حَسّان بن ثابِت ظہور اسلام سے پہلے اور صدر اسلام کے نامور شعراء میں سے تھے۔ انہیں صحابہ رسول خدا (ص) میں شمار کیا جاتا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) کے دفاع اور اسلام دشمنوں کے طعنوں کے جواب میں اشعار بھی کہے ہیں۔ البتہ انہوں نے صدر اسلام کے کسی بھی غزوات میں شرکت نہیں کی۔

حَسّان بن ثابِت
کوائف
مکمل نامحَسّان بن ثابِت
کنیتابو الولید، ابو الحُسام، ابو عبدالرحمان اور ابو المضرّب
مہاجر/انصارانصار
نسبقبیلہ خزرج اور بنی‌ نجار کے طائفہ سے
تاریخ وفات40 تا 54 ھ
دینی خدمات
اسلام لاناپیغمبر اکرم کی مدینہ ہجرت کے بعد اسلام لائے
دیگر کارنامےامیرالمؤمنین علی(ع) کی بیعت نہ کرنا
آثاردیوان شعر

تاریخی منابع کے مطابق حسان نے امام علی(ع) کے خلافت پر پہنچنے کے بعد آپ کی بیعت سے انکار کیا۔

تاریخی واقعات اور پیغمبر اکرم (ص) کے دفاع میں ان کے بے مثال اشعار موجود ہیں۔ تاریخی حوادث کی منظر کشی اور اشعار کی کثیر تعداد ان کے اشعار کی وجوہ امتیاز میں سے ہے۔

واقعہ غدیر کی توصیف میں حسان بن ثابت کے اشعار






ینادیهم یوم الغدیر نبیهمبخم و أسمع بالرسول منادیا
فقال فمن مولاکم و ولیکمفقالوا و لم یبدوا هناک التعادیا
إلهک مولانا و أنت ولیناو لم‌تر منا فی المقالة عاصیا
فقال له قم یا علی فإننیرضیتک من بعدی إماما و هادیا
فمن کنت مولاه فهذا ولیهفکونوا له أنصار صدق موالیا
هناک دعا اللهم وال ولیهو کن للذی عادی علیا معادیا

پیغمبر خدا (ص) نے غدیر کے دن اصحاب کو ندا دی، اور یہ کس قدر با اہمیت ندا تھی۔ آپ (ص) نے فرمایا: تمہارا مولا اور سرپرست کون ہے؟ اصحاب نے بے ساختہ کہا: آپ کا خدا ہمارا مولا اور آپ ہمارے سرپرست ہیں۔ ہم کبھی آپ کے حکم کی مخالفت نہیں کرینگے۔ اس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: اٹھو میں نے تمہیں انتخاب کیا تاکہ تم میرے بعد ان کا امام اور رہبر ہو۔ اس کے بعد فرمایا جس جس کا میں مولا اور رہبر ہوں یہ علی اس کا مولا اور رہبر ہوگا، پس تم سب صدق دل سے ان کی پیروی کرو۔ بارالہا ان کو دوست رکھنے والوں کو دوست اور ان سے دشمنی رکھنے والوں کو دشمن قرار دیں۔

سید رضی، ص۴۳

کنیت

ان کی کنیت‌ ابو الولید، ابو الحُسام، ابو عبدالرحمان اور ابو المضرّب تھا۔[1] انہیں حُسام نیز کہا جاتا تھا[2]

ظہور اسلام سے پہلے

حسان یمنی‌الاصل تھے۔ وہ پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت با سعادت سے چند سال پہلے (عام الفیل)[3] کو مدینہ میں پیدا ہوا اور وہیں پر نشو نما پائی۔[4] قبیلہ خزرج اور بنی‌ نجار کے طائفے سے ان کا تعلق اور پیغمبر اکرم (ص) کے رشتہ دار تھے۔[5] ان کے والد ثابت اور دادا مُنذِر بن حَرام، قوم خزرج کے بزرگوں میں سے تھے۔[6] ان کی ماں فُرَیعۃ، نیز اسی قبیلہ سے تھی اور ہجرت کے بعد اسلام لے آیا۔[7] حسّان کو ابن‌ فُرَیعہ نیز کہا جاتا تھا۔[8]

ظہور اسلام سے پہلے حسّان غَسّانیان (منطقہ شام کے حکمران) اور پادشاہان حیرہ (عراق کا ایک علاقہ) کے دربار میں رفت و آمد رکھتے تھے اور ان کی مدح و سرائی کرکے ان سے تحائف لیتے تھے اور یہ کام ان کی زندگی کی آخر تک جاری رہا۔[9] وہ عمر کے آخری سالوں میں نابینا ہوگئے تھے۔[10]

پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں

حسّان یہودی تھے لیکن پیغمبر اکرم (ص) کی مدینہ ہجرت کے بعد اسلام قبول کیا۔ اسلام لاتے وقت ان کی عمر 60 سال بتائی جاتی ہے۔[11] "بروکلمان"،[12] نے اس وقت ان کی عمر 60 سال سے کم قرار دیا ہے۔

غزوات میں غیر حاضری

حسّان جنگ و جدال کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ اس پر ترس کا غلبہ تھا یوں انہوں نے کسی بھی غزوات میں شرکت نہیں کی۔[13] لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو شیر کی طرح تصور کر رکھا تھا اور اپنی شجاعت کے جوہر ان کے اشعار میں نمایاں نظر آتے تھے جو پبغمبر اکرم (ص) کی تبسم کا باعث ہوا کرتے تھے۔[14]

اسلام کے دفاع و دشمنان اسلام کی ہجو میں ان کے اشعار

حسّان قوت بیان کے مالک تھے اور اشعار کے اسلام دشمنوں کے طعنوں کا جواب اور پیغمبر اکرم (ع) کے دفاع کرنے کی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور آپ کیلئے مایہ آرامش و سکون ہوا کرتے تھے۔[15] ان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ان کی تائید کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ حسان فرشتہ وحی کا مورد توجہ قرار پاتا ہے۔[16]

مشرکین قریش کے طعنوں کے سبب انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے حکم سے قریش اور ان کی نسل سے متعلق معلومات ابوبکر سے حاصل کی تھیں اور بغیر اس کے کہ پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کا خاندان پاک پر کوئی حرف آئے بغیر ایسے اشعار پڑھا کرتے تھے کہ مورد تحسین رسول خدا قرار پاتے تھے جو ہر سننے والے کو اپنی طرف جذب کرتے اور قریش کو مبہوت کر دیتے تھے۔[17]

جب بنی‌ تمیم نے پیغمبراسلام (ص) کی مخالفت کرنا شروع کی اور اپنے آپ پر فخر و مباہات کرنے لگے تو اس وقت حسان نے رسول اکرم (ص) کا اس طرح دفاع کیا کہ وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔[18]

داستان افک

واقعہ اِفْک میں حسّان بھی مورد مؤاخذہ قرار پائے لیکن انہوں نے عائشہ کی مدح سرائی اور پیغمبر اکرم (ص) اور اسلام کے ساتھ اپنی وابستگی کو بیان کرکے پیغمبر اکرم (ص) اور عائشہ سے معذرت خواہی کی؛[19]

حسان کے حق میں پیغمبر اکرم(ص) کی دعا

رسول خدا (ص) نے حسان کے بارے میں فرمایا: اللهم ایده بروح القدس[20] خدایا انہیں روح القدس کا مورد تائید قرار دے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے مشروط طور پر ان کے حق میں دعا کی تھی؛ کیونکہ اکثر دانشوروں کا خیال ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ان کے بارے میں فرمایا: اے حسان جب تک تم ہمارا دفاع کرتے رہو گے روح القدس کے مورد تائید قرار پاوں گے۔[21] البتہ یہ دعا مختلف صورتوں میں بیان ہوئی ہے اور ایک جگہ پر پیغمبر اکرم (ص) نے حسان کے بارے میں فرمایا: اللهم ایده بروح القدس لمناضلته عن المسلمین،[22] خدایا مسلمانوں کا دفاع کرنے کے صلے میں روح القدس کے ذریعے حسان کی تائید فرما۔ ایک اور نقل میں آیا ہے: إن اللّہ یؤید حسان بروح القدس ما نافح عن رسول اللّہ[23] خداوند عالم حسان کی حمایت کرے اور روح القدس کے ذریعے اس کی تائید کرے جب تک وہ رسول خدا کی مدد کرتا رہے۔

حسان اور عثمان کے پیروکار

عثمان بن عفان کے انتقام لینے کے واقعے میں حسّان عثمان کے پیروکاروں کے ساتھ شامل ہو گئے۔[24] اگرچہ عثمان کی حمایت اور ان کے قاتلوں کے خلاف کچھ اشعار کی نسبت حسان کی طرف دی گئی ہے لیکن یہ کوئی معتبر نہیں ہے۔[25] شوقی‌ ضیف[26] نے ان اشعار کو بنی امیہ کی من گھڑت قرار دیا ہے۔

امام علی (ع) کی بیعت نہ کرنا

امام علی(ع) کے خلافت پر پہنچنے کے بعد بعض افراد نے آپ کی بیعت سے انکار کیا، حسان بن ثابت منجملہ ان افراد میں سے تھے۔[27] شیخ مفید لکھتے ہیں: ایک گروہ نے امام علی (ع) کی بیعت کرنے سے انکار کیا جیسے عبداللَّہ بن عمر بن خطاب، سعد وقاص، محمد بن مسلمۃ، حسان بن ثابت اور اسامۃ بن زید۔ حضرت علی (ع) نے ان کی بیعت کرنے سے انکار کرنے کے بعد ایک تقریر کی۔ آپ(ع) نے اس تقریر میں فرمایا: "... سعد، مسلمۃ، اسامۃ، عبداللَّہ اور حسان کی جانب سے ایسی خبر مجھ تک پہچی ہے کہ جسے میں پسند نہیں کرتا ہوں میں اس معاملے میں خداوند عالم کو ہمارے درمیان حکم قرار دیتا ہوں۔"[28]

وفات

حسّان نے 100 سال سے بھی زیادہ زندگی گزاری یوں وہ سب سے معمّرینِ مُخَضرَم (وہ شخص جس نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ دور جاہلیت اور کچھ حصہ اسلام میں گزارا ہو) شمار ہوتا ہے جس نے اپنی زندگی کا تقریبا نصف حصہ پیغمبر اکرم (ص) کی مدینہ ہجرت کے بعد مدینے میں گزاری۔[29] ان کی تاریخ وفات سنہ 40 سے 54 ھ کے درمیان نقل ہوئی ہے۔ [30]

شاعری میں حسان بن ثابت کا مقام

حسّان کو عرب کے شہرنشین شعراء میں سب سے زیادہ معروف شعراء جانا جاتا ہے،[31] جن کی شاعری میں نشاط اور تازگی پائی جاتی تھی۔[32] انہوں نے اپنی پوری زندگی میں چاہے اسلام سے پہلے کی ہو یا اسلام لانے کے بعد کی، اس برتری کو محفوظ رکھا[33] لیکن اصمعی[34] کی نظر میں حسان کے اشعار اسلامی دور حکومت میں ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف چلا گیا۔

حسّان کوئی ممتاز اشعار ہیں۔[35] دورہ جاہلیت میں ان کے سب سے ممتاز شعر "مدح ملوک غَسّان ہے۔ [36] ان کا شمار اصحاب مُذَہبات (ایسے شعراء جن کے اشعار سونے کے پانی سے لکھے جاتے تھے) میں ہوتا تھا[37] لیکن اس کے باوجود بازار عکاظ میں پیش کردہ ان کے اشعار "اعشی" اور "خَنساء" کے اشعار کے مقابلے میں خاص شہرت حاصل نہ کر سکا اور "حُطَیئہ" کی نظر میں بھی ان کی شاعری مطلوبہ مقام حاصل نہ کر سکی۔[38]

دیوان حسان ثابت

اکثر راویوں منجملہ ابن‌ حبیب (متوفی 238 ھ) نے حسان بن ثابت کے اشعار کو نقل کرتے ہوئے ان کے شعری مجموعے کو مرتب کرنے اور ان کی تشریح کی کوشش کی ہے۔[39]

جس مقدار میں اشعار کی نسبت حسان بن ثابت کی طرف دی گئی ہے اتنی کسی اور شاعر کی طرف نسبت نہیں دی گئی ہے اور احتمال دیا جاتا ہے کہ ان اشعار کی زیادہ تعداد کو قریش نے ان کی طرف نسبت دی ہے۔[40] یہ بھی احتمال دیا جاتا ہے کہ ان سے منسوب اکثر اشعار ان کے بیٹے "عبدالرحمان" اور بعض دیگر شعراء خاص کر کعب‌ بن مالک انصاری اور عبد اللہ بن رواحہ کے اشعار سے مخلوط ہو گئی ہے۔[41]

حسان کے اشعار کی اہمیت کی وجوہات

تاریخی واقعات کی طرف اشارہ

حسّان کے اشعار میں تاریخی واقعات خصوصا پیغمبر(ص) کی سیرت اور آپ کے غزوات کی طرف اشارہ پائے جانے کی وجہ سے ان اشعار کی اہمیت میں دوچنداں اضافہ ہوتا ہے اور انہیں تاریخ صدر اسلام کے موثق مآخذ میں شمار کیا جاتا ہے۔[42]

غدیر خم کے بارے میں ان کے اشعار تاریخ اسلام میں پہلے غدیریہ کے نام سے پہچانی ہے۔[43]

پیغمبر اکرم(ص) کا دفاع

پیغمبر اکرم(ص) کا دفاع ان کی شاعری کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے انہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کی مدح و سرائی میں الفاظ اور تعبیرات کے استعمال میں ایک نئی روش اپنایا جس کی مثال دور جاہلیت میں کہیں نہیں ملتی ہے۔ اسی بنا پر مدح سرائی میں انہیں صاحب سبک و روش سمجھا جاتا تھا۔ [44]

منظر کشی

ان کے اشعار میں مدح، فخر اور طعنہ زنی کے علاوہ مرثیہ بھی موجود ہوتا تھا۔[45] فروخ کے مطابق [46] پیمغبر اکرم(ص) کی مدح سرائی میں علم صنائع و بدائع کے استعمال کرنے کی وجہ سے ممکن ہے انہیں سب سے پہلے اس علم کو استعمال کرنے والا شمار کیا جائے۔

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ابن‌ سلام جمحی، طبقات فحول‌ الشعراء، ص۲۰۳؛ ابن‌ قتیبہ، الشعر والشعراء، ج۱، ص۳۰۵؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۱۲، ص۳۷۸؛ ابن‌ حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۲، ص۶۳.
  2. رجوع کنید بہ ابن ‌سلام جمحی، طبقات فحول ‌الشعراء، ص۸۹؛ آمدی، المؤتلف و المختلف، ص۸۹.
  3. ابو الفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۳۵ـ۱۳۶.
  4. بستانی، ادباء العرب، ج۱، ص۲۷۲؛ بروکلمان، تاریخ الادب‌ العربی، ج۱، ص۱۵۲.
  5. ابن‌ سلام جمحی، طبقات فحول ‌الشعراء، ص۱۷۹؛ شوقی ‌ضیف، تاریخ الادب ‌العربی، ج۲، ص۷۷.
  6. رجوع کنید بہ ابن ‌سلام جمحی، طبقات فحول ‌الشعراء، ص۱۸۰.
  7. ابن‌ قتیبہ، الشعر والشعراء، ج۱، ص۳۰۵، ابن‌ حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۲، ص۶۳.
  8. رجوع کنید بہ ابوالفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۴۴؛ آمدی، المؤتلف و المختلف، ص۱۶۵.
  9. ابن ‌سلام جمحی، طبقات فحول‌ الشعراء، ص۱۸۱؛ ابن‌ قتیبہ، الشعر والشعراء، ج۱، ص۱۵۹، ۱۶۴ـ۱۶۵، ۳۰۵ـ۳۰۶.
  10. ابن ‌قتیبہ، الشعر والشعراء، ج۱، ص۳۰۵.
  11. ابو الفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۳۵ـ۱۳۶.
  12. بروکلمان، تاریخ الادب‌العربی، ج۱، ص۱۵۲.
  13. ابن‌ قتیبہ، الشعر والشعراء، ج۱، ص۳۰۵؛ ابن‌ عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۱۲، ص۴۳۳؛ نیز رجوع کنید بہ ابوالفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۶۵ـ۱۶۶.
  14. رجوع کنید بہ ابوالفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۳۶، ۱۶۶ـ۱۶۷.
  15. ابن‌ سلام جمحی، طبقات فحول‌ الشعراء، ص۱۸۱؛ ابن ‌قتیبہ، الشعر والشعراء، ج۱، ص۳۰۵؛ ابو الفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۴۳، ۱۶۰ـ۱۶۱.
  16. رجوع کنید بہ ابن ‌سلام جمحی، طبقات فحول ‌الشعراء، ص۱۸۱؛ ابو الفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۳۸، ۱۴۲؛ مفید، الارشاد، ص۹۵.
  17. رجوع کنید بہ ابن ‌سلام جمحی، طبقات فحول ‌الشعراء، ص۱۸۰ـ۱۸۱؛ ابوالفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۳۷ـ۱۴۰، حسّان‌ بن ثابت، ج۱، ص۱۷ـ۱۸.
  18. رجوع کنید بہ ابوالفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۴۶ـ۱۵۱.
  19. ابوالفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۵۶، ۱۶۱ـ۱۶۲؛ مفید، الجَمَل والنُصرۃ، ص۲۱۷ـ۲۱۹؛ قس: ابوالفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۵۷ـ۱۶۰ دوسروں سے نقل کرتے ہوئے جہاں پر لکھا گیا ہے کہ یہ مؤاخذہ حسان بن ثابت کی طرف سے تازہ مسلمان ہونے والے بعض مسلمانوں کے اوپر حسان کے اعتراض کی وجہ سے تھا۔
  20. ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۲،ص.۵۵
  21. طبرسی، مجمع البیان،ج۲۰،ص۴۳۳.
  22. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۱، ص۳۴۵.
  23. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۱، ص۴۸۲.
  24. طبری، سلسلہ۱، ص۳۲۴۵.
  25. بروکلمان، تاریخ الادب‌ العربی، ج۱، ص۱۵۳؛ مفید، الجمل و النصرۃ،ص ۲۱۷ـ۲۱۹.
  26. شوقی ضیف، تاریخ الادب‌ العربی، ج۲، ص۸۱.
  27. ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۲، ص۵۵.
  28. شیخ مفید، الارشاد، ج۱، ص۲۳۷.
  29. ابوالفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۳۵.
  30. ابن‌ قتیبہ، الشعر والشعراء، ج۱، ص۳۰۵؛ ابن‌ عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۱۲، ص۳۸۰، ۴۳۴.
  31. اصمعی، کتاب فحولۃ الشعراء، ص۱۱، ۱۹؛ ابن ‌سلام جمحی، طبقات فحول‌ الشعراء، ص۱۷۹؛ ابوالفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۳۶ـ۱۳۷.
  32. رجوع کنید بہ ابن‌ قتیبہ، الشعر والشعراء، ص۳۰۵.
  33. ابوالفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۳۶.
  34. بہ نقلِ ابن‌قتیبہ، الشعر والشعراء، ص۳۰۵.
  35. ابن‌ سلام جمحی، طبقات فحول‌ الشعراء، ص۱۷۹.
  36. ابن ‌سلام جمحی، طبقات فحول‌ الشعراء، ص۱۸۱؛ ابن‌ قتیبہ، الشعر والشعراء، ص۳۰۵.
  37. بستانی، ادباءالعرب، ج۱، ص۲۷۵.
  38. رجوع کنید بہ ابوالفرج اصفہانی، ج۴، ص۱۶۷، ج۹، ص۳۴۰.
  39. بروکلمان، تاریخ الادب‌العربی، ج۱، ص۱۵۳ـ۱۵۵؛ سزگین، تاریخ التراث‌ العربی، ج۲، جزء۲، ص۳۱۴ـ۳۱۶.
  40. ابن ‌سلام جمحی، طبقات فحول ‌الشعراء، ص۱۷۹، ۱۸۳.
  41. شوقی ضیف، تاریخ الادب‌ العربی، ص۸۰؛ ابن‌ قتیبہ، الشعر والشعراء، ج۱، ص۳۰۷ـ۳۰۸؛ حسّان ‌بن ثابت، دیوان، ج۱، ص۱۶۶، ۲۵۰، ۴۸۲، توضیح ولید عرفات.
  42. بستانی، ادباء العرب، ج۱، ص۲۷۸؛ حسّان ‌بن ثابت، دیوان، ج۱، ص۲۹ـ۳۰، ۶۷ـ۶۸، ۸۵ـ۸۶.
  43. امینی، الغدیر، ج۲، ص۶۵؛ سُلیم ‌بن قیس ہلالی، کتاب سُلیم‌ بن قیس الہلالی، ج۲، ص۸۲۸ـ۸۲۹؛ مفید، الجمل والنصرۃ، ص۲۲۰ـ۲۲۲.
  44. بستانی، ادباء العرب، ج۱، ص۲۷۸، ۲۸۱.
  45. سزگین، تاریخ التراث ‌العربی، ج۲، جزء۲، ص۳۱۲.
  46. فروخ، تاریخ الادب‌ العربی، ج۱، ص۳۲۶.

مآخذ

  • حسن ‌بن بشر آمدی، المؤتلف و المختلف فی اسماء الشعراء و کناہم و القابہم و انسابہم و بعض شعرہم، در محمد بن عمران مرزبانی، معجم ‌الشعراء، چاپ ف.کرنکو، بیروت، ۱۴۰۲/۱۹۸۲.
  • ابن اثیر، اسد الغابہ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹.
  • ابن‌ حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، چاپ علی‌ محمد بجاوی، بیروت، ۱۴۱۲/ ۱۹۹۲.
  • ابن ‌سلام جمحی، طبقات فحول‌ الشعراء، چاپ محمود محمد شاکر، (قاہرہ ۱۹۵۲).
  • ابن عبدالبر، الاستیعاب، بیروت، ‌دار الجیل، اول، ۱۴۱۲.
  • ابن‌ عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت، ۱۴۱۵ـ ۱۴۲۱/ ۱۹۹۵ ـ۲۰۰۱.
  • ابن ‌قتیبہ، الشعر والشعراء، چاپ احمد محمد شاکر، (قاہرہ) ۱۳۸۶ـ۱۳۸۷/ ۱۹۶۶ ـ۱۹۶۷.
  • ابوالفرج اصفہانی.
  • عبدالملک‌بن قریب اصمعی، کتاب فحولۃ الشعراء، چاپ چارلز تورّی، بیروت، ۱۴۰۰/۱۹۸۰.
  • عبدالحسین امینی، الغدیر فی الکتاب والسنۃ و الادب، قم، ۱۴۱۶ـ۱۴۲۲/ ۱۹۹۵ـ۲۰۰۲.
  • کارل بروکلمان، تاریخ الادب‌العربی، ج۱، نقلہ الی‌العربیۃ عبدالحلیم نجار، قاہرہ، ۱۹۷۴.
  • بطرس بستانی، ادباء العرب، بیروت، ۱۹۸۸ـ۱۹۹۰.
  • حسّان ‌بن ثابت، دیوان، چاپ ولید عرفات، لندن، ۱۹۷۱.
  • فؤاد سزگین، تاریخ التراث ‌العربی، ج ۲، جزء۲، نقلہ الی ‌العربیۃ محمود فہمی حجازی، (ریاض) ۱۴۰۳/۱۹۸۳، چاپ افست قم، ۱۴۱۲.
  • سُلیم ‌بن قیس ہلالی، کتاب سُلیم‌بن قیس الہلالی، چاپ محمد باقر انصاری زنجانی، قم، ۱۳۸۴ش.
  • شوقی ضیف، تاریخ الادب‌العربی، ج ۲، قاہرہ، ۱۹۷۲.
  • طبری، تاریخ (لیدن).
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ترجمہ مترجمان، تہران، فراہانی، ۱۳۶۰.
  • عمر فروّخ، تاریخ الادب‌ العربی، ج۱، بیروت، ۱۹۸۴.
  • محمد بن محمد مفید، الارشاد، ترجمہ رسولی محلاتی، تہران، اسلامیہ، دوم، بی‌تا.
  • ہمو، الجَمَل و النُصرۃ لسید العترۃ فی حرب البصرۃ، چاپ علی میر شریفی، قم، ۱۳۷۴ش.