ہجرت حبشہ

ویکی شیعہ سے

ہجرت حبشہ کے واقعہ میں مسلمانوں کا ایک گروہ مکہ کے مشرکین کے ظلم وستم کی وجہ سے حبشہ کی جانب روانہ ہوا. یہ ہجرت بعثت کے پہلے سالوں میں رسول خدا(ص) کے حکم سے کی گئی. قریش نے ان مسلمانوں کو مکہ واپس لانے کے لئے عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو حبشہ روانہ کیا لیکن نجاشی مسلمان مہاجرین کے سرپرست جعفر بن ابی طالب کی گفتگو سے متاثر ہوا ،اس لئے قریش کی طرف سے آئے ہوئے افراد خالی ہاتھ لوٹ گئے۔ حبشہ میں کئی اہم مسلمان شخصیات کی وفات اور کئی اہم شخصیات کی ولادت ہوئی۔ حضرت زینب(س) کے شوہر عبداللہ بن جعفر کی ولادت بھی حبشہ میں ہی ہوئی.

ہجرت کا سبب

حضرت پیغمبر(ص) کی بعثت کے بعد مکہ کے کچھ افراد آپ(ص) پر ایمان لائے جس کی وجہ سے قریش نے انہیں کو اذیت و آزار دینا شروع کر دیا[1] جس کی وجہ سے حضرت پیغمبر(ص) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کریں کیونکہ حبشہ کا حاکم نجاشی مسیحی عادل تھا.[2] اس مہاجرت کا علم کسی کو نہیں تھا اور اس میں انکے تاجروں کی دو کشتیاں بھی آدھی قیمت پر حبشہ لے گئے.[3] مسلمانوں نے ایک بار پھر حبشہ ہجرت کی. یعقوبی کے بقول پہلی ہجرت میں ١٢ اور دوسری بار ٧٠ مرد بغیر عورتوں اور بچوں کے حبشہ کی طرف روانہ ہوئے.[4]

پہلی ہجرت

پہلی ہجرت میں، حبشہ جانے والوں میں مردوں کی تعداد ١١ اور عورتوں کی تعداد ٤ تھی. مشرکین نے انکا پیچھا کیا لیکن ان تک رسائی حاصل نہ کر سکے. مسلمان ابھی حبشہ میں تھے کہ انکو اطلاع دی گئی کہ قریش کے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا ہے لہذا مسلمان مکہ واپس لوٹ آئے. جب مکہ کے نزدیک پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے. [5] لیکن چونکہ مسلمان اب واپس نہیں لوٹ سکتے تھے اس لئے ایک ایک ہو کر مختلف لوگوں سے مدد لیتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے.[6] ان مہاجرین میں سے ایک عثمان بن مظعون تھے جنھوں نے ایک مشرک کے گھر پناہ لی ہوئی تھی لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ دوسرے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور آزار و اذیت دی جا رہی ہے تو انھوں نے بھی اپنی پناہ کو ترک کر دیا. عثمان کو اذیت وآزار برداشت کرنے کے بعد خوشی کا احساس ہو رہا تھا.[7]

پہلی ہجرت کے مہاجرین

دوسری ہجرت

دوسری بار دوبارہ پیغمبر اسلام(ص) کے حکم سے مسلمانوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی اس بار مسلمانوں کی سرپرستی جعفربن ابی طالب کے ذمہ تھی اس میں مہاجرین کی تعداد ٨٣ افراد تھی.[18]

دوسری ہجرت کے مہاجرین

  • جعفر بن ابی طالب، جو کہ سرپرست تھے جنہیں بعد میں جعفر ذی الجناحین اور طیار کا لقب بھی ملا.[19]
  • آپکی زوجہ اسماء بن عمیس اور فرزند عبداللہ، محمد اور عون.
  • سودہ اپنے شوہر سکران کے ہمراہ حبشہ گئیں لیکن سکران وہاں جا کر مسیحی ہو گیا اور وہیں پر دنیا سے چلا گیا. سودہ نے بعد میں رسول خدا(ص) سے شادی کر لی.[20][21]
  • ام حبیبہ جو کہ ابوسفیان بن حرب کی بیٹی ہے جو اپنے شوہر عبداللہ بن جحش کے ہمراہ حبشہ گئی، اور ایک قول کے مطابق اس کا شوہر یا حبشہ میں وفات پا گیا یا مسیح ہو گیا. ام حبیبہ عبداللہ کے بعد پیغمبر اسلام(ص) کے نکاح میں آ گئی.[22]
  • خالد بن سعید بن عاص بن امیہ: واقدی کے قول کے مطابق وہ حبشہ کے پہلے مہاجرین میں سے تھا.[23]
  • عمر بن رباب سہمی جو کہ ابوبکر کے زمانے میں قتل ہوا[24]
  • ایک قول کے مطابق عمار یاسر[25]

قریش کا رد عمل

بہت سے مسلمانوں کا ہجرت کے بعد قریش والوں کے ساتھ رابطہ برقرار تھا[26] عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ نجاشی کے پاس تحائف لے کر گئے.[27] عمروعاص نے پناہ لینے والوں کو نادان کہا اور کہا کہ یہ اپنے دین سے باہر نکل گئے ہیں، نجاشی نے کہا کہ وہ خود مہاجرین سے اس کی وجہ پوچھے گا اس لئے اپنے ملک کے بڑے دینی علماء کو جمع کیا تا کہ انکے سامنے مہاجرین سے مہاجرت کی وجہ پوچھے جعفر بن ابی طالب نے جواب دیا: "ہم نادان اور بت پرست لوگ تھے، مردار کھاتے ،ایک دوسرے کا خون بہاتے اور فحشا کا ارتکاب کرتے تھے کہ خداوند نے ہمارے درمیان سے پیغمبر انتخاب کیا۔ ہم اس کی قوم کو جانتے ہیں ، وہ ہمارے درمیان سچائی اور امانت داری میں مشہور ہے. اس نے ہمیں خدا اور توحید کی طرف دعوت دی اور بت پرستی سے منع کیا اور ہمیں سچائی، صلہ رحمی، ہمسایوں سے نیکی کی دعوت دی اور ہمیں فحشا سے روکا۔ یہ اہل قریش ہمارے دشمن ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم دوبارہ بت پرستی کی طرف لوٹ جائیں جس کی وجہ سے ہم نے اپنی سرزمین کو چھوڑ کر تمہاری سرزمین میں پناہ لی ہے اور ہم نے تمہیں دوسروں پر ترجیع دی ہے." نجاشی نے قریش سے کہا: واپس چلے جاؤ خدا کی قسم کی ان لوگوں کو کبھی بھی تمہارے سپرد نہیں کروں گا اس لئے وہ واپس لوٹ گئے.[28]

نجاشی کا مسلمان ہونا

دوبارہ دوسرے دن عمرو بن عاص نجاشی کے پاس گیا اور مسلمانوں اور مسیحیوں کے اختلاف کو درمیان میں لاکر گفتگو شروع کی تاکہ نجاشی کی نظر کو جلب کرے لیکن یہ نتیجہ نہ صرف بے ثمر نکلا بلکہ جعفر کی حضرت عیسی کے بارے میں گفتگو سن کر نجاشی نے بھی اسلام قبول کر لیا.[29]

مہاجرین کی واپسی

مہاجرین کی حبشہ سے واپسی تدریجی صورت میں تھی. جو لوگ پہلی ہجرت سے واپس لوٹے تھے وہ مکہ میں رکے اور وہاں سے مسلمانوں کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے. اور کچھ جنگ خیبر سے پہلے اور باقی فتح خیبر کے بعد مدینہ کی طرف لوٹ گئے.[30]

پیغمبر(ص) نے عمروبن امیہ ضمری کو نجاشی کے پاس بھیجا تا کہ مہاجرین کی واپسی کے اسباب مہیا کرے.[31] حبشہ کا آخری مہاجر فتح خیبر کے وقت ساتویں سال واپس آیا.[32] اسی طرح آخری مہاجروں میںاسماء بنت عمیس ، عبداللہ بن جعفر اور ان کے بھائی محمد اور عون بھی تھے.[33] جب جعفر پیغمبر(ص) کے پاس آیا، تو رسول خدا(ص) نے اسے دو آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا سمجھ نہیں آتی کس خوشی پر شاد اور خوش ہوں فتح خیبر پر یا جعفر کی واپسی پر.[34]

وفات پانے والے

مہاجرین میں سے ٨ افراد حبشہ میں ہی دنیا سے چلے گئے اور انہیں وہیں پر دفن کیا گیا: عبید اللہ بن جحش جو کہ بنی عبد شمس سے تعلق رکھتا تھا. اس نے وہاں پر جا کر مسیحیت مذہب میں داخل ہو گیا اور وہیں پر دنیا سے چلا گیا، عمر بن امیہ بن حارث جس کا تعلق بنی اسد سے ہے، حاطب بن حارث اور اس کے بھائی حطاب بن حارث یہ دونوں بنی جمع سے تھے، عبداللہ بن قیس جس کا تعلق بنی سہم سے تھا، عروہ بن عبدالعزی، عدی بن نضلہ جس کا تعلق عدی سے ہے، موسی بن حارث بن خالد جس کا تعلق بنی تیم سے ہے.[35]

حوالہ جات

  1. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۳۹۵
  2. تاریخ الطبری/ترجمہ،ج۳،ص:۸۷۳
  3. تاریخ الطبری/ترجمہ،ج۳،ص:۸۷۳
  4. تاریخ یعقوبی/ترجمہ،ج۱،ص:۳۸۶
  5. تاریخ الطبری /ترجمہ،ج۳،ص:۸۸۲
  6. آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۶۵۴
  7. دلائل النبوة/ترجمہ،ج۲،ص:۴۹
  8. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۳۹۵
  9. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۳۹۵
  10. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۳۹۵
  11. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۳۹۵
  12. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۳۹۶
  13. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۳۹۶
  14. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۳۹۶
  15. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۳۹۶
  16. آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۷۹۱
  17. دلائل النبوة/ترجمہ،ج۲،ص:۴۹
  18. آفرینش وتاریخ /ترجمہ،ج۲،ص:۶۵۵
  19. آفرینش وتاریخ /ترجمہ،ج۲،ص:۷۹۲
  20. تاریخ الطبری/ترجمہ،ج۴،ص:۱۲۸۹
  21. آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۷۲۶
  22. آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۷۲۸
  23. آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۷۹۰
  24. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۴۹۵
  25. تاریخ الطبری/ترجمہ،ج۳،ص:۸۷۳
  26. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۳۹۵
  27. تاریخ الطبری/ترجمہ ،ج۳،ص:۸۷۸
  28. آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۶۵۵
  29. آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۶۵۶
  30. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۴۳۸
  31. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۴۳۸
  32. آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۷۰۶
  33. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۴۳۸
  34. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۱،ص:۴۳۸
  35. زندگانی محمد(ص)/ترجمہ،ج۲،ص:۲۴۴

مآخذ

  • ابن خلدون، العبر تاریخ، ترجمہ عبدالمحمد آیتی، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چ اول، ۱۳۶۳ش.
  • ابن ہشام (م۲۱۸)، زندگانی محمد(ص) پیامبر اسلام، ترجمہ سید ہاشم رسولی، تہران، انتشارات کتابچی، چ پنجم، ۱۳۷۵ش.
  • بیہقی، ابوبکر احمد بن حسین (م۴۸۵)، دلائل النبوة، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، دو جلد، ۱۳۶۱ش.
  • طبری، محمد بن جریر (م۳۱۰)، تاریخ طبری، ترجمہ ابوالقاسم پاینده، تہران، اساطیر، چ پنجم، ۱۳۷۵ش.
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، آفرینش و تاریخ، ترجمہ محمدرضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چ اول، ۱۳۷۴ش.
  • یعقوبی، احمد ابی یقعوب (م۲۹۲ق)، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چ ششم، ۱۳۷۱ش.