غزوہ تبوک
رسول خداؑ کے غزوات | |
---|---|
تاریخ | سنہ 9 ہجری |
مقام | تبوک |
علل و اسباب | شام کی حدود میں رومیوں کی وسیع نقل و حرکت؛ جس کا تدارک کرنے کے لئے رسول خداؐ نے تبوک کی طرف عزیمت فرمائی۔ |
قلمرو | حجاز |
نتیجہ | رومیوں کا شام کی جانب فرار |
فریق 1 | مسلمان |
فریق 2 | سلطنت روم |
سپہ سالار 1 | حضرت محمدؐ |
سپہ سالار 2 | سلطنت روم |
فوج 1 | تقریبا 30000 مجاہدین بشمول 10000 گھڑ سوار |
فوج 2 | روم کی عظیم فوج جنہیں عرب کے قبائل لخم، جذام، عاملہ اور غسان کی حمایت حاصل تھی۔ |
غزوہ تبوک، رسول خداؐ کے غزوات میں سے آخری غزوہ ہے۔ یہ غزوہ سنہ 9 ہجری رجب اور شعبان میں تبوک کے مقام پر انجام پایا۔ پیغمبر اکرمؐ نے رومیوں کے ساتھ جنگ کے ارادے سے تبوک کی طرف عزیمت فرمائی؛ مگر بعض صحابہ بالخصوص مدینہ کے منافقین نے سپاہ اسلام میں شمولیت سے انکار کیا یا مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ رسول اللہؐ نے عزیمت سے قبل علیؑ کو مدینہ میں بطور جانشین مقرر کیا۔ سپاہ اسلام کئی دنوں تک تبوک میں قیام کرنے کے بعد رومیوں کے ساتھ جنگ کئے بغیر مدینہ پلٹ آئی۔ غزوہ تبوک کے سلسلے میں قرآن کریم کی کئی آیتیں نازل ہوئیں جن کی رو سے منافقین رسوا ہوئے، ان کے چہرے بےنقاب ہوئے اور ان کے منصوبے طشت از بام ہوئے۔
شخصیتها | |
---|---|
پیغمبر اسلامؑ • حضرت علیؑ • حضرت فاطمہؑ • صحابہ | |
غزوات | |
غزوہ بدر • غزوہ احد • غزوہ خندق • غزوہ خیبر • غزوہ فتح مکہ • دیگر غزوات | |
شہر اور مقامات | |
مکہ • مدینہ • طائف • سقیفہ • خیبر • جنۃ البقیع | |
واقعات | |
بعثت • ہجرت حبشہ • ہجرت مدینہ • صلح حدیبیہ • حجۃ الوداع • واقعۂ غدیر | |
متعلقہ مفاہیم | |
اسلام • تشیع • حج • قریش • بنو ہاشم • بنو امیہ | |
ہجرت نبوی | 622ء بمطابق 1ھ |
معراج | 622ء بمطابق 1ھ |
غزوہ بدر | 624ء بمطابق 17 رمضان 2ھ |
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی | 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ 2ھ |
بنیقینقاع کی شکست | 624ء بمطابق 15 شوال 2ھ |
غزوہ احد | 625ء بمطابق شوال 3ھ |
بنو نضیر کی شکست | 625ء بمطابق 4ھ |
غزوہ احزاب | 627ء بمطابق 5ھ |
بنو قریظہ کی شکست | 627ء بمطابق 5ھ |
غزوہ بنی مصطلق | 627ء بمطابق 5ھ یا 6ھ |
صلح حدیبیہ | 628ء بمطابق 6ھ |
غزوہ خیبر | 628ء بمطابق 7ھ |
پہلا سفرِ حجّ | 629ء بمطابق 7ھ |
جنگ مؤتہ | 629ء بمطابق 8ھ |
فتح مکہ | 630ء بمطابق 8ھ |
غزوہ حنین | 630ء بمطابق 8ھ |
غزوہ طائف | 630ء بمطابق 8ھ |
جزیرة العرب پر تسلط | 631ء بمطابق 9ھ |
غزوہ تبوک | 632ء بمطابق 9ھ |
حجۃ الوداع | 632ء بمطابق 10ھ |
واقعۂ غدیر خم | 632ء بمطابق 10ھ |
وفات | 632ء بمطابق 11ھ |
تبوک
غزوہ تبوک کا سبب
ابتدائی سیرت نگاروں کی باقیماندہ کاوشوں میں غزوہ تبوک کے سلسلے میں روایات نقل ہوئی ہیں۔ تاہم ان روایات کے درمیان اس غزوے کے وقوع کے وقت جیسے اہم مسائل کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[1] مشہور روایت کے مطابق، اس جنگی مہم کا سبب رسول خداؐ کا مقصد شام کی حدود میں رومیوں کی عسکری نقل و حرکت اور جنگی تیاریاں تھیں۔[2]
شام سے ملنے والی خبریں
اس زمانے میں ایران اور روم دو بڑی طاقتیں تھیں جن کے درمیان طویل جنگیں بھی ہوچکی تھیں لیکن انہیں تیسری بڑی طاقت کا ابھرنا ناقابل برداشت تھا؛ چنانچہ جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں واقع سلطنت روم کے لئے فتح مکہ اور فتح حنین کی خبریں اس کے لئے کچھ زيادہ خوش کن نہ تھیں۔ مؤرخین کے بقول سنہ 9 ہجری میں تقریبا پورا حجاز مسلمانوں کے زیر نگیں آچکا تھا اور بہت سے قبائل چاہتے ہوئے یا حتی نہ چاہتے ہوئے اسلام کا اظہار کرنے لگے تھے؛ لیکن اسلامی حکومت کو اپنی سرحدوں باہر [روم کی جانب سے] خطرات لاحق تھے۔ علاقہ شام پر روم مسلط ہوچکا تھا اور رومی افواج مسلمانوں کی حدود پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کرنے لگی تھیں۔ آٹا اور گھی فروخت کرنے کی غرض سے مدینہ آنے والے نبطی شام کی بعض خبروں سے مسلمانوں کو آگاہ کیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک نبطی نے آپؐ کو اطلاع دی کہ رومیوں نے بہت سے لشکر شام میں فراہم کردیئے ہیں اور ہرقل / ہراکلیوس عرب کے قبائل "لخم"، "جذام"، "غسان" اور "عاملہ" کو بھی اپنی صفوں میں شامل کرچکا ہے اور وہ خود شام کے شمالی شہر حمص تک آچکا تھا رومی فوج کے ہراول دستے تبوک کے شمال میں واقع "بلقاء" میں تعینات کئے گئے ہیں اور رومی اسلامی حکومت کو اپنے لئے خطرناک اور ان کی دشمنی کو خوفناک نہیں سمجھے تھے۔[3]
ایسی روایات بھی منقول ہیں جن میں مذکورہ بالا سبب بیان کئے بغیر کہا گیا ہے کہ رسول اکرمؐ رومیوں سے جنگ کی غرض سے مدینہ سے عزیمت فرمائی۔[4]
یعقوبی نے لکھا ہے کہ اس مہم سے رسول اللہؐ کا مقصود جعفر بن ابی طالب کے خون کا انتقام لینا تھا۔[5] جو جنگ مؤتہ میں شہید ہوئے تھے۔ بہر صورت مسلمانوں کے درمیان مشہور یہی تھا کہ یہ جنگ "بنو الاصفر" کے خلاف ہے۔[6]
بالفاظ دیگر: عصر رسالت میں شام مشرقی روم کی نوآبادی کی حیثیت رکھتا تھا جس کا دارالحکومت قسطنطنیہ تھا۔ سرحدی علاقوں کو عوام اور حکام عیسائی تھے اور سرحدوں میں سکونت پذیر قبائل شام کی مرکزی حکومت کے اطاعت گزار تھے جبکہ شام کی مرکزی حکومت مشرقی روم کی کٹھ پتلی تھی۔ مکہ میں بت پرستوں کا قلعہ مسلمانوں کے ہاتھ فتح ہونے کی وجہ سے رومی حکام شام پر مسلمانوں کے حملے کے امکان سے خوفزدہ ہوگئے تھے۔ سلطان روم مسلمانوں کو اچانک دبوچنا اور ان کی قوت زائل کرنا چاہتا تھا اور یہ کام اس نے شام کے حکمران کے سپرد کیا۔ رسول اللہؐ کو خبر ہوئی تو آپؐ نے بھی اچانک اور بےخبری میں رومی حکمرانوں کو حیرت زدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مدینہ کے عوام اپنے کام کاج میں مصروف تھے اور فصلوں کی کٹائی کا موسم تھا جبکہ دوسری طرف سے قحط سالی کی سی کیفیت علاقے پر طاری تھی۔ آپؐ نے منزل مقصود کا اعلان کیا اور مسلمانوں کو جنگ کے اخراجات پورے کرنے دعوت دی۔ مسلمان مردوں اور خواتین نے دل کھول کر مدد کی؛ اگر ایک طرف سے عبد الرحمن بن عوف نے 4000 دینار بطور امداد آپؐ کی خدمت میں پیش کئے تو ابو عقیل نامی شخص نے ـ جس کے پاس چھ کلوگرام گندم تھی ـ تین کلوگرام گندم دے دی۔ منافقین نے اس غریب مسلمان کی مدد کو ناچیز قرار دیتے ہوئے طعنے دیئے تو خداوند متعال نے ان کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (ترجمہ: وہ لوگ جو نکتہ چینی کرتے ہیں خیرات کے بارے میں ایسے مؤمنین پر جو اپنی خوشی سے خیرات کرتے ہیں اور جو اپنی محنت مزدوری کے سوا اور کچھ رکھتے ہی نہیں تو ان کا وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ خود ان کا مذاق اڑائے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔)[7]
منافقین کی ریشہ دوانیاں
رسول خداؐ نے رومیوں کے ساتھ جنگ کا ارادہ ظاہر کیا تو بعض اصحاب نیز مدینہ کے منافقین نے سپاہ اسلام میں شمولیت سے انکار کیا یا پھر مسلمانوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی۔[8]
کہا جاسکتا ہے کہ اس جنگی مہم کے لئے عزیمت سے رسول اللہؐ کا مقصد رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے سے زیادہ وہ حالات و واقعات تھے جو مدینہ میں رونما ہورہے تھے؛ اور آپؐ کے اس اقدام کی وجہ سے ان میں سے کئی خفیہ سازشیں آشکار ہوکر سامنے آئیں جن میں دو اہم سازشیں کچھ یوں تھیں:
- منافقین نے وسیع تشہیری مہم چلائی؛ یہاں تک کہ عبداللہ بن ابی کے گماشتوں نے رسول اللہؐ کے مد مقابل صف بندی کی اور منافقین بعد ازاں واپس مدینہ آئے۔[9]
- رسول اللہؐ پر تبوک سے واپسی کے وقت قاتلانہ حملہ کیا گیا[10] ان موضوعات کو اگلی سطور میں زیر بحث لایا جائے گا۔
منافقین کے ساتھ شدت عمل
منافقین کی سازشیں یہاں تک پہنچیں کہ رسول اللہؐ کو اطلاع ملی کہ وہ نہ صرف جنگ میں شرکت کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ "جاسوم" کے محلے میں واقع "سویلم" نامی شخص کے گھر میں مسلمانوں کو جنگ سے روکنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ آپؐ نے حکم دیا کہ مجاہدین کا ایک گروہ طلحہ بن عبیداللہ کی سرکردگی میں سازشیوں کی سرکوبی اور دوسروں کی عبرت کی غرض سے مذکورہ گھر کو آگ لگا دے۔ منافقین اچانک آگ کی لپیٹ میں آئے تو ہر ممکن طریقے سے بھاگ گئے اور ان میں سے ایک کو چھت سے کودنا پڑا جس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ یہ شخص سازشیوں اور منافقوں کے لئے عبرت کا نشان بنا۔ منافقین جان گئے کہ سازشیں جاری رکھنے کی صورت میں انہیں اس سے بھی زیادہ شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔[11]
رونے والے مؤمنین
جنگ سے گریزان افراد کے مقابلے میں دین کی راہ میں جانبازی کے شیدائیوں کی بھی کمی نہ تھی لیکن تنگدستی آڑے آرہی تھی چنانچہ انھوں نے رسول خداؐ سے سواری کی درخواست کی تاکہ رومیوں کے ساتھ جنگ میں آپؐ کے رکاب میں لڑیں لیکن آپؐ نے فرمایا: "میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے کہ تمہارے حوالے کروں"؛ چنانچہ وہ رونے لگے اور "بکائین" کے عنوان سے مشہور ہوئے۔[12] خداوند متعال نے سورہ توبہ کی آیت 92 میں ان کو جنگ سے معاف کردیا۔
آخری غزوہ اور مدینہ میں علیؑ کی جانشینی
امام علی علیہ السلام نے تمام غزوات میں شرکت کی لیکن رسول اللہؐ نے پہلی بار ـ اپنے آخری غزوے کے لئے عزیمت سے قبل علیؑ کو مدینہ میں بطور جانشین مقرر کیا جس پر تاریخ و سیرت اور حدیث کے مآخذ کا تقریبا اتفاق ہے؛ گوکہ بعض مؤرخین نے اس موضوع میں اختلاف کیا ہے۔[13]
بہر صورت منافقین مدینہ میں بغاوت کا ارادہ رکھتے تھے اور [گویا رسول اللہؐ نے منافقین ہی کے منصوبوں کی ناکامی کے لئے آپؑ کو جانشین مقرر کیا تھا چنانچہ] منافقین آپؑ کی موجودگی کو اپنی سازشوں کے سامنے رکاوٹ سمجھتے تھے اور رسول خداؐ کے اس اقدام سے ناراض تھے چنانچہ انھوں نے افواہ اڑائی کہ رسول اللہؐ مجاہدین کے درمیان علیؑ کی موجودگی کو پسند نہیں کرتے تھے؛ یا گرمی اور جنگ کی دشواریوں سے پہلو تہی کرنے والوں نے کہا کہ علیؑ بھی ان ہی کی طرح جنگ سے پیچھے رہ گئے ہیں؛ بعض دوسروں نے کہا کہ رسول اللہؐ کو علیؑ کی معیت ناگوار تھی چنانچہ انہیں اپنے گھر کی سرپرستی کے لئے چھوڑ کر گئے ہیں۔ چنانچہ علیؑ ہتھیار سنبھال کر شہر کے نواح میں واقع "جُرْفْ" کے مقام پر رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: "يا نبى الله زعم المنافقون أنك إنما خلفتني انك استثقلتني وتخففت منى"۔[14] (ترجمہ: اے پیغمبر خداؐ منافقین گمان کرتے ہیں کہ آپ نے محھے پیچھے چھوڑ دیا ہے، مجھے اپنے لئے بوجھ سمجھا ہے اور مجھے خفیف کردیا ہے!
چنانچہ رسول اللہؐ نے فرمایا: "كَذِبُوا وَلكِنِّي إنَّما خَلَّفتُكَ لِما وَرائِي... أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّا أنـّه لانَبی بَعدی"۔
(ترجمہ: اے علی! تمہارے لئے میرے نزدیک وہی منزلت ہے جو ہارون کے لئے کو موسیٰ کے نزدیک تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے)۔[15]۔،الحلبي، السيرة الحلبيۃ، ج3، ص104۔،البلاذري، انساب الاشراف، ترجمۃ امير المؤمنين، ص10۔،ابن كثير، البدايۃ والنہايۃ، ج5، ص7۔</ref>
متن حدیث
حدیث منزلت، مشہور احادیث نبوی میں سے اور سنی علماء کے ہاں بھی تسلیم شدہ حدیث ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہؐ کی نسبت امیرالمؤمنینؑ کی منزلت اور دیگر اصحاب پر آپؑ کی برتری اور فوقیت ظاہر کی گئی ہے اور شیعہ علماء کی نظر میں یہ احادیث متواترہ میں سے ہے اور رسول اللہؐ کی جانشینی کے لئے آپؑ کی اہلیت اور حقانیت کی دلیل ہے۔
یہ حدیث بارہا اور مختلف مناسبتوں سے مختلف مواقع پر رسول اکرمؐ سے سنی گئی ہے اور ان مواقع و مناسبتوں میں اہم ترین وہ موقع تھا جب آپؐ جنگ تبوک کے لئے جارہے تھے۔ مشہور ترین نقل حدیث کچھ یوں ہے کہ رسول اکرمؐ نے امام علیؑ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی ..."۔
جو مذکورہ بالا مآخذ کے علاوہ دیگر مآخذ میں بھی موجود ہے۔[16]
حدیث کی ایک اور صورت
روایات کے مطابق رسول اللہؐ منافقین کے نقشے سے آگاہ تھے چنانچہ ان کی خائنانہ سازش کو خاک میں ملایا اور علیؑ کو حکم دیا کہ مدینہ واپس چلے جائیں اور آپؐ کے خاندان نیز مہاجرین [اور اہل مدینہ] کی سرپرستی سنبھالیں۔ یہاں رسول اللہؐ نے یہاں جو تاریخی جملہ کہا اس کو تاریخ نے ثبت کیا ہے اور یہ جملہ امیرالمؤمنینؑ کی بلافصل خلافت کا ثبوت بھی ہے اور علیؑ کی تابناک زندگی میں ایک نیا اعزاز بھی تھا؛ فرمایا:
"ارجع يا أخي إلى مكانك فإن المدينة لا تصلح الا بي او بك، فأنت خليفتي في أهلي ودار هجرتي وقومي أ ما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي۔" (ترجمہ: میرے بھائی علی! مدینہ میں اپنے مقام پر واپس چلے جاؤ، کیونکہ میرے اور تہمارے سوا کوئی بھی وہاں کے امور کی اصلاح کی اہلیت نہیں رکھتا یا مدینہ کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے۔ پس تم میرے جانشین اور میرے نمائندے ہو میرے خاندان اور میرے گھر اور میری قوم (مہاجرین) کے درمیان۔ اے علی! کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ میری نسبت تمہاری منزلت وہی ہو جو موسی کے نزدیک ہارون کو حاصل تھی؟ سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا۔[17]
حدیث منزلت کو مختلف صورتوں میں اور مختلف عبارات سے نقل کیا گیا ہے تاہم ان ساری روایات کا مشترکہ مضمون یہی ہے کہ "رسول اللہؐ کے نزدیک امام علیؑ کی منزلت و مرتبت وہی ہے جو موسیؑ کے نزدیک ہارونؑ کو حاصل تھی۔ عبارت میں مختصر سے اختلاف کا سبب بھی یہ ہے کہ یہ حدیث مکرر در مکرر اور مختلف مواقع پر نقل ہوئی ہے چنانچہ بعض راویوں نے اس کے مضمون کو [شاید اپنے الفاظ میں] نقل کیا ہے۔
عنوان حدیث: حدیث منزلت
یہ حدیث شریف بعد میں حدیث منزلت کے عنوان سے مشہور اور امیرالمؤمنین کے اہم ترین مناقب میں شمار ہوئی اور مختلف محدثین و مؤرخین نے مختلف اسناد سے اس کو نقل کیا۔[18] نیز اس حدیث سے امیرالمؤمنینؑ کی خلافت بلا فصل کی اہم ترین دلیلوں کے کے زمرے میں، استناد کیا گیا۔[19]
ایک تبصرہ
حدیث میں جملہ "لا نبي بعدي" (= میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے) بہت سے شبہات کا ازالہ کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اعلان منزلت سے مراد کوئی عام سی تعریف و تجلیل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اس حقیقت کو بیان کررہا ہے کہ "میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین بلافصل علیؑ ہیں جس طرح کہ ہارون موسیؑ کے جانشین تھے فرق صرف یہ ہے کہ ہارون موسیؑ کے جانشین بھی تھے اور پیغمبر بھی تھے جبکہ علیؑ خلیفہ اور جانشین ہیں لیکن نبی نہیں ہیں"۔
رسول اللہؐ کے اس آخری غزوے کے دوران مدینہ میں علیؑ کی جانشینی سے ایک طرف سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ امیرالمؤمنینؑ آپؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں بالکل اسی طرح، جس طرح کہ ہارونؑ موسیؑ کے جانشین تھے؛ دوسری طرف سے مذکورہ بالا سطور اور حدیث کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں دشمنان اسلام کے عزائم خطرناک تھے اور ان کا سامنا کرنے کے لئے علیؑ کے سوا کسی اور اعتماد نہیں کیا جاسکتا تھا جیسا کہ آپؐ نے علیؑ سے فرمایا: مدینہ کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے۔[20]
رسول اللہؐ نے اس حدیث کے ضمن میں فرمایا: "إن المدينة لا تصلح إلا بي او بك" اور واضح کیا کہ "کہ آپؑ صرف اہل بیت رسول میں ہی رسول خداؐ کے نمائندے نہیں تھے بلکہ اسلامی حکومت کے دار الحکومت میں آپؐ کے جانشین تھے اور فتح مکہ کے بعد کے حساس حالات میں میں دارالحکومت کی صورت حال کی اصلاح یا تو آپؐ خود کرسکتے تھے یا پھر علیؑ اسے درست کرنے اور آپؐ کی غیر موجودگی سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی اہلیت رکھتے تھے؛ موقع پرست منافقین اور دشمنان اسلام کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں، اطراف کے قبائل کو اطاعت پر مجبور کرسکتے ہیں اور انہیں مدینہ پر وار کرنے سے روک سکتے ہیں، سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں؛ چنانچہ آپؐ ہرگز گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ خود بھی تبوک چلے جائيں اور علیؑ کو بھی ساتھ لے جائیں۔
علیؑ نے رسول خداؐ کے فرامین سن لئے، آپ کے احکامات و ہدایات کا ادراک کیا اور فرائض کی انجام دہی کے لئے مدینہ چلے گئے۔[21]
حدیث منزلت کے تمام راویوں، روایت کی مختلف اشکال اور نقل کرنے والے تمام مآخذ کو نور اللہ التستری نے اپنی کتاب مجالس المؤمنین میں نقل کیا ہے۔[22]
غزوہ تبوک قرآنی آیات میں
قرآن کی سورہ توبہ کی متعدد آیات جنگ تبوک کی شان میں نازل ہوئی ہیں اور ان میں جنگ کی دشواریاں، بعض مسلمانوں کی کاہلیاں اور منافقین کی خلاف ورزیاں بیان ہوئی ہیں۔[23]
جنگ میں شرکت کرنے کا فرمان
پیچھے رہوگے تو خدا کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ * إِلاَّ تَنفِرُواْ يُعَذِّبْكُمْ عَذَاباً أَلِيماً وَيَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ وَلاَ تَضُرُّوهُ شَيْئاً وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (ترجمہ: اے ایمان لانے والو ! تمہیں کیا ہے کہ جب کہا جاتا ہے تم سے کہ اللہ کی راہ میں باہر نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین گیر ہو جاتے ہو! کیا تم آخرت کے بدلے اس دنیوی زندگی پر راضی ہو تو نہیں ہے اس دنیوی زندگی کا سرو سامان آخرت کے مقابلہ میں مگر بہت کم * اگر تم باہر نہ نکلو گے تو وہ تمہیں درد ناک عذاب کے ساتھ سزا دے گا اور تمہارے بدلے کسی دوسرے گروہ کو کھڑا کر دے گا اور تم انہیں کچھ نقصان نہ پہنچاؤ گے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے)"[24]
سابقہ آیات میں، جہاد میں شرکت کے سلسلے میں بعض مسلمانوں کی کاہلی کی وجہ سے ان کی کارکردگی پر شدید تنقید اور ان پر عتاب کے بعد انہیں حکم دیا گیا کہ ہلکے پھلکے یا بوجھل (جس صورت میں بھی ہو) اللہ کی راہ میں جہاد کرو:
"انْفِرُواْ خِفَافاً وَثِقَالاً وَجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (ترجمہ: چل کھڑے ہو ہلکے پھلکے اور بھاری، بوجھل (جیسے بھی ہو) اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔)"[25]
اس آیت کے مطابق وہ لوگ جو کسی چیز سے وابستہ نہیں تھے اور جہاد میں بآسانی شرکت کرسکتے تھے اور وہ جن کی راہ میں کام کاج اور دیگر گھریلو مسائل آڑے آرہے تھے، سب کو جہاد میں شرکت کا حکم دیا ہے۔
منافقین کی شادمانیاں
فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللّهِ وَكَرِهُواْ أَن يُجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَقَالُواْ لاَ تَنفِرُواْ فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرّاً لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ * فَلْيَضْحَكُواْ قَلِيلاً وَلْيَبْكُواْ كَثِيراً جَزَاء بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ. (ترجمہ: جو پیچھے چھوڑ دیئے گئے وہ پیغمبر خدا کے پیچھے گھروں میں بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہوں نے ناپسند کیا اسے کہ وہ اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کہا کہ گرمی میں سفر نہ کرو، کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ زیادہ گرم ہے، کاش وہ سمجھ سے کام لیں * تو انہیں ہنسنا کم چاہیے اور انہیں رونا زیادہ چاہیے، سزا میں اس کی جو وہ کرتے رہے ہیں)۔[26]
معذور رکھے جانے والے
البتہ اگلی آیات میں مجبور اور معذور لوگوں کو مستثنی قرار دیا گیا ہے:
"لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاء وَلاَ عَلَى الْمَرْضَى وَلاَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ ... (ترجمہ: نہیں ہے کمزوروں پر اور بیماروں پر اور نہ ان پر جن کے پاس خرچہ نہ ہو کوئی سختی...۔)"[27]
مناقفین کی بہانہ تراشیاں
"لَوْ كَانَ عَرَضاً قَرِيباً وَسَفَراً قَاصِداً لاَّتَّبَعُوكَ وَلَـكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (ترجمہ: اگر قریبی کوئی منفعت ہوتی اور سفر معمولی ہوتا تو وہ آپ کے پیچھے پیچھے ہو جاتے مگر ان پر بڑی دور دراز مسافت پڑ گئی اور بہت جلد وہ اللہ کی قسم کھائیں گے کہ اگر ہم روانہ ہو سکتے تو آپ کے ساتھ ضرور نکلتے۔ وہ اپنے کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔)"[28]
جنگ تبوک کے لئے روانگی سے قبل بعض منافقین نے رسول اللہؐ سے اپنے بعض کاموں کے لئے جنگ میں شرکت نہ کرنے کی اجازت مانگی اور آپؐ نے انہیں اجازت دے دی۔
یہ اجازت اس لئے تھی کہ سچے اور جھوٹے سامنے آجائیں؛ دوسری طرف سے ایسے لوگوں کو جہاد میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دینے کا فائدہ مسلمانوں ہی کو پہنچتا تھا کیونکہ ان کی طرف سے فتنہ انگیزی اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی کا امکان تھا:
"عَفَا اللّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ (ترجمہ: اللہ آپ کو معاف کرے، کیوں آپ نے انہیں اجازت دی جب تک کہ کھل نہ جائیں آپ پر وہ جو سچے ہیں اور وہ معلوم ہو جائیں کہ جو جھوٹے ہیں۔)"[29]
گویا رسول خداؐ نے مصلحتوں کو دیکھ کر ہی جہاد میں ان کی شرکت کو جائز نہیں سمجھا ہے جیسے کہ اگلی آیات میں بھی واضح ہے؛ اسی لئے ان کے جھوٹے عذر کو آپؐ نے قبول کیا اور انہیں جنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دے دی لیکن خداوند متعال چاہتا تھا کہ انہیں ابتداء میں شرکت نہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ وہ نافرمانی کریں اور اپنے آپ کو رسوا کریں جیسا کہ ارشاد فرماتا ہے:
"لاَ يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَن يُجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ * إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ (ترجمہ: آپ سے چھٹی نہیں مانگتے وہ جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اس سے کہ وہ اپنے مال اور جان سے جہاد کریں اور اللہ پرہیز گاروں کا خوب جاننے والا ہے * آپ سے چھٹی کے طالب تو بس وہ ہوتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دلوں کو شک ہے تو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول رہتے ہیں۔)"[30]
===منافقین کی فتنہ انگیزی===
"وَلَوْ أَرَادُواْ الْخُرُوجَ لأَعَدُّواْ لَهُ عُدَّةً وَلَـكِن كَرِهَ اللّهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُواْ مَعَ الْقَاعِدِينَ * لَوْ خَرَجُواْ فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلاَّ خَبَالاً ولأَوْضَعُواْ خِلاَلَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (ترجمہ: اور اگر وہ باہر نکلنے کی نیت رکھتے تو اس کے لیے پہلے سے تیاری کرتے مگر اللہ کو ان کا چل کھڑا ہونا نا پسند تھا تو اس نے ان کی ہمت پست کر دی اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھو بیٹھنے والوں کے ساتھ * اگر وہ تم میں شامل ہو کر نکلتے تو تم میں بس خرابیوں میں اضافہ کرتے اور تمہارے درمیان گھوڑے دوڑاتے اس کوشش میں کہ تم میں فتنہ و فساد برپا ہو اور تم میں ایسے ہیں جو ان کی خوب سنتے ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔)"[31]
منافقین جنہوں نے رسول خداؐ سے جہاد میں شرکت نہ کرنے کی اجازت یا چھٹی مانگی تھی، درحقیقت شرکت کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے اور ان کے اجازت مانگنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ گویا وہ آپؐ کے مطیع ہیں اور اگر آپؐ انہیں شرکت نہ کرنے کی اجازت نہ بھی دیتے وہ شرکت نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ اگر وہ ارادہ رکھتے تو اس کے لئے تیاریاں بھی کرتے۔ خداوند متعال مؤخر الذکر آیت میں فرماتا ہے کہ اگر وہ جنگ میں شرکت کرتے تو مسلمانوں کے لئے زحمت کا سبب بنتے؛ ان کی صفوں میں رخنہ ڈالتے اور مسلمانوں کے درمیان بھی ان کی باتیں سننے والے موجود ہیں۔
بے شک وہ اپنی جھوٹی افواہوں کے ذریعے کمزور مسلمانوں کو منحرف کرتے، سپاہ اسلام میں اختلاف ڈالتے اور اور سپاہ کے حوصلوں کو کمزور کرتے؛ وہ ابتداء ہی سے فتنہ انگيزی کے درپے تھے:
"لَقَدِ ابْتَغَوُاْ الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُواْ لَكَ الأُمُورَ حَتَّى جَاء الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ (ترجمہ: وہ پہلے بھی فتنہ پردازی کے خواہاں رہے ہیں اور آپ کے لیے معاملات کو درہم و برہم کرتے رہے ہیں، یہاں تک کہ حق سامنے آ گیا اور اللہ کی بات غالب آ گئی، درصورت یہ کہ وہ ناپسند کرتے تھے۔)"[32]
جد بن قیس کا قصہ
رسول خداؐ نے جد بن قیس کو دیکھا اور فرمایا "کیا تم اس جنگ کے لئے ہمارے ساتھ نہیں جارہے ہو، گویا تم زرد فام خواتین سے چشم پوشی نہیں کرسکتے ہو!" کہنے لگا: اے رسول خدا! میری قوم جانتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے جو مجھ جتنا عورتوں کا رسیا ہو اور مجھے خوف ہے کہ آپ کے ساتھ جاؤں اور رومی عورتوں کو دیکھ کر صبر کا دامن چھوڑ جاؤں؛ چنانچہ استدعا ہے کہ مجھے مبتلا نہ کریں اور مجھے شہر میں رہنے دیں۔ دوسری طرف سے اسی شخص نے اپنی قوم کی ایک جماعت سے مخاطب ہوکر کہا: گرمی بہت شدید ہے لہذا اپنے گھر بار کو چھوڑ کر مت جاؤ۔ جد بن قیس کے بیٹے نے کہا: "خود تو رسول خداؐ کے فرمان کی مخالفت کر ہی رہے ہو کیا یہی کافی نہیں ہے اور اب لوگوں کو بھی گرمی کا بہانہ بنا کر آپؐ کی نافرمانی پر اکسا رہے ہو؟ خدا کی قسم! خدا تمہارے بارے میں بھی آیت نازل کرے گا جس کو قیامت تک کے لوگ پڑھیں گے"۔ اتفاق سے آیت کریمہ نازل ہوئی اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا: "وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُواْ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ (ترجمہ: اور ان میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ مجھے چھٹی دیجئے اور مجھے گمراہی میں مبتلا نہ کیجئے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ گمراہی میں وہ خود پڑ ہی چکے ہیں اور بلاشبہ دوزخ گھیرے ہوئے ہے کافروں کو)"[33]
مروی ہے کہ جد نے مزید کہا: "محمد نے گمان کیا ہے کہ روم کے ساتھ جنگ بھی دوسروں کے ساتھ لڑنے کی مانند ہے، مگر میں خوب جانتا ہوں کہ ان مسلمانوں میں سے ایک بھی اس جنگ سے بچ کر نہیں آسکے گا۔[34]
منافقین کو جنگ میں شرکت سے ممانعت
منافقین نے جنگ تبوک میں شرکت سے انکار کیا اور گھروں میں بیٹھ گئے چنانچہ وہ اگلی جنگوں میں شرکت کے اہل نہیں تھے۔ چنانچہ خداوند متعال نے آپؐ کو حکم دیا کہ اگر مدینہ پلٹنے کے بعد پھر کبھی انھوں نے آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت مانگی تو آپ اجازت نہ دیں:
فَإِن رَّجَعَكَ اللّهُ إِلَى طَآئِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخْرُجُواْ مَعِيَ أَبَداً وَلَن تُقَاتِلُواْ مَعِيَ عَدُوّاً إِنَّكُمْ رَضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُواْ مَعَ الْخَالِفِينَ (ترجمہ: پس (اے حبیب!) اگر اللہ آپ کو (غزوۂ تبوک سے فارغ ہونے کے بعد) ان (منافقین) میں سے کسی گروہ کی طرف دوبارہ واپس لے جائے اور وہ آپ سے (آئندہ جہاد کے لئے) نکلنے کی اجازت چاہیں تو ان سے فرما دیجئے گا کہ (اب) تم میرے ساتھ کبھی بھی ہرگز نہ نکلنا اور تم میرے ساتھ ہو کر کبھی بھی ہرگز دشمن سے جنگ نہ کرنا (کیونکہ) تم پہلی مرتبہ (جہاد چھوڑ کر) پیچھے بیٹھے رہنے سے خوش ہوئے تھے سو (اب بھی) پیچھے بیٹھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔)[35]
منافقین کی معذرت نامنظور
جنگ تبوک میں شرکت کرنے سے انکار کرنے والے منافقین رسول اللہؐ کی خدمت میں آکر بہانے پیش کرنے لگے تھے چنانچہ خداوند متعال نے منافقین کے اسرار اور سازشوں کو طشت از بام کرتے ہوئے آپؐ کو ان کے اقدامات سے آگاہ فرمایا:
يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُل لاَّ تَعْتَذِرُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ وَسَيَرَى اللّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (ترجمہ: وہ عذر خواہی کریں گے تم سے جب تم لوگ ان کی طرف واپس آؤ گے ، کہئے کہ تم عذر خواہی نہ کرو۔ ہم کبھی تمہارا یقین نہیں مانیں گے۔ ہمیں اللہ نے تمہارے حالات کی اطلاع دی ہے اور اللہ اور اس کا پیغمبر تمہارے اعمال کو دیکھے گا پھر تم پلٹا کر لے جائے جاؤ گے اس کی طرف جو حاضر و غائب کا جاننے والا ہے، وہ تمہیں بتلائے گا کہ تم کیا کرتے تھے۔)[36]
جنگ تبوک کے مجاہدین کی تعریف
لَقَد تَّابَ الله عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ (ترجمہ: اللہ نے رحمت کی نظر ڈالی پیغمبر اور ان مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے سختی کے وقت پر ان کا ساتھ دیا۔ جب کہ قریب تھا کہ ان میں سے کچھ کے دلوں میں کجی آجائے۔ پھر اللہ نے ان پر نظر رحمت ڈالی۔ یقینا وہ ان کے ساتھ شفیق ہے، بڑا مہربان۔)[37]
مدینہ میں رہنے والے تین افراد
تین افراد ایسے بھی تھے جنہں خدا نے توبہ کرنے کی توفیق کی توفیق دی: "کعب بن مالک"، "مرارہ بن ربیع" اور "ہلال بن امیہ"۔ یہ وہ افراد تھے جو جہاد سے جان بوجھ کر پیچھے رہے تھے؛ وہ درحقیقت جنگ تبوک میں شرکت کرنا چاہتے تھے لیکن سستی اور کاہلی غالب آئی۔
جنگ ختم ہوئی اور رسول خداؐ مدینہ واپس آئے تو یہ تینوں فوری طور پر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن آپؐ نے ان سے منہ موڑا اور ان کے ساتھ بات چیت نہ کی؛ تمام مسلمانوں نے بھی ان سے رابطہ منقطع کیا اور ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ یہ افراد تھوڑے ہی عرصے میں اپنے آپ کو بالکل تنہا محسوس کرنے لگے؛ یہاں تک کہ اپنی بیویاں بھی ان سے دوری اختیار کرتی تھیں۔ ان تین افراد کا یہ عمومی مقاطعہ ان کے لئے شدید گھٹن کا سبب بنا تھا۔ ان افراد نے رسول اللہؐ کی پیروی کرتے ہوئے آپس میں بھی رابطہ منقطع کیا تھا۔
مروی ہے کہ [آج کے نام نہاد بڑے ممالک کی مانند] اس زمانے کی بڑی طاقت روم کے حکام کو معلوم ہوا تو انھوں نے اپنا جاسوس ان کے پاس روانہ کیا اور ان سے کہا کہ روم کی پناہ میں چلے جائیں اور آزادانہ زندگی بسر کریں؛ لیکن چونکہ وہ حقیقی مسلمان تھے لہذا انھوں نے ان کی تجویز مسترد کردی۔ وہ شہر سے نکل گئے اور پہاڑوں اور صحراؤں میں جاکر گریہ و زاری کرتے تھے۔ 50 دن تک یہی صورت حال جاری رہی یہاں تک کہ ان کی [[توبہ قبول ہوئی اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا کہ انہیں بخش دیا گیا ہے۔
وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّواْ أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (ترجمہ: اور ان تینوں پر کہ جو پیچھے رہ گئے تھے، یہاں تک کہ یہ عالم ہوا کہ زمین ان پر باوجود اپنی وسعت کے تنگ ہو گئی اور وہ خود اپنے سے تنگ ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اللہ سے بچاؤ کے لیے کوئی جائے پناہ سوا خود اسی کے نہیں ہے۔ پھر اللہ نے ان کی طرف توجہ فرمائی کہ وہ توبہ کریں یقینا اللہ ہی وہ ہے جو بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے، بڑا مہربان)[38]۔646۔[39]
سپاہ کے لئے وسائل کی فراہمی میں دشواریاں
رسول اللہؐ نے سپاہ کی تیاری میں تیزرفتاری سے کام لینے کا حکم دیا تھا مگر شدید گرمی، طویل سفر اور بعض اصحاب کی غربت آڑے آرہی تھی[40] یہاں تک کہ اس سپاہ کو "جیش العسر" کا نام دیا گیا۔[41] عروہ بن زبیر نے غزوہ تبوک کو غزوۃ العسر کا نام دیا ہے۔[42]
چنانچہ رسول اللہؐ نے اس غزوے میں ـ سابقہ غزوات کے برعکس، ـ اپنا مقصود واضح طور پر بیان فرمایا تاکہ لوگ جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔ رسول اکرمؐ نے ابتداء میں مدینہ کے نواح میں ثَنی الوداع میں پڑاؤ ڈال دیا اور بعد ازاں 30000 مجاہدین کے ہمراہ مدینہ سے شمال کی جانب روم کی سرحدوں کی جانب عزیمت فرمائی۔[43] ایک روایت کے مطابق سپاہ اسلام 10000 سواروں اور 20000 پیادوں پر مشتمل تھا؛ ہر قبیلے کو اپنا پرچم عطا کیا گیا؛ کام کاج کے اس موسم میں اتنی بڑی سپاہ کی فراہمی اللہ تعالی کے وعد و وعید کے ذریعے ممکن ہوئی۔[44]
جنگ میں شرکت پر قرآن کی تاکید
قرآن نے اس جنگ کے سوا کسی بھی جنگ میں شرکت کرنے پر اتنا زور نہيں دیا تھا۔[45] قرآن نے ہر قسم کے لب و لہجے سے مسلمانوں کو اس جنگ میں شرکت کی ترغیب دلائی ہے جس کو سورہ توبہ کی آیات 38 اور 39 سمیت کئی دوسری آیات میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے؛ بطور مثال:
"اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ" کیا زمین سے چپکے ہوئے ہو اور جہاد کے لئے نہیں نکلتے ہو یا کیا تم اس فانی دنیا کی چمک دمک پر راضي ہوچکے ہو جہاد اور شہادت کے مقابلے میں؟ "أَ رَضِیتُمْ بِالْحَیاةِ الدُّنْیا مِنَ الْآخِرَة"؛ یا کیا دنیاوی زندی کی متاع آخرت کی ابدی زندگی کے سامنے ناچیز نہیں ہے؟ "فَما مَتاعُ الْحَیاةِ الدُّنْیا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِیلٌ" کیا ایک عقلمند انسان کے لئے اس قسم کا سودا پسند کرنا ممکن ہے؟ پھر دھمکی کے لب و لہجے میں ارشاد فرماتا ہے: "إِلَّا تَنْفِرُوا یُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِیماً"، یا کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر نہیں جاؤگے تو اسلام کی بسط لپٹ جائے گی؟ یاد رکھو کہ اس صورت میں دوسروں کو تمہاری جگہ لے کر آئے گا؛ "وَیَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَكُمْ" جو تم سے زيادہ جرئت کے مالک ہونگے اور تم خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے؛ "وَلا تَضُرُّوهُ شَیْئاً"؛ یہ ایک خیال گفتگو نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جب وہ اپنے دین پاک کی حفاظت کا ارادہ فرماتا ہے کر گذرتا ہے: "وَاللَّهُ عَلى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ" اس آیت میں دوسری قوم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ایرانی ہیں اور بعض دوسروں نے کہا ہے کہ یہ اہلیان یمن ہیں جنہوں نے اپنے علم و عمل اور جان نثاریوں سے اسلام کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔[46]
خطبہ تبوک
رومی افواج کی بلقاء تک رسائی اور رسول خداؐ کے خلاف جنگی منصوبوں کی خبر پاکر آپؐ نے کچھ اصحاب، حالات سے آگہی کے لئے بلقاء روانہ کئے اور کچھ مدینہ کے اطراف اور مکہ روانہ کئے تاکہ قبائل کو جنگ کے لئے تیار کریں جن میں نو مسلم قبائل "خزاعہ، مزینہ اور جہینہ" جیسے قبائل شامل تھے۔
آپؐ نے ثنیہ الوداع میں پڑاؤ ڈالا اور حکم دیا کہ صاحب حیثیت افراد ناداروں کی مدد کریں اور جس نے جو کچھ پس انداز کیا ہے خیرات کرے۔ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا اور ایک دوسرے کی مدد سے بڑی سپاہ تشکیل دی؛ لشکر فراہم ہوا تو آپؐ نے خطبہ دیا اور حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا:
اے لوگو! سب سے سچا کلام اللہ کی کتاب، مناسب ترین تلقین تقوی کی تلقین، بہترین ملت ملت ابراہیم، بہترین سنت سنت محمد، شریف ترین ذکر، ذکر خدا اور بہترین داستان یہی قرآن ہے؛ بہترین امور ثابت اور مستحکم سنتیں اور بدترین امور نو ظہور اور ہیں؛ بہترین ہدایت انبیاء کی ہدایت اور شریف ترین قتل ہونا شہادت اور بہترین مقتولین اللہ کی راہ میں شہادت پانے والے ہیں؛ تاریک ترین اندھا پن ہدایت کے بعد ضلالت ہے اور بہترین کام، زیادہ فائدہ پہنچانے والا کام ہے؛ بہترین ہدایت وہ ہے جس کی پیروی کی جائے اور بدترین اندھا پن دلوں کا اندھا پن ہے؛ اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نچلے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔
چھوٹی خواہش ـ جو ضرورت کو پورا کرے ـ اس خواہش سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور اللہ کی یاد سے غافل کردے؛ بدترین (توبہ اور) معذرت موت کے موقع پر کی جانے والی معذرت ہے اور بدترین ندامت و پشیمانی قیامت کی پشیمانی ہے؛ بعض لوگ وہ ہیں جو نماز جمعہ کے لئے نہیں آتے مگر گاہے بگاہے اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں اللہ یاد ہی نہیں آتا مگر نیت و ارادے کے بغیر؛ اور زبان کی بدترین گناہ جھوٹ ہے اور بہترین بےنیازی دل کی بےنیازی ہے۔
بہترین سفر خرچ تقوی اور پرہیزگاری اور حکمت کی اساس اللہ کا خوف ہے، دل میں پڑنے والی بہترین چیز یقین ہے اور شک و تردد کا تعلق کفر سے ہے؛ ایک دوسرے سے دوری کرنا جاہلیت کا عمل، ملاوٹ کرنا جہنم کی پیپ اور گندگی ہے؛ بدمستی (حالت نشہ) اگ کا انگارا اور شعر گوئی ابلیس سے ہے، شراب تمام گناہوں کا تھیلا، عورتیں شیطان کا جال، نوجوانی جنون کا ایک شعبہ ہے، بدترین کاروبار سودخوری اور بدترین کھانا مال یتیم کا کھانا ہے؛ نیک بخت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے اور بدبخت وہ ہے جو ماں کے پیٹ ہی سے بدبخت ہو؛ تم میں سے ہر ایک بالآخر چار زراع کے گھر (قبر) میں قرار پائے گا؛ ہر کام کرتے وقت اس کو انجام کو مد نظر رکھنا چاہئے اور ہر امر کا معیار اس کا انجام ہے، بدترین سودخوری، جھوٹ، ہے اور ہر مستقبل قریب ہے، مؤمن پر سب و شتم کرنا فسق اور اس کے ساتھ جنگ کرنا کفر اور اس کا گوشت کھانا (= غیبت کرنا) اللہ کی نافرمانی اور اس کے مال کی حرمت اس کے خون کی حرمت جیسی ہے؛ اور جو اللہ پر بھروسا کرے وہی اس کے لئے کافی ہے اور جو صبر کرے کامیاب ہوتا ہے، جو دوسروں کے جرائم کو معاف کرے خدا اس کے جرائم کو معاف کرتا ہے اور جو غصہ پی لے خدا اس کو اجر دیتا ہے، جو مصیبت پر صبر کرتا ہے خدا اس کو اس کا صلہ دیتا ہے، جو اپنے فضائل عام کرنے کے درپے ہوتا خدا اس کی رسوائی کے اسباب فراہم کرتا ہے، اور جو اس سلسلے میں خاموشی اختیار کرتا ہے خداوند متعال اس کے فضائل کو زیادہ سے زیادہ پھیلا دیتا ہے اور جو نافرمانی کرے خدا اس کو عذاب دیتا ہے۔ خداوندا مجھے اور میری امت کو بخش دے، خداوندا مجھے اور میری امت کو بخش دے۔ میں خداوند متعال سے اپنے اور تمہارے لئے مغفرت کی التجا کرتا ہوں۔
راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے خطبہ سنا تو جہاد میں شرکت کے لئے تیار ہوئے؛ دعوت شدہ قبائل نے عزیمت کرلی اور منافقین اور بعض غیر منافقین نے گھر بیٹھنے کو ترجیح دی۔[47]
سپاہ کی تشکیل اور جنگ کے لئے عزیمت
رسول اللہؐ کو خبر ملی تو گرمی بہت شدید تھی۔[48] فصل کاٹنے اور پھل چننے کا زمانہ تھا، لوگوں کو اپنا گھر بار اور کارو بار چھوڑ دینا دشوار ہورہا تھا؛[49] آپؐ نے سپاہ اسلام میں رضاکارانہ شرکت کے لئے اعلان کرایا اور مکہ کے باشندوں نیز اطراف کے بادیہ نشینوں سے مدد مانگی اور مسلمانوں کو مالی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی اور سابقہ غزوات کے برعکس اس بار اعلان کیا کہ "ہم تبوک جا رہے ہیں" اور یہ اس لئے تھا کہ لوگ اس طویل سفر کی تکالیف کو مدنظر رکھ کر سفر کی تیاری کریں۔[50] مسلمانوں نے دل کھول کر مدد کی۔[51] تقریبا 30000 افراد پر مشتمل لشکر۔[52] جس میں 10000 ہزار گھوڑے۔[53] اور 12000 اونٹ۔[54] شامل تھے تبوک کی جانب عزیمت کے لئے تیار ہوا۔
دوسری طرف سے منافقین نے کسی عذر کے بغیر سپاہ اسلام میں شمولیت سے انکار کیا۔[55]، اور دوسروں کو بھی گرمی کی شدت اور دیگر بہانوں سے جنگ میں شرکت سے روکا۔[56]
سپاه اسلام تبوک میں
سپاہ اسلام بہت زیادہ صعوبتیں جھیل کر آخر کار تبوک میں داخل ہوئی۔[57] رسول اللہؐ نے تبوک میں 20 دن تک قیام فرمایا جبکہ ہرقل حمص ميں ہی مقیم رہا[58] معلوم ہوا کہ رومی جنگ کا ارادہ ترک کرچکے ہیں یا الواقدی کے بقول "معلوم ہوا کہ رومیوں کی لشکرکشی کی خبر درست تھی"۔[59]
گوکہ مسلمانوں کو اس سفر کے دوران بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم یہ ایک بڑی آزمایش تھی جس سے گذرکر مسلمانوں نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ ہر حال میں اسلام کا تحفظ کرتے ہیں۔ دوسری طرف سے منافقین مکمل طور پر بے نقاب ہوئے اور اسلامی معاشرے نے ان کو بخوبی پہچان لیا۔ نیز رسول اللہؐ نے راستے میں سرحدی علاقوں میں مقیم بعض قبائل کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کئے جو اسلامی مملکت کے امن و سلامتی میں بہت اہم ثابت ہوئے۔[60]
بایں حال بعض روایات کے مطابق، روم کے فرمانروا نے اپنے نمائندے آپؐ کے پاس روانہ کئے جنہیں آپؐ نے محبت کے ساتھ قبول کیا۔[61] اسی دوران رسول اللہؐ نے دومۃ الجندل کے حاکم اُکیدِر بن عبدالملک کِندی، نیز "اَذرُح"، "جربا" اور "اَیلہ" کے باشندوں کے ساتھ جزیہ کی ادائیگی کی شرط پر صلح کرلی۔[62]
مدینہ واپسی
رسول اللہؐ کے ماہ مبارک رمضان سنہ 9 ہجری میں مدینہ تشریف فرما ہوئے۔[63]
آنحضرتؐ نے ان لوگوں کی قسم قبول کرلی جو مسلمان تھے لیکن منافقین کی افواہوں یا ذاتی اور خاندانی مسائل کی وجہ سے جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے؛ تاہم حکم دیا کہ تین افراد کا مقاطعہ کریں۔ ان افراد نے توبہ کرلی اور خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی اور اسی مناسبت سے سورہ توبہ کی آیات 117 تا 119 نازل فرمائیں۔[64]
منافقین کا رسول اللہؐ پر قاتلانہ حملہ
تبوک سے واپسی کے دوران "عقبہ" کے مقام پر بعض منافقین نے رسول خداؐ پر قاتلانہ حملہ کرنے کی سازش بنائی لیکن خداوند متعال نے اپنے حبیب کو سازش سے آگاہ کیا اور آپؐ نے حذیفہ اور عمار کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے تاکہ گھاٹی سے گذر جائیں۔ نقاب پوش منافقین نے آپؐ کی اونٹنی کو ہنکانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ عمار بن یاسر آپؐ کی اونٹنی کی باگ پکڑے ہوئے تھے اور حذیفہ پیچھے سے ہانک رہے تھے۔ چلتے چلتے منافقین کے ایک گروہ نے آپؐ کو گھیر لیا۔ آپؐ نے انہیں ڈانٹا؛ حذیفہ نے رسول اللہؐ کے حکم پر ان اپنے ڈنڈے سے ان کی سواریوں کا منہ موڑ دیا؛ اور فرار ہوکر لشکر میں بکھر گئے۔[65] رسول خداؐ نے حملہ آور منافقین کے نام حذیفہ اور عمار کے لئے فاش کردیئے تھے اور انہیں امانت داری کا حکم دیتے ہوئے انہیں خفیہ رکھنے کی ہدایت کی تھی۔
تفصیل کے لئے رجوع کریں: اصحاب عقبہ
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام تبوک ۔،دانشنامہ جہان اسلام غزوه تبوک، شماره2357۔
- ↑ الواقدي، المغازي، ج3، ص989ـ990۔،ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم 1، ص150ـ 151۔،البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔
- ↑ الواقدي، المغازي، ج3، ص989ـ990۔؛ نیز رجوع کریں: ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم1، ص150ـ 151۔؛البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔
- ↑ عروة بن زبیر، مغازي رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہ، ص220۔؛الزہري، المغازي النبويۃ، ص106۔؛الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101۔
- ↑ تاریخ یعقوبی، ج2، ص67۔
- ↑ ابن ابي شيبۃ، المصنف، ج7، ص423۔
- ↑ سوره توبہ، آیت 79۔،مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، ج7، ص: 414۔
- ↑ عروة بن زبیر، مغازي رسول الله صلی الله علیہ وآلہ، ص220۔،الواقدي، المغازي، ج3، ص995ـ 996۔،ابن ہشام، السيرة النبويۃ، ج4، ص168ـ169۔،الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101ـ 102، 108۔
- ↑ الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص103۔
- ↑ عروة بن زبیر، مغازي رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، ص221۔،نیز رجوع کریں: الطبرسي، اِعلام الوری بأعلام الہدی، ج1، ص245ـ247۔
- ↑ ہمدانی، محمد باقر موسوی، ترجمہ تفسیرالميزان، ج9، ص400 اور بعد کے صفحات۔
- ↑ ابن ہشام، السیرة النبويۃ، ج4، 158۔
- ↑ رجوع کریں: المسعودی، التنبیہ والاشراف، ص270ـ271۔
- ↑ الطبري، تاریخ الطبري، ج2، ص368۔
- ↑ الطبري، وہی ماخذ۔،الزہري، المغازي النبويۃ، ، ص111۔،ابن اثیر، الكامل في التاريخ، ج1، ص306۔
- ↑ صنعانی، المصنَّف ، ج5، ص405ـ406۔،بخاری، التاریخ الکبیر، ج7، جزء4، قسم 1، ص301۔،ابونعیم اصفہانی، حليۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ج4، ص375؛ ج7 ص195ـ197؛ ج8، ص307۔،بیهقی، السنن الکبری، ج13، ص275ـ276۔،خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج4، 56، 176؛ ج5، ص332؛ ج10، ص499۔،ہیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص109۔،متقی، کنز العمال، ج11، ص599؛ ج13، ص151، 192 ۔
- ↑ المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔،بحار الانوار، ج21، ص208۔،الحاكم النيسابورى، المستدرك على الصحيحين، ج2، ص337۔
- ↑ مثلاً رجوع کریں: کوفی، مناقب الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیهالسلام، ج1، ص499ـ542۔،ابن بطريق، عمدة عيون صحاح الأخبار في مناقب إمام الأبرار، ص126 به بعد۔
- ↑ علم الہدی، الشافی فی الامامۃ، ج3، ص5 اور اگلے صفحات۔،الطوسي، نصیرالدین، تجریدالاعتقاد، ص230۔،نیز رجوع کریں: جاحظ، البيان والتبيين، ص153ـ160۔،ابن تیمیۃ، منہاج السنۃالنبويۃ، ج7، ص325 اور بعد کے صفحات۔
- ↑ المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔،المجلسی، بحار الانوار، ج21، ص208۔،الطبري، تاريخ الطبري، ج2، ص368۔،ابن اثیر، الكامل في التاريخ، ج1، ص306۔،ابن ہشام، السيرة النبويۃ، ج4، ص163۔،الحلبي، السيرة الحلبيۃ، ج3، ص104۔،البلاذري، انساب الاشراف، ترجمۃ امير المؤمنين، ص10۔،ابن كثير، البدايۃ والنہايۃ، ج5، ص7۔
- ↑ رسولی محلاتی، زندگانى حضرت محمدؐ ص596 اور بعد کے صفحات۔
- ↑ التستري، احقاق الحق،ج 5،صص 234ـ 132۔
- ↑ رجوع کریں: جعفری، تاريخ اسلام از منظر قرآن [جنگ تبوک]، ص228 اور بعد کے صفحات۔
- ↑ سوره توبہ، آیات 38-39۔
- ↑ سوره توبہ، آیات 41۔
- ↑ سوره توبہ، آیات 81-82۔
- ↑ سوره توبہ، آیہ 91۔
- ↑ سوره توبہ، آیہ 42۔
- ↑ سوره توبہ، آیہ 43۔
- ↑ سوره توبہ، آیات 44-45۔
- ↑ سوره توبہ، آیات 47-46۔
- ↑ سوره توبہ، آیات 48۔
- ↑ سوره توبہ، آیہ 49۔
- ↑ ہمدانی، محمد باقر موسوی، ترجمہ تفسیرالميزان، ج9، ص400 اور بعد کے صفحات۔
- ↑ سوره توبہ، آیات 83۔
- ↑ سوره توبہ، آیہ 94۔
- ↑ سوره توبہ، آیہ 117۔
- ↑ سوره توبہ، آیہ 117۔
- ↑ ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج4، ص179۔،ابن حنبل، مسند احمد، ج6، ص389۔، سبل الہدی والرشاد، ج9، ص379۔
- ↑ الواقدي، المغازي، ج3، ص992۔،الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101ـ102۔
- ↑ رجوع کنید به البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔
- ↑ نیز رجوع کریں: عروة بن زبیر، ص220۔
- ↑ واقدی ج3، ص992، 996، 1002۔،ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم1، ص199۔
- ↑ سبحانی، منشور جاوید ج7 ص72۔
- ↑ سبحانی، منشور جاوید ج7 ص72۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، ج7، ص: 414۔
- ↑ همدانی، محمد باقر موسوی، ترجمه تفسیرالميزان، ج9، ص400 اور بعد کے صفحات۔
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، ج2، ص165۔،الحلبي، السيرة الحلبیۃ، ج3، ص99۔،الطبري، تاریخ الامم و الملوک، ج3، 142۔
- ↑ الواقدی، المغازی، ج3، ص992۔،الطبري، تاریخ الامم و الملوک، ج3، 142۔،ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج4، 159۔
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، ج2، ص165۔،الواقدی، المغازي، ج3، ص991۔990؛ 991؛ 996۔،الحلبی، السیرة الحلبیۃ، ص99۔،ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ص160۔،الطبرسي، اعلام الوری، ص122۔
- ↑ طبری، تاریخ، ج3، ص142۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات، ج2، ص166۔،الحلبی، السیرة الحلبیۃ، ص102۔
- ↑ الواقدی، المغازی، ج3، ص1002۔، ابن سعد، الطبقات، ج2، ص166۔
- ↑ مسعودی، التنبیہ والإشراف، ص235۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات، ج2، ص166-165۔،الواقدی، المغازی، ج3، ص995۔
- ↑ الواقدی، المغازی، ج3، ص993۔،ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج4، ص 106۔
- ↑ رجوع کنید به الواقدي، المغازي، ج3، ص999۔
- ↑ الواقدي، المغازى، ج 2، ص 1015۔،ابن سعد، الطبقات، ج2، ص119۔121۔
- ↑ الواقدی، المغازی، ج3، ص1019۔
- ↑ جعفرى، يعقوب، تاريخ اسلام از منظر قرآن، ص227۔
- ↑ رجوع کنید به البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔،الواقدي، المغازي، ج3، ص999۔
- ↑ الواقدي، المغازي، ج3، ص1029ـ1032۔،ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص37۔،البلاذري، فتوح البلدان، ص59، 68۔،الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص108ـ 109۔
- ↑ الواقدي، المغازي، ج3، ص1056۔،الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص68۔
- ↑ الزہري، المغازي النبويۃ، ص108ـ111۔،الواقدي، المغازي، ج3، ص1049ـ 1056۔،الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص111۔،نیز رجوع کریں: ابن قدامۃ، کتاب التوابین، ص94ـ101۔
- ↑ ابن كثير، البدايۃ والنہايۃ، ج5، ص24-25۔،ابن حنبل، مسند، ج5، ص390-391۔
مآخذ
- قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقوی (لکھنوی)۔
- ابن الاثیر، علی بن أبی الکرم محمد بن محمد الشیبانی، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، انتشارات اسماعیلیان تہران - ایران۔
- إبن البطریق، یحیى بن الحسن الأسدی الحلی ((533 – 600 ه)، عمدة عیون صحاح الأخبار فی مناقب إمام الأبرار، الناشر: مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین بقم المشرفۃ، 1407 ه
- ابن تیمیۃ، أحمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام الحرانی، منہاج السنۃ النبویۃ، جامعۃ محمد بن سعود، ت: محمد رشاد سالم، الطبعۃ الأولى، 1406 ه / 1986 ع
- ابن سعد، أبو عبد الله محمد بن سعد بن منیع البصری، البغدادی (المتوفى: 230هـ)، الطبقات الکبری، المحقق: إحسان عباس، الناشر: دار صادر - بیروت الطبعۃ: الأولى، 1968ع
- [إبن قدامہ] المقدسی، موفق الدین بن أحمد بن محمد، کتاب التوابین، المحقق: الأرناؤوط، دار الکتب العلمیۃ، 1407 ه / 1987 ع
- ابن کثیر، اسماعیل، البدایۃ والنہایۃ، تحقیق: علی شیری، ط دار إحیاء التراث العربی، الطبعۃ الاولى 1408 ه / 1988 ع
- ابن ہشام، السیرة النبویۃ، مصطفی سقا، ابراہیم ابیاری و عبدالحفیظ شلبی، قاہره، 1355 ه / 1936 ع
- البلاذری، احمد بن یحیی انساب الاشراف، چاپ محمد حمیداللّه، مصر، 1959 ع
- البلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، چاپ دخویہ، لیدن، 1866، چاپ افست فرانکفورت، 1413 ه / 1992 ع
- التستري، القاضي نور الله الحسيني المرعشي "الشہيد"، احقاق الحق وازہاق الباطل، تعلیقات: المرعشي النجفي، منشورات مکتبۃ آیت الله العظمی المرعشي النجفي.
- جاحظ، عمرو بن بحر العثمانی، البيان والتبيين، چاپ عبد السلام محمد ہارون، قاہره، 1374 ه / 1955ع
- الزہری، محمد بن مسلم، المغازی النبویۃ، المحقق: سہیل زکار، دار الفکر، دمشق - 1401 ه / 1981 ع
- إبن حنبل، أحمد بن محمد الشیبانی المروزی البغدادی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، دار صادر بیروت۔
- الطبرسی، فضل بن حسن، اِعلام الوری بأعلام الہدی، قم، 1417 ه
- الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الرسل والملوک، (التاریخ الطبری)، محمد ابوالفضل ابراہیم، الطبعۃ الثانیۃ، دار المعارف مصر، النشر: 1387 ه / 1967 ع
- عروة بن زبیر، مغازی رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہ، بروایۃ ابی الاسود، ط محمد مصطفی اعظمی، ریاض، 1401 ه / 1981 ع
- علم الہدی، علی بن حسین بن موسی بن محمد بن موسی بن ابراہیم بن امام موسی کاظمؑ، الشافی فی الامامۃ، چاپ عبدالزہراء حسینی خطیب، تہران، 1410 ه
- الکوفی، محمدبن سلیمان، مناقب الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، چاپ محمدباقر محمودی، قم، 1412 ه
- المسعودی، ابو الحسن علی بن حسین بن علی، التنبیہ والاشراف، لیدن، 1894 ع بمطبعۃ بریل، افیست دار صادر بیروت۔ لبنان۔
- الطوسی، محمدبن محمد نصیرالدین، تجرید الاعتقاد، چاپ محمدجواد حسینی جلالی، قم، 1407 ه
- الواقدی، محمدبن عمر، المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن، 1966ع
- الیعقوبی، أحمد بن أبی یعقوب بن جعفر، تاریخ الیعقوبی، مؤسسہ ونشر فرہنگ اہل بیتؑ - قم ۔ دار صادر بیروت 1379 ه / 1960 ع
- الصنعانی، عبدالرزاق بن ہمام، المصنَّف، چاپ حبیب الرحمان اعظمی، بیروت 1403 ه / 1983ع
- ابن ابی شیبۃ، المصنَّف فی الاحادیث والآثار، چاپ سعید محمد لحّام، بیروت 1409ه / 1989ع
- البخاری، محمدبن اسماعیل، کتاب التاریخ الکبیر، بیروت۔ 1986ع
- الإصفہانی، أبو نعیم أحمد بن عبد الله، حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء، بیروت 1407 ه / 1987 ع
- البیہقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، بیروت 1424ه / 2003 ع
- البغدادی، أحمد بن علی الخطیب (المتوفى 463 ه)، تاریخ بغداد أو مدینۃالسلام، تحقیق: مصطفى عبد القادر عطا، دار الکتب العلمیۃ بیروت - لبنان الطبعۃ الاولى 1417 ه / 1997 ع۔
- الہیثمی، علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، بیروت 1402 ه / 1982 ع
- المتقی الہندی، علی بن حسام الدین، کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، ط بکری حیانی و صفوة سقا، بیروت 1409 ه / 1989 ع
- ابن حنبل، احمد، مسند ابن حنبل، بیروت 1414 ه /1993 ع
- المجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، مؤسسۃ الوفاء - بیروت - لبنان - الطبعۃ الثانیۃ 1403 ه / 1983 ع
- المفيد، الشيخ محمد بن محمد بن النعمان، الارشاد في معرفۃ حجج الله علي العباد، مؤسسۃ ال البيتؑ لإحیاء التراث، قم 1413ه
- الحاکم النیسابورى، محمد بن عبد الله بن محمد (المتوفی ۴۰۵ه)، المستدرک على الصحیحین، تحقیق: دکتور یوسف المرعشلى، الطبعۃ الاولى ، دار المعرفۃ، بیروت - لبنان۔ 1406 ه
- الصالحی الشامی، سبل الہدى والرشاد ...، دار الکتب العلمیۃ بیروت - لبنان الطبعۃ الأولى 1414 ه - 1993 ع
- الطبرسي، الفضل بن الحسن، إعلام الورى بأعلام الہدى، مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث، قم 1417ه
- المسعودی، التنبیہ والاشراف، دار الصاوی للطبع والنشر، القاہرة۔
- جمعی از نویسندگان؛ زیرنظر ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، دارالکتب الاسلامیہ، طہران ـ 1353 هجری شمسی۔
- ہمدانی، محمد باقر موسوی، ترجمہ تفسیرالمیزان، (تفسیر عربی: طباطبائی، سید محمد حسین (1281-1360ه)، جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1374 ه
پچھلا غزوہ: طائف |
رسول اللہؐ کا آخری غزوہ غزوہ تبوک |
٭٭٭ *** |