سعد بن ابی وقاص

ویکی شیعہ سے
سعد بن ابی‌ وقاص
کوائف
مکمل نامسعد بن مالک بن وہیب (اہیب) بن عبد مناف بن زہرہ
کنیتابو اسحاق
محل زندگیمکہ، مدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
اقاربعمر بن سعد
مدفنجنت البقیع
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتغزوات
ہجرتمدینہ
وجہ شہرتچھ رکنی شورای کا رکن


سعد بن مالک بن وہیب (متوفی 54 تا58 ھ) سَعد بن ابی‌ وَقّاص کے نام سے مشہور، پیغمبر اکرمؐ کے صحابی اور ایران کے ساتھ جنگ میں اسلامی فوج کے کمانڈروں میں سے تھے۔ انہوں نے جنگ بدر اور جنگ احد میں شرکت کی۔ دوسرے خلیفہ کی طرف سے کوفہ کے حاکم رہے مگر لوگوں کے اعتراضات کی وجہ سے معزول ہوئے۔ دوسرے خلیفہ کی طرف سے جنگ قادسیہ میں فوج کے سپہ سالار تھے۔ بعض اہل سنت ایک روایت کے مطابق انہیں عشرہ مبشرہ میں سے سمجھتے ہیں۔ دوسرے خلیفہ کے ساتھ ان کے روابط اچھے تھے اور تیسرا خلیفہ معین کرنے والی چھ رکنی شوریٰ میں بھی تھے۔ امام علیؑ کی خلافت کے دور کے آغاز میں بیعت نہیں کی اور بیعت کرنے کے بعد بھی جنگوں میں شریک نہیں ہوئے۔ ان کا بیٹا عمر سعد واقعہ کربلا میں ابن زیاد کی فوج کا سربراہ تھا۔ سعد نے 54 سے 58 ہجری کے درمیان وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔

حسب و نسب

سعد کی کنیت ابو اسحاق تھی۔[1] ان کا باپ مالک بن وہیب (اہیب) بن عبد مناف بن زہرہ جو ابی ‌وقاص کے نام سے مشہور ہے[2] اور ان کی ماں حمنہ بنت ابو سفیان بن امیہ بن عبد الشمس تھی۔[3] کربلا کے واقعے میں امام حسینؑ اور ان کے یار و انصار شہید کرنے والے ابن زیاد کی فوج کا سپہ سالار ان کا بیٹا تھا۔[4]

پیغمبر اکرمؐ کے صحابی

ان کے اسلام لانے کے بارے میں اقوال مختلف ہیں۔ کہا گیا ہے کہ وہ اسلام لانے والے پانچویں یا ساتویں فرد تھے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔[5] ان سے ہی نقل ہوا ہے کہ انہوں نے نماز واجب ہونے سے پہلے اسلام قبول کیا ہے۔[6]

سعد نے پیغمبر اکرمؐ سے پہلے مدینے ہجرت کی۔[7] پیغمبر اکرمؐ نے ان کے اور سعد بن معاذ کے درمیان عقد اخوت جاری کیا۔[8]

غزوات میں شرکت

سعد، سریہ عبید بن حارث میں اسلام کی راہ میں پہلا تیر چلانے والے تھے۔[9] آپ نے جنگ بدر، جنگ احد،[10] جنگ خندق اور جنگ خیبر میں شرکت کی۔[11] فتح مکہ میں مہاجرین کا پرچم اٹھانے والے تین افراد میں سے ایک سعد تھے۔[12] دوسرے غزوات میں بھی پیغمبر اکرمؐ کے ہمراہ تھے۔[13] اور مسلمانوں کے ماہر تیر اندازوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔[14]

آپ نے پیغمبر اکرمؐ سے 271 حدیث نقل کیا ہے۔[15] ان سے عمر، ابن عباس، جابر بن سمرہ، سائب بن یزید، عایشہ اور بعض دیگر راویوں نے روایت نقل کی ہے۔[16]

خلفاء ثلاثہ کا دَور

شوریٰ کے ارکان کا نام

برای تعیین خلیفہ سوم

امام علی (ع)
عثمان بن عفان
عبد الرحمن بن عوف
سعد بن ابی وقاص
زبیر بن عوام
طلحۃ بن عبیداللہ

بعض روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد اس گروہ کے ساتھ تھے جس نے فاطمہ زہراؑ کے گھر جمع ہوکر مقداد بن اسود کے ساتھ امام علیؑ کی بیعت کرنے کو طے کیا تھا۔[17] لیکن بعض نے اس موضوع کی صحت میں تردید کی ہے۔ یہ لوگ یعقوبی کی گزارش پر استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں خلیفہ اول ابوبکر اور خلیفہ دوم نے خالد بن سعید کو اس لئے کمانڈری دینے سے انکار کیا تھا کہ اس نے سقیفہ کے بعد کچھ عرصے کے لئے بیعت کرنے سے انکار کیا تھا[18] جبکہ خلیفہ دوم کے دور میں سعد کا بڑا نفوذ تھا۔[19] 16ھ کو عمر بن خطاب کے دور میں سعد نے جنگ قادسیہ کی سپہ سالاری اپنے ذمے لی۔[20] عمر نے سعد کو کوفے کی امارت دے دی۔[21]کوفہ کہ جو فتوحات اسلامی کی فوج کی چھاؤنی سمجھا جاتا تھا خلیفہ دوم کے حکم سےاس نے 15ھ، 17ھ یا 19ھ کو مسلمانوں کو بسنے کے لیے معین کیا۔[22]اور مسجد کوفہ اور دار الامارہ کو بنانا ان کے ابتدائی اقدامات میں سے تھا۔[23] عمرؓ نے سنہ 21 ھ کو کوفے کی ولایت سے عزل کیا۔[24] اور عزل کرنے کی وجہ کوفہ والوں کا اس کے فسق اور فجور پر اعتراض کرنے کو قرار دیا ہے۔[25]

خلافت کی شورای

خلافت معین کرنے کے لیے خلیفہ دوم نے سعد کو چھ رکنی شورای میں انتخاب کیا۔[26] عمرؓ کی وفات کے بعد شورای کے افراد خلیفہ منتخب کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ لکھا گیا ہے کہ عمرو بن عاص اور مغیرۃ بن شعبہ شورای تشکیل پانے والی جگہے کے قریب بیٹھے تھے تو سعد بن ابی‌ وقاص نے انہیں وہاں سے دور کیا۔[27] نہایۃ الارب کی گزارش کے مطابق امام علیؑ نے اس ماجرا میں سعد سے ملاقات کی اور اسے عثمانؓ کے حق میں عبدالرحمن بن عوف کے ساتھ نہ دینے کی قسم دی۔[28] لیکن سعد نے عبد الرحمن بن عوف کے حق میں رأی دی اور اس طرح سے عثمان منتخب ہوا۔ عثمانؓ نے ایک عرصے کے لیے کوفے کی ولایت سعد کو دی اور بعد میں اسے برطرف کیا۔ عثمانؓ، سعد کی مدد بھی کرتے تھے اور قریۂ ہرمز نامی ایک قریے کو ایک معین مدت کے لیے اسے دے دیا۔[29]

سعد نے عثمان کے قتل کے ماجرا میں مداخلت نہیں کی۔[30]

امام علیؑ کا دور

جب امام علیؑ کو خلافت ملی تو سعد نے عمومی بیعت میں آپؑ کی بیعت نہیں کی اور امام سے مخاطب ہو کر کہا: تمام لوگوں کے بیعت کرنے تک بیعت نہیں کرتا ہوں، خدا کی قسم زحمت کا باعث نہیں بنوں گا۔[31]امام نے ایک خطبے میں بعض لوگوں کا بیعت نہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ابن عمر، سعد بن ابی‌ وقاص اور محمد بن مسلمہ کے بارے میں مجھے کچھ ناگوار خبریں ملی ہیں اور میرے اور ان کے درمیان اللہ تعالی حکم کرے گا۔[32] شیخ مفید کا کہنا ہے کہ اگرچہ امام علیؑ بیعت نہ کرنے والوں سے ناراض تھے لیکن زبردستی بیعت کو بھی آپ نہیں مانتے تھے۔[33]

الطبقات میں ابن سعد کی گزارش کے مطابق سعد بن ابی‌ وقاص نے بعد میں امام علیؑ کی بیعت کی لیکن چونکہ جنگوں میں امام کا ساتھ نہیں دیا اس سے یہ خدشہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے امام کی بیعت نہیں کی ہے۔[حوالہ درکار] سعد نے بیعت نہ کرنے اور امام کے ہمراہ نہ ہونے پر مختلف دلیلیں پیش کی ہے۔ کبھی اپنے آپ کو خلافت کے لیے مناسب سمجھا ہے، تو کبھی کہا ہے کہ حق اور باطل مشخص نہ ہونے کی وجہ سے جنگوں میں شرکت نہیں کی ہے۔[34] جن لوگوں نے امام علیؑ کی بیعت اور مدد نہیں کی ہے امامؑ نے انہیں ایسا گروہ قرار دیا ہے جنہوں نے حق ضایع کیا ہے اور باطل کی مدد بھی نہیں کی ہے۔[35]

شیخ مفید نے سعد کے بیعت نہ کرنے کی بنیادی وجہ حسد قرار دیا ہے اور لکھے ہیں: یہ بات وہاں سے شروع ہوتی ہے کہ خلیفہ دوم نے سعد کو چھ رکنی شورای میں انتخاب کیا اور خلافت تک پہنچنے کے لیے راہ ہموار کی اور سعد نے بھی گمان کیا کہ رہبری کی صلاحت رکھتا ہے اور اسی گمان نے اس کے دین اور دنیا کو برباد کردیا اور آخر کار اس کی خواہش بھی پوری نہیں ہوئی۔[36]

جب معاویہ نے سعد سے پوچھا کہ علی پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ہو؟ تو اس کے جواب میں سعد نے حدیث منزلت، حدیث رایت اور آیہ مباہلہ) پیش کیا اور کہا اگر ان میں سے ایک بھی میرے بارے میں ہوتا تو سرخ بال کے اونٹوں سے زیادہ میرے لیے پسندیدہ تھا۔[37]

جنگ‌ جمل اور صفین سے دوری

معاویہ نے ایک خط کے ذریعے سعد سے کہا کہ عثمان کی خونخواہی کے لیے قریش میں سب سے زیادہ سزاوار چھ رکنی شورای کے افراد تھے اور اس نے طلحہ، زبیر اور عایشہ کے جنگ جمل لڑنے کا ہدف عثمان کی خونخواہی قرار دیا ہے اور سعد سے ان کے ساتھ مدد کرنے کی درخواست کی ہے۔[38] اس نے معاویہ کے جواب میں لکھا:

عمر نے قریش میں سے صرف انہی لوگوں کو شوری میں انتخاب کیا جو خلافت کے لیے شایستہ تھے اور ہم میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے پر برتری نہیں تھی مگر یہ کہ ہم آپس میں کسی پر متفق ہوجائیں۔ لیکن فرق یہ تھا کہ جو کچھ ہم میں تھا وہ علی میں بھی تھا لیکن جو علی میں تھا ہم میں نہیں تھا اور یہ ایسا کا تھا جس کے نہ آغاز سے ہم راضی تھے اور نہ ہی اختتام پر۔ لیکن طلحہ اور زبیر اپنے گھروں میں رہتے تو ان کے لیے اچھا تھا اور ام المومنین (عایشہ) نے جو کچھ کیا ہے اللہ تعالی انہیں معاف کرے۔[39]

سعد جنگ صفین میں شریک نہیں ہوئے۔ صفین کی جنگ کے بعد قریش کے کچھ لوگ دومۃ الجندل میں جمع ہوئے تاکہ حکمیت کا سلسلہ منعقد ہو جائے لیکن سعد وہاں پر بھی نہیں گئے اور کہا: میں جس کام کے آغاز میں شریک نہیں تھا تو اس کے اختتام میں بھی شامل نہیں ہوتا ہوں۔اگر کسی کی حمایت کرنا ہوتی تو میں علی بن ابی طالب کی حمایت کرتا۔[40]

سعد کا کہنا تھا کہ معاویہ لوگوں پر زبردستی مسلط ہوا ہے اسی وجہ سے اسے امیرالمومنین نہیں کہا اور بادشاہ سے خطاب کرتا تھا اور معاویہ کے اعتراض کے جواب میں کہا: اگر ہم تمہیں امیر بناتے تو تم امیرالمومنین بنتے لیکن یہ کام تم نے خود ہی اپنے ہاتھوں کیا ہے۔[41] سید حمیری نے ایک شعر میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعد اور اس کے قبیلے کا حضرت علیؑ کی حمایت نہ کرنے نے معاویہ کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کیا۔[42]

اسی طرح ایک روایت کی بنا پر جب امام علیؑ نے کہا: «سلونی قبل ان یفقدونی» تو سعد نے اپنے سر اور داڑھی کے بال کی تعداد کے بارے میں سوال کیا۔ حضرت امیرؑ نے اسے قسم دے کر کہا کہ تم نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے جس کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ پہلے ہی مجھے بتا چکے تھے کہ تمہاری داڑھی اور سر پر کوئی بال نہیں مگر اس کی جڑ پر ایک شیطان بیٹھا ہوا ہے اور تمہارے گھر ایک بکری کا بچہ ہے جو میرے بیٹے حسین کو قتل کرے گا۔[43]

خصوصیات

بعض گزارشات کے مطابق سعد قد کا چھوٹا، موٹا، سر بڑا اور گھنے بال والا شخص تھا۔ بد اخلاق تھا اور کبھی خز کے کپڑے پہنا کرتا تھا اور سونے کی انگوٹھی پہنا کرتا تھا۔[44]

اہل سنت کی روایات میں ان کی بعض فضیلتیں بھی بیان ہوئی ہیں ان میں سے «عشرۂ مبشرہ» (وہ دس نفر جن کو بہشت کی بشارت دی گئی تھی)[45] اور مستجاب الدعوۃ ہونا ہے۔[46] البتہ بعض نے ان فضیلتوں کے صحیح ہونے کے بارے میں تردید کی ہے۔[حوالہ درکار]


وفات

سعد نے مدینہ کے نزدیک سرزمین عتیق میں اپنے قصر میں وفات پائی۔ ان کا جنازہ مدینہ لایا گیا اور مروان بن حکم نے اس پر نماز پڑھی اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔[47]

ان کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ سنہ 54، 55، 58 ہجری کو 58، 74 یا 83 سال کی عمر میں وفات پائی۔[48] بعض اقوال کے مطابق یزید کی ولایت عہدی کو نہ ماننے پر معاویہ نے زہر دے کر انہیں مار دیا ہے۔[49]

ان کے مرنے کے بعد تقریبا 250 ہزار درہم ان کا ترکہ تھا۔ منقول ہے کہ انہوں نے زکات میں پانچ ہزار درہم تک بھی دیا ہے۔[50]

حوالہ جات

  1. ا بن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۶۰۶-۶۰۷
  2. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۶۰۶-۶۰۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۴
  3. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۴
  4. ابن اثیر، اسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۹۸
  5. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۴
  6. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۶۰۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۴؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۲۱، ۱۳۹.
  7. ابن حجر، تہذیب التہذیب، ۱۴۰۴ق، ج۳، ص۴۱۹
  8. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۱۴۰
  9. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۶۰۷؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۱۴۰
  10. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۱۲۳؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۴
  11. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۴
  12. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۱۲۳
  13. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۴
  14. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۶۰۸-۶۰۷
  15. ابن حزم، اسماء الصحابہ الرواۃ، ص۴۸
  16. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۷
  17. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۵۶
  18. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۲
  19. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۵.
  20. بلاذری، فتوح البلدان، ص۲۵۲؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۵؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۶۰۸.
  21. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۶۰۸؛ بلاذری، فتوح البلدان، صص۲۷۰-۲۷۱.
  22. دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۷۳ش، ص۱۲۳-۱۲۴.
  23. براقی، تاریخ کوفہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۱۹.
  24. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۶۰۸.
  25. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۶۰۸؛ بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۸۸م، ص۲۷۴.
  26. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۵.
  27. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۸ق، ج۷، ص۱۶۴.
  28. نویری، نہایۃ الارب، ج۴، ص۳۲۳.
  29. بلاذری، فتوح البلدان (ترجمہ)، ۱۳۳۷ش، ص۳۸۹.
  30. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۶.
  31. مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۱۳۱.
  32. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۴۳.
  33. مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۱۱۱.
  34. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۱۴۳؛ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۹۵.
  35. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۶۱۰.
  36. مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۹۷.
  37. نسائی، خصائص امیرالمومنین، ص۴۷-۴۸؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۶۰۱؛ ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۴۶۸.
  38. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۸۷.
  39. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۱۸۷.
  40. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۵۰-۲۵۱.
  41. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۱۷.
  42. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۱۵.
  43. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ش، ص۷۴؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۱۳۴؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۳۰.
  44. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۱۴۳.
  45. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ۶۰۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۴؛ نویری، نہایۃ الارب، ج۲۰، ص۲۳۳.
  46. نویری، نہایۃ الارب، ج۲۰، ص۲۳۳؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۷۱.
  47. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۶۱۰؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۷؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۱۴۷.
  48. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۶۱۰؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۱۷؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۱۴۸.
  49. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ج۱، ص۶۰.
  50. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۱۴۹.

مآخذ

  • ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، تصحیح: عبدالحسین امینی، نجف، دارالمرتضویہ، ۱۳۵۶ش.
  • ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغۃ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، کتابخانہ حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق.
  • ابن اثیر، علی بن بن محمد، اسد الغابہ فی معرفہ الصحابہ، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق: عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
  • ابن حجر، تہذیب التہذیب، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴م.
  • ابن حزم، اسماء الصحابۃ الرواۃ و مالکل واحد من العدد، تحقیق: سید کسروی حسن، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.
  • ابن عبدالبر قرطبی، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق: علی محمد بجاوی، بیروت، دارالجیل، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م.
  • ابن کثیر، اسماعیل بن کثیر، البدایہ و النہایہ، تحقیق: علی شیری، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۸ق.
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق: سید احمد صقر، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا.
  • براقی، سید حسین، تاریخ کوفہ، ترجمہ: سعید راد رحیمی، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۸۱ش.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان،‌ دار و مکتبہ الہلال، ۱۹۸۸م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، ترجمہ: محمد توکل، تہران، نشر نقرہ، ۱۳۳۷ش.
  • دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، قم، الشریف الرضی، ۱۳۷۰ش.
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، ۱۳۷۶ش.
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال، تحقیق سید محمدصادق بحرالعلوم، مکتبۃ الحیدریہ فی النجف، نجف، ۱۳۸۱ق/۱۹۶۱م.
  • نسائی، احمد بن شعیب، خصائص امیرالمومنین، تحقیق: محمدہادی امینی، طہران، مکتبۃ نینوی الحدیثہ، بی‌تا.
  • مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تصحیح: مؤسسۃ آل البیت، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ق.
  • مفید، محمد بن محمد، الجمل و النصرۃ لسید العترۃ فی حرب البصرۃ، تحقیق: علی میرشریفی، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ق.
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بی‌تا.
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: اسعد داغر، قم، دارالہجرہ، ۱۴۰۹ق.