ایام محسنیہ

ویکی شیعہ سے

ایام مُحسنیہ، ماہ ربیع الاول کے ابتدائی ایام کو کہا جاتا ہے، جن میں بعض شیعہ امام علیؑ اور حضرت زہرا(س) کے فرزند محسن بن علی کی شہادت کی مناسبت سے عزاداری برپا کرتے ہیں۔ ان ایام میں عزاداری کا رواج بہت پرانا نہیں جس کی بنا پر بعض مراجع تقلید اس کی تائید نہیں کرتے۔

تاریخ اسلام کے محقق محمد ہادی یوسفی غروی (پیدائش:1948ء) بعض تاریخی شواہد کی بنا پر حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ اور جناب محسن کے سقط ہونے کے واقعے کو رحلت پیغمبر اکرمؐ کے پچاس یا اس سے بھی زیادہ دنوں کے بعد قرار دیتے ہیں جو ماہ ربیع الاول کے ابتدائی ایام میں جناب محسن کی شہادت کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔

تاریخی پس منظر

بعض شیعہ حضرات ربیع الاول کے ابتدائی ایام میں امام علیؑ اور حضرت زہرا(س) کے فرزند محسن بن علی کی شہادت سے منسوب کرتے ہوئے ان ایام میں عزاداری برپا کرتے ہیں۔[1] سید محمد صادق روحانی کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں محبان اہلبیت علیہم السلام سے صفر کے بعد 9 ربیع الاول تک عزاداری کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اس کی دلیل امام صادقؑ سے منقول ایک روایت، علماء کی دائمی سیرت اور مذکورہ مرجع تقلید کی سفارش قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح اس اعلامیے میں مذکورہ ایام میں پیش آنے والے واقعات کو عالم اسلام کے تمام تر مصائب و مشکلات کی بنیاد قرار دیتے ہوئے ان ایام کی اہمیت کو کم کرنے والے اقدامت کی مزمت اور ان کے مرتکبین کو گناہگار سمجھتے ہیں۔[2]

ایام محسنیہ میں عزاداری کی تاریخ زیادہ طولانی نہیں اسی بنا پر بعض شیعہ مراجع تقلید جیسے آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی (پیدائش: 1926ء) مذکورہ ایام میں عزاداری نہ کرنے کو بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ ایک تو پرانے زمانوں میں ان ایام میں عزاداری کا کوئی رواج نہیں ملتا دوسری بات اس طرح کے چھوٹے امور کو اہمیت دینے سے اصل امور کمزور پڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔[3] اسی طرح آیت‌ اللہ شبیری زنجانی (پیدائش:1927ء) بھی عزاداری کے مختلف و متعدد عشروں کی ترویج کو عزاداری اہل بیت علیہم السلام سے سماج کی روگردانی کا سبب سمجھتے ہیں۔[4]

شہادت محسن کی تاریخ

سانچہ:اصلی جناب محسن کی شہادت کا واقعہ حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر حملہ کے وقت پیش آیا ہے۔[5]

تاریخ اسلام کے محقق محمد ہادی یوسفی غروی (پیدائش:1948ء) اس بات کے معتقد ہیں کہ ماہ ربیع الاول کے ابتدائی ایام جنہیں ایام محسنیہ کا نام دیا جاتا ہے، میں جناب محسن کی شہادت نہیں ہوئی کیونکہ حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر حملہ رسول اکرمؐ کی رحلت کے پچاس یا اس سے زیادہ دن بعد ہوا تھا۔[6] اپنے اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے کچھ تاریخی شواہد کا سہارا لیا ہے ان میں سے ایک بُرَیدة بن حُصَیب اَسلمی کی جانب سے امام علیؑ کی حمایت ہے۔ بریدہ لشکر اسامہ کے ساتھ موتہ گئے ہوئے تھے۔ جب وہ مدینہ واپس پلٹے اور واقعہ سقیفہ سے باخبر ہوئے تو اپنے قبیلہ کے کچھ لوگوں کے ساتھ حضرت علیؑ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک حضرت علیؑ بیعت نہیں کرتے ہم بھی بیعت نہیں کریں گے۔ یہی وہ واقعہ تھا جس کے بعد ابوبکر اور ان کے حمایتیوں کو حضرت علیؑ سے بیعت لینے کی فکر پڑی۔ یوسفی غروی صاحب کے مطابق لشکر اسامہ کے رفت و برگشت کی مدت اور اس سے پہلے اور بعد کے واقعات کا حساب لگایا جائے تو یہ حملہ رحلت پیغمبر سے تقریبا پچاس دن بعد انجام پایا ہے۔[7]

متعلقہ مقالات

حوالہ جات

  1. دیکھئے: یوسفی غروی، «تاریخ ہجوم بہ خانہ حضرت زہرا»، ص۸.
  2. «اتفاقات ہفتہ اول بعد از ماہ صفر، ریشہ و اصل ہمہ مصائب جہان اسلام است»، سائٹ دفتر آیت‌ اللہ العظمی محمد صادق روحانی.
  3. «نظر حضرت‌عالی در مورد برگزاری مراسم ایّام محسنیہ بہ‌صورت عمومی در سطح شہر چیست؟»، سائٹ دفتر حضرت آیت‌اللہ العظمی مکارم شیرازی.
  4. « آیت‌اللہ العظمی شبیری زنجانی: افراط در عزاداری‌ہا بہ تفریط می‌انجامد»، سائٹ مرجع عالیقدر آیت اللہ الظعمی شیرازی.
  5. مفید، الاختصاص، ۱۴۱۳ق، ص۱۸۵؛ خصیبی، الہدایة الکبری، ۱۴۱۹ق، ص۴۰۸؛ ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغة، ۱۴۰۴ق، ج۱۴، ص۱۹۲–۱۹۳؛ شہرستانی، الملل والنحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۷۱.
  6. یوسفی غروی، «تاریخ ہجوم بہ خانہ حضرت زہرا»، ص۱۴.
  7. یوسفی غروی، «تاریخ ہجوم بہ خانہ حضرت زہرا»، ص۹-۱۴.

مآخذ