واقعہ حکمیت

ویکی شیعہ سے
(حکمیت سے رجوع مکرر)

حَکَمیّت جنگ صفین سے متعلق ایک تلخ تاریخی واقعہ ہے۔ اس واقعہ میں کوفہ والوں (امام علی ؑ کے لشکر) کی طرف سے ابو موسی اشعری اور شام والوں (معاویہ کے لشکر) کی طرف سے عمرو عاص نے باہمی گفتگو کے بعد مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور جنگ کے خاتمے کیلئے قرآن کے مطابق حکم کرنے کا فیصلہ کیا۔

جنگ صفین میں شام کے لشکر کی شکست کے آثار نمودار ہونے کے بعد معاویہ اور عمرو عاص نے شکست سے بچنے کے لئے مکر و فریب کا سہارا لیتے ہوئے حکمیت کی درخواست کی۔ امام علی ؑ نے شروع سے اس کی مخالفت کی لیکن آپ کے لشکر میں موجود چند سادہ لوح افراد نے عمرو عاص کے دھوکے میں آکر اسے قبول کرنے پر اصرار کیا یہاں تک کہ قبول نہ کرنے کی صورت میں امام ؑ کو جان سے مار دینے کی دھمکی بھی دی گئی۔ آخر کار عمرو عاص کی مکاری رنگ لائی اور اس نے ابو موسی اشعری کو دھوکہ دے کر طے شدہ قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معاویہ کو خلافت کا حقدار بنا دیا۔ یوں حکمیت کی داستان امام علی ؑ کے لشکر میں بغاوت اور شامیوں کو حتمی شکست سے نجات دلانے کے ساتھ ختم ہوئی۔

پس منظر

37ھ میں امام علی ؑ اور معاویہ کے درمیان صفین کے مقام پر جنگ شروع ہوئی۔ دونوں لشکر کے درمیان کئی روز تک سخت معرکہ آرائی کے بعد شامیوں میں شکست کے آثار نمودار ہونے لگے۔ ایسے میں معاویہ نے ہمیشہ کی طرح عمرو عاص سے کسی چارہ جوئی اور مکاری کی درخواست کی۔[1] یوں عمرو عاص کے حکم پر شامیوں نے قرآن‌‏ کو نیزوں پر بلند کیا اور یہ نعرہ لگانا شروع کیا کہ اے اہل عراق! ہمارے درمیان قرآن، خدا کی کتاب حاکم ہے۔ اسی طرح وہ یہ نعرہ بھی بلند کر رہے تھے کہ اے عربو! اپنی بیٹیوں اور بیویوں کی فکر کرو اگر آج تم مارے جاؤگے تو کل رومیوں، ترکوں اور ایرانیوں کے ساتھ کون لڑیں گے؟![2]

امام علیؑ کی فوج میں بغاوت

جب عمرو عاص نے حیلہ بازی اور مکر و فریب سے قرآن کو نیزوں پر بلند کیا تو امام علیؑ کی فوج دو گروہ میں تقسیم ہو گئی اور ایک گروہ یہ کہنے لگی کہ دشمن نے قرآن کی حکمیت کو قبول کیا ہے اب ہمیں جنگ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ امام علیؑ نے سختی سے ان کی باتوں کی مخالفت کی اور فرمایا یہ عمرو عاص کی فریب کاری اور دھوکہ دھی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن امام کی فوج میں شامل چند سادہ لوح افراد منجملہ اشعث بن قیس اور اس کے خاندان کے اصرار پر امامؑ نے مجبور ہو کر ایک خط کے ضمن میں معاویہ سے یوں خطاب کرتے ہوئے کہ "ہم جانتے ہیں تم قرآن کے احکام پر عمل کرنے والے نہیں ہو، حکمیت کو قبول فرمایا۔[3]

حکمیت کیلئے نمائندوں کی تعیین

اہل شام نے عمرو بن عاص کو حکمیت کیلئے اپنا نمائندہ مقرر کیا۔ جبکہ امام کی فوج میں نمائندہ تعیین کرنے کے حوالے سے شدید اختلاف پیدا ہوا۔ اشعث اور کئی دوسرے افراد جو بعد میں مارقین میں شامل ہو گئے، نے ابو موسی اشعری کو معرفی کیا جبکہ امام علیؑ نے ابن عباس یا مالک اشتر کو معرفی فرمایا جسے اشعث اور اسکے حامیوں نے قبول نہیں کیا۔ مالک اشتر کو جنگ کا عقیدہ رکھنے کے بہانے سے جبکہ ابن عباس کو اس بہانے سے قبول نہیں کیا کہ چونکہ عمرو عاص قبیلہ مُضَری‏‌ سے ہے پس اس کے مقابلے میں ایک یمنی قبیلہ سے تعلق رکھنے والا شخص جانا چاہئے۔[4]

حکمیت کا خاکہ

دونوں لشکروں سے نمائندہ تعیین ہونے کے بعد معاویہ نے عمرو عاص، ابو الاعور سلمی اور بعض دیگر افراد کو مذاکرات اور حکمیت کے شرائط تعیین کرنے کیلئے امام علی ؑ کے ہاں بھیجا اور انہوں نے امام علی ؑ اور آپ کی فوج سے صلح نامہ کے مفاد کے حوالے سے مذاکرات انجام دیئے۔ یعقوبی کے مطابق صلح نامہ کے تدوین کے وقت امام علیؑ کو "امیرالمؤمنین" کا لقب دینے کے حوالے سے دونوں لشکر کے نمائندوں میں اختلاف پیدا ہوا یوں اشعث اور ان کے حامیوں نے آپؑ کے نام سے اس لقب کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ مالک اشتر نے سختی سے اس کام کی مخالفت کی۔[5]

حکمیت کی تاریخ ماہ رمضان کے آخر (یعنی آٹھ ماہ بعد ) تک موکول ہوا،[6] اور شہر دومۃ الجندل کو حکمیت کی جگہ تعیین کی گئی۔[7]

اس صلح نامہ میں شامل اہم نکات :

  • دونوں گروہ قرآن کے فیصلے کو قبول کرینگے اور ہر اختلافی موارد میں قرآن کی طرف رجوع کریں گے۔
  • امام علیؑ اور ان کی فوج نے ابوموسی اشعری کو جبکہ معاویہ اور اس کی فوج نے عمرو عاص کو اپنا نمائندہ منتخب کیا تھا۔
  • اگر کسی جگہ قرآن سے کوئی فیصلہ لینا ممکن نہ ہو تو پیغمبر اکرم ؐ کی سنت کی طرف مراجعہ کریں گے۔
  • اختلاف کا شکار نہ ہونگے اور ہوا و ہوس کی پیروی نہیں کریں گے۔
  • جب تک حق سے تجاوز نہ کرے دونوں نمائندوں کی جان، مال اور ناموس محترم ہیں۔
  • اگر نمائندوں میں سے ایک اپنا وظیفہ انجام دینے سے پہلے مر جائے تو متعلقہ فریق کا سرپرست کسی اور عادل نمائندہ کو اس کی جگہ انتخاب کرے گا۔
  • اگر دونوں گروہ کے سرپرست فیصلہ ہونے سے پہلے وفات کر جائے تو ان کے ماننے والے کی اور کو اس کی جگہ انتخاب کرے گا۔
  • اگر منتخب نمائندے اپنے وظیفے پر عمل نہ کرے تو امت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان کے فیصلے کو رد کر دے۔
  • حکمیت کا میثاق لکھنے کے بعد سے جب تک اس کی مدت ختم نہ ہو لوگوں کی جان، مال اور ناموس امن و امان میں ہونگے۔
  • صلح نامہ کے اختتام تک کوئی ہتھیار نہیں اٹھائیں گے اور راستے پر امن ہونگے اور اس معاملے میں اس واقعہ میں حاضر افراد اور غیر حاضرین میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔
  • دونوں نمائندوں پر ضروری ہے کہ عراق اور شام کے درمیان کسی جگہ پر مقیم ہوں اور صرف ان افراد کے جنہیں وہ طلب کریں کسی اور کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
  • اگر دونوں نمائندے کتاب خدا اور سنت پیغمبر ؐ کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو مسلمان جنگ جاری رکھیں گے اور دونوں گروہ کے درمیان کوئی پیمان نہیں ہے۔[8]

امام علیؑ کے اقدامات اور نصیحتیں

امام علی ؑ نے حکمیت کیلئے شریح بن ہانی کی سربراہی میں 400 افراد کو ابو موسی اشعری کے ساتھ بھیجا اور عبد اللہ بن عباس کو بعنوان امام جماعت بھیجا۔ اس کے علاوہ ابوموسی اشعری کو معاویہ کی حقیقت سے آگاہ کیا اور بہت ساری نصیحتیں کیں۔[9]

قاضی شریح منجملہ ان افراد میں سے تھا جنہوں نے ابوموسی کی ہشناری اور زیرکی سے متعلق متنبہ کیا۔ انہوں نے ابوموسی سے تاکید کیا کہ اگر مذاکرات کا نتیجہ حضرت علیؑ کے خلاف آجائے تو بھی شام والوں کو امان ہے لیکن اگر نتیجہ اس کے برعکس ہو تو عراق والے معاویہ کے شر سے امان میں نہیں رہیں گے۔[10] قاضی شریح نے مزید کہا: اے ابو موسی تمہارا مد مقابل ایک بدترین حریف ہے پس عراق کو ذلیل و رسوا مت کرو۔ خبردار کہیں حق شام والوں کو نہ بیٹھو اور ان کی حمایت کریں۔ خبردار کہیں عمروعاص تمہیں دهوکہ نہ دے بیٹھے۔ عمروعاص بہت مکار آدمی ہے جس سے عقل حیران رہ جاتی ہے۔ .... پس ابوسفیان کے بیٹے کو خلافت کے میدان میں بلا منازع اور بے عیب بادشاہ قرار مت دو۔[11] احنف بن قیس نے بھی ابوموسی اشعری کا ہاتھ تھام کر کہا: "اے ابو موسی! اس کام کی اہمّیت سے آگاہ ہو جاؤ! اور جان لو کہ اس کے نتائج بہت زیادہ ہیں۔ اگر تم نے عراق کو تباہ کیا تو پهر عراق کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔ اس نے ابوموسی کو تجویز دیا کہ کسی کام میں حتی سلام کرنے میں عمروعاص سے پہل مت کرو۔احنف نے مزید کہا: خبردار اگر عمروعاص نے عزت و احترام سے تمہیں مقام دیا تو یقین مت کرو کیونکہ یہ مکر و فریب ہے اور تنہائی میں کبھی بھی اس سے ملاقات مت کرو۔[12]

مذاکرات کا آغاز

دونوں نمائندوں نے یہ فیصلہ کیا کہ عمرو عاص، معاویہ کو اور ابوموسی، حضرت علیؑ کو خلافت سے عزل کریں گے اور خلیفہ کا انتخاب شوری کے سپرد کریں گے۔ عمرو عاص نے مذاکرات کے نتیجہ کے اعلان کرنے کیلئے ابوموسی کو خود پر مقدم کیا یوں ابوموسی نے حضرت علیؑ کو خلافت سے عزل کیا لیکن جب عمرو بن عاص کی باری آئی تو وہ معاویہ کو عزل کرنے کی بجائے حضرت علیؑ کو عزل کرنے کے ابوموسی کے فیصلے کی تأیید کی اور معاویہ کو خلافت پر منصوب کیا۔ اس کے بعد دونوں فریق کے درمیان جھگڑا فساد شروع ہو گیا اور ایک دوسرے کو ناسزا کہنے لگے۔[13]

حکمیت کا نتیجہ

ابوموسی اشعری نے حکمیت کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ معاویہ اور علیؑ دونوں کو خلافت سے برکنار کیا جائے اور ان میں سے کوئی ایک بھی خلیفہ نہ ہو۔ عمرو عاص نے بھی ـ بہ ظاہر ـ اس امر کو قبول کیا لیکن پہلے سے طے شدہ نقشے کے مطابق ابوموسی کو دھوکہ دیا اور نتیجہ سنانے کیلئے اسے اپنے اوپر مقدم کیا۔ ابن عباس نے عمرو عاص کے ذریعے پہلے نتیجے کا اعلان کروانے کیلئے کافی کوشش کیا لیکن اب وموسی نے ابن عباس کی تجاویز پر توجہ نہ دیا اور اس سے کہا میں اور عمروعاص نے موافت کی ہے۔ [14]

ابو موسی منبر کے اوپر چلا گیا اور کہا:‌ اے لوگو! مسلمانوں کو آرام سکون پہنچانے اور انہیں ان کے درمیان تفرقہ اور اختلاف کو ختم کرنے کیلئے میں اور عمرو عاص نے یہ توافق کیا ہے کہ حضرت علیؑ اور معاویہ دونوں کو خلافت سے برکنار کریں تاکہ مسلمان خود ایک شوری کو تشکیل دے کر کسی لایق اور با صلاحیت فرد کو اپنا خلیفہ منتخب کریں۔ لہذا میں ـ حجاز اور عراق کے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ـ جس طرح میں اپنی انگوٹھی کو میری انگلی سے اتار رہا ہوں اسی طرح علی ابن ابی طالب کو بھی خلاف سے برکنار کرتا ہوں۔ [15] یہ کہہ کر ابوموسی منبر سے نیچے آگیا اور عمرو عاص نے منبر پر جا کر یوں اعلان کیا: جو کچھ ابوموسی نے کہا وہ آپ لوگوں نے سنا۔ وہ صرف علی ابن ابی طالب کو خلافت سے برکنار کرنے کا حق رکھتا تھا اور اس کام میں میں بھی اس کی تائید کرتا ہوں لیکن میں جس طرح میری انگوٹھی کو میری انگی میں پہنا رہا ہوں اسی طرح معاویہ کو خلافت پر منصوب کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ نہ صرف اس منصب کیلئے لایق اور صلاحیت رکھتا ہے عثمان کے خون کا بدلہ لینے والا بھی ہے۔ اس موقع پر مجلس درہم برہم ہو گیا۔ ابوموسی عمرو عاص کے مکر و فریب پر حیران رہ گیا اور اس سے مخاطب ہو کر کہا: اے مکار فاسق! تم اس کتے کی طرح ہو کہ اسے چاہے مارے یا نہ مارے بھونکتا رہتا ہے۔[16] عمرو عاص نے بھی ابوموسی کو جواب میں کہا: تم بھی اس گدے کی مانند ہو جس پر کتابوں کا بار لادا گیا ہو۔[17] [18]

یوں قرآن و سنت پیغمبرؐ کا تذکرہ ہوئے بغیر حکمیت کی داستان عراق اور شام والوں کے درمیان ایک اور اختلاف کا سرچشمہ بن گیا۔[19] اور شام والوں کیلئے حکمیت کا سب سے اہم فائدہ یہ تھا انہوں نے حکمیت کے بعد معاویہ کو امیرالمؤمنین کا لقب دینے لگا۔[20]

خوارج کی پیدایش

امام علیؑ کے کچھ سپاہی شروع سے حکمیت کے مخالف تھے اور اسے دین سے خارج ہونے اور ایمان میں شک کی نشانی خیال کرتے تھے۔ [21] بعض افراد حکمیت کے بے نتیجہ ختم ہونے کے بعد قرآن کی دو آیتوں (مائدہ:۴۴؛ حجرات:۹) سے استناد کرتے ہوئے معاویہ کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کا مطالبہ کرنے لگے اور حکمیت کو قبول کرنے کو کفر کا سبب قرار دیتے ہوئے اس سے توبہ کرنے لگے۔ انہوں نے امام علیؑ سے بھی اس کفر سے توبہ کرنے اور معاویہ سے طے پانے والے شرائط کو توڑنے کا مطالبہ کیا۔ امام نے حکمیت کو کلعدم قرار دینے کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا اور جنگ بندی کے بعد امام کوفہ کی طرف اور معاویہ شام کی طرف روانہ ہو گئے۔ حکمیت کے مخالفین امام علیؑ سے جدا ہوگئے اور کوفہ کے نزدیک کسی قریہ میں چلے گئے۔[22] یوں خوارج کے نام سے ایک گروہ نے سر اٹھایا۔

حوالہ جات

  1. ابن ابی ‏الحدید، ج۲، ص۲۱۰.
  2. ابن مزاحم، ص ۴۷۸
  3. ابن مزاحم، ص ۴۹۰
  4. ابن اعثم، ج۳، ص۱۶۳۔
  5. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۸۹.
  6. ابن مزاحم، ص۵۰۴.
  7. شہیدی، ص۱۴۲.
  8. طبری، ج۳، ص۱۰۳ - ۱۰۴.
  9. آبی ابوسعد، ج۱، ص۴۲۱.
  10. وقعۃصفین،ص:۵۳۴
  11. وقعۃصفین،ص۵۳۴-۵۳۵
  12. وقعۃصفین،ص۵۳۶-۵۳۷
  13. ابن مزاحم، وقعۃ صفین، ص۵۴۵
  14. نک: ابن ابی‎‏الحدید، ج۲، ص۲۵۵.
  15. ہمان، ص۲۵۶.
  16. «قَد غَدَرتَ و فَجَرتَ و اِنَّما مَثَلُك مَثَلُ الكَلبِ ان تَحمِل عَلیہ یلہث او تَترُكہ یلہث سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۷۶ کی طرف اشارہ ہے۔
  17. «اِنَّما مَثَلُكَ مَثَلُ الحِمارِ یحمِل اَسفاراً»(سورہ جمعہ، آیہ ۵)
  18. ابن ابی ‏الحدید، ہمان.
  19. ابن مزاحم، ص۵۴۵ و ہمچنین نک: شہیدی، ص۱۴۳ و ابن ابی ‏الحدید، ہمان.
  20. بلاذری، ج۲، ص۳۴۲.
  21. ابن مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۳۸۲ق، ص ۴۸۴؛ بَلاذُری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۳، ص ۱۱۱-۱۱۲
  22. ابن مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۳۸۲ق، ص ۵۱۳-۵۱۴؛ بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۳، ص ۱۱۴، ۱۲۲؛ طبری، تاریخ، ج ۵، ص ۶۳، ۷۲، ۷۸؛ مسعودی، مروج، ج ۳، ص ۱۴۴

مآخذ

  • آبی ابو سعد، من نثر الدر، وزارۃ الثقافہ سوریہ، دمشق۔
  • ابن ابی‏ الحدید، شرح نہج البلاغۃ تحقیق: محمد أبو الفضل إبراہیم، دار إحیاء الكتب العربیۃ، ۱۳۷۸ہجری شمسی - ۱۹۵۹ء۔ (نسخہ موجود در نرم‏ افزار مکتبۃ اہل البیت، نسخہ ۲۔۰)
  • ابن اعثم، الفتوح، دار الندوہ، بیروت۔
  • ابن مزاحم، وقعۃ صفین، انتشارات بصیرتی، قم۔
  • ابن مزاحم، نصر، وقعۃ صفین، قاہرہ، چاپ عبد السلام محمد ہارون، ۱۳۸۲ھ، چاپ افست قم ۱۴۰۴۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: محمد باقر محمودی، موسسہ اعلمی، بیروت۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، جُمَل من انساب الاشراف، چاپ سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت ۱۴۱۷/۱۹۹۷۔
  • شہیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تا پایان امویان، مرکز نشر دانشگاہی، (چاپ ۴۶) تہران، ۱۳۹۰۔
  • طبری، تاریخ طبری، موسسہ اعلمی، بیروت۔
  • مسعودی، مروج الذہب، بیروت۔
  • مطہر بن طاہر مقدسی، آفرینش و تاریخ، ترجمہ: محمد رضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چ اول، ۱۳۷۴۔
  • یعقوبی، احمد، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار صادر۔