انصار
انصار یا انصار النبیؐ مدینہ کے اوس اور خزرج قبیلے کے ان مسلمانوں پر اطلاق ہوتا ہے جنہوں نے ہجرت سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ عہد و پیمان باندھا اور ہجرت کے بعد آپؐ اور مکہ سے کفار قریش کی ازیت و آذار سے تنگ آکر ہجرت کرنے والے مہاجرین کی حمایت کی۔ امیرالمؤمنینؑ حضرت علیؑ کی خلافت کے دوران آپ کے ہاں انصار کا ایک منفرد مقام تھا اور انہوں نے بھی ہمیشہ آپ کی حمایت کیں۔
لغوی اور اصطلاحی معنی
اَنْصار "نصیر" اور "ناصر" کا جمع ہے اور اس کا اصل "نَصَرَ" ہے جس کی معنی دشمن کے مقابلے میں مظلوم کی حمایت اور نصرت کے ہیں۔ یہ لفظ پہلی بار مدینہ کے "اوس" اور "خزرج" کے مسلمانوں پر اطلاق ہوا اس کے بعد ان کے ساتھ ایک مخصوص ہوا۔
اوس و خزرج پر اس لفظ کا بعنوان لقب کب سے اطلاق ہونا شروع ہوا اس بارے میں دقیق تاریخ کا کسی کو علم نہیں لیکن اَنَس کی ایک روایت کی مطابق پہلی بار مہاجر و انصار کی اصطلاح قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔[1] البتہ ابن اثیر کی روایت کے مطابق یہ نام خود پیغمبر اکرمؐ نے مدینہ کے مسلمانوں پر رکھا ہے۔[2]
اس لفظ کا قرآنی استعمال
قرآن کی سورہ توبہ کی دو آیت نمبر100 اور117 میں مہاجرین اور انصار کا عنوان ایک ساتھ آئے ہیں۔
ان کے علاوہ انصار کا عنوان سورہ صف کی آیت نمبر14 میں بھی حضرت عیسیؑ کے اصحاب پر اطلاق ہوا ہے۔
انصار کا اسلام لانا
قبیلہ اوس و خزرج میں سے پہلا شخس جس نے اسلام لے آیا وہ سوید بن صامت تھا جو واپس مدینہ پہنچنے پر جنگ بُعاث [3] میں خزرجیوں کے ہاتوں مارا گیا۔ ان کے بعد "ایاس بن معاذ" نامی ایک جوان نے اسلام کر لیا۔
تقریبا بعثت کے دسویں سال قبیلہ خزرج میں سے 6 نفر نے موسم حج میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ ملاقات میں اسلام قبول کر لئے۔[4]
اس سے اگلے ساتل 12 نفر حج کیلئے مدینے سے مکہ چلا کیا جہاں انہوں نے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ ملاقات کیا اور اس میں ایک عہدنامہ منعقد ہوا جسے پیمان عقبہ اول کہا جاتا ہے۔ اس عہد و پیمان کے مطابق مدینہ کے مسلمانوں نے وعدہ دیا کہ وہ خدا کیلئے کوئی شریک قرار نہیں دینگے، چوری نیہں کرینگے، اپنے بچوں کو زندہ درگور نہیں کرینگے، ایک دوسرے پر تہمت نہیں لگائیں گے اور کوئی برا کام انجام نہیں دینگے۔ اس پیمان کے منعقد ہونے کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے مصعب بن عمیر کو اسلام کی تبلیغ کیلئے مدینہ روانہ کیا۔[5]
اس کے بعد یثرب میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور سعد بن معاذ قبیلہ اوس کا سردار سمیت بہت ساروں نے اسلام قبول کیا۔
اگلے سال اوس و خزرج کے 73 اشخاص مکہ چلے گئے اور پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ ملاقات کر کے دوسرا پیمان یعنی پیمان عقبہ دوم پر دستخط کئے اور اس بات کا وعدہ دیا کہ وہ پیغمبراکرمؐ کی حمایت کرینگے۔[6]
مدینے کی طرف ہجرت
بعثت کے تیرہویں سال ایک طرف مشرکین مکہ کی طرف سے روز بروز ظلم و ستم میں اضافہ اور دوسری طرف سے اہل مدینہ کا اسلامی آئین اور قوانین کا گرمجوشی سے استقبال دیکھ کر پیغمبر اکرمؐ نے مدینے کی طرف ہجرت کرنے کو مناسب سمجھا یوں اپنے پیروکاروں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی جس کا اہل مدینہ نے بھی نہایت کھلے دل سے استقبال کئے اور مہاجرین کو اپنے ہاں مناسب جگہ دی گئی۔[7]
پیغمبر اکرمؐ کا یثرب میں داخل ہونے کی وجہ سے وہاں کے اکثر و بشتر قبائل نے اسلام قبول کیا اور پیغمبر اکرمؐ کی بیعت کی یوں یثرب مدینۃ النبی کے نام سے مشہور ہوا اور وہاں پہلی اسلامی حکومت کی سنگ بنیاد رکھی گئی جس کے نتیجے میں اوس و خزرج کے دیرینہ دشمنی رفتہ رفتہ اسلامی اخوت و بھائی چارہ میں تبدیل ہونا شروع ہوا اور جزیرۃ العرب میں مدیہ ایک مثالی شہر بن گیا۔
اس نئی تشکیل پانے والی حکومت میں دو قسم کے لوگ زندگی گزار تے تھے اور اسی ابتدائی ایام سے ہی ان دو گروہ کو الگ الگ نام سے یاد کرنے لگئے۔ ایک وہ مسلمان جو مکے سے پیغمبر اکرم کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے جنہیں مہاجرین اور دوسرا گروہ وہ مسلمان جو پہلے سے مدینے میں زندگی گزارتے تھے اور یہاں کے باشندے محسوب ہوتے تھے کو انصار کا نام دیا گیا۔
کچھ عرصہ بعد پیغمبر اکرمؐ نے مہاجرین اور انصار میں عقد اخوت قائم کیا جس کے تحت انصار اس بات کے پابند ہوئے کہ اپنے اور مہاجرین کے درمیان عدالت اسلامی کی بنیاد پر برابری اور برادری کا سلوک کرینگے اور ہر حالت میں ان کی مدد کیلئے تیار رہینگے۔[8]
انصار کا مقام
پیغمبر اکرمؐ کا دور
ہجرت اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے بعد ایک طرف سے انصار نے ہمیشہ اکثر مسئولیتوں اور خدمت رسانی کے وظائف کو اپنے ذمہ لئے اور دوسری طرف سے ان کی تعداد مہاجرین کی نسبت زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر جنگوں میں بھی یہی لوگ شرکت کرتے تھے۔[9] اس بنا پر پیغمبر اکرمؐ نے ان کے متعلق بارہا اپنی رضایت اور خشنودی کا اظہار فرمایا جنہیں ان سے مربوط احادیث میں انصار کے مناقب کے عنوان سے جمع کیا گیا ہے۔ [10]
انصار کی پیغمبر اکرمؐ کے ہاں محبوبیت اور قربت کی بہترین دلیل سنہ 9 ہجری میں غزوہ حنین میں مشخص ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح اور کامیابی کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے تمام غنائم جنگی کو قریش اور دیگر مہاجرین میں تقسیم کیا اور انصار کو کچھ نیہں دیا۔ اس وقت بعض نے پیغمبر کے اس کام پر اعتراض اور تعجب کا اظہار کیا جس کے جواب میں پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا کہ خود ذات پیغمبر کا انصار کے درمیان ہونا ان اموال سے کئی گنا بہتر اور قیمتی ہے۔ جس پر انصار بھی خوشحال ہو گئے اور پیغمبر اکرمؐ نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ [11]
اس کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ کا بنی ہاشم اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنا [12] بھی پیغمبر کے نزدیک انکی گہری دوستی اور محبت کی نشانی ہے۔
اسی سلسلے یمں پیغمبر اکرمؐ سے بعض احادیث بھی نقل ہوئی ہیں جن میں ان سے اپنے بعد پیش آنے والے واقعات اور حوادث میں صبر کا دامن تھامے رہنے کی تلقین فرمائی۔ [13]
ابوبکر کا دور
پیغمبر اکرمؐ کی زندگی اور آپ کے رحلت کے بعد مہاجرین اور انصار نے بھائی چارگی اور اخوت کے باوجود اپنے اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے کئی مواقع پر ایک دوسرے کے اوپر قومی تعصب اور تفاخر کا اظہار کرتے تھے۔[14] یہاں تک کہ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد یہ دو گروہ اسلام میں دو سیاسی اور تاریخی پارٹیوں کی شکل اختیار کر گئی اور ہمیشہ ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہوتے رہے ہیں۔
یہ کشمکش اور کھینچا تانی سقیفہ کے واقعے میں واضح اور آشکار ہوا۔ اس موقع پر انصار نے سب سے پہلے سقیفہ میں جمع ہو کر سعد بن عبادہ جو پیغمبر اکرمؐ کے نیک نام اور بڑے صحابیوں میں سے تھا اور قبیلہ خزرج کے سردار تھے، کو خلافت کیلئے نامزد قرار دئے۔ لیکن بعض مہاجرین نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے خلافت کو اپنا مسلم حق قرار دیا۔ اس موقع پر ان میں سے ہر ایک اپنی فضیلت، خدمات اور پیغمبر اکرمؐ کے ہاں انکی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے تھے اور حکومت اور سرپرستی کیلئے خود کو دوسرے سے زیادہ سزاوار سمجھتے تھے۔
جب انصار قدرت اور حکومت حاصل کرنے میں ناکام ہوئے تو مہاجرین کے ساتھ مل کر باہمی مشارکت سے حکومت تشکیل دینے کی تجویز پیش کی۔ لیکن چونکہ مہاجرین کا غلبہ تھا اسلئے ان کی اس تجویز پر بھی عمل نہیں ہوا دوسری طرف سے سعد بن عبادہ جو خلافت کا نامزد تھا بھی مہاجرین کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھا یہاں تک کہ اس نے جنگ کی دھمکی بھی دینا شروع کیا۔
بہر حال انصار نے آخر کار ابوبکر کی بیعت کی۔ [15] اور مسلمانوں میں اختلاف اور تفرقہ سے بچنے کیلئے خلیفہ کے ساتھ ہمکاری اور تعاون کرنے لگے۔[16]
عمر کا دور
عمر بن خطاب کی خلافت کے دور میں بھی انصار کی حالت خلیفہ اول کے دور کی طرح تھی اور بعض جنگوں میں انہوں نے شرکت کی۔[17] عمر بھی کسی حد تک انصار کا احترام کرتے تھے اور حکومتی کاموں میں ان سے صلح مشورے کرتے تھے۔ چنانچہ ہجرت کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دینے میں انصار سے مشورہ کیا۔ [18] اگرچہ عمر نے اپنے بعد خلیفہ انتخاب کرنے کیلئے جو چھ نفری شوری تشکیل دیا تھا اس میں انصار میں سے کوئی شامل نہیں تھا لیکن اسک کے باوجود عمر نے انصار کو خلیفہ کے انتخاب میں شرکت اور اس پر نظارت رکھنے کی تاکید کی۔[19]
ان سب کے باوجود جب بھی عمر بیت المال سے مسلمانوں کا وظیفہ تعیین کرتا تھا تو خاندانی طبقات اور اسلام میں پہل کرنے کو بیت المال کی تقسیم میں معیار قرار دیتے تھے اسی لئے مہاجرین کو انصار پر مقدم رکھتے تھے۔[20] اور خود انصار کے درمیان بھی قبیلہ اوس جس نے ابوبکر کی بیعت کرنے میں قبیلہ خزرج پر سبقت کی تھی کو بیت المال میں سے کچھ زیادہ حصہ دیا کرتا تھا۔ [21]
خلیفہ ثانی کا سورہ توبہ کی آیت نمبر 100 کی مخصوص قرأت جو بیت المال میں ان کی طرف سے مہاجرین کو انصار پر مقدم کرنے کا معیار بنا، اُبَیّ بن کَعب قرآن کے مشہور قاری کی شدید اعتراض کا موجب بنا۔ ابی بن کعب نے بھی اس کے مقابلے میں انصار کی برتری کو ثابت کرنے کیلئے ان کی فضیلت میں نازل ہونے والی قرآن یک بہت ساری آیات منجملہ سورہ جمعہ آیت نمبر 3، سورہ حشر آیت نمبر 10 اور سورہ انفال کی آیت نمبر 75 سے استناد کرتے تھے۔ [22]
بعض مورخین معتقد ہیں کہ عمر کے زمانے کے معتبر قراء جو اکثر انصار میں سے تھے، نے خلیفہ کو قرآن کی جمع آوری کا مشورہ دیا لیکن عمر نے اسے قبول نہیں کیا۔[23]
امام علیؑ کی خلافت کادور
امام علیؑ کی خلافت کے دور میں انصار آپ کے سخت حامی تھے اور آپ کے دور خلافت میں اکثر سیاسی اور اجتماعی مسائل میں ان کا کردار رہا ہے۔ چانچہ امام علیؐ نے معاویہ کو ایک خط میں لکھا کہ مہاجرین اور انصار نے مکمل ہمدلی اور اتفاق سے آپ کی بیعت کی ہے۔[24]
جنگ صفین میں بھی انصار میں سے نمایاں شخصیات جیسے براء بن عازب، عبدالرحمان بن ابی لیلی، خزیمہ بن ثابت اور زید بن ارقم نی شرکت کیں جس پر معاویہ بہت غضبناک ہوا اور انصار کی ملامت کرنے لگا۔[25]
علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی پیروی کرتے ہوئے ہمیشہ انصار کی حمایت فرماتے تھے[26] اور انصار میں سے ایک گروہ نے واقعہ غدیر اور امام علیؑ کی امامت و ولایت کی گواہی دی ہیں۔[27]
باہمی ارتباط
انصار جنہیں یثربی کہا جاتا تھا[28] اور مہاجرین جنہیں مکی کہا جاتا تھا کے درمیان ہمیشہ شدید رقابت اور کھینچاتانی موجود رہتی تھی۔ مہاجرین خود کو پیغمبر اکرمؐ کے قریبی رشتہ دار اور سب سے پہلے اسلام لانے والے مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنے اوپر فخر کرتے تھے اس کی مقابلے میں انصار بھی اسلامی میں ان کی خدمات اور کارناموں کے علاوہ اپنے یمانی اور قحطانی ہونے پر بھی فخر کیا کرتے تھے۔ [29]
انصار کے شعراء ان کارناموں کو اشعار کی صورت میں بیان کرکے لوگوں تک پہنجاتے تھے منجملہ حسان بن ثابت انصاری مشہور شاعر نے انصار کی مدح اور مکیوں کی مذمت میں کئی اشعار انشاء کئے ہیں۔[30]
معاویہ کا دور
معاویہ کی دور میں انصار اکثر و بیشتر مورد سرزنش قرار پاتے تھے۔ جب معاویہ کی فوج کی سپہ سالار بُسر بن ابی ارطاہ عامری نے حجاز پر حملہ کیا اور مدینہ میں داخل ہوا تو انصار کو "ابناء العبید" (غلام زادے)[31] اور "معشر الیہود"[32] کہ کر ان کی تحقیر کیا۔[33]
معاویہ کی انصار کے ساتھ دشمنی اس قدر تھی کہ عمرو بن عاص کے ساتھ مل کر کوشش کیا تاکہ انصار کا عنوان ہی اسلامی تاریخ سے مٹا دیا جائے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا۔[34]
یزید بن معاویہ کا دور
یزید نے بھی انصار کی تحقیر اور سرزنش جاری رکھی اور کعب بن جعیل کو اشعار کے ذریعے انصار کا مزاق اڑانے کا حکم دیا۔ [35] واقعہ حرّہ جو سنہ ۶۳ق میں رونما ہوا مدینے کے لوگوں منجملہ 173 انصار کا قتل عام کیا۔[36] اور شامی فوج کی کامیابی کے بعد یزید نے ابن زبعری کے اشعار جو اس نے زمانہ کفر و شرک کے دوران جنگ احد میں کہا تھا، کو زمزمہ کرنا شروع کیا گویا یزید خزرجیوں سے جنگ بدر کا انتقام لے رہا تھا۔[37]
ان واقعات اور ابن زبیر کی تحریک کے ناکامی کے بعد انصار کی قدرت ختم ہو گئی اور ان میں سے بہت سارے شمال افریقا، اندلس اور دیگر جنگی میدانوں میں جنگجوؤں کے ساتھ جا ملے۔ [38]
حوالہ جات
- ↑ بخاری، ج۴، ص۲۲۱
- ↑ ج۱، ص۶۵۵
- ↑ بُعاث مدینہ کے جنوب مشرق میں ایک جگہے کا نام ہے جس کی شہرت اس جنگ کی وجہ سے ہے جو مسلمانوں کے مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے مہدینے کے دو اہم قبیلہ اوس اور خزرج کے درمیان اس جگہ لڑی گئی۔ بعض مورخین معتقد ہیں کہ جنگ بعاث جس کے منفی آثار سے اہل مدینہ خستہ ہو گئے تھے، نے پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ ہجرت کے لئے زمینہ ہموار کیا۔
- ↑ ابن ہشام، ج۲، ص۲۹۲-۲۹۳؛ ابن اثیر، ج۲، ص۹۴-۹۶
- ↑ بلاذری، انساب...، ج۱، ص۲۳۹؛ ابن اثیر، ج۲، ص۹۶- ۹۸
- ↑ ابن ہشام، ج۲، ص۳۰۲-۳۰۳؛ ابن عبدالبر، ص۷۶-۷۹
- ↑ ابن ہشام، ج۲، ص۳۴۳-۳۴۴؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۶۸-۳۸۳
- ↑ ابن ہشام، ج۲، ص۳۵۱-۳۵۳؛ بخاری، ج۴، ص۲۲۲- ۲۲۳
- ↑ ابن ہشام، ج۳، ص۶۳۵ -۶۳۹؛ خلیفہ، ج۱، ص۳۲- ۳۸، ۵۲، ۶۳
- ↑ بخاری، ج۴، ص۲۲۱؛ مسلم، ج۱، ص۸۵ -۸۶، ج۲، ص۱۹۴۸-۱۹۵۲؛ ابن ماجہ، ص۵۷ - ۵۸؛ ترمذی، ج۵، ص۷۱۲-۷۱۷
- ↑ ابن ہشام، ج۴، ص۹۳۳- ۹۳۵؛ بخاری، ج۴، ص۲۲۱؛ مسلم، ج۱، ص۷۳۳-۷۳۴
- ↑ ابوالفرج، ج۴، ص۷۶
- ↑ احمد بن حنبل، ج۴، ص۲۹۲
- ↑ جاحظ، ج۲، ص۲۱۹
- ↑ ابن سعد، ج۳، بخش۱، ص۱۳۶، ۱۵۱؛ احمد بن حنبل، ج۱، ص۵۵ -۵۶؛ مسعودی، ج۳، ص۲۲۳-۲۲۴
- ↑ مقدسی، ج۵، ص۱۵۶-۱۵۷
- ↑ مقدسی، ج۵، ص۱۶۹
- ↑ خلیفہ، ج۱، ص۸؛ مقدسی، ج۵، ص۱۸۰
- ↑ ایضا، ج۵، ص۱۹۰-۱۹۱
- ↑ ابن سعد، ج۳، بخش ۱، ص۲۱۳، ۲۲۶
- ↑ بلاذری، فتوح...، ص۴۳۷
- ↑ ابن شبہ، ج۱، ص۷۰۷؛ طبری، تفسیر، ج۱۱، ص۷؛ ابوالفتوح، ج۶، ص۹۴- ۹۵
- ↑ ابن شبہ، ج۱، ص۷۰۶
- ↑ طبری، تاریخ، ج۴، ص۵۶۱
- ↑ ابن سعد، ج۶، ص۳۳؛ امینی، ج۲، ص۷۹-۸۲
- ↑ قلقشندی، ج۱، ص۲۰۲
- ↑ امینی، ج۱، ص۱۸۴- ۱۸۵
- ↑ علی، ج۱، ص۴۸۴
- ↑ همو، ج۱، ص۵۰۳- ۵۰۵
- ↑ ابن ہشام، ج۴، ص۶۳؛ ابن کثیر، ج۲، ص۴۵۴؛ علی، ج۱، ص۳۸۴، ۴۸۳
- ↑ فرزندان بردگان
- ↑ گروہ یہود
- ↑ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۹-۱۰
- ↑ ابوالفرج، ج۱۴، ص۱۲۵، ۱۲۷- ۱۲۸
- ↑ ابن قتیبہ، ص۱۵۲
- ↑ خلیفه، ج۱، ص۳۱۳-۳۱۴
- ↑ بلاذری، انساب، ج۴، بخش۲، ص۴۲؛ دینوری، ص۲۶۷
- ↑ حتی، ص۲۵۱
مآخذ
- قرآن کریم.
- ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۷۸ق /۱۹۵۹م.
- ابن اثیر، الکامل.
- ابن سعد، محمد، کتاب الطبقات الکبیر، بہ کوشش زاخاو و دیگران، لیدن، ۱۳۳۰ق.
- ابن شبہ، عمر، تاریخ المدینہ المنورہ، بہ کوشش فہیم محمد شلتوت، قم، دارالفکر.
- ابن عبدالبر، یوسف، الدرر فی اختصار المغازی و السیر، بہ کوشش شوقی ضیف، قاہرہ، ۱۳۸۶ق /۱۹۶۶م.
- ابن قتیبہ، عبداللہ، الشعر و الشعراء، بیروت، ۱۴۰۴ق /۱۹۸۴م.
- ابن کثیر، اسماعیل، السیرہ النبویہ، بہ کوشش مصطفی عبدالواحد، بیروت، ۱۳۸۶ق /۱۹۶۴م.
- ابن ماجہ، محمد، سنن، بہ کوشش محمد فؤاد عبدالباقی، قاہرہ، ۱۹۵۴م.
- ابن ہشام، عبدالملک، السیرہ النبویہ، بہ کوشش محمد محیی الدین عبدالحمید، قاہرہ، ۱۳۹۱ق /۱۹۷۱م.
- ابوالفتوح رازی، روح الجنان، بہ کوشش ابوالحسن شعرانی، تہران، ۱۳۸۴ق.
- ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، بولاق، ۱۹۷۰م.
- احمد بن حنبل، مسند، قاہرہ، ۱۳۱۳ق.
- امینی، عبدالحسین، الغدیر، بیروت، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م.
- بخاری، محمد، صحیح، استانبول، ۱۴۰۲ق / ۱۹۸۲م.
- بلاذری، احمد، انساب الاشراف، ج ۱، بہ کوشش محمد حمیداللہ، قاہرہ، ۱۹۵۹م ؛ ج ۴(۲)، بہ کوشش ماکس شلوسینگر، بیت المقدس، ۱۹۳۸م.
- بلاذری، فتوح البلدان، بہ کوشش دخویہ، ۱۸۶۵م.
- ترمذی، محمد، سنن، بہ کوشش ابراہیم عطوہ عوض، استانبول، ۱۴۰۱ق /۱۹۸۱م.
- جاحظ، عمرو، البیان و التبیین، بہ کوشش حسن سندوبی، قاہرہ، ۱۳۵۱ق /۱۹۳۲م.
- حتی، فیلیپ، تاریخ عرب، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران، ۱۳۶۶ش.
- خلیفہ بن خیاط، تاریخ، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۷م.
- دینوری، احمد، الاخبار الطوال، بہ کوشش عبدالمنعم عامر، قاہرہ، ۱۹۶۰م.
- طبری، تاریخ.
- طبری، تفسیر.
- علی، جواد، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت /بغداد، ۱۹۷۶م.
- قلشقندی، احمد، صبح الاعشی، قاہرہ، ۱۳۸۳ق /۱۹۶۳م.
- مسعودی، علی، مروج الذہب، بیروت، ۱۳۸۵ق /۱۹۶۶م.
- مسلم بن حجاج، صحیح، بہ کوشش محمد فؤاد عبدالباقی، استانبول، ۱۴۰۱ق /۱۹۸۱م.
- مقدسی، مطہر، البدء و التاریخ، بہ کوشش کلمان ہوار، پاریس، ۱۸۹۹م.
بیرونی روابط
- منبع مقالہ: دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی