آل بویہ

ویکی شیعہ سے
آل بویہ
آل بویہ
معلومات حکومت
دوسرے نامبنی بویہ
بانیعلی بن بویہ جنہیں اپنے بھائیوں معزالدولہ دیلمی اور حسن بن بویہ کی حمایت حاصل تھی
تاریخ تأسیسسنہ 321ہجری
جغرافیایی حدودایران، عراق، جزیره اور شام کےبعض علاقے
خصوصیاتپہلی مقتدر شیعہ حکومت
اہم اقداماتعاشور کے دن مجالس عزا کا انعقاد، عید غدیر کےموقع پر محافل کا انعقاد، ائمہؑ کی قبور پر روضہ تعمیر کرنا اور اذان میں حی علی خیر العمل کا رائج کرنا
زوالسنہ447ہجری
علت زوالسلجوق خاندان
قبل ازسلطنت غزنویہ
بعد ازآل زیاریان
افراد
مشہور حکمرانمعزالدولہ دیلمی، عضدالدولہ دیلمی


آل بویہ یا بنی بویہ شیعہ حکمرانوں کا ایک سلسلہ تھا جنہوں نے سنہ322ھ سے سنہ448ھ تک ایران کے کچھ علاقوں اور عراق میں اپنی حکومت قائم کی۔ سلسلہ آل بویہ کے بانی علی بن بویہ(متوفی: 338ھ) تھے۔ انہیں اپنی حکومت قائم کرنے کے سلسلے میں اپنے دونوں بھائیوں معزالدولہ دیلمی اور حسن بن بویہ کی حمایت حاصل تھی۔ اس سلسلے کا نام ان کے والد"بویہ" کے نام پر رکھا گیا۔ سلسلہ "بنی بویہ" کی حکومت کے دوران محرم کے مہینے میں عاشورا کے دن باقاعدہ طور پر امام حسینؑ کی عزاداری اور عید غدیر کے موقع پر جشن اعلان ولایت حضرت علیؑ کا عمومی سطح پر انعقاد کے علاوہ گلدستہ اذان سے حَی عَلی خَیرِ الْعَمَلْ بھی کہا جاتا تھا۔ اسی دوران نماز میں سجدہ کے لیے مہر کا استعمال اور تربت امام حسینؑ کی تسبیح بھی رائج ہوئی۔ آل بویہ کے حکمرانوں نے عراق میں مدفون ائمہؑ کی قبور پر روضوں کی تعمیر کا آغاز کیا اور ان مقدس مقامات کی زیارات کا سلسلہ بھی عام کرنے میں ان کا کردار رہا۔

تاریخ کے بعض محققین نے تاریخی مآخذ اور دیگر قرینوں سے سلسلہ آل بویہ کو مذہبی لحاظ سے شیعہ ثابت کیا ہے۔ البتہ کیا وہ لوگ آغاز ہی سے بارہ امامی شیعہ تھے یا زیدیہ مذہب سے امامیہ مذہب اختیار کیا ہے؟ اس سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حسن بن بویہ(دوران حکومت: 323ھ سے338ھ تک)، معز الدولہ دیلمی(دوران حکومت:325ھ سے 356ھ تک) اور عضد الدولہ دیلمی(دوران حکومت: 338ھ سے 372ھ تک) سلسلہ آل بویہ کے مشہور حکمرانوں میں سے تھے۔ آل بویہ کی تاریخ کے بارے میں مختلف تالیفات ملتی ہیں جیسے ابن مسکویہ کی کتاب "تجارب الامم" جسے پانچویں صدی ہجری میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب سلسلہ آل بویہ کی تاریخی دستاویز کے اہم منابع میں شمار ہوتی ہے۔

مقام اور اہمیت

سلسلہ آل بویہ نے ایران اور عراق کے بعض حصوں پر سنہ 322ھ سے 448ھ یعنی 120 سال سے زیادہ حکومت کی۔[1]ان کے دور حکومت میں کچھ شیعہ رسومات اور شعائر جیسے محرم الحرام میں عزاداری کا انعقاد اور عید غدیر خم کے موقع پر جشن پہلی بار سرکاری اور عوامی سطح پر منایا گیا۔ اس دور کو اسلامی تہذیب و تمدن کے شاندار ترین ادوار میں شمار کیا جاتا ہے۔[2] ابو شجاع بویہ کے بیٹے علی کے ذریعے ان کے دو بھائیوں احمد اور حسن کی حمایت سے آل بویہ حکومت کی بنیاد رکھی گئی اسی وجہ سے انہیں آل بویہ یا بنی بویہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ چونکہ اس خاندان کا تعلق دیلم کے علاقے سے تھا اس لیے انہیں دیالمہ[3] یا دیلمیان بھی کہا جاتا ہے۔[4]

مذہب

اسلام کی آمد کے بعد ایران میں حکومتیں

حکومت کا نام


خلفائے راشدین
بنی‌ امیہ
بنی‌ عباس
طاہریان
صفاریان
علویان طبرستان
سامانیان
زیاریان
آل بویہ
غزنویان
سلجوقیان
خوارزمشاہیان
ایلخانان
تیموریان
صفویان
افغانان
افشار
زند
قاجار
پہلوی
اسلامی جمہوریہ

حکومت کا دورانیہ


16 - 40 ھ
41 - 130ھ
131 - 205 ھ
205 - 259ھ
247 - 287ھ
250 - 316ھ
261 - 389ھ
315 - 462ھ
320 - 440ھ
388 - 555ھ
429 - 590 ھ
470 - 617ھ
654 - 736ھ
771 - 903ھ
907 - 1133ھ
1133 - 1142ھ
1148 - 1161ھ
1163 - 1209ھ
1209 - 1345ھ
1345ھ (1304شمسی)- 1357شمسی
1357شمسی- ...

بانی


ابوبکر
معاویہ
سفاح
طاہر ذوالیمینین
یعقوب لیث
داعی کبیر
نصر اول
مرداویج پسر زیار
عمادالدولہ علی
سلطان محمود
طغرل بیک
انوشتکین غرجہ
ہولاکو خان
تیمور گورکانی
شاہ اسماعیل اول
محمود افغان
نادرشاہ
کریم خان زند
آقامحمدخان
رضا شاہ
امام خمینی

"دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی" کی کتاب میں آل بویہ کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کرنے والے محقق صادق سجادی کے مطابق آل بویہ کے مذہب کے بارے میں واضح طور پر کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی[5] لیکن شیعہ تاریخ کے ماہر اور محقق رسول جعفریان (ولادت: 1346شمسی)[6] اور دیگر بعض مصنفین[7] نے کچھ تاریخی مآخذ کی بنیاد اور دیگر قرینوں کے ذریعے آل بویہ کا مذہب "شیعہ اثنا عشری" بتایا ہے۔ شیعہ رسومات کا رواج، شیعہ شعائر کا احیاء، حکومتی مشینری میں شیعہ لوگوں کو وزارت دینا، حکمرانوں کا شیعہ نام رکھنا اور حکمرانوں کا شیعہ علما سے رابطے میں رہنا، یہ سب آل بویہ کے شیعہ ہونے کی نشانیاں ہیں۔[8] اسی طرح آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت مورخ ابن کثیر دمشقی نے آل بویہ کو شیعہ (رافضی) جانا ہے۔[9] چھٹی صدی ہجری کے شیعہ عالم دین عبدالجلیل قزوینی رازی نے بھی اپنی کتاب "النقض" میں آل بویہ کو امامی مذہب قرار دیا ہے۔[10] بعض مصنفین نے طبرستان میں زیدی مذہب کے وجود پر قیاس آرائی کرتے ہوئے آل بویہ کو زیدی مذہب کے ماننے والے قرار دیا ہے۔[11] ان کی رائے کے مطابق آل بویہ کا خاندان آغاز میں زیدی مذہب کا پیروکار تھا بعد میں امامیہ مذہب اختیار کیا ہے۔[12] [یادداشت 1] اسی طرح رسول جعفریان نے چھٹی صدی ہجری کے شیعہ عالم دین، علی بن عبید اللہ رازی کی کتاب "تاریخ رے" سے ایک مطلب نقل کیا ہے جس کے مطابق مصنف نے ابن شہر آشوب سے نقل کیا ہے کہ آل بویہ خاندان کے لوگوں نے تاج الرؤسا نامی ایک شیعہ عالم دین کے ہاتھوں پر شیعہ مذہب اختیار کیا ہے۔[13] رسول جعفریان نے آل بویہ کے زیدی مذہب سے امامیہ مذہب کی جانب مائل ہونے کا یوں احتمال پیش کیا ہے کہ اگر وہ لوگ زیدی مذہب پر برقرار رہتے تو ان کے اوپر ضروری تھا کہ حکومت کی باگ ڈور علویوں کے سپرد کرتے، لیکن وہ مذہب امامیہ کے پیروکار ہونے کی صورت میں حکومت اپنے اختیار میں رکھتے۔[14] روسی یونیورسٹی کے پروفیسر Ilya Pavlovich Petroshevsky (پیدائش: 1898ء)، کا خیال ہے کہ آل بویہ حکومت کے بانی شیعہ تھے لیکن اس خاندان کے بعد کے افراد، اگرچہ باطنی طور پر شیعوں کی طرف مائل تھے لیکن ظاہری اور رسمی طور پر سنی تھے۔[15] «عراق میں شیعہ امامیہ رسومات کے رواج میں آل بویہ کا کردار» کے عنوان پر مقالہ تحریر کرنے والے محقق نے روسی پروفیسر کے فرضیے کو غلط قرار دیتے ہوئے احتمال دیا ہے کہ آل بویہ کے حکمرانوں کی جانب سے سلطنت عباسی کی خلافت کے قبول کرنے کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا ہے۔[16] اس کے علاوہ جرمن مستشرق برٹولڈ سپلر (1911-1990ء) نے اپنی کتاب «پہلی اسلامی صدیوں میں ایران کی تاریخ» میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ آل بویہ شروع سے ہی بارہ امامی شیعہ تھے اور آخر تک اسی رائے پر قائم رہے۔[17]

شیعہ رسومات کا رواج

آل بویہ نے شیعہ امامیہ رسومات کی ترویج کےسلسلے میں درج ذیل اقدامات کیے ہیں:

  • عاشور کے دن عزاداری کا انعقاد: معز الدولہ دیلمی کے حکم سے سنہ 352ھ ہجری کے یوم عاشورہ کےموقع پر عام سوگ کا اعلان کیا گیا اور لوگوں سے کہا گیا کہ وہ سیاہ لباس پہن کر غم منائیں۔ ابن خلدون کے مطابق اس دن شیعہ عورتیں مغموم حالت میں چہروں کو کالا کر کے اپنے گھروں سے نکلتی تھیں اور اپنے سروں اور چہروں کو پیٹتی ہوئی امام حسینؑ کا غم مناتی تھیں۔[18]نیز سنی مورخ ابن جوزی (متوفی: سنہ597ھ) کے تایخی نقل کے مطابق عاشورہ کے دن اہل سنت اپنے کاروبار بند کرتے تھے اور بازاروں میں خیمے لگائے امام حسینؑ کے لیے عزاداری کی مجلسیں منعقد کرتے تھے۔[19]شیعہ تاریخ کے محقق "کامل شیبی" کے مطابق عزاداری کے موقع پر جلوس عزا کا رواج پہلی بار سنہ 352ھ میں آغاز ہوا۔[20]
  • عید غدیر کے موقع پر محافل جشن کا انعقاد: سنہ 351ھ میں معز الدولہ دیلمی کے حکم سے بغداد میں عید غدیر کے موقع پر جشن و سرود کی محافل کا آغاز ہوا۔[21] اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے آل بویہ کے تمام حکمران عید غدیر کے موقع پر جشن کا اہتمام کرتے تھے.[22]
  • زیارت قبور ائمہ کا عام کرنا: آل بویہ حکمرانوں نے عراق میں مدفون ائمہؑ کی قبور سے متعلق کچھ اقدامات کیے؛ قبور ائمہؑ کی تعمیر اور مرمت، مزارات پر گنبد اور ضریح کی تعمیر،[23]

ائمہؑ کی زیارت گاہوں کےلیے نذورات دینا اور موقوفات متعین کرنا، زائرین کے لیے سفری سہولیات فراہم کرنا اور لوگوں کو ائمہ کے مزارات کے قریب سکونت اختیار کرنے کی ترغیب دینا اور ان مزارات پر خدمات انجام دینے والوں کی مالی معاونت اور ان کے لیے باقاعدہ طور پر تنخواہوں کا اہتمام کرنا۔[24]

  • شیعہ اذان کا عام کرنا: سنہ 356ھ میں اذان میں حی علی خیر العمل کہنا رواج پایا اور یہ سلسلہ سلجوقیوں کے غالب آنے تک جاری رہا۔[25]
  • نماز میں تربت امام حسینؑ کا مہر استعمال کرنا: آل بویہ دوران حکومت میں لوگ تربت سے مہر اور تسبیح بنا کر لوگوں میں تقسیم کرتے تھے۔[26]

بعض مصنفین نے آل بویہ دور میں ایسے سکوں کے رواج کے بارے میں لکھا ہے جن پر اللہ، محمد رسول اللہ اور علیؑ ولی اللہ کے الفاظ کندہ ہیں۔[27]

مشہور حکمران

آل بویہ حاکموں میں سے بعض مشہور حکمران یہ ہیں:

  • ابو شجاع دیلمی کے بیٹے علی بن بویہ دیلمی جن کا لقب عماد الدولہ دیلمی تھا۔ انہوں نے فارس میں آل بویہ حکومت کی بنیاد رکھی.
  • ابو شجاع کے دوسرے بیٹے حسن بن بویہ تھے جن کا لقب رکن‌ الدولہ تھا اور وہ جبال علاقے کے حاکم رہے۔ رے، جبال، طبرستان اور گرگان جیسے علاقوں میں آل بویہ حکومت کے قیام اور اس میں وسعت لانے کے سلسلے میں بہت سی جبگیں لڑیں۔
  • احمد بن بویہ جن کا لقب معزالدولہ دیلمی تھا۔ سنہ334ھ میں بغداد ان کے ہاتھوں فتح ہوا. انہوں نے بغداد میں عاشورہ کے دن عزاداری کے انعقاد[28] اور عید غدیر کے موقع پر محافل جشن [29] کا حکم جاری کیا.
  • عضدالدولہ دیلمی جو حسن بن بویہ کے بیٹے تھے۔ عضد الدولہ اپنے چچا کی وفات کے بعد فارس میں ان کا جانشین بنا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایران میں طاقتورترین شیعہ حاکم تھے جنہوں نے ایران اور اسلامی سرزمین کے بہت وسیع علاقوں میں اپنی حکمرانی قائم کردی. بغداد کے کھنڈرات کی تعمیر نو،[30] فارس میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر،[31] بغداد میں عضد نامی ہسپتال کی تعمیر،[32] حرم کاظمین سمیت دیگر ائمہ کے مزارات کی تعمیر،[33]، حرم عسکریین کی تعمیر نو،[34] اسی طرح مدینہ منورہ کی اطراف میں چار دیواری[35] ان کے دور حکومت کے اہم اقدامات میں شامل ہیں.

تشکیل حکومت کا تاریخی پس منظر

آل بویہ حکومت میں رائج سکوں کا ایک نمونہ

دیلمی خاندان نے چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں ایران میں سلطنت عباسی کے خلاف تحریک چلانا شروع کیا.[36] ماکان بن کاکی، اسفارین شیرویہ اور مرداویج زیاری اپنے ناؤ لشکر کے ساتھ دیلم سے نکلے. ابو شجاع کے دونوں بیٹے علی بن بویہ اور حسن بن بویہ سامانیاں کے حاکم "ماکان" کے ساتھ ملحق ہوگئے. مرداویج زیاری نے سنہ 321ھ میں گرگان اور طبرستان پر اپنا غلبہ حاصل کیا، علی اور حسن ماکان کی رائے حاصل کر کے مرداویج کے ساتھ چلے گئے. انہوں نے علی کو کرج کا حاکم بنادیا[37] علی کرج گیا اور قریبی قلعوں پر قبضہ کر کے مردویج کے لیے خوف کا باعث بن گیا، اس نے پہلے اصفہان پر قبضہ کرنے کا ارادہ کیا، لیکن مردویج کے بھائی کی فوج کے ہاتھوں اسے شکست ہوئی، اور تھوڑی مدت بعد اس نے ارجان اور نوبندجان پر قبضہ کر لیا اور اس کے بھائی حسن نے بھی اس کے حکم سے کازرون پر قبضہ کر لیا۔[38] علی نے سنہ322ھ میں شیراز پر قبضہ کیا اور یہاں آل بویہ کی حکومت قائم کی۔[39] تاہم، صادق سجادی کے مطابق، بعض مورخین نے ارجان کی فتح (321ھ/932ء) کو آل بویہ حکومت کی بنیاد کا آغاز قرار دیا ہے۔[40]اس کے بعد کے 12 سالوں کے دوران، حسن اور احمد نے بالترتیب رے، کرمان اور عراق کو فتح کیا اس طرح آل بویہ کی حکومت تین بڑی ریاستوں جبکہ کرمان اور عمان میں ایک چھوٹی ریاست میں منقسم ہوگئی۔[41]شیعہ مورخ علی اصغر فقیہی (متوفی: 2003ء) کے مطابق کتاب تجارب الأمم آل بویہ تاریخ کے سلسلے میں مصنفین کے اہم مآخذ میں سے ہے۔[42]اس کتاب کے مصنف احمد بن محمد رازی(۳۲۰-۴۲۰ھ) حکومت آل بویہ کے دوران بقید حیات تھے.[43]

مونو گراف

آل بویہ کے بارے میں کئی تصنیفات موجود ہیں چند کی طرف یہاں اشارہ کیا جاتا ہے:

  • کتاب تاریخ آل بویہ، علی‌اصغر فقیہی(1917-2033ء):اس کتاب میں آل زیار اور آل بویہ کی تاریخ اور ان کے عصری حالات کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ تصنیف 1378شمسی میں ایرانی یونیورسٹیوں کے انڈرگریجویٹ سطح پر تاریخ کے نصابی متن کے طور پر مرتب کی گئی تھی۔[44]
  • احیای فرهنگی در عهد آل بویہ انسان‌گرايى در عصر رنسانس اسلامى، تصنیف جوئل. ل. کرمز: اس کتاب میں آل بویہ کے حکومتی مراکز، خاص طور پر بغداد میں فکری اور ثقافتی ترقی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب کا فارسی میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔[45]
  • حیات علمی در عهد آل بویہ، تالیف غلام رضا فدایی، پروفیسر تہران یونیورسٹی (پیدائش: ۱۳۲۴شمسی): یہ کتاب شیعہ حکومتوں کے دور میں تعلیمی حالات کے مجموعے کا ایک حصہ ہے جس میں آل بویہ دور کے دانشوروں کا تذکرہ ملتا ہے۔[46]
  • التاجی فی اخبار الدولۃ الدیلمیۃ، تالیف ابراہیم بن ہلال صابی (وفات: ۳۸۴ھ)

آل بویہ کے بارے میں لکھنے والے مصنفین میں سے ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں آل بویہ کی تاریخ میں سے عضدالدولہ کے دور حکومت کے حالات لکھے ہیں۔ یہ کتاب عضد الدولہ کے حکم سے دیلامیوں اور ان کی حکمرانی کی تعریف کے لیے لکھی گئی تھی۔ ابن مسکویہ نے اپنی کتاب تجارب الامم کی تالید میں اس سے مدد لی ہے۔ اس کتاب کے قلمی نسخے کا ایک حصہ صنعاء کی جامع مسجد کی لائبریری میں رکھا گیا ہے۔ محمد حسین زبیدی نے اسے "المنتزع" من کتاب التاجی کے نام سے سنہ 1977ء میں بغداد میں شائع کیا ہے

نوٹ

  1. فاطمہ جعفر نیا کے مطابق اہل دیلم بعض علوی لوگوں جیسے ناصر کبیر اور حسن بن قاسم کے ذریعے اسلام اور تشیع سے آشنا ہوئے تھے؛ حسن بن قاسم کا تعلق زیدی مذہب سے تھا اور ناصر کبیر کے مذہب کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ (جعفرنیا، «بررسی نقش دولت آل بویہ در گسترش تشیع و عمران عتبات عراق»، ص۲۴.)

حوالہ جات

  1. سجادی، «آل بویہ»، ج۱، ص۶۲۹.
  2. گلی‌زواره، «بررسی نقش دولت آل بویہ در گسترش تشیع و عمران عتبات عراق»، ص۱۲۲.
  3. مشاہدہ کیجیے: مستوفی، نزہۃ القلوب، ص۹۸، ۹۹ و ۱۷۴.
  4. گلی‌زواره، «بررسی نقش دولت آل بویہ در گسترش تشیع و عمران عتبات عراق»، ص۱۲۲.
  5. سجادی، «آل بویہ»، ج۱، ص۶۴۰.
  6. جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، ۱۳۸۷شمسی، ص۳۷۵.
  7. جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، ۱۳۸۷شمسی، ص۳۷۶؛ جعفرنیا، «بررسی نقش دولت آل بویہ در گسترش تشیع و عمران عتبات عراق»، ص۲۴.
  8. جعفرنیا، «بررسی نقش دولت آل بویہ در گسترش تشیع و عمران عتبات عراق»، ص۲۴.
  9. ابن‌کثیر، البدایہ و النهایہ، ۱۴۰۷ھ، ج۱۱، ص۳۰۷.
  10. قزوینی، نقض، انجمن آثار ملی، ص۴۲.
  11. جعفرنیا، «بررسی نقش دولت آل بویہ در گسترش تشیع و عمران عتبات عراق»، ص۲۴.
  12. شیبی، الصلۃ بین التصوف و التشیع، ۱۹۸۲ء، ج۲، ص۳۹.
  13. جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، ۱۳۸۷شمسی، ص۳۸۰.
  14. جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، ۱۳۸۷شمسی، ص۳۷۸.
  15. پطروشفسکی اسلام در ایران، ۲۶۷ به نقل از پور احمدی، «آل بویہ و نقش آنان در برپایی مراسم و مواسم شیعہ امامیہ در عراق»، ص۱۱۲.
  16. پوراحمدی، «آل بویه و نقش آنان در برپایی مراسم و مواسم شیعه امامیه در عراق»، ص۱۱۲.
  17. اشپولر، تاریخ ایران در قرون نخستین اسلامی، ج۱، ص۳۶۳ به نقل از جعفریان، تاریخ ایران تشیع در ایران، ۱۳۸۷شمسی، ص۳۷۵.
  18. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۳۹۱ھ، ج۳، ص۴۲۵.
  19. ابن‌جوزی، المنتظم، ۱۳۵۸ھ، ج۷، ص۱۵.
  20. شیبی، الصلة بین التصوف و التشیع، ۱۹۸۲ء، ج۲، ص۳۹.
  21. ملاحظہ کیجیے: ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۳۹۱ھ، ج۳، ص۴۲۵-۴۲۰.
  22. ملاحظہ کیجیے: ابن‌جوزی، المنتظم، ۱۳۵۸ھ، ج۶، ص۱۶۳.
  23. ذہبی، العبر من خبر من غبر، ۱۴۰۵ھ، ص۲۳۲.
  24. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۴۲۴.
  25. ابن‌جوزی، المنتظم، ۱۳۵۸ھ، ج۸، ص۱۶۴؛ ابن خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، ۱۳۹۱ھ، ج۳، ص۴۶۰.
  26. ثعالبی، یتیمۃ الدہر، ۱۳۵۲ھ، ج۳، ص۱۸۳.
  27. نگاه کنید به جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، ۱۳۸۷شمسی، ص۳۸۰.
  28. ابن‌خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۵۲۷.
  29. ابن‌اثیر، الکامل، ۱۳۸۵شمسی، ج۸، ص۵۴۹.
  30. ابن‌مسکویہ، تجارب‌الامم، ج۶، ص۴۷۷ و ۴۷۸.
  31. فرشاد، تاریخ علم در ایران، ۱۳۶۶شمسی، ج۲، ص۷۹۰.
  32. فرشاد، تاریخ علم در ایران، ۱۳۶۶شمسی، ج۲، ص۸۴۹-۸۵۱.
  33. آل یاسین، تاریخ المشہد الکاظمی، ۱۴۳۵ھ، ص۲۴.
  34. محلاتی، مآثر الکبرا، ۱۳۸۴شمسی، ج۱، ص۳۲۱.
  35. سمہودی، وفاءالوفاء، ۲۰۰۶ء، ج۲، ص۲۶۹-۲۷۰.
  36. سجادی، «آل بویہ»، ج۱، ص۶۲۹.
  37. ابن‌اثیر، الکامل، ۱۳۹۹ھ، ج۸، ص۲۶۷.
  38. مقریزی، السلوک، ۱۹۴۲ء، ج۱، ص۲۷.
  39. ابن‌تغری، النجوم الزاهره، ۱۳۹۲ھ، ج۳، ص۲۴۴-۲۴۵.
  40. سجادی، «آل بویہ»، ج۱، ص۶۲۹.
  41. سجادی، «آل بویہ»، ج۱، ص۶۲۹.
  42. فقیہی، تاریخ آل بویہ، ۱۳۷۸شمسی، ص۱۷.
  43. فقیہی، تاریخ آل بویہ، ۱۳۷۸شمسی، ص۱۷.
  44. فقیهی، تاریخ آل بویه، ۱۳۷۸ش، ص۴.
  45. «احیای فرهنگی در عهد آل‌بویه: انسان‌گرایی در عصر رنسانس اسلامی»، شبکه جامع کتاب گیسوم.
  46. «حیات علمی در عهد آل‌بویه»، شبکه جامع کتاب گیسوم.

مآخذ

  • آل یاسین، محمدحسن، تاریخ المشهد الکاظمی، الامانة العامة للعتبة الکاظمیة المقدسة، ۱۴۳۵ھ/۲۰۱۴ء.
  • ابن‌اثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر، ۱۳۹۹ھ.
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، حیدرآباد دکن، دائرةالمعارف العثمانیة، ۱۳۵۸ھ.
  • ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۳۹۱ھ.
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶شمسی.
  • ابن‌مسکویه، احمد بن محمد، تجارب الامم و تعاقب الهمم، به کوشش آمدروز، قاهره، مطبعه بشرکه التمدن الصناعیه، ۱۳۳۲ھ.
  • ابن‌‌تغری‌، یوسف‌ بن‌ تغری‌، النجوم الزاهرة فی ملوک مصر و القاهرة، قاهره، وزارة الثقافة و الارشاد القومی المؤسسة المصریة العامة، ۱۳۹۲ھ/۱۹۷۲ء.
  • پوراحمدی، حسین، «آل بویه و نقش آنان در برپایی مراسم و مواسم شیعه امامیه در عراق»، سہ ماہہ جریدہ شیعه‌ شناسی، شماره ۳ و ۴، ۱۳۸۲شمسی.
  • ثعالبی، عبدالملک بن محمد، یتیمةالدهر، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۳۵۲ھ.
  • جعفرنیا، فاطمه، «سیاست‌های حکومت آل بویه در جهت تحکیم وحدت میان شیعه و اهل‌سنت»، تاریخنامه خوارزمی،شماره۲۲، تابستان ۱۳۹۷شمسی.
  • جعفریان، رسول، تاریخ تشیع در ایران، تهران، نشر علم، ۱۳۸۷شمسی.
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد او مدینة السلام منذ تاسیسها حتی سنة ۴۶۳ھ، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۰۷ھ.
  • ذهبی، شمس‌الدین محمد، العبر من خبر من غبر، به کوشش ابوهاجر محمد، بیروت، دارالکتب، العربیة، ۱۴۰۵ھ.
  • سجادی، صادق، «آل بویه»، در دایرة المعارف بزرگ اسلامی، تهران، مرکز دایرة‌المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۶۹شمسی.
  • سمهودی‌، علی ‌بن‌ احمپد، وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفی، تعلیق خالد عبدالغنی محفوظ، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۲۰۰۶ء.
  • شیبی، کامل مصطفی، الصلة بین التصوف و التشیع، دارالاندلس، بیروت، ۱۹۸۲ء.
  • فرشاد، مهدی، تاریخ علم در ایران، تهران، مؤسسه انتشارات امیرکبیر، چاپ اول، ۱۳۶۶شمسی.
  • فقیهی، علی‌اصغر، تاریخ آِل بویه، تهران، سازمان مطالعه و تدوین کتب علوم اسلامی دانشگاه‌ها (سمت)، ۱۳۷۸شمسی.
  • قزوینی، عبدالجلیل، نقض، تصحیح محدث ارموی، محدث، تهران، انجمن آثار ملی، بی‌تا.
  • گلی‌زواره، غلامرضا، «بررسی نقش دولت آل بویه در گسترش تشیع و عمران عتبات عراق»، زیارت، شماره۳۷، ۱۳۹۷شمسی.
  • محلاتی، ذبیح‌الله، مآثر الکبراء فی تاریخ سامراء، قم، المکتبة الحیدریة، ۱۳۸۴شمسی/۱۴۲۶ھ.
  • مستوفی، حمدالله بن ابی‌بکر، نزهة القلوب، قزوین، حدیث امروز، ۱۳۸۱شمسی.
  • «احیای فرهنگی در عهد آل‌بویه: انسان‌گرایی در عصر رنسانس اسلامی»، شبکه جامع کتاب گیسوم، اخذ ۱۲ مهر ۱۴۰۱شمسی.
  • «حیات علمی در عهد آل‌بویه»، شبکه جامع کتاب گیسوم، اخذ ۱۲ مهر ۱۴۰۱شمسی.