طفلان مسلم
طِفْلان مُسْلِمْ حضرت مسلم بن عقیل کے دو فرزند محمد اور ابراہیم کو کہا جاتا ہے جو واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کی شہادت کے بعد کوفہ میں اسیر ہوئے۔ کچھ مدت جیل میں رہنے کے بعد جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے لیکن عبیداللہ بن زیاد کے کسی کارندے کے ہاتھوں بے دردی سے شہید ہوئے۔ تاریخی منابع میں ان دو بھائیوں کے بارے میں واقع کربلا سے پہلے کوئی معلومات ثبت نہیں ہیں بلکہ صرف واقعہ کربلا کے بعد انکی اسیری اور شہادت کی طرف تاریخ میں اشارہ ہوا ہے۔[1]
ان دو بچوں کی اسارت اور شہادت کے واقعے کے بارے میں تاریخ نگاروں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض منابع میں انہیں جعفر طیار یا عبداللہ بن جعفر کے فرزند بتایا گیا ہے۔
واقعے کی تفصیل
امام حسینؑ کی شہادت کے بعد مسلم بن عقیل جسے امام حسینؑ نے اپنا سفیر بنا کر کوفہ بھیجا تھا لیکن کوفہ والوں کی بے وفائی کی وجہ سے آپ کوفہ میں ابن زیاد کے ہاتھوں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید ہوئے، کے دو فرزند محمد و ابراہیم بھی اسیر ہوئے اور عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر انہیں کوفہ میں کسی جیل میں بند کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ دو نوجوان دو سال تک کوفہ میں اسیر رہے اس کے بعد مشکور نامی زندان بان جو اہل بیتؑ کا دوستدار تھا کی مدد سے رات کو زندان سے فرار ہو گئے۔
یہ دو بچے دو دن تک ایک بوڑھی عورت کے ہاں مہمان رہے جو اہل بیتؑ کے محبین میں سے تھی جسکا شوہر ابن زیاد کی فوج میں کام کرتا تھا۔ رات کو جب اس کا شوہر گھر آیا تو ان دو بچوں کی موجودگی کا علم ہوا یوں اس بدبخت نے انہیں صبح سویرے نہر فرات کے کنارے لے جا کر شہید کر دیا. ان کے لاشوں کو نہر فرات میں پھینک دیا جبکہ ان کا سر کاٹ کر ابن زیاد کے ہاں لے گیا چونکہ اس نے ان دو بچوں کو گرفتار کرنے والے کیلئے انعام کا وعدہ دیا ہوا تھا۔[2]
شکوک و شبہات
اس واقعے کی تفصیل کو تاریخی کتابوں جیسے تاریخ طبری، امالی صدوق اور مقتل الحسین خوارزمی میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ شیخ صدوق انہیں مسلم بن عقیل کے اولاد مانتے ہیں۔[3]، خوارزمی انہیں جعفر طیار، جبکہ [4] طبری اور بلاذری انہیں عبداللہ بن جعفر کے فرزند قرار دیتے ہیں۔[5] ابن سعد بھی انہیں عبداللہ بن جعفر کے فرزند قرار دیتے ہیں اور عبداللہ بن قطبہ کو ان کا قاتل قرار دیتے ہیں۔[6]
محدث قمی، شیخ صدوق کی بات نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
- "ان دو نوجوانوں کا مذکورہ طریقے سے شہادت کے درجے پر فائز ہونا میرے نزدیک بعید ہے، لیکن میں شیخ صدوق کی نقل پر اعتماد کرتے ہوئے اس کو ذکر کر رہا ہوں۔"[7]
روضہ
نہر فرات کے کنارے کربلا سے چار فرسخ کے فاصلے پر مُسَیِّب نامی شہر واقع ہے۔ اس شہر میں ایک ضریح ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ حضرت مسلم بن عقیل کے دو فرزند محمد و ابراہیم کی قبریں ہیں۔[8]
ٹی وی سیریل
مسلم بن عقیل کے ان دو بچوں کی زندگی پر ایران ٹی وی پر کئی ایک سیریل اب تک منتشر ہوئے ہیں. ان میں سے آخری بار سنہ 1387 ش (سنہ 2008ء) محرم الحرام کے ایام میں ایران ٹی وی نے چینل نمر 2 پر یہ سیریل ریلیز ہوا۔ طفلان مسلم کا یہ سیریل جسکے ہدایت کار سید مجتبی یاسینی تھے 35 منٹ کی ۱۲ قسطوں پر مشتمل تھا اور چینل 2 کے بچوں اور نوجوانوں کے شعبے نے اسے نشر کیا۔ [9]
طفلان مسلم کا تعزیہ
تفصیلی مضمون: تعزیہ طفلان مسلمؑ
طفلان مسلمؑ کا تعزیہ (ٹیبلو نمائش) ہر سال محرم الحرام کے پہلے عشرے میں پیش کیا جاتی ہے۔ عام طور پر محرم کی تیسری تاریخ کو ان دو بچوں کا تعزیہ پیش کیا جاتا ہے جس میں حضرت مسلم بن عقیل کے دو بیٹوں کے حالات زندگی اور واقعہ کربلا میں ان کے کارنامے اور انکی شہادت کے واقعہ کو بیان کر کے ان پر ڈھائے جانے والی مصیبتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ صدوق، امالی، ص۷۶ به بعد؛ خوارزمی، مقتل الحسین، ج۲، ص۵۶-۵۸؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۹۳.
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۵، ص۱۰۰؛ صدوق، امالی، ص۷۶ به بعد؛ خوارزمی، مقتل الحسین، ج۲، ص۵۴؛ قمی، نفس المہموم، ص۱۴۳-۱۴۷.
- ↑ صدوق، امالی، ص۸۳
- ↑ خوارزمی، مقتل الحسین، ج۲، ص۵۶-۵۸.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۹۳؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۲۲۶
- ↑ ابن سعد، طبقات کبری، ج۱، ص۴۷۸
- ↑ قمی، نفس المہموم، ص۱۴۷
- ↑ کمونہ، آرامگاہہای خاندان پاک پیامبر(ص)،ص۳۰۲
- ↑ نگاہی بہ مجموعہ تلویزیونی «طفلان مسلم»
مآخذ
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، مؤسسہ الوفا، بیروت، ۱۴۰۳ ق،
- کمونہ، سید عبد الرزاق، آرامگاہہای خاندان پاک پیامبرؐ)،
- صدوق، الامالی، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۰ق.
- قمی، عباس، نفس المہموم فی مصیبۃ سیدنا الحسین المظلوم و یلیہ نفثۃ المصدور فیما یتجدد بہ حزن العاشور، المکتبۃ الحیدریۃ، نجف، ۱۴۲۱ ق.
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمد أبو الفضل ابراہیم، دار التراث، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ء
- خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیہ السلام، انوار الہدی، قم، ۱۴۲۳ ق.
- بلاذری، احمد بن یحیی، جمل من انساب الأشراف، تحقیق: سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، ط الأولی، ۱۴۱۷/۱۹۹۶.
- ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: محمد عبد القادر عطا، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰ء