طلقاء

ویکی شیعہ سے

طُلَقاء، آزاد ہونے والوں کے معنی میں ہے اور اس سے مراد پیغمبر اکرمؐ کے وہ مخالفین ہیں جن کو آپؐ نے فتح مکہ کے بعد بغیر کسی سزا کے آزاد فرمایا تھا۔ ابو سفیان اور اس کا بیٹا معاویہ اس گروہ کے نمایاں افراد میں شمار ہوتے تھے۔

امام علیؑ نے جنگ صفین میں طلقاء کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ہمیشہ اسلام کے ساتھ دشمنی کرنے والے اور مجبوری میں اسلام قبول کرنے والوں میں سے قررا دیا ہے۔ طلقاء کا لفظ صدر اسلام میں بنی امیہ کے لئے بطور تحقیر استعمال کیا جاتا تھا اور اسی بنا پر انہیں خلافت کے لائق نہیں سمجھا جاتا تھا۔

تعریف

طلقا اسیرِی سے آزاد ہونے والے کے معنی میں ہے۔[1] پیغمبر اکرمؐ نے اس اصطلاح کو فتح مکہ کے موقع پر اہل مکہ کے ایک گروہ کیلئے استعمال فرمایا۔[2] یہ گروہ در حقیقت پیغمبر اکرمؐ کے مخالفین میں سے تھے جو فتح مکہ کے بعد مجبور ہو کر مسلمان ہوئے یوں حضورؐ نے انہیں غلام بنائے بغیر طلقاء کے نام سے مخاطب فرمایا۔[3]

چودہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم سید محمد حسین تہرانی کے مطابق یہ گروہ فتح مکہ سے پہلے کہا کرتے تھے کہ محمدؐ کو ان کی قوم کے ساتھ چھوڑ دیا جائے اگر محمدؐ مکہ والوں پر غالب آ جائے تو ہم بھی اسلام قبول کریں گے لیکن اگر مکہ والے غالب آ گئے تو وہ ہمیں محمد سے نجات دلائیں گے۔[4] مسلمان چہ بسا انہیں "فتح مکہ کے مسلمان" (مُسلِمَۃُ الفَتح) کے نام سے بھی یاد کرتے تھے۔[5]

تعداد اور مشاہیر

بعنض تاریخی مستندات کے مطابق طلقاء کی تعداد 2000 سے بھی زیادہ تھی۔[6] اسی طرح تاریخی منابع میں ابو سفیان، معاویہ بن ابو سفیان، یزید بن ابو سفیان، سہیل بن عمرو، حُوَیطب بن عبد العُزَّی،[7] جبیر بن مطعم، عکرمہ بن ابی‌ جہل، عتاب بن سعید، صفوان بن امیہ، مطیع بن اسود، حکیم بن حزام، حارث بن ہشام اور حکم بن ابی‌ العاص[8] طلقاء کے نام سے یاد کئے گئے ہیں۔

اہل سنت عالم دین حسن بن فرحان مالکی (متولد 1390ھ) طلقاء کو مقام و منزلت کے اعتبار سے تین گروہوں میں تقیسم کرتے ہیں:

  1. ایک گروہ جن کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کو علم تھا کہ وہ دل سے ایمان لے آئے ہیں اس بنا پر آپ نے انہیں مؤلفۃ قلوب کے عنوان سے کچھ نہیں دیا۔ ان میں؛ عکرمہ بن ابی‌ جہل، عتاب بن سعید اور جبیر بن مطعم وغیرہ شامل ہیں۔
  2. ایک گروہ جنہیں پیغمبر اکرمؐ نے اسلام کی طرف جذب کرنے کیلئے مال و اموال سے نوازا؛ ان میں ابو سفیان، معاویہ، صفوان بن امیہ اور مطیع بن اسود وغیره شامل ہیں۔ یہ گروہ طلقاء کے درمیان سب سے پست ترین طبقہ شمار کیا جاتا ہے۔
  3. ایک گروہ نہ گروہ اول کی طرح تھے اور نہ گروہ دوم کی طرح بلکہ ایک درمیانی درجے کے حامل تھے ان میں حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو اور حکیم بن حزام وغیره شامل تھے۔[9]

بنی امیہ کی تحقیر کیلئے طلقاء کا استعمال

بعض معاصر محققین کے مطابق طلقاء کا لفظ ایک قسم کی بدنامی پر دلالت کرتا ہے[10] اسی بنا پر بنی‌امیہ کو حزب الطلقاء کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔[11]

حضرت علیؑ نے اپنے ایک خط میں معاویہ کو طلقاء میں سے قرار دیا اسی بنا پر آپؑ اسے خلافت و امامت حتی مشورت کیلئے شائستہ نہیں جانتے تھے۔[12] اسی طرح امام علیؑ نے جنگ صفین میں طلقاء کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ہمیشہ اسلام کے ساتھ دشمنی کرنے والے اور مجبورا اسلام قبول کرنے والوں میں سے قرار دیا۔[13] آپؑ انہیں قرآن اور سنت پیغمبر کے دشمن اور اہل بدعت اور اہل رشوہ قرار دیتے ہیں۔[14]

حضرت زینب(س) جب واقعہ کربلاء کے بعد اسیر ہو کر شام یزید بن معاویہ کے دربار میں پہنچیں تو اپنے ایک خطبے میں آپ نے یزید کو طلقاء کی نسل قرار دے کر اسے "یا بن الطلقاء" سے خطاب فرمایا۔[15]

تیسری صدی ہجری کے مورخ احمد بن یحیی بلاذری کی کتاب انساب الاشراف کے مطابق عمر بن خطاب بھی طلقاء اور ان کی اولاد کو خلافت کے لئے لائق نہیں جانتے تھے۔[16]

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۱۰، ص۲۲۷۔
  2. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج۲، ص۴۱۲؛ طبری،‌ تاریخ الأمم و الملوک، ‌۱۳۸۷ش، ج۳، ص۶۱۔
  3. مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۳۹۱۔
  4. حسینی تہرانی، امام ‌شناسی، ۱۴۲۶ق، ج۱۸، ص۲۸۰۔
  5. مالکی، الصحبۃ و الصحابۃ، ۱۴۲۲ق، ص۱۹۲۔
  6. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ج۴، ص۲۳۶۔
  7. حسینی تہرانی، امام‌ شناسی، ۱۴۲۶ق، ج۱۸، ص۲۸۰۔
  8. مالکی، الصحبۃ و الصحابۃ، ۱۴۲۲ق، ص۱۹۲-۱۹۳۔
  9. مالکی، الصحبۃ و الصحابۃ، ۱۴۲۲ق، ص۱۹۲-۱۹۳۔
  10. جوادی، «طلقاء و نقش آنان در تاریخ اسلام»، ص۷۔
  11. جوادی، «طلقاء و نقش آنان در تاریخ اسلام»، ص۲۔
  12. منقری، وقعۃ صفین، ۱۴۰۴ق، ص۲۹۔
  13. ابن قتیبۃ الدینوری، الإمامۃ والسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ص۱۷۸۔
  14. ابن قتیبۃ الدینوری، الإمامۃ والسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ص۱۷۸۔
  15. طبرسی، الإحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۳۰۸۔
  16. بلاذری، جمل من انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج ۱۰، ص۴۳۴-۴۳۵؛ ابن حجر عسقلانی، الإصابۃ، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۷۰۔

مآخذ

  • ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق:‌ عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م۔
  • ابن قتیبۃ الدینوری، عبداللہ بن مسلم، الإمامۃ و السیاسۃ، تحقیق: علی شیری، بیروت، دارالأضواء، الطبعۃ الأولی، ۱۴۱۰ق۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، تصحیح: احمد فارس، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ق۔
  • ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، عبدالملک بن ہشام، تحقیق: مصطفی السقا و ابراہیم الابیاری و عبد الحفیظ شبلی، بیروت، دار المعرفہ، بی‌تا۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، کتاب جمل من انساب الاشراف، تحقیق: سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م۔
  • جوادی، سید مہدی، «طلقاء و نقش آنان در تاریخ اسلام»، در مجلہ پژوہش‌ نامہ تاریخ، شمارہ ۱۲، پاییز ۱۳۸۷ش۔
  • حسینی تہرانی، سید محمد حسین، امام‌ شناسی، مشہد، نشر علامہ طباطبایی، ۱۴۲۶ق۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج علی أہل اللجاج، مشہد، نشر مرتضی، ۱۴۰۳ق۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک،‌ بیروت، دار التراث، ۱۳۷۸ش۔
  • مالکی، حسن بن فرحان، الصحبۃ و الصحابۃ بین الاطلاق اللغوی و التخصیص الشرعی، عمان، مرکز الدراسات التاریخیہ، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۲م۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بورسعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، بی‌تا۔
  • مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الاحوال و الاموال و الحفدہ و المتاع، تحقیق: محمد عبدالحمید النمیسی، بیروت، دار ­­­الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۰ق/۱۹۹۹م۔
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، تحقیق: عبد السلام محمد ہارون، المؤسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، ۱۳۸۲ق/ افست: قم، منشورات مکتبۃ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ق۔