علم لدنی

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


علم لَدُنّی ایسا علم ہے جو سیکھے بغیر اور مادی ذرائع کے بغیر من جانب اللہ تعالیٰ بعض انسانوں کو عطا ہوتا ہے۔ یہ اصطلاح قرآن مجید کے سورہ کہف آیت 65 «وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًاً؛ (اور اسے (حضرت خضر) کو ہم نے اپنی طرف سے علم سکھایا تھا) سے ماخوذ ہے۔

بعض علما علم لدنی کو علم غیب جیسا مانتے ہیں جو کہ غیر معمول طریقے سے حاصل ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بعض دیگر علما کہتے ہیں کہ علم لدنی کا تعلق غیبی امور سے بھی ہوسکتے ہیں اور عام طریقے سے بھی اسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بعض مفسرین کے باور کے مطابق قرآن کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ علم لدنی صرف بندگان خاص خدا کے لیے عطا ہوتا ہے جیسے پیغمبران الہی۔ اسی طرح بعض علمائے شیعہ کے مطابق ائمہؑ سے منقول روایات میں حضرت محمدؐ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے لیے بھی علم لدنی عطا ہونے کی صراحت ہوئی ہے۔

مفہوم‌ شناسی اور مقام

علم لدنّی سے مراد ایسا علم ہے جو بغیر کسی سبب کے من جانب اللہ حاصل ہوتا ہے۔[1] ملا احمد نراقی کے مطابق علم لدنی حاصل ہونے کے چند طریقے ہیں مثلا؛ وحی، رؤیائے صادقہ اور کشف و شہود وغیرہ۔[2]‌‌ ان کی رائے میں علم لدنی باقی تمام علوم سے افضل و برتر بلکہ حقیقی علم یہی ہے۔[3]

مرتضی مطہری کی نظر میں اس اصطلاح کا منشأ سورہ کہف کی آیت 65 ہے جس میں حضرت خضر کو عطا شدہ علم کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًاً؛ اس کو ہم نے اپنی طرف سے علم سکھایا»[4] وہ مزید لکھتے ہیں کہ علم لدنی تحقیق استدلال اور تجربے سے حاسل نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک خدادادی علم ہے۔[5]

علم لدنّی کے اقسام

سید کمال حیدری نے قرآن مجید کے سورہ شورا کی آیت 51 سے استناد کرتے ہوئے علم لدنی کی دو قسمیں بیان کی ہیں؛ بالواسطہ اور بلا واسطہ۔[6] بعض دیگر علما نے اس علم کے حصول کے 3 طریقے بیان کیے ہیں؛ وحی، الہام اور فِراسَت۔[7] وحی پیغمبران الہی کے ساتھ مختص ہیں، الہام کا تعلق اولیائے الہی سے ہے جبکہ فِراسَت حصول علم الہی کا ایسا ذریعہ ہے جو علم غیب کے بغیر بعض علامتوں کے مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے جو خاص مومنین کے ساتھ مختص ہے۔[8]

علم غیب اور علم لدنی کے مابین رابطہ

علم غیب کے معنی ہیں ایسے پوشیدہ امور کی آگاہی جسے حواس خمسہ کے ذریعے ادراک نہیں کیا جاسکتا۔[9]‌‌ بعض محققین کے مطابق علم لدنی وہی علم غیب ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے بعض بندگان خاص خدا کے لیے عطا ہوتا ہے۔[10] اسی طرح بعض علما علم لدنی کو علم غیب کے مترادف سمجھتے ہیں؛[11] کیونکہ یہ علم چونکہ معمول کے مطابق قابل کسب نہیں اس لیے علم غیب سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے اللہ کی جانب سے عطا ہونے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے علم لدنی کہتے ہیں۔[12]

اس کے مقابلے میں ایک اور نظریہ یہ ہے کہ علم لدنی کا دائرہ وسیع ہے اور علم غیب سمیت تمام دنیوی علوم کو شامل ہوتا ہے۔[13] نمونے کے طور پر حضرت داودؑ کو زرہ بنانے کا علم مادی ذرائع سے حاصل نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ علم عطا فرمایا جس کی تصریح قرآن مجید کے سورہ سوره انبیاء کی آیت 80 میں ہوئی ہے۔[14] بنابر ایں؛ علم لدنی ان تمام علوم کو شامل ہوتا ہے جو کسبی نہیں اور تجربہ سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ من جانب اللہ اس کا افاضہ ہوتا ہے، اور فرق نہیں یہ علوم غیبی اور پوشیدہ چیزوں میں سے ہوں یا دنیوی علوم ہوں جو عام طور پر قابل کسب ہوتے ہیں۔[15]

قرآن کی بعض آیات کی علم لدنی سے تفسیر

مفسر قرآن علامہ طباطبائی قرآن مجید کی چند آیات کو علم لدنی سے متعلق جانا ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: سورہ کہف آیت65؛ یہ آیت حضرت خضرؑ کو اللہ کی طرف سےدیے گئے علم کی تصریح کرتی ہے، حضرت خضرؑ کو یہ علم اسباب اور اپنے افکار و حواس کے ذریعے حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ من جانب اللہ عطا ہوا ہے؛[16]‌ علامہ نے لفظ «من لدنّا» سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔[17]‌ ان کی نظر میں یہ ایسا علم اولیائے الہی سے مختص ہے۔[18]محمد صادقی تہرانی بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں کہ علم لدنی کسی شخص سے سیکھ کر حاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ وحی الہی یا الہام کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔[19]‌ بعض علما کے مطابق یہ اس وحی کی نوعیت انبیائے الہی پر ہونے والی وحی کے عین مطابق ہونا ضروری نہیں۔[20] اسی طرح تفسیر المیزان میں اس آیت: «عَلَّمَكَ ما لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ؛ آپ کو ایسا علم سکھایا جو آپ سیکھ نہیں سکتے تھے»،[21] کے ذیل میں بیان ہوا ہے کہ اس سے مراد ایسا علم ہے جو مادی اسباب و عوامل اور عام طریقوں سے اس کا حصول نبی اللہ کے لیے ممکن نہیں تھا۔[22]

ائمہؑ اور علم لدنی

شیعہ علماء کے عقیدے کے مطابق ائمہؑ سے منقول روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ معصومینؑ کو بھی علم لدنی عطا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب حضرت امام جعفر صادقؑ سے علم امام سے متعلق سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا: یہ علم اماموں کو پیغمبر خداؐ سے ورثے میں ملا ہے؛ پھر سائل نے مزید پوچھا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ قلب امام پر علم الہی الہام ہوتا ہے؛ امام نے جوابا فرمایا: ہاں ایسا ہی ہے۔[23] علامہ مجلسی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ امام علم لدنی کا مالک ہونے کے ساتھ الہامی علم بھی انہیں عطا ہوتا ہے۔[24]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. نراقی، خزائن، 1378ہجری شمسی، 499؛‌ تهانوی، موسوعة کشاف إصطلاحات الفنون و العلوم، 1996ء، ج2، ص123‍1؛ حیدری، دروس فی علم الإمام، 1432ھ، ص130؛ سجادی، فرهنگ علوم فلسفی و کلامی، 1375ہجری شمسی، ص532.
  2. نراقی، رسائل و مسائل، 1380ہجری شمسی، ج2، ص52-53.
  3. نراقی، رسائل و مسائل، 1380ہجری شمسی، ج2، ص53.
  4. مطهری، مجموعه آثار، 1389ہجری شمسی، ج4، ص130.
  5. مطهری، مجموعه آثار، 1389ہجری شمسی، ج4، ص130.
  6. حیدری، دروس فی علم الإماء، 1432ھ، ص129.
  7. فرهنگ علوم فلسفی و کلامی، 1375ہجری شمسی، ص532.
  8. سجادی، فرهنگ معارف اسلامی، 1373ہجری شمسی، ج3، ص1406-1407.
  9. جوادی آملی، ادب فنای مقربان، 1388ہجری شمسی، ج3، ص414.
  10. مروی و مصطفوی، «دلایل عقلی و نقلی علم غیب امامان معصوم (ع)»، ص15-16.
  11. مهدوی‌فر، علوم اهل بیت ویژگی‌ها ابعاد و مبادی آن، قم، ص24-25.
  12. مهدوی‌فر، علوم اهل بیت ویژگی‌ها ابعاد و مبادی آن، قم، ص24-25.
  13. «رابطه علم لدنی و علوم مادی»، سایت پرسمان قرآن.
  14. «رابطه علم لدنی و علوم مادی»، سایت پرسمان قرآن.
  15. «رابطه علم لدنی و علوم مادی»، سایت پرسمان قرآن.
  16. طباطبایی، الميزان في تفسير القرآن، 1390ھ، ج13، ص342.
  17. طباطبایی، الميزان في تفسير القرآن، 1390ھ، ج13، ص342.
  18. طباطبایی، الميزان في تفسير القرآن، 1390ھ، ج13، ص342.
  19. صادقی تهرانی، الفرقان فى تفسير القرآن بالقرآن و السنه، 1406ھ، ج18، ص146.
  20. صادقی تهرانی، الفرقان فى تفسير القرآن بالقرآن و السنه، 1406ھ، ج18، ص146.
  21. سوره نساء، آیه 113.
  22. طباطبایی، الميزان في تفسير القرآن، 1390ھ، ج5، ص80.
  23. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص264.
  24. مجلسی، مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، 1404ھ، ج3، ص137.

مآخذ

  • تهانوی، محمد اعلی بن علی، موسوعة کشاف إصطلاحات الفنون و العلوم، بیروت، مکتبة لبنان ناشرون، 1996ء.
  • جوادی آملی، عبدالله، ادب فنای مقربان، قم، نشر اسراء، 1388ہجری شمسی.
  • حیدری، کمال، دروس فی علم الإمام، قم، دارالفراقد، 1432ھ.
  • «رابطه علم لدنی و علوم مادی»، سایت پرسمان قرآن، تاریخ بازدید 7 آبان 1402ہجری شمسی.
  • سجادی، جعفر، فرهنگ علوم فلسفی و کلامی، تهران، امیرکبیر، 1375ہجری شمسی.
  • سجادی، جعفر، فرهنگ معارف اسلامی، تهران، کومش، 1373ہجری شمسی.
  • سروش، عبدالکریم، بسط تجربه نبوی، تهران، موسسه فرهنگی صراط، 1378ہجری شمسی.
  • طباطبایی، محمدحسین، ‏ المیزان فی تفسیر القرآن‏، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات‏، 1390ھ.
  • کلینی، محمد بن‌یعقوب، الکافی، تهران، دارالکتب الاسلامیة، 1407ھ.
  • مجلسی، محمدتقی، مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تهران، دارالکتب الاسلامیه، 1404ھ.
  • مروی، احمد و سید حسن مصطفوی، «دلایل عقلی و نقلی علم غیب امامان معصوم (ع)»، فصلنامه قبسات، دوره 17، شماره 63، اردیبهشت 1391ہجری شمسی.
  • مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج4، تهران، انتشارات صدرا، 1389ہجری شمسی.
  • مهدوی‌فر، حسن، علوم اهل بیت ویژگی‌ها ابعاد و مبادی آن، پایان نامه سطح4 رشته کلام اسلامی، قم، حوزه علمیه قم، بی‌تا.
  • نراقی، ملا احمد، خزائن، قم، قیام، 1378ہجری شمسی.
  • نراقی، ملا احمد، رسائل و مسائل، قم کنگره بزرگداشت محققان ملا مهدی و ملا احمد نراقی، 1380ہجری شمسی.