آمِنہ بنت وَہْب (متوفی 46 قبل ہجرت۔ سنہ 576 ء) رسول خدا ؐ کی والدہ اور عبداللہ بن عبدالمطلب کی زوجہ تھیں۔ سنہ 7 عام الفیل میں اپنے فرزند محمد ؐ کو ان کے والد کے قبر کی زیارت اور عبد اللہ کے مامووں سے ملاقات کے لئے، جن کا تعلق قبیلہ بنی نجار سے تھا، مدینہ لے گئیں۔ اس سفر سے واپسی پر مدینہ کے قریب ابواء نامی مقام پر وفات پائی اور وہیں دفن ہوئیں۔

آمنہ بنت وہب
کوائف
نام:آمنہ بنت وہب
مشہور اقارب:عبداللہ بن عبدالمطلب (شوہر)، پیغمبر اکرم ؐ (فرزند)
پیدائش:23 سال قبل عام الفیل، 46 سال قبل ہجرت، 63 سال قبل بعثت
مقام پیدائشمکہ
محل زندگی:مکہ
وفات:سنہ 7 عام الفیل
مدفن:مکہ و مدینہ کے درمیان بمقام ابواء
دینی خدمات:پیغمبر اسلام ؐ کی والدہ

علمائے شیعہ آمنہ اور اجداد پیغمبر ؐ کے ایمان کے سلسلہ میں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور منکرین ایمان کے بارے میں تاریخی شواہد سے استناد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق آنحضرت ؐ ابواء میں اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے۔

کتاب ام النبی ؐ بنت الشاطی کی تالیف ہے جو حضرت آمنہ کی سوانح حیات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے جس کا فارسی ترجمہ آمنہ مادر پیامبر کے نام سے ہوا ہے۔

سوانح حیات

آمنہ قبیلۂ قریش سے تھیں جن کے والد وہب قریش کی ایک بڑی شاخ بنی زہرہ کے بزرگ تھے۔ ان کی والدہ برہ بنت عبد العزی نیز قرشی تھیں۔[1] رسول اکرمؐ کے والد گرامی عبداللہ سے شادی کرنے سے پہلے آمنہ کی زندگی کے بارے میں کوئی خاص معلومات موجود نہیں ہیں؛ البتہ کہا جاتا ہے کہ آپ کی ولادت مکہ میں ہوئی تھی۔[2] ہجرت سے 53 یا 54 سال پہلے انہوں نے عبداللہ بن عبدالمطلب سے شادی کی۔[3] شادی کے مراسم تین شب و روز جاری رہے جس کے دوران رسم کے مطابق عبد الله دلہن کے گھر مقیم رہے۔[4]

وفات شوہر

آمنہ سے شادی کے چند روز بعد عبداللہ آمنہ کے ہمراہ تجارتی سفر پر گئے جس سے واپسی کے دوران یثرب میں ان کی وفات ہوئی۔[5] عبداللہ نے قربانی کے واقعے کے ایک سال بعد آمنہ سے شادی کی تھی۔[6] عبدالمطلب نے نذر کی تھی کہ اگر خدا نے انہیں دس بیٹے عطا کئے تو دسویں کو خدا کی راہ میں قربان کریں گے لیکن آخر کار عبداللہ کی جگہ اونٹ کی قربانی دے کر عبدالمطب نے اپنی منت پوری کی۔[7] جبکہ بعض دیگر تاریخی روایات کے مطابق عبد اللہ کی وفات رسول خدا کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد ہوئی ہے۔[8]

ولادت رسول خدا

آمنہ نے رسول خدا کی ولادت کے بعد انہیں حلیمہ سعدیہ کے حوالے کیا۔[9] شیعہ مکتب میں مشہور قول کی بنا پر 17 ربیع الاول عام الفیل، کو آمنہ کے یہاں پیغمبرؐ کی ولادت ہوئی جبکہ اہل سنت کے نزدیک آپ کی ولادت 12 ربیع الاول کو ہوئی۔[10] ابن ہشام (متوفی 213 یا 218 ھ) کی السیرۃ النبویہ کے مطابق چونکہ حضرت محمد یتیم تھے اور کوئی ان کی سرپرستی قبول نہیں کر رہا تھا۔ اسی وجہ سے حلیمہ نے بھی شروع میں ان سے عذر خواہی کی لیکن جب اسے کوئی اور بچہ نہیں ملا تو رسول اللہ کو قبول کیا۔[11] حلیمہ دو سال کے بعد رسول اللہ کو آمنہ کے پاس لائیں اور آپ ؐ سے برکات کے آثار کے مشاہدہ کی بنا پر آپ سے کچھ عرصہ اور اپنے پاس رکھنے کی درخواست کی۔[12] یوں آمنہ نے عام الفیل کے چھٹے سال اور دو دن اپنے پاس رکھنے کے بعد حضور اکرمؐ کو آپ کی والدہ آمنہ کے حوالے کیا۔[13]

وفات

 
جناب آمنہ کی قبر (ابوا)

حضرت آمنہ عام الفیل کے ساتویں سال اپنے بیٹے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو ان کے والد کی قبر کی زیارت اور عبداللہ بن عبدالمطلب کے بنی نجار کے رشتے داروں سے ملاقات کیلئے مدینہ لے گئیں۔ مشہور قول کی بنا پر مدینہ سے واپسی کے دوران ابواء کے مقام پر آپ اس دنیا سے رخصت ہوئیں[14] اور وہیں دفن ہوئیں۔[15] ایک قول کے مطابق مکہ میں وفات کے بعد شعب دُب (قبرستان معلاۃ) میں مدفون ہیں۔ ابن اثیر اسے زیادہ صحیح سمجھتے ہیں۔[16] تیسری صدی ہجری کے مؤرخ یعقوبی نے وفات کے وقت آپ کی عمر 30 برس ذکر کی ہے۔[17]

محمد بن عمر واقدی (متوفا 207 یا 209 ھ) کے مطابق قریش نے بدر کے اپنے مقتولوں کی خونخواہی میں مدینہ کا ارادہ کیا تو ابوا کے مقام پر پہنچ کر ان کے ایک گروہ نے آمنہ کی نبش قبر کا ارادہ کیا لیکن ابو سفیان کے دیگر بزرگوں سے مشورے کے بعد اس کام سے ہاتھ کھینچ لیا۔[18] رسول اکرم ابواء میں اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کرتے تھے۔[19] ان واقعات میں سے ایک واقعہ حدیبیہ کا ہے جس کے موقع پر اپنی والدہ کی قبر پر آپ کا حاضر ہونا اور گریہ کرنا نقل ہوا ہے۔[20]

دوسری جانب مکہ میں قبرستان حجون میں ان سے منسوب ایک قبر ہے۔[21] نیز تاریخی روایات میں مکہ کے راستے میں بھی ایک قبر کی طرف اشارہ ہوا ہے لیکن اہل سنت عالم ابن سعد اسے درست نہیں سمجھتے ہیں۔[22] کہا گیا ہے کہ خلافت عثمانیہ کے دور میں مکہ کے راستے میں موجود اور ابواء میں موجود قبریں بقعے پر مشتمل تھیں مگر انہیں بعد میں خراب کر دیا گیا۔[23]

ایمان

معاصر مورخ محمد ابراہیم آیتی (1343 شمسی) کے بقول آمنہ، ابو طالب، عبداللہ بن عبدالمطلب نیز حضرت محمد کے حضرت آدمؑ تک کے اجداد کے صاحب ایمان پر ہونے پر شیعہ علما کا اجماع ہے۔[24] اسی طرح الکافی میں مذکور روایت کے مطابق اجداد پیغمبر، ان کے والد، والدہ اور جس نے ان کی کفالت کی یعنی ابو طالب پر آتش جہنم حرام ہے۔[25]

اہل سنت کے عقیدے کے مطابق پیغمبر کے والدین اور اجداد مشرک تھے۔ نویں صدی ہجری کے مفسر جلال ‌الدین سیوطی سورہ توبہ کی آیت 113 مَا کانَ لِلنَّبِی وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِکينَ وَلَوْ کانُواْ أُوْلِی قُرْبَی مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ [یادداشت 1] اور 114 کی آیت وَمَا کانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاہِيمَ لِأَبِيہِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَۃٍ وَعَدَہَا إِياہُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَہُ أَنَّہُ عَدُوٌّ لِلّہِ تَبَرَّأَ مِنْہُ إِنَّ إِبْرَاہِيمَ لأوَّاہٌ حَلِيمٌ [یادداشت 2] کے شان نزول میں مروی دو احادیث سے استناد کرتے ہوئے رسول خدا کی والدہ کے مشرک ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔[26]

علامہ امینی امام علی ؑ سے منقول شان نزول کی بنا پر ان آیات کے شان نزول کو ان اصحاب سے متعلق سمجھتے ہیں جو اپنے مشرک والدین کیلئے استغفار کرتے تھے اور یہ آیت ابو طالب یا آمنہ سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتی ہے۔[27] اسی طرح علامہ امینی نے کہا ہے کہ بعض مفسرین جیسے طبری[28] نے ان آیات میں استغفار کی تفسیر مردہ پر نماز میت پڑھنے سے کی ہے۔[29] نیز علامہ امینی نے ان روایات کے جعلی و ساختگی اور راویوں کے موثق نہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔[30]

شیخ عباس قمی سورہ توبہ کی آیت نمبر 84 وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ ﴿٨٤﴾ [یادداشت 3] سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا نے رسول کو مشرکوں اور کافروں کی نماز پڑھنے اور ان کے سرہانے کھڑے ہونے سے منع کیا ہے اور دوسری جانب رسول اللہ اپنے چچا اور والدہ کی قبر کی زیارت کیلئے جاتے تھے لہذا آپ کے چچا اور والدہ کی نسبت شرک کا موضوع منتفی ہے۔[31]

مونوگرافی

کتاب "ام النبیؐ" عربی زبان میں حضرت آمنہ کے حالات زندگی پر لکھی گئی کتاب ہے۔ جس کی مؤلفہ مصر کی رہنے والی عائشہ بنت‌ الشاطی (متولد 1331 ھ/1913 ء) ہے۔[32] مذکورہ کتاب تراجم سیّدات بیت النبوۃ کے مجموعے کا حصہ ہے اسے بنت‌ الشاطی نے خاندان پیغمبر کی خواتین کے متعلق تالیف کیا ہے۔[33] سید محمد تقی سجادی نے اس کتاب کو آمنہ مادر پیامبر ؐ کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے جو سال 1359 شمسی میں طبع ہوئی ہے۔[34]

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. ترجمہ: نبی کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں یہ زیبا نہیں ہے کہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں اگرچہ وہ ان کے عزیز و اقارب ہی کیوں نہ ہوں۔ جبکہ ان پر واضح ہوگیا کہ وہ دوزخی ہیں
  2. ترجمہ: اور ابراہیم نے جو اپنے باپ (تایا) کے لیے دعائے مغفرت کی تھی تو وہ ایک وعدہ کی بنا پر تھی جو وہ کر چکے تھے۔ مگر جب ان پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو آپ اس سے بیزار ہوگئے بے شک جناب ابراہیم بڑے ہی دردمند اور غمخوار و بردبار انسان تھے۔
  3. اور ان میں سے جو کوئی مر جائے تو اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ بلاشبہ انہوں نے خدا و رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ فسق و نافرمانی کی حالت میں مرے ہیں۔

حوالہ جات

  1. مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۵-۶.
  2. بنت الشاطی، آمنہ مادر پیامبر، ۱۳۷۹ش، ص۷۴۔
  3. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱۳۷۵ق، ج۱، ص۱۵۶.
  4. نویری، نہایۃ الارب، دار الکتب و الوثایق القومیہ، ج۱۶، ص۵۷.
  5. زرقانی، شرح المواہب اللدنیۃ، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۰۷-۲۰۶.
  6. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۹.
  7. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱۳۷۵ق، ج۱، ص۱۵۱-۱۵۵.
  8. دیکھیں: آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۱.
  9. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱۳۷۵ق، ج۱، ص۱۶۲-۱۶۳.
  10. نگاہ کنید بہ: آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۳.
  11. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱۳۷۵ق، ج۱، ص۱۶۲-۱۶۳.
  12. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱۳۷۵ق، ج۱، ص۱۶۴-۱۶۳
  13. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۹.
  14. دیکھیں: ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۰.
  15. مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ ق، ج۱، ص۱۳.
  16. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۲.
  17. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۰.
  18. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۰۶.
  19. محدث قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۱۷۱.
  20. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۹۴
  21. کردی، التاریخ التقویم، ج۱، ص۷۴: بنقل از جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۹۲.
  22. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۹۴.
  23. کردی، التاریخ التقویم، ج۱، ص۷۴: بنقل از جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۹۲.
  24. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۲.
  25. کلینی، الکافی، ۱۳۸۸ق، ج۱، ص۴۴۶.
  26. سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۳، ص۲۸۳ و ۲۸۴.
  27. امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۸، ص۲۷.
  28. دیکھیں: طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۱، ص۳۳.
  29. امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۸، ص۲۷.
  30. امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۸، ص۱۸-۱۹.
  31. محدث قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۱۷۱.
  32. سجادی، آمنہ مادر پیامبر، ۱۳۷۹ش، مقدمہ چاپ سوم
  33. تراجم سيدات بيت النبوۃ - تراجم سیدات بیت النبوۃ
  34. سجادی، آمنہ مادر پیامبر، ۱۳۷۹ش، مقدمہ چاپ سوم

مآخذ

  • قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی)۔
  • آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیغمبر اسلام، تجدید نظر و اضافات از: ابوالقاسم گرجی، انتشارات دانشگاہ تہران، تہران، 1378 ھ ش
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، دار صار، بیروت.
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد بجاوی، دار الجیل، بیروت.
  • ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل، السيرۃ النبويۃ لابن کثیر، مصطفی عبدالواحد، دار المعرفۃ، بیروت لبنان۔ 1396 ھ / 1987 ع‍
  • ابن ہشام، أبو محمد عبد الملك، السیرۃ النبویۃ، محقق: ابراہیم ابیاری، مصطفی سقاء، عبد الحفیظ شبلی، دار المعرفۃ، بیروت.
  • الآلوسي، السید محمود البغدادی، روح المعاني فی تفسير القرآن العظیم و...، المحقق: شکری الآلوسی، دار إحیاء التراث العربی، بیروت لبنان
  • الأمینی، عبد الحسین، الغدیر، ترجمہ اکبر ثبوت، چاپ پنجم، بنیاد بعثت، تہران، 1391 .
  • الرازی، محمد فخر الدین بن ضیاء الدین عمر (544-604 ہ‍)، تفسیر مفاتیح الغیب (المعروف بـ التفسیر الکبیر)، دار الفکر بیروت 1401 ھ / 1981 ع‍
  • الراوندي، قطب الدین ابو الحسین سعید بن عبد اللہ بن حسین بن ہبۃ اللہ الکاشانی (متوفای 573 ہ‍)، الخرائج والجرائح، تحقيق: مؤسسۃ الامام المہدي عليہ السلام قم المقدسۃ 1408 ھ
  • السہيلي، عبد الرحمن بن عبد اللہ الخثعمي، الروض الأنف في تفسير السيرۃ النبويۃ لابن ہشام، المحقق: مجدي بن منصور، دار الكتب العلميۃ، بیروت ـ لبنان 1967 ھ
  • القسطلاني، أحمد بن محمد (851 - 923 ہ‍)، المواہب اللدنيۃ بالمنح المحمديۃ، المحقق : مأمون بن محي الدين الجنان، بیروت: دار الكتب العلميۃ، الطبعۃ : الأولى ، 1416 ھ / 1996 ع‍.
  • السیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، قم.
  • الصالحي الشامي، محمد بن يوسف، سبل الہدى والرشاد في سيرۃ خير العباد، ت عادل احمد عبد الموجود ـ علي محمد معوض، دار الكتب العلميۃ بيروت - لبنان الطبعۃ الأولى 1414 ھ/ 1993 ع‍
  • الطبرسي، الفضل بن الحسن، مجمع البيان في تفسير القران، تحقیق: السيد محسن الامين العاملي، منشورات مؤسسۃ الاعلمي للمطبوعات بيروت - لبنان 1415 ھ / 1995 ع‍
  • الطبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن (تفسیر طبری)، دار المعرفۃ، بیروت.
  • بنت الشاطئ، عائشۃ عبدالرحمن، آمنہ مادر پیغمبر ؐ، ترجمہ: سید محمد تقی سجادی، چاپ سوم، موسسہ انتشارات نبوی، تہران، 1379 ھ ش
  • النيسابوري، نظام الدين القمي، تفسير غرائب القرآن ورغائب الفرقان، بيروت محقق: شیخ زكریا بيروت، دار الكتب العلميۃ
  • نویری، احمد بن عبدالوہاب، نہایۃ الارب فی فنون الادب، دارالکتب و الوثایق القومیہ، قاہرہ.

أبو نعيم الأصبہاني، احمد بن عبد اللہ بن احمد بن اسحق بن مہران المہرانی، دلائل النبوۃ، المحقق: محمد رواس قلعہ جي و عبد البر عباس، دار النفائس، بیروت، 1406 ھ/ 1986 ع‍

  • الصدوق (المتوفی 381 ہ‍)، الامالي: قم، البعثہ، 1417 ھ
  • المقريزي (المتوفی 845 ہ‍)، امتاع الاسماع، تحقیق: محمد عبد الحميد، بيروت، دار الكتب العلميہ، 1420 ھ
  • ابن سعد (المتوفی 230 ہ‍)، الطبقات الكبري، تحقیق: محمد عبد القادر، بيروت، دار الكتب العلميہ، 1418 ھ
  • ابن عساكر (المتوفی 571 ہ‍)، تاريخ مدينۃ دمشق،، تحقیق: علي شيري، بيروت، دار الفكر، 1415 ھ
  • ابن شہر آشوب (المتوفی 588 ہ‍)، مناقب آل‌ ابي ‌طالب، تحقیق: گروہي از اساتيد، نجف، المكتبۃ الحيدريہ، 1376 ھ
  • المجلسي (المتوفی 1110 ہ‍)، بحار الانوار: بيروت، دار احياء التراث العربي، 1403 ھ
  • البكَری، احمد بن عبداللہ، الأنوار ومفتاح السرور والافكَار فی ذكَر الرسول، انتشارات: شریف رضی قم.
  • البكري، عبداللہ (المتوفی 526 ہ‍)، الانوار في مولد النبي محمد صلي اللہ عليہ و آلہ، تحقیق: فضال، رضي، قم، 1411 ھ
  • البيہقي (المتوفی 458 ہ‍)، دلائل النبوۃ، تحقیق: عبد المعطي، بيروت، دار الكتب العلميۃ، 1405 ھ
  • الطبري (المتوفی 310 ہ‍)، تاريخ طبري (تاريخ الامم و الملوك)، تحقیق: گروہي از علما، بيروت، اعلمي، 1403 ھ