اوس بن ثابت

ویکی شیعہ سے
(اوس بن ثابت خزرجی سے رجوع مکرر)
اوس بن ثابت
کوائف
مکمل ناماوس بن ثابت بن منذر خزرجی
مہاجر/انصارانصار
نسب/قبیلہبنی نجار، خزرج
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتجنگ احد
وجہ شہرتصحابہ
نمایاں کارنامےبیعت عقبہ دوم میں شرکت


اوس بن ثابت خزرجی، پیغمبر اکرم (ص) کے ان اصحاب و انصار میں سے ہیں جو جنگ احد میں شہید ہوئے۔ بعض مفسرین کے مطابق، سورہ نساء کی ساتویں آیت جو میراث کے احکام کے سلسلہ میں ہے، ان کی شہادت کے بعد ان کی میراث کی تقسیم کے وقت نازل ہوئی ہے۔

تعارف

اوس بن ثابت بن منذر، عصر نبوی (ص) کے مشہور شاعر حسان بن ثابت کے بھائی ہیں۔ ان کا تعلق بنی عمرو بن مالک کے خاندان اور قبیلہ خزرج کی شاخ قبیلہ بنی نجار سے تھا۔ اوس بیعت عقبہ دوم کے وقت موجود تھے[1] اور پیغمبر اکرم (ص) کی مدینہ ہجرت کے ساتھ ہی ان کا شمار انصار میں ہونے لگا۔[2] وہ مدینہ میں اپنے گھر پر عثمان بن عفان کے میزبان بنے۔[3]

قول مشہور کی بناء پر غزوہ احد میں شہید ہوئے ہیں۔[4] ایک دوسری روایت میں انہیں جنگ بدر، جنگ احد و جنگ خندق کا مجاہد شمار کیا گیا ہے اور ان کی وفات کو عثمان بن عفان کی خلافت کے زمانہ میں ذکر کیا ہے۔[5]

میراث کا ماجرا

مفسرین قرآن کریم سورہ نساء کی ساتویں آیت میں اوس بن ثابت کی طرف اشارہ اور اس کے نزول کو ان کی شہادت کے بعد ذکر کرتے ہیں۔ نقل کے مطابق، زمانہ جاہلیت میں رسم یہ تھی کہ میراث میں ازواج اور چھوٹے بچوں کو حصہ نہیں ملتا تھا[6] اور بیویوں اور بیٹیوں کو میراث نہیں ملتی تھی۔[7] اوس کی شہادت کے بعد ان کے چچا زاد بھائیوں نے ان کے تمام اموال کو اپنے قبضہ میں لے لیا[8] تو اوس کی زوجہ نے اپنی تین چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں رجوع کیا۔ آپ (ص) نے ان کے چچا زاد بھائیوں کو حکم دیا کہ جب تک وحی کے ذریعہ حکم خدا واضح نہیں ہو جاتا ہے وہ اوس کی میراث میں تصرف نہ کریں۔[9] انہوں نے آنحضرت (ص) کے حکم پر عمل کیا، یہاں تک کہ سورہ نساء کی ساتویں آیت نازل ہوئی[10] اور اس میں ذکر ہوا: لِلرِّجالِ نَصیبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوالِدانِ وَ الْأَقْرَبُونَ وَ لِلنِّساءِ نَصیبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوالِدانِ وَ الْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ کَثُرَ نَصیباً مَفْرُوضاً۔ ترجمہ: جو کچھ بھی والدین اور رشتہ دار اپنے بعد ترکہ چھوڑتے ہیں اس میں مردوں کا حصہ ہے اور جو کچھ والدین اور رشتہ دار اپنے بعد میراث چھوڑتے ہیں چاہے کم یا زیادہ ان میں عورتوں کا حصہ بھی ہے، ایک معین مقدار میں۔[11]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ابن ہشام، السیرة‌ النبویہ، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۱۰۱.
  2. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۲۰۳.
  3. ابن سعد، الطبقات الکبیر، ۱۴۲۱ق، ج۳، ص۵۵.
  4. ابن عبد البر،‌ الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ص۱۱۷.
  5. ابن اثیر، اسد الغایہ، ۱۴۳۳ق، ص۸۳.
  6. طباطبایی،‌ المیزان، ۱۴۳۰ق، ج۴، ص۲۹۹- ۳۰۱.
  7. طبرسی،‌ مجمع البیان،‌ ۱۴۲۷ق، ج۳، ص۱۹؛ فیض کاشانی، الصافی،
  8. ثعلبی،‌ تفسیر ثعلبی، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۲۶۰.
  9. ابن جوزی، زاد المسیر، ۱۴۲۳ق، ص۲۵۹.
  10. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۴۲۷ق، ج۶، ص۷۸.
  11. سوره نساء، آیہ ۷، ترجمہ عبد المحمد آیتی.

مآخذ

  • ابن اثیر، عز الدین، اسد الغایہ فی معرفت الصحابہ، بیروت، دار ابن حزم، ۱۴۳۳ق
  • ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، زاد المسیر فی علم التفسیر، بیروت،‌ المکتب الاسلامی، ۱۴۲۳ق
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبیر، قاہره،‌ مکتبہ الخانجی، ۱۴۲۱ق
  • ابن کثیر، الحافظ، البدایہ و النہایہ، بیروت،‌ مکتبہ المعارف، ۱۴۱۰ق
  • ابن ہشام، عبد الملک، السیرة‌ النبویہ، بیروت،‌ دار الکتاب العربی، ۱۴۱۰ق
  • ابن عبد البر ،‌ یوسف بن عبدالله،‌ الاستیعاب فی معرفت الاصحاب، بیروت،‌ دار الجیل، ۱۴۱۲ق
  • ثعلبی، احمد بن محمد، تفسیر الثعلبی، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۲ق
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، منشورات جماعة المدرسین، ۱۴۳۰ق
  • طبرسی،‌ فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن،‌ بیروت، دار المرتضی، ۱۴۲۷ق
  • فیض کاشانی،‌ محسن، تفسیر الصافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۱۹ق
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، بیروت، ‌موسسہ الرسالہ، ۱۴۲۷ق