محدثہ (لقب)

ویکی شیعہ سے
ایام فاطمیہ کے دوران باب‌ القبلہ حرم امام حسینؑ پر خط ثُلثِ جلی میں عبارت «اَلسَّلامُ عَلَیکِ اَیَّتُہَا التَّقیۃُ النَّقیۃُ الْمُحَدَّثَۃُ الْعَلیمہ» پر مبنی بینر نصب ہے

مُحَدَّثہ فرشتوں سے ہم کلام ہونے والی خاتون کے معنی میں حضرت فاطمہ(س) کے القاب میں سے ہے۔ احادیث میں یہ لقب آپ کے علاوہ بعض دوسری خواتین جیسے حضرت مریم اور حضرت سارہ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فرشتوں نے حضرت زہرا(س) کے ساتھ آپ کے بابا کی رحلت پر اظہار تسلیت و تعزیت سمیت آئندہ زمانے اور مؤمنین کی حالات کے بارے میں گفتگو کی ہیں۔

شیعہ ائمہؑ اور حضرت فاطمہ(س) کا فرشتوں کے ہم کلام ہونا شیعہ اعتقادات میں سے ہے۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض اہل‌ سنت شیعوں اپنے اماموں کی نبوت کے عائل ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ کتاب الغدیر کے مصنف علامہ امینی کے مطابق انبیاء کے علاوہ دوسروں کے لئے بھی فرشتوں کے ساتھ ہم کلام ہو سکنے کا عقیدہ شیعہ اور اہل سنت کا مشترکہ عقیدہ ہے البتہ ان کے مصادیق کے بارے میں فریقین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

محدَّثہ، لقب حضرت زہرا(س)

شیعہ احادیث میں لفظ محدَّثہ حضرت زہرا(س) کے القاب [1] اور اسامی میں سے ایک ہے۔[2] البتہ شیعہ احادیث کے مطابق محدَّثہ کا لقب حضرت مریم، حضرت موسی کی والدہ اور سارہ کے لئے بھی استمعال ہوا ہے۔[3]

مُصحَف فاطمہ سے مربوط احادیث میں مختلف طریقوں سے حضرت زہراء(س) کا محدثہ ہونے کی طرف تصریح کی گئی ہے۔[4] زیارتنامہ حضرت فاطمہ میں بھی آپ کو «الْمُحَدَّثَۃُ الْعَلِیمَۃُ» کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔[5]

محدثہ کے معنی

«حضرت فاطمہ(س) کو اس جہت سے محدَّثہ کا نام دیا گیا ہے کہ ملائکہ آسمان سے نیچے آکر جس طرح حضرت مریم سے صحبت اور بات چیت کرتے تھے، حضرت زہراء(س) کے ساتھ بھی ہم کلام ہوتے تھے اور کہتے تھے اے فاطمہ(س) خدا نے آپ کو انتخاب کیا ہے اور آپ کو پاک و منزہ قرار دیا ہے اور دنیا کی دیگر منتخب خواتین پر آپ کو فوقیت اور برتری دی ہے۔»

شیخ صدوق، علل الشرایع، 1386ھ، ج1، ص182۔

مُحَدَّثہ اس خاتون کو کہا جاتا ہے جس کے ساتھ بات چیت یا گفتگو کی گئی ہو۔[6] کتاب الغدیر کے مصنف علامہ امینی کے مطابق محدَّث کی اصطلاح اس شخص کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو انبیاء میں سے نہ ہو لیکن اس کے ساتھ فرشتے ہم کلام ہوئے ہوں۔[7]

حضرت فاطمہ(س) کا فرشتوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو بعض علماء پانچ موضوعات میں خلاصہ کرتے ہیں: رسول خداؐ کی رحلت پر تسلیت و تعزیت، پیغمبر اکرمؐ اور بہشت میں آپ کے مقام و مرتبے سے آگاہی، آیندہ زمانے کے حوادث و واقعات، حکمرانوں، مؤمنین اور کافروں کے بارے میں آگاہی۔[8]

بعض محدِّثہ یعنی متکلم اور گفتگو کرنے والے کے عنوان سے بھی اس لفظ کو حضرت فاطمہ(س) کے القاب میں شمار کرتے ہیں؛ کیونکہ حضرت فاطمہ(س) جب شکم مادر میں تھیں تو اس وقت آپ اپنی مادر گرامی سے گفتگو کیا کرتی تھیں۔[9][یادداشت 1]

غیر انبیاء کے ساتھ فرشتوں کا ہم کلام ہونا

علامہ امینی حضرت زہرا(س) اور شیعہ ائمہؑ کے محدَّث یعنی فرشتوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کو شیعہ اعتقادات میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق انبیاء کے علاوہ دوسرے اشخاص کے لئے بھی فرشتوں کے ساتھ ہم کلام ہونا کا امکان شیعہ اور اہل سنت دونوں کے مشترکہ اعتقادات میں سے ہے۔[11] علامہ امینی اس سلسلے میں تصریح کرتے ہیں کہ اس مسئلے میں اختلاف صرف ان افراد کے مصادیق میں ہے مثلا شیعہ اہل سنت کے برخلاف عمر بن خطاب کو ان اشخاص میں شمار نہیں کرتے ہیں۔[12]

سعودی عرب کے سلفی مصنف عبد اللہ قصیمی کتاب «الصّراع بینَ الاسلامِ و الوَثَنیّۃ» میں اسی مناسبت سے شیعوں پر ان کے ائمہ اور حضرت فاطمہ(س) کی نبوت کے قائل ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ البتہ علامہ امینی نے اس الزام اور تہمت کا جواب دیا ہے۔[13] انبیا کے علاوہ دوسرے اشخاص کا فرشتوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کو ثابت کرنے کے لئے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 42، سورہ ہود کی آیات 71–73 اور سورہ قصص کی آیت نمبر 7 سے استناد کرتے ہیں۔ ان آیات میں فرشتوں کا گذشتہ امتوں کے بعض پاک دامن خواتین کے ساتھ گفتگو کرنے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[14]

حوالہ جات

  1. شیخ صدوق، علل الشرایع، 1386ھ، ج1، ص182؛ طبری، دلائل الامامہ، ص81، ح20؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج14، ص206، ح23۔
  2. شیخ صدوق، الأمالی، 1376ہجری شمسی، ص592۔
  3. مجلسی، 1403ھ، بحارالانوار، ج43، ص79۔
  4. ملاحظہ کریں: الصفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص152؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج18، ص270، ح34؛ مہدوی راد، «مصحف فاطمہ»، ص73۔
  5. قمی، مفاتیح الجنان، بی‌تا، ص317۔
  6. رحمانی ہمدانی، فاطمہ زہرا فاطمہ زہرا(س) شادمانی دل پیامبر(ص)، 1381ہجری شمسی، ص244(پاورقی)۔
  7. علامہ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج5، ص67۔
  8. رحمان ستایش، «گفت و گوی ملائکہ با حضرت فاطمہ(س)»، ص25–26۔
  9. رحمانی ہمدانی، فاطمہ زہرا فاطمہ زہرا(س) شادمانی دل پیامبر(ص)، 1381ہجری شمسی، ص244(پاورقی)۔
  10. قطب راوندی، القاب الرسول و عترتہ، نسخۂ کتابخانہ مرعشی نجفی، بہ نقل از مہریزی، صدرایی خویی، میراث حدیث شیعہ، 1380ہجری شمسی، ج1، ص38۔
  11. علامہ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج5، ص67–68۔
  12. علامہ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج5، ص68–70۔
  13. علامہ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج5، ص78۔
  14. رحمانی ہمدانی، فاطمہ زہرا فاطمہ زہرا(س) شادمانی دل پیامبر(ص)، 1381ہجری شمسی، ص147–148؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج43، ص79۔

نوٹ

  1. قطب راوندی نے کتاب اَلقابُ الرَّسول و عِترَتِہ میں حضرت فاطمہ(س) کے القاب کے ضمن میں «مؤنسۃ خدیجۃ الکبری فی بطنہا» (یعنی حضرت فاطمہ(س) حضرت خدیجۂ کے شکم میں ان کی مونس تھیں) کی طرف اشارہ کیا ہے۔[10]

مآخذ

  • رحمان ستایش، محمدکاظم، گفت و گوی ملائکہ با حضرت فاطمہ(س)، حدیث پژوہی، بہار و تابستان 1391ہجری شمسی۔
  • رحمانی ہمدانی، احمد، فاطمہ زہرا علیہا السلام شادمانی دل پیامبر، ترجمہ سید حسن افتخارزادہ سبزواری، تہران، دفتر تحقیقات و انتشارات بدر، چاپ چہارم، 1381ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، نجف، مکتبہ الحیدریہ، 1386ھ۔
  • صفار قمی، محمد بن حسن بن فروخ، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد، تصحیح و تعلیق: میرزامحسن کوچہ باغی تبریزی، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الامامہ، قم، بعثت، چاپ اول، 1413ھ۔
  • علامہ امینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، 1416ھ۔
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان، قم، نشر اسوہ، بی‌تا۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، 1403ھ۔
  • مہدوی راد، محمدعلی، «مصحف فاطمہ»، در دانشنامہ فاطمی(س)، ج3، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1393ہجری شمسی۔