ہند بنت عتبہ (متوفی 14ھ) ہند جگرخوار کے نام سے معروف ابو سفیان کی بیوی اور معاویہ کی ماں ہے۔ جنگ احد میں مشرکین کو مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی ترغیب دیتی رہی اور جنگ کے اختتام پر حمزہ بن عبدالمطلب کا سینہ چاک کرکے ان کا کلیجہ چبایا۔ اسی طرح مسلمان مقتولین کے ناک اور کان وغیرہ سے ہار بنایا۔ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئی اور خلیفہ دوم کے دور میں وفات پائی۔

ہند بنت عتبہ
کوائف
مکمل نامہند بنت عتبہ بن ربیعۃ بن عبد شمس
اقاربابو سفیانمعاویہ
وفات14ھ
دینی معلومات
اسلام لانافتح مکہ
جنگوں میں شرکتجنگ احد میں مشرکین کے ساتھ اور جنگ یرموک میں مسلمانوں کے ساتھ۔
وجہ شہرتہند جگر خوار (حمزہ سید الشہداء کا کلیجہ چبانے پر اس نام سے مشہور ہوئی)

زندگی‌ نامہ

ہند عتبۃ بن ربیعۃ بن عبد شمس[1] اور صفیہ بنت أمیہ بن حارثہ کی بیٹی تھی۔[2] اپنے زمانے میں قریش کی خوبصورت[3] اور ذہین عورتوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔[4] بعض مآخذ میں اس سے منسوب مختلف اشعار نقل ہوئے ہیں۔[5]

ابتداء میں ہند نے حفص بن مغیرہ مخزومی سے شادی کی تھی۔[6] جس سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام أبان تھا[7] لیکن کچھ مدت بعد انہیں طلاق ہوگئی۔[8] حفص سے جدائی کے بعد بغیر مشورت کے انہیں حفص کی زوجیت میں دینے پر ا­نہوں نے اپنے والد کی ملامت کی۔[9] اس کے بعد انہوں نے ابو سفیان سے شادی کی۔[10] ابو سفیان سے ان کے دو بیٹے معاویہ اور عتبہ[11] اور دو بیٹیاں جویریہ اور ام الحکم[12] پیدا ہوئیں۔ اہل سنت تاریخ دان ذہبی کے مطابق ابو سفیان نے بھی آخری عمر میں انہیں طلاق دی۔[13] خلیفہ دوم کے دور میں بیت المال سے چار ہزار درہم قرضہ لے کر تجارت شروع کی۔[14]

ابن جوزی ان کی تاریخ وفات کو خلیفہ دوم کے دور میں سنہ 14 ہجری قرار دیتے ہیں[15] جبکہ ابن حجر عسقلانی کے مطابق اس نے عثمان کے دور خلافت میں وفات پائی ہے۔[16]

جنگ احد میں شمولیت

ہند جنگ احد میں مشرکین کے ساتھ[17] شامل ہو کر انہیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی ترغیب دیتی تھی۔[18] ہند مختلف اشعار پڑھ کر مشرکین کو جنگ کی ترغیب دیتی تھی: "ہم صبح کے ستاروں کی بیٹیاں ہیں۔ اگر جنگ میں کامیاب سے پیش قدمی کرو گے تو ہم تمہارے لئے اپنی آغوش پھیلائیں گے اور تہمارے بستر گرم کریں گے۔ لیکن اگر میدان جنگ سے بھاگ جاؤ گے تو ہم بھی تم لوگوں سے دوری اختیار کریں گے"۔[19]

جنگ احد کے اختتام پر جنگ بدر میں مارے جانے والے کفار کے انتقام لینے کے حوالے سے بھی انہوں نے اشعار پڑھے۔[20] جنگ بدر میں ہند کے والد عتبہ بن ربیعہ، چچا شیبہ اور بھائی ولید مارے گئے تھے[21] اس بنا پر جنگ بدر کے بعد ہند ہمیشہ ان مقتولین کا انتقام لینے کی بات کیا کرتی تھی اور قریش کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی ترغیب دیتی رہتی تھی۔[22]

حمزہ اور شہدائے احد کی لاشوں کا مثلہ کرنا

جنگ احد میں ہند نے وحشی نامی ایک غلام کو حضرت محمدؐ، حضرت علیؑ یا حمزۃ بن عبدالمطلب میں سے کسی ایک کو قتل کرنے پر مأمور کیا۔[23] وحشی نے حضرت حمزہ کو شہید کر دیا۔[24] ہند نے حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کیا[25] اور ان کا کلیچہ نکال کر چبایا[26] پھر اسے حضرت حمزہ کے بدن کے بعض دیگر اعضاء کے ساتھ مکہ لے کر گئی۔[27] حضرت حمزہ کے بدن کو مثلہ کئے جانے سے متعلق یہ اشعار بھی ان سے منسوب ہیں:

شفیت من حمزة نفسی بأحدحتی بقرت بطنه عن الکبد
میرے اندر جو حزن و اندوہ تھا وہ جنگ احد کے دن حمزہ کے ذریعے ختم ہواجب میں نے ان کا پیٹ چاک کیا اور ان کا کلیجہ باہر نکالا
أذهب عنی ذاک ما کنت أجدمن لذعة الحزن الشّدید المعتمد[28]
تو اس چیز نے میرے اندر موجود اس غم و اندوہ کو ختم کیا جس کی آگ مجھے اندر سے جلا رہی تھی"۔

پیغمبر اکرمؐ نے انہیں حضرت حمزہ کا کلیچہ چبانے پر "آکلَۃَ الْأَکبَاد" یعنی جگر خوار کا نام دیا۔[29] ان کی اولاد بھی (ابْن آکلَۃ الْأَکبَاد) جگر خور کی اولاد کے نام سے مشہور ہوئیں۔[30]

ہند اور مشرکین کی دوسری خواتین نے جنگ احد میں شہید ہونے والے دیگر شہداء سوائے حنظلہ بن ابی‌ عامر کہ ان کا باپ مشرکین کے ساتھ تھا، کی لاشوں کی بے حرمتی کیں۔[31] ہند نے شہداء کے ناک اور کان سے ہار اور دستبند بنائے۔[32]

اسلام قبول کرنا

فتح مکہ کے موقع پر اپنے شوہر ابو سفیان کے اسلام لانے کے بعد ہند نے بھی اسلام قبول کیا۔[33] اسی بنا پر انہیں بھی صحابہ کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔[34] اگرچہ بعض مآخذ میں اس بات پر شک و تردید پایا جاتا ہے کہ انہوں نے حقیقی طور پر اسلام قبول کیا تھا یا نہیں۔[35] ہند نقاب پہن کر پیغمبر اکرمؐ کے پاس گئی اور آپ پر ایمان لے آنے کے بعد چہرے سے نقاب اتار پھینکی۔[36] اس سے پہلے پیغمبر اکرمؐ نے انہیں مہدور الدم ٹہرایا تھا۔[37]

ابن عساکر کے مطابق جب ہند اسلام لے آئی تو پیغمبر اکرمؐ نے اس سے فرمایا خدا کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹہراؤ، زنا مت کرو، چوری مت کرو۔ ہند نے کہا: مگر کوئی آزاد انسان بھی زنا کا مرتکب ہوتا ہے؟ اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہند نے جواب دیا: ہم نے تو اپنی اولاد کو بڑا کیا تھا لیکن آپ نے جنگ بدر میں انہیں قتل کر دیا۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا انہیں خدا نے قتل کیا ہے۔[38] بعض مآخذ کے مطابق ہند مکہ میں زنا میں مشہور تھی،[39] لیکن اس بات پر کوئی قرائن و شواہد ان مآخذ میں ذکر نہیں ہیں۔[40]

اسی طرح مسلمان ہونے کے بعد جب پیغمبر اکرمؐ نے ہند سے اسلام کے متعلق سوال کیا تو اس نے اسلام کی تعریف کی سوائے تین چیزوں کے: رکوع، دوپٹہ اور کالے غلام کا خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر فریاد کرنا (بلال حبشی کی اذان کی طرف اشارہ ہے)۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا رکوع کے بغیر نماز مکمل نہیں ہوتی، وہ کالا غلام خدا کا نیک بندہ ہے، اور پردہ کے لئے دوپٹہ سے بہتر اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟[41]

ہند نے ابو سفیان کے ساتھ جنگ یرموک میں شرکت کی اور مسلمانوں کو رومیوں کے ساتھ جنگ کی ترغیب دلائی۔[42]

حوالہ جات

  1. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۷۱۵۔
  2. ابن حبیب، المحبر، دار الآفاق الجدیدۃ، ص۱۹۔
  3. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۲۹۸۔
  4. ابن اثیر، أسدالغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۲۹۲۔
  5. بشیر یموت، شاعرات العرب فی الجاہلیۃ و الإسلام، ۱۳۵۲ق، ج۱،‌ ص۱۲۸۔
  6. ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۲۹۳۔
  7. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۸، ص۱۸۷۔
  8. الطبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۱۵ق، ج۲۵، ص۶۹۔
  9. سبط بن جوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الأعیان، ۱۴۳۴ق، ج۵، ص۲۰۴۔
  10. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۸، ص۱۸۷۔
  11. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ۱۴۰۲ق، ج۲۷، ص۱۸۰۔
  12. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۵۔
  13. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۲۹۹۔
  14. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۲۹۹۔
  15. سبط بن جوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الأعیان، ۱۴۳۴ق، ج۵، ص۲۰۶۔
  16. ابن حجر عسقلانی، الإصابۃ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۳۴۷۔
  17. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۱۱۔
  18. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۱۶۔
  19. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۹۲۲۔
  20. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج۲، ص۹۱۔
  21. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۹۷۔
  22. شحاتۃ، معاویۃ بن أبی‌ سفیان، دار الخلفاء الراشدین، ج۱، ص۶۹۔
  23. شیخ مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۸۳۔
  24. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۷۹۔
  25. ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۵۳۰۔
  26. ابن اثیر،‌ الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۲،‌ ص۱۵۹۔
  27. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق،ج۴، ص۲۸۷۔
  28. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج۲، ص۹۲۔
  29. مجلسی،‌ بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۰، ص۲۹۶۔
  30. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۴۰۴ق،‌ ص۱۷۹۔
  31. ابن اثیر، أسدالغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۵۳۰۔
  32. صالحی دمشقی، سبل الہدی، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۲۲۰۔
  33. ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۲۹۲۔
  34. ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۲۹۳؛ ابو نعیم اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۱۹ق، ج۶، ص۳۴۶۰۔
  35. شوشتری، قاموس الرجال، ۱۴۱۰ق، ج۱۲،‌ ص۳۵۰۔
  36. مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱۳، ص۳۸۹۔
  37. دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۹۴۔
  38. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۰۲ق، ج۷۰، ص۱۷۸۔
  39. ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۴۰۴ق،‌ ج۱،‌ ص۳۳۶۔
  40. مہدی بن رزق‌اللہ، مزاعم و أخطاء۔۔۔، مجمع الملک فہد، ج۱، ص۵۴۔
  41. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۰۲ق، ج۷۰، ص۱۸۲۔
  42. ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۲۹۳۔

مآخذ

  • ابن أبی الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، تحقیق و تصحیح محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ق۔
  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،‌ بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ق۔
  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ،‌ بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ق۔
  • ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، المنتظم، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا،‌ بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۲ق۔
  • ابن حبیب، محمد، المحبر، تحقیق ایلزۃ لیختن شتیتر، بیروت، دارالآفاق الجدیدۃ، بی‌تا۔
  • ‌ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق عبد الموجود، عادل احمد، معوض، علی محمد، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔
  • ابن سعد کاتب واقدی، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، چاپ دوم، ۱۴۱۸ق۔
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ق۔
  • ابن عساکر، علی بن حسین، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۲ق،
  • ابن ہشام، عبد الملک، السیرۃ النبویۃ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الابیاری و عبدالحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفۃ، بی‌تا۔
  • ابونعیم اصفہانی، احمد بن عبداللہ، معرفۃ الصحابۃ، تحقیق محمد حسن اسماعیل شافعی، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، منشورات محمد علی بیضون، ۱۴۱۹ق۔
  • بشیر یموت، شاعرات العرب فی الجاہلیۃ والإسلام، بیروت، المکتبہ الاہلیہ، ۱۳۵۲ق۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۱۷ق۔
  • دیاربکری، تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری،‌ بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۴۰۹ق۔
  • سبط بن جوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الأعیان، دمشق،‌ دار الرسالۃ العالمیۃ، ۱۴۳۴ق۔
  • شحاتۃ، محمد صقر، معاویۃ بن أبی‌ سفیان: کشف شبہات و ردّ مفتریات:، الإسکندریۃ،‌ دار الخلفاء الراشدین، بی‌تا۔
  • شوشتری، محمد تقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۱۰ق۔
  • شیخ مفید، محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق۔
  • صالحی دمشقی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد،‌ بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۴ق۔
  • الطبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی بن عبد المجید السلفی، القاہرۃ، مکتبۃ ابن تیمیۃ، ۱۴۱۵ق۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق و تصحیح سید طیب موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، ۱۴۰۴ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔
  • مقریزی، تقی ‌الدین، امتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق محمد عبدالحمید نمیسی،‌ بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۰ق۔
  • مہدی بن رزق ‌اللہ، مزاعم و أخطاء و تناقضات و شبہات بودلی فی کتابہ: "الرسول، حیاۃ محمد" دراسۃ نقدیۃ، مدینۃ،‌ مجمع الملک فہد، بی‌تا۔
  • نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، قم، مکتبۃ آیۃاللہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ق۔