حضرت فاطمہؑ کا مدفن
حضرت فاطمہؑ کا مدفن دقیق طور پر معلوم نہیں اس بنا پر مختلف مقامات جیسے حضرت فاطمہؑ کا گھر، روضۃ النبی، جنت البقیع اور عقیل کے گھر کے بارے میں آپ کے محل دفن ہونے کا احتمال دیا جاتا ہے۔ شیعہ علماء میں مقبول نظریے کے مطابق حضرت فاطمہؑ اپنے گھر میں ہی مدفون ہیں۔ تاہم شیخ طوسی کے مطابق اکثر شیعہ علماء نے پیغمبرؐ کے روضہ مبارکہ کو آپ کا مدفن قرار دئے ہیں۔
سید جعفر مرتضی عاملی کے مطابق حضرت فاطمہؑ کی قبر کے صحیح مقام کا تعین ممکن نہیں ہے۔ شیخ طوسی اور امینالاسلام طَبْرسی کے مطابق روضہ نبیؐ، خانہ فاطمہؑ اور جنت البقیع ان تینوں مقامات پر حضرت زہراؑ کی زیارت کرنی چاہیے۔ شیعوں کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا(س) کی تجہیز و تکفین اور محل دفن کا مخفی ہونا خود آپ کی وصیت کی وجہ سے تھا۔ ان کے مطابق حضرت فاطمہؑ نے غصب خلافت، غصب فدک اور مسلمانوں کی کی طرف سے آپ کی حمایت نہ کرنے کی وجہ سے اپنی تشییع و تدفین کو مخفیانہ انجام دینے کی وصیت کی تھیں۔
اکثر علمائے اہل سنت جنت البقیع کو حضرت فاطمہ کا مدفن قرار دیتے ہیں۔ بعض شیعہ محققین کے مطابق اہل سنت کا یہ موقف حضرت فاطمہؑ کے محل دفن کے مخفی ہونے کے سلسلے میں شیعہ پیروکاروں کے نظریاتی دباؤ کو کم کرنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔
حضرت فاطمہؑ کے محل دفن کے بارے میں مختلف کتابیں بھی تحریر کی گئی ہیں جن میں: «مرقدُ سیّدۃ النِّساءِ فاطمۃ الشہیدۃ الزہراءؑ فی اَیِّ مکان؟!» اور «اَیْنَ قبرُ فاطمۃؑ» کا نام لیا جا سکتا ہے۔
اہمیت
شیعوں کی مختلف کتابوں میں حضرت فاطمہؑ کے محل دفن کو مورد بحث قرار دیتے ہوئے اس کے مخفی رہنے کے مسئلے کو خلیفہ اول کی مذمت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔[1] شیعہ حضرت فاطمہؑ کے محل دفن کے مشخص نہ ہونے کو ابوبکر اور عمر سے آپ کی ناراضگی کی نشانی اور غصب خلافت اور غصب فدک پر حضرت فاطمہ(س) کا اعتراض اور احتجاج قرار دیتے ہیں۔[2] سید محمد حسینی جلالی (متوفی سنہ 1399 ش) کے مطابق حضرت فاطمہؑ نے وصیت کی تھی کہ انہیں مخفیانہ طور پر دفن کیا جائے تاکہ تاریخ ان کی شہادت کے اسباب کو فراموش نہ کر سکے۔[3]
احتمالی مقامات
حضرت فاطمہؑ کے محل دفن کے سلسلہ میں علمائے شیعہ نے متعدد احتمال پیش کئے ہیں۔[4] اس سلسلے میں سب سے مشہور نظریہ یہ ہے کہ بی بی کو ان کے گھر میں ہی دفن کیا گیا ہے۔[5] البتہ شیخ طوسی کے مطابق اکثر علمائے شیعہ روضہ نبیؐ کو حضرت زہرا کا محل دفن قرار دیتے ہیں۔[6] شیعہ مآخذ میں دوسرے احتمالات بھی پائے جاتے ہیں جن کے مطابق بقیع[7] اور عقیل بن ابی طالب کے گھر[8] کو بھی حضرت زہرا کا محل دفن قرار دیا گیا ہے۔
شیعہ محقق سید جعفر مرتضی عاملی حضرت فاطمہؑ کے محل دفن کے تعین کو غیر ممکن سمجھتے ہیں۔[9] شیخ طوسی[10] اور فضل بن حسن طبرسی[11] کے مطابق روضہ نبیؐ، بی بی کا گھر اور جنت البقیع تینوں مقامات پر حضرت فاطمہ(س) کی زیارت کرنا بہتر ہے۔[12] سید ابن طاووس نے کتاب مصباح الزائر میں روضہ نبیؐ کو لیکن کتاب الاقبال بالاعمال میں حجرہ پیامبرﷺ کو حضرت فاطمہ کی زیارت کی جگہ سمجھتے ہیں۔[13]
حضرت فاطمہؑ کا گھر
علمائے شیعہ کے درمیان مشہور قول یہ ہے کہ بی بی سیدہؑ اپنے گھر میں دفن ہیں۔[14] شیخ صدوق،[15] ابن ادریس حلی،[16] ابن طاووس،[17] علامہ مجلسی[18] اور سید محسن امین[19] بھی اس امکان کو دوسرے امکانات سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ حضرات امام رضاؑ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ جس کی بنا پر حضرت زہراؑ اپنے گھر میں دفن ہوئیں ہیں اور بنی امیہ نے جب مسجد النبی کی توسیع کی تو وہ گھر اس مسجد میں داخل ہو گیا۔[20]
بعض شیعہ علماء کے مطابق ایک روایت جس میں امام علیؑ نے فاطمہؑ کو "پیغمبر اکرمﷺ کے پاس مدفون" کے طور پر متعارف کرایا ہے،[21] وہ بی بی سیدہؑ کے ان کے گھر میں دفن ہونے کی تائید کرتی ہیں، اس لئے کہ رسول اللہؐ کے محل دفن سے جو سب سے نزدیک جگہ ہے وہ بیت فاطمہؑ ہے۔ [یادداشت 1][22] قبر رسولؐ کے پاس دفن ہونے کا اعزاز اس امکان کی ایک اور تصدیق ہے جس طرح امام حسنؑ نے امکان کی صورت میں رسول اللہؐ کے پہلو میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی۔[23]
بعض شیعہ علماء نے گھر کے امکان کو ان روایات سے ناسازگار قرار دیا ہے کہ جس میں امام علیؑ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے جنازہ کو دفنانے کے لیے گھر سے باہر نکالا تھا۔[24] اس کے جواب میں ممکن ہے کہا جائے کہ جنازہ اصل نہ ہو بلکہ جنازے کی شبیہ ہو،[25] یا قبروں کے بنانے کے لئے تشییع جنازہ کا انعقاد اور قبر کے اصلی جگہ کی پہچان نہ ہو پانے کے لئے انجام دیا گیا تھا۔[26] ایک شیعہ عالم کا خیال ہے کہ جنازہ، علیؑ اور فاطمہؑ کے گھر سے، جو بقیہ کے قریب واقع تھا، فاطمہؑ کے دوسرے گھر تک پہنچایا گیا۔[27] ان کے مطابق رسولؐ کی رحلت کے بعد حضرت زہراؑ کے گھر پر حملہ بھی اسی گھر میں ہوا جو بقیع کے قریب تھا۔[28]
روضۃالنبیؐ
شیخ مفید نے اپنی کتاب المقنعہ میں اس احتمال کو صحیح قرار دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بی بی سیدہ کو روضہ رسولؐ میں دفن کیا گیا ہے۔[29] اور اسی طرح شیعہ محدث شیخ طوسی نے بھی دفن فاطمہؑ کو روضہ نبیؐ میں اکثر علما کا عقیدہ شمار کیا ہے۔[30] مسجد النبی میں منبر اور قبر پیغمبرؐ کے درمیان کے فاصلہ کو رسول اللہؐ نے باغ جنت( سرسبز زمین)[31]) سے تعبیر کیا ہے۔[32] کتاب معانی الاخبار) کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے اس جگہ پر روضہ (مزار) ہونے کی وجہ، فاطمہ کی تدفین کو قرار دیا۔[33]
چھٹی صدی ہجری کے متکلم اور مفسر فضل بن حسن طبرسی،[34] اور چھٹی صدی ہجری کے محدث اور مفسر ابن شہر آشوب، [35] نے دو احتمال یعنی گھر اور روضہ رسولؐ کو حقیقت سے نزدیک جانا ہے۔ شیخ طوسی نے بھی ان دونوں احتمال کو نزدیک جانا ہے۔[36] محمد باقر مجلسی نے ان دونوں احتمال کو ایک ساتھ جمع کیا ہے کیونکہ شیعوں کے عقیدے کے مطابق روضہ رسولؐ، فاطمہؑ کے گھر میں ہی شامل ہوتا ہے۔[37] اسی بنا پر بعض محققین، روضہ کے قول کو گھر کے قول کی تائید سمجھتے ہیں۔[38]
بقیع کا قبرستان
ساتویں صدی ہجری کے شیعہ تاریخ نگارعلی بن عیسی اربلی کے مطابق لوگوں اور تاریخ نگاروں کے درمیان مشہور ہے کہ فاطمہؑ بقیع میں دفن ہیں۔ انہوں نے اس احتمال کی تائید کے لئے ایک روایت بھی پیش کی ہے۔ لیکن انہوں نے دفن کی جگہ کو نہ مشخص کیا اور نہ اس کا ذکر کیا ہے۔[39]
شیخ طوسی[40] اور امینالاسلام طبرسی[41] نے اس امکان کو بعید جانا ہے۔ کتاب الکافی کی ایک روایت کے مطابق حضرت زہراؑ بقیع میں دفن نہیں ہوئی ہیں۔[42] اس روایت کے مطابق امام حسنؑ نے امام حسینؑ سے وصیت کی: «میری شہادت کے بعد مجھے تجدید بیعت کے لئے قبر پیغمبرؐ پر لے جانا پھر مجھے میری ماں کی قبر کی طرف لے جانا اور اس کے بعد بقیع میں لے جانا»۔[43]
عقیل کا گھر(ائمہ بقیع کا مقبرہ)
علامہ مجلسی نے کتاب مصباح الانوار سے کہ جس کے مصنف کے بارے میں اختلاف ہے، ایک روایت نقل کی ہے کہ فاطمہؑ، عقیل کے گھر میں دفن ہیں۔[44] عقیل کا گھر قبرستان بقیع سے باہر تھا لیکن نزدیک تھا۔[45] وہ گھر عباس بن عبد المطلب اور ائمہ بقیع (چار ائمہ) کے دفن کے بعد ایک عمومی زیارت گاہ کی شکل میں بدل گیا۔[46] اور بقیع کے توسعہ کے بعد اس سے ملحق ہو گیا۔[47]
دورہ قاجار کے محمد حسین فراہانی، شاعر اور مصنف نے سنہ 1302 ہجری اور سنہ 1303 ہجری کے درمیان اپنے سفر نامے میں ائمہ بقیع کی قبر میں ایک ایسی قبر کی موجودگی کی اطلاع دی ہے جو حضرت فاطمہؑ اور شیعوں کی طرف منسوب ہے۔ اور شیعہ و سنی اس جگہ زیارت پڑھتے ہیں۔[48]
علمائے اہل سنت کے درمیان مشہور نظریہ یہ ہے کہ قبر حضرت فاطمہؑ بقیع میں موجود ہے۔[49] ان لوگوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ امام حسنؑ نے اپنے دفن ہونے کی وصیت اپنی ماں کے قبر کے پہلو میں کی تھی۔[50] اس کے مقابلہ میں شیعوں کی ایک روایت کی بنا پر[51] اس بات کے معتقد ہیں کہ وہ فاطمہ جو بقیع میں دفن ہیں وہ حضرت علیؑ کی ماں فاطمہ بنت اسد ہیں۔[52] ایک شیعہ عالم، محمد صادق نجمی کا خیال ہے کہ سنی مصنفین نے فاطمہؑ کی قبر کو بقیع کے اندر متعارف کرانے کی کوشش کی ہے تاکہ فاطمہ کی قبر کی رازداری پر شیعہ پیروکاروں کے نظریاتی دباؤ کو کم کیا جا سکے۔[53] اہل سنت مآخذ میں حضرت زہراؑ کے دفن کے سلسلہ میں دوسرے احتمالات بھی موجود ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: ان کا گھر،[54] روضۃالنبی،[55] عقیل ابن ابی طالب کے گھر کا باہری حصہ[56] اور بیت الاحزان۔[57]
قبر مخفی ہونے کی وجہ
علمائے شیعہ، حضرت زہراؑ کی مخفی قبر اور مخفی دفن ہونے کو خود ان کی وصیت شمار کرتے ہیں۔[58] شیعہ مآخذ کی بنا پر، فاطمہ نے اس وصیت کی وجہ علیؑ کی طرف کی خلافت پر قبضہ، غصب فدک اور مسلمانوں کی مدد نہ کرنا قرار دیا ہے۔[59] شیخ مفید[60] اور کتاب دلائل الامامہ کے مصنف[61] کے مطابق حضرت فاطمہؑ کی وصیت تھی کہ انہیں مخفیانہ دفن کیا جائے۔
امام علیؑ نے رات کے وقت حضرت زہراؑ کو مخفیانہ دفن کیا تھا۔[62] دفن کے بعد قبر کے آثار کو بھی مٹا دیا تھا۔[63] اس کے بعد قبر کی چالیس شبیہ[64] یا ایک قول کے مطابق سات دوسری قبریں بنائی تاکہ قبر فاطمہؑ مشخص نہ ہو سکے۔[65] بعض دوسرے شیعہ مآخذ میں آیا ہے کہ عمر بن خطاب[یادداشت 2] نے ارادہ کیا کہ تمام قبروں کو کھودے اور پھر نماز جنازہ پڑھے لیکن امام علیؑ کی دھمکی کے بعد اس کام کو انجام نہیں دیا۔[66] ابھی تک کوئی ایسی قبر نہیں ہے جسے حضرت فاطمہؑ کی قبر سے نسبت دی جائے۔[67] علمائے شیعہ قاضی نور اللہ شوشتری[68] اور سید محمد شیرازی[69] نے حضرت زہراؑ کی قبر کے آشکار ہونے کے سلسلہ میں دعوی کیا ہے کہ وہ ظہور امام مہدیؑ کے بعد انہیں کے ذریعہ آشکار ہوگی البتہ اس دعوے کی کوئی دلیل بیان نہیں کی ہے۔ اہل سنت تاریخ نگار علی بن عبد اللہ سمہودی وفات سنہ 11 ہجرینے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی قبر کی رازداری کی ایک وجہ ابتدائے اسلام میں پلاسٹر اور اینٹوں والی قبروں کی مضبوطی کا فقدان بتایا ہے۔۔[70] اس وجہ کو مورد تنقید قرار دیا گیا ہے کیونکہ صحابہ اور پیغمبر ﷺ کے خاندان کے دوسرے افراد کی قبریں مشخص و معین ہیں۔[71]
مونوگراف
وہ کتابیں جو حضرت زہراؑ کے محل دفن کے موضوع پر لکھی گئیں ہیں وہ درج ذیل ہیں:
- سید ہاشم ناجی موسوی جزائری کی کتاب مرقدُ سیّدۃ النِّساءِ فاطمۃ الشہیدۃ الزہراءؑ فی اَیِّ مکان؟!: اس کتاب میں فاطمہؑ کی قبر کو چھپانے کی وجہ اور تدفین کے احتمالات کے بارے میں شیعہ مآخذ کی روایات کو جمع کیا گیا ہے۔[72] انتشارات دانش نے اس کتاب کو سنہ 1395 شمسی میں طبع کیا۔[73]
- حسین راضی کی کتاب اَیْنَ قبرُ فاطمۃؑ: اس کتاب میں حضرت فاطمہؑ کے مدفن ہونے کے احتمالات بیان کیے گئے ہیں اور صحیح احتمال ان کا مکان بیان کیا گیا ہے۔[74] دار المحجۃ البیضاء نے اس کتاب کو بیروت میں سنہ 1432 ھ میں طبع کیا۔[75]
اسی طرح ام المحسن کی کتاب «قبر مادرم کجاست؟ در جستجوی مزار بی نشان مادرم زہراؑ» ہے۔[76] اور مہرداد ویس کرمی کی اسی موضوع پر کتاب «راز صدف: قبر مخفی حضرت فاطمہؑ از منظر سیاسی و عرفانی» طبع ہوئی ہے۔[77]
نوٹ
- ↑ حضرت فاطمہؑ کا گھر رسول اللہؐ کے گھر سے ملا ہوا تھا (امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۳۱۳۔) اور رسول اللہؐ اپنے گھر میں دفن ہوئے۔ (مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۴ش، ج۷، ص۲۰۸۔)
- ↑ بعض مآخذ نے اس بات کے نقل کرنے والے کا نام نہیں لیا ہے اور اسے صرف اقتدار والوں(وُلَاۃ الْأَمْرِ) کی تفسیر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ (طبری آملی، دلائل الإمامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۶۔)
حوالہ جات
- ↑ رجوع کریں: علامہ حلی، کشف المراد، ۱۴۱۳ھ، ص۳۷۳۔
- ↑ رجوع کریں: تبریزی، سیرہ استاد الفقہاء و المجتہدین میرزا جواد تبریزی، دار الصدیقۃ الشہیدہ، ص۸۹؛ مظاہری، اندیشہہای ناب، ۱۳۹۰ش، ص۶۵۔
- ↑ حسینی جلالی، فہرس التراث، ۱۴۳۶ھ، ص۷۱۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۳۰۱۔
- ↑ حسینی شیرازی، الدعاء و الزیارۃ، ۱۴۱۴ھ، ص۵۸۸؛ انصاری زنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، دلیلنا، ج۱۶، ص۱۱۳، بہ نقل از التاریخ و السیر (مخطوط)، ص۳۰۔
- ↑ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔
- ↑ اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ھ، ج۱، ص۵۰۱۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۷۹، ص۲۷۔
- ↑ عاملی، مأساۃ الزہرا(س)، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۵۲ و ۲۵۳۔
- ↑ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔
- ↑ طبرسی، تاج الموالید، ۱۴۲۲ھ، ص۸۰۔
- ↑ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔
- ↑ ابن طاووس، الاقبال بالاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۱۶۱۔
- ↑ حسینی شیرازی، الدعاء و الزیارۃ، ۱۴۱۴ھ، ص۵۸۸؛ انصاری زنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، دلیلنا، ج۱۶، ص۱۱۳، بہ نقل از التاریخ و السیر (مخطوط)، ص۳۰۔
- ↑ شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۵۷۲۔
- ↑ ابن ادریس حلی، االسرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، ۱۴۱۰ھ۔
- ↑ ابن طاووس، الاقبال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۱۶۳۔
- ↑ علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۵، ص۳۴۹۔
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۳۲۲۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۵۷۲۔
- ↑ نہجالبلاغہ، تصحیح صبحی صالح، ۱۴۱۴ھ، خطبہ۲۰۲، ص۳۱۹؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۳، ص۳۶۴۔
- ↑ نمونہ کے طور پر دیکھئے مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۴ش، ج۷، ص۲۰۸؛ حسنزادہ آملی، ہزار و یک نکتہ، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۴۴۶۔
- ↑ نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۲۔
- ↑ حمود، أبہی المداد، ۱۴۲۳ھ، ج۲، ص۵۴۷۔
- ↑ حسینی شیرازی، الدعاء و الزیارۃ، ۱۴۱۴ھ، ص۵۸۸۔
- ↑ ترابی، «جستاری در چگونگی و مکان دفن حضرت فاطمہ زہراؑ در منابع نخستین»، ص۱۳۱۔
- ↑ نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۶۶۔
- ↑ نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۶۳۔
- ↑ شیخ مفید، المقنعۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۴۵۹۔
- ↑ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔
- ↑ ابن سیدہ، المحکم والمحیط الاعظم، ۱۴۲۱ھ، ج۸، ص۲۴۵، ذیل واژہ روض۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۲۹ھ، ج۹، ص۲۵۷۔
- ↑ شیخ صدوھ، معانی الاخبار، ۱۳۶۶ش، ص۲۶۷۔
- ↑ طبرسی، تاج الموالید، ۱۴۲۲ھ، ص۸۰۔
- ↑ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۳۶۵۔
- ↑ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ھ، ج۶، ص۹۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۷، ص۱۹۳؛ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۵، ص۳۴۹۔
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۱۰۔
- ↑ اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ھ، ج۱، ص۵۰۱۔
- ↑ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ھ، ج۶، ص۹۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۳۰۱۔
- ↑ انصاری زنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، دلیلنا، ج۱۶، ص۵۱۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۲۹ھ، ج۲، ص۴۳۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۷۹، ص۲۷۔
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۸۔
- ↑ نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۷۔
- ↑ نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۸۱۔
- ↑ فراہانی، سفرنامہ میرزا محمد حسین فراہانی، ۱۳۶۲ش، ص۲۲۹۔
- ↑ نمونہ کے طور پر دیکھیں سمہودی، وفاء الوفاء، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۹۳؛ ابن نجار، الدرۃ الثمینہ فی اخبار المدینہ، شرکۃ دار الارقم، ص۱۶۶؛ اسی طرح دیکھیں قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۹۔
- ↑ محبالدین طبری، ذخائر العقبی، ۱۳۵۶ھ، ص۵۴ و ۱۴۱۔
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۱۷۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ قمی، الانوار البہیۃ، الجماعۃ المدرسین بقم المشرفۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ص۱۷۴؛ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۹۔
- ↑ نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۸۔
- ↑ ابن جوزی، مثیر الغرام، ۱۴۱۵ھ، ص۴۶۴۔
- ↑ سبط ابن جوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ۱۴۳۴ھ، ج۵، ص۶۰۔
- ↑ ابن شبۃ، تاریخ المدینہ، ۱۳۹۹ھ، ج۱، ص۱۰۵۔
- ↑ دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۱۷۶۔
- ↑ برای نمونہ دیکھئے طبرسی، تاج الموالید، ۱۴۲۲ھ، ص۸۰؛ ناجی جزائری، مرقد سیدۃ النساء فاطمۃ الشہیدۃ الزہراءؑ فی ای مکان؟!، ۱۳۹۵ش، ص۱۶۔
- ↑ خصیبی، الہدایۃ الکبری، ۱۴۱۹ھ، ص۱۷۸؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۵۱۔
- ↑ شیخ مفید، الامالی، ۱۴۱۳ھ، ص۲۸۱۔
- ↑ طبری آملی صغیر، دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۳۔
- ↑ ابن شبۃ، تاریخ المدینہ، ۱۳۹۹ھ، ج۱، ص۱۰۷۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۲۹ھ، ج۲، ص۴۹۰۔
- ↑ طبری آملی، دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۶؛ خصیبی، الہدایۃ الکبری، ۱۴۱۹ھ، ص۱۷۹۔
- ↑ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۳، ص۳۶۳۔
- ↑ ہلالی، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۸۷۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۲۸، ص۳۰۴۔
- ↑ عاملی، مأساۃ الزہراؑ، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۵۲ و ۲۵۳؛ نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۳۔
- ↑ شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۲۸، ص۵۳۴۔
- ↑ حسینی شیرازی، فاطمۃ الزہراء افضل اسوۃ للنساء، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۳۱۔
- ↑ سمہودی، وفاء الوفاء، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۹۳۔
- ↑ نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۴۔
- ↑ ناجی جزائری، مرقد سیدۃ النساء فاطمۃ الشہیدۃ الزہراءؑ فی ای مکان؟!، ۱۳۹۵ش، فہرست۔
- ↑ ناجی جزائری، مرقد سیدۃ النساء فاطمۃ الشہیدۃ الزہراءؑ فی ای مکان؟!، ۱۳۹۵ش، شناسہ کتاب۔
- ↑ راضی، این قبر فاطمہؑ، ۱۴۳۲ھ، ص۱۳۵۔
- ↑ راضی، این قبر فاطمہؑ، ۱۴۳۲ھ، شناسنامہ کتاب۔
- ↑ «کتاب شناسی قبر مادرم کجاست؟»، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران.
- ↑ «کتاب شناسی راز صدف»، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران۔
مآخذ
- ابن ادریس حلی، محمد بن احمد، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامي التابعۃ لجماعۃ المدرسين، ۱۴۱۰ھ۔
- ابنجوزی، عبدالرحمن بن علی، مثیر الغرام الساکن الی اشرف الاماکن، تحقیق مصطفی محمد حسین ذہبی، قاہرہ، دار الحدیث، ۱۴۱۵ھ۔
- ابن سیدہ، علی بن اسماعیل، المحکم والمحیط، تحقیق و تصحیح عبدالحمید ہنداوی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۱ھ۔
- ابن شبہ، عمر بن شبۃ بن عبیدۃ، تاریخ المدینۃ لابن شبۃ، تحقیق فہیم محمد شلتوت، جدۃ، السید حبیب محمود أحمد، ۱۳۹۹ھ۔
- ابن شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب(ع)، قم، علامہ، ۱۳۷۹ھ۔
- ابن طاووس، علی بن موسی، مصباح الزائر، تحقیق مؤسسۃ آل البیت(ع) لاحیاء التراث، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع) لإحیاء التراث، بے تا۔
- ابن طاووس، علی بن موسی، الإقبال بالأعمال الحسنۃ، تحقیق و تصحیح جواد قیومی اصفہانی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۶ہجری شمسی۔
- ابن قتیبہ دینوری، تأویل مختلف الحدیث، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۶ھ۔
- ابن نجار، محمد بن محمود، الدرۃ الثمینہ فی اخبار المدینہ، بیجا، شرکۃ دار الارقم، بے تا۔
- اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، تحقیق و تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، تبریز، بنی ہاشمی، ۱۳۸۱ھ۔
- امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، تحقیق حسن امین، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۳ھ۔
- امالمحسن، م، قبر مادرم کجاست؟ قم، دلیل ما، ۱۳۹۲ہجری شمسی۔
- انصاری زنجانی، اسماعیل، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہرا(س)، بے جا، دلیلنا، بے تا۔
- ترابی، حمزہ، و مجید احمدی کچایی، «جستاری در چگونگی و مکان دفن حضرت فاطمہ زہرا(س) در منابع نخستین»، در فصلنامہ علمی-پژوہشی تاریخ اسلام، سال بیست و یکم، شمارہ ۸۳، پاییز ۱۳۹۹.
- حسینی جلالی، سید محمد حسین، فہرس التراث، تعلیقات سید محمدرضا حسینی جلالی و دیگران، بیروت، دار الولاء لصناعۃ النشر، ۱۴۳۶ھ۔
- حسینی شیرازی، سید محمد، فاطمۃ الزہراء افضل اسوۃ للنساء، بیروت، مؤسسۃ التبلیغ العالمیۃ، ۱۴۱۴ھ۔
- حسینی شیرازی، سید محمد، الدعاء و الزیارۃ، بیروت، مؤسسۃ الفکر الاسلامی، ۱۴۱۴ھ۔
- حمود، محمد جمیل، أبہی المداد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، ۱۴۲۳ھ۔
- حسن زادہ آملی، حسن، ہزار و یک کلمہ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۶ہجری شمسی۔
- خصیبی، حسین بن حمدان، الہدایۃ الکبری، بیروت، البلاغ، ۱۴۱۹ھ۔
- دیار بکری، حسین، تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس، بیروت، دار صادر، بے تا۔
- «دیدار شہریار و مقام معظم رہبری»، روزنامہ فرہیختگان، شمارہ ۳۱۳۷، ۲۷ شہریور ۱۳۹۹ہجری شمسی۔
- راضی، حسین، أین قبر فاطمۃ(س)، بیروت، دار المحجہ البیضاء، ۱۴۳۲ھ۔
- زمخشری، محمود بن عمر، مقدمۃ الأدب، تہران، مؤسسہ مطالعات اسلامی دانشگاہ تہران، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
- سبط بن جوزی، یوسف بن غزاوقلی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، تحقیق محمد برکات و دیگران، دمشھ، دار الرسالۃ العالمیہ، ۱۴۳۴ھ۔
- سمہودی، علی بن عبداللہ، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۹ھ۔
- شاہرخی، محمود و مشفق کاشانی، آئینہ عصمت، قم، انتشارات اسوہ، چاپ اول، بے تا۔
- شوشتری، قاضی نوراللہ، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، قم، ۱۴۰۹ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، کتاب فروشی داوری، ۱۳۸۵ہجری شمسی۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، تحقیق و تصحیح علیاکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۳ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علیاکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۳ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، تحقیق و تصحیح مؤسسۃ البعثۃ، قم، دار الثقافۃ، ۱۴۱۴ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد و سلاح المتعبد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعہ، ۱۴۱۱ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الأحکام، تحقیق و تصحیح حسن الوسوی خرسان، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق و تصحیح مؤسسۃ آل البیت(ع)، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الامالی، تحقیق حسین استادولی و علیاکبر غفاری، قم، دار المفید، ۱۴۱۳ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، تحقیق و تصحیح مؤسسۃ آل البیت، قم، ۱۴۱۷ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، تاج الموالید، بیروت، دار القاری، ۱۴۲۲ھ۔
- طبری آملی صغیر، محمد بن جریر، دلائل الإمامۃ، تحقیق و تصحیح قسم الدراسات الإسلامیہ مؤسسۃ البعثہ، قم، بعثت، ۱۴۱۳ھ۔
- عاملی، سید جعفر مرتضی، مأساۃ الزہرا(س)، بیروت، دار السیرہ، ۱۴۱۸ھ۔
- علامہ حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تصحیح حسن حسنزادہ آملی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۱۳ھ۔
- فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، قم، انتشارات رضی، ۱۳۷۵ہجری شمسی۔
- فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق و تصحیح محمد کاظم، تہران۷ مؤسسۃ الطبع و النشر فی وزارۃ الاشاد الاسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
- فراہانی، محمدحسین، سفرنامہ میرزا محمدحسین فراہانی، تہران، فردوس، ۱۳۶۲ہجری شمسی۔
- قائدان، اصغر، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، تہران، نشر مشعر، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
- قسم الدراسات الاسلامیۃ مؤسسۃ الزہرا، فاطمۃ الزہرا(س) فی دیوان الشعر العربی، بیروت، مؤسسۃ البعثۃ، ۱۴۱۸ھ۔
- قمی، شیخ عباس، الانوار البہیہ فی تواریخ الحجج الاہیۃ، بیجا، مؤسسۃ الاسلامی المدرسین قم، بے تا۔
- «کتابشناسی قبر مادرم کجاست؟»، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران، تاریخ بازدید: ۹ شہریور ۱۴۰۰ہجری شمسی۔
- «کتابشناسی راز صدف»، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران، تاریخ بازدید: ۹ شہریور ۱۴۰۰ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح دارالحدیث، قم، دار الحدیث، ۱۴۲۹ھ۔
- مازندرانی، محمدصالح بن احمد، شرح الکافی، با حاشیہ ابوالحسن شعرانی، با تصحیح علیاکبر غفاری، تہران، المکتبۃ الاسلامیۃ للنشر و التوزیع، ۱۳۸۴ہجری شمسی۔
- مظاہری، حسین، اندیشہای ناب، اصفہان، مؤسسہ فرہنگی مطالعاتی الزہراء، ۱۳۹۰ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمد باقر بن محمد، بحار الأنوار، تحقیق و تصحیح جمعی از محققان، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
- مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تحقیق و تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۴ھ۔
- مجلسی، محمد تقی، لوامع صاحبقرانی، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، ۱۴۱۴ھ۔
- محب الدین طبری، احمد بن عبداللہ، ذخائر العقبی فی مناقب ذویالقربی، قاہرہ، مکتبہ القدسی، ۱۳۵۶ھ۔
- مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ والإشراف، تصحیح عبداللہ إسماعیل الصاوی، قاہرہ، دار الصاوی، بے تا۔
- ناجی جزائری، سید ہاشم، مرقد سیدۃ النساء فاطمۃ الشہیدۃ الزہراء(س) فی ای مکان؟!، قم، دانش، ۱۳۹۵ہجری شمسی۔
- نجمی، محمد صادق، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، تہران، مشعر، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
- نہجالبلاغہ، گردآوری محمد بن حسین شریفالرضی، تصحیح صبحی صالح،قم، مؤسسہ دار الہجرہ، ۱۴۱۴ھ۔
- ہلالی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، تحقیق و تصحیح محمد انصاری زنجانی خوئینی، قم، الہادی، ۱۴۰۵ق۔