مُغِیرَہ بن شُعبَہ رسول خدا کے ان اصحاب میں سے ہے جس نے وصال پیغمبر کے بعد حضرت فاطمہ کے گھر حملے میں کردار ادا کیا۔ دوسرے خلیفہ کی جانب سے اسے بحرین، بصره اور کوفہ کی حکومتیں دی گئیں نیز وہ معاویہ کے دور حکومت میں کوفے کا حاکم رہا۔ وہ مسجد کوفہ کے منبر پر امام علیؑ اور ان کے شیعوں کو لعن کرتا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب کا قاتل ابو لؤلؤ مغیره کا غلام تھا۔

مغیرہ بن شعبہ
کوائف
مکمل ناممغیرہ بن شعبہ بن أبی‌عامر بن مسعود
کنیتابو عیسیٰ یا عبد اللہ
تاریخ پیدائشبعثت کے دوسرے یا تیسرے سال
مہاجر/انصارمہاجر
وفات۵۰ ہجری قمری(کوفہ)
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتجنگ یمامہ، جنگ یرموک، فتح شام اور عراق‌
وجہ شہرتصحابی

نسب، پیدائش، وفات

مغیرہ بن شعبہ بن أبی‌عامر بن مسعود قبیلۂ ثقیف سے تھا۔ کنیت ابو عیسیٰ یا عبد اللہ[1]تھی۔ وہ بعثت کے دوسرے یا تیسرے سال پیدا ہوا۔[2] اور ۵۰ ہجری قمری کو کوفہ میں فوت ہوا۔[3] اسے ایک چالاک شخص کہا گیا ہے۔[4]

زمانۂ پیامبر

اس نے سنہ5 ہجری قمری میں اسلام قبول کیا نیز صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان میں موجود تھا۔[5] ۹ ہجری میں قبیلہ ثقیف کے اسلام لانے کے بعد رسول اللہ کے دستور کے مطابق مغیره اور ابو سفیان طائف گئے اور انہوں نے وہاں لات کے بت توڑے۔[6]

رحلت پیامبر کے بعد

شیخ مفید کے مطابق مغیره نے فاطمہ زہراؑؑ کے گھر پر حملہ کرنے، امام علی اور ان کے بعض اصحاب سے زبردستی بیعت لینے میں کردار ادا کیا۔[7] الاحتجاج مذکور ہے امام حسنؑ نے مغیرہ سے توبیخ آمیز گفتگو میں کہا: تو ہی تھا کہ جس نے فاطمہؑ کو اس طرح زد و کوب کیا کہ وہ زخمی ہو گئیں اور ان کے شکم میں موجود محسن کی شہادت اسی وجہ سے واقع ہوئی۔[8]

زمانہ خلفا

مغیره نے پہلی خلافتوں کے دور میں ہونے والی جنگوں جنگ یمامہ جو مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کے ساتھ ہوئی اور جنگ یرموک نیز فتح شام اور عراق‌ میں شرکت کی۔[9]

عمر بن خطاب نے اسے حکومت بحرین کیلئے بھیجا۔ لیکن وہاں کے لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا اور انہوں نے حضرت عمر بن خطاب سے اس کی شکایت کی۔ اسی وجہ سے عمر بن خطاب نے اسے معزول کیا اور اسے بصره کی حاکمیت سونپ دی۔ اس کے بعد چند لوگوں نے مغیرہ کے زنا کی شہادت دی تو عمر بن خطاب نے اسے معزول کرکے کوفہ کی حکومت سونپ دی۔[10] یہ ان پہلے افراد میں سے ہے جس نے حضرت عمر بن خطاب کو امیرالمومنین کے لقب سے سلام کیا۔[11] منابع میں آیا ہے کہ قاتل عمر بن خطاب ابو لولو مغیره کا غلام تھا۔[12]

عثمان بن عفان نے خلافت کے ایک سال بعد اسے کوفہ کی حاکمیت سے معزول کر دیا۔[13] اور کچھ عرصہ کیلئے ارمنستان اور آذربایجان کا گورنر مقرر کیا[14]

اس نے امر خلافت میں امیرالمومنین علیؑ کی بیعت نہیں کی نیز ان کے دور میں ہونے والی جنگوں میں بھی شریک نہیں ہوا۔[15] ماجرائے حکمیت کے بعد معاویہ کی بیعت کی تو معاویہ نے اسے دوبارہ کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور وفات تک یعنی ۵۰ ق تک اس عہدے ہر باقی رہا۔[16] صلح امام حسن کے معاملے میں مغیره ان افراد میں سے تھا جنہیں معاویہ نے امام حسن سے صلح کیلئے بھیجا۔[17]

تاریخی مآخذ کے مطابق مغیره پہلا شخص ہے جس نے معاویہ کو یزید کی ولایت عہدی کا مشورہ دیا۔[18] لیکن یہ واقعہ ۵۶ ق میں ذکر ہوا ہے اور اسکی وفات ۵۰ قمری ہے لہذا یہ دونوں قضایا باہم سازگار نہیں ہیں۔

عداوت علی ؑ

مغیره کا نام دشمنان امام علیؑ میں آتا ہے اور یہ ان افراد میں سے ہے جو حضرت علی کو برا بھلا کہتے تھے۔[19] معاویہ کے دور حکومت میں کوفہ کی حاکمیت کے ایام میں منبر پر جا کر علی اور ان کے شیعوں کو ناسزا کہتا اور ان پر لعنت کرتا تھا۔[20]

مغیره بن شعبہ نے صعصعہ بن صوحان کہ جو اصحاب امام علی میں سے تھے اور ایک توانا خطیب تھے، ان سے کہا عثمان کے عیوب بیان کرنے سے ہاتھ روکو اور علی کی فضیلتیں بیان کرنے سے کنارہ کشی کرو۔ میں علی کے فضائل سے تمہاری نسبت زیادہ آگاہ ہوں لیکن اس وقت قدرت ایسے حاکم کے اختیار میں ہے کہ جو ہمیں عثمان کی برائیاں بیان کرنے کی سزا دے گا۔[21]

حوالہ جات

  1. عسقلانی، الإصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۵۶؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۱۶۲
  2. دیار بکری، تاریخ الخمیس، بی‌ تا، ج۱، ص۲۹۳
  3. عسقلانی، الإصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۵۷؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۱۶۲
  4. عسقلانی، الإصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۵۶
  5. عسقلانی، الإصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۵۶؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۱۶۲
  6. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۷۸ق، ج۳، ص۹۹
  7. مفید، الجمل، ص۱۱۷؛ مفید(منسوب)، الاختصاص، ص۱۸۶؛ طبرسی، الاحتجاج، ج۱، ص۸۳-۸۴
  8. طبرسی، الإحتجاج، ج۱، ص۲۷۸
  9. عسقلانی، الإصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۵۶
  10. ذہبی، تاریخ الإسلام، ج۴، ص۱۲۱؛ عسقلانی، الإصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۵۷؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۱۶۲
  11. عسقلانی، الإصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۵۷
  12. دیار بکری، تاریخ الخمیس، بی‌ تا، ج۲، ص۱۸۱؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳ ص۲۶۶
  13. طبری، تاریخ، ۱۳۷۸ق، ج۴، ص۲۴۴؛ ابن حجر عسقلانی، الإصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۵۷
  14. ابن أعثم، الفتوح، ج۲، ص۳۴۶
  15. ذہبی، تاریخ الإسلام، ج۴، ص۱۲۱
  16. عسقلانی، الإصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۵۷
  17. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بی تا، ج۲، ص۲۱۵
  18. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۳۰۱-۳۰۲؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۵۰۳-۵۰۴
  19. ثقفی، الغارات، ج۲، ص۵۱۶
  20. اصفہانی، الاغانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۷، ص۹۰؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، بی‌ تا، ج۸، ص۵۰
  21. ابن‌اثیر، الکامل، ۱۹۶۵م، ج۳، ص۴۲۹.

مآخذ

  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ‏، بیروت، دار الصادر، ۱۳۸۵ق
  • ابن حجر عسقلانی‏، الإصابہ فی تمییز الصحابة، بیروت، دار الکتب العلمیة، ۱۴۱۵ق
  • ابن حزم اندلسی، جمهرة أنساب العرب‏، بیروت‏، دار الکتب العلمیة، ۱۴۱۸ق
  • ابن کثیر دمشقی‏، البدایہ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، بی‌ تا
  • اصفهانی، ابو الفرج، الأغانی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۱۵ق
  • ثقفی‏، ابراهیم بن محمد، الغارات‏، قم، دار الکتاب‏، ۱۴۱۰ق
  • دیار بکری‏، تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس‏، بیروت، دار الصادر، بی‌ تا
  • طبری، تاریخ الأمم و الملوک‏، دوم، بیروت، دار التراث‏، ۱۳۷۸ق
  • مقریزی‏، تقی الدین، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدة و المتاع‏، بیروت، دار الکتب العلمیة، ۱۴۲۰ق
  • یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌ تا
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار الكتب العلمية، دوم، ۱۴۱۸ق
  • ابن اعثم، الفتوح، بیروت، دار الأضواء، ۱۴۱۱ق
  • شیخ مفید، الجمل و النصرة لسيد العترة في حرب البصرة، قم، كنگره شيخ مفيد، ۱۴۱۳ق
  • مفید(منسوب)، الاختصاص، قم، كنگره شيخ مفيد، ۱۴۱۳ق
  • ذہبی، تاريخ الإسلام و وفيات المشاهير و الأعلام‏، بیروت، دار الكتاب العربى‏، دوم، ۱۴۰۹ق
  • طبرسی، الاحتجاج على أهل اللجاج‏، مشهد، مرتضى‏، ۱۴۰۳ق