اُبَیّ بن کَعب پیغمبر اکرمؐ کے صحابی، کاتب وحی اور قاری قرآن ہیں۔ بعض قرآنی محققین انہیں مسلم امۃ کا سب سے برجستہ قاری قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن کے مشہور قراء نے قرائت میں ان کی پیروی کی ہیں۔ امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق اہل‌ بیتؑ قرآن کو اُبی بن کعب کی قرأت کے مطابق تلاوت کرتے تھے۔ بعض صحابہ اور تابعین جیسے ابن‌ عباس اور ابو عبد الرحمن سُلَّمی نے قرائت ان سے سیکھی تھی۔ اُبی بن کعب نے پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں ہی قرآن کو جمع‌ کیا ہوا تھا اور ان کا مُصحَف موجودہ قرآن سے قدرے اختلاف رکھتا ہے۔

اُبی بن کَعب
کوائف
مکمل ناماُبی بن کَعب بن قیس خزرجی
کنیتابو المُنذِر اور ابو الطُفیل
لقبسید القُرّاء اور سید الأنصار
محل زندگیمدینہ
مہاجر/انصارانصار
نسب/قبیلہخزرج
وفاتمدینہ
دینی معلومات
اسلام لانابیعت عقبہ
جنگوں میں شرکتبَدر، اُحُد، خَندق و غیرہ
وجہ شہرتقرائت قرآن اور کتابت مصحف

اُبی بن کعب شیعیان علی ابن ابی طالب میں سے تھا اور ابوبکر کی خلافت پر اعتراض کرتے ہوئے امام علیؑ کو خلیفہ بلافصل پیغمبر مانتے تھے۔ وہ انصار کے ان 70 افراد میں سے تھا جنہوں نے بیعت عقبہ میں پیغمبر اکرمؐ کی بیعت کی۔ انہوں نے مختلف غَزوات جیسے بَدر، اُحُد اور خَندق میں حصہ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تفسیر اور قرآن کی فضیلت کے بارے میں کتابیں بھی تحریر کی تھی۔ اس کے باوجود محققین قرآنی سورتوں کی فضیلت کے بارے میں ان سے منسوب بہت ساری احادیث کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ مورخین ان کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں البتہ مشہور کے نظریے کے مطابق انہوں نے عُمَر بن خَطّاب کے دور میں وفات پائی ہیں۔

تاریخ اسلام میں اُبی بن کعب کا مقام

اُبَیّ بن کَعْب بن قیس قبیلہ خَزرَج اور انصار میں سے تھے۔[1] کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ان کی کنیت "ابوالمُنذِر" اور عمر بن خَطّاب نے "ابوالطُفیل" رکھا۔[2] "سید المسلمین"،[3] "سید القُرّاء" (یعنی: پیشوای قاریان)[4] اور "سید الانصار" ان کے القاب میں شمار کئے جاتے ہیں۔[5] زمانہ جاہلیت میں جہاں بہت ہی کم لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے، ان میں سے ایک اُبی بن کعب تھا۔[6]

بعض احادیث کے مطابق اُبی بن کعب من جملہ ان افراد میں سے تھے جو حضرت محمدؐ کی رحلت کے بعد امام علیؑ کو پیغمبر اکرمؐ کا بلا فصل خلیفہ مانتے تھے۔[7] چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم ابو الصلاح حَلَبی نے بھی اُبی بن کعب کو شیعیان امیر المؤمنینؑ میں سے قرار دیا ہے۔[8] بعض احادیث کے مطابق ابن‌کعب ان بارہ افراد میں سے ایک تھا جنہوں نے ابوبکر پر اعتراض کیا کہ وہ کیوں امام علیؑ کے مسند خلافت بیٹھا ہے۔[9] کتاب احتجاج کے مطابق اُبی بن کعب نے پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کے بعد حضرت علیؑ کی امامت کی تصریح کی گئی ہے۔[10]

امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث کے مطابق شیعہ ائمہؑ اُبی بن کعب کی قرأت کے مطابق قرأت کرتے تھے۔[11] کتاب تأسیس الشیعہ کے مصنف سید حسن صدر کے مطابق امام صادقؑ کی یہ حدیث ابی بن کعب کے اعلی مقام و منزلت کی نشاندہی کرتی ہے۔[12]انہوں نے پورا قرآن پیغمبر اکرمؐ سے سیکھا اور غلطیوس کی اصلاح کے لئے خود آنحضرت کو سنایا کرتے تھے۔[13] کہا جاتا ہے کہ ابن‌ کعب مدینہ کے مکتب تفسیر میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔[14] بعض روایتوں کے مطابق ابی بن کعب ان معدود افراد میں سے تھا جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں ہی قرآن کو حفظ کیا تھا۔[15] اہل‌ سنت منابع میں نقل ہونے والی احادیث کے مطابق ابی ان چار افراد میں سے ایک تھا جن سے قرآن سیکھنے کی پیغمبر اکرمؐ نے سفارش کی ہیں۔[16] کہا جاتا ہے کہ قراء سبع کی قرأت اس بنا پر مشہور تھے کہ انہوں نے قرآن کی قرأت کو حضرت علیؑ، عثمان، عبد اللہ بن مسعود، زید بن ثابت یا اُبی بن کعب سے نقل کی ہیں۔[17] اہل‌ سنت کی بعض احادیث جن میں صحابہ کی فضیلت بیان ہوئی ہے ان میں اُبی بن کعب کو امت محمدی میں علم قرائت کا سب سے ماہر قاری معرفی کرتی ہے۔[18]

غزوات میں شرکت

بعض روایات کے مطابق اُبی بن کعب نے بیعت عقبہ میں پیغمبر اکرمؐ کی بیعت کی۔[19] البتہ تیسیری صدی ہجری کے مورخ ابن‌ ہشام نے ان کا نام بیعت عقبہ میں پیغمبر اکرمؐ کی بیعت کرنے والے افراد میں ذکر نہیں کیا ہے۔[20] پیغمبر اکرمؐ نے ہجرت کے بعد ایک قول کے مطابق ابی اور سعید بن زید بن عمرو کے درمیان[21] جبکہ دوسرے قول کی مطابق ابی اور طَلحۃ بن عبید اللہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔[22] ابی بن‌ کعب نے بَدر، اُحُد اور خَندَق جیسی غَزوات میں پیغمبر اکرمؐ کا ساتھ دیا۔[23] اسی طرح انہوں نے حَمْزَۃِ بن عبد المُطَّلِب کی قیادت میں ہجرت کے ساتویں مہنے میں رونما ہونے والے سریہ میں بھی شرکت کی۔[24] بعض روایات کے مطابق مسلمان ہونے سے پہلے وہ یہودی احبار میں سے تھا۔[25]

پیغمبر اکرمؐ کا کاتب

تاریخی شواہد کے مطابق پہلا شخص جس نے مدینہ میں[26] پیغمبر اکرمؐ کے خطوط کو تحریر کیا وہ اُبی بن کعب تھا اور ان کی غیر موجودگی میں زید بن ثابت اس کام کو انجام دیا کرتا تھا۔[27] البتہ پیغمبر اکرمؐ کے عہد ناموں اور صلح ناموں کو حضرت علیؑ تحریر کرتے تھے۔[28] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اُبی بن کعب پہلا شخص تھا جو خطوط کے آخر میں اپنا اور اپنے والد کا نام بعنوان کاتب لکھا کرتا تھا۔[29] ابن‌کعب بعض اوقات پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے تازہ اسلام لانے والے مسلمانوں کو قرآن اور احکام شرعی کی تعلیم دیتے تھے۔[30] ابی کاتبان وحی میں سے تھا۔[31] تاریخ طبری (تألیف 303ھ) کی نقل کی مطابق اُبی بن کعب اور زید بن ثابت صرف امام علیؑ اور عثمان کی غیر موجودگی میں وحی کو تحریر کرتے تھے۔[32]

اُبی بن کعب کی قرائت

علم قرائت کے ماہر ابن‌ جَزَری اُبی بن کعب امت محمدی کا برجستہ ترین قاری قرار دیتے ہیں۔[33] بعض محققین کے مطابق اُبی کی قرأت بعد کی صدیوں میں آنے والی معتبر قرأتوں بنیادی رکن کی حیثیت رکھتی تھی؛ یہاں تک کہ ادعا کی گئی ہے کہ اُبی بن کعب کی قرأت حجازی قرائت کی اصلی بنیاد تھی، کیونکہ قراء سَبْع میں سے نافع اور ابن‌ کَثیر (حجازی قراء میں سے تھے) کی قرأت کافی حد تک اُبی کی قردت سے متأثر تھی۔[34] کوفیوں کی قرائتوں میں بھی ابن‌ کعب کی قرأت کو عاصم اور کسائی کی قرأت سے زیادہ مؤثر قرار دی گئی ہے۔[35] اُبی بن کعب پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے اور صحابہ میں سے ابن‌ عباس اور ابوہُرَیرہ اور تابعین میں سے ابو عبد الرحمن سُلَّمی اور ابو العالیہ ریاحی نے ان سے قرائت سیکھی ہیں۔[36]

مصحف اُبی بن کعب

علوم قرآن کے محققین نے اُبی بن کعب کے مخصوص مُصحَف کا ذکر کیا ہے؛[37] چنانچہ مختلف شواہد بھی اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں۔[38] بعض روایات کے مطابق انہوں نے قرآن کو پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں ہی جمع‌ کیا تھا۔[39] وہ اپنے شاگردوں کو اپنے مصحف کا املا دیتے تھے۔[40] اس بات پر بنا رکھتے ہوے کہ اُبی بن کعب عُثمان کے دور تک زندہ تھے، وہ من جملہ ان افراد میں سے ہیں جنہیں عثمان نے قرآن کو یکساں کرنے کے لئے منتخب کیا تھا۔[41]

مصحف اُبی بن کعب موجودہ قرآن‌ کی طرح سورہ حَمد سے آغاز اور مُعَوَّذَتَیْن پر ختم ہوتا ہے لیکن بعض سورتوں‌ کی ترتیب[42] اور بعض کلمات میں[43] دوسرے مصحف‌ سے قدرے مختلف ہے۔ اہل سنت مفسر آلوسیاور شیعہ مفسر آیت اللہ معرفت کے مطابق ان کے مصحف میں سورہ قریش اور سورہ فیل کو ایک سورہ کے طور پر لکھے گئے ہیں، جبکہ دوسری طرف "الخُلْع" اور "الحَفْد" کے نام سے دو سورتیں موجود تھیں جو دوسرے مصحف‌ میں نہیں پائے جاتے۔[44] اسی بنا پر ان کا مصحف 115 سورتوں پر مشتمل تھا۔[45] البتہ بغداد کے ماہر کتابیات اور فہرست نگار ابن‌ندیم کے مطابق ان کا قرآن 116 سورتوں پر مشتمل تھا۔[46]

قرآن میں مذکورہ بالا دو سورتوں کا اضافہ دوسرے صحابہ اور مسلمانوں کے اجماع کے برخلاف قرار دیا گیا ہے۔[47] بعض قرآنی محققین کے مطابق ابی بن کعب کے مصحف میں موجود مذکورہ دو سورتیں "الخلع" و "الحفد" کا قرآن کا حصہ ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے؛[48] کیونکہ مصحف صحابہ میں صرف اور صرف قرآن مُتواتر طور پر درج نہیں تھے بلکہ ان میں قرآنی آیات اور سورتوں کے ساتھ ساتھ بعض احادیث، تفاسیر اور دعائیں بھی درج تھیں اس بنا پر ممکن ہے"الخلع" و "الحفد" بھی من جملہ ان دعاؤں میں سے تھے جو مصحف اُبی بن کعب میں موجود ہے۔[49]

اُبی بن کعب سے منسوب احادیث اور آثار

الفہرست میں ابن‌ندیم کے مطابق ابن‌ کعب نے فضائل قرآن کے موضوع پر ایک کتاب تحریر کی تھی۔[50] شیعہ کتابیات کے ماہر آقابزرگ تہرانی کے مطابق ان کی کتاب فضائل قرآن کے موضوع پر لکھی گئی پہلی کتاب تھی۔[51] چنانچہ بعض تفسیری کتابوں جیسے مجمع البیان اور الکشف و البیان وغیرہ میں اُبی بن کعب سے قرآن کی سورتوں کے پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں بعض احادیث نقل ہوئی ہیں۔[52] بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ سورتوں کے فضائل کے بارے میں اُبی بن کعب سے منسوب احادیث جعلی ہیں[53] اور انہیں صوفیوں نے مسلمانوں کے درمیان تلاوت قرآن کی ترغیب کے لئے ان احادیث کو جعل کئے ہیں۔[54] اہل سنت مفسر سیوطی کے مطابق اُبی بن کعب بہت بڑی تفسیر تھی جو پہلی صدیوں میں رائج تھی اور محمد بن جَریر طَبَری اور ابن‌ ابی‌ حاتم جیسے مسفسرین اس سے استفادہ کرتے تھے۔[55]

اہل سنت محقق نَوَوی کے اعداد و شمار کے مطابق ابی بن کعب نے پیغمبر اکرمؐ سے 164 احادیث نقل کی ہیں جن میں سے بعض صحیح بُخاری اور بعض صحیح مُسلم میں موجود ہیں۔[56] صحابہ میں سے ابوایوب انصاری، عبداللہ بن عباس اور ابوموسی اشعری اور تابعین میں سے سُوَیْد بن غَفَلَہ، عبدالرحمان بن اَسْوَد اور عبدالرحمان بن اَبی لَیلیٰ نے ان سے بعض احادیث نقل کی ہیں۔[57] ابی بن کعب سے منقول احادیث موضوع کے اعتبار سے فقہ، تفسیر، سیرت، زہد اور اخلاق جیسے موضوعات کو شامل کرتی ہیں۔[58]

 
کتاب "تفسیر الصحابی الجلیل ابی بن کعب سید القراء" تألیف عبدالجواد خَلَف

وفات

اُبی بن کعب نے مدینہ میں وفات پائی۔[59] ان کی مختلف تاریخ وفات ذکر کی گئی ہیں لیکن پانچویں صدی ہجری کے مورخ ابن‌ عبد البر نے این کی وفات کو عمر بن خطاب کی خلافت(یعنی 13-23ھ) کے دور میں ذکر کی ہیں جو دیگر اقوال سے زیادہ مشہور ہے۔[60] تاریخی منابع میں 19، 20، 22، 30 اور 32 ہجری کو ان کی وفات کے سال کے طور پر ذکر کی گئی ہیں۔[61] اس روایت کے مطابق ان کی وفات عُمَر کے دور خلافت کے بعد ہوئی ہے کہا گیا ہے کہ ان کی نماز میت عثمان نے پڑھائی ہے۔[62]

مونوگراف

عبدالجواد خَلَف نے "تفسیرُ الصحابیّ الجَلیل اُبَیّ بن کَعب سَیّد القُرّاء" کے نام سے ایک کتاب میں تفسیر قرآن کے موضوع پر ابی بن کعب سے نقل ہونے والی احادیث کو جمع‌ کیا ہے۔[63] مصنف نے اس کتاب کے پہلے حصے میں اُبی بن کعب کی حالات زندگی اور دوسرے حصے میں ان کے تفسیری نظریات کو بیان کیا ہے۔[64] اس کتاب کو انتشارات دار البیان قاہرہ نے سنہ 2001ء میں 214 صفحات میں منتشر کیا ہے۔[65]

حوالہ جات

  1. ابن‌اثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج1، ص61۔
  2. ابن‌اثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج1، ص61۔
  3. ابن‌اثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج1، ص61۔
  4. مدنی، الدرجات الرفیعہ، 1983م، ص324۔
  5. خلف، تفسیر الصحابی الجلیل ابی بن کعب، 2001م، ص11۔
  6. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ص378۔
  7. ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، الخصال، 1362ہجری شمسی، ج2، 461؛ شیخ مفید، الفصول المختارہ، 1413ھ، ص90؛ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص75؛ و 113۔
  8. حلبی، تقریب المعارف، 1417ھ، ص234؛ 383؛ و 403۔
  9. شیخ صدوق، الخصال، 1362ہجری شمسی، ج2، 461۔
  10. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص114۔
  11. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص634۔
  12. صدر، تأسیس الشیعہ، 1375ہجری شمسی، ص324۔
  13. ابن‌مہران، المبسوط فی القرائات العشر، مجمع اللغۃ، العربیہ، ص23۔
  14. مؤدب، روش‌ہای تفسیر قرآن، 1380ہجری شمسی، ص45۔
  15. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج5، ص8۔
  16. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج5، ص36؛ نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج4، ص1914۔
  17. مقدمتان فی علوم القرآن، 1392ھ، ص42۔
  18. ترمذی، سنن الترمذی، 1395ھ، ج5، ص665؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص68۔
  19. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ص378۔
  20. خلف، تفسیر الصحابی الجلیل ابی بن کعب، 2001ء، ص13؛ ملاحظہ کریں: ابن‌ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج1، ص442–445۔
  21. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص423۔
  22. بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج1، 271۔
  23. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ص378۔
  24. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص9۔
  25. ذہبی، التفسیر و المفسرون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص92۔
  26. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص68۔
  27. بلاذری، انساب الأشراف، 1959م، ج1، ص531۔
  28. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص69۔
  29. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص68۔
  30. ملاحظہ کریں: ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص475–476۔
  31. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ص378؛ ابن‌قتیبہ، المعارف، 1992ھ، ج1 ص261۔
  32. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج6، ص179۔
  33. ابن‌جزری، غایۃ النہایہ، 1351ھ، ج1، ص31۔
  34. پاکتچی، "ابی بن کعب و علوم قرآنی"، ص464۔
  35. پاکتچی، "ابی بن کعب و علوم قرآنی"، ص464۔
  36. ابن‌جزری، غایۃ النہایہ، 1351ھ، ج1، ص31۔
  37. علوی‌مہر، آشنایی با تاریخ تفسیر و مفسران، 1384ہجری شمسی، ص79۔
  38. ابن‌ابی‌داود، المصاحف، 1423ھ، ص164–166۔
  39. ذہبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج3، ص193۔
  40. ابن‌ابی‌داود، المصاحف، 1423ھ، ص112۔
  41. ابن‌ابی‌داود، المصاحف، 1423ھ، ص105؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ص381۔
  42. ابن‌ندیم، الفہرست، 1417ھ، ص44–45۔
  43. معرفت، التمہید، 1415ھ، ج1، ص324–325۔
  44. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج1، ص26–27؛ معرفت، التمہید، 1415ھ، ج1، ص323۔
  45. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج1، ص26–27؛ معرفت، التمہید، 1415ھ، ج1، ص323۔
  46. ابن‌ندیم، الفہرست، 1417ھ، ص44–45۔
  47. علوی‌مہر، آشنایی با تاریخ تفسیر و مفسران، 1384ہجری شمسی، ص79۔
  48. زرکشی، البرہان، 1376ھ، ج2، ص127–128۔
  49. رضوان، آراء المستشرقین حول القرآن الکریم و تفسیرہ، 1413ھ، ج1، ص413۔
  50. ابن‌ندیم، الفہرست، 1417ھ، ص56۔
  51. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج16، ص262۔
  52. ملاحظہ کریں: طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج6، ص419، 463، 501، 535و607؛ ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج8، ص138، 220، 262، 301، 327و358۔
  53. ابن‌صلاح، معرفۃ انواع علوم الحدیث، 1406ھ، ص100۔
  54. ابن‌جوزی، الموضوعات، 1388ھ، ج1، ص241۔
  55. سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، 1421ھ، ج2، ص472۔
  56. نووی، تہذیب الأسماء، دار الکتب العلمیہ، ج1، ص109۔
  57. نووی، تہذیب الأسماء، دار الکتب العلمیہ، ج1، ص109۔
  58. سلیم، "ابی بن کعب"، 464۔
  59. ذہبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج3، ص195۔
  60. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص69۔
  61. ابن‌اثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج1، ص63۔
  62. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج5، ص116۔
  63. خلف، تفسیر الصحابی الجلیل ابی بن کعب، 2001ء۔
  64. خلف، تفسیر الصحابی الجلیل ابی بن کعب، 2001ء۔
  65. خلف، تفسیر الصحابی الجلیل ابی بن کعب، 2001ء۔

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • آلوسی، سید محمد، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • ابن‌ابی‌داود، ابوبکر، کتاب المصاحف، قاہرہ، الفاروق الحدیثہ، 1423ھ۔
  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دار الفکر، 1409ھ۔
  • ابن‌جزری، محمد بن محمد، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، بی‌جا، مکتبۃ ابن‌تیمیہ، 1351ھ۔
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، الموضوعات، تحقیق عبدالرحمان محمد بن عثمان، مدینہ، محمد عبدالمحسن صاحب المکتبۃ السلفیۃ بالمدینۃ المنورہ، 1386ق/1966ء۔
  • ابن‌جوزی، علی بن محمد، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1412ھ۔
  • ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن‌خلدون، بیروت، دار الفکر، 1408ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ۔
  • ابن‌صلاح، عثمان بن عبدالرحمن، معرفۃ انواع علوم الحدیث، بیروت، دار الفکر المعاصر، 1406ھ۔
  • ابن‌عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، بیروت، دار الجیل، 1412ھ۔
  • ابن‌قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1992ھ۔
  • ابن‌مہران، احمد بن حسین، المبسوط فی القرائات العشر، دمشھ، مجمع اللغۃ العربیہ، بی‌تا۔
  • ابن‌ندیم، محمد بن اسحاھ، الفہرست، بیروت، دار المعرفہ، 1417ھ۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویہ، بیروت، دار المعرفہ، بی‌تا۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، دار طوق النجاہ، 1422ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف، قاہرہ، دار المعارف، 1959ء۔
  • پاکتچی، احمد، "ابی بن کعب و علوم قرآنی"، در دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، جلد 6، تہران، مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1393ہجری شمسی۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، قاہرہ، مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، 1395ھ۔
  • ثعلبی، احمد بن ابراہیم، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • حلبی، تقی بن نجم، تقریب المعارف، بی‌جا، المحقھ، 1417ھ۔
  • خلف، عبدالجواد، تفسیر الصحابی الجلیل ابی بن کعب، قاہرہ، دار البیان، 2001ء۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، بیروت، دار الکتاب العربی، 1413ھ۔
  • ذہبی، محمدحسین، التفسیر و المفسرون، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • رضوان، عمر بن ابراہیم، آراء المستشرقین حول القرآن الکریم و تفسیرہ، ریاض، دار الطیبہ، 1413ھ۔
  • زرکشی، محمد بن عبداللہ، البرہان فی علوم القرآن، قاہرہ، دار احیاء الکتب العربیۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، 1376ھ۔
  • سلیم، عبدالامیر، "ابی بن کعب"، در دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، جلد 6، تہران، مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1393ہجری شمسی۔
  • سیوطی، جلال‌الدین، الاتقان فی علوم القرآن، بیروت، دار الکتاب العربی، 1421ھ۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، الخصال، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1362ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • صدر، سید حسن، تأسیس الشیعہ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، 1375ہجری شمسی۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، مشہد، نشر مرتضی، 1403ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، دار التراث، 1387ھ۔
  • علوی‌مہر، حسن، آشنایی با تاریخ تفسیر و مفسران، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1384ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • مؤدب، سید رضا، روش‌ہای تفسیر قرآن، قم، اشراھ، 1380ہجری شمسی۔
  • مدنی، سید علیخان کبیر، الدرجات الرفیعۃ فی طبقات الشیعہ، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1983ء۔
  • معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1415ھ۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بی‌جا، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بی‌تا۔
  • مقدمتان فی علوم القرآن، مصحح: جفری آرتور، قاہرہ، مکتبۃ الخانجی، 1392ھ۔
  • نووی، یحیی بن شرف، تہذیب الأسماء و اللغات، بیروت، دار الکتب العلمیہ، بی‌تا۔
  • نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، 1409ھ۔