مسجد

ویکی شیعہ سے
(مساجد سے رجوع مکرر)
مسجد الحرام

مسجد اسلامی تعلیمات میں ایک با احترام، پاکیزہ اور مقدس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں پر اللہ تعالی کی عبادت کی جاتی ہے، خاص طور پر مسلمانوں کی اجتماعی عبادات مسجد میں انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے. مسلمان نماز یومیہ ،نماز عیدین ، جمعہ وغیرہ کو دوسری جگہوں کی نسبت مسجد میں انجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ قرآن کی بعض آیات سے اس کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور احادیث میں اس کے لئے مخصوص احکامات بیان ہوئے ہیں جو اس بات کے بیان گر ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں مسجد ایک خاص اہمیت کی حامل ہے اور تاریخی اسلامی میں تعلیم وتربیت کے ایک مرکز کی حیثیت سے مسجد کو پہچانا جاتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ مسلم معاشرے میں تعلیم کی تاریخ کا مسجد سے گہرا ربط اور تعلق ہےکیونکہ ابتدائے اسلام سے ہی ثقافت اسلامیہ کی نشر واشاعت اور تبلیغ میں مسجد کا کلیدی کردار رہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد نبوی کو درس وتدریس کی جگہ مقرر کیا تھا۔پس اسلام کی ابتدا سے ہی اسلام میں مسجد کو ایک کلیدی کردار کی حیثیت حاصل رہی اور مسلمانوں نے بھی اس اسلامی ورثے کی خوب حفاظت کی اور اسی کی آبادکاری میں ہمیشہ سے کوشاں رہے ۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

سجدہ کرنے کی جگہ کو مسجد کہا جاتا ہے ۔اسلامی اصطلاح میں ایسی مخصوص جگہ کو مسجد کہا جاتا ہے جہاں خدا کے حضور اس کے اوامر الہی کی انجام دہی کرتے ہوئے عبادت کی جاتی ہے ۔

اسلام کے اوائل سے ہی مسجد اور تعلیم و تربیت کا باہمی گہرا ربط وتعلق رہا ہے، بلکہ ابتدائے اسلام سے ہی ثقافت اسلامیہ کی نشر واشاعت اور تبلیغ میں مسجد کا کلیدی کردار رہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مسجد نبوی کو درس وتدریس کی جگہ مقرر کی تھی،

قرآن کی نگاہ

سورہ کہف میں ارشاد ہے : {قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا (21)} [الكهف: 21]

ترجمہ :(آخرکار) جو لوگ ان کے معاملات پر غالب آئے تھے وہ بولے کہ ہم ان پر ایک مسجد (عبادت گاہ) بنائیں گے۔ (21)

اس آیت سے گذشتہ تاریخ کے نیک افراد کی سیرت سے آشنائی کے ساتھ اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ حضرت عیسی کے پیروکاروں میں بھی عبادت خدا کیلئے ایک علیحدہ مقام تعمیر کرنے کی روش موجود تھی اور آسمانی مذاہب میں عبادت کیلئے بنائے جانے والے مخصوص مقامات کو وہ احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ قرآن پاک کے سورۂ توبہ میں ارشاد رب العزت ہے : يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ[؟؟] [التوبة: 18] ترجمہ: درحقیقت مسجدوں کو آباد وہ کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، نماز قائم کرتا ہے اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اللہ کے سوا اور کسی سے نہیں ڈرتا۔ انہی کے متعلق یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوں گے۔ (18) اس آیت مجیدہ میں مسجد تعمیر کرنے والے کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں جس سے ان دو باتوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مساجد اللہ کی نگاہ میں ایک با برکت اور اہم مقام ہے نیز انہیں تعمیر کرنے والے لوگ اللہ کی وحدانیت اور روز آخرت پر ایمان کے جذبے سے سرشار ہونگے اور یہی افراد ہدایت یافتہ ہونگے ۔ {وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ } [التوبة: 107]

ترجمہ:اور (منافقین میں سے) وہ لوگ بھی ہیں۔ جنہوں نے اس غرض سے ایک مسجد بنائی کہ نقصان پہنچائیں، کفر کریں اور مؤمنین میں تفرقہ ڈالیں۔ اور ان لوگوں کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا و رسول سے جنگ کر چکے ہیں .... (107) (اے رسول(ص)) تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا۔ اس آیت میں رسولخدا ؐ کے زمانے میں موجود منافق صحابہِ پیغمبر کے چھپے ہوئے عزائم سے پردہ اٹھاتے ہوئے اللہ خبر دے رہا ہے کہ ان اصحاب نے مسجد تو تعمیر کی لیکن اس سے انکا مقصد پیغام توحید کو عام کرنا نہیں بلکہ مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈالنا اور انہیں نقصان پہنچانا ہے ۔

مجموعی طور پر ان آیات سے یہ نتیجے حاصل کئے جا سکتے ہیں :

  • خدا کی عبادت کیلئے ایک مقام کو مخصوص کرنا سابقہ امتوں میں موجود تھا۔
  • سابقہ امتوں میں عبادت گاہوں کی تعمیر ایک احسن اقدام سمجھا جاتا تھا۔
  • توحید پرست ، روز جزا پر ایمان کے ساتھ مساجد کی تعمیر احسن عمل ہے ۔
  • مساجد مسلمانوں میں وحدت کی علامت ہے ۔
  • مساجد کی تعمیر اگر تقوے کی بنیاد پر نہ ہو تو ایسی مساجد اللہ کی نگاہ میں نا پسندیدہ ہیں ۔

احادیث کی نگاہ

اسلامی تعلیمات میں ایک جانب اللہ کی عبادت انجام دینے کیلئے حضور قلب کو مرکزیت حاصل ہے تو دوسری جانب نماز کو اساس دین کہا گیا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے مطالعے سے انسان اس بات کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اللہ نے نماز یومیہ کی ادائیگی میں انسان کے اندر حضور قلب پیدا کرنے کیلئے جن چیزوں کی ضرورت تھی اس کی طرف خود رہنمائی کی ہے ۔ ان امور میں سے سے ایک چیز نماز گزار کی جگہ ہے ۔ اس کے لئے مخصوص احکام بیان کئے گئے ہیں ۔ نماز گزار کیلئے مستحب ہے کہ اپنے گھر میں بھی اسے اگر نماز ادا کرنا ہوتو اسے چاہئے کہ اپنے گھر کے ایک حصے کو عبادت خدا کیلئے مخصوص کردے تا کہ نماز گزار جب اس مخصوص حصے میں داخل ہو تو وہ اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو ۔اسی طرح جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہوتا ہے تو وہ خود بخود وجود خدا کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور جب اس مقام پر نماز ادا کرتا ہے تو اس میں ایک مخصوص قسم کی روحانیت اور معنویت پائی جاتی ہے ۔خدا نے نماز یومیہ کی ادائیگی کیلئے مسجد کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور احادیث کے مطابق گھر میں پڑھی جانے والی نماز کی نسبت مسجد میں پڑھی جانے والی نماز زیادہ افضیلت رکھتی ہے ۔ ہم مختلف جہات کے حوالے سے مسجد کے متعلق چند احادیث ذکر کرتے ہیں جن سے مسجد کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے :

مسجدیں خدا کا گھر

  • رسول اللّه‏ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله :قالَ اللّه‏ُ تَبارَكَ وتَعالى : ألا إنَّ بُيوتي فِي الأَرضِ المَساجِدُ ، تُضيءُ لِأَهلِ السَّماءِ كَما تُضيءُ النُّجومُ لاِهلِ الأَرضِ .خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag
رسول اللہ ؐ:اللہ کا فرمان ہے کہ آگاہ رہو! مساجد زمین پر میرے گھر ہیں وہ اہل سما کو اس طرح منور کرتی ہیں جس طرح ستارے اہل ارض کو منور کرتے ہیں ۔
  • رسول اللہ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله :.....مَن أحَبَّ القُرآنَ فَليُحِبَّ المَساجِدَ ، فَإِنَّها أفنِيَةُ اللّه‏ِ وأبنِيَتُهُ ، أذِنَ في رَفعِها وبارَكَ :فيها ، مَيمونَةٌ مَيمونٌ أهلُها ، مُزَيَّنَةٌ مُزَيَّنٌ أهلُها ، مَحفوظَةٌ مَحفوظٌ أهلُها، هُم في صَلاتِهِم وَاللّه‏ُ في حَوائِجِهِم ، هُم في مَساجِدِهِم وَاللّه‏ُ مِن‏ وَرائِهِم .[1]
رسول اللہ :جو شخص قرآن کو محبوب رکھتا ہے وہی مسجد کو محبوب رکھتا ہے کیونکہ وہ خدا کے آستانے اور اس کی بنا ہیں،ان کی تعمیر کی اجازت دی گئی :ہے، یہ با برکت مقام ہیں،اہل مسجد مبارک ، محترم اور مزین ہیں نیز وہ خطرات سے محفوظ ہیں،وہ اپنی نمازوں میں مشغول ہیں تو اللہ انکی حاجات :برطرف کرنے میں مشغول ہے ،وہ مساجد میں ہیں تو اللہ ان کا محافظ ہے۔

مسجدیں نور خدا

  • رسول اللّه‏ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله :المَساجِدُ أنوارُ اللّه‏ِ .[2]
مسجدیں خدا کا نور ہیں

مسجدیں مقام شہادت اولیائے خدا

  • الإمام الصادق عليه ‏السلام :ما مِن مَسجِدٍ بُنِيَ إلّا عَلى قَبرِ نَبِيٍّ أو وَصِيِّ نَبِيٍّ قُتِلَ فَأَصابَ تِلكَ البُقعَةَ رَشَّةٌ مِن دَمِهِ ، فَأَحَبَّ اللّه‏ُ أن يُذكَرَ فيها ، فَأَدِّ فيهَا الفَريضَةَ وَ النَّوافِلَ ، وَاقضِ فيها مافاتَكَ .[3]
امام صادق عليہ ‏السلام : مسجد صرف ایسی جگہ بنائی جاتی ہے جہاں کسی نبی کی قبر ہوتی ہے یا اس جگہ اس کے وصی کو شہید کیا گیا ہوتا ہے پس اس بنا میں اس کا خون ملا ہوا ہے ،چونکہ خدا وند کریم مسجد میں ذکر پسند کرتا ہے اس لئے تم اس میں فریضۂ نماز ، نوافل اور اپنی قضا نمازیں ادا کرو۔

بہترین مقام

  • رسول اللہ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله :أكرَمُ البُيوتِ عَلى وَجهِ الأَرضِ أربَعَةٌ : الكَعبَةُ ، وبَيتُ المَقدِسِ ، وبَيتٌ يُقرَأُ فيهِ القُرآنُ ، وَالمَساجِدُ.[4]
رسول اللہ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله : کعبہ،بیت المقدس،جس گھر میں تلاوت قرآن ہوتی ہو اور مساجد یہ چار گھر زمین پر سب گھروں سے زیادہ اکرام کے حامل ہیں۔
  • لإمام الصادق عليه ‏السلام :إنَّ اللّه‏َ اختارَ مِن بِقاعِ الأَرضِ سِتَّةً : البَيتَ الحَرامَ ، وَالحَرَمَ ، ومَقابِرَ الأَنبِياءِ ، ومَقابِرَ الأَوصِياءِ ، ومَقاتِلَ الشُّهَداءِ ، وَالمَساجِدَ الَّتي يُذكَرُ فيهَا اسمُ اللّه‏ِ .[5]
امام صادق عليه ‏السلام :خدا نے زمین سے چھ مقامات کا انتخاب کیا ہے :خانۂ کعبہ، حرم، انبیاء کی قبور،اوصیا کی قبور،شہدا کے مقام شہادت اور جن مساجد میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔

تعمیر مسجد

  • كانَ مَوضِعُ مَسجِدِ النَّبيِ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله لِبَنِي النَّجّارِ ، وكانَ فيهِ نَخلٌ ومَقابِرُ لِلمُشرِكينَ . فَقالَ لَهُمُ النَّبيُ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله : ثامِنوني بِهِ ، قالوا : لانَأخُذُ لَهُ ثَمَناً أبَداً . قالَ : فَكانَ الَّنبيُّ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله يَبنيهِ وهُم يُناوِلونَهُ وَالنَّبيُّ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله يَقولُ : ألا إنَّ العَيشَ عَيشُ الآخِرَةِ ، فَاغفِر لِلأَنصارِ وَالمُهاجِرَةِ . قالَ : وكانَ النَّبيُّ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله يُصَلّي قَبلَ أن يَبنِيَ المَسجِدَ حَيثُ أدرَكَتهُ الصَّلاةُ .[6]
انس بن مالک سے روایت ہے کہ مسجد نبی ؐ کی جگہ قبیلۂ بنی نجار سے متعلق تھی جس میں کھجوروں کے درخت اور کچھ مشرکین کی قبریں تھیں۔رسول اللہ نے ان سے فرمایا اس جگہ کی قیمت لگاؤ۔انہوں نے جواب دیا ہم ہر گز اسکی قیمت نہیں لیں گے۔(جب اس مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو)رسول اللہ ؐ نے اسے اپنے دست مبارک سے تعمیر کیا اور وہ پیغمبر اقدس ؐ کو اینٹیں وغیرہ دیتے۔ رسول خداؐ کہتے: زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے ۔اے بار الہا! تو مہاجرین اور انصار کی مغفرت فرما۔ انس نے کہا : رسول خداؐ اس مسجد کو تعمیر سے پہلے جہاں نماز کا وقت ہوجاتا وہیں نماز ادا کرتے تھے ۔
  • رسول اللّه‏ صلى‏ الله‏ عليہ‏ و‏ آله :مَن بَنى مَسجِدا ولَو مَفحَصَ قَطاةٍ ، بَنَى اللّه‏ُ لَهُ بَيتا فِي الجَنَّةِ .[7]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:جو شخص مسجد تعمیر کرے چاہے اس کا اندازہ قطا نامی پرندے کے گھونسلے جتنا ہی کیوں نہ ہو تو اللہ اس کے لئے جنت میں تعمیر کرتا ہے۔
  • رسول اللہ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله :خَمسَةٌ في قُبورِهِم وثَوابُهُم يَجري إلى ديوانِهِم ... مَن بَنى للّه‏ِِ مَسجِدا .[8]
رسول خدا صلى‏ الله‏ عليہ‏ و‏ آله : پانچ ایسے افراد ہیں جو قبور میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے نامۂ اعمال دیوان کی مانند جاری ہیں :....جس نے خدا کیلئے مسجد تعمیر کی۔

مسجد اور عبادت الہی

فائل:20150910033818.jpg
مسجد الحرام میں نماز کا روح پرور منظر

اسلامی تعلیمات کے مطابق مسجد کو عبادت الہی کیلئے ہی بنایا گیا ہے ۔ اسی لئے اسلام کی اہم ترین عبادت نماز کو مسجد میں ادا کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔نماز کو مسجد میں ادا کرنے کے متعلق

  • رسول گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا ارشاد ہے :مَن صَلَّى المَغرِبَ وصَلاةَ العِشاءِ الآخِرَة و صَلاةَ الغَداةِ فِي المَسجِدِ في جَماعَةٍ ، فَكَأَنَّما أحيَا اللَّيلَ كُلَّهُ .جس شخص نے مغرب ،عشاء اور فجر کی نماز مسجد میں ادا کی گویا اس شخص نے ساری رات عبادت میں گزاری ہے ۔[9]۔
  • حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :الإمام عليّ عليه ‏السلام :صَلاةٌ في بَيتِ المَقدِسِ ألفُ صَلاةٍ ، وصَلاةٌ فِي المَسجِدِ الأَعظَمِ مِئَةُ صَلاةٍ ، وصَلاةٌ في مَسجِدِ القَبيلَةِ خَمسٌ وعِشرونَ صَلاةً ، وصَلاةٌ في مَسجِدِ السّوقِ اثنَتَا عَشرَةَ صَلاةً ، وصَلاةُ الرَّجُلِ في بَيتِهِ وَحدَهُ صَلاةٌ واحِدَةٌ .[10] امام علی ؑ:بیت المقد س میں پڑھی جانے والی نماز ہزار نمازوں ،جامع مسجد کی نماز سو نمازوں ،محلے کی مسجد کی نماز پچیس نمازوں ،بازار کی مسجد کی نماز بارہ نمازوں کے برابر ہے اور گھر میں پڑھی گئی نماز کا ثواب ایک نماز کے برابر ہے ۔
  • حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے :الإمام الصادق عليه ‏السلام :عَلَيكُم بِالصَّلاةِ فِي المَساجِدِ .ترجمہ : امام صادق ؑ : تم پر مساجد میں نماز ادا کرنا ضروری ہے ۔[11]


  • دینی احکامات میں سے اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جسے صرف مسجد میں ہی انجام دیا سکتا ہے ۔ بعض روایات کی بنا پر مسجدالحرام، مدینہ میں مسجد النبی(ص) ، مسجد کوفہ اور بصره میں اعتکاف انجام دیا جا سکتا ہے جبکہ دیگر بعض روایات میں مسجد جامع میں بھی اعتکاف پر بیٹھا جا سکتا ہے ۔[12]

پہلی مسجد

خانۂ کعبہ اس روئے زمین پر للہ کی جانب سے لوگوں کیلئے بنایا جانے والا پہلا گھر ہے۔جس کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہے : إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكاً وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ (ترجمہ: یقینا سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے لیے مقرر ہوا، وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت اور سرمایہ ہدایت تمام جہانوں کے لیے)[؟–96] خانہ کعبہ کی عظمت کیلئے بس یہی کافی ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ واجب اور مستحب نمازوں میں کعبہ کی طرف رخ کرے۔ خداوند متعال نے سنہ 2 ہجری میں کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا اور ارشاد فرمایا: فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (ترجمہ: بس اب مسجد حرام کی طرف اپنا رخ موڑا کیجئے)[؟–144] فطری امر ہے کہ ہر علاقے کا قبلہ وہاں کے جغرایائی طول و عرض کے تابع ہے۔[13] روایات میں مذکور ہے کہ زمین جب پانی سے نمودار ہوئی تو خانہ خدا کا موجودہ مقام سب سے پہلے خشکی کے ٹکڑے کے طور پر ظاہر ہوا ۔

اس آیت کے ذیل میں مفسران اختلاف نظر رکھتے ہیں کہ آیا خانہ خدا پہلی عبادتگاہ ہے یا پہلا گھر ہے ۔[14]

مراتب مساجد

مسجد قبا

مسجد الحرام ، بیت المقدس، مسجد نبوی، مسجد قبا،مسجد کوفہ ،مسجد سہلہ....وغیرہ ایسی مساجد ہیں جن میں عبادات الہی انجام دینے کے متعلق روایات میں تاکید کی گئی ہے ۔[15]

جبکہ تاریخ اسلامی میں مسجد ضرار ایسی مسجد گزری ہے جس کی ناپسندیدگی کا تذکرہ قرآن کی سورۂ توبہ کی آیت نمبر107 میں مذکور ہے ۔ کچھ مساجد کے متعلق روایات ایسی بھی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں عبادت نہ کرنا بہتر ہے جیسے مسجد الاشعث، مسجد جریر، مسجد سماک اور مسجد ربعی۔ یہ وہ مساجد ہیں جنہیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قتل کی خوشی میں تعمیر کیا گیا ۔[16] اس جہت سے مساجد کی دو اقسام مبارکہ اور ملعونہ کی جاتی ہیں۔ البتہ روایات میں یہ نام کوفے میں موجود مساجد کے حوالے سے ذکر ہوئے ہیں ۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag

احکام

مسجد کی نسبت اسلام میں مخصوص احکام مذکور ہوئے ہیں ۔ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں :-

  • اگر کوئی مسجد کیلئے زمین وغیرہ وقف کرے تو اس کے وقف کے قصد اور نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے بعد جیسے ہی کوئی ایک شخص وہاں نماز پڑھے گا تو وقف محقق ہو جائے گا بعض کے نزدیک ہے کہ اگر کوئی مسجد کیلئے زمین وقف کرے تو ظاہر یہ ہے اس میں قبض معتبر نہیں ہے بلکہ جیسے اس نے وقف کیا تو وقف محقق ہو جائے گا.[17]
  • مسجد کی زمین،چھت کا اندرونی یا بیرونی حصہ، اس کی اندرونی دیواروں کو نجس کرنا حرام ہے ۔ بعض کے نزدیک احتیاط واجب کی بنا پر اگر واقف نے مسجد کی دیوار کے بیرونی حصے کو مسجد کا جزو قرار نہ دیا ہو تو دیوار کی بیرونی طرف بھی نجس کرنا حرام ہے۔[18]
  • مسجد نجس ہونے کی صورت میں نجاست کو فورا برطرف کرنا ضروری ہے ۔[19]
  • مسجد کے کسی نجس حصے کا پاک ہونا کھودے یا خراب کئے بغیر ممکن نہ ہو تو اسے کھودا یا خراب کیا جائے ۔[20]
  • مسجد میں زینت کی غرض سے سونے کا استعمال احتیاط واجب کی بنا جائز نہیں ہے ۔[21]
  • اگر کوئی شخص مسجد کو غصب کرے اور اس کی جگہ گھر یا ایسی ہی کوئی چیز تعمیر کرے یا مسجد اس قدر ٹوٹ پھوٹ جائے کہ اسے مسجد نہ کہا جائے تو بھی اسے نجس کرنا احتیاط واجب کی پر حرام اور اسے ہاک کرنا واجب ہے ۔[22]
  • اگر خون کی مانند عین نجس چیز کا مسجد میں لانا اس کی بے احترامی سمجھی جاتی ہو تو اسے مسجد میں لانا حرام ہے ۔[23]
  • مسجد یا اس کے آلات کی خرید و فروش جائز نہیں اگرچہ وہ خراب ہی ہو جائیں اور نہ ہی اسے کسی اور مِلک میں شامل کرنا جائز ہے ۔[24]
  • جنابت اور حیض کی حالت میں مسجد میں بیٹھنا حرام ہے ۔ اگر ان مسجدوں میں سے کسی مسجد کو عبور کرے مثلاً ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے سے باہر نکل جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اس حالت میں ان مساجد میں کسی چیز کو مت رکھے ۔[25]

آداب

مستحبات

مسجد میں داخل ہونے کے بعداس کے احترام میں دو رکعت نماز پڑھنا۔ اگر کوئی واجب یا کوئی اور مستحب نماز پڑھ لے تو یہ بھی کافی ہے ۔ [26]

  • مسجد میں قبلہ رخ بیٹھنا،
  • حمد خدا اور درود بھیجنا،
  • مسجد میں طہارت کے ساتھ رہنا،[27]
  • مسجد کو پاک صاف رکھنا،
  • اس میں چراغ روشن کرنا،
  • مسجد جانے سے پہلے خوشبو لگانا،
  • صاف ستھرے اور قیمتی لباس کے ساتھ مسجد جانا،
  • مسجد جانے سے پہلے جوتوں کو دیکھنا تا کہ نجاست وغیرہ موجود نہ ہو ،
  • داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں پہلے رکھنا،
  • باہر نکلتے وقت بایاں پاؤں رکھنا،
  • مسجد میں پہلے جانا
  • آخر میں نکلنا ۔[28]
مکروہات
  • مسجد میں سونا،
  • دنیاوی امور کے بارے میں باتیں کرنا،
  • ایسے اشعار پڑھنا جن میں کوئی نصیحت کا پہلو نہ ہو،
  • تھوکنا
  • بلغم کا پھینکنا
  • کسی گمشدگی کا اعلان کرنا،
  • بلند آواز میں بولنا۔[29]
  • دیوانے یا بچے کو مسجد آنے کی اجازت دینا،
  • پیاز اور لہسن جیسی کوئی چیز کھا کر مسجد میں آنا جس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف ہو۔[30]
  • مسجد کی دیواروں کو زیادہ اونچا کرنا
  • میناروں کو چھت سے اونچا بنانا
  • بے جان چیزوں کے نقش و نگار بنانا
  • مسجد کے اندر سے گزرتے ہوئے دو رکعت نماز نہ پڑھنا
  • .....۔[31]

حوالہ جات

  1. .مستدرك الوسائل: ج 3 ص 355 ح 3766 نقلاً عن القطب الراوندي في لبّ اللباب .
  2. مستدرك الوسائل: ج 3 ص 448 ح 3962 نقلاً عن القطب الراوندي في لبّ اللباب .
  3. الكافى: ج3 ص370 ح14، تهذيب الأحكام: ج3 ص258 ح723، بحار الأنوار: ج14 ص463ح31.
  4. المواعظ العدديّۃ: ص 211 .
  5. كامل الزيارات: ص 241 ح 358 عن عبد اللّه‏ بن بكير ، بحار الأنوار: ج 101 ص 66 ح 57 .
  6. سنن ابن ماجہ : ج 1 ص 245 ح 742 ، مسند ابن حنبل : ج 4 ص 237 ح 12179 ، مسند أبي يعلي : ج 4 ص 174 ح 4163 اس میں یہ نہیں ہے: «والنبيّ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله يقول : ألا أنَّ... والمهاجرة» وكلاهما نحوه .
  7. الأمالي للطوسى: ص 183 ح 306 عن أبي قلابۃ ، كتاب من لا يحضره الفقيہ: ج 1 ص 235 ح 703 عن الإمام الباقر عليہ ‏السلام ، المحاسن: ج 1 ص 127 ح 147 عن هاشم الخلّال عن الإمام الصادق عليہ ‏السلام ، دعائم الإسلام: ج 1 ص 150 ، بحار الأنوار: ج 77 ص 121 ح 20؛ سنن ابن ماجۃ: ج 1 ص 244 ح 738 عن جابر اور اس میں ہے: «كمفحص قطاة أو أصغر» ، مسند ابن حنبل: ج 1 ص 519 ح 2157 عن ابن عبّاس ، مسند أبي يعلى: ج 4 ص 221 ح 4282 عن أنس نحوه ، حليۃ الأولياء: ج 4 ص 217 عن أبي ذرّ ، كنز العمّال: ج 7 ص 650 ح 20731 .
  8. جامع الأخبار: ص 283 ح 756 ، بحار الأنوار: ج 104 ص 97 ح 59 .
  9. معاني الأخبار : ص 251 ح 1 ، الأمالي للصدوق : ص 407 ح 525 كلاهما عن أبي بصير عن الإمام الصادق عن آبائه عليهم ‏السلام ، روضة الواعظين : ص 406 ، بحار الأنوار : ج 69 ص 369 ح 9 .
  10. تہذيب الأحكام : ج 3 ص 253 ح ۔698 ۔ كتاب من لا يحضره الفقيه : ج 1 ص 233 ح 702 ۔ فلاح السائل : ص 182 ح 90 ۔ روضة الواعظين : ص370 ، بحار الأنوار : ج 84 ص 15 ح 95 .ان میں کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ منقول ہے ۔
  11. الكافي : ج 2 ص 635 ح 1 ، الأمالي للمفيد : ص 186 ح 12
  12. کلینی، ج۴، ص۱۷۶؛ قس : مفید، ص۳۶۳.
  13. خرمشاہی، قوام الدین، کعبہ، در دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ج2، ص1883۔
  14. سيد محمّدحسين طباطبائي، المیزان، ج 3، ص 542. 24و25و26ـ سيد محمّدحسين فضل اللّه، تفسير من وحي القرآن، چ دوم، بيروت، دارالملاك، 1419، ج 6، ص 161. 27ـ رشيد رضا، تفسير المنار، چ دوم، دارالفكر للطباعہ والنشر، ج 1 ص 467.) 28ـ ناصر مكارم شيرازي ج 2، ص 9.نقل از سائیٹ
  15. رجوع کریں: حر عاملی ،وسائل الشیعہ ج 5 ص 193 ابواب احکام المساجد میں سے باب 43، 48 ،49 60،64۔
  16. وسائل الشیعہ ج 5 ص 250 ح 6462،6463،....
  17. توضیح السمائل مراجع مسئلہ 2681
  18. توضیح السائل مراجع مسئلہ 900۔
  19. توضیح السائل مراجع مسئلہ 900۔
  20. توضیح السائل مراجع مسئلہ 902۔
  21. توضیح السائل مراجع مسئلہ 908۔
  22. توضیح السائل مراجع مسئلہ 903۔
  23. توضیح المسائل مراجع مسئلہ 906۔
  24. العروۃ الوثقیٰ یزدی ج 2 ص 405۔
  25. کتاب الصلاۃ شیخ انصاری صص 587،588۔
  26. توضیح المسائل مراجع مسئلہ 913
  27. یزدی ،العروۃ الوثقی،ج 2 ص 408
  28. توضیح المسائل مراجع مسئلہ 912
  29. توضیح المسائل مراجع مسئلہ 914
  30. توضیح المسائل مراجع مسئلہ 915
  31. یزدی ،العروۃ الوثقی،ج 2 ص 408