بلال بن رباح (متوفی 17 سے 21 ھ) بلال حبشی کے نام سے مشہور پیغمبر اکرم (ص) کے صحابی و موذن ہیں۔ ان کا شمار اسلام لانے والے پہلے افراد میں ہوتا ہے۔ پیغمبر (ص) کے زمانے میں بیت المال کے خزانے دار تھے اور آپ (ص) کے ہمراہ تمام جنگوں میں شرکت کی۔ بلال آنحضرت (ص) کی رحلت کے چند سال بعد زندہ رہے، لیکن اس دوران، فقط چند بار سے زیادہ کسی کے لئے اذان نہ کہی۔ مشہور قول کے مطابق، آپ کو دمشق کے باب الصغیر قبرستان میں دفن کیا گیا۔

بلال حبشی
کوائف
مکمل نامبلال بن رباح
کنیتابو عبد اللہ
لقبابن حمامہ
تاریخ پیدائشعام الفیل سے تین سال قبل
مہاجر/انصارمہاجر
وفاتسنہ 17 سے 21 ھ
مدفنقبرستان باب الصغیر (دمشق)
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتتمام جنگوں میں
ہجرتمدینہ
وجہ شہرتموذن پیغمبر
دیگر فعالیتیںنقل روایات از آنحضرتؐ

کنیت اور دوسری ظاہری نشانیاں

بلال کا خاندان اصل میں نوبہ (سوڈان کے شمال اور مصر کے جنوب کا علاقہ) سے ہے۔[1] بلال کے والد حبشہ کے اسیروں میں سے تھے۔[2] اور وہ خود بنی جمح یا سراہ کے (جو کہ مکہ میں رہائش پذیر تھے) غلام خاندان میں پیدا ہوئے۔[3] بعض نے بلال کی سن ولادت کو عام الفیل کے تین سال بعد کہا ہے۔[4]

بلال کا قد لمبا، جسم دبلا، رنگ تیز سیاہ، جھکی ہوئی کمر، لمبے اور بھورے بال، اور چہرہ ملائم و نازک تھا۔[5]

شادی اور اولاد

بلال کی شادی کے بارے میں گزارشات مختلف ہیں، بلاذری کی گزارش کے مطابق بلال نے بنی زہرہ کی ایک لڑکی سے شادی کی اور اسی کی دوسری گزارش کے مطابق آپ نے بنی کنانہ کی ایک لڑکی سے شادی کی۔[6] اور کہا گیا ہے کہ بلال نے اپنے بھائی کے ہمراہ یمن کے سفر کے دوران، شادی کا ارادہ کیا۔ رشتہ مانگتے وقت اپنا تعارف یوں کروایا: میں بلال اور یہ میرا بھائی، ہم دونوں حبشہ کے غلام تھے، ہم گمراہ تھے اور خدا نے ہمیں ہدایت کی ہے۔ غلام تھے، خدا نے ہمیں آزاد کیا ہے۔ اگر اپنی بیٹیوں کا رشتہ ہمیں دیں تو، الحمد للہ اور اگر نہ دیں تو اللہ اکبر لڑکی کے گھر والے اس سے پہلے کہ بلال کو کوئی جواب دیں رسول خدا (ص) کے پاس گئے، اور سارا ماجرا بیان کیا، اور آپ (ص) نے رائے مانگی۔ آپ (ص) نے تین بار بلال کے بارے میں رائے دی اور فرمایا: اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے کہ وہ اہل بہشت ہے۔[7]

بعض قول کے مطابق بلال کی کوئی اولاد نہیں تھی۔[8] لیکن سخاوی نے اپنی کتاب میں بلال کے بیٹے عمر، کو راوی کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔[9] ابن کثیر نے بھی ایک شخص ہلال بن عبد الرحمن کا ذکر کیا ہے کہ وہ سلیمان بن بلال جو کہ پیغمبر (ص) کے مؤذن تھے ان کی نسل سے تھے۔[10]

غلامی سے آزادی

بلال کئی مہینے رنج اور مشقت کو برداشت کرنے کے بعد خرید کر آزاد کئے گئے۔ بعض نے کہا ہے کہ بلال کو حضرت ابوبکر نے آزاد کیا تھا، لیکن تاریخ میں یہ قابل قبول نہیں ہے، ابو جعفر اسکافی، استاد ابن ابی الحدید، واقدی، ابن اسحاق اور دوسرے قول کے مطابق بلال کو پیغمبر اکرم (ص) نے آزاد کیا ہے۔[11] شیخ طوسی [12] ابن شہر آشوب [13] نے بھی بلال کو آنحضرت (ص) کا آزاد شدہ کہا ہے اور پیغمبر اکرم (ص) کا یہ جملہ کہ اگر میرے پاس دولت ہوتی تو میں بلال کو خرید کر آزاد کرتا۔[14] تاریخی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ حضرت خدیجہ(س) نے اپنی تمام دولت کو آنحضرت (ص) کے حوالے کیا ہوا تھا تا کہ آپ اسے راہ خدا میں خرچ کریں، اور اس کے علاوہ حضرت ابو بکر کی معاشی حالت ایسی نہیں تھی کہ ایک غلام کو تشدد سے نکال کر خرید کر آزاد کریں۔[15]

آنحضرت (ص) کے قریبی دوست

بلال آزادی کے بعد مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے اور وہ اسلام کے پہلے موذن اور سفر و وطن میں پیغمبر اکرم (ص) کے ہمراہ رہے۔[16] آپ آنحضرت (ص) کے دوست اور رفیق تھے۔[17] بلال بیت المال کے خزانچی (خزانے دار) بھی تھے۔[18] وہ تمام جنگوں میں رسول خدا (ص) کے ہمراہ تھے۔[19] جنگ بدر میں بلال کے اشارے پر، امیہ بن خلف اور ان کے بیٹے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے۔[20] اور بعض قول کے مطابق، امیہ کو خود بلال نے قتل کیا۔[21]

پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں، بلال اور عبداللہ بن عبدالرحمان خثعمی کے درمیان اخوت (بھائی چارگی) کا صیغہ پڑھا۔[22] ابن ہشام (متوفی 218 ھ) کے قول کے مطابق، اس کے دور تک حبشہ اور خثعم کا دیوان ایک ہی تھا۔[23] اور بعض نے کہا ہے عبیدہ بن حارث[24] یا ابو عبیدہ جراح [25] کے ساتھ صیغہ اخوت پڑھا گیا تھا اور شاید یہ پیمان اخوت ہجرت سے پہلے مدینہ میں ہو۔

بلال کا مقام و مرتبہ

بلال کا شمار ان افراد میں ہے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔[26] اور اس راہ میں کفار قریش و کفار مکہ خاص طور پر اپنے مالک امیہ بن خلف کی طرف سے بیحد سختیاں برداشت کیں مگر پھر بھی دین اسلام سے منصرف نہیں ہوئے۔[27]

حضرت علی (ع) کی نگاہ میں بھی بلال اسلام قبول کرنے والے پہلے افراد سے تھے۔[28] اور آپ نے ان کے اخلاص اور تہذیب نفس کی مدح کی ہے۔[29] امام سجاد (ع) نے بلال کے امیرالمومنین (ع) کے فضائل کو بیان کرنے اور مخالفین کے اس پر اعتراض کرنے کے بارے میں مطالب بیان کئے ہیں۔[30] امام صادق (ع) نے بلال کو عبد صالح[31] اور اہل بیت (ع) کا دوست کہا ہے۔[32]

بلال آنحضرت (ص) سے روایات نقل کرنے والے راویوں میں سے ہیں۔[33] اور صحابہ و تابعین کے ایک گروہ نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔[34] بلال کی قدر و جلالت کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) سے بہت سی احادیث بیان ہوئی ہیں جیسے: بلال کا شمار اسلام قبول کرنے والے پہلے افراد میں ہے۔[35] وہ تمام مؤذنوں کے سردار ہیں۔[36] بہشت تین افراد کی مشتاق ہے: علی، عمار اور بلال۔[37] تین کالی رنگت کے افراد جنت کے سردار ہیں: لقمان حکیم، نجاشی اور بلال[38] اور حضرت فاطمہ (س) کے گھر کے امور میں مدد کرنے کی وجہ سے آنحضرت (ص) نے بلال کو دعا دی۔[39]

مفسرین کے قول کے مطابق، بلال اور ان کے ساتھیوں کی شان و منزلت کے بارے میں کچھ آیات نازل ہوئی ہیں: نساء، آیت 69، [40] انعام، آیت 52، [41] نحل، آیت 110، [42] کہف، آیت 28، [43] اور حجرات، آیت 11،12[44]

اذان گوئی

پیغمر اکرم (ص) کے زمانے میں

بلال اسلام کے پہلے مؤذن تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شین کو سین کہتے تھے اور روایت میں آیا ہے کہ بلال کا سین خدا تعالیٰ کی نگاہ میں شین ہے۔[45] فتح مکہ کے دن بلال پیغمبر اکرم (ص) کے حکم سے کعبہ کی چھت پر گئے اور بلند آواز میں اذان کہی، کفار مکہ اس واقعہ سے بہت ناراض ہوئے۔[46]

پیغمبر اکرم (ص) کے بعد

بلال نے آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد، صرف چند مرتبہ اذان دی۔[47] ایک بار حضرت فاطمہ(س) کی فرمائش پر، لیکن چونکہ آپ(س) کو اپنے بابا کے بعد ڈھائے گئے ظلم کی یاد آ گئی اور اس پریشانی کی شدت سے آپ(س) تاب نہ لا سکیں، جس کی وجہ سے بلال نے ناچار اذان کو ناتمام چھوڑ دیا۔[48]

اس کے علاوہ ایک بار، جب پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے مدینہ آئے اور حسنین(ع) نے آپ سے اذان کی درخواست کی اور آپ نے یہ درخواست قبول کی، مدینہ پر اس واقعہ کا بہت اثر ہوا۔[49]

آخری بار جب دوسرے خلیفہ مدینہ سے شام گئے (طبری کے قول کے مطابق سنہ 17 ہجری) جادیہ کے مقام پر مسلمانوں نے بلال سے درخواست کی کہ اذان کہیں، اس پر آپ نے یہ دعوت قبول کی اور سب رسول خدا (ص) کے زمانے کو یاد کر کے رونے لگے۔[50]

شام کی طرف ہجرت

اکثر مآخذ میں بلال کے پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد اذان نہ دینے اور مدینہ سے شام جانے کی وجہ جہاد کی فضیلت اور مجاہدین کے گروہ میں شامل ہونا ہے اور آپ کی شام ہجرت ابوبکر کی حکومت [51] یا عمر بن خطاب کی حکومت [52] کے وقت کہی گئی ہے لیکن بلال کے کسی جنگ میں شرکت یا فتح کرنے کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملتی۔[53]

خلیفہ اول کی بیعت نہ کرنا

بعض قول کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد بلال خلیفہ اول کی بیعت کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ اسی وجہ سے عمر بن خطاب کے حکم سے انہوں نے مدینہ کو ترک کیا اور شام کی طرف ہجرت اختیار کی۔[54]

وفات

 
بلال کا مقبرہ قبرستان باب الصغیر (دمشق)

اکثر منابع کے مطابق آپ کی وفات سنہ 20 ہجری کے بعد دمشق میں ہوئی ہے.[55] لیکن سنہ 17، 18 اور 21 ھ بھی ذکر ہوئے ہیں۔[56] اور کچھ منابع میں بیان ہوا ہے کہ آپ طاعون کی بیماری سے دنیا سے گئے ہیں۔[57]

مشہور قول کے مطابق آپ دمشق میں باب الصغیر قبرستان میں مدفون ہیں۔[58] اور بعض نے کہا ہے کہ آپ باب کیسان داریا اور باب الاربعین حلب میں دفن ہوئے ہیں۔[59] لیکن ایک قول ہے کہ جو حلب میں مدفون ہیں وہ بلال کے بھائی خالد ہیں۔[60]

آپ کی عمر کو وفات کے وقت 60 سال سے زیادہ کہا گیا ہے اور کچھ منابع میں 63، 64 اور 70 کہا گیا ہے۔[61]

حوالہ جات

  1. الوافی، ج‌۲۱، ص: ۱۱۴
  2. ابن اثیر، الکامل، ج۱، ص۶۶
  3. ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۱، ص۵۰۵؛ ابن سعد، ج۳، ص۲۳۲
  4. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۸؛ ابن عبدالبرّ، ج۱، ص۱۷۹؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۷۵
  5. بن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۸-۲۳۹؛ ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ص۱۸۰
  6. أنساب‌ الأشراف،ج‌۱،ص:۱۸۹(چاپ‌ زکار،ج‌۱،ص:۲۱۴)
  7. أسد الغابۃ،ج‌۱،ص:۵۷۱
  8. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج ۱۰، ص۴۳۱؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۴
  9. سخاوی، التحفہ اللطیفہ، ص۲۱
  10. البدایہ و النہایہ، ج۱۲، ص۱۹۵
  11. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۳، ص۲۷۳؛ تستری، قاموسی الرجال، ج۲، ص۳۹۳
  12. طوسی، رجال، ص
  13. ابن شہر آشوب، مناقب، ج۱، ص۱۷۱
  14. ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ص۱۸۱؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۱، ص۲۴۳؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۱، ص۳۵۲
  15. عاملی، الصحیح، ج۲، ص۳۶-۳۸، ۲۷۷-۲۸۳؛ نیز درباره اختلافات روایی در این خصوص، نک: ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۱، ص۲۱۱؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ص۱۸۱؛ ابن اثیر، الکامل، ج ۲، ص۶۶-۶۷؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۱، ص۳۵۲
  16. ابن اسحاق، کتاب السیره، ص۲۹۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج ۲، ص۱۳۶-۱۳۷، ۱۷۷-۱۷۹، ج ۳، ص۲۳۴؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۲، ص۶۶-۶۷
  17. بن حنبل، مسند، ج۱، ص۱۴۸؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۵۲
  18. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۳
  19. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۹؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ص۱۷۸؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۳۳
  20. ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۱، ص۵۳۱؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۴۵۲-۴۵۳
  21. ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ص۱۸۲؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۳
  22. ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۱، ص۳۵۵
  23. ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۱، ص۳۵۶؛ ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸
  24. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۵۱؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ۱۷۸
  25. نووی، تہذیب الاسماء، قسم۱، جزء۱، ص۱۳۶؛ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج۱، ص۳۲۶
  26. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۴، ص۲۱۵؛ ابن حنبل، مسند، ج۱، ص۴۰۴؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۵.
  27. ابن هشام، السیره النبویہ، ج۱، ص۲۱۰-۲۱۱؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۴۵۲؛ ابو نُعَیم، حلیہ الاولیاء، ج۱، ص۱۴۸
  28. ابن بابویہ، الخصال، ج ۱، ص۳۱۲؛ فتّال نیشابوری، روضہ الواعظین، ج۲، ص۳۰۷
  29. ابن فہد حلّی، عده الداعی، ص۲۷
  30. تفسیر امام حسن عسکری(ع)، ص۶۲۱-۶۲۳
  31. کشّی، اختیار معرفہ الرجال، ص۳۹
  32. مفید، الاختصاص، ص۷۳
  33. ابن بابویہ، من لا یحضره الفقیہ، ج ۱، ص۱۸۹-۱۹۴؛ فتّال نیشابوری، روضہ الواعظین، ج۲، ص۳۴۳-۳۴۵
  34. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج ۷، ص۵۰۹؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج ۱، ص۱۸۰؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۲۹، ۴۳۵؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۴؛ نووی، تهذیب الاسماء، قسم۱، جزء۱، ص۱۳۶-۱۳۷؛ مزّی، تهذیب الکمال، ج۴، ص۲۸۸-۲۸۹
  35. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۲؛ ابو نعیم، حلیہ الاولیاء، ج۱، ص۱۴۹
  36. ابو نعیم، حلیہ الاولیاء، ج۱، ص۱۴۷؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۱، ص۳۵۵
  37. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۵۱؛ صفدی، کتاب الوافی، ج ۱۰، ص۲۷۶
  38. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۶۲
  39. ورّام، ج۲، ص۲۳۰
  40. ابن شہر آشوب، مناقب، ج۳، ص۸۷
  41. طوسی، التبیان، ج۴، ص۱۴۴؛ زمخشری، الکشّاف، ج۲، ص۲۷؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۳، ص۳۸۷-۳۸۸؛ ابو الفتوح رازی، تفسیر روح الجِنان، ج۷، ص۱۴۹
  42. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۴۸؛ طوسی، التبیان، ج۶، ص۴۳۱
  43. صفدی، کتاب الوافی، ج۱۰، ص۲۷۶
  44. زمخشری، الکشّاف، ج۴، ص۳۷۰؛ ابو الفتوح رازی، تفسیر روح الجِنان، ج۱۰، ص۲۵۳؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۵، ص۱۳۶؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۶۶
  45. قمی، منتہی الآمال، ص۲۹۲
  46. طبرسی، مجمع البیان، ج۵، ص۱۳۶؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ۴۶۶؛ قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، ج۱، ص۹۷-۹۸، ۱۶۳-۱۶۴
  47. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۶-۲۳۷؛ ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ ابن بابویہ، من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ۱۸۴؛ مفید، الاختصاص، ص۷۳
  48. ابن بابویہ، من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ص۱۹۴
  49. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۱، ص۲۴۴-۲۴۵؛ نووی، تہذیب الاسماء، قسم۱، جزء۱، ص۱۳۶؛ مزّی، تہذیب الکمال، ج۴، ص۲۸۹
  50. ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ طبری، تاریخ، ج۴، ص۶۵-۶۶؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۷۰-۴۷۱
  51. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۶-۲۳۷؛ ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء، ج۱، ص۱۵۰-۱۵۱؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج ۱، ص۱۸۱
  52. ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ص۱۸۰-۱۸۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۶۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۴
  53. امین، اعیان الشیعہ، ج ۳، ص۶۰۵
  54. نوری، نفس الرحمان، ص۳۷۹؛ قمی، سفینہ البحار، ج۱، ص۱۰۴۱۰۵
  55. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۸؛ ابن قتیبہ، کتاب المعارف، ص۸۸؛ طبری، تاریخ، ج۴، ص۱۱۲؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱، ص۱۸۴
  56. طوسی، رجال، ص۸؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج ۱، ص۱۷۹؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۳۳، ۴۷۶-۴۷۹؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۴
  57. طوسی، رجال، ص۸؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۷۶؛ مزّی، تہذیب الکمال، ج۴، ص۲۹۰؛ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج۱، ص۳۲۷
  58. طوسی، رجال، ص۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۸؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج ۱، ص۱۷۹؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۴۳۳، ۴۷۶-۴۷۹
  59. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج ۱۰، ص۴۸۰؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج ۱، ص۲۴۴؛ نووی، تہذیب الاسماء، قسم ۱، جزء۱، ص۱۳۷؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۱، ص۳۵۹-۳۶۰
  60. مزّی، تہذیب الکمال، ج۴، ص۲۹۱
  61. ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج ۱، ص۱۷۹؛ نووی، تہذیب الاسماء، قسم ۱، جزء۱، ص۱۳۷؛ مزّی، تہذیب الکمال، ج ۴، ص۲۹۰

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہره، ۱۳۸۵-۱۳۸۷ق/۱۹۶۵-۱۹۶۷ء، چاپ افست بیروت، [بی تا]
  • ابن اثیر، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، چاپ محمد ابراہیم بنا و محمد احمد عاشور، قاہره، ۱۹۷۰-۱۹۷۳ء
  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، ۱۳۹۹-۱۴۰۲/۱۹۷۹-۱۹۸۲ء
  • ابن اسحاق، کتاب السیره، چاپ سہیل زکار، بیروت، ۱۳۹۸ق.
  • ابن بابویہ، کتاب الخِصال، چاپ علی اکبر غفاری، قم، ۱۳۶۲ش
  • ابن بابویہ، من لایحضره الفقیہ، چاپ علی اکبر غفاری، بیروت، ۱۴۰۱ق
  • ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ء
  • ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، بیروت، [بی تا]
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵ء
  • ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، چاپ ہاشم رسولی محلاتی، قم، [۱۳۷۹ق]
  • ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، چاپ علی محمد بجاوی، قاہره، [۱۳۸۰ق/۱۹۶۰ء]
  • ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ء
  • ابن فہد حلّی، عدّه الدّاعی و نَجاحُ السَّاعی، چاپ احمد موحدی قمی، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۷ء
  • ابن قتیبہ، کتاب المعارف، چاپ فردیناد ووستنفلد، گوتینگن، ۱۸۵۰ق.
  • ابن ہشام، السیره النبویہ، چاپ سہیل زکار، بیروت، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ء
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، تفسیر روح الجِنان، چاپ ابوالحسن شعرانی و علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۸۲-۱۳۸۷ق
  • ابونعیم، احمد بن عبدالله، حلیہ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ء
  • امام عسکری، حسن بن علی(ع)، التفسیر، قم، ۱۴۰۹ق
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، چاپ حسن امین، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، ۱۴۱۰ق
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت، [بی تا]
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، چاپ حسین اسد، بیروت، ۱۴۰۲ق/۱۹۸۲ء
  • زرگري‌نژاد، غلامحسين، تاريخ صدراسلام، تہران، انتشارات سمت، ۱۳۸۷
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشّاف، چاپ صطفی حسین احمد، بیروت، ۱۴۰۶ق
  • سخاوی، محمد، التحفہ اللطیفہ، بیروت، ۱۹۹۳ء
  • صفدی، خلیل بن ایبک، کتاب الوافی بالوفیات، چاپ جاکلین سویلہ و علی عماره، ویسبادن، ۱۴۰۰ق/۱۹۸۰ء
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، چاپ احمد عارف زین، صیدا، ۱۳۳۳-۱۳۵۶/۱۹۱۴-۱۹۳۷ء
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری: تاریخ الامم و الملوک، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، [۱۳۸۲-۱۳۸۷/۱۹۶۲-۱۹۶۷ء]
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، قم، ۱۴۰۹ق
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، نجف، ۱۳۸۰ق/۱۹۶۱ء
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیره النبی الاعظم، قم، ۱۴۰۳ق
  • فتّال نیشابوری، محمد بن حسن، روضہ الواعظین، چاپ حسین اعلمی، بیروت، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶ء
  • قطب راوندی، سعید بن ہبہ الله، الخرائج و الجرائح، قم، ۱۴۰۹ق
  • قمی، شیخ عباس، سفینہ البحار فی مدینہ الحکم و آلاثار، بیروت، دار الاسوه، چاپ دوم، ۱۴۱۶ق
  • قمی، عباس، منتہی الآمال ، قم، دلیل، ۱۳۷۹ش
  • کشّی، محمد بن عمر، اختیار معرفہ الرجال، [تلخیص] محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ش
  • مُزّی، یوسف بن عبدالرحمان، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، چاپ بِشار عوّاد معروف، بیروت، ۱۴۰۳-۱۴۰۵ق/۱۹۸۳ق-۱۹۸۵ء
  • مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، چاپ علی اکبر غفاری، قم، [بی تا]
  • نوری، حسین بن محمدتقی، نَفَسُ الرحمان فی فضائل سلمان (رض) ، چاپ جواد قیومی، تہران، ۱۳۶۹ش
  • نووی، یحیب بن شرف، تہذیب الاسماء و اللغات، تہران، [بی تا]