طلحہ بن عبیداللہ

ویکی شیعہ سے
طلحہ بن عبیدالله
کوائف
مکمل نامطلحہ بن عبید الله بن عثمان
کنیتابو محمد
مہاجر/انصارمہاجر
سبب وفاتجنگ جمل میں مروان بن حکم کے ہاتھوں
دینی معلومات
اسلام لاناپہلے مسلمانوں میں سے/ابو بکر کے بعد
جنگوں میں شرکتپیغمبرؐ کی اکثر جنگوں میں شرکت
ہجرتمدینہ
دیگر فعالیتیںعثمان کے قتل میں شرکت، امام علی (ع) کے خلاف جنگ جمل کے راہنماؤں میں سے


طلحہ بن عبید اللہ پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب اور سب سے پہلے مسلمان ہونے والے افراد میں سے تھا جنہوں نے صدر اسلام کی جنگوں میں شجاعت کے جوہر دکھائے۔

پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد طلحہ نے اہل سنت کے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر کا ساتھ دیا۔ اسی طرح اہل سنت کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر کی طرف سے خلیفہ منتخب کرنے کے لئے بنائی گئی چھ رکنی کمیٹی میں بھی طلحہ شامل تھا۔ اہل سنت کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کے قتل کے واقعے میں ان کے قاتلوں کو اکسانے میں بھی طلحہ کا ہاتھ تھا۔

حضرت عثمان کے قتل کے بعد طلحہ نے حضرت علیؑ کی بیعت کی، لیکن کچھ عرصے بعد بیعت توڑ کر زبیر اور حضرت عایشہ نیز بنی امیہ کے بعض دیگر افراد کے ساتھ امام علیؑ کے خلاف جنگ جمل میں پیش پیش رہے جنہیں ناکثین کہا جاتا ہے اور آخر کار اسی جنگ میں مروان بن حکم کے ہاتھوں قتل ہوا۔

زندگی نامہ

ابو محمد طلحہ بن عبیداللہ بن عثمان بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب قرشی تیمی جو کہ بنی تیم بن مرہ کے قبیلے میں بعثت کے دس سال پہلے پیدا ہوا۔ اس کی والدہ صعبہ بنت حضرمی جو کہ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں تھی اور طلحہ کے خاندان کے بعض افراد کے بقول وہ مسلمان اس دنیا سے گئی۔[1] طلحہ کی زوجات، حمنہ بنت جحش (پیغمبرؐ کی پھوپھی اور محمد و عمران کی والدہ)، ام کلثوم ابو بکر کی بیٹی (کہ جس سے یعقوب، اسماعیل، زکریا اور عائشہ کو دنیا میں آئے)، سعدی بنت عوف (عیسی اور یحییٰ کی والدہ)، خولہ بنت قعقاع بن معبد بن زرارہ بن عدس تمیمی (موسیٰ کی والدہ)، ام حارث بنت قسامہ طی قبیلے سے (ام اسحاق کی والدہ)، ام ابان بنت عتبہ بن ربیعہ (اسحاق کی والدہ) اور تغلبیہ خاندان کی ایک عورت (صالح کی والدہ) تھیں۔ اسی طرح صعبہ اور مریم دونوں ام ولد کی کنیزیں تھیں۔[2]

اسلام

طلحہ بن عبیداللہ ابوبکر کی وجہ سے اسلام کی طرف مائل ہوا اور اسلام قبول کیا.[3]ایک قول کے مطابق طلحہ شام میں تھا کہ راہب نے احمد، عبدالمطلب کے فرزند کی پیغمبری کی خبر اسے دی اور وہ مکہ آنے کے بعد ابوبکر کے ہمراہ مسلمان ہو گیا۔[4] طلحہ کو ابوبکر کے ہمراہ نوفل بن خویلد بن عدویہ یا عثمان بن عبیداللہ (طلحہ کا بھائی) کے ہاتھوں آزار واذیت دی گئی۔ نوفل (یا عثمان) ان دونوں کو ایک رسی میں باندھ دیتا تھا تا کہ ان کی نماز میں رکاوٹ ہو۔[5] طلحہ ان مہاجرین میں سے تھا جس نے رسول خداؐ کی ہجرت سے پہلے اور پیغمبرؐ کے خاندان کے بعض افراد کے ہمراہ مدینہ کی طرف سفر کیا[6] اور حبیب بن اساف جو کہ بنی حرث بن خزرج کے خاندان سے تھا ان کے گھر رکا[7] اور ایک قول کے مطابق طلحہ نے دو سفید رنگ کے کپڑے پیغمبرؐ اور ابوبکر کے لئے شام سے لائے اور وہ دونوں وہ سفید شامی لباس پہن کر مدینہ میں داخل ہوئے۔[8] پیغمبرؐ نے مکہ میں طلحہ اور زبیر بن عوام [9] یا سعید بن زید [10] یا سعد بن ابی وقاص [11] کے درمیان اخوت کا صیغہ جاری کیا اور مدینہ ہجرت کے بعد، پیغمبرؐ نے کعب بن مالک [12] یا ابو ایوب انصاری [13] یا ابی بن کعب [14] کے درمیان بھائی چارے کا پیمان باندھا۔ طلحہ پیغمبرؐ کے راویوں سے ہے اور یہ مشہور روایت اسی کی ہے: طلحہ کہتا ہے: میں نے پیغمبرؐ سے پوچھا کہ آپ پر کس طرح صلوات پڑھیں۔ آپؐ نے فرمایا: کہو: اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم انک حمید مجید، و بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی آل ابراھیم انک حمید مجید[15] طلحہ کے فرزند یحییٰ، موسی، عیسیٰ، قیس بن ابوحازم، احنف بن قیس، سائب بن یزید، ابو عثمان نھدی اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن، آپ سے روایت نقل کرتے تھے۔[16]

جنگوں میں حاضر ہونا

طلحہ جنگ غزوہ اور بدر کے وقت مدینہ میں حاضر نہیں تھا پیغمبرؐ نے اسے اور سعید بن زید کو شام کی طرف بھیجا ہوا تھا اس وقت شام سے واپس لوٹا جب مسلمان بدر سے واپس آ چکے تھے. طلحہ سفر سے واپسی پر پیغمبرؐ کے پاس گیا اور جنگ بدر کی مال غنیمت میں سے اپنا حصہ مانگا پیغمبرؐ نے اس کا حصہ اسے دیا. [17] طلحہ جنگ احد میں موجود تھا اور بعض قول کے مطابق اس جنگ میں اپنے جوہر دکھائے. وہ اس جنگ میں زخمی ہو گیا اور بعض انگلیوں ناکارہ ہو گئیں. [18] طلحہ نے مسلمانوں کی شکست اور پیغمبرؐ کے قتل کی خبر پھیلنے کے بعد بعض مہاجرین اور انصار جیسے عمر بن خطاب کے ہمراہ میدان جنگ سے نکل گیا. انس بن نضر ان کے پاس آیا اور کہا بیٹھے کیوں ہو؟ انہوں نے جواب دیا: پیغمبرؐ قتل ہو گئے ہیں. انس نےکہا: آپ لوگ بھی اٹھو اور اسی راہ میں قتل ہو جاؤ جس راہ میں پیغمبرؐ قتل ہوئے ہیں. [19] البتہ بعض قول کے مطابق طلحہ کا شمار ان محدود افراد سے ہے کہ جو قریش کے حملے کے بعد (جب بہت سے مسلمان فرار کر گئے) پیغمبرؐ کے پاس ثابت قدم رہا. [20] طلحہ کو جنگ تبوک سے پہلے، جو منافقوں کا گروہ سویلم یہودی کے گھر جمع تھا انکی ہدایت کے لئے بھیجا گیا. [21]

پیغمبرؐ کو اذیت

طلحہ نے پیغمبرؐ کی زوجات کے بارے میں ایسی بات کہی کہ پیغمبرؐ کو اذیت ہوئی اس لئے اس کی مذمت میں آیات نازل ہوئی. طلحہ نے کہا: اگر پیغمبرؐ دنیا سے چلے گئے تو آپؐ کی زوجہ عائشہ سے شادی کرے گا. اس لئے آیتوَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَ‌سُولَ اللَّـهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمًا ترجمہ: اور تم رسول خداؐ کو اذیت پہنچانے کا حق نہیں رکھتے ہو، اور پیغمبرؐ کی وفات کے بعد انکی زوجات سے نکاح نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ کام خداوند کے نزدیک ہمیشہ بڑا گناہ ہے. (احزاب ٥٣) نازل ہوئی. [22]

عہد خلفاء

طلحہ بن عبیداللہ پہلے خلیفہ (ابوبکر) کے ہمراہ جنگوں میں حاضر تھا. [23] وہ عمر بن خطاب، عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن ابوبکر کے ہمراہ، ابوبکر کے دفن سے پہلے اس کی قبر میں داخل ہوئے اور پھر ابوبکر کو پیغمبرؐ کے ساتھ دفن کیا. [24] اکثر اوقات جب ابو بکر عمر بن خطاب کو حد سے زیادہ اہمیت دیتا تھا تو طلحہ ابوبکر کو اس کام سے روکتا تھا. [25]اور جب ابوبکر نے اپنے بعد عمربن خطاب کو خلیفہ بنانے کا اعلان کیا تو اس نے اعتراض کیا. [26] طلحہ نے بہت سی فتوحات، جیسے ایران کی فتح میں شرکت کی اور عمربن خطاب کی خلافت کے دور میں عبدالرحمن بن عوف اور زبیر بن عوام کے ہمراہ جنگ میں شرکت کی. [27] اور وہ بعض ملکوں کے امور میں عمر کو مشورہ دیتا تھا. [28]

تیسرے خلیفہ کے تعین کے لئے چھ افراد کا گروہ

طلحہ امام علی(ع) کے ہمراہ، عثمان بن عفان، زبیربن عوام، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص، تیسرے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چھ افراد پر مشتمل ایک گروہ میں شامل ہو گیا. عمر نے طلحہ کے بارے میں کہا: وہ ایسا شخص ہے کہ جو اپنی آبرو و ستایش کی خاطر اپنا مال قربان کرتا ہے تا کہ دوسروں کے مال کو حاصل کر سکے اور کبر اور غرور میں گرفتار ہے. [29] بعض قائل ہیں کہ وہ اس زمانے میں مدینہ سے باہر تھا. اور جب واپس آیا تو عثمان کے بارے میں اپنی رائے کو اعلان کیا.[30] بعض نے کہا ہے کہ وہ عمر کی وفات اور عثمان کی بیعت کے بعد مدینہ واپس چلا گیا. [31]

عثمان کے قتل میں مشارکت

طلحہ سنہ ٣٥ ہجری قمری عثمان کے گھر کا محاصرہ کرنے والوں میں موجود تھا اور خلیفہ کے گھر کا محاصرہ کرنے پر اسرار کیا اور اس کام میں بہت سختی کی حتی کہ عثمان کے گھر پر پانی بند کر دیا، جب حضرت علی(ع) کو اس بات کا پتہ چلا تو بہت ناراض ہوئے اور اس کے بعد اجازت دی گئی کہ عثمان کے گھر پانی بھیجا جائے. [32] اسی طرح محاصرہ کے ایام میں، وہ شہر مدینہ کے لوگوں کا امام جماعت تھا. [33] ابن اعثم کے بقول، طلحہ نے بنی تیم کے ہمراہ عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا اور عثمان نے حضرت علی(ع) سے مدد کی درخواست کی. حضرت علی(ع) کے اس ماجرہ میں دخالت کے بعد، طلحہ اور اس کے دوست نے اس کے گھر کا محاصرہ ختم کر دیا. [34] طلحہ کو تیسرے خلیفہ عثمان کے قتل میں متہم کیا گیا. اس بارے میں مندرجہ ذیل شاہد موجود ہیں:

  • عثمان بن عفان نے گھر کے محاصرے کے وقت، خلیفہ کے خلاف شورش کرنے والوں میں سے طلحہ کو پہلا مخالف کہا ہے. [35].
  • اسی طرح یعقوبی نے طلحہ کا نام زبیر اور عائشہ کے ساتھ جو کہ تیسرے خلیفہ کے قتل میں ملوث تھے، لکھا ہے. [36]
  • حتی کہ طلحہ کے بیٹے محمد نے بھی اسے عثمان کے قتل میں شریک قرار دیا ہے. [37]
  • مروان بن حکم نے جنگ جمل میں طلحہ کو مارنے کی وجہ یہی کہی ہے کہ عثمان کو قتل کرنے میں سب سے زیادہ تلاش طلحہ کی تھی. [38]

بیعت شکنی اور جنگ جمل

طلحہ وہ پہلا فرد تھا جس نے عثمان کے قتل کے بعد امام علی(ع) سے بیعت کی [39] اور چونکہ اس کا ہاتھ مفلوج تھا، بنی اسد کے ایک مرد نے اس کی بیعت کو خطرے کی علامت کہا.[40] اس نے تھوڑی مدت کے بعد بیعت کو توڑ دیا اور حضرت علی(ع) کے خلاف زبیر اور عائشہ کے ساتھ مل کر جنگی دستہ تیار کیا اور بصرہ کی طرف چلا گیا اور جنگ جمل شروع کی. طلحہ نے سنہ ٣٦ ہجری زبیر اور عائشہ کے ہمراہ، امام علی(ع) کے خلاف قیام کیا. [41] کہا جاتا ہے کہ جب طلحہ اور زبیر بصرہ میں داخل ہوئے، عبداللہ بن حکیم تمیمی نے عثمان کے خلاف طلحہ کے ہاتھوں لکھا ہوا ثبوت پیش کیا. عبداللہ نے طلحہ سے کہا: کیا ہوا ہے کل تک تو تم عثمان کے خلاف لشکر تیار کرتے رہے ہو اور آج عثمان کے خون کا مطالبہ کرنے لگے ہو؟ طلحہ نے کہا آج توبہ اور عثمان کا خون طلب کرنے کے علاوہ کسی چیزکو صحیح نہیں سمجھا. [42] حضرت علی(ع) نے اس جنگ میں طلحہ کو مکار شخص کہا اور اسں کو زبیر، عائشہ اور یعلی بن منیہ کے ہمراہ اپنا سخت ترین دشمن یاد کیا ہے. [43] مروان بن حکم نے جنگ کی ابتداء میں کہا آج کے بعد عثمان کے خون کا مطالبہ نہیں کروں گا. مروان نے جنگ کی ابتداء میں یا جمل کے لشکر کے فرار اور شکست کے بعد، طلحہ کی طرف ایک تیر پھینکا کہ جو طلحہ کے گھٹنے پر لگا اور اسی تیر کے لگنے سے ختم ہو گیا اور بصرہ میں ایک نہر کے کنارے دفن کیا گیا. [44] کہا گیا ہے کہ وفات کے وقت اس کی عمر ٦٤ یا ٦٢ سال تھی.[45]

طلحہ کی دولت و ثروت

طلحہ کی وفات کے بعد، اس کا بہت مال و ثروت باقی رہا۔ عراق میں اس کے اناج کی قیمت چار سو سے پانچ سو درہم اور روزانہ تقریباً ہزار درہم تھی اور اس کے اناج کی قیمت سراہ میں تقریباً دس ہزار دینار تھی اور اسی طرح نقل ہوا ہے کہ اس کی میراث جیسے زمین، مال، اور نقد پیسہ (درہم اور دینار) تیس میلیون تھا۔ دو میلیون اور دو لاکھ درہم اور دو سو ہزار دینار نقد موجود تھا اور اس کے علاوہ زمین اور مال تھا۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ جب طلحہ بن عبیداللہ قتل ہوا تو اس کے خزانے دار کے پاس دو میلیون اور دو سوہزار درہم نقد، اور باقی باغ اور اموال جس کی قیمت تیس میلیون تھی، موجود تھا۔ ایک اور قول کے مطابق طلحہ بن عبیداللہ سونے سے بھری ہوئی سو بیل کے چمڑے کی بوریاں کہ ہر بوری میں تین سو رطل سونا تھا، باقی چھوڑ کر گیا۔[46]

اہل سنت کے نزدیک مقام

طلحہ کو اہل سنت کے نزدیک خاص مقام حاصل ہے اور اس کو ایک عشرہ مبشرہ (وہ دس افراد جنکو پیغمبرؐ نے جنت کی بشارت دی ہے)، طلحہ الخیر، طلحہ فیاض، کہتے ہیں اور اسے پیغمبرؐ کا راوی کہا گیا اور اس کے بیٹے: یحییٰ اور موسیٰ، قیس بن ابو حازم، ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور مالک بن ابو عامر اس سے روایت نقل کرتے تھے۔[47] اور طلحہ کو پیغمبرؐ کے بارہ حواری، حمزہ بن عبدالمطلب، جعفر بن ابی طالب، علی (ع)، ابوبکر، عمر بن خطاب، ابو عبیدہ جراح، عثمان بن عفان، عثمان بن مظعون، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور زبیر بن عوام، کے ساتھ شامل کرتے ہیں۔[48]

حوالہ جات

  1. انساب الاشراف، ج۱۰، ص۱۲۹
  2. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۱۶۰ و ۱۶۱ و انساب الاشراف، ج۱، ص۸۸ و ۲۴۴ و ج۱۰، ص۱۱۷ و ص۱۳۰؛ ابن حزم، جمهرة انساب العرب، ص۱۵۷
  3. ابن هشام السیره النبویہ، ج۱، ص۲۵۱ و ۲۵۲؛ مسعودی، مروج الذهب، ج۲، ص۲۷۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۲، ص۴۶۸
  4. انساب الاشراف، ج۱۰، ص۱۱۵؛ بیهقی، دلائل النبوه، مقدمہ، ص۲۷؛ ابن کثیر دمشقی، البدایہ و النهایہ، ج۳، ص۲۹
  5. ابن هشام السیره النبویہ، ج۱، ص۲۸۲ ؛ ابن جوزی، المنتظم، ج۵، ص۱۱۲؛ ابن اثیر، اسد الغابه، ج۲، ص۴۶۸
  6. انساب الاشراف، ج۱، ص۲۶۹؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج۱، ص۶۸ و ۶۹
  7. ابن هشام السیره النبویہ، ج۱، ص۴۷۷
  8. انساب الاشراف، ج۱۰، ص۶۱
  9. ابن هشام السیره النبویہ، ج۲، ص۵۶۱
  10. هاشمی بغدادی، المحبر، ص۷۱
  11. ن قتیبہ، المعارف، ص۲۲۸
  12. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۷۶۴
  13. ن اثیر، اسد الغابہ، ج۲، ص۴۶۸
  14. هاشمی بغدادی، المحبر، ص۷۳ و انساب الاشراف، ج۱، ص۲۷۱
  15. مقریزی، امتاع الاسماع، ج۱۱، ص۳۳
  16. ذهبی، تاریخ الاسلام، ج۳، ص۵۲۳
  17. التنبیه و الاشراف، ص۲۰۵؛ ابن خیاط، تاریخ خلیفه، ص۲۴؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۷۶۴ و ۷۶۵
  18. مقریزی، امتاع الاسماع، ج۱، ص۱۵۶ و ۱۵۷
  19. طبری، تاریخ طبری، ج۲، ص۵۱۷
  20. زرکلی،الاعلام، ج۳، ص۲۲۹
  21. ابن هشام السیره النبویه، ج۲، ص۵۱۷؛ ابن کثیر دمشقی، البدایه و النهایه، ج۵، ص۳
  22. انساب الاشراف، ج۱۰، ص۱۲۳، تفسیر القران العظیم، ج۶، ص ۴۰۳
  23. بلاذری، فتوح البلدان، ص۱۰۰؛ مسعودی، البدء و التاریخ، ج۵، ص۱۵۷
  24. انساب الاشراف، ج۱۰، ص۹۵
  25. طبری،تاریخ طبری، ج۳، ص۲۷۵
  26. طبری، تاریخ طبری، ج۳، ۴۳۳
  27. طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص۴۸۱ و ۴۸۸
  28. ابن اعثم کوفی،الفتوح، ج۲، ص۲۹۲
  29. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۵۸
  30. ابن قتیبه، الامامه و السیاسه، ج۱، ص۴۲ و ۴۴
  31. انساب الاشراف، ج۵، ص۵۰۴
  32. انساب الاشراف، ج۵، ص۵۶۱
  33. ابن کثیر دمشقی، البدایه و النهایه، ج۷، ص۱۷۷
  34. ابن اعثم کوفی،الفتوح، ج۲، ص۴۲۳
  35. طبری، تاریخ طبری، ج۴، ص۳۷۹
  36. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۱۷۵
  37. ابن قتیبه، الامامه و السیاسه، ج۱، ص۸۴
  38. ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج۲، ص۴۷۸
  39. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۷۸؛ ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج۲، ص۴۳۶
  40. انساب الاشراف، ج۲، ص۲۰۶ و ۲۰۷
  41. ابن خیاط، تاریخ خلیفه، ص۱۰۸
  42. انساب الاشراف، ج۲، ص۲۲۹ و ۲۳۰
  43. ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج۲، ص۴۶۳ و ۴۶۴
  44. ابن خیاط، تاریخ خلیفه، ص۱۰۸ و انساب الاشراف، ج۲، ص۲۴۶ و ۲۴۷ و ج۶، ص۲۵۷؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۷۶۸
  45. انساب الاشراف، ج۱۰، ص۱۲۸؛ مسعودی، البدء و التاریخ، ج۵، ص۸۲
  46. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۱۶۶ و ۱۶۷
  47. این حجر عسقلانی، الاصابہ، ج۳، ص۴۳۰
  48. بغدادی، المنمق، ص۴۲۳؛ بسوی، المعرفہ و التاریخ، ج۲، ص۵۳۵ و ۵۳۶

مآخذ

  • قرآن کریم
  • ابن اثیر جزری، ابوالحسن عزالدین، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م.
  • ابن اعثم کوفی، ابومحمد احمد، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱ق.
  • ابن جوزی، ابوالفرج عبدالرحمن بن علی القرشی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیة، الطبعة الاولی، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
  • ابن حزم، جمهرة انساب العرب، تحقیق لجنة من العلماء، بیروت، دار الکتب العلمیة، ط الاولی، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م.
  • ابن خیاط، ابوعمرو خلیفه بن خیاط لیثی عصفری، تاریخ خلیفه بن خیاط، تحقیق فواز، بیروت، دار الکتب العلمیة، الطبعة الاولی، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
  • ابن سعد، محمد هاشمی بصری، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیة، الطبعة الاولی، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م.
  • ابن عبدالبر، ابو عمر یوسف بن عبد الله بن محمد، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م.
  • مفید، محمد بن محمد، الجمل، قم، مکتب الاعلام الاسلامی٬ ۱۳۷۱ش.
  • ابن قتیبه، ابومحمد عبدالله بن مسلم، الإمامة والسیاسة المعروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالاضواء، الطبعة الاولی، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م.
  • ابن قتیبة، ابومحمد عبدالله بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عکاشه، القاهرة، الهیئة المصریة العامة للکتاب، الطبعة الثانیة، ۱۹۹۲م.
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م.
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق سامی بن محمد السّلامة، دار طیبة للنشر والتوزیع، ۱۴۲۰ق/۱۹۹۹م.
  • ابن هشام حمیری معافری، عبدالملک، السیرة النبویة، تحقیق مصطفی السقا و ابراهیم الابیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفة، بی‌تا.
  • بسوی، ابویوسف یعقوب بن سفیان، المعرفة و التاریخ، تحقیق اکرم ضیاء العمری، بیروت، مؤسسة الرسالة، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م.
  • بغدادی، محمد بن حبیب، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق خورشید احمد فاروق، بیروت، عالم الکتب، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت، دار و مکتبة الهلال، ۱۹۸۸م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، جمل من انساب الاشراف، تحقیق سهیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، الطبعة الاولی، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
  • بیهقی، ابوبکر احمد بن حسین، دلائل النبوة و معرفة احوال صاحب الشریعة، تحقیق عبد المعطی قلعجی، بیروت، دار الکتب العلمیة، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.
  • ذهبی، ابوعبدالله شمس الدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، الطبعه الثانیه، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳م.
  • زرکلی، خیر الدین، الاعلام قاموس تراجم لأشهر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دار العلم للملایین، الطبعة الثامنة، ۱۹۸۹م.
  • سید‌‌‌ رضی، محمد بن‌حسین، نهج البلاغه، تصحیح صبحی صالح، قم، مركز البحوث الاسلاميه، ۱۳۷۴ش.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد ابو الفضل ابراهیم، بیروت، دارالتراث، الطبعة الثانیة، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبري: تاریخ الأمم والملوک، بیروت، بی‌نا، بی‌تا.
  • مسعودی، ابوالحسن علی بن حسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، تحقیق اسعد داغر، قم، دارالهجره، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق.
  • مسعودی، ابوالحسن علی بن حسین، التنبیه و الاشراف، تصحیح عبد الله اسماعیل الصاوی، القاهرة، دار الصاوی، بی‌تا.
  • مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبة الثقافة الدینیة، بی‌تا.
  • مقریزی، تقی الدین احمد بن علی، امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال و الاموال و الحفدة و المتاع، تحقیق محمد عبد الحمید النمیسی، بیروت، دار الکتب العلمیة، الطبعة الاولی، ۱۴۲۰ق/۱۹۹۹م.
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمومنین(ع)، تهران، دارالکتب الاسلامیه، ۱۳۸۶ش.
  • ناشئ الاکبر، عبدالله بن محمد، مسائل الامامة، تحقیق یوزف فان اس، بیروت، بی‌نا، ۱۹۷۱ق.
  • هاشمی بغدادی، ابوجعفر محمد بن حبیب بن امیة، المحبر، تحقیق ایلزة لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیدة، بی‌تا.
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا.