حضرت زینب سلام اللہ علیہا

کم لنک
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر سلیس
غیر جامع
ویکی شیعہ سے
(حضرت زینب(س) سے رجوع مکرر)

اس نام کے ساتھ مشابہت رکھنے والے دوسرے مقالات کے لئے زینب (ضد ابہام) دیکھئیں

حضرت زینبؑ
نامزینب بنت علیؑ
وجہ شہرتامام علیؑ کی صاحبزادی
کنیتام کلثوم
لقبعقیلۂ بنی ہاشم، عالمہ غیر مُعَلَّمہ، کاملہ ، فاضلہ
تاریخ پیدائش5 جمادی الاول، سنہ 5 یا6 ہجری ہجری
جائے پیدائشمدینہ
وفات15 رجب سنہ 63 ہجری
مدفندمشق
سکونتمدینہ
والدامام علیؑ
والدہحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
شریک حیاتعبداللہ بن جعفر
اولادمحمد، عون، علی، عباس، ام کلثوم
عمر57 سال
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


حضرت زینب سلام اللہ علیہا (5 یا - 62ھ) امام علی علیہ السلام و حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا کی بیٹی ہیں۔ حضرت زینب کے شوہر عبداللہ بن جعفر تھے۔ احادیث کے مطابق حضرت زینب کا نام پیغمبر اسلامؐ نے انتخاب کیا تھا۔ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے دور خلافت میں آپ کوفہ میں خواتین کے لئے تفسیر قرآن کا درس دیتی تھیں۔

واقعہ کربلا میں آپ اپنے بھائی امام حسینؑ کے ساتھ موجود تھیں۔ عاشورا کے دن آخری وداع میں امام حسینؑ نے حضرت زینب سے نماز شب میں آپ کے حق میں دعا کرنے کی سفارش کی۔ کربلا میں جنگ کے خاتمے کے بعد حضرت زینب کو دوسرے اسیروں کے ساتھ اسیری کی حالت میں کوفہ پھر وہاں سے شام بھیجی گئیں۔

کوفہ اور دربار شام میں حضرت زینب کا خطبہ مشہور ہے۔ آپ نے یزید کے دربار میں اپنے خطبوں کے ذریعے سامعین کو متاثر کیا جس کی بنا پر یزید امام حسینؑ کے قتل اور دیگر جرائم کی ذمہ داری کو ابن زیاد کی گردن پر ڈالنے نیز اس پر لعنت بھیجنے پر مجبور ہوا۔

آپ بہت زیادہ مصائب کا شکار ہوئیں اسی لیے آپ کو اُمّ المَصائب کا لقب دیا گیا ہے۔ حضرت زینب کے محل دفن کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں شام میں حرم حضرت زینب اور مصر میں مقام السیدۃ زینب آپ سے منسوب ہیں۔

اجمالی تعارف

حضرت زینب امام علیؑ و حضرت فاطمہؑ کی صاحبزادی ہیں۔[1] بعض منابع کے مطابق حضرت زینبؑ 5 جمادی‌ الاول 5[2] یا کو مدینہ میں پیدا ہوئیں۔[3]

لفظ زینب لغت عرب میں نیک منظر اور خوشبودار درخت[4] یا باپ کی زینت کے معنی میں آتا ہے۔[5] متعدد احادیث کے مطابق حضرت زینب کا نام پیغمبر اسلامؐ نے انتخاب کیا تھا۔ کہا گیا ہے کہ جبرئیل نے خدا کی طرف سے یہ نام پیغمبر اکرمؐ تک پہنچایا تھا۔[6] کتاب الخصائص الزینبیۃ میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت زینب کا بوسہ لیا اور فرمایا: میری امت کے حاضرین غایبین کو میری پوتی زینب کی کرامت سے آگاہ کریں؛ بتحقیق میری پوتی اپنی نانی حضرت خدیجہ کی طرح ہیں۔[7]

حضرت زینبؑ کے دسیوں القاب ہیں من جملہ بعض مشہور القاب یہ ہیں:
عقیلۂ بنی ہاشم، عالمۃ غَیرُ مُعَلَّمَہ، عارفہ، موثّقہ، فاضلہ، كاملہ، عابدہ آل علی، معصومۂ صغری، امینۃ اللہ، نائبۃ الزہرا، نائبۃ الحسین، عقیلۃ النساء، شریكۃ الشہداء، بلیغہ، فصیحہ اور شریكۃ الحسین۔[8]

آپ نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ مصائب کا سامنا کیا۔ جیسے رسول اللہ کی وفات، اپنی والدہ فاطمہ و حضرت علی کی زندگی کی سختیاں، شہادت امام حسن مجتبی، واقعۂ کربلا اور کوفہ و شام کی اسیری۔ ان لامحدود مصائب کی بنا پر آپ کو ام المصائب کے لقب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔[9]

حضرت زینب اتوار کی رات 15 رجب سنہ 63 ہجری کو اپنے شریک حیات عبداللہ بن جعفر کے ہمراہ سفر شام کے دوران وفات پائیں اور وہیں مدفون ہیں۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپ مدینہ یا مصر میں مدفون ہیں۔[10]

شریک حیات اور اولاد

حضرت زینب کی شادی سنہ 17 ہجری میں جعفر طیار کے بیٹے عبداللہ سے ہوئی اور اس شادی کے نتیجے میں خدا نے انہیں چار بیٹے: علی، عون، عباس، محمد اور ایک بیٹی بنام ام کلثوم عطا فرمائی۔[11] عون اور محمد واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔[12]

معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کیلئے ام کلثوم کا رشتہ مانگا لیکن امام حسینؑ نے انہیں اپنے چچا زاد بھائی قاسم بن محمد بن جعفر بن ابی طالب کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کیا۔[13]

فضائل اور مناقب

علمی کمالات

کوفہ اور دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار حضرت زینب کا عالمانہ کلام و خطبات آپ کے علمی کمالات کا واضح ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد ماجد حضرت علیؑ اور والدہ ماجدہ حضرت زہراؑ سے احادیث بھی نقل کی ہیں.[14]
اس کے علاوہ کوفہ میں حضرت علیؑ کی خلافت کے دوران خواتین کے لئے آپ کا درس تفسیر بھی آپ کے علم و دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔[15]

حضرت زينبؑ رسول اللہؐ اور علی و زہراءؑ کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسولؐ بھی تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے متعدد احادیث نقل کی ہیں۔[16]
حضرت زینبؑ نے مختلف موضوعات پر مشتمل متعدد احادیث حضرات معصومینؑ سے نقل کی ہیں منجملہ: شیعیان آل رسولؐ کی منزلت، محبت آل محمد، واقعۂ فدک، ہمسایہ، بعثت وغیرہ۔

سننے والوں کیلئے آپ کے خطبات اپنے والد ماجد امیر المؤمنین حضرت علیؑ کے خطبات کی یاد تازہ کرتے تھے۔[17] کوفہ اور یزید کے دربار میں آپ کا خطبہ نیز عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ آپ کی گفتگو اپنے والد گرامی کے خطبات نیز اپنی والدہ گرامی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدکیہ کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے۔[18]

کوفہ میں آپ کے خطبے کے دوران ایک بوڑھا شخص روتے ہوئے کہہ رہا تھا:

"میرے ماں باپ ان پر قربان ہو جائیں، ان کے عمر رسیدہ افراد تمام عمر رسیدہ افراد سے بہتر، ان کے بچے تمام بچوں سے افضل اور ان کی مستورات تمام مستورات سے افضل اور ان کی نسل تمام انسانوں سے افضل اور برتر ہیں۔[19]

عبادت

حضرت زینب كبریؑ راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں آپ نے کبھی بھی نماز تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔[20] آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔ فاطمہ بنت الحسینؑ کہتی ہیں:

شب عاشور پھوپھی زینبؑ مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے۔[21]

خدا کے ساتھ حضرت زینبؑ کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ حسینؑ نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا:

"یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل" ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا۔[22]

صبر و استقامت

حضرت زینبؑ صبر و استقامت میں اپنی مثال آپ تھیں۔ آپ زندگی میں اتنے مصائب سے دوچار ہوئیں کہ تاریخ میں آپ کو ام المصائب کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ کربلا میں جب اپنے بھائی حسینؑ کے خون میں غلطاں لاش پر پہونچیں تو آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کیا:

بار خدایا! تیری راہ میں ہماری اس چھوٹی قربانی کو قبول فرما۔[23]

آپ نے بارہا امام سجّادؑ کو موت کے منہ سے نکالا؛ منجملہ ان موارد میں سے ایک ابن زیاد کے دربار کا واقعہ ہے، جب امام سجّادؑ نے عبید اللہ بن زياد سے بحث کی تو اس نے آپؑ کے قتل کا حکم دیا۔ اس موقع پر حضرت زینبؑ نے بھتیجے کی گردن میں ہاتھ ڈال کر فرمایا: "جب تک میں زندہ ہوں انہیں قتل نہيں کرنے دونگی۔[24]

واقعۂ کربلا

شیخ مفید امام سجاد ؑ سے یوں روایت کرتے ہیں: شب تاسوعا میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا اور پھوپھی زینب میری تیمارداری میں مصروف تھیں۔ اسی اثنا میں امام حسینؑ اس خیمے میں گئے جہاں ابوذر غفاری کے غلام جوین انکے ساتھ تھے۔ آپ اپنی تلوار کو تیز کرتے ہوئے یہ شعر پڑھ رہے تھے:

یا دهر افّ لک من خلیلکم لک بالاشراق والاصیل
اے دنیا! تیری دوستی پر افسوس! کتنی صبح و شام تو نے
من صاحب او طالب قتیلوالدّہر لا یقنع بالبدیل
اپنے دوستوں اور حق طلب انسانوں کو قتل کیا ہےہاں روزگاربدیل ونظیر پر قناعت نہیں کرتا

پس امام حسین نے ان اشعار کی دو تین مرتبہ تکرار کی یہاں تک کہ میں نے آپ کے مقصود کو پا لیا، مجھ پر گریہ غالب ہوا لیکن میں آنسو پی گیا اور میں جان گیا مصیبت نازل ہونے والی ہے۔ میری پھوپھی رقت قلبی (جو عورتوں کی خصوصیت ہے) کی وجہ سے یہ سننے کی طاقت نہ لا سکی، جلدی سے اٹھیں اور میرے والد کے پاس پہنچیں تو مخاطب ہوئیں: واہ مصیبتا! کاش مجھے موت آ جاتی، آج میری ماں فاطمہ، باپ علی اور بھائی حسن فوت ہو گئے، اے گذشتگان کے جانشین! باقی رہ جانے والوں کی ڈھارس! یہ سننا تھا کہ امام حسین نے انکی طرف نگاہ کی اور فرمایا: اے بہن! شیطان تجھ پر غلبہ حاصل نہ کرلے، آپ نے بھری ہوئی آنکھوں سے فرمایا: اگر پرندے کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو وہ سو جائے گا۔

پس حضرت زینب ؑ نے کہا:‌ مجھ پر وائے ہو! کیا یہ بزور شمشیر تمہاری جان لیں گے؟ ایسا ہے تو یہ مجھے اور زیادہ غمگین کر دیا اور یہ میرے لئے زیادہ ناقابل برداشت ہے یہ کہہ کر پھوپھی نے اپنا چہرہ پیٹ لیا اور گریبان پارہ پارہ کر لیا، آپ بیہوش ہو کر گر گئیں۔ پس حسین ؑ اٹھے اور پانی کے چھینٹے آپ کے چہرے مارے اور فرمایا:

اے بہن! خدا کا خوف کیجئے، صبر اور شکیبائی اختیار کیجئے! جان لیجئے کہ اہل زمین اس دنیا سے چلے گئے اور نہ ہی اہل آسمان باقی نہیں رہے گے، ہر چیز فانی ہے صرف وہ وجہ اللہ باقی رہے گا جس نے اپنی قدرت سے خلق کیا اور پھر انہیں اپنی طرف لوٹائے گا اور وہ یگانہ و یکتا ہے۔ میرے والد مجھ سے بہتر تھے اور میری والدہ مجھ سے بہتر تھیں اسی طرح میرے بھائی بھی مجھ سے بہتر تھے اور رسول خدا صلّی اللّه علیہ و آلہ ہمارے اور سب مسلمانوں کیلئے نمونۂ عمل ہیں۔

امام نے ان الفاظ کے ساتھ انکی دلداری کی اور فرمایا: اے بہن! میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں تم میرے بعد اس قسم کو مت توڑنا، جب دیگران پر حزن و غم طاری ہو تو آپ میری خاطر اپنا گریبان چاک نہ کریں، چہرہ مت پیٹیں اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں۔ یہ کہہ کر حضرت زینب کو میرے پاس بٹھا دیا اور اپنے اصحاب کے پاس چلے گئے۔[25]

عصر عاشور جب سیدہ زینبؑ نے دیکھا کہ امام حسینؑ خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے مجروح جسم کو گھیرے میں لے کر آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور عمر ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:

"يابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبد اللهِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَيهِ؟". (ترجمہ: اے سعد کے بیٹے! ابو عبد اللہ (امام حسنؑ) کو قتل کیا جارہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہو؟!).[26]

ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبریؑ نے بآواز بلند پکار کر کہا: "وا اَخاهُ وا سَیِّداهُ وا اَهْلِ بَیْتاهْ، لَیْتَ السَّماءُ اِنْطَبَقَتْ عَلَی الْاَرضِ وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّهْل".(ترجمہ: آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیغمبرؐ! کاش آسمان زمین پر گرتا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گرجاتے)[27]

حضرت زینبؑ نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا۔ آپ اپنے بھائی کی بالین پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: "اے میرے اللہ! یہ قربانی ہم سے قبول فرما![28]

بھائی کی شہادت کا رد عمل

حضرت زینبؑ بھائی امام حسینؑ کے بے جان جسم کے پاس کھڑے ہوکر مدینہ کی طرف رخ کیا اور دل گداز انداز ميں نوحہ گری کرتے ہوئے کہا:

"وا محمداه بناتك سبايا و ذريتك مقتلة تسفي عليهم ريح الصبا، و هذا الحسين محزوز الرأس من القفا مسلوب العمامة و الردا، بابي من اضحي عسكره في يوم الاثنين نهبا، بابي من فسطاطه مقطع العري، بابي من لا غائب فيرتجي و لا جريح فيداوي بابي من نفسي له الفدا، بابي المهموم حتي قضي، بابي العطشان حتي مضي، بابي من شيبته تقطر بالدماء، بابي من جده محمد المصطفي، بابي من جده رسول اله السماء، بابي من هو سبط نبي الهدي، بابي محمد المصطفي، بابي خديجة الكبري بابي علي المرتضي، بابي فاطمة الزهراء سيدة النساء، بابي من ردت له الشمس حتي صلي".

ترجمہ: اے محمد یہ آپ کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہوکر جارہی ہیں۔ یہ آپ کے فرزند ہیں جو خون میں ڈوبے زمین پر گرے ہوئے ہیں، اور صبح کی ہوائیں ان کے جسموں پر خاک اڑا رہی ہیں! یہ حسین ہے جس کا سر پشت سے قلم کیا گیا اور ان کی دستار اور ردا کو لوٹ لیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی سپاہ کو سوموار کے دن غارت کی گئیں، میرا باپ فدا ہو اس پر جس کے خیموں کی رسیاں کاٹ دی گئیں! میرا باپ فدا ہو اس پر جو نہ سفر پر گیا ہے جہاں سے پلٹ کر آنے کی امید ہو اور نہ ہی زخمی ہے جس کا علاج کیا جاسکے! میرا باپ فدا ہو اس پر جس پر میری جان فدا ہے؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کو غم و اندوہ سے بھرے دل اور پیاس کی حالت میں قتل کیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی داڑھی سے خون ٹپک رہا تھا! میرا باپ فدا ہو جس کا نانا رسول خداؐ ہے اور وہ پیامبر ہدایتؐ، اور خدیجۃالکبریؑ اور علی مرتضیؑ، فاطمۃالزہراؑ، سیدة نساء العالمین کا فرزند ہے، میرا باپ فدا ہو اس پر وہی جس کے لئے سورج لوٹ کے آیا حتی کہ اس نے نماز ادا کی...[29] حضرت زینبؑ کے کلام اور آہ و فریاد نے دوست اور دشمن کو متاثر و مغموم کیا اور سب کو رلا دیا.[30]

دربار كوفہ

عاشورا کے بعد اہل بیت کے اسیروں کو بازار میں لایا گیا۔ کوفہ میں زینب بنت علی نے ایک اثردار خطبہ دیا جس نے لوگوں پر بہت زیادہ اپنا اثر چھوڑا۔

بُشر بن خُزیم اسدی حضرت زینبؑ کے خطبے کے بارے میں کہتا ہے:

اس دن میں زینب بنت علیؑ کو دیکھ رہا تھا؛ خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح فصیح و بلیغ نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی بن ابیطالبؑ کی زبان سے بول رہی تھیں۔ آپ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر ایک غضبناک لہجے میں فرمایا: "خاموش ہوجاؤ"! تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گردن میں باندھی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی۔[31] حضرت زینب کا خطاب اختتام پذیر ہوا لیکن اس خطبے نے کوفہ میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی تھی اور لوگوں کی نفسیاتی کیفیت بدل گئی تھی۔ راوی کہتا ہے: کہ علیؑ کی بیٹی کے خطبے نے کوفیون کو حیرت زدہ کر دیا تھا اور لوگ حیرت سے انگشت بدندان تھے۔

خطبے کے بعد شہر میں [یزیدی] حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کی علامات ظاہر ہونے لگیں چنانچہ اس حکومت کے خلاف احتمالی بغاوت کے سد باب کیلئے اسیروں کو حکومت کے مرکزی مقام دار الامارہ لے جانے حکم دیا گیا۔[32]

حضرت زینبؑ دیگر اسیروں کے ہمراہ دارالامارہ میں داخل ہوئیں اور وہاں حاکم کوفہ عبید اللہ بن زياد کے ساتھ آپ نے مناظرہ کیا۔[33]

حضرت زینبؑ کی تقریر نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے اور بنو امیہ کو رسوا کردیا۔ اس کے بعد عبید اللہ بن زياد نے اسیروں کو قید کرنے کا حکم دیا ۔کوفہ اور دارالامارہ میں حضرت زينبؑ کے خطبات، امام سجادؑ، ام کلثوم اور فاطمہ بنت الحسین کی گفتگو، عبداللہ بن عفیف ازدی اور زید بن ارقم کے اعتراضات نے کوفہ کے عوام میں جرأت پیدا کر دی یوں ظالم حکمران کے خلاف قیام کا راستہ ہموار ہوا؛ کیونکہ کوفہ والے حضرت زینبؑ کا خطبہ سننے کے بعد نادم و پشیمان ہوگئے اور خاندان عصمت و طہارت کے قتل کا بدنما داغ جو ان کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بن گیا تھا کو مٹانے کیلئے راہ کسی راہ حل تلاش کرنے لگے یوں ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ آخرکار مختار کی قیادت میں خون حسین بن علی کے انتقام کیلئے قیام کیا۔

شام

واقعۂ کربلا کے بعد یزید نے ابن زیاد کو اسرائے اہل بیت کو شہیدوں کے سروں کے ہمراہ شام بھیجنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اہل بیت اطہارؑ کا یہ کاروان شام روانہ ہوا۔[34]

اسرائے اہل بیتؑ کے شام میں داخل ہوتے وقت یزید کی حکومت کی جڑیں مضبوط تھیں؛ شام کا دار الخلافہ دمشق جہاں لوگ علیؑ اور خاندان علی کا بغض اپنے سینوں میں بسائے ہوئے تھے؛ چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ لوگوں نے اہل بیت رسولؐ کی آمد کے وقت نئے کپڑے پہنے شہر کی تزئین باجے بجاتے ہوئے لوگوں پر خوشی اور شادمانی کی کیفیت طاری تھی گویا پورے شام میں عید کا سماں تھا۔[35]

لیکن اسیروں کے اس قافلے نے مختصر سے عرصے میں اس شہر کی کایہ ہی پلٹ کر رکھ دی۔ امام سجّادؑ اور حضرت زینبؑ نے خطبوں کے ذریعے صراحت و وضاحت کے ساتھ بنی امیہ کے جرائم کو بے نقاب کیا جس کے نتیجے میں ایک طرف سے شامیوں کی اہل بیت دشمنی، محبت میں بدل گئی اور دوسری طرف سے یزید کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا تب یزید کو معلوم ہوا کہ امام حسینؑ کی شہادت سے نہ صرف اس کی حکومت کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوئیں بلکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہونے شروع ہو گئی تھی۔

دربار یزید

یزید نے ایک با شکوہ مجلس ترتیب دیا جس میں اشراف اور سیاسی و عسکری حکام شریک تھے۔[36] اس مجلس میں یزید نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی۔[37]

دربار یزید میں حضرت زینب کا خطبہ

حضرت زینبؑ نے یزید سے مخاطب ہوکر فرمایا: فكد كيدك واسع سعيك وناصب جهدك فوالله لا يرحض عنك عار ما اتيت إلينا ابدا والحمد الذي ختم بالسعادة والمغفرة لسادات شبان الجنان فأوجب لهم الجنة اسال الله ان يرفع لهم الدرجات وان يوجب لهم المزيد من فضله فإنه ولي قدير". (ترجمہ: تو جو بھی مکر و حیلہ کرسکتا ہے کرلے، اور [خاندان رسولؐ] کے خلاف جو بھی سازشین کرسکتا ہے کرلے لیکن یاد رکھنا تو ہمارے ساتھ اپنا روا رکھے ہوئے برتاؤ کا بدنما داغ کبھی بھی تیرے نام سے مٹ نہ سکے گا، اور تعریفیں تمام تر اس اللہ کے لئے ہیں جس نے جوانان جنت کے سرداروں کو انجام بخیر کردیا ہے اور جنت کو ان پر واجب کیا ہے؛ خداوند متعال سے التجا کرتی ہوں کہ ان کی قدر و منزلت کے ستونوں کور رفیع تر کردے اور اپنا فضل کثیر انہيں عطا فرمائے؛ کیونکہ وہی صاحب قدرت مددگار ہے۔)

مآخذ، شہیدی، زندگانی حضرت فاطمہ زہرا، ص260۔

یزید نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کے ساتھ امام حسینؑ کے مبارک لبوں کی بے حرمتی کرنا شروع کیا[38] اور رسول اکرمؐ اور آپ کی آل کے ساتھ اپنی دشمنی کو علنی کرتے ہوئے کچھ اشعار پڑھنا شروع کیا جن کا مفہوم کچھ یوں ہے:

"اے کاش میرے آباء و اجداد جو بدر میں مارے گئے زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ قبیلہ خرزج کس طرح ہماری تلواروں کی ستم کا نشانہ بنا ہے، تو وہ اس منظر کو دیکھ کر خوشی سے چیخ اٹھتے: اے یزید! تہمارے ہاتھ کبھی شل نہ ہو! ہم نے بنی‌ ہاشم کے بزرگان کو قتل کیا اور اسے جنگ بدر کے کھاتے میں ڈال دیا اور اس فتح کو جنگ بدر کی شکست کے مقابلے میں قرار دیا۔ بنی ہاشم نے سیاسی کھیل کھیلا تھا ورنہ نہ آسمان سے کوئی چیز نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی وحی اتری ہے۔[39] میں خُندُف[40] کے نسل میں سے نہیں ہو اگر احمد(حضرت محمد) کی اولاد سے انتقام نہ لوں۔

اتنے میں مجلس کے ایک کونے سے حضرت زینبؑ اٹھی اور بلند آواز میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ یزید کے دربار میں جناب زینبؑ کے اس خطبے نے امام حسینؑ کی حقّانیت اور یزید کے باطل ہونے کو سب پر واضح اور آشکار کیا۔

خطبے کے فوری اثرات

دربار یزید میں حضرت زینب کا خطبہ

آپ نے مزید فرمایا بہت جلد جان لے گا وہ ـ جس نے تجھے اس مسند پر بٹھایا ہے اور مؤمنوں کی گردنوں پر مسلط کیا ہے ـ کہ کون گھاٹے میں ہے اور خوار و بے یار و مددگار کون ہے۔ اس دن قاضی اللہ، مدعی مصطفی اور گواہ تیرے دست و پا ہونگے۔ اور ہاں اے دشمن خدا! اور دشمن خدا کے بیٹے! میں اسی وقت تجھے چھوٹا اور خوار و ذلیل سمجھتی ہوں اور تیری ملامتوں کے لئے کسی قدر و قیمت کی قائل نہيں ہوں۔ لیکن کیا کروں کہ آنکھیں گریاں اور سینے جلے ہوئے ہیں اور جو درد و رنج قتل حسینؑ کی وجہ سے ہمارے دلوں میں بسا ہوا ہے، لاعلاج ہے۔ شیطان کی جماعت [یعنی ابن زیاد اور اس کی فوج] ہمیں سفیہوں اور فاتر العقل افراد کی جماعت [یعنی یزید اور اس کے گماشتوں] کے پاس روانہ کرتی ہے تا کہ وہ [یزید و آل یزید ] مال اللہ (بیت المال) میں سے اس کو خدا کے محارم کی توہین کا انعام و پاداش دے۔ ان جرائم پیشہ ہاتھوں سے ہمارا خون ٹپک رہا ہے اور یہ منہ ہمارے گوشت و خون سے الودہ خون آلود ہیں اور یہ ہمارا گوشت ہے جو ہمارے دشمنوں کے منہ سے نکل رہا ہے؛ اور دشت کے بھیڑیئے۔ ہمارے شہیدوں کے پاک جسموں کے گرد گھوم رہے ہیں، اگر تم ہمیں بعنوان غنیمت پکڑتے ہو تو ہم اپنا تاوان ضرور وصول کریں گے اور اس دن تو کچھ نہ پائے گا سوا اپنے بھونڈے اعمال و کردار کے جو تو آگے بھیج چکا ہے۔

مآخذ، شہیدی، زندگانی حضرت فاطمہ زہرا، ص259۔

حضرت زینبؑ کے منطقی اور اصولی خطبے نے دربار یزید میں موجود حاضرین کو اس قدر متأثر کیا خود یزید کو بھی اسرائے آل محمد کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اہل بیتؑ کے ساتھ کسی قسم کی سخت رویے سے پرہیز کرنا پڑا۔[41]

دربار میں حضرت زینبؑ کی شفاف اور دوٹوک گفتگو سے یزید کے اوسان خطا ہونے لگے اور مجبور ہو کر اس نے امام حسینؑ کے قتل جیسے جرم کو ابن زیاد کی گردن پر ڈالتے ہوئے اسے لعن طعن کرنا شروع ہو گیا۔ [42]

یزید نے اپنے کارندوں سے اسرائے آل محمد کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اس موقع پر اگرچہ بعض نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو بھی قتل کیا جائے لیکن نعمان بن بشیر نے اہل بیتؑ کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا مشورہ دیا۔[43] اسی تناظر میں یزید نے اسرائے اہل بیت کو شام میں کچھ ایام عزاداری کرنے کی اجازت دے دی۔ بنی امیہ کی خواتین منجملہ ہند یزید کی بیوی شام کے خرابے میں اہل بیتؑ سے ملاقات کیلئے گئیں اور رسول کی بیٹیوں کے ہاتھ پاؤں چومتی اور ان کے ساتھ گریہ و زاری میں شریک ہوئیں۔ تین دن تک خرابہ شام میں حضرت زینبؑ نے اپنے بھائی پر ماتم کیا۔[44]

آخرکار اسرائے اہل بیتؑ کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ پہنچایا گیا۔[45]

حضرت زینب کے خطبہ کے چند اقتباسات : سیدہ زينبؑ نے حمد و ثنائے الہی اور رسول و آل رسول پر درود و سلام کے بعد فرمایا:
اما بعد! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔
اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کر دیئے ہیں؛ اور آل رسولؐ کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہو چکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان و منزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کر رہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خود نمایی کر رہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منا رہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: "بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ "وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ".
ترجمہ: اور یہ کافر ایسا نہ سمجھیں کہ ہم جو ان کی رسی دراز رکھتے ہیں یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے ہم تو صرف اس لیے انکی رسی دراز رکھتے [اور انہیں ڈھیل دیتے] ہیں۔[46].[47]
اس کے بعد فرمایا: اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے کیا یہ انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو پردے میں بٹها رکھا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی۔ تیرے حکم پر اشقیاء نے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر شہر پھرائے۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا اہل بیت رسولؐ کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔ اور لوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے لوگ سب ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بیبیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں۔ آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔
اس شخص سے بھلائی کی کیا امید ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں حمزہ بن عبدالمطلبؑ کا جگر چبایا ہو۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے۔
اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ "آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں!
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علیؑ کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے!
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہوگا اور تو فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے گا جبکہ تو نے اپنے ظلم و ستم کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبد المطلب کے خاندان کے ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں پر لگے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور دین کی جڑیں کاٹنے کے لئے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے! تو نے اولاد رسول کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے ہیں۔
تو نے خاندان عبد المطلب کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں۔
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد [برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔ تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔
اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا! تب انہیں معلوم ہو گا کہ کون زیادہ برا ہے مکان کے اعتبار سے اور زیادہ کمزور ہے لاؤ لشکر کے لحاظ سے؟! اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے۔ اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا۔ اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں۔ "اور انہیں جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں، ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے یہاں رزق پاتے ہیں۔"
اے یزید! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعہ تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے۔
عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ "کیا برا بدل (انجام) ہے یہ ظالموں کے لیے" ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں۔

حرم حضرت زینب پر داعش کا حملہ

شام پر سنہ 2012ء سے 2015ء تک ہونے والے داعش کے دہشت گردانہ حملے کے دوران حرم حضرت زینب(س) پر بھی اس تکفیری گروہ نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں حرم کے بعض حصوں من جملہ گنبد کو نقصان پہنچا اور اس حملے میں متعدد زائرین اور مجاورین کی شہادت بھی ہوئی۔[48]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابن اثیر، أسدالغابۃ، 1409 ھ، ج6، ص132۔
  2. کحّالہ، أعلام النساء، 2008،‌ ج2، ص91۔
  3. ابوالحسن العلوی، اخبار الزینبیات، 1410 ھ، ص23۔
  4. ابن منظور، لسان العرب، 1414 ھ، ‌ج1، ص453، ‌ذیل واژہ «زنب»۔
  5. مرتضی زبیدی، تاج العروس، 1414 ھ، ج2، ص60۔
  6. شریف القرشی، السیدہ زینب، 1422 ھ، ص39۔
  7. جزائری، الخصائص الزینبیۃ، 1425 ھ، ص44۔
  8. نور الدین جزائری، الخصائصۃ الزینبیۃ، ص 52و53۔
  9. امین، اعیان الشیعہ، 1406 ھ، ج7، ص137۔
  10. قزوینی، محمد کاظم، زینب الکبری من المہد الی اللحد،ص434۔
  11. ابن عساکر، اعلام النسا، ص190؛ ریاحین الشریعہ، ج3، ص41۔
  12. مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، 1413 ھ، ج2، ص125۔
  13. امین، اعیان الشیعۃ، ج7، ص137۔
  14. ابن عساکر،اعلام النسا، ص189
  15. دلائل الامامہ طبری، ج 3. ذبیح الله محلّاتی، ،ص57۔
  16. نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 16، ص 210؛ وسایل الشیعہ، ج 1، ص 13 و 14 و بحارالانوار، ج 6، ص 107۔
  17. احمد بہشتی، زنان نامدار در قرآن و حدیث، ص51
  18. سید کاظم ارفع، حضرت زینب ؑ سیرہ عملی اہل بیت، ص 88۔
  19. سید ابن طاؤس، اللہوف، ص 179؛ مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص110.
  20. جعفر النقدی، ، ص 61.
  21. محلاتی، ریاحین الشریعہ، 1349ہجری شمسی، ج3، ص62.
  22. ذبیح الله محلّاتی، ج 3ص62/ جعفر النقدی، ، ص
  23. سید علی نقی فیض الاسلام، خاتون دوسرا، ص 185۔
  24. محمّد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 45، ص 117۔
  25. مفید، الارشاد، 1372ہجری شمسی، ج2، ص93-94.
  26. علی نظری منفرد، قصّه كربلا، ص 371۔
  27. سید بن طاووس، ص 159و161 / سید عبدالرزاق موسوی، مقتل مقرم، ترجمہ عزیز الہی كرمانی، ص 192.
  28. علی نقی فیض الاسلام، ، ص 185.
  29. ابو مخنف، وقعۃ الطف، ص 259؛ محمّد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 45، ص 59۔
  30. ابو مخنف، وقعۃالطف، ص 295 / محمّد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوك، قاهره، مطبعة الاستقامه، 1358، ج 5، ص 348ـ349؛ محمّد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 45، ص 59۔
  31. احمد صادقی اردستانی، ، ص 227ـ228۔
  32. احمد صادقی اردستانی، ، ص 246۔
  33. ابو مخنف، وقعۃالطف، ص 299و 300؛ شیخ مفید، الارشاد، قم، المؤتمر للشیخ مفید، 1413، ص 353 / محمّد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 45، ص 117۔
  34. شہید سید عبدالكریم ہاشمی نژاد، ص 326۔
  35. محمّد محمّدی اشتهاردی، ص 327ـ328۔
  36. سید عبدالكریم هاشمی نژاد، ، ص 330۔
  37. محمّد محمّدی اشتهاردی، ص 248.
  38. حسن الہی، زینب كبری عقیلہ بنی ہاشم، ص208
  39. ابو مخنف، وقعۃ الطف، ص306و307؛ سید ابن طاؤس، اللہوف، ص213
  40. "خندُف" یزید کی دادی تھی وہ اور یزید کے درمیان 13 پشتوں کا فاصلہ تھا
  41. مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص135؛ سید ابن طاؤس، اللہوف، ص221.
  42. شیخ مفید، الارشاد، ص358؛ حسن الہی، زینب كبری عقیلہ بنی ہاشم، ص244۔
  43. مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص135؛ سید ابن طاؤس، اللہوف، ص221
  44. ابو مخنف، وقعۃالطف، ص311؛ شیخ عبّاس قمی، نفس المہموم، ص265۔
  45. ابن عساکر، اعلام النسا، ص191۔
  46. (سورہ آل عمران (3) آیت 178؛ اردو ترجمہ سید علی نقی (نقن)
  47. مجلسی، بحار الانوار، ص133۔
  48. «حمله تروریستی به حرم حضرت زینب در سوریه»، سایت شبکه خبر؛«حمله به حرم حضرت زینب(س)»، سایت تابناک.

مآخذ

  • دانشنامہ امام حسین ؑ، محمدی ری شہری و...، ج 10، مترجم: محمد مرادی، قم: دارالحدیث، 1430ھ/1388ہجری شمسی۔
  • ابن عساکر، اعلام النسا، تحقیق محمد عبدالرحیم، بیروت، دار الفکر، 1424/2004ھ۔
  • جبران مسعود، الرّائد، ترجمہ رضا انزابی، چ دوم، مشہد، آستان قدس رضوی، 1376۔
  • محمّد محمّدی اشتہاردی، حضرت زینب فروغ تابان كوثر۔
  • قزوینی، محمد کاظم، زینب الکبری من المہد الی اللحدو بیروت، دار القاری، الثانیہ، 1427ق/2006ء۔
  • باقر شریف القرشی، السیدہ زینب، بیروت، دار التعارف، 1419۔
  • مناقب خوارزمی۔
  • احمد بہشتی، زنان نامدار در قرآن و حدیث، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، 1368۔
  • محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعۃ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، بی تا۔
  • محمّد محمّدی اشتہاردی، حضرت زینب فروغ تابان كوثر، چ سوم، تہران، برہان، 1379۔
  • سید كاظم ارفع، حضرت زینب (علیہا السلام) سیرہ عملی اہل بیت، تہران، نشر قادر، 1377۔
  • شہیدی، سید جعفر، زندگانی فاطمہ زہرا ؑ، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1363ہجری شمسی۔
  • باقر شریف القرشی، السیدہ زینب، بیروت، دارالمحجۃ البیضاء الاولی، 1422ھ/2001ء۔
  • حسن الہی، زینب كبری عقیلہ بنی ہاشم، تہران، آفرینہ، 1375۔
  • جعفر النقدی، زینب الكبری بنت الامام، النجف الاشرف، المكتبۃ الحیدریہ، 1361۔
  • الجزائری، سید نورالدین، الخصائصۃ الزینبیہ، قم، انتشارات المکتبۃ الحیدریۃ، الاولی،1425/1383ہجری شمسی۔
  • ناصر مكارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونہ، تہران، دارالكتب الاسلامیہ، 1361۔
  • ابن جمعہ العروسی الحویزی، تفسیر نور الثقلین، بہ كوشش ہاشم رسولی محلّاتی، قم، اسماعیلیان، 1373۔
  • ابو القاسم الدیباجی، زینب الكبری بطلۃ الحرّیۃ، ط. الثانیۃ، بیروت، البلاغ، 1417۔
  • محدث نوری، مستدرک الوسائل، قم، آل البیت، 1407۔
  • حسن الہی، زینب كبری عقیلہ بنی ہاشم، تہران، آفرینہ، 1375۔
  • سید عبدالحسین دستغیب، زندگانی حضرت زینب، تہران، كاوہ۔
  • سید علی نقی فیض الاسلام، خاتون دوسرا (شرح حال زینب) ، چ دوم، تہران، نشر آثار فیض الاسلام، 1366۔
  • محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، بیروت، موسسۃ الوفاء، الثالثۃ، 1403/1983۔
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، بیروت، دارالكتب العلمیہ، 1418۔
  • سید بن طاووس، اللہوف، ترجمہ عقیقی بخشایشی، قم، دفتر نشر نوید اسلام، پنجم، 1378 شمسی۔
  • ابو مخنف، وقعۃالطف، تحقیق محمّد ہادی یوسفی غروی، قم، مجمع العالمی لاہل البیت، الثانیہ، 1427ھ۔
  • علی نظری منفرد، قصّہ كربلا، چ سیزدہم، قم، سرور، 1384۔
  • عبدالرزاق موسوی، مقتل مقرم، ترجمہ عزیز الہی كرمانی، قم، نوید، 1381۔
  • محمّد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوك، قاہرہ، مطبعۃ الاستقامہ، 1358۔
  • عبّاس قمی، نفس المہموم، تہران، كتاب فروشی اسلامیہ، 1368۔
  • سید عبدالكریم ہاشمی نژاد، درسی كہ حسین بہ انسانہا آموخت، چ یازدہم، مشہد، ہاشمی نژاد، 1369۔
  • شیخ مفید، الارشاد، قم، الناشر سعید بن جبیر، الاولی،1428ھ۔
  • عمر رضا کحالہ، اعلام النساء في عالمي العربي والاسلامي۔
  • ابن طیفور، بلاغات النساء، ابن طیفور۔
  • أحمد زكي صفوت، جمہرۃ خطب العرب في عصور العربيۃ الزاہرۃ۔