رمیصاء بنت ملحان

ویکی شیعہ سے
رمیصاء بنت ملحان
کوائف
مکمل نامرُمَیصاء بنت مِلحان بن خالد بن زید
کنیتام سلیم
محل زندگیمدینہ
مہاجر/انصارانصار
اقاربانس بن مالک (بیٹا)ابو طلحہ، مالک بن نضر (شوہر)
دینی معلومات
اسلام لانامدینہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں
جنگوں میں شرکتجنگ احد، جنگ خیبر و جنگ حنین
وجہ شہرتصحابیہ، راوی حدیث


رُمَیصاء بنت مِلحان بن خالد بن زید پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب اور اہل مدینہ (انصار) میں سب سے پہلے مدینہ میں اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھیں۔

انہوں نے اسلام سے پہلے مالک بن نضر سے اور اسلام لانے کے بعد ابو طلحہ سے اس شرط پر شادی کی کہ وہ اسلام کو قبول کر لیں گے۔

انہوں نے جنگ خیبر و جنگ حنین جیسے بہت سے غزوات میں رسول اکرم (ص) کی ہمراہی کی۔ جنگ احد میں زخمیوں کا مداوی کرتی رہیں۔ وہ آنحضرت کے نزدیک بلند مرتبہ رکھتی تھیں۔ اس قدر کہ حضرت ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے اور ان کے اور شوہر کے اختلاف کو بذات خود حل فرماتے تھے۔

عائشہ، ام سلمہ اور انس بن مالک نے رمیضاء سے روایت نقل کی ہے۔

نام و نسب

ان کے سلسلہ میں مختلف نام جیسے غُمَیصا، سَہلہ، رُمَیلہ، انیفہ و رُمَیثہ بھی ذکر ہوئے ہیں۔[1] ان کی کنیت ام سلیم تھی اور اسی سے مشہور بھی تھیں۔ ان کا تعلق انصار اور قبیلہ خزرج سے تھا۔[2] ان کی ماں ملیکہ بنت مالک بن عدی کا تعلق قبیلہ بنی نجار سے تھا۔[3]

اسلام سے پہلے

رمیصاء نے قبل از اسلام مالک بن نضر کے ساتھ شادی کی اور ان سے ان کے یہاں انس پیدا ہوئے۔[4] مدینہ میں اسلام پھیلنے کے بعد ان کا شمار انصار میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھا۔ انہوں نے اپنے بیٹے انس بن مالک کو بھی اسلام کے لئے تشویق کیا۔[5] مالک بن نضر اپنی بیوی اور بیٹے کے اسلام قبول کرنے سے ناراض ہو کر شام چلا گیا اور وہیں اس کی وفات ہوئی۔[6]

رمیصاء نے مالک کی موت کے بعد اپنے بیٹے انس کے بڑے ہو جانے تک شادی نہیں کی۔[7] اس کے بعد جب ابو طلحہ نے ان شادی کی خواہش کی تو انہوں نے اس شرط پر کہ وہ اسلام قبول کر لیں اور بت پرستی کو ترک کر دیں گے اس رشتہ کو منظور کر لیا۔ ابو طلحہ مسلمان ہو گئے اور اس شادی کا ثمرہ ابو عمیر اور عبد اللہ تھے۔[8]

جنگوں میں شرکت

رمیصاء نے پیغمبر اکرم (ص) کے مدینہ میں وارد ہونے پر ان کا استقبال کیا اور انس کو جس کی عمر ۱۰ برس تھی حضرت کی خدمت پر مامور کیا۔[9]

انہوں نے بہت سے غزوات میں شرکت کی۔ جنگ احد (سن 3 ہجری) میں اپنی پشت پر پانی کا مشکیزہ لئے وہ زخمیوں کا مداوی کر رہی تھیں[10] اور اس وقت اپنے دفاع کے لئے ایک خنجر ان کے پاس تھا۔[11]

جنگ خیبر (سن 7 ہجری) میں وہ ان خواتین میں سے تھیں جنہوں نے اس جنگ میں شرکت کی۔[12]

سن ۷ ہجری میں اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے رسالت مآب کی دعوت اسلام کے جواب میں کچھ تحفے ارسال کئے جن میں دو کنیزیں بھی تھیں، جنہیں آپ نے کچھ عرصہ کے لئے رمیصاء کے پاس رکھا۔[13]

جنگ حنین (سن 8 ہجری) میں رمیصاء نے پیغمبر اسلام (ص) سے خواہش کی کہ جو لوگ میدان جنگ سے فرار کرتے ہیں وہ انہیں بھی مشرکین کی طرح قتل کر دیں۔[14] وہ مردوں کے فرار کرنے کے باوجود اور اس حال میں کہ حاملہ تھیں اور ان کے شکم میں عبد اللہ بن ابی طلحہ تھا، ثابت قدم رہیں۔ دفاع کے لئے ان کے پاس ایک خنجر تھا۔[15]

آنحضرت کی رحلت کے بعد

پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد رمیصاء کے حالات کے سلسلہ میں کوئی بات درج نہیں ہے۔ فقط ابن شہر آشوب[16] نے اس قول کے بارے میں ان سے روایت کی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آسمان سے سرخ رنگ کی بارش ہوئی ہے۔

آنحضرت کے نزدیک ان کا مرتبہ

انس بن مالک کے مطابق، رسول خدا (ص) ان سے ملاقات کے لئے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے اور وہاں مستحب نماز پڑھ کر ان کے اور ان کے خانوادہ کے لئے دعا فرماتے تھے۔[17]

جس وقت حضرت (ص) رمیصاء اور ابو طلحہ کے گھر کھانے پر موعو تھے، اللہ کی برکت سے تھوڑے سے کھانے میں وہ اور ان کے ہمراہ افراد سب سیر ہو گئے۔[18]

جس وقت رمیصاء اور ان کے شوہر کے درمیان اختلاف پیش آیا اور رمیصاء نے حضرت سے شکایت کی تو آپ ذاتی طور پر ان کے معاملہ کو حل فرمایا۔[19]

نقل روایت

ان کا شمار حدیث کے راویوں اور عاقل و فاضل خواتین میں ہوا ہے۔[20]

عائشہ، ام سلمہ اور انس بن مالک نے ان سے روایت نقل کی ہے۔[21]

حوالہ جات

  1. ابن ‌سعد، ج۸، ص۴۲۴؛ ابن‌ حجر عسقلانی، ج۸، ص۴۰۹
  2. ذہبی، ج۲، ص۳۰۴
  3. ابن ‌سعد، ج۸، ص۴۲۴ـ۴۲۵
  4. ابن ‌سعد، ج۸، ص۴۲۵؛ ابن‌ حجر عسقلانی، ج۸، ص۴۰۹
  5. ابن‌ سعد، ج۸، ص۴۲۴؛ ابن‌ حجر عسقلانی، ج۸، ص۴۰۹
  6. ابن عبد البرّ، ج۴، ص۱۹۴۰
  7. ابن‌ سعد، ج۸، ص۴۲۵ـ۴۲۶؛ ابن‌ حجر عسقلانی، ج۸، ص۴۰۹
  8. ابن ‌سعد، ج۸، ص ۴۲۵ـ۴۲۷
  9. ابن‌ حجر عسقلانی، ج۸، ص۴۱۰
  10. واقدی، ج۱، ص۲۴۹؛ ابن ‌سعد، ج۸، ص۴۲۵
  11. ذهبی، ج۲، ص۳۰۴
  12. واقدی، ج۲، ص۶۸۵؛ نک: ابن ‌ہشام، ج۳، ص۳۵۴؛ مقریزی، ج۱۰، ص۵۴
  13. طبری، ج۳، ص۲۱
  14. واقدی، ج۳، ص۹۰۳ـ۹۰۴؛ طبری، ج۳، ص۷۶ـ۷۷
  15. واقدی، ج۳، ص۹۰۴؛ ابن‌ سعد، ج۸، ص۴۲۵؛ ابن ‌ہشام، ج۴، ص ۸۸ـ۸۹
  16. ابن‌ شہر آشوب، ج۳، ص۲۱۲
  17. ابن ‌سعد، ج۸، ص۴۲۶ـ۴۲۷؛ ذہبی، ج۲، ص۳۰۹
  18. مالك‌ بن انس، ج۲، ص۹۲۷ـ۹۲۸؛ ابن‌ شہر آشوب، ج۱، ص۹۰؛ مقریزی، ج۵، ص۱۶۵
  19. احمد بن حنبل، ج۱، ص۲۱۴؛ ابن‌ عساكر، ج۳۷، ص۴۷۱
  20. ن ک: ابن ابی‌ حاتم رازی، ج۹، ص۴۶۴؛ ابن عبد البرّ، ج۴، ص۱۹۴۰
  21. ابن ‌اثیر، ج۶، ص۱۱۹، ۳۴۶

مآخذ

  • ابن ابی‌ حاتم رازی، الجرح و التعدیل، حیدر آباد دكن، ۱۳۷۳ق/۱۹۵۳ع
  • ابن‌ اثیر، اسد الغابہ فی‌ المعرفہ الصحابہ، چاپ محمد ابراہیم البنا، محمد احمد عاشور، محمود عبد الوہاب فاید، بیروت، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹ع
  • ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، چاپ عادل احمد عبد الموجود، علی‌ محمد معوض، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ع
  • ابن‌ سعد، الطبقات‌ الكبری، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵ع
  • ابن شہر آشوب، مناقب آل‌ابی طالب، نجف، ۱۳۷۶ق/۱۹۵۶ع
  • ابن‌ عبد البر، الاستیعاب فی معرفہ الاصحاب، چاپ علی‌ محمد بجاوی، بیروت، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ع
  • ابن‌ عساكر، تاریخ مدینہ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت، ۱۴۱۵ق
  • ابن‌ ہشام، السیره‌ النبویہ، چاپ مصطفی سقا، ابراہیم ابیاری و عبد الحفیظ شلبی، قاہره، ۱۹۳۶ع
  • احمد بن حنبل، مسند، دار صادر، بیروت، بی‌ تا
  • ذہبی، سیر اعلام‌ النبلاء، چاپ شعیب الارنووط، حسین اسد، بیروت، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳ع
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، چاپ محمدابراہیم ابو الفضل، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ع
  • مالك‌ بن انس، المؤطّأ، چاپ محمد فؤاد عبد الباقی، بیروت، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۵ع
  • مقریزی، امتاع‌ الاسماع، چاپ محمد عبد الحمید النمیسی، بیروت، ۱۴۲۰ق/۱۹۹۹ع
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، چاپ مارسدن جونس، بیروت، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹ع