قیام زید بن علی

ویکی شیعہ سے
قیام زید بن علی
زید بن علی کا مقبرہ
تاریخ1 صفر سنہ 122ھ
مقامکوفہ
علل و اسبابامام حسینؑ کے خون کا انتقام،امویوں کا ظلم وستم اور کوفیوں کی دعوت
نتیجہقیام کی شکست
فریق 1زید بن علی کے ساتھی
فریق 2اموی فوج
سپہ سالار 1زید بن علی
سپہ سالار 2یوسف بن عمر
نقصان 1زید اور ان کے بہت سے ساتھیوں کی موت


قیام زید بن علی سے مراد وہ قیام ہے جو ماہ صفر سنہ122ھ میں امام صادقؑ کے زمانہ امامت اور ہشام بن عبدالملک کی خلافت کے دوران زید بن علی بن الحسین کی قیادت میں بنو امیہ کی حکومت کے خلاف شروع ہوا مگر اس کا اختتام زید اور ان کے متعدد ساتھیوں کی شہادت پر ہوا۔ امام صادقؑ نے اس قیام میں زید کا ساتھ نہیں دیا اور چھٹے امام کے نقطہ نظر کی تفسیر اور تحلیل کے بارے میں شیعہ علما مختلف آرا رکھتے ہیں۔

ابتدا میں کوفہ اور دیگر علاقوں کے بہت سے لوگوں نے ان کی بیعت کر لی تھی مگر مسجد کوفہ کے اندر بہت سے لوگوں کی نظر بندی کے بعد صرف 300 افراد نے زید کا ساتھ دیا۔ تاریخ طبری کے مطابق زید کے قیام کا آغاز یکم صفر سنہ 122ھ شب بدھ کو ہوا اور پہلے دن زید کے لشکر کو کامیابی نصیب ہوئی لیکن دوسرے دن والی کوفہ کی فوج میں تیر اندازوں کی شمولیت کے بعد زید کی فوج کو شکست ہو گئی اور زید بن علی بھی زخمی ہو گئے اور بالآخر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسی سال تین صفر کو انتقال کر گئے۔

تاریخ کی رو سے زید نے امام حسینؑ کی شہادت کے انتقام،امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور بنو امیہ سے خلافت واپس لینے کی غرض سے قیام کیا تھا۔ اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے درباریوں کی موجودگی میں زید سے ناروا سلوک کو بھی قیام کا ایک سبب قرار دیا گیا ہے۔ ان کے قیام کو اموی حکومت کے زوال کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کوفیوں کی بے وفائی، اموی حکومت کی فوجی طاقت اور اموی آلہ کاروں کے اثرو و رسوخ کو بھی قیام زید کی ناکامی کے اسباب میں سے شمار کیا گیا ہے۔

قیام کے رہبر

تفصیلی مضمون: زید بن علی

زید شیعوں کے چوتھے امامؑ کے فرزند ہیں۔ زید کی والدہ ام ولد تھیں کہ جنہیں مختار ثقفی نے 30 ہزار درہم میں خرید کر امام سجادؑ کو ہدیہ کر دیا تھا۔[1] زید کی تاریخ ولادت درست طور پر مشخص نہیں ہے البتہ ان کی شہادت120[2]،121 یا 122ھ میں نقل کی گئی ہے۔[3] زیدی، زید بن علی کو اپنا پانچواں امام مانتے ہیں اور زیدی فرقہ انہی سے منسوب ہے۔[4] زید کو اس اعتبار سے امام تسلیم کیا گیا کہ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد کچھ علویوں نے مسلح جدوجہد کو امامت کی شرط قرار دیا تھا[5] اور زید کی شہادت کے بعد جو شیعہ قیام بالسیف اور ظالم حکمران کے خلاف خروج کا عقیدہ رکھتے تھے، انہوں نے انہیں اپنا امام قرار دیا اور وہ زیدی کے نام سے مشہور ہو گئے۔[6]

قیام کا آغاز اور اس کے وقت میں تبدیلی

تاریخ طبری کے مطابق سنہ 122ھ کے ماہ صفر کی پہلی بدھ کو زید نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے قیام کا آغاز کیا[7] مگر قیام اپنے مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ وہ منگل کی شام کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہر سے نکل گئے اور جنگ کیلئے تیار ہو گئے[8] جب عراق کے گورنر یوسف بن عمر کو زید اور ان کے دو ساتھیوں کی آمد و رفت کی اطلاع ملی[9] تو اس نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا لیکن اس کے باوجود سپاہی زید کا سراغ نہ لگا سکے۔[10] دوسری جانب زید اور ان کے ساتھی فوری طور پر لڑائی کیلئے تیار ہو گئے کیونکہ حکام کو زید کے پڑاؤ کی جگہ کا پتہ چل چکا تھا، ان کے دو قریبی ساتھی گرفتار کر لیے گئے تھے اور دشمن کی جانب سے حملے کا احتمال بھی تھا۔[11]

بیعت کنندگان کی بے وفائی

جب زید بن علی شام سے کوفہ واپس پہنچے تو لوگوں نے گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا اور قیام کرنے کا مطالبہ کیا۔[12] شیخ مفید کی نقل کے مطابق ان سے ملاقات کرنے والے افراد ان کی بیعت بھی کرتے رہے۔[13] ادھر زید بن علی کے خروج اور قیام کے آغاز سے ایک دن قبل عراق کے گورنر نے کوفہ کے والی کو حکم دیا کہ اہل کوفہ کو مسجد میں جمع کرے۔ والی نے قبائل کے سرداروں اور قوم کی بڑی شخصیات کو مسجد میں اکٹھا کرنے کے بعد شہر میں اعلان کرا دیا کہ جو مسجد میں نہیں آئے گا اس کا خون مباح ہو گا۔[14] نتیجہ یہ کہ سارے لوگوں میں سے صرف 300 افراد اور ایک نقل کے مطابق اس سے بھی کم تعداد نے زید بن علی کا ساتھ دیا۔[15] منابع میں منقول ہے کہ وہ رات زید بن علی اور ان کے ساتھیوں نے صحرا میں بسر کی اور اس دوران یا منصور اَمِت (یعنی اے کامیاب! دشمن کو مار دے) کا رجز پڑھتے رہے۔[16] طبری کی نقل کے مطابق، اگلے دن جب زید نے اپنے ساتھیوں کی قلیل تعداد کو دیکھا اور مسجد کوفہ میں قوم کے بڑے لوگوں کی نظربندی سے مطلع ہوئے تو انہوں نے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بیعت کرنے والوں کا عذر مسترد کر دیا[17] اور انہیں سست اور سازشی قرار دیا۔[18] اگرچہ طبری کی نقل کے مطابق کوفہ کی چند بڑی شخصیات نے اس سے قبل زید بن علی کے سامنے اہل کوفہ کی امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے ساتھ عہد شکنی کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں قیام سے روکا تھا۔[19] زید بن علی کی بیعت کرنے والے کوفیوں کی تعداد پندرہ ہزار کے لگ بھگ شمار کی گئی ہے[20] کہ جن میں کوفہ کی بڑی شخصیات منجملہ سلمہ بن کُہیل، نصر بن خزیمہ عبسی، معاویہ بن اسحاق بن زید بن حارثہ بھی شامل ہیں۔[21] اس کے علاوہ مدائن، بصرہ، واسط، موصل، ری اور گرگان کے کچھ لوگوں نے بھی زید بن علی کی بیعت کی تھی۔[22] اگر زید بن علی کی کوفہ کی ایک بڑی شخصیت سلمہ بن کُہیل کے ساتھ گفتگو کو بیعت کرنے والوں کی تعداد کا معیار قرار دیا جائے تو چالیس ہزار افراد ان کے ہم پیمان تھے۔[23] ابو الفرج اصفہانی سے منقول ایک دوسری روایت کے مطابق ایک لاکھ جنگجوؤں کی جانب سے حمایت کا اعلان کیا گیا تھا۔[24] اسی طرح ابو الفرج اصفہانی نے اہل سنت عالم اور حنفی مذہب کے بانی ابوحنیفہ کے زید بن علی کیساتھ مالی تعاون کا بھی ذکر کیا ہے۔[25]

پہلے دن کامیابی

زید بن علی اور والی کوفہ کی فوج کے درمیان لڑائی صفر 122ھ بروز بدھ کی صبح شروع ہوئی۔ زید نے اپنی فوج کو شہر کی طرف پیشقدمی کا حکم دیتے ہوئے انہیں جنگ کرنے کی ترغیب دلائی۔ پہلی مڈ بھیڑ کوفہ کے مضافات میں صیادین (صائدین) کے مقام پر ہوئی کہ جس میں زید کے ساتھی کامیاب رہے۔ پھر جنگ کوفہ میں منتقل ہو گئی۔[26] زید نے اپنے ساتھیوں کی قلت کو دیکھتے ہوئے ان کے سامنے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ کوفی انہیں بھی امام حسینؑ کی طرح تنہا چھوڑ دیں گے لیکن نصر بن خزیمہ نے زید بن علی کے ہمرکاب جانفشانی سے لڑنے کا عزم ظاہر کیا۔[27] زید بن علی نے نصر بن خزیمہ، معاویہ بن اسحاق اور اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مسجد کا رخ کیا تاکہ اسے اموی سپاہیوں کے چنگل سے آزاد کرا سکیں۔ اگرچہ وہ لوگ مسجد میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے اور اپنے جھنڈے اور علم مسجد میں لہرا چکے تھے[28] مگر اموی سپاہیوں نے ان کی پیشقدمی روک دی اور یوسف بن عمر کے تازہ دم لشکر کے پہنچنے سے، مسجد کے اطراف میں ایک شدید جنگ چھڑ گئی۔ آخر کار جنگ اور لڑائی دار الرزق نامی محلے تک پھیل گئی اور اس میں پہلے دن زید اور ان کے ساتھیوں کو کامیابی نصیب ہوئی[29]

دوسرے دن شکست

کوفہ میں زید بن علی سے منسوب مقبرہ

جنگ کے دوسرے دن کے آغاز میں ہی نصر بن خزیمہ نائل بن فروہ کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔[30] ان کے قتل کا زید پر گہرا اثر ہوا۔[31] اس کے باوجود اس صبح میں زید اور ان کے ساتھیوں کی سخت جنگ کامیابی پر تمام ہوئی۔[32] یوسف بن عمر نے ایک اور لشکر تیار کیا تاکہ زید کے ساتھیوں پر حملہ کر سکے، مگر زید اور ان کے ساتھیوں نے یوسف بن عمر کی فوج کو تتر بتر کر دیا۔ تاہم یوسف بن عمر کی فوج میں تیراندازوں کی شمولیت کے بعد زید کی فوج کا کام دشوار ہو گیا اور اسی صورتحال میں زید کے ایک اور سپہ سالار معاویہ بن اسحاق بھی قتل ہو گئے۔ اس دن غروب کے وقت زید بھی پیشانی پر تیر لگنے سے شدید زخمی ہو گئے[33] اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے تین صفر سنہ 122ھ بروز جمعہ کو شہید ہو گئے۔[34] زید کے ساتھیوں نے ان کے بدن کو حکومتی سپاہیوں کی دسترس سے بچانے کی غرض سے ایک چشمے کا رخ تبدیل کیا، زید کو دفن کیا اور پھر دوبارہ چشمے کو اسی جگہ پر جاری کر دیا مگر جو غلام ان کے ہمراہ تھا، اس نے حکم بن صلت کو اطلاع دے دی۔[35] چنانچہ امویوں نے زید کا بدن نکالا اور یوسف بن عمر کے حکم پر ان کا بدن سولی پرلٹکا دیا اور سر اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے پاس بھیج دیا۔[36]

امام صادقؑ کا موقف

زید بن علی کا قیام، امام صادقؑ کے زمانہ امامت میں وقوع پذیر ہوا مگر امام صادقؑ نے اس قیام میں شرکت نہیں کی۔[37] زید اور ان کے قیام کے بارے میں مختلف روایات اور آرا موجود ہیں لیکن امام صادقؑ سے ان کے قیام کی بابت کوئی واضح موقف نقل نہیں ہوا ہے۔ کتاب کفایۃ الاثر کے مصنف نے نقل کیا ہے کہ کچھ شیعوں نے امام صادقؑ کی جانب سے قیام زید کا ساتھ نہ دینے کو زید کی مخالفت کے باب سے قرار دیا ہے، تاہم مذکورہ کتاب کے مصنف کی رائے میں امام صادقؑ کی جانب سے زید بن علی کے قیام کا ساتھ نہ دینے کا سبب ایک طرح کی حکمت عملی اور تدبیر تھا۔[38] کچھ شیعہ علما منجملہ شہید اول،[39] آیت اللہ خوئی،[40] اور مامقانی[41] کا خیال ہے کہ زید بن علی کو امام صادقؑ کا اذن حاصل تھا۔ اسی طرح کچھ محققین نے مذکورہ تین علما کے اقوال کے علاوہ امام رضاؑ سے منقول ایک روایت سے استناد کیا ہے اور قیام زید کو امام صادقؑ کے اذن کا حامل قرار دیا ہے۔[42] مذکورہ روایت کی بنیاد پر زید بن علی نے امام صادقؑ سے مشورہ کیا اور چھٹے امامؑ نے ان سے فرمایا: اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہی شخص ثابت ہوں جسے کوفہ کے محلے کناسہ میں سولی پرلٹکایا جائے گا، تو اس کا راستہ یہی ہے۔[43] مگر کچھ دوسرے محققین نے اسی روایت سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ زید اپنے قیام میں سچے تھے اور اگر کامیاب ہو جاتے تو خلافت کو اس کی اہلیت رکھنے والوں کے سپرد کر دیتے مگر امام صادقؑ نے انہیں قیام کرنے سے منع فرمایا تھا۔[44] سید محمد حسین حسینی تہرانی نے بھی ابان بن عثمان کی روایت جو کافی میں مومن طاق سے نقل ہوئی ہے؛[45] کے پیش نظر قیام زید کو امام کے اذن سے فاقد قرار دیا ہے۔[46] امام صادقؑ[47] اور اسی طرح امام رضاؑ،[48] سے منقول بعض روایات کے مطابق کامیابی کی صورت میں زید بن علی کا قصد یہ تھا کہ خلافت، امام صادقؑ کے سپرد کر دیں۔ شیخ مفید کے بقول زید بن علی نے الرضا من آل محمد کو اپنا شعار قرار دیا تھا اور لوگوں کی سوچ کے برخلاف خلافت کو اپنے لیے نہیں چاہتے تھے بلکہ کامیابی کے بعد اسے اس کی اہلیت رکھنے والوں کے سپرد کرنے کا قصد رکھتے تھے[49] علامہ مجلسی نے اکثر شیعہ علما کی طرف اسی عقیدے کی نسبت دی ہے اور واضح فرمایا ہے کہ انہیں ان کے کسی دوسرے قول کا سراغ نہیں ملا۔[50] بروایت شیخ مفید جب امام صادقؑ کو شہادت زید کی خبر ملی تو آپ پر بہت اثر ہوا اور حکم دیا کہ کچھ مال ان افراد کے خاندانوں میں تقسیم کر دیں جو قیام زید میں شہید ہوئے تھے۔[51]

قیام کا پس منظر اور ہدف

شیخ مفید نے زید بن علی کے قیام کا اصل ہدف بنو امیہ کی حکومت کے خلاف جدوجہد اور امام حسینؑ کے خون کا انتقام قرار دیا ہے۔[52] وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بھی زید کے اہداف میں سے قرار دیتے ہوئے تصریح کرتے ہیں کہ اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے ان کیساتھ اہل دربار کی موجودگی میں ناروا سلوک سے بھی ان میں قیام کا جذبہ پیدا ہوا۔[53][یادداشت 1] اسی طرح بعض محققین نے ہشام بن عبد الملک کے دور میں بالائے منبر امام علیؑ پر سب و شتم،[54] خاندان پیغمبر پر امویوں کے ظلم و ستم اور زید بن علی کے نقطہ نظر سے بنو امیہ کے کفر و الحاد کو قیام زید کے عوامل میں سے شمار کیا ہے۔[55] محمد بن جریر طبری نے قیام زید کے بارے میں اختلاف کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے؛[56] انہوں نے مالی بے ضابطگیوں کے الزامات، مدینہ میں عبد اللہ محض کے ساتھ امام علیؑ کے اوقاف پر تنازعہ کہ جو خالد بن عبد الملک کی حکمیت پر منتہی ہوا اور اسی طرح مالی بے ضابطگیوں کے الزامات جو یوسف بن عمر کی حکومت میں زید پر لگائے گئے اور اسی طرح اہل کوفہ کی دعوت کو زید کے قیام کے عوامل میں سے قرار دیا ہے۔[57] منابع کے مطابق، زید لوگوں سے جو بیعت لیتے تھے، اس میں ظالموں کے خلاف جدوجہد، کمزوروں کے دفاع، غنائم کی مساویانہ تقسیم، رد مظالم اور اہل بیتؑ کی ان کے مخالفین کے مقابلے میں نصرت پر زور دیا جاتا تھا۔[58] مامقانی قیام سے زید کا ہدف بنو امیہ سے خلافت لے کر امام صادقؑ کے سپرد کرنے کو قرار دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ زید اس غرض سے اپنا ہدف آشکار نہیں کرتے تھے تاکہ امام صادقؑ کو نقصان نہ پہنچے۔[59]

قیام کے نتائج

قیام زید کے کچھ نتائج اور ثمرات بیان کیے گئے ہیں: منجملہ یہ کہ قیام زید اور ان کے بعد یحییٰ کے قیام نے بنو امیہ کی حکومت کے سقوط کی بنیاد فراہم کی۔[60] اور شیعہ قیام کا دائرہ کار خراسان تک بڑھا دی[61] چنانچہ تاریخ یعقوبی میں منقول ہے کہ زید بن علی کے قتل سے خراسان کے شیعہ متحرک ہو گئے اور یہ امر سبب بنا کہ وہ خاندان پیغمبرؐ پر بنو امیہ کے مظالم کو برملا کریں۔ لہٰذا کوئی ایسی جگہ نہیں تھی کہ جہاں پر لوگ بنو امیہ کے جرائم سے بے خبر ہوں۔[62] امام صادقؑ سے بھی منقول ہے کہ ہشام بن عبد الملک نے زید بن علی کو قتل کیا، بدلے میں خدا نے بھی اس کی حکومت کو زوال پذیر کر دیا۔[63] ایک اور نقل میں اہل تشیع کے چھٹے امام سے یہ روایت ہے کہ بنو امیہ کی جانب سے زید کا بدن جلا ڈالنے کے سات دن بعد خدا نے انہیں نابود کرنے کا ارادہ کیا۔[64] قیام زید بن علی کے دیگر نتائج میں سے ایک حکومت کی اہل بیت کے حوالے سے حساسیت میں کمی اور اس کے نتیجے میں امام صادقؑ کو شیعہ مذہب کی ترویج کیلئے فرصت ملنے کو قرار دیا گیا ہے۔[65] قیام زید کے نتائج اور ثمرات کی تحلیل کے علاوہ کچھ محققین نے قیام زید کی ناکامی کی وجوہات بھی بیان کی ہیں؛ اموی حکومت[66] کی فوجی طاقت، جاسوس اور اندرونی مخالفین کہ جنہوں نے قیام کے وقت کو فاش کر دیا تھا۔ امام صادقؑ کی جانب سے قیام کی اعلانیہ حمایت کا فقدان اور آخر میں کوفیوں کا ساتھ نہ دینا، بھی ناکامی کی وجوہات میں سے ہیں۔[67]

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. ان کی نقل کے مطابق زید بن علی شام میں (خلیفہ وقت) ہشام بن عبد الملک کے پاس پہنچے۔ خلیفہ نے اپنے درباریوں سے کہا: یوں سمٹ کر بیٹھو کہ جب زید آئے تو وہ میرے نزدیک بیٹھنے کی جگہ نہ پائے۔ جب زید نے یہ منظر دیکھا تو خلیفہ کو تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی۔ پھر خلیفہ نے زید پر یہ تہمت لگائی کہ تم خود خلافت کیلئے شائستہ سمجھتے ہو لیکن خلافت کنیز زادہ کو نہیں مل سکتی! زید نے جواب میں خلیفہ کو مخاطب کیا کہ آیا خلافت کا مقام بالاتر ہے یا پیغمبری کا مقام؟ جبکہ حضرت اسماعیل اپنی ماں کے کنیز ہونے کے باوجود پیغمبر بنے؛ پھر انہوں نے والد کی جانب سے اپنے نسب کے امام علیؑ اور رسول خداؐ تک پہنچنے کا ذکر کیا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ اسے باہر نکال دو۔ زید باہر جاتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے: شمشیر سے خائف کوئی بھی گروہ ایسا نہیں ہے جو خوار نہ ہو۔ جب کوفہ پہنچے تو اہل کوفہ ان کے گرد جمع ہو گئے اور جب تک بیعت نہ کر لی ان سے جدا نہیں ہوئے۔ (شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص173۔)

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کیجئے: ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص124۔
  2. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص174۔
  3. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص160۔
  4. صبحی، فی علم الکلام، 1411ھ، ج3، ص48۔
  5. صبحی، فی علم الکلام، 1411ھ، ج3، 1411ھ، ص48ـ52؛ خزاز قمی، کفایة الاثر، 1401ھ، ص305۔
  6. ملاحظہ کیجئے: خزاز قمی، کفایة الاثر، 1401ھ، ص305
  7. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص181۔
  8. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص181-182؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص132۔
  9. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص180۔
  10. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص180۔
  11. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص180؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص132۔
  12. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص162-166۔
  13. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص173۔
  14. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص181۔
  15. بلاذری، انساب الاشراف، 1977ء، ج3، ص244۔
  16. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص182۔
  17. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص182۔
  18. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص182-183؛ ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1991ء، ج8، ص290۔
  19. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص166-168۔
  20. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص171۔
  21. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص167۔
  22. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص132۔
  23. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص168۔
  24. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص131۔
  25. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص141؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1977ء، ج3، ص239۔
  26. ابن مسکویہ، تجارب الامم، 1379ش، ج3، ص142-144۔
  27. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص184۔
  28. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص184-185۔
  29. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص184۔
  30. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص184-185۔
  31. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص136۔
  32. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1965ء، ج5، ص135۔
  33. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص185-186۔
  34. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1419ھ، ص139۔
  35. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص186-187۔
  36. ابن مسکویہ، تجارب الامم، 1379ش، ج3، ص147۔
  37. خزاز قمی، کفایة الاثر، 1401ھ، ص305۔
  38. خزاز قمی، کفایة الاثر، 1401ھ، ص305۔
  39. شہید اول، القواعد، 1400ھ، ج2، ص207۔
  40. خویی، معجم رجال الحدیث، 1410ھ، ج7، ص365۔
  41. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج9، ص261۔
  42. رضوی اردکانی، شخصیت و قیام زید بن علی، دفتر انتشارات اسلامی، ص122-123۔
  43. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا علیہ‌السلام، 1378ھ، ج‌1، ص‌2۔
  44. رجبی، «مواجہہ امام صادقؑ با نہضت ترجمہ/ چرا امام از قیام زید حمایت نکرد»۔
  45. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص174۔
  46. تہرانی، امام‌شناسی، 1426ھ، ج1، ص204-205۔
  47. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص264۔
  48. شیخ صدوھ، عیون أخبار الرضا علیہ‌السلام، 1378ھ، ج1، ص249۔
  49. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص173۔
  50. مجلسی، مرآة العقول، 1404ھ، ج4، ص118۔
  51. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص173۔
  52. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص172-171۔
  53. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص173۔
  54. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص57۔
  55. کریمان، سیرہ و قیام زید بن علی، 1364ش، ص260-268۔
  56. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص160۔
  57. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص160-167۔
  58. بلاذری، انساب الاشراف، 1977ء، ج3، ص237-238؛ طبری، تاريخ الأمم و الملوك، 1967ء، ج7، ص172-173۔
  59. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج9، ص233-234۔
  60. رضوی اردکانی، شخصیت و قیام زید بن علی، دفتر انتشارات اسلامی، ص280-281؛ کریمان، سیرہ و قیام زید بن علی، 1364ش، ص361-362۔
  61. کاظمی، «قیام زید بن علی و یحیی بن زید و اسباب شکست و تاثیرات آن در مبارزات ضد اموی»، ص199۔
  62. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص326۔
  63. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج45، ص309۔
  64. کلینی، الکافی، 1407، ج8، ص161۔
  65. کریمان، سیرہ و قیام زید بن علی، 1364ش، ص361-362۔
  66. نوری، زید بن علی و مشروعیة الثورة عند اہل البیت، 1416ھ، ص313۔
  67. رضوی اردکانی، شخصیت و قیام زید بن علی، دفتر انتشارات اسلامی، ص263-279۔

مآخذ

  • ابن أبی الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ الله، شرح نہج البلاغہ، تصحیح ابراہیم محمد ابو الفضل، قم، مكتبہ آیۃ‌ الله المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • ابن أثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر و دار بیروت، 1965ء۔
  • ابن أعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الأضواء، 1991ء۔
  • ابن مَسْکَوَیہ، احمد بن محمد، تجارب الامم و تعاقب الهمم، تحقیق ابوالقاسم امامی، تہران، انتشارات سروش، 1379شمسی۔
  • ابو الفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت، موسسہ الأعلمی للمطبوعات، 1419ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت، دار التعارف، 1977ء۔
  • حسینی تہرانی، سید محمد حسین، امام‌ شناسی، مشہد، علامہ طباطبائی، 1426ھ۔
  • خزاز قمی، علی بن محمد، کفایۃ الاثر، تحقیق سید عبد الطیف حسنی، قم، انتشارات بیدار، 1401ھ۔
  • خویی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مرکز نشر آثار شیعہ، 1410ق/1369شمسی۔
  • رجبی، محمد حسین، «مواجهہ امام صادق(ع) با نہضت ترجمہ/ چرا امام از قیام زید حمایت نکرد»، در سایت خبرگزاری مہر، تاریخ درج مطلب: 24 شہریور 1391ش، تاریخ بازدید: 19 تیر 1397شمسی۔
  • رضوی اردکانی، سید ابو فاضل، شخصیت و قیام زید بن علی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، بی‌ تا۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، تصحیح سید عبد الہادی حکیم، قم، کتاب فروشی مفید، (افست نجف، 1400ھ)۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا علیہ السلام، تصحیح مہدی لاجوردی، تہران، انتشارات جہان، 1378ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، 1413ھ۔
  • صبحی، احمد محمود، فی علم الکلام دراسۃ فلسفیۃ لآراء الفرق الإسلامیۃ فی اصول الدین، بیروت، دار النهضہ العربیہ، 1411ق/1991ء۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوك، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، 1967ء۔
  • کاظمی، محمد حسین، «قیام زید بن علی و یحیی بن زید و اسباب شکست و تاثیرات آن در مبارزات ضد اموی»، در مجلہ تاریخ نو، شماره 12، پاییز 1394۔]
  • کریمان، حسین، سیره و قیام زید بن علی، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، 1364شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال فی علم الرجال، تحقیق محی الدین و محمد رضا مامقانی، قم، مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، 1431ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1404ھ۔
  • نوری، حاتم، زید بن علی و مشروعیۃ‌ الثورۃ عند اہل البیت، مرکز الغدیر للدراسات الإسلامیہ، 1416ق/1995ء۔
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌ تا۔