فرات
فرات،(یعنی صاف پانی [1]) یہ دریا ترکی سے شروع ہوتا ہے پھر شام اور عراق سے ہوتا ہوا خلیج فارس تک پہنچ جاتا ہے۔ واقعہ کربلا اسی دریا کے کنارے پیش آیا۔ روایات میں اس دریا کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
جغرافیائی محل وقوع
اس دریا کی لمبائی تقریباً 2900 کیلو میٹر ہے اور ترکی کے مشرقی حصے سے شروع ہو کر عراق اور شام سے گزرتا ہے۔ فرات اور دجلہ دونوں ایک دوسرے کے متوازی ہیں۔ یہ دونوں دریا خلیج فارس کے نزدیک ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور اس کے بعد سے اسے شط العرب کہتے ہیں۔ اسی طرح دریائے کارون کے اضافہ ہونے کے بعد یہ دریا، دریائے اروند کے نام سے مشہور ہو گیا۔ یہی دریا ایران اور عراق کا بارڈر ہے۔ یہ دریا مختلف شہروں جیسے، دیرالزور، رقہ، المیادین، حدیثہ، ہیت، رمادی، فلوجہ، کوفہ اور ناصریہ سے گزرتا ہے۔ فرات اور دجلہ کی وجہ سے اس علاقے کی سرزمین زرخیز ہے اور یہ زمین بین النہرین کے نام سے مشہور ہے۔ یہ سر زمین انسانی تہذیب کا مرکز رہی ہے طول تاریخ میں مختلف تہذیبوں کو اس سر زمین میں ترقی حاصل ہوئی ہے، مثال کے طور پر، بابل کے قدیمی دارالخلافہ کی بنا اسی دریائے فرات کے ساحل پر رکھی گئی۔ [2]
روایات میں فرات کا تذکرہ
بعض روایات کے مطابق فرات ایک مقدس اور بافضیلت دریا ہے جس میں بہشت کا پانی گرتا ہے اور ایک بابرکت دریا ہے اور اگر نومولود بچے کے منہ میں آب فرات ڈالا جائے تو اس کے دل میں محبت اہل بیتؑ آ جاتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ فرات، حضرت زہراءؑ کا حق مہر تھا۔ [3] ایک اور روایت میں فرات کو مومن اور بہشتی دریا کہا گیا ہے۔ [4] مستحب ہے کہ امام حسینؑ کی زیارت سے پہلے دریا فرات کے پانی سے غسل کیا جائے کیونکہ یہ گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ [5] اور آب فرات پینا بھی اچھا ہے۔
آخرالزمان میں فرات
ابراہیم بن محمد بن جعفر اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ امام صادقؑ فرماتے ہیں: فتح کے سال (امام زمان(عج) کے قیام کے وقت) فرات میں طوفان آئے گا اور اس کا پانی کوفہ کے گلی کوچوں میں بہنے لگے گا۔ [6]
واقعہ عاشورا میں فرات کا تذکرہ
واقعہ عاشورا دریائے فرات سے نکالی گئی ایک نہر کے کنارے پیش آیا جسے نہر علقمہ کہا جاتا ہے۔ سنہ 61 ہجری، محرم کے مہینے میں عبیداللہ بن زیاد کی فوج نے امام حسینؑ اور آپکے ساتھیوں کو جو کوفہ جا رہے تھے کربلا کی سرزمین پر ان کا محاصرہ کیا۔ انہوں نے امام حسینؑ اور آپکے لشکر پر پانی بند کر دیا۔ دشمن، امام حسینؑ پر پانی بند کر کے انہیں یزید کی بیعت پر مجبور کرنا چاہتا تھا لیکن امام حسینؑ ہر گز تسلیم نہ ہوئے۔
عباس بن علیؑ جو کہ پیاسے بچوں کے لئے پانی لینے گئے، دریا فرات کے کنارے آپ کے بازو قلم کئے گئے اور شہید کیا گیا۔ شیعہ تہذیب میں آب فرات بھی خاک کربلا کی طرح واقعہ عاشورا کا حصہ ہے۔ اسی لئے نومولود بچے کے منہ میں تبرک کے طور پر خاک کربلا یا آب فرات ڈالتے ہیں۔
حوالہ جات
مآخذ
- نیشابوری، فتال، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، مہدوی دامغانی، محمود، نشر نی، تہران، ۱۳۶۶ش.
- الکلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۸ق.
- ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، تصحیح عبد الحسین امینی، نجف، مطبعہ المرتضوی.
- طبرسی، فضل بن حسن، زندگانی چہاردہ معصوم علیہم السلام ترجمہ کتاب إعلام الوری بأعلام الہدی، ترجمہ عطاردی قوچانی، عزیز اللہ، تہران، انتشارات اسلامیہ.
- محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، قم، نشر معروف، ۱۳۷۶ش.