چھ رکنی شوریٰ

غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے

شوریٰ کے ارکان کا نام

برای تعیین خلیفہ سوم

امام علی (ع)
عثمان بن عفان
عبد الرحمن بن عوف
سعد بن ابی وقاص
زبیر بن عوام
طلحۃ بن عبیداللہ

چھ رکنی شوری، اس شوری کو کہا جاتا ہے جسے عمر بن خطاب نے اپنی موت سے پہلے (سنہ 23 ہجری) میں تشکیل دیا تھا تاکہ ان کے بعد یہی شورای خلیفہ کو منتخب کریں۔ عمر نے سب کو شوری کی بات قبول کرنے پر مجبور کیا اور یہ حکم دیا تھا کہ جو بھی اکثریت کی مخالفت کرے اسے قتل کیا جائے۔ عمر کی وفات کے بعد اس چھ رکنی شوری نے عثمان بن عفان کو مسلمانوں کا تیسرا خلیفہ منتخب کیا۔ حضرت علی (ع) نے شورای کے ارکان کی ذہنیت کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلے ہی پیشن گوئی کی تھی کہ اگلے خلیفہ حتما عثمان ہی ہوں گے۔

ماجرا کی تفصیل

شوریٰ کے متعلق امیرالمؤمنین(ع) کا بیان

اے اللہ مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں سے سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں میں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں۔ ان میں سے ایک شخص تو کینہ وعناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا دامادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔ [1]

تاریخی منابع کے مطابق عمر بن خطاب 26 یا 27 ذی الحجہ سنہ 23 ہجری کو 60 یا 63 سال کی عمر میں مغیرۃ بن شعبہ کے غلام ابولؤلؤ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ تاریخی اسناد کے مطابق عمر 27 ذی الحجہ کو ابو لولو کے ہاتھوں زخمی اور تین دن کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے۔[2] عمر بستر بیماری پر اپنے بعد اپنے جانشین کے انتخاب کی فکر میں تھے اور بار بار کہتے تھے کہ اگر معاذ بن جبل، ابو عبیدہ جراح یا سالم مولی حذیفہ میں سے کوئی زندہ ہوتا ہو خلافت اس کے حوالہ کرتا۔[3]، لیکن چونکہ ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں تھا اس لئے عمر نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا۔[حوالہ درکار]


شوریٰ کی تشکیل

اس سے پہلے خلیفہ کی انتخاب کیلئے دو طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا شروع میں پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے فورا بعد کچھ افراد سقیفہ میں جمع ہو گئے اور غدیر خم میں حجۃ الوداع کے موقع پر پیش آنے والے واقعہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے ابوبکر کو خلیفہ منتخب کیا پهر اپنے مخصوص طریقے سے بقیہ لوگوں سے بھی ابوبکر کی بیعت لی گئی۔ اس حوالے سے ان کی دلیل یہ تھی کہ خلیفہ کا انتخاب لوگوں کا حق ہے اور لوگوں کو ہی اس بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہئے۔ لیکن ابوبکر نے اپنی عمر کے آخر میں اس حوالے سے اپنا نظریہ تبدیل کیا اور لوگوں کی رائ دریافت کئے بغیر عمر کو اپنا جانشین بنا دیا۔

عمر بن‌ خطاب نے پہلے والے دونوں طریقوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک تیسرے طریقہ کار کو متعارف کرایا اور اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ابوبکر کی انتخاب میں لوگوں کی رائ نہیں لی گئی تھی اور اسے کے بعد ضرور لوگوں سے مشورت کی جائے گی [4]، ایک چھ رکنی شوریٰی تتشکیل دیا جو ان کے بعد اپنے اندر سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرے گی۔ اس شوری کے ارکان میں علی بن ابی طالب (ع)، عثمان بن عفان، طلحۃ بن عبیداللہ، زبیر بن عوام، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف شامل تھے۔[5].

عمر نے تاکید کی تھی کہ خلیفہ شوری کی اکثریت سے انتخاب کیا جائے، لیکن اس نے کہا کہ اگر یہ شوری دو دو نفر کے تین گروہ میں تقسیم ہو جائے تو جہاں عبدالرحمان ہو ان کی بات مانی جائے۔ اسی طرح عمر نے کہا اگر شوری کا کوئی رکن اکثریت کی بات سے مخالفت کرے تو اس کی گردن اڑا دی جائے اسی طرح اگر شوری دو گروہ میں تقسیم ہو جائے اور عبدالرحمن کا مد مقابل گروہ ان کی بات نہ مانے تو ان تینوں کو ما دیا جائے اور اگر شوری کے ارکان تین دن تک کسی کو خلیفہ انتخاب کرنے میں کامیاب نہ ہوں تو ان سب کی گردن اڑا دی جائے۔ [6] انصار میں سے 50 آدمیوں کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ عمر کے وصیتوں پر عمل کرنے کے اوپر کڑی نظر رکھی جائے۔ [7].

شوری کی جانبداری

اس شوری کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسے اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ کسی نہ کسی طرح عثمان کی انتخاب پر منتہی ہو جائے۔ کیونکہ امام علی (ع) کی پیشن گویی کے مطابق سعد اپنے چچا زاد بھائی عبدالرحمان کی مخالفت نہیں کر سکتا تھا اور خود عبد الرحمان، عثمان کا بہنوی تھا پس ضرور اسے ووٹ دینا تھا۔ اس صورت میں اگر طلحہ اور زبیر حضرت علی(ع) کی حمایت کرتے تو بھی کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ عبدالرحمان، عثمان کے حامیوں کے ساتھ تھا اور ان کی بات ضرور ماننا پڑتا تھا۔[8]

سعد نے شروع سے ہی اپنا ووٹ عبدالرحمان کے حوالے کیا۔ جبکہ زبیر نے حضرت علی (ع) کی حمایت کرتے ہوئے خود کو خلافت کے دوڑ سے خارج کر دیا۔ عبدالرحمان نے بھی اعلان کیا کہ وہ بھی خلافت کا متمنی نہیں ہے۔ طلحہ ابوبکر کا چچا زاد اور حضرت علی (ع) کا مخالف تھا یوں وہ بھی عثمان کے حق میں بیٹھ گیا یوں صرف حضرت علی (ع) اور عثمان خلیفہ کیلئے نامزد ہوئے۔[9]

عبدالرحمن کا کردار

عبد الرحمن‌ بن عوف نے تین دن تک لوگوں خصوصا اشراف اور امرا سے مشورت کے بعد شروع میں حضرت علی(ع) سے یہ عہد لیا کہ اگر وہ خلیفہ منتخب ہو جائیں تو قرآن و سنت پیغمبر اکرم (ص) اور ابوبکر و عمر کے نقش قدم پر چلیں۔ حضرت علی (ع) نے اس کے جواب میں فرمایا: مجھے امید ہے کہ میں اپنی قدرت اور علم کے مطابق قرآن و سنت رسول خدا (ص) پر عمل کرونگا۔ اس کے بعد عبد الرحمن نے یہی شرط عثمان کے سامنے رکھی تو اس نے فورا اسے قبول کیا اسی وجہ سے عبدالرحمان نے عثمان کی بیعت کر ڈالی۔

بعض منابع میں آیا ہے کہ حضرت علی (ع) نے عبدالرحمان بن عوف کی شرط کو ایک لحاظ سے اس کی فریبکاری سے تعبیر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: "تم نے عثمان کو انتخاب کیا تاکہ وہ خلافت کو اپنے بعد تمہارے حوالہ کرے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ہم اہل بیت کی مخالفت میں تم لوگوں نے اجتماع کیا ہے اور ہمیں اپنے حق سے محروم رکھا ہے۔ یہ چیز ہمارے خلاف ایک سنت بن گئی ہے۔[10][11]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. فَیالَلّہ وَ لِلشُّوری! مَتَی اعْتَرَضَ الرَّیبُ فِی مَعَ الاَْوَّلِ مِنْہمْ حَتّی صِرْتُ اُقْرَنُ اِلی ہذِہ النَّظائِرِ؟! لکنّی اَسْفَفْتُ اِذْ اَسَفُّوا، وَ طِرْتُ اِذْ طارُوا. فَصَغی رَجُلٌ مِنْہمْ لِضِغْنِہ، وَ مالَ الاْخَرُ لِصِہرِہ، مَعَ ہن وَ ہن
  2. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، بیروت، ج۲، ص۱۵۹ و۱۶۰؛ابن‌ عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۱۵۵ و ۱۱۵۶؛مسعودی، مروج الذہب، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۳۲۰ و ۳۲۱.
  3. الامامۃ و السیاسۃ، ج ۱، ص ۴۲
  4. المصنف، ج ۵، ص ۴۴۵؛ الطبقات الکبری، ج ۳، ص ۳۴۴.
  5. سیوطی، تاریخ خلفا، ص ۱۲۹.
  6. تاریخ الیعقوبی، ج ۲، ص ۱۶۰؛ انساب الاشراف، بلاذری، ج ۲، ص ۲۶۱.
  7. سیوطی، تاریخ خلفا، ص ۱۲۹ ۱۳۷.
  8. نہج‌البلاغہ، دشتی، ص ۳۰؛ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۱۸۸.
  9. تاریخ الامم و الملوک، ج ۳، ص ۲۹۶؛ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۱۸۸.
  10. طبری نے اس ماجرا اور عبد الرحمان کے شرط میں عمرو عاص کے ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
  11. تاریخ الیعقوبی، ج ۲، ص ۱۶۲؛ تاریخ الامم والملوک، ج ۳، ص ۲۹۶ و ۳۰۲؛ المصنف، ج ۵، ص ۴۴۷؛ التّنبیہ و الاشراف، ص ۲۵۲ و ۲۵۳؛ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۱۹۴؛ البدء و التاریخ، ابن‌ مطہر، ج ۵، ص ۱۹۲؛ السقیفۃ و فدک، ص ۸۷.

مآخذ

  • الإمامۃ و السیاسۃ المعروف بتاریخ الخلفاء، أبو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الأضواء، ط الأولی، ۱۴۱۰/۱۹۹۰.
  • کتاب جمل من انساب الأشراف، أحمد بن یحیی بن جابر البلاذری، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت،‌ دار الفکر، ط الأولی، ۱۴۱۷/۱۹۹۶
  • البدء و التاریخ، مطہر بن طاہر المقدسی، بور سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بی تا
  • تاریخ الأمم و الملوک، أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،‌ دار التراث، ط الثانیۃ، ۱۳۸۷/۱۹۶۷
  • تاریخ الیعقوبی، احمد بن أبی یعقوب بن جعفر بن وہب واضح الکاتب العباسی المعروف بالیعقوبی، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا
  • التنبیہ و الإشراف، أبو الحسن علی بن الحسین المسعودی، تصحیح عبد اللہ اسماعیل الصاوی، القاہرۃ،‌ دار الصاوی، بی‌تا(افست قم: مؤسسۃ نشر المنابع الثقافۃ الاسلامیۃ).
  • السقیفۃ و فدک، ابی بکر احمد بن عبد العزیز الجوہری البصری، بیروت، شرکہ الکتبی، ۱۴۱۳ق
  • تاریخ خلفا، سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر، حلب،‌ دار القلم العربی، ۱۴۱۳ ہ. ۱۹۹۳ء
  • شرح نہج البلاغہ، ابن ابی‌ الحدید، مصر،‌ دار احیاء الکتب العربیہ،۱۳۸۷ - ۱۳۸۲ ہ‍.ق
  • الطبقات الکبری، محمد بن سعد بن منیع الہاشمی البصری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۰/۱۹۹۰
  • مروج الذہب و معادن الجوہر، أبو الحسن علی بن الحسین بن علی المسعودی، تحقیق اسعد داغر، قم،‌ دار الہجرۃ، چ دوم، ۱۴۰۹