عاتکہ بنت عبد المطلب
رسول اکرمؐ کی پھوپھی | |
---|---|
کوائف | |
مکمل نام | عاتِکۃ بنت عبد المُطَّلِب |
مہاجر/انصار | مہاجر |
نسب/قبیلہ | بنی ہاشم |
اقارب | پیغمبر اکرمؐ • ام سلمہ |
دینی معلومات | |
ہجرت | مدینہ ( |
وجہ شہرت | ابن سعد کے مطابق) |
عاتِکہ بنت عبد المُطَّلِب، رسول اللہؐ کی پھوپھی اور بنی ہاشم کی خواتین میں سے ایک تھی۔ آپ نے صحابی رسول ابو امیہ مخزومی (ام سلمہ کے والد) سے شادی کی۔ بعض نے انہیں ام سلمہ کی ماں قرار دیا ہے۔
نسب
آپ کے والد عبد المطلب بن ہاشم اور والدہ صفیہ بنت جندب ہے۔ ابن سعد نے ان کی والدہ کو فاطمہ بنت عمرو بن عائذ مخزومی قرار دیا ہے۔[1] آپ رسول اللہؐ کی پھوپھی تھی اور صحابی رسول اللہ ابو امیہ مخزومی سے شادی کی جس کے نتیجے میں عبداللہ، زہیر اور قریبہ پیدا ہوئے۔[2] عبداللہ جنگ حنین میں رسول اللہ کے رکاب میں شہید ہوا۔[3] زہیر کو بعض نے مولفۃ القلوب قرار دیا ہے۔[4] عاتکہ کو بعض نے ام سلمہ ہمسر پیغمبر کی والدہ سمجھا ہے[5] لیکن اکثر مورخوں نے ام سلمہ کی والدہ عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ کنانی لکھا ہے۔[6] عاتکہ کی وفات کے بارے میں تاریخ میں کچھ نہیں ملتا ہے۔ البتہ ہجرت کے دوسرے سال جنگ بدر کے موقعے پر زندہ تھی۔[7]
اسلام
ابن عبدالبر و ابن حجر نے الاصابہ اور الاستیعاب میں ان کا نام ذکر کیا ہے۔[8] اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابو جعفر عقیلی نے انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے۔ ان کے اسلام لانے کے حوالے سے اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اکثر اسلامی مورخین نے ان کے اسلام لانے کو انکار کیا ہے۔[9] اور ان کا کہنا ہے کہ رسول خداؐ کی پھوپھیوں میں صفیہ کے سوا اور ایک قول کے مطابق «اروی» کے سوا کسی نے اسلام نہیں لایا ہے۔[10] لیکن ابن سعد اپنی کتاب الطبقات میں کہتا ہے کہ عاتکہ مکہ میں مسلمان ہوئی اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔[11] بعض نے ان کا رسول اکرم کی مدحت اور نبوت کے بارے میں پڑھے جانے والے اشعار کے ذریعے ان کے مسلمان ہونے کو استناد کیا ہے۔[12]
عاتکہ اور جنگ بدر
عاتکہ نے جنگ بدر سے پہلے خواب دیکھا کہ ایک سوار مکہ میں آکر یہ آواز دے رہا ہے کہ اے آل غدر اس جگہے کی جانب نکلو جہاں تین دن بعد تم مارے جاؤ گے پھر کوہ ابو قبیس پر جاکر مکہ کی جانب ایک پتھر پھینکا اور وہ پتھر ریزہ ریزہ ہوگیا اور مکہ کے ہر گھر پر اس کی ایک کنکر لگی لیکن بنی ہاشم اور بنی زہرہ میں سے کسی کے گھر پر کنکر نہیں لگے۔ ابو جہل اس کا انکار کیا اور کہا کہ میں اولادِ عبد المطلب کو تین دن کی فرصت دیتا ہوں اور اگر یہ واقعہ رونما نہ ہوا تو انہیں خاندان عرب میں سب سے جھوٹے لوگ معرفی کرتا ہوں۔[13]
اشعار
بعض نے عاتکہ کو ایک شاعر خاتون قرار دیا ہے اور پیغمبر اکرمؐ کی مدحت میں ان سے بعض اشعار منسوب ہے۔[14] جب عاتکہ کے والد عبد المطلب حالت احتضار میں تھے تو عاتکہ نے ان کے لئے ایک مرثیہ پڑھا۔
|
ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط نے ان سے روایت کی ہے۔[16] کہا گیا ہے کہ وہ بقیع میں صفیہ بنت عبد المطلب کے جوار میں مدفون ہیں، اگرچہ بعض محققین نے اس بات کی صحت پر شک و تردید کا اظہار کیا ہے۔[17]
حوالہ جات
- ↑ ابن سعد، الطبقات، 1410ق، ج8، ص36.
- ↑ ابن اثیر، اسدالغابہ، 1409ق، ج1، ص39، ج6، ص185؛ ابن سعد، الطبقات، 1410ق، ج8، ص36؛ ابن حبیب، المحبر، بیروت، ص274.
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص869.
- ↑ محلاتی، ریاحین الشریعہ، 1368ش، ج4، ص375.
- ↑ محلاتی، ریاحین الشریعہ، 1368ش، ج4، ص375.
- ↑ دخیل، اعلام النساء، 1412ق، ص180.
- ↑ ابن سعد، الطبقات، 1410ق، ج8، ص36.
- ↑ ابن حجر، الاصابہ، 1415ق، ج8، ص229.
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج4، ص1881.
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج4، ص1779-1778؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، 1409ق، ص185.
- ↑ ابن سعد، الطبقات، 1410ق، ج8، ص36.
- ↑ کحالہ، اعلام النساء، 1412ق، ج3، ص208.
- ↑ ابن سعد، الطبقات، 1410ق، ج8، ص36.
- ↑ کحالہ، اعلام النساء، 1412ق، ج3، ص207-208.
- ↑ کحالہ، اعلام النساء، 1412ق، ج3، ص207-208.
- ↑ ابن اثیر، اسدالغابہ، 1409ق، ج6، ص185.
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ج1، ص348.
مآخذ
- ابن اثیر، علی بن محمد، اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دارالفکر، 1989م/1409ھ۔
- ابن حبیب، محمد، المحبر، تحقیق: ایلزہ لیختن شتیتر، دارالآفاق الجدیدۃ، بیروت، بیتا.
- ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق: عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، درالکتب العلمیۃ، 1995م/1415ھ۔
- ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، بیروت، درالکتب الاسلامیۃ، 1990م/1410ھ۔
- ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق: علی محمد بجاوی، بیروت، دارالجیل، 1992م/1412ھ۔
- جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ مدینہ.
- دخیل، علی محمد، اعلام النساء، بیروت، الدارالاسلامیۃ، 1412ق/1992ء۔
- کحالہ، عمررضا، اعلام النساء، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1412ق/1991ء۔
- محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعہ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1368ہجری شمسی۔