اس آیت میں الّذین اتَّبَعوهُم‌ تابعین کی اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوئی کیونکہ السابقون الاوّلون میں بعض صحابہ بھی شامل تھے۔ [10]

اسی طرح سورہ حشر کی آیت نمبر 10 وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (ترجمہ: اور جو لوگ ان کے بعد آئے اور ان کا کہنا یہ ہے کہ خدایا ہمیں معاف کردے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جنہوں نے ایمان میں ہم پر سبقت کی ہے اور ہمارے دلوں میں صاحبانِ ایمان کے لئے کسی طرح کا کینہ نہ قرار دینا کہ تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے)[؟–10]کی تفسیر میں "التابعون باحسان‌" اور "التابعین‌" کی تعبیر استعمال ہوئی ہے،[11] یہاں پر بھی مسلّماً یہ تعبیریں تابعین کے اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوئی ہے۔

ممکن ہے یہ اصطلاح رسول اکرمؐ کی کلام مبارک سے ماخوذ ہو جہاں پر آپؐ اویس قَرَنی کے بارے میں فرماتے ہیں: "اِنَّ خیرَ التابعینَ رَجلٌ یقالُ لَهُ اویس (ترجمہ: بہترین تابعی اویس نامی مرد ہے[12] اس کے بعد بتدریج تابعین ان تمام افراد کو کہا جانے لگا جنہوں نے رسول اکرمؐ کو دیکھے بغیر شرعی احکام اور مسائل کو آپ کے اصحاب سے اخذ کی ہیں۔

تعداد

تابعین کی تعداد بہت زیادہ اور قابل شمارش نہیں ہے کیونکہ رسول خداؐ کی رحلت کے وقت کم از کم ایک لاکھ چودہ ہزار صحابی[13] دنیا کے مختلف ممالک اور شہروں میں پھیلے ہوئے تھے اور تابعی صدق آنے کیلئے صرف کسی صحابہ سے ملاقات کرنا کافی سمجھا جاتا ہے۔ اس بنا پر تابعین کی تعداد کو دقیق مشخص کرنا آسان کام نہیں ہے۔[14] خاص طور پر اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ بعض صحابہ حتی پہلی صدی ہجری کی اواخر تک زندہ تھے[15] اور تابعین میں سے آخری شخص سنہ 180 ہجری قمری کو اس دنیا سے رحلت کر گیا ہے۔[16]

طبقات

ابن حبان کا نظریہ

ابن حبّان تمام تابعین کو کسی صحابہ سے ملاقات کرنے کی حیثیت سے ایک جیسا سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے ان کو ایک ہی گروہ اور طبقہ شمار کرتے ہیں۔[17]

مسلم اور ابن سعد کا نظریہ

مسلم تابعین کو تین جبکہ محمدبن سعد انہیں چار گروہ اور طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں۔[18]

البتہ ابن سعد نے تابعین کو ان کے شہر اور وطن کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اور طبقہ بندی میں بھی تقسیم کیا ہے اس بنا پر تابعین بصری، مدنی اور کوفی وغیرہ میں تقسیم ہوتے ہیں۔[19]

حاکم نیشابوری کا نظریہ

حاکم نیشابوری تابعین کو پندرہ(15) طبقوں میں تقیسم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق تابعین کا پہلا طبقہ ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ کے ان اصحاب کے ساتھ ملاقات کی ہیں جن کو آپؐ نے بہشت کی بشارت دی تھی۔ اس طبقے میں من جملہ سعید بن مُسَیب، قَیس بن ابی حازم، ابوعثمان نَہدی، قَیس بن عُباد و حُصَین بن مُنذر شامل ہیں۔[20]

اکثر محدثین نے حاکم نیشابوری کے اس نظریے کو رد کیا ہے کیونکہ انہوں نے اس طبقے میں جن افراد کا نام لیا ہے ان میں سوائے قیس بن ابی حازم کے باقی افراد نے مذکورہ تمام اصحاب سے روایت نہیں کی ہیں؛[21] چنانچہ سعید بن مسیب جو عمر کی خلافت کے دوران پیدا ہوا ہے نے فقط سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ہے۔[22]

حاکم نیشابوری نے تابعین کے دوسرے اور تیسرے طبقے سے بھی بعض افراد کا نام لیا ہے لیکن اس کے بعد والے طبقات کو ذکر کئے بغیر کہتے ہیں کہ تابعین کا آخری طبقہ ان افراد کو شامل کرتا ہے جنہوں نے اَنَس بن مالک، عبداللّه بن أبی أوفی، سائب بن یزید، عبداللّه بن حارث بن جَزء اور ابوامامہ باہلی وغیرہ سے ملاقت کی ہیں[23] اور مذکورہ افراد پیغمبر اکرمؐ کے صحابہ میں سب سے عمر رسیدہ افراد تھے۔

دوسرے نظریات

بعض محققین کے مطابق تابعین کو کبار، متوسط اور صغار میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ کبار سے مراد وہ افراد ہیں جنہوں نے رسول اکرمؐ کے نامی گرامی بزرگ صحابہ سے روایت کی ہو، متوسطین سے مراد وہ افراد ہیں جنہوں نے صحابہ سے ملاقات کے علاوہ بعض بزرگان سے روایت بھی کی ہو اور صغار سے مراد وہ افراد ہیں جنہوں نے کم عمر صحابہ یعنی ایسے اصحاب جن کی تاریخ وفات دوسرے صحابہ سے متأخر ہیں، سے روایت کی ہو۔[24]

تابعین کی بحث میں بعض اوقات ایسے روایوں کو بھی تابعین میں ذکر کیا گیا ہے جن کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے کسی صحابہ سے نقل روایت کی ہیں جیسے ابراہیم بن سُوَید نَخَعی۔ اسی طرح بعض اوقات تابعین میں شامل بعض افراد کو تبع تابعین میں ذکر کیا گیا ہے جیسے ابوالزَّناد عبداللّه بن ذکوان۔[25]

اہل سنّت کا نظریہ

اہل سنّت کے نزدیک تابعین صحابہ کے علوم کو ہم تک منتقل کرنے والے دین کے مبلّغ اور صحابہ کے بعد امت کے سب سے افضل اشخاص ہیں۔[26] اس حوالے سے اہل سنت سورہ توبہ کی آیت نمبر 100 اور رسول اکرمؐ کی حدیث: "خَیرُالناسِ قَرْنی ثُمَّ الذینَ یلُونَهُم ثُمَّ الذینَ یلُونَهُم‌" (ترجمہ: لوگوں میں سب سے افضل وہ ہیں جو میرے ہم عصر ہیں اس کے بعد وہ اشخاص ہیں جو ان کے بعد آتے ہیں اسے کے بعد وہ افراد ہیں جو ان کے بعد آتے ہیں[27]

تابعین میں سب سے افضل

تابعین میں سب سے افضل کون ہے اس حوالے سے اہل سنت علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے:

مشہور کا نظریہ

اس حوالے سے مشہور یہ ہے کہ سعید بن مسیب تابعین میں سب سے افضل ہے اور اس کے مرسَلاتِ سب سے زیادہ صحیح‌ حدیث سمجھا جتا ہے۔[28] اہل سنت علماء میں سے احمدبن حنبل، علی بن مدینی اور ابوحاتم رازی اسی نظریے کے حامی تھے۔[29]

بُلْقینی کا نظریہ

اہل سنت بعض علماء جیسے بُلْقینی زہد اور تقوا کے لحاظ سے تابعین میں سب سے اویس قرنی کو جبکہ حفظِ حدیث کے لحاظ سے سعید بن مسیب کو سب سے افضل قرار دیتے ہیں۔[30]

ابوعبداللہ محمد بن خفیف کا نظریہ

ابوعبداللّہ محمدبن خفیف شیرازی کے مطابق اہل مدینہ سعید بن مسیب کو، اہل بصرہ حسن بصری کو اور اہل کوفہ اویس قرنی کو تابعین میں سب سے افضل سمجھتے تھے۔[31] البتہ کوفہ کے بعض لوگ عَلقَمَۃ بن قیس اور اَسودبن یزید نخعی کو اور اہل مکہ نیز عطاءبن ابی رَباح کے افضلیت کے قائل تھے۔[32] ظاہراً ہر منطقہ کے لوگ اپنے درمیان سب سے بزرگ شخص کو تابعین میں سب سے افضل سمجھتے تھے۔[33]ابوبکر بن ابی داوود کے مطابق تابعات میں حَفْصہ بنت سیرین اور عَمرَه بنت عبدالرحمان سے افضل پھر ان کے بعد أم درداء تھیں۔[34]

دیگر نظریات

بعض دیگر علماء اویس قَرَنی کے افضلیت کے قائل ہیں اور اس حوالے سے وہ رسول خدا کی ایک حدیث سے استناد کرتے ہیں۔[35]

فقہائے سبعہ

تابعین میں سے سات(7) فقہاء جو مقام و مرتبے کے اعتبار سے دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں، فقہائے سبعہ کے نام سے مشہور ہیں۔ تابعین میں کثرت فتوا کے اعتبار سے حسن بصری اور عطاءبن ابی رباح سب سے زیادہ مشہور ہیں۔[36]

سب سے پہلے اور آخر میں وفات پانے والا

تابعین میں سب سے پہلے وفات پانے والا شخص، ابوزید معمربن زید تھا جو سنہ 30 ہجری میں وفات پایا اور خَلَف بن خلیفہ(متوفی سنہ 180 ہجری قمری) سب سے آخر میں وفات پانے والا تابعی تھا۔[37]

تابعی یا صحابی

تابعین میں سے بعض افراد کو "مُخَضْرمون‌" کے عنوان سے یاد کئے جاتے ہیں، یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں ادوار کا مشاہدہ کیئے ہیں اور پیغمبر اسلام کے زمانے میں اسلام قبول کیئے ہیں لیکن انہیں پیغمبر اکرمؐ کی دیدار نصیب نہیں ہوئی۔ من جملہ ان افراد میں ابوعمرو شیبانی، سُوَید بن غَفلَۃ کندی، عمرو بن میمون اَوْدی، عبد خیر بن خیوانی، ابوعثمان نہدی اور ربیعۃ بن زرارۃ شامل ہیں۔[38] بعض علماء انہیں صحابہ اور بعض انہیں تابعین میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی تعداد کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے ان کی تعداد 20 جبکہ بعض نے 42 ذکر کی ہیں۔[39]

سماجی، علمی اور ثقافتی کردار

تاریخی اعتبار سے مختلف سیاسی اور سماجی واقعات میں تابعین کے کردار کو نظر انداز نہیں جا سکتا۔ علوم حدیث کی پیدائش میں ان کا بنیادی حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ تفسیر، فقہ، سیرہ نکاری اور تاریخ نگاری میں بھی ان کا بڑا کردار رہا ہے۔ یہ بات اکثر مستشرقین کی توجہ کا مرکز رہا ہے کہ احادیث کے اسناد کو پیغمبر اکرمؐ تک پہنچانے میں صحابہ اور تابعین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔[40]

حوالہ جات

  1. ابن صلاح، ص۱۷۹؛ نووی، ص۲۰۰
  2. سخاوی، ج۳، ص۱۲۳؛ خطیب، ص۴۱۰.
  3. ص۳۸
  4. بہ نقل سخاوی، ج۳، ص۱۲۴.
  5. مامقانی، ج۳، ص۳۱۱؛ شہید ثانی، ص۳۴۶
  6. ص۱۷۹
  7. ص۹۰
  8. سخاوی، ج۳، ص۱۲۳ـ۱۲۴؛ خطیب، ص۴۱۰
  9. سخاوی، ج۳، ص۱۲۵؛ سیوطی، تدریب الراوی، ج۲، ص۲۰۷.
  10. رشیدرضا، ج۱۱، ص۱۵.
  11. زمخشری؛ طبرسی؛ فخر رازی؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ذیل آیت مذکورہ
  12. مسلم بن حجاج، ج۲، ص۱۹۶۸
  13. ابن کثیر، اختصار علوم الحدیث، ص۱۲۸ بہ نقل از ابوزُرْعہ رازی
  14. خطیب، ص۴۱۱
  15. ابن کثیر، اختصار علوم الحدیث، ص۱۲۸ـ۱۳۱
  16. مامقانی، ج۳، ص۳۱۳.
  17. ابوشہبہ، ص۵۴۲.
  18. سخاوی؛ سیوطی، تدریب الراوی؛ ابوشہبہ، ص۵۴۲.
  19. ابوشہبہ، ص۵۴۷.
  20. ص۵۲.
  21. نووی، ص۲۰۰؛ طیبی، ص۱۲۷؛ ابن کثیر، اختصار علوم الحدیث، ص۱۳۲ـ۱۳۳؛ سخاوی، ج۳، ص۱۲۵ـ۱۲۶
  22. ابن صلاح، ص۱۸۰؛ ابوشہبہ، ص۵۴۳.
  23. ص۵۳؛ ابوشہبہ، ص۵۴۷
  24. عتر، ص۱۴۸.
  25. حاکم نیشابوری، ص۵۷؛ ابن صلاح، ص۱۸۲؛ نووی، ص۲۰۱؛ فصیح ہروی، ص۱۰۷.
  26. حاکم نیشابوری، ص۵۲
  27. مسلم بن حجاج، ج۲، ص۱۹۶۲ـ۱۹۶۳.
  28. حاکم نیشابوری، ص۳۲؛ ابن کثیر، اختصار علوم الحدیث، ص۱۳۵؛ ابوشہبہ، ص۵۴۵؛ ہاشم، ص۲۷۴؛ خطیب، ص۴۴۳؛ عثمانی تہانوی، ص۱۵۰
  29. سخاوی، ج۳، ص۱۲۶.
  30. سیوطی، تدریب الراوی، ج۲، ص۲۱۳؛ سیوطی، الفیۃ، ص۲۳۵، شرح شاکر؛ ابوشہبہ، ص۵۴۵؛ ہاشم، ص۲۷۵.
  31. نووی، ص۲۰۱؛ طیبی، ص۱۲۸؛ سخاوی، ج۳، ص۱۲۷
  32. خطیب، ص۴۱۲
  33. عتر، ص۱۴۹
  34. ابن صلاح، ص۱۸۲؛ طیبی، ص۱۲۸؛ سخاوی، ج۳، ص۱۲۸.
  35. مسلم بن حجاج، ج۲، ص۱۹۶۹؛ سخاوی، ج۳، ص۱۲۷؛ سیوطی، الفیۃ، ص۲۳۴، شرح شاکر؛ ابوشہبہ، ص۵۴۵.
  36. سیوطی، تدریب الراوی، ج۲، ص۲۱۳.
  37. سیوطی، تدریب الراوی، ج۲، ص۲۱۴؛ ترمسی، ص۲۸۴.
  38. حاکم نیشابوری، ص۵۵؛ ابن صلاح، ص۱۸۰؛ ابن کثیر، اختصار علوم الحدیث، ص۱۳۴؛ ابن حجر عسقلانی، ص۹۰
  39. سیوطی، تدریب الراوی، ج۲، ص۲۱۰ـ۲۱۱؛ ترمسی، ص۲۸۲؛ ابن حجر عسقلانی، ص۹۰؛ سخاوی، ج۳، ص۱۳۴؛ مامقانی، ج۳، ص۳۱۵ـ۳۱۶؛ فصیح ہروی، ص۱۰۸.
  40. د اسلام، چاپ دوم، ذیل «تابعون»

مآخذ

  • علاوہ بر قرآن۔
  • ابن حجر عسقلانی، نزہۃ النظر: شرح نخبۃ الفکر، چاپ صلاح محمد محمد عویضہ، بیروت ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔
  • ابن صلاح، مقدمۃ ابن الصّلاح فی علوم الحدیث، چاپ مصطفی دیب البغا، دمشق ۱۴۰۴/۱۹۸۴۔
  • ابن کثیر، اختصار علوم الحدیث، بتعلیق و شرح صلاح محمد محمد عویضہ، بیروت ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔
  • ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، چاپ علی شیری، بیروت: داراحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • احمدبن علی خطیب بغدادی، الکفایۃ فی علم الروایۃ، چاپ احمد عمرہاشم، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔
  • احمدعمر ہاشم، قواعد اصول الحدیث، بیروت ۱۴۰۴/ ۱۹۸۴۔
  • حسین بن عبداللّہ طیبی، الخلاصۃ فی اصول الحدیث، عراق ۱۳۹۱/۱۹۷۱، نورالدین عتر، منہجالنقد فی علوم الحدیث، دمشق ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
  • زمخشری۔
  • زین الدین بن علی شہیدثانی، الرعایۃ فی علم الدرایۃ، چاپ عبدالحسین محمدعلی بقّال، قم ۱۴۰۸۔
  • طبرسی۔
  • ظفراحمد عثمانی تہانوی، قواعد فی علوم الحدیث، بیروت ۱۴۱۷/۱۹۹۶۔
  • عبدالرحمان بن ابی بکر سیوطی، الفیۃ السیوطی فی علم الحدیث، بتصحیح و شرح احمد محمد شاکر، بیروت: دارالمعرفہ، بی‌تا۔
  • عبدالرحمان بن ابی بکر سیوطی، تدریب الراوی بشرح تقریب النواوی، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
  • عبداللّہ مامقانی، مقباس الہدایۃ فی علم الدرایۃ، چاپ محمدرضا مامقانی، قم ۱۴۱۱ـ۱۴۱۴۔
  • محمد ابوشہبہ، الوسیط فی علوم و مصطلح الحدیث، قاہرہ، ۱۴۰۳/ ۱۹۸۲۔
  • محمد بن عبدالرحمان سخاوی، فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث، چاپ صلاح محمد محمد عویضہ، بیروت ۱۴۱۷/۱۹۹۶۔
  • محمد بن عبداللّہ حاکم نیشابوری، معرفۃ علوم الحدیث، مصر ۱۳۵۶/۱۹۳۷۔
  • محمد بن عمر فخررازی، التفسیر الکبیر، قاہرہ، بی‌تا، چاپ افست تہران، بی‌تا۔
  • محمد بن محمد فصیح ہروی، جواہرالاصول فی علم احادیث الرسول، چاپ اطہر مبارکفوری، مدینہ ۱۳۷۳۔
  • محمد رشیدرضا، تفسیر القرآن الحکیم الشہیر بتفسیرالمنار، ج۱۱، مصر ۱۳۷۲/۱۹۵۳۔
  • محمد عجاجخطیب، اصول الحدیث، علومہ و مصطلحہ، بیروت ۱۴۱۷/۱۹۹۷۔
  • محمد محفوظ بن عبداللّہ ترمسی، منہجذوی النظر، مصر ۱۴۰۶/ ۱۹۸۵۔
  • مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱۔
  • یحیی بن شرف نووی، ارشاد طلاب الحقایق الی معرفۃ سنن خیر الخلائق، بیروت ۱۴۱۱/۱۹۹۱۔