قبیلہ ہمدان

ویکی شیعہ سے
قبیلہ ہمدان
عمومی معلومات
قومیتقحطانی عرب
سربراہہمدان بن مالک
انشعاباتحاشد اور بکیل
مذہبتشیع
اسلام لاناصدر اسلام میں
محل سکونتکوفہ
خصوصیاتیمن کے بڑے قبائل میں سے
واقعاتامام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی حمایت اور پیروی
حکومت
وسعتیمن
شخصیات
مشاہیرسعید بن نمران، سعید بن قیس اور شہدائے کربلا میں سے دس شہداء
علماءحارث بن عبد اللہ ہمدانی


قبیلہ ہَمْدان‏، یمن کے مشہور شیعہ قبائل میں سے ہے۔ پیغمبر اسلامؐ کی جانب سے امام علیؑ کو اپنا نمائندہ بنا کر یمن بھیجنے کے سبب اس قبیلے نے اسلام‌ قبول کیا جو یمن کے دیگر قبائل کے اسلام لانے کا مقدمہ بنا۔ قبیلہ ہمدان ردہ کے واقعے میں اسلام پر باقی رہے اور مرتد نہیں ہوئے۔

قبیلہ ہمدان امام علیؑ کی خلافت کے دور میں رونما ہونے والے واقعات میں پیش پیش تھے اور ان میں سے بعض امام علیؑ کے لشکر کے سپہ سالار اور حکومتی عہدوں پر فائز تھے۔ انہوں نے امام علیؑ کی حمایت میں جمل، صفین اور نہروان کی جنگوں میں شرکت کیا۔ بعض نے امام علیؑ کے ہاتھوں قبیلہ ہمدان کے اسلام لانے اور امام علیؑ کی امامت و ولایت پر حقیقی شناخت اور ایمان کو اس قبیلے کی امام علیؑ کی خالصانہ پیروی اور حمایت کی دلیل ذکر کرتے ہیں۔

امام علیؑ کی شہادت کے بعد ہمدانیوں نے امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی مدد کی اور ان میں سے بعض افراد واقعہ کربلا میں شہید بھی ہوئے ہیں۔

سنہ 288ھ کو یحیی بن حسین ہمْدانیوں کی حمایت کی وجہ سے یمن میں زیدیوں کی حکومت تشکیل دینے میس کامیاب ہوا۔ اور اس وقت سے لے کر اب تک یمن زیدیوں کا مرکز جانا جاتا ہے۔ قبیلہ ہمدان اس وقت بھی یمن میں قدرت اور نفوذ رکھتے ہیں۔ تحریک انصار اللہ یمن قبیلہ ہمدان کے حاشد قبائلی یونین کے رکن ہیں۔

اجمالی تعارف

قبیلہ ہمدان یمن مشہور[1] بڑے اور طاقتور قبائل میں سے ہے جو ظہور اسلام سے پہلے بھی ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کے مالک تھے۔[2] یہ قبیلہ اسلامی دور میں بھی سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ رکھتا تھا[3]اور یمن میں موجود عرب قبائل اور گروہوں میں ایک ممتاز مقام کا حامل تھا۔[4]

قبیلہ ہمدان کا نسب ہمدان بن مالک سے جا ملتا ہے۔[5] ہمدان کو دو بڑی شاخوں حاشد اور بَکیل[6] اور کئی دوسری شاخوں[7] میں تقسیم کیا جاتا ہے؛ البتہ بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ قبیلہ ہمدان کی دوسری تمام شاخیں اس کی دو بڑی شاخوں حاشد اور بکیل سے منشعب ہوئی ہیں۔[8]

بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ قبیلہ ہمدان اسلام سے پہلے کچھ عرصہ حکومت کرتے تھے اور ان میں سے بعض حکومت سبأ کے عہده داروں میں سے تھے۔[9] قبیلہ ہمدان ظہور اسلام سے پہلے ساسانی حکومت کے اتحادی شمار ہوتے تھے۔[10]

ظہور اسلام کے بعد قبیلہ ہمدان کے بعض افراد جیسے حارث بن عبد اللہ بن کعب، عمرو بن عبد اللہ بن علی سبیعی ہمْدانی، علی بن صالح بن صالح ثوری ہمدانی اور ابراہیم بن سلیمان بن عبد اللہ نِہمی ہمدانی علم حدیث، علم فقہ اور علم تفسیر کے بلند پایہ علمی شخصیات میں سے تھے جنہوں نے اسلامی علوم و معارف کی توسیع میں اہم کردار ادا کئے ہیں۔[11]

محل وقوع

کتاب "تاریخ مدینہ صنعا" کے مصنف کے مطابق ہمْدان کا علاقہ شہر صنعا شمال مغرب میں واقع ہے اور اس قبیلے کی ہر شاخ اس علاقے کے مختلف مناطق میں زندگی بسر کرتی تھی۔[12] کتاب "مُعجَم‌البلدان"[13] کے مصنف اور دیگر مصنفین[14] اس بات کے معتقد ہیں کہ قبیلہ ہمدان صنعا کے شمال سے صعدہ تک یمن کے ایک وسیع علاقے میں آباد ہیں۔ حاشدی قبائل مغربی حصے میں جبکہ بکیلی قبائل مشرقی حصے میں آباد تھے۔ اس کے علاوہ مأرب اور نجران جیسے دوسرے مناطق بھی اس قبیلے کے محل سکونت کے طور پر ذکر کئے گئے ہیں۔[15]

بعض کا خیال ہے کہ ہمدانی شہر نشین تھے۔ تاہم اس قوم کی بادیہ نشینی اور خانہ بدوش زندگی کے آثار بھی موجود ہیں۔[16]

امام علی کے ہاتھوں اسلام لانا

قبیلہ ہمْدان اسلام قبول کرنے والے ابتدائی قبائل میں سے تھے۔[17] بعض تاریخی اسناد کے مطابق غزوہ تبوک کے بعد قبیلہ ہمدان کے بعض سردار پیغمبر اسلامؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی مرضی سے دین اسلام قبول کیا۔ پیغمبر اکرمؐ نے اس موقع پر قبیلہ ہمدان کی تعریف و تمجید کی؛[18] تاہم یمن کے تمام لوگوں خاص کر ہمدانیوں کا اسلام قبول کرنے کا واقعہ پیغمبر اسلامؐ کی جانب سے امام علیؑ کو یمن بھیجنے کے بعد پیش آیا۔ طبری کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے شروع میں خالد بن ولید کو یمن کی طرف روانہ کیا؛ لیکن چھ ماہ کی ناکامی کے بعد امام علیؑ کو ایک خط کے ساتھ یمن کی طرف بھیجا جسے کے نتیجے میں قبیلہ ہمدان کے تمام افراد نے ایک ہی دن اسلام قبول کیا۔[19] پیغمبر اکرمؐ نے اس واقعے سے مطلع ہونے کے بعد سجدہ شکر بجا لایا اور قبیلہ ہمدان پر درود و سلام بھیجا۔[20] بعض ہمدانیوں کے اسلام لانے پر پیغمبر اکرمؐ کا سجدہ شکر بجا لانے کو یمن کے دیگر قحطانی قبائل کی بنسبت اس قبیلے کے مختصات میں شمار کرتے ہیں۔[21] یمن کے دوسرے قبائل نے بھی قبیلہ ہمدان کی پیروی کرتے ہوئی اسلام قبول کیا ۔[22]

اس کے بعد قبیلہ ہمدان امام علیؑ کے خالص شیعیوں میں شمار ہوتے تھے[23] اور جنگ جمل اور صفین میں یہ لوگ امام علیؑ کے رکاب میں شامل تھے[24] اور ان جنگوں میں بہت زیادہ نقصانات کے متحمل ہوئے تھے۔[25] اس وقت کے اب تک ان کے درمیان مذہب تشیع رائج ہے۔[26]

ایک حدیث میں پیغمبر اسلامؐ نے قبیلہ ہمدان کی تعریف و تمجید کرتے ہوئے انہیں حق کی نصرت کرنے میں پہل کرنے اور سختیوں اور مصیبتوں میں صبر کرنے والی قوم کے طور پر معرفی کی ہیں اور انہیں خدا کے منتخب بندے اور اسلام کے سرداروں میں سے قرار دیا ہے۔[27] درج ذیل شعر کو یقینی طور پر امام علیؑ کی طرف نسبت دی گئی ہے[28] جس میں قبیلہ ہمدان کی تعریف کی گئی ہے:

وَلَوْ أَنَّ يَوْماً كُنْتُ بَوَّابَ جَنَّۃٍ لَقُلْتُ لِہَمْدَانَ ادْخُلُوا بِسَلَام
اگر میں ایک دن بہشت کا دربان بن جاؤںتو میں قبیلہ ہمدان سے کہوں گا سلامتی کے ساتھ بہشت میں داخل ہو جاؤ۔

خلفا کے دور میں

قبیلہ ہمْدان رسول خداؐ کی رحلت اور جھوٹے انبیاء کے فتنے کے وقت اپنے بزرگوں جیسے مران بن ذی عمیر اور عبداللہ بن مالک ارحبی کی راہنمائی کی بنا پر دین اسلام پر ثابت‌ قدم رہے۔[29] ہمدانیوں میں سے بعض افراد نے اسلامی دور حکومت کے بعض فتوحات منجملہ شام[30] اور عراق[31] میں شرکت کی ہیں۔

سنہ 17ھ کو کوفہ کی تأسیس کے بعد یمن کے دیگر قبائل کے ساتھ قبیلہ ہمدان بھی اس شہر کے مشرقی حصے میں آباد ہوئے[32] اور ایک مختصر عرصے میں آبادی کے لحاظ سے شہر کوفہ کا سب سے بڑا قبیلہ شمار ہونے لگا۔[33] تیسرے خیلفہ عثمان بن عفان کے دور خلافت میں اس قبیلے کی پوزیشن مضبوط ہو گئی؛[34] یہاں تک کہ ان میں سے بعض افراد جیسے حارث بن عبد اللہ ہمْدانی نے کوفہ میں عثمان کے والی سعید بن عاص کے خلاف مزاحمت کی جس کی بنا پر انہیں شام جلاوطن کیا گیا۔[35]

امام علیؑ کی خلافت کے دوران آپ کی حمایت

امام علیؑ کی خلافت کے دوران رونما ہونے والے واقعات میں ہمدانیوں نے مثبت کردار ادا کیا۔ قبیلہ ہمدان کے بعض بزرگان جیسے حارث بن عبد اللہ ہمدانی امام علیؑ کی بیعت کے وقت حاضر تھے۔[36] یزید بن قیس،[37] مالک بن کعب[38] اور سعید بن نمران[39] امام علیؑ کی حکومت کے عہدہ داروں میں سے ہیں جن کا تعلق قبیلہ ہمدان سے تھا۔

ہمدانیوں نے جنگ جمل میں سعید بن قیس کی قیادت میں امام علیؑ کا ساتھ دیا[40] اور جنگ صفین میں بھی ان لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا؛[41] یہاں تک کہ اس جنگ میں قبیلہ ہمدان کی بعض خواتین بھی شامل تھیں۔[42] بعض تاریخی اسناد کے مطابق اس جنگ میں امام علیؑ کے ساتھ اس قبیلے کی ہمراہی یہاں تک تھی کہ ایک دن اس قبیلے کے 180 افراد جن میں گیارہ افراد اس قبیلے کے سرداروں میں سے تھے، شہید ہوئے۔[43]

امام علیؑ نے ہمدانیوں کی جان نثار کی تعریف کرتے ہوئے انہیں اپنا ذرہ اور نیزہ سے تعبیر کیا۔[44] ہمدانیوں کی تعریف میں امام علیؑ کی بعض اشعار منابع میں نقل ہوئی ہیں۔[45] جنگ صفین[46] اور اس کے بعد[47] بعض ہمدانیوں کی گفتگو سے یہ مفہوم اخذ کیا گیا ہے کہ جنگ کے تمام مراحل میں یہ لوگ ہمیشہ امام علیؑ کے مطیع اور اور فرمانبردار رہے ہیں۔[48]

حکمیت کے بعد بھی ہمدانیوں نے امام علیؑ کی خدمت میں اپنی نذرانہ عقیدت پیش کی۔[49] جنگ صفین میں ان کی کثیر تعداد کی شہادت کے بعد بھی انہوں نے سعید بن قیس کی قیادت میں جنگ نہروان میں امام علیؑ کا ساتھ دیا۔[50]

بعض محققین ہمدانیوں کے خلوص اور خلوص کی پیروی کو اسلام کے بارے میں ان کی گہری سمجھ اور امام علی علیہ السلام کے روحانی مقام کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ امام علی علیہ السلام کے ہاتھ پر ان کے یقین اور علم کی وجہ سے ہے۔ اس کی سرپرستی اور سرپرستی کا مقام۔

بعض محققین ہمدانیوں کے جان نثاری اور مخلصانہ پیروی کو اسلام اور امام علیؑ کے مقام و مرتبے کے حوالے سے ان کی ایمان اور آگاہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی چیز امام علیؑ کے ہاتھوں ان کے اسلام قبول کرنے اور امام علیؑ کی امامت و ولایت پر ایمان لانے کا سبب بنا۔[51]

سنہ 40ھ کو جب معاویہ نے بُسر بن اَرطاۃ کو حجاز اور یمن میں شیعوں کی نسل کشی کے لئے بھیجا تو اس وقت ہمدانیوں نے امام علیؑ کی حمایت میں معاویہ کے نمائیندے کا مقابلہ کیا اس مقابلے میں یمن کے بہت سارے شیعہ جن میں سے اکثریت قبیلہ ہمدان میں سے تھے، شہید ہوئے۔[52]

امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی حمایت

ہمدانیوں نے امام علیؑ کی شہادت کے بعد امام حسنؑ کی حمایت کی اور معاویہ کے خلاف امام حسنؑ کے لشکر میں شامل ہوئے۔ امام حس کی سپاہیوں میں افراتفری اور امامؑ پر حملہ ہونے کے بعد قبیلہ ربیعہ نے امام حسن کی محافظت کی اور آپ کو مدائن لے گئے۔[53]

واقعہ کربلا میں بھی قبیلہ ہمدان کے افراد شریک تھے اور شہدائے کربلا میں سے دس شہداء بُریر بن حُضَیر، سیف بن حارث جابری، مالک بن عبداللہ بن سریع جابری، حنظلۃ بن اسعد شبامی، ابوثُمامہ زیاد بن عمرو صائدی، عابس بن ابی‌شَبیب شاکری، سوار بن ابی‌حمیر جابری، سوار بن منعم بن حابس نہمی، عبدالرحمان بن عبداللہ ارحبی اور عابس شاکری کا غلام شوذب قبیلہ ہمدان میں سے تھے۔[54] البتہ اس قبیلہ کے بعض افراد جیسے ضحاک بن عبد اللہ مشرقی[55] اور مالک بن نضر ارحبی[56] ایسے بھی تھے جنہوں نے مقروض ہونے اور بیوی بچوں کے بہانے امام حسینؑ کو تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔

اسی طرح ہمدانیوں کا ایک گروہ جیسے عبداللہ بن کامل شاکری،[57] سعید بن مُنقِذ[58] اور مالک بن عمرو بن نِمران[59] قیام مختار میں بھی شامل تھے اور آخر تک مختار کا ساتھ دیا۔

یمن میں زیدیوں کی حکومت کی تشکیل میں ہمدانیوں کا کردار

یحیی بن حسین جو کہ امام حسنؑ کی نسل سے تھے، سنہ 288ھ کو یمن کے بعض قبائل کی دعوت پر یمن چلے گئے[60] اور یمن میں قبیلہ ہمدان کی دو بڑی شاخوں حاشد اور بکیل کی حمایت سے یمن می زیدیوں کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا اور اس وقت سے لے کر اب تک یمن زیدیوں کے مرکز میں تبدیل ہوا ہے اور اس علاقے میں زیدیوں کے مختلف امام اور مکاتب فکر پروان چڑی ہے۔[61] عمارہ یمنی متوفی 569ھ نے ان سالوں میں بنی‌ ہمدان کو زیدی شیعہ کے پیروکار معرفی کرتے ہوئے[62] لکھا ہے کہ قبیلہ ہمدان کی بعض طاقتور شاخیں یمن میں طاقت اور اثر و رسوخ رکھتے تھے۔[63] یمن میں زیدیوں کی حکومت ہزار سال کے بعد حاشد جیسے بڑے قبائل کی حمایت سے محروم ہونے پر سنہ 1962ء کو اختتام پذیر ہوئی۔[64]

عصر حاضر

اس وقت بھی قبیلہ ہمدان کا شمار یمن کے بڑے قبائل میں ہوتا ہے۔ یہ قبیلہ 100 سال قبل از مسیح سے اب تک ہمیشہ یمن میں طاقت اور اثر و رسوخ کا حامل رہا ہے۔[65] اس وقت بھی قبیلہ ہمدان کی دو بڑی شاخ حاشد اور بکیل یمن کے قبائلی اتحاد کے اہم ارکان میں شمار ہوتے ہیں۔[66] یمن کے سابق صدر علی عبد اللہ صالح، حزب اَلتَّجَمُّعُ الْیَمَنی الاصلاح کے صدر عبد اللہ بن حسین الاحمر[67] اور تحریک انصار اللہ یمن حاشد قبائلی اتحاد کے اراکین میں سے ہیں۔[68] عصر حاضر میں حاشدی قبائل یمن کے شمالی حصے میں جبکہ بکیلی قبائل اس ملک کے جنوبی حصے میں آباد ہیں۔[69]

حوالہ جات

  1. ابن حائک، الاکلیل، 1425ھ، ج1، ص34۔
  2. معصومی جشنی، قبیلہ ہمدان و نقش آن در تاریخ اسلام و تشیع، 1386ہجری شمسی، ص6۔
  3. منتظرالقائم، نقش قبیلہ ہمدان در تاریخ اسلام و تشیع، 1385ہجری شمسی، ص7۔
  4. عمارہ یمنی، تاریخ الیمن، 1425ھ، ص261۔
  5. حجری یمانی، مجموع بلدان الیمن، 1416ھ، ج2، ص752۔
  6. زرکلی، الأعلام، 1989م، ج2، ص120؛ سقاف، ادام القوت، 1425ھ، ص172۔
  7. براقی، تاریخ کوفہ، 1381ہجری شمسی، ص259۔
  8. عمارہ یمنی، تاریخ الیمن، 1425ھ، ص189؛ حجری یمانی، مجموع بلدان الیمن، 1416ھ، ج2، ص752۔
  9. جواد علی، المفصل، 1391ہجری شمسی، ج2، ص368-369؛ شیرودی، تحلیل عملکرد جنبش حوثی‌ہای یمن بر اساس رویکرد جابری، 1400ہجری شمسی، ص172۔
  10. رازی، تاریخ مدینۃ صنعاء، 1409ھ، ص94۔
  11. منتظرالقائم، نقش قبیلہ ہمدان در تاریخ اسلام و تشیع، 1385ہجری شمسی، ص21-26۔
  12. رازی، تاریخ مدینۃ صنعاء، 1409ھ، ص683۔
  13. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج5، ص69۔
  14. ابن حائک، صفۃ جزیرہ العرب، 1410ھ، ص217۔
  15. جعیط، نشأۃ المدینۃ العربیۃ الإسلامیۃ، 2005ء، ص375۔
  16. جعیط، نشأۃ المدینۃ العربیۃ الإسلامیۃ، 2005ء، ص375۔
  17. حجری یمانی، مجموع بلدان الیمن، 1416ھ، ج2، ص752۔
  18. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص256۔
  19. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص132۔
  20. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص132؛ حجری یمانی، مجموع بلدان الیمن، 1416ھ، ج2، ص753۔
  21. حجری یمانی، مجموع بلدان الیمن، 1416ھ، ج2، ص753۔
  22. حجری یمانی، مجموع بلدان الیمن، 1416ھ، ج2، ص753۔
  23. احمدی میانجی، مكاتيب الرسول، ج2، ص556۔
  24. قلقشندی، صبح الأعشى في صناعۃ الإنشا، ج1، ص380۔
  25. ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج5، ص123۔
  26. زرکلی، الأعلام، ج8، ص94۔
  27. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص257، ابن‌اثیر جزری، اسد الغابہ، 1409ھ، ج1، ص534۔
  28. ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج5، ص123۔
  29. ابن حجر عسقلانی، الإصابۃ، 1415ھ، ج6، ص222-223۔
  30. منتظرالقائم، نقش قبیلہ ہمدان در تاریخ اسلام و تشیع، 1385ہجری شمسی، ص10-11، بہ نقل از ابن اعثم۔
  31. ابن‌اثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج2، ص247-248؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج2، ص235۔
  32. منتظرالقائم، نقش قبیلہ ہمدان در تاریخ اسلام و تشیع، 1385ہجری شمسی، ص11۔
  33. منقری، وقعہ الصفین، 1382ھ، ص311۔
  34. منتظرالقائم، نقش قبیلہ ہمدان در تاریخ اسلام و تشیع، 1385ہجری شمسی، ص11۔
  35. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص386۔
  36. شیخ مفید، الجمل، 1413ھ، ص109۔
  37. دینوری، اخبار الطوال، 1368ہجری شمسی، ص153۔
  38. شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج8، ص658؛ مامقانی، تنقیح المقال، بی‌تا، ج2، القسم الثانی، ص50۔
  39. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج2، ص453۔
  40. دینوری، اخبار الطوال، 1368ہجری شمسی، ص146۔
  41. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص20، منقری، وقعہ الصفین، 1382ھ، ص252، 436؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص389۔
  42. ابن اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج3، ص87۔
  43. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص20، منقری، وقعہ الصفین، 1382ھ، ص252۔
  44. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص41۔
  45. ابن اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج3، ص32؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج3، ص85؛ حجری یمانی، مجموع بلدان الیمن، 1416ھ، ج2، ص753-754۔
  46. منقری، وقعہ الصفین، 1382ھ، ص436-437۔
  47. ابن اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج3، ص59-60، 87-88۔
  48. منتظرالقائم، نقش قبیلہ ہمدان در تاریخ اسلام و تشیع، 1385ہجری شمسی، ص13-14۔
  49. منقری، وقعہ الصفین، 1382ھ، ص520۔
  50. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص79۔
  51. منتظرالقائم، نقش قبیلہ ہمدان در تاریخ اسلام و تشیع، 1385ہجری شمسی، ص13-14۔
  52. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج3، ص21-22؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص161؛ ثقفی کوفی، الغارات، 1353ہجری شمسی، ج2، ص914۔
  53. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، بیروت، ص72۔
  54. منتظرالقائم، نقش قبیلہ ہمدان در تاریخ اسلام و تشیع، 1385ہجری شمسی، ص19-20۔
  55. بلاذری، انساب الأشراف، 1417ھ، ج3، ص197؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص418۔
  56. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص418۔
  57. ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، 1407ھ، ج8، ص287-288۔
  58. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج6، ص29، بلاذری، انساب الأشراف، 1417ھ، ج6، ص382۔
  59. بلاذری، انساب الأشراف، 1417ھ، ج56، ص57۔
  60. خاکرند، نگاہی کوتاہ بہ نہضت حوثی‌ہا در یمن، 1393ہجری شمسی، ص112۔
  61. طباطبایی، حوثیان یمن، 1395ہجری شمسی، ص10۔
  62. عمارہ یمنی، تاریخ الیمن، 1425ھ، ص189۔
  63. عمارہ یمنی، تاریخ الیمن، 1425ھ، ص261۔
  64. اشرفی، نگاہی بہ پیشینہ جنبش اسلامی در یمن، 1392ہجری شمسی، ص253۔
  65. شیرودی، تحلیل عملکرد جنبش حوثی‌ہای یمن بر اساس رویکرد جابری، 1400ہجری شمسی، ص172۔
  66. شیرودی، تحلیل عملکرد جنبش حوثی‌ہای یمن بر اساس رویکرد جابری، 1400ہجری شمسی، ص172۔
  67. منتظرالقائم، نقش قبایل یمنی در حمایت از اہل بیتؑ، 1396ہجری شمسی، ص77۔
  68. شیرودی، تحلیل عملکرد جنبش حوثی‌ہای یمن بر اساس رویکرد جابری، 1400ہجری شمسی، ص173۔
  69. شیرودی، تحلیل عملکرد جنبش حوثی‌ہای یمن بر اساس رویکرد جابری، 1400ہجری شمسی، ص172۔

مآخذ

  • ابن اعثم کوفی، احمد، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، چاپ اول، 1411ھ۔
  • ابن حائک، حسن بن احمد، الإکلیل من أخبار الیمن و أنساب حمیر، صنعا، وزارہ الثقافہ و السیاحہ، 1425ھ۔
  • ابن حائک، حسن بن احمد، صفۃ جزیرۃ العرب، صنعا، مکتبہ الارشاد، 1410ھ۔
  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، أسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دارالفکر، 1409ھ۔
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1410ھ۔
  • ابن‌عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، 1412ھ۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق سید احمد صقر، بیروت، دارالمعرفۃ، بی‌تا۔
  • اشرفی، جمال، نگاہی بہ پیشینہ جنبش اسلامی در یمن، نشریہ پژوہش‌ہای منطقہ‌ای، شمارہ 2، زمستان 1392ہجری شمسی۔
  • براقی، حسین، تاریخ کوفہ، ترجمہ سعید راد رحیمی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1381ہجری شمسی۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، 1417ھ۔
  • ثقفی کوفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، تحقیق جلال الدین حسینی ارموی، تہران، انجمن آثار ملی، 1353ہجری شمسی۔
  • جعیط، ہشام، نشأۃ المدینۃ العربیۃ الإسلامیۃ: الکوفۃ، بیروت، دارالطلیعہ للطباعۃ و النشر، چاپ سوم، 2005ء۔
  • حجری یمانی، محمد بن احمد، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، صنعا، دارالحکمہ الیمانیہ، چاپ دوم، 1416ھ۔
  • خاکرند، حسن، نگاہی کوتاہ بہ نہضت حوثی‌ہا در یمن، مجلہ فرہنگ اسلامی، شمارہ10، اردیبہشت 1393ہجری شمسی۔
  • دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر، قم، منشورات الرضی، 1368ہجری شمسی۔
  • رازی، احمد بن عبداللہ، تاریخ مدینۃ صنعاء للرازی و کتاب الاختصاص للعرشانی، دمشھ، دارالفکر، چاپ سوم، 1409ھ۔
  • زرکلی، خیرالدین، زرکلی، الأعلام، بیروت، دارالعلم للملایین، چاپ ہشتم، 1989ء۔
  • سقاف، عبدالرحمن بن عبیداللہ، إدام القوت فی ذکر بلدان حضرموت، بیروت، دارالمنہاج، 1425ھ۔
  • شوشتری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الجمل و النصرۃ لسید العترۃ فی حرب البصرۃ، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • شیرودی، مرتضی، مجتبی سلطانی و محمدتقی آقایی، تحلیل عملکرد جنبش حوثی‌ہای یمن بر اساس رویکرد جابری، شمارہ 33، بہار و تابستان 1400۔
  • طباطبایی، سیدمحمد، حوثیان یمن، پیشینہ و رویکردہای کلامی و سیاسی، تہران، انتشارات دانشگاہ ادیان و مذاہب، 1395ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، 1387ھ۔
  • علی، جواد، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بغداد، مکتبۃ النہضۃ، 1391ہجری شمسی۔
  • عمارہ یمنی، عمارہ بن علی، تاریخ الیمن-المختصر المنقول من کتاب العبر-اخبار القرامطہ بالیمن، صنعا، مکتبہ الارشاد، 1425ھ۔
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، رحلی، بی‌نا، بی‌جا، بی‌تا۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دارالہجرۃ، 1409ھ۔
  • معصومی جشنی، قبیلہ ہمدان و نقش آن در تاریخ اسلام و تشیع، اصفہان، دانشگاہ اصفہان، 1386ہجری شمسی۔
  • منتظرالقائم، اصغر، نقش قبایل یمنی در حمایت از اہل‌بیتؑ، (قرن اول ہجری)، قم، بوستان کتاب، 1396ہجری شمسی۔
  • منتظرالقائم، اصغر، نقش قبیلہ ہمدان در تاریخ اسلام و تشیع، قم، پژوہشگاہ، حوزہ و دانشگاہ، 1385ہجری شمسی۔
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، القاہرۃ، المؤسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، چاپ دوم، 1382ھ۔
  • یاقوت حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت،دار صادر، چاپ دوم، 1995ء۔