غزوہ فتح مکہ
رسول خدا(ص) کے غزوات | |
---|---|
تاریخ | رمضان سنہ 8 ہجری۔ جنوری 630ء |
مقام | مکہ |
علل و اسباب | مشرکین مکہ کی جانب سے صلح حدیبیہ کی عہد شکنی |
قلمرو | اسلامی سرزمین میں شہر مکہ کا اضافہ ہوا |
نتیجہ | جنگ اور خونریزی کے بغیر مسلمانوں کی فیصلہ کن فتح |
فریق 1 | 10 ہزار مسلمان |
فریق 2 | مشرکین قریش |
سپہ سالار 1 | حضرت محمد(ص) |
سپہ سالار 2 | ابو سُفیان |
غزوہ فتح مکہ، پیغمبرخدا(ص) کے اہم ترین غزوات میں سے ہے جس کے نتیجے میں سنہ 8 ہجری (10 جنوری سنہ 630 ء) کو شہر مکہ فتح ہوا۔ فتح فکہ کے ساتھ ہی جزیرۃ العرب کے اکثر قبائل نے سنہ 10 ہجری تک اسلام قبول کیا؛ اس طرح پورے جزیرۃ العرب میں اسلام کی حاکمیت قائم ہوئی۔ یہ غزوہ قریش کی جانب سے صلح حُدَیْبیّہ کی عہد شکنی کے بموجب واقع ہوا۔
حضرت محمد(ص) نے اپنی خاص حکمت عملی اور تدبیر سے اچانک حملہ والے جنگی اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے بغیر خونریزی کے مکہ کو فتح کیا۔ فتح مکہ کے دوران، نبی مکرم اسلام(ص) نے اَلْیَوم یَومُ الْمَرحَمَہ (آج کا دن عفو و درگذشت کا دن ہے) کی پکار کے ساتھ عام معافی کا اعلان کیا۔ سوائے عکرمہ ابن ابی جہل، صفوان ابن امیہ اور ہند بنت عتبہ کے باقی سب کو معاف کردیا۔
بعض تاریخی نقل کے مطابق فتح مکہ کے بعد پیغمبر اکرم (ص) کے کہنے پر امام علیؑ پیغمبر خدا (ص) کے کندھوں پر سوار ہوئے اور بتوں کو زمین پر پھینک دیا۔ گرائے گئے بتوں کو باب بنی شیبہ (مسجد الحرام کا ایک داخلی راستہ) کے داخلی دروازے پر زمین میں گاڑ دیا گیا۔ اس کے علاوہ، پیغمبر خدا (ص) نے بت خانوں کو منہدم کرنے کے لیے مکہ کے ارد گرد میں کچھ سریے بھیجے۔ فتح مکہ کے ساتھ ہی سوائے سدانت کعبہ اور سِقایَۃُ الحاجّ کے، تمام معاہدوں، قرار دادوں اور عہدوں کو منسوخ کردیا گیا۔
تاریخ اسلام میں فتح مکہ کی اہمیت
غزوہ فتح مکہ تاریخ اسلام کے اہم ترین واقعات میں سے شمار کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں مکہ سے مشرکین مکہ کی حکومت کا خاتمہ اور جزیرۃ العرب پر اسلامی حاکمیت قائم ہوئی۔[1] فتح کے بعد جزیرۃ العرب کے اکثر قبائل سنہ دسویں ہجری تک مشرف بہ اسلام ہوئے اور اس وقت تک مشرکین کی طاقت بالکل ختم ہوکر رہ گئی۔[2] شیعہ مفسرین میں سے محمد حسین طباطبائی اور ناصر مکارم شیرازی نے فتح مکہ پر سورہ نصر کا اطلاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ فتح مکہ رسول خدا (ص) کی سب سے بڑی فتح تھی جس کے نتیجے میں جزیرۃ العرب سے شرک کی بنیاد ہی ختم ہوکر رہ گئی اور لوگ فوج در فوج رسول خدا(ص) پر ایمان لے آئے۔[3]
رسول خدا (ص) اس غزوے میں بغیر خون خرابے اور کسی کو معمولی نقصان پہنچائے بغیر مکہ فتح کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔[4] فارسی زبان میں تحریر شدہ کتاب "تاریخ تحلیلی اسلام" کے مصنف سید جعفر شہیدی کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نے اہل مکہ کے ساتھ جو سلوک کیا اس نے مخالفین کی نظروں میں اسلام کی رواداری اور پیغمبر اکرم (ص) کی عظمت کو اجاگر کیا؛ کیونکہ قریش نے آپ(ص) اور آپ(ص) کے پیروکاروں کو بیس سال تک تکالیف و آزار پہنچائے تھے اور وہ لوگ رسول خدا(ص) کے انتقام سے خوفزدہ تھے۔[5]
لشکر کشی کی اصلی وجہ
قریش کی طرف سے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی پیغمبر اکرم (ص) کے مشرکین مکہ کے خلاف لشکر کشی اور اس کی فتح کا بنیادی سبب تھی۔[6] سنہ 6 ہجری حدیبیہ نامی علاقے میں مسلمانوں اور مشرکین نے ایک دوسرے کے ساتھ معاہدہ کیا کہ ایک دوسرے کے ساتھ دس سال تک صلح ہوگی اور ایک دوسرے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائےگی۔[7] قبیلہ بنی خُزاعہ نے مسلمانوں کے ساتھ اور بنی بَکر قبیلہ نے قریش کے ساتھ معاہدہ کیا۔[8] سنہ 8 ہجری میں ان دونوں قبائل کے درمیان جو جنگ ہوئی اس میں قریش کے کچھ لوگوں نے بنی بکر کے حق میں بنی خزاعہ کے کچھ افراد کو قتل کر دیا۔[9] اس طرح دو سال کے بعد قریش صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔[10] اگرچہ اَبوسُفیان معافی مانگنے کے لیے خود مدینہ گیا، لیکن اس کی معافی قبول نہیں کی گئی۔[11] اس واقعے کے کچھ ہی عرصے بعد پیغمبر خدا(ص) دس ہزار لوگوں کے لشکر کے ساتھ مکہ کی طرف بڑھے۔[12]
خون خرابے کے بغیر مسلمانوں کی فتح
مؤرخین کے مطابق رسول خدا(ص) اپنی حکمت عملی اور اعلی تدبیر کے ساتھ بغیر خونریزی کے مکہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔[13] مورخہ 10 رمضان سنہ 8 ہجری[14] کو رسول خدا(ص) کے حکم سے اچانک حملے کے جنگی اصول کی رعیات کرتے ہوئے اس سے پہلے کہ دشمن اپنے دفاع کے بارے میں اقدامات کریں لشکر اسلام مدینہ سے مکہ کی جانب نکلے۔[15] لشکر اسلام کو بھی اصل منزل کا علم نہیں تھا۔[16] جب تک لشکر اسلام مَرّ الظَّہْران(مکہ سے 24 کلومیٹر دور موجودہ وادی فاطمہ) تک نہیں پہنچ گیا،[17] اہالیان مکہ اور ان کے جاسوسوں کو اسلامی لشکر کی جہادی تحریک کی کوئی خبر نہیں تھی۔[18] جب ابو سفیان کو مکہ کے ارد گرد اسلامی فوج کی موجودگی کا علم ہوا تو عباس بن عبد المطلب رسول خدا(ص) کے حکم سے ابو سفیان کو ایک وادی کے شروع میں لے گئے تاکہ وہاں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو دیکھ سکیں[19] اور کسی قسم کی مزاحمتی فکر کو اپنے ذہن سے باہر نکال دیں، تاکہ کسی جنگ کے بغیر فتح مکہ واقع ہوجائے۔[20] ابو سفیان رسول خدا(ص) کے پاس آیا اور اسلام قبول کیا۔[21]
بعض تاریخی نقل کے مطابق 20 رمضان[22] کو مسلمانوں نے «نَحْنُ عِبَادُ اللَّہِ حَقّاً حَقّا؛ در حقیقت ہم ہی اللہ کے بندے ہیں» کے نعرے کے ساتھ مکہ کو فتح کیا۔[23] البتہ مؤرخین مسلمانوں کے مکہ میں داخل ہونے کی کسی خاص تاریخ کے بارے میں متفق القول نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں اس واقعہ کے لیے ماہ رمضان کی دوسری تواریخ بھی نقل کی گئی ہیں۔[24] رسول خدا(ص) نے مسجد الحرام، ابو سفیان کے گھر کے اندر اور اپنے اپنے گھروں میں رہنے والے دیگر افراد کو امان دیا۔[25] فتح مکہ کے دن، کُرْز بن جابر[26] اور خُنَیس بن خالد اشعری[27] (یا خالد اشعری)[28] نامی دو افراد کے علاوہ کوئی بھی مسلمان ہلاک نہیں ہوا تھا؛ یہ دو افراد راستہ گم کر گئے تھے۔ یہ دونوں افراد ایک دوسرے راستے پر گئے تھے اور راستے میں مشرکین کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔[29]
عام معافی کا اعلان
عبدالحسین زرینکوب:
«اہل مکہ نے پشیمان اور خوفزدہ ہوکر ابو سفیان کو مدینہ بھیجا تاکہ محمد (ص) کو مکہ پر حملہ کے قصد سے باز رکھا جائے۔ لیکن صلح کا وقت گزر چکا تھا اور اہل مکہ کو اطلاع ملنے تک تو ایک ہفتے کے اندر اندر پیغمبر اپنے دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ ان کے شہر کے دروازے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اہالیان مکہ نے ان کے خلاف مزاحمت نہیں کی... اس بار محمد(ص) ایک فاتح کے طور پر شہر میں آیا لیکن پھر بھی ایک نبی کے طور پر؛ کوئی لوٹ مار نہیں کی اور نہ ہی کوئی خونریزی ہوئی۔»
زرینکوب، بامداد اسلام، 1369شمسی، ص37.
مکہ میں داخل ہونے کے بعد، پیغمبر اکرم (ص) نے عام معافی کا اعلان کیا[30] اور اپنے سپہ سالاروں کو حکم دیا کہ وہ جنگ اور خونریزی سے گریز کرتے ہوئے صرف ان لوگوں کے ساتھ مقابلہ کریں جو جنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔[31] سعد بن عبادہ نے جو پرچم اسلام ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا، «الْيَوْمُ يَوْمُ الْمَلْحَمَۃ»آج کا دن انتقام کا دن ہے" کہہ کر اہل مکہ کو خوف میں مبتلا کر دیا۔[32] سعد کی باتوں سے رسول خدا(ص) ناراض ہوگئے۔[33] اس لیے «الْيَوْمَ يَوْمُ الْمَرْحَمَۃ» (آج کا دن عفو و درگذشت کا دن ہے)[34] کہہ کر آپ(ص) نے اپنے اس کے ہاتھوں سے پرچم اسلام واپس لیا اور اسے امام علیؑ[35] یا سعد کے بیٹے[36] کو دیا۔ رسول خدا(ص) نے اہل مکہ کو اسیر نہیں کیا اور انہیں "طلقاء" (یعنی آزاد شدہ) کہہ کر آزاد کیا۔[37] اس لیے ابو سفیان اور اہل مکہ کو طلقاء کہتے تھے۔[38] بعض محققین کے مطابق طلقاء کی تعبیر میں ایک قسم کی بدنامی ہے۔ کیونکہ مکہ کے لوگوں نے مجبور ہوکر پیغمبر خدا(ص) کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی۔[39] پیغمبرخدا(ص) نے فتح مکہ کے موقع پر سوائے سدانت کعبہ اور سقایۃ الحاج کے باقی تمام معاہدوں، قرار دادوں اور عہدوں کو منسوخ کر دیا۔[40]
عام معافی سے خارج لوگ
رسول خدا(ص) نے کچھ لوگوں کو عام معافی سے مستثنیٰ قرار دے کر حکم دیا کہ اگر وہ لوگ کعبہ کے پردے کے اوٹ میں چھپے ہوئے ہوں تب بھی ان کو قتل کر دیا جائے۔[41] تاریخی منابع میں ان لوگوں کی کوئی خاص تعداد بیان نہیں کی گئی ہے، البتہ بیس افراد تک شمار کیے گئے ہیں۔[42] سید جعفر مرتضیٰ عاملی نے اپنی کتاب "الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم" میں جن افراد کا ذکر کیا ہے ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:[43]
مردوں میں سے چند افراد کے نام
- عکرمہ بن ابی جہل: وہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہی مکہ سے فرار ہوگیا؛ لیکن اس کی بیوی، جو پہلے ہی اسلام قبول کر چکی تھی، رسول خدا(ص) کے پاس گئی اور اپنے شوہر کے لیے امان طلب کیا۔[44]
- صفوان بن امیہ: وہ مکہ سے بھاگ گیا؛ لیکن جب عُمَیْر بن وَہب نے اس کے لیے امان طلب کیا تو وہ رسول خدا(ص) کے پاس واپس آئے۔ اس نے پیغمبر خدا(ص) سے اسلام قبول کرنے کے لیے دو ماہ کی مہلت مانگی، رسول خدا(ص) نے اسے چار مہینے کی مہلت دی۔ آخرکار، کچھ عرصہ بعد اس نے اسلام قبول کر لیا۔[45]
- عبد اللہ بن سعد بن ابی سراح: وہ عثمان بن عفان کا رضاعی بہن تھا، عثمان نے اس کے لیے امان طلب کیا۔[46]
- عبد اللہ بن خَطَل: اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مسلمان کو قتل کیا اور مرتد ہو گیا۔[47] عبد اللہ بن خطل فتح مکہ کے بعد کعبہ کے نزدیک مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔[48]
- مقیس بن صباتہ: اس نے ایک مسلمان کو قتل کیا اور مرتد ہوگیا۔ نمیلہ بن عبد اللہ کنانی نے اسے قتل کر دیا۔[49]
- وَحْشیّ بن حَرْب: وہ رسول خدا(ص) کے چچا حمزہ بن عبد المطلب کا قاتل تھا۔ کچھ عرصہ بعد وہ رسول خدا(ص) کے پاس آیا اور مسلمان ہوگیا۔[50]
خواتین میں سے چند کے نام
- ہند بنت عُتْبَہ: وہ معاویہ کی والدہ تھی جنہوں نے احد کی جنگ میں حمزہ بن عبد المطلب کا پیٹ پھاڑ کر ان کے جگر کو اپنے دانتوں سے کاٹ ڈالا۔ اس نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور دوسری عورتوں کے ساتھ پیغمبر خدا(ص) سے بیعت کی اور مسلمان ہو گئی۔[51]
- عَمرو بن ہشام کی لونڈی سارہ: اس نے اسلامی فوج کی مکہ کی طرف آنے سے پہلے مشرکین کے لیے جاسوسی کی تھی۔[52] اس کو فتح مکہ کے دن مارا گیا۔[53]
- قَریبہ و فَرْتَنا دو کنیز عبد اللہ بن خَطَل کی دو لونڈیاں قَریبہ اور فَرْتَنا: یہ دو لونڈیاں گانا گانے والی لونڈیاں تھیں اور اپنے گانوں سے رسول خدا(ص) کا ہجو کرتی تھیں۔[54] قریبہ ماری گئی، لیکن فرتنا ایمان لے آئی اور عثمان کے زمانے تک زندہ رہے۔[55]
بتوں کو توڑنا
بعض تاریخی نقل کے مطابق فتح مکہ کے بعد رسول خدا(ص) نے کعبہ کی چھت پر موجود بتوں کو توڑنے کا سلسلہ شروع کیا۔[56] پیغمبر اکرم (ص) کے کہنے پر امام علیؑ پیغمبر کے کندھوں پر سوار ہوئے اور بتوں کو زمین پر پھینک دیا۔[57] بعض روایات کے مطابھ، جب امام علیؑ نے ہُبَل نامی بت(مسجد الحرام میں موجود سب سے بڑا اور اہم ترین بت) کو کعبہ کی چھت سے نیچے پھینک دیا، تو اسے باب بنی شیبہ(مسجد الحرام میں داخل ہونے کا ایک داخلی دروازہ) کے دروازے پر دفن کیا۔[58] فتح مکہ کے بعد، پیغمبر خدا(ص) نے بت خانوں کو مسمار کرنے کے لیے مکہ کے ارد گرد کچھ سریے بھیجے۔[59] فتح مکہ کے دن دوپہر کے وقت بلال حبشی نبی اکرم (ص) کے حکم سے کعبہ کی بلندی پر چڑھ اذان دی، اس واقعہ سے کفار مکہ بہت غضب ناک ہوئے۔[60]
حوالہ جات
- ↑ کمساری، «دستاوردہای سیاسی فتح مکہ»، ص116۔
- ↑ جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام تا سال چہلم ہجری، 1366شمسی، ص200۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج20، ص376؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج27، ص394۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1389شمسی، ج4، ص758۔
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، 1392شمسی، ص101-102۔
- ↑ جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام تا سال چہلم ہجری، 1366شمسی، ص199۔
- ↑ ابنہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج2، ص317۔
- ↑ ابنہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج2، ص318۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص781-784۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص787۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص792۔
- ↑ بیہقی، دلائل النبوہ، 1405ھ، ج5، ص24۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص786۔
- ↑ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج2، ص399۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص792۔
- ↑ عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، 1426ھ، ج21، 223۔
- ↑ بلادی، معالم مکۃ التاریخیۃ الأثریہ، 1400ھ، ص25۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص50۔
- ↑ ابنہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج2، ص403-404۔
- ↑ خطاب، الرسول القائد، 1422ھ، ص337۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص818۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج21، ص143۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص47
- ↑ عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، 1426ھ، ج21، 15-17۔
- ↑ بیہقی، دلائل النبوہ، 1405ھ، ج5، ص34۔
- ↑ ابنعبد البر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1310۔
- ↑ ابناثیر، اُسد الغابۃ، 1409ھ، ج1، ص612۔
- ↑ مِقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص388۔
- ↑ ابنعبد البر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1310۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شنسی، ص815۔
- ↑ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1391شمسی، ص460۔
- ↑ واقدی، مغازی، 1409ھ، ج2، ص821۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص814۔
- ↑ واقدی، مغازی، 1409ھ، ج2، ص822۔
- ↑ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج1، ص60۔
- ↑ واقدی، مغازی، 1409ھ، ج2، ص822۔
- ↑ حمیری، قرب الاسناد، 1413ھ، ص384۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص61۔
- ↑ جوادی، «طلقاء و نقش آنان در تاریخ اسلام»، ص7۔
- ↑ بلاذری، انساب الأشراف، 1400ھ، ج5، ص16۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص58۔
- ↑ عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، 1426ھ، ج23، ص9۔
- ↑ عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، 1426ھ، ج23، ص9-10۔
- ↑ ابنجوزی، المنتظم، 1412ھ، ج4، ص155۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص853-855۔
- ↑ بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج5، ص63۔
- ↑ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص233۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج7، ص259۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1988ء، ص49-50۔
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1564۔
- ↑ دیاربکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج2، ص94۔
- ↑ بلاذری، أنساب الأشراف، 1959ء، ج1، ص354۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص860۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص60۔
- ↑ صالحی شامی، سبل الہدی، 1414ھ، ج5، ص225۔
- ↑ ابنطاووس، الطرائف، 1400ھ، ج1، ص80۔
- ↑ ابنشہرآشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135۔
- ↑ شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص238۔
- ↑ فیاض، تاریخ اسلام، 1327شمسی، ص98۔
- ↑ قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ھ، ج1، ص97-98۔
مآخذ
- آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، تہران، دانشگاہ تہران، چاپ ہشتم، 1391ہجری شمسی۔
- ابن عبد البر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، بیروت، دار الجیل، 1412ھ۔
- ابناثیر، عزالدین، اُسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دار الفکر، 1409ھ۔
- ابنجوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1412ھ۔
- ابنسعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ۔
- ابنشہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیطالب(ع)، قم، علامہ، 1379ھ۔
- ابنطاووس، علی بن موسی، الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف، قم، خیام، 1400ھ۔
- ابنہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویہ، بیروت، دار المعرفہ، بیتا۔
- بلادی، عاتق بن غیث، معالم مکۃ التأریخیۃ الأثریہ، مکہ، دار مکہ للنشر و التوزیع، 1400ھ۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، مصر، دار المعارف، 1959ء۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف، بیروت، جمعیۃ المستشرقین الالمانیہ، 1400ھ۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، 1988ء۔
- بیہقی، احمد بن الحسین، دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1405ھ۔
- جعفریان، رسول، تاریخ سیاسی اسلام تا سال چہلم ہجری، قم، مؤسسہ در راہ حھ، 1366ہجری شمسی۔
- جوادی، سید مہدی، «طلقاء و نقش آنان در تاریخ اسلام»، در پژوہشنامہ تاریخ، شمارہ 12، پاییز 1387ہجری شمسی۔
- حمیری، عبداللہ بن جعفر، قرب الإسناد(ط- الحدیثۃ)، قم، موسسہ آل البیت، چاپ اول، 1413ھ۔
- خطاب، محمود شیث، الرسول القائد، بیروت، دار الفکر، 1422ہجری شمسی۔
- دیاربکری، حسین بن محمد، تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس نفیس، بیروت، دار صادر، بیتا.
- زرینکوب، عبدالحسین، بامداد اسلام، تہران، امیرکبیر، 1369ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، بوستان کتاب، 1385ہجری شمسی۔
- شہیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تہران، مرکز نشر دانشگاہی، علمی فرہنگی، چاپ ہفتم، 1392ہجری شمسی۔
- شیخ صدوھ، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات فرہنگ اسلامی، 1365ہجری شمسی۔
- صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1414ھ۔
- طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
- طبرسی، حسن بن فضل، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، 1372ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، تحقیق محمد أبوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، 1387ھ۔
- عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، قم، دار الحدیث، 1426ھ۔
- فیاض، علیاکبر، تاریخ اسلام، تہران، دانشگاہ تہران، 1327ہجری شمسی۔
- قطب راوندی، سعید بن ہبۃاللہ، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسہ امام مہدی(عج)، 1409ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاھ، الکافی، مصحح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- کمساری، عباس، «دستاوردہای سیاسی فتح مکہ»، در مجلہ مبلغان، شمارہ 155، 1433ھ۔
- مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار(ع)، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
- مسعودی، علی بن الحسین، التنبیہ و الاشراف، قاہرہ، دار الصاوی، بیتا، افست قم، مؤسسۃ نشر المنابع الثقافۃ الإسلامیہ۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، 1389ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
- مِقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1420ھ۔
- واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، ط الثالثۃ، 1409ھ۔
- یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب بن جعفر بن وہب واضح الکاتب العباسی(م بعد 292)، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار صادر، بیتا۔