ام عمارہ

ویکی شیعہ سے
ذاتی کوائف
نام کاملنسیبہ بنت کعب
کنیہام عماره، ام حبیب
محل زندگیمدینہ
نسبقبیلہ خزرج
مھاجر/انصارانصار
وفات/شھادت١٣ق کے بعد
دینی کوائف
اسلام قبول کرنے کا زمانہعقبہ کی دوسری بیعت
غزوات میں حضورغزوہ احد،غزوہ حنین،غزوہ خیبر
شھرت کی وجہغزوہ احد میں پیغمبر کا دفاع
دیگر فعالیتیںراوی

نسیبہ بنت کعب (وفات ١٣ صدی کے بعد) ام عمارہ کے نام سے مشہور، جو کہ پیغمبر(ص) کے اصحاب سے تھیں. ام عمارہ، کا نام مدینہ میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے افراد میں اور ان دو عورتوں سے تھیں جو عقبہ کی دوسری بیعت کے وقت مسلمان ہوئیں. آپ نے کئی جنگوں میں، بالخصوص جنگ احد میں جنگجو اور زخمی افراد کی مدد کی. آپ جنگ احد میں پیغمبر(ص) کی حفاظت کرتے وقت زخمی ہوئیں. ام عمارہ پیغمبر(ص) کی احادیث نقل کرتی تھیں. آپکی وفات کی تاریخ کے بارے میں منابع میں کوئی اشارہ نہیں کیا گیا، لیکن ایک روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ عمر بن خطاب کے دورہ حکومت تک زندہ تھیں.

زندگی نامہ

ام عمارہ کا والد گرامی، کعب بن عمر و بن عوف، بنی مازن قبیلہ خزرج سے اور آپکی مادر گرامی رباب بنت عبداللہ بھی اسی قبیلے سے تھیں.[1]اس لئے آپکو نسیبہ مازنیہ بھی کہتے تھے. ام عمارہ کے دو بھائی، عبداللہ اور عبدالرحمان بن کعب بھی اصحاب میں سے تھے. [2]

ام عمارہ نے، پہلے زید بن عاصم بنی نجار جن کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا ان سے شادی کی ان سے دو فرزند حبیب (اسی وجہ سے آپکو ام حبیب بھی کہا جاتا ہے)[3]اور عبداللہ تھے، کہ وہ دونوں بھی اصحاب سے تھے.[4]آپکے شوہر کا انتقال ہو گیا تو آپ نے اسلام کے بعد، غزیۃ بن عمرو وہ بھی بنی نجار سے تھے، ان سے شادی کی اس سے بھی آپکے دو فرزند تھے جن کے نام تمیم اور خولہ تھے.[5]

تاریخی گزارش کے مطابق، پیغمبر(ص) نے ام عمارہ کے بیٹے حبیب کو ایک اور شخص کے ہمراہ مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا، لیکن مسیلمہ نے حبیب کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے اور اسے قتل کر دیا. جنگ یمامہ جو کہ مسیلمہ کے ساتھ تھی، اس میں ام عمارہ کے دوسرے فرزند عبداللہ نے مسیلمہ کو قتل کر دیا.[6]یزید بن معاویہ کے زمان خلافت میں واقعہ حرہ پیش آیا جس میں عبداللہ بھی قتل ہو گیا.[7]

اسلام لانا

ام عمارہ، شہر مدینہ کے اس پہلے گروہ سے تھیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ان دو عورتوں سے تھیں جنہوں نے عقبہ کے دوسرے پیمان کے وقت اسلام قبول کیا. اس بیعت میں، غزیہ بن عمرو کہ جس سے ام عمارہ نے بعد میں شادی کی وہ بھی وہاں موجود تھا.[8]

جنگوں میں شرکت

ام عمارہ کچھ جنگوں میں جنگجو اور زخمی افراد کی مدد کے لئے موجود تھیں بالخصوص جنگ احد میں، جب پیغمبر(ص) کو مشکل میں دیکھا تو آپ(ص) کی حفاظت کے خاطر بہت زیادہ زخم برداشت کیے.[9]اسی لئے پیغمبر(ص) نے اس کی ستایش کی اور پھر اس کی عیادت کے لئے گئے.[10]

ام عمارہ کو جنگ احد میں جو زخم لگے ان کی وجہ سے، غزوہ حمراء الاسد کی جںگ میں شرکت نہ کر سکی،[11]لیکن دوسری جنگیں من جملہ جنگ خیبر اور جنگ حنین میں اسلامی لشکر کے ہمراہ تھیں.[12]

ام عمارہ نے ابوبکر کے دورہ خلافت کے وقت، جنگ یمامہ میں شرکت کی اور اسی جنگ میں آپ کا ایک ہاتھ کاٹا گیا.[13]

پیغمبر(ص) سے نقل حدیث

ام عمارہ نے پیغمبر(ص) کے قول سے کچھ احادیث نقل کی ہیں. [14]

وفات

آپ کی تاریخ وفات کے بارے میں کسی منابع کی طرف اشارہ نہیں ہوا ہے. روایت کے مطابق، عمربن خطاب کے دور خلافت کے وقت، جو ہدیہ آپ کے لئے لایا گیا آپ نے وہ ہدیہ ام عمارہ کو بھیجا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عمر کے دور خلافت تک زندہ تھیں اور آپکی وفات ١٣ ق کے بعد تھی.[15]

حوالہ جات

  1. کلبی‌، نسب‌ معد و الیمن‌ الکبیر، ج۲، ص۴۹؛ ابن‌ هشام‌، سیرة النبی‌(ص‌)، ج۲، ص۳۱۹؛ ابن‌ سعد، الطبقات‌ الکبیر، ج۸، ص۳۰۱.
  2. کلبی‌، نسب‌ معد و الیمن‌ الکبیر، ج۲، ص۴۹؛ ابن‌ هشام‌، سیرة النبی‌(ص‌)، ج۲، ص۳۱۹؛ ابن‌ سعد، الطبقات‌ الکبیر، ج۸، ص۳۰۱.
  3. بن‌ هشام‌، سیرة النبی‌(ص‌)، ج۲، ص۳۱۹؛ بلاذری‌، فتوح‌ البلدان‌، ص۱۲۶، به‌ نقل‌ از واقدی‌.
  4. کلبی‌، نسب‌ معد و الیمن‌ الکبیر، ج۲، ص۴۹.
  5. ابن‌ سعد، الطبقات‌ الکبیر، ج۸، ص۳۰۱؛ بلاذری‌، انساب‌ الاشراف‌، ج۱، ص۲۵۰؛ ابن‌ هشام‌، سیرة النبی‌(ص‌)، ج۲، ص۳۱۹.
  6. بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص 324
  7. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج 8، ص 416.
  8. ابن‌ سعد، الطبقات‌ الکبیر، ج۸، ص۳۰۱؛ بلاذری‌، انساب‌ الاشراف‌، ج۱، ص۲۵۰؛ ابن‌ هشام‌، سیرة النبی‌(ص‌)، ج۲، ص۳۱۹.
  9. واقدی‌، المغازی‌، ج۱، ص۲۶۸؛ ابن‌ سعد، الطبقات‌ الکبیر، ج۸، ص۳۰۱.
  10. ابن‌ سعد، الطبقات‌ الکبیر، ج۸، صص۳۰۳-۳۰۲؛ بلاذری‌، انساب‌ الاشراف‌،ج۱، صص۳۲۶-۳۲۵.
  11. واقدی‌، المغازی‌، ج۱، صص۲۷۳-۲۶۸؛ ابن‌ سعد، الطبقات‌ الکبیر، ج۸، ص ۳۰۲.
  12. واقدی‌، المغازی‌، ج۲، صص۵۷۴-۵۷۳؛ خلیفه‌، الطبقات‌، ج۲، ص ۸۸۰؛ ابن‌ عبدالبر، الاستیعاب‌، ج۴، ص۱۹۴۷؛ ذهبی‌، سیر اعلام‌ النبلاء، ج۲، ص۲۷۸.
  13. واقدی‌، المغازی‌، ج۱، ص۲۶۹؛ ابن‌ سعد الطبقات‌ الکبیر، ج۸، ص۳۰۴؛ بلاذری‌، انساب‌ الاشراف‌، ج۱، ص۳۲۵ و فتوح‌ البلدان‌، ص۱۲۶، به‌ نقل‌ از واقدی ؛ ذهبی‌، سیر اعلام‌ النبلاء، ج۲، ص۲۸۱.
  14. احمد بن‌ حنبل‌، مسند، ج۶، ص۴۳۹؛ ابن‌ ماجه‌، سنن‌،ج۱، ص۵۵۶؛ مزی‌، تحفة الاشراف‌، ج۱۳، صص۹۳-۹۲.
  15. ابن‌ سعد، الطبقات‌ الکبیر، ج۸، ص۳۰۳؛ بلاذری‌، انساب الاشراف‌، ج۱، ص۳۲۶-۳۲۵.

مآخذ

  • ابن‌ سعد، محمد، الطبقات‌ الکبیر، به‌کوشش‌ بروکلمان‌ و دیگران‌، لیدن‌، ۱۳۲۱ق‌.
  • ابن ‌عبدالبر، یوسف‌، الاستیعاب‌، به‌کوشش‌علی‌محمد بجاوی‌،قاهره‌،۱۳۸۰ق‌/ ۱۹۶۰م‌.
  • ابن‌ ماجه‌، محمد، سنن‌، به‌کوشش‌ محمدفؤاد عبدالباقی‌، بیروت‌، ۱۳۹۵ق‌/ ۱۹۷۵م‌.
  • ابن‌ ماکولا، علی‌، الاکمال‌، به‌کوشش‌ نایف‌ عباسی‌، بیروت‌.
  • ابن‌ هشام‌، عبدالملک‌، سیرة النبی‌(ص‌)، به‌کوشش‌ محمد محیی‌الدین‌ عبدالحمید، قاهره‌، ۱۳۹۱ق‌/۱۹۷۱م‌.
  • احمد بن‌ حنبل‌، مسند، قاهره‌، ۱۳۱۳ق‌.
  • بلاذری‌، احمد، انساب‌ الاشراف‌، به‌کوشش‌ محمد حمیدالله‌، قاهره‌، ۱۹۵۹م‌.
  • بلاذری‌، احمد، فتوح‌ البلدان‌، به‌کوشش‌ عبدالله‌ و عمر انیس‌ الطباع‌، بیروت‌، ۱۴۰۷ق‌/۱۹۸۷م‌.
  • خلیفة بن‌ خیاط، الطبقات‌، به‌کوشش‌ سهیل‌ زکار، دمشق‌، ۱۹۶۶م‌.
  • ذهبی‌، محمد، سیر اعلام‌ النبلاء، به‌کوشش‌ شعیب‌ ارنؤوط و دیگران‌، بیروت‌، ۱۴۰۵ق‌.
  • کلبی‌، هشام‌، نسب‌ معد و الیمن‌ الکبیر، به‌کوشش‌ محمود فردوس‌ العظم‌، دمشق‌، دارالیقظة العربیه‌.
  • مزی‌، یوسف‌، تحفة الاشراف‌، بمبئی‌، ۱۴۰۳ق‌/ ۱۹۸۲م‌.
  • واقدی‌، محمد، المغازی‌، به‌کوشش‌ مارسدن‌ جونز، لندن‌، ۱۹۶۶م‌.