حذیفۃ بن یمان
حُذَیفۃ بن یمان، پیامبر اکرمؐ کے صاحب اسرار صحابی اور سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ صدر اسلام کی بہت ساری جنگوں میں انہوں نے پیغمبر اکرمؐ کا ساتھ دیا۔ وہ حضرت علیؑ کے خاص اصحاب اور پیروکاروں میں سے تھے۔ بعض روایات میں انہیں امام علیؑ کے اصحاب کے ارکان اربعہ میں سے قرار دیا گیا ہے۔
حذیفہ سے امام علیؑ اور اہل بیتؑ کی شان میں مختلف روایات نقل ہوئی ہیں۔ انہوں نے خلفا کے دور میں فتوحات من جملہ جنگ نہاوند میں شرکت کی۔
فہرست
حسب و نسب
ابوعبداللہ حُذَیفۃ بن حِسْل یا حُسَیل ملقب بہ یمان[1] یمن کے قبیلہ عَبْس سے ان کا تعلق ہے۔[2]
یمان ظہور اسلام سے پہلے مدینہ چلے گئے اور قبیلہ اوس کے عبدالاشہل نامی طائفہ کے ساتھ ہم پیمان ہو گئے اور رباب بنت کعب سے شادی کی۔[3]
حذیفہ کے علاوہ رباب سے ان کے تین اور بیٹے سعد[4]، صفوان[5] اور مُدْلج[6] اور لیلی،[7] سلمہ[8] اور فاطمہ نامی بیٹیاں ہوئیں۔[9]
پیغمبر اکرمؐ کے دور میں
- حذیفہ سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے،[10] اور پیغمبر کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ وہ ایک طرف سے مہاجرین میں سے تھے اور ایک طرف سے چونکہ مدینہ کے ایک قبیلہ کے ساتھ ہم پیمان ہونے کی وجہ سے انصار میں بھی شامل ہوتے تھے۔ رسول خداؐ نے حذیفہ کو اس بارے میں اختیار دیا تو اس نے انصار ہونے کو انتخاب کیا[11] اور پیغمبر اکرمؐ نے بھی اس کی تأیید فرمائی[12] اس کے بعد اخوت میں مہاجرین میں سے عمار کو ان کا بھائی بنا دیا۔[13]
- حذیفہ جنگ بدر؛[14] میں شرکت نہیں کی لیکن جنگ احد میں اپنے والد کے ساتھ انہوں نے بھی شرکت کی اور مسلمانوں نے غلطی سے ان کے والد کو قتل کر ڈالا۔[15] حذیفہ نے اپنے والد کے قاتلوں کی مغفرت کیلئے دعا کی اور چونکہ ان کے والد کا دیہ رسول خداؐ نے بیت المال سے ادا کیا تو حذیفہ نے ان کو معاف کر دیا۔[16]
- حذیفہ کو جنگ خندق میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے دشمن کے کمپ سے مخبری کرنے کی ذمہ داری سونپ دی تھی جسے انہوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ انجام دیا.[17] انہوں نے رسول خداؐ کے دوسرے غزوات میں بھی آپؐ کا ساتھ دیا۔[18]
- پیغمبر اکرمؐ کو ان پر اعتماد تھا اسی لئے مستقبل کی بہت ساری خبریں اور آئندہ رونما ہونے والے بہت سارے واقعات اور فنتوں سے ان کو آگاہ فرمایا اور بہت سارے مناققوں کی باطنی حالت سے بھی انہیں با خبر کراتے ہوئے بعض منافقین کی نشاندی فرمائی تھی۔[19] خاص کر رسول خداؐ نے تبوک سے واپسی پر ان کے مرکب کو بھگانے والے ایک ایک منافقین کا نام ان کو بتایا۔ [20] اسی بنا پر سیرہ نگاروں نے انہیں رسول خداؐ کے صاحب اسرار کے عنوان سے یاد کیا ہے۔[21] رسول اکرمؐ نے حذیفہ اور حضرت علیؑ کے بارے میں فرمایا: "یہ تمام لوگوں سے زیادہ منافقین کو پہچانتے ہیں۔" [22]
- حذیفہ سے بہت سارے لوگوں نے حدیث نقل کی ہے۔[23] وہ پرہیزکاری، دنیاگریزی اور ثروتاندوزی سے دوری اختیار کرنے میں معروف تھے۔[24]
خلفائے ثلاثہ کے دور میں
عمر بن خطاب نے حذیفہ کو جنگ نہاوند میں اسلامی فوج کے سپہ سالار کا جانشین بنایا اور نعمان بن مقرن کے مارے جانے کے بعد حذیفہ نے سپاہ اسلام کی کمانڈ سنبھال لی اور نہاوند کو فتح کیا۔[25] انہوں نے نہاوند کو فتح کرنے کے بعد ایران کے بعض دوسرے شہروں کو بھی فتح کیا۔[26]
حذیفہ عمر کے دور خلافت میں مدائن کی گورنری پر بھی منصوب ہوئے۔[27]
قرآنی نسخوں کو یکساں کرنے کی تجویز
حذیفہ نے عثمان کے دور خلافت میں ابوذر کی تشییع میں شرکت کی [28] اور یہ حذیفہ ہی تھے جنہوں نے قرآنی نسخوں میں اختلاف کو دیکھتے ہوئے قرآنی نسخوں کو یکساں بنانے اور ایک ہی نسخہ کو تمام اسلامی مملکت میں رائج کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔[29]
امام علیؑ کے دور میں
حضرت علیؑ کے اصحاب میں انہیں نمایاں مقام حاصل تھا اور انہیں آپ کے اصحاب کے ارکان اربعہ میں سے ایک رکن کی حیثیت حاصل تھی۔ [30] کشی[31] نے ایک روایت میں حذیفہ کو ان سات افراد میں سے ایک قرار دیا ہے جن کے سبب خدا لوگوں پر اپنی رحمتوں کو نازل کرتا ہے یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حضرت فاطمہ(س) کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور انہیں سپرد خاک کیا۔
جب حضرت علیؑ جنگ جمل میں شرکت کرنے کیلئے ذوقار نامی جگہ پر پہنچے تو حذیفہ نے ساتھیوں سے کہا: خود کو امیرالمؤمنینؑ اور سیدالمرسلین کے وصی برحق کی خدمت میں پہنچائیں کیونکہ حق ان کی حمایت کرنے میں ہے۔[32]
ان سے امام علیؑ [33] واور اہل بیت رسول خداؑ[34] کی شان اور منزلت میں احادیث نقل ہوئی ہیں.
حذیفہ نے پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں آپ کے بعد آنے والے بارہ اماموں یعنی ائمہ معصومین کی تصریح کی ہے۔ [35]
مسعودی[36] نے جنگ صفّین میں حذیفہ کی دو بیٹوں صفوان اور سعد کے ساتھ حضرت علیؑ کی حمایت کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں اس جنگ کے شہداء میں شمار کیا ہے۔ لیکن طبری،[37] کے مطابق ان کے بیٹے سعد قیام توابین کے وقت تک زندہ تھے اور سلیمانبن صُرَد خزاعی نے ایک خط کے ذریعے ان سے مدد طلب کی اور سعد نے بھی اپنی آمادگی کا اظہار کیا تھا۔
حذیفہ سنہ ۳۶[38] یا ۳۷[39] کو مدائن میں وفات پائی۔ حذیفہ کے نواسے تیسری صدی ہجری قمری تک مدائن میں مقیم تھے۔[40]
ان کے جنازے کا سالم کشف ہونا
ہادی الجبوری سلمان فارسی کے مقبرے کے متولی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا: "حذیفہ شروع میں سلمان فارسی کی قبر سے دو کیلومیٹر کے فاصلے میں دریائے دجلہ کے کنارے مدفون تھے۔ سنہ ۱۹۳۱ عیسوی میں دریائے دجلہ کا پانی ان کی قبر تک پہنچ گیا اسی بنا پر آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی نے حکم دیا کہ ان کے جسد کو کسی امن جگہ منتقل کیا جائے۔ جب قبر کھودی گئی تو دیکھا کہ ان کا جسد تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی بالکل صحیح و سالم تھا۔" [41]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ ابن حجر عسقلاني، الإصابۃ، ج۶، ص۵۴۲
- ↑ ابنسعد، طبقات، ج ۷، ص۳۱۷، ج ۸، ص۳۲۰؛ ابناثیر، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج ۱، ص۳۹۰
- ↑ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۷، ص۳۱۷؛ ابناثیر، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج ۱، ص۳۹۰.
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، ج ۶، ص۲۱۵
- ↑ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۷، ص۳۱۷
- ↑ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۸، ص۳۴۲
- ↑ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۳، ص۴۴۱
- ↑ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۶، ص۲۱۵
- ↑ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۸، ص۳۲۰.
- ↑ رجوع کنید بہ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۳، ص۲۵۰
- ↑ ابنقتیبہ،المعارف، ص۲۶۳؛ ابنحجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج ۲، ص۴۰
- ↑ ابنقتیبہ، المعارف، ص۲۶۳.
- ↑ ابنہشام، السیرۃالنبویۃ، ج ۱، ص۳۵۵؛ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۳، ص۲۵۰.
- ↑ ابناثیر، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج ۱، ص۳۹۱؛ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۷، ص۳۱۷
- ↑ واقدی، مغازی، ج ۱، ص۳۰۱؛ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۲، ص۴۳
- ↑ واقدی، مغازی، ج ۱، ص۲۳۳ـ۲۳۴.
- ↑ واقدی، مغازی، ج ۲، ص۴۸۸ـ۴۹۱؛ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۲، ص۶۹
- ↑ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۶، ص۱۵.
- ↑ رجوع کنید بہ مروزی، کتابالفتن، ص۱۴؛ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۲، ص۳۴۶
- ↑ واقدی، ج ۳، ص۱۰۴۲ـ ۱۰۴۴؛ قطب راوندی، الخرائج و الجرائح ج ۲، ص۵۰۴ـ۵۰۵.
- ↑ ابنعبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، قسم ۱، ص۳۳۵؛ ابناثیر، ج ۱، ص۳۹۱ اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۲۸۰ـ۱۲۸۶؛ ابنحجر عسقلانی، ہمان جاہا
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، ج ۱، ص۱۲۷
- ↑ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج ۵، ص۴۹۷ـ۴۹۹
- ↑ ابونعیم اصفہانی، حیلۃالاولیاء و طبقاتالأصفیاء، ج ۱، ص۲۷۰ـ۲۸۳؛ ابنجوزی،کتاب صفۃ الصفوۃ، ج ۱، ص۲۴۹ـ۲۵۱.
- ↑ مقدسی، ج ۵، ص۱۸۱؛ ابناثیر، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ہمانجا.
- ↑ ابناثیر، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج ۱، ص۳۹۱.
- ↑ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۷، ص۳۱۷.
- ↑ یعقوبی،تاریخ، ج ۲، ص۱۷۳
- ↑ رجوع کنید بہ ابنشبّہ نمیری، تاریخالمدینۃالمنورۃ، ج ۳، ص۹۹۲؛ ابنندیم، ص۲۷.
- ↑ طوسی، رجال الطوسی، ص۶۰
- ↑ اختیار معرفۃالرجال،ص ۶ـ۷
- ↑ ابنابیالحدید، شرح نہجالبلاغۃ، ج ۲، ص۱۸۸.
- ↑ رجوع کنید بہ مفید، ج ۱، ص۹۱
- ↑ اربلی، کشفالغمۃفیمعرفۃالائمۃ،ج ۲، ص۹۵، ۲۱۹
- ↑ خزاز رازی، کفایۃ الاثر فی النص علیالائمۃ الاثنیعشر، ص۱۳۶.
- ↑ مروج الذہب ج ۳، ص۱۳۱
- ↑ تاریخ طبری،ج ۵، ص۵۵۵
- ↑ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۷، ص۳۱۷
- ↑ ابنبابویہ، الامالی، ص۴۹۰؛ فتال نیشابوری، ج ۲، ص۲۸۶
- ↑ ابنسعد،الطبقات الکبری، ج ۷، ص۳۱۷.
- ↑ سلمان فارسی کے مقبرے کے متولی کا انٹرویو
مآخذ
- ابنابیالحدید، شرح نہجالبلاغۃ، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ ۱۳۸۵ـ ۱۳۸۷/ ۱۹۶۵ـ۱۹۶۷، چاپ افست بیروت، بیتا۔
- ابناثیر، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، قاہرہ ۱۲۸۰ـ۱۲۸۶، چاپ افست بیروت بیتا۔
- ابناثیر، اللباب فی تہذیب الانساب، بیروت ۱۴۱۴ /۱۹۹۴۔
- ابنبابویہ، الامالی، قم ۱۴۱۷۔
- ابنجوزی، کتاب صفۃ الصفوۃ، حیدرآباد، دکن ۱۳۵۵ ـ ۱۳۵۶۔
- ابنحجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، چاپ عادل احمد عبدالموجود و علیمحمد معوض، بیروت ۱۴۱۵/ ۱۹۹۵۔
- ابنسعد، الطبقات الکبری، (بیروت)، ۱۹۶۸-۱۹۷۷۔
- ابنشبّہ نمیری، کتاب تاریخالمدینۃالمنورۃ : اخبارالمدینۃ النبویۃ، چاپ فہیم محمد شلتوت، (جدّہ) ۱۳۹۹/۱۹۷۹، چاپ افست قم ۱۳۶۸ش۔
- ابنعبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، چاپ علیمحمد بجاوی، قاہرہ (۱۳۸۰/ ۱۹۶۰)۔
- ابن قتیبہ، المعارف، چاپ ثروت عکاشہ، قاہرہ ۱۹۶۰۔
- ابن ندیم (تہران)۔
- ابنہشام، السیرۃالنبویۃ، چاپ سہیل زکار، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
- ابونعیم اصفہانی، حیلۃالاولیاء و طبقاتالأصفیاء، چاپ محمدامین خانجی، بیروت ۱۳۸۷/۱۹۶۷۔
- علیبن عیسیاِربلی، کشفالغمۃفیمعرفۃالائمۃ، بیروت ۱۴۰۵/ ۱۹۸۵۔
- علیبن محمد خزاز رازی، کفایۃ الاثر فی النص علیالائمۃ الاثنیعشر، چاپ عبداللطیف حسینی کوہ کمری خوئی، قم ۱۴۰۱۔
- احمدبن علی طبرسی، الاحتجاج، چاپ محمدباقر موسویخرسان، بیروت ۱۴۰۱/۱۹۸۱۔
- طبری، تاریخ (بیروت)۔
- محمدبنحسن طوسی، رجال الطوسی، چاپ جواد قیومی اصفہانی، قم ۱۴۱۵۔
- محمدبن حسن فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، نجف ۱۳۸۶/۱۹۶۶، چاپ افست قم ۱۳۶۸ش۔
- سعیدبن ہبۃاللّہ قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، قم ۱۴۰۹۔
- محمدبن عمر کشی، اختیار معرفۃالرجال، (تلخیص) محمدبنحسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشہد ۱۳۴۸ش۔
- نعیمبن حماد مروزی، کتابالفتن، چاپ سہیلزکار، (بیروت) ۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
- یوسف بن عبدالرحمان مزّی، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، چاپ بشار عواد معروف، بیروت ۱۴۲۲/۲۰۰۲۔
- مسعودی، مروج الذہب (پاریس)۔
- محمدبن محمد مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم:دار المفید، بیتا۔
- مطہربن طاہر مقدسی، کتابالبدء و التاریخ، چاپ کلمان ہوار، پاریس ۱۸۹۹ـ۱۹۱۹، چاپ افست تہران ۱۹۶۲۔
- محمدبن عمر واقدی، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن ۱۹۶۶۔
- یعقوبی، تاریخ۔
|
|