ابوجہل (عمرو بن ہشام بن مغیرہ مخزومی) (متوفی ) مکہ میں اسلام اور رسول اکرمؐ کے مخالفین میں سے ایک ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کو قتل کی سازش، نو مسلمانوں کو اذیت اور دھمکی، قرآن مجید کی آیات کو سننے سے لوگوں کو روکنا، قریش کی بنی ہاشم سے بائیکاٹ، اسلام اور مسلمانوں کے اخلاف اقدامات اور جنگ بدر رونما ہونے میں زمینہ سازی ابوجہل کے کاموں میں سے ہیں۔ جنگ بدر رونما کرنے میں ابوجہل کا کلیدی کردار تھا اور اسی جنگ میں مشرکوں کے سپاہیوں میں مارا گیا۔ مفسروں نے تقریباً تیس آیتوں کے ذیل میں اس کے بارے میں بات کی ہے۔

نسب، کنیت اور لقب

عمرو بن ہشام بن مغیرہ پیغمبرؐ کے مخالفین میں سے تھا اور ان سے ہمیشہ دشمنی کرتا تھا۔[1] اس کا باپ ہشام بن مغیرہ بنی‌مخزوم سے تھا۔ قریش نے اپنی تاریخ کا آغاز اس کی موت قرار دیا تھا۔[2] اس کی ماں سماء بنت مخربة بن جندل حنظلی بنی‌تمیم قبیلے سے تھی۔[3] اس لئے اسے ابن حنظلیہ بھی کہا جاتا ہے۔[4]

ابوجہل کی کنیت ابوالحَکم تھی لیکن پیغمبر اکرمؐ نے اسے ابوجہل نام دیا تھا۔[5] اس نام کی وجہ اس کی جہالت اور اسلام دشمنی ذکر ہوا ہے۔[6] اسی طرح ایک حدیث نبوی میں ابوجہل کو امتِ اسلامی کا فرعون بھی کہا گیا ہے۔[7] واقدی اپنی کتاب مغازی میں لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے جنگ بدر شروع ہونے سے پہلے نافلہ نماز پڑھی اور اس کے بعد ابوجہل اور دیگر کافروں کے لئے یوں بدعا کی:«أَللّہُمَّ لَايُفْلِتَنَّ فِرْعَوْنُ ہذِہِ الاُمَّةِ أَبُوجَہْلُ بْنُ ہِشَامٍ» (اے اللہ! اس امت کے فرعون، ابوجہل کو بھاگنے کی توفیق نہ دے!) مختصر وقت کے بعد ابوجہل اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔[8]

عِکرمة بن ابوجہل اس کا بیٹا تھا جو پیغمبر اکرمؐ سے دشمنی کرتا تھا لیکن فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا۔[9]

اسلام کی مخالفت

ابو جہل پیغمبرؐ سےدشمنی کرتا تھا اور مختلف طریقوں سے ان کو برا کہتا تھا [10] اور ان کی بے ادبی کرتا تھا۔ [11] قرآن مجید کی بعض آیتوں کا شان نزول بھی ابوجہل اور اس کی اسلام اور پیغمبر اکرم کی مخالفت میں انجام پانے والے کرتوت قرار دیا ہے۔[12] قرآنی دایرة المعارف میں 32 آیتیں ذکر ہوئی ہیں جنہیں مفسرین ابوجہل سے مربوط سمجھتے ہیں۔[13] اس نے اسلام پھیلنے میں بعض رکاوٹیں ایجاد کی جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

قرآنی آیات لوگوں تک پہنچنے میں رکاوٹ

محمد بن احمد قرطبی آیہ «وَ قَالَ الَّذِینَ کَفَرُواْ لَا تَسْمَعُواْ لہَِذَا الْقُرْءَانِ وَ الْغَوْاْ فِیہِ لَعَلَّکمُ‌ْ تَغْلِبُون‌؛ اور کافر کہنے لگے کہ اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور (جب پڑھنے لگیں تو) شور مچا دیا کرو تاکہ تم غالب رہو!»[14] ابن عباس سے منقول ہے کہ جب بھی رسول اللہ قرآن پڑھتے تھے تو ابوجہل کہتا تھا شور مچاؤ تاکہ کسی کو یہ پتہ نہ چلے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔[15]

پیغمبر اکرم ؐ کے قتل کی سازش

عبدالملک بن ہشام کا کہنا ہے کہ مکہ کے مشرکین پیغمبر اکرمؐ کا مقابلہ کرنے دارالندوہ میں جمع ہوئے اور ہر کسی نے ایک تجویز دی اور ابوجہل نے تجویز دی کہ پیغمبر اکرمؐ کو قتل کریں اور ان کے قتل میں سارے قبیلے شریک ہوجائیں تاکہ بنی ہاشم سارے قبیلوں سے جنگ نہ کرسکیں اور خون بہا لینے پر راضی ہوجائیں۔ ابوجہل کی تجویز مانی گئی اور لیلۃ المبیت میں اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر قبیلے سے ایک فرد حاضر ہوا۔ ابوجہل بھی ان افراد میں شامل تھا جو ان کو ابھار رہا تھا لیکن پیغمبر اکرمؐ کے بستر پر امام علیؑ کا سونا اور رسول اکرمؐ کا راتوں رات مکہ سے نکل جانے کی وجہ سے ان کا سازش ناکام ہوئی۔[16] ابوجہل تیس سال کی عمر میں دارالندوہ کے رکن ہوئے تھے، جبکہ اس وقت دارالندوہ کی رکنیت کے لئے بنی قصی کے علاوہ باقی سب کے لئے چالیس سال شرط تھی۔[17]

نئے مسلمانوں کو دھمکی اور اذیت

ابوجہل لوگوں کو اسلام لانے سے منع کرتا تھا۔[18] جب کوئی اسلام لاتا تھا تو اسے ڈراتا دھمکاتا تھا یہاں تک کہ اسلام سے ہاتھ اٹھائے[19] ان افراد میں بلال حبشی[20] یاسر بن عامر اور سمیہ بنت خباط بھی شامل تھے جن کو اسلام لانے اور پیغمبر اکرمؐ کی حمایت کی وجہ سے تکلیف پہنچائی اور انہی آزار و اذیت سے سمیہ شہید ہوئے۔[21] اسی طرح ابوجہل نے اپنے سوتیلے بھائی عیاش بن ابی ربیعہ کو جو مہاجرین سے ملحق ہونے کے لئے مدینہ کی جانب نکلے تھے اسے قُبا کے مقام سے واپس لاکر اسے قید کردیا۔[22] تاریخ کے مطابق نو مسلمانوں کے مقابلے میں ابوجہل نے مختلف حربے اپنائے؛ اگر معاشرے میں باثر فرد اسلام لے آتا تو اسی کی تحقیر اور توہین کرتا، اگر تاجر ہو تو اسے ڈراتا دھمکاتا اور اس کی تجارت کو نقصان پہنچنے اور سوشل بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دیتا، اور اگر کوئی کمزور شخص ہو تو اس کی مار پٹائی کرتا۔[23] [یادداشت 1]

ابوجہل بنی ہاشم کا قریش سے رابطہ ختم کرنے کی بھی کوشش کرتا تھا[24] اورشعب ابی طالب میں کھانے کی چیزیں وہاں پہنچنے میں رکاوٹ بنتا تھا۔[25]

جنگ بدر کا میدان فراہم کرنا

تاریخی شواہد کے مطابق جنگ بدر رونما کرنے میں ابوجہل کا کلیدی کردار تھا۔ رسول اللہؐ نے جنگ سے پہلے وہ اور زمعة بن اسود پر جنگ کرنے میں اصرار پر نفرین کی تھی۔[26] سنہ دو ہجری کو ابوسفیان کی سرپرستی میں قریش کا ایک کاروان مسلمانوں کے حملے کی زد میں آیا۔[یادداشت 2] اس نے قریش سے مدد مانگی اور ابوجہل مدد کے لئے ایک لشکر لیکر مکہ سے نکلا۔ اگرچہ کاروان سلامتی کے ساتھ وہاں سے گزر گیا لیکن ابوجہل کے اصرار سے مکہ کا لشکر بدر کے کنوؤں کی طرف کو نکلا[27] اور وہاں پر ان کی مسلمان سپاہیوں سے جنگ ہوئی اور مکہ کے لشکر کو شکست ہوئی اور ابوجہل سمیت قریش کے کئی سرکردے مارے گئے۔[28] ابوجہل معاذ ‌بن عمرو اور عفراء والوں کے ہاتھوں مارا گیا اور عبداللہ‌ بن مسعود نے اس کا سر تن سے جدا کیا۔[29]

بیرونی روابط

نوٹ

  1. وَكَانَ أَبُو جَہْلٍ الْفَاسِقُ ...إذَا سَمِعَ بالرجلِ قَدْ أَسْلَمَ لَہُ شَرَفٌ ومَنَعة، أنَّبہ اور أخْزاہ ...وَإِنْ كَانَ تَاجِرًا قَالَ: وَاَللہِ لنُكْسِدَن تجارتَك، ولنُہلكن مَالَكَ؛ وَإِنْ كَانَ ضَعِيفًا ضَرَبَہُ وأغرَى بِہِ. سیرہ ابن ہشام، ج1، ص279
  2. مکہ کے مشرکوں نے مہاجروں کے باقی مال کو غارت کیا اور مسلمانوں کے خلاف اقتصادی پابندی کی کوشش کی۔

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: ابن‌اسحاق، سیرہ ابن‌اسحاق، مکتب دراسات التاریخ و المعارف الاسلامیہ، ص145.
  2. ابن‌حبیب بغدادی، المحبر، دارالاآفاق الجدیدة، ص139.
  3. ابن‌ہشام، السیرة النبویہ، دارالمعرفہ، ج1، ص623.
  4. بلاذری، انساب الاشراف، 1959ء، ج1، ص291.
  5. بلاذری، انساب الاشراف، 1959ء، ج1، ص125.
  6. ابن‌درید، الاشتقاق، 1411ھ، ص148.
  7. ابن‌اسحاق، سیرہ ابن‌اسحاق، مکتب دراسات التاریخ و المعارف الاسلامیہ، ص210.
  8. واقدی، مغازی، ج1، ص46.
  9. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج4، ص155-156.
  10. ابن‌ہشام، السیرة النبویة، ج1، ص291.
  11. ابن‌ہشام، السیرة النبویة، ج1، ص98-299.
  12. ملاحظہ کریں: واحدی، اسباب نزول القرآن، 1411ھ، ص487؛ طبری، جامع البیان، ج22، ص99.
  13. اعلام قرآن از دایرة المعارف قرآن کریم، 1385ش، ج1، ص381-391.
  14. سورہ فصلت، آیہ26.
  15. قرطبی، تفسیر القرطبی، 1405ھ، ج15، ص356.
  16. ابن‌ہشام، السیرة النبویة، دارالمعرفہ، ج1، ص482-483.
  17. ابن‌درید، الاشتقاق، 1411ھ، ص155.
  18. ابن‌ہشام، السیرة النبویة، دارالمعرفہ، ج1، ص320.
  19. ابن‌ہشام، السیرة النبویة، دارالمعرفہ، ج1، ص320.
  20. ابن‌اثیر، اسدالغابہ، 1409ھ، ج1، ص243.
  21. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1865.
  22. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج4، ص96.
  23. سيرہ ابن ہشام، ج1، ص279
  24. ابن‌ہشام، السیرة النبویة، دارالمعرفہ، ج1، ص353ـ354.
  25. ابن‌اسحاق، سیرہ ابن‌اسحاق، مکتب دراسات التاریخ و المعارف الاسلامیہ، ص161.
  26. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص46.
  27. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص37.
  28. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص89ـ91.
  29. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص91.

مآخذ

  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دارالفکر، 1409ھ/1989ء۔
  • ابن‌اسحاق، محمد بن اسحاق، سیرہ ابن‌اسحاق، مکتب دراسات التاریخ و المعارف الاسلامیہ، بی‌تا.
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی‏، المنتظم،‏ محقق: عطا، محمد عبد القادر، عطا، مصطفی عبد القادر، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • ابن‌حبیب بغدادی، محمد بن حبیب، المحبر، تحقیق الزۃ لیختن شتیتر، بیروت، دارالاآفاق الجدیدۃ، بی‌تا.
  • ابن‌حبیب، محمد، المحبَر، بہ کوشش ایلزہ لیشتن اشتنر، حیدرآباد دکن، 1361ھ/1942ء۔
  • ابن‌درید، محمد بن حسن، الاشتقاق، تحقیق و شرح: عبدالسلام محمد ہارون، بیروت، دار الجیل، 1411ھ/1991ء۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1410ھ/1990ء۔
  • ابن‌عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالمعرفہ، 1412ھ/1992ء۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ، بہ کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاہرہ، 1375ھ/1955ء۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بہ کوشش محمد حمیداللہ، قاہرہ، 1959ء۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، دارالمعرفۃ، بیروت، 1412ھ۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، تفسیر القرطبی، تحقیق محمد محمد حسنین، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1405ھ/1985ھ۔
  • مرکز فرہنگ و معارف قرآن، اعلام قرآن از دایرۃ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، 1385شمسی.
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، تحقیق کمال بسیونی زعلول، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1411ھ۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونز، بیروت، الطبعۃ الثالثۃ، 1409ھ/1989ء۔