عقبہ بن سمعان

ویکی شیعہ سے
(عقبۃ بن سمعان سے رجوع مکرر)
محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


عقبہ بن سمعان حضرت امام حسین ؑ کی زوجہ محترمہ رباب کا غلام اور کربلا میں حضرت امام حسین ؑ کے ساتھیوں میں سے تھا کہ جس نے کربلا کے بعض واقعات کو نقل کیا ۔عمر بن سعد کے سپاہیوں نے اسے عاشورا کے روز گرفتار کیا لیکن انہوں نے غلام ہونے کی وجہ سے اسے آزاد کر دیا۔اس سے منقول ہے کہ حضرت امام حسین ؑ نے یزید بن معاویہ کے پاس جانے یا انہیں دور دراز سرحدی علاقوں میں لے جانے کی ہر گز درخواست نہیں کی ۔عقبہ کی یہ یہ گفتگو عمر بن سعد کے ابن زیاد کو لکھے جانے والے اس خط کی طرف ناظر ہے جس میں ان دو باتوں کی نسبت حضرت امام حسین ؑ کی طرف دی گئی تھی۔

تعارف

اس غلام کا نام عقبہ یا عاقبہ بن سمعان تھا[1] ۔یہ رباب کا غلام تھا نیز یہ حضرت امام حسین ؑ کی سواری کے وقت گھوڑے یا اونٹ کو آمادہ کرنے کا کام بھی انجام دیتا تھا ۔حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد لشکر عمر بن سعد نے اسے زندہ گرفتار کیا اور انہوں نے غلام ہونے کی وجہ سے آزاد کر دیا[2] ۔شیخ طوسی نے اس کا نام حضرت امام حسین ؑ کے اصحاب میں تحریر کیا ہے[3] نیز اس کا نام زیارت رجبیہ میں اس پر درود بھیجا گیا ہے[4] ۔

واقعۂ کربلا

عقبہ بن سمعان نے مدینہ سے لے کربلا تک حضرت امام حسین ہمراہی کی ۔ذو حسم کے مقام پر جب حر بن یزید ریاحی سے امام حسین ؑ کے کاروان کا سامنا ہوا تو امام کے کہنے پر اس نے خورجین سے کوفیوں کے خطوط نکال کر پیش کئے[5] ۔ ابو مخنف عبد الرحمان بن جندب [6] اور حارث بن کعب والبی[7] کے ذریعے کربلا کے بعض واقعات نقل کرتا ہے ۔عقبہ بن سمعان کہتا ہے :

میں مدینے سے لے کر کربلا تک امام حسین ؑ کی شہادت کے وقت تک امام کے ساتھ رہا کسی بھی موقع پر ان سے جدا نہیں ہوا ۔کوئی ایسا خطبہ نہیں جو میں نے امام کا نہ سنا ہو ۔خدا کی قسم !جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں امام حسین ؑ نے کسی بھی لمحے یزید بن معاویہ کے پاس جانے اور اس کی بیعت کرنے کی درخواست نہیں کی اور نہ ہی کسی وقت دور دراز سرحدی علاقے میں میں جانے کی در خواست کی ۔امام حسین ؑ نے صرف یہ کہا تھا :مجھے اجازت دو کہ میں جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس چلا جاؤں یا مجھے خدا کی اس وسیع و عریض زمین پر جانے کی اجازت دو تا کہ میں دیکھوں کہ بات کہاں ختم ہوتی ہے [8]۔

عقبہ کی یہ گفتگو حقیقت میں عمر بن سعد کے اس خط کی طرف ناظر ہے جس میں اس نے امام حسین ؑ کی طرف سے لکھا تھا:

  1. جہاں سے آیا ہوں وہیں مجھے واپس جانے دو ۔
  2. مسلمانوں کے کسی سرحدی علاقے میں جانے دو تا کہ دوسرے مسلمانوں کی طرح نفع و ضرر میں انکے ساتھ شریک ہو سکوں ۔
  3. یزید بن معاویہ کے پاس جانے دو تا کہ جو وہ میرے بارے میں حکم دے اسے انجام دیا جائے [9]۔

روایات

عقبہ کی درج ذیل روایات منقول ہیں:

  1. امام کا مدینہ سے نکلنا[10]۔
  2. مدینے سے مکہ جاتے ہوئے حضرت امام حسین ؑ کی عبد اللہ بن مطیع سے ملاقات[11] ۔
  3. عمرو بن سعید بن عاص کے قاصدوں سے امام کی ملاقات[12] ۔
  4. امام حسین ؑ کا حضرت عباس ؑ سے ملاقات کرنا[13] ۔
  5. کاروان امام حسین ؑ کی تنعیم کے مقام پر یزیدی قافلے سے مڈبھیڑ جو یمن سے شام کی جانب جا رہا تھا اور امام کا اس قافلے سے مال و اسباب لینا [14] ۔
  6. عبید اللہ بن زیاد کے خط کا حر بن یزید ریاحی کو ملنا[15]۔
  7. قصر بنی مقاتل کے مقام پر امام کا خواب دیکھنا اور کلمہ استرجاع کا پڑھنا۔ حضرت علی اکبر سے امام کی گفتگو [16]۔
  8. عمر بن سعد کا ابن زیاد کی طرف سے جنگ کیلئے ہونا [17] ۔
  9. کربلا میں امام حسین ؑ کے کاروان کا اترنا[18]۔

حوالہ جات

  1. ابومخنف، وقعۃ الطف، ص۱۰۷.
  2. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۲۵۷؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۲۰۵؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۴؛ ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۸۰، ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۸۹.
  3. طوسی، رجال، ص۱۰۴.
  4. سید بن طاوس، اقبال، ص۷۱۳.
  5. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۱۰۷؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۰۲؛ ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۷۸؛ ابن جوزی، المنتظم، ص۳۳۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۴، ص۳۷۷؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۸۰؛ طبرسی، اعلام الوری، ص۲۳۲.
  6. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۴۹؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۰۷، ۴۱۳؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۷۵.
  7. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۵۶، ۶۴؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۸۳، ۳۸۵؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۵۹، ۱۶۶
  8. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۱۸۷؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۱۳-۴۱۴؛ ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۵۴؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۷۵.
  9. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۸۳؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۱۵؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۹۳؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۸۸.
  10. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۴۰؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۵۱.
  11. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۴۰؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۵۱.
  12. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۴۰؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۸۵؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۶۶؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۴، ص۳۶۸؛ ابن نما، مثیرالاحزان، ص۳۹.
  13. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۴۰؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۸۳؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۵۹.
  14. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۴۰.
  15. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۳۲، ۴۰.
  16. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۴۰، ۱۷۷-۱۷۶؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۰۷؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۸۲؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۴، ص۳۷۹؛ طبرسی، اعلام الوری، ص۲۳۳.
  17. ذہبی، تاریخ الاسلام، ج۵، ص۱۹۵
  18. ابومخنف، وقعہ الطف، ص۳۲، ۴۰

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، دارصادر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م.
  • ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق: علی شیری، دارالأضواء، بیروت، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م.
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م.
  • ابن نما حلی، مثیرالأحزان، انتشارات مدرسہ امام مہدی (عج)، قم، ۱۴۰۶ق.
  • ابومخنف کوفی، وقعہ الطف، جامعہ مدرسین، چاپ سوم، قم، ۱۴۱۷ ق.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌الأشراف(ج۳)، تحقیق: محمد باقر المحمودی، دارالتعارف للمطبوعات، بیروت، ۱۹۷۷ق/۱۳۹۷م.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، اقبال‌الأعمال، دارالکتب الإسلامیہ، تہران، ۱۳۶۷ ق.
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، تحقیق: عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳م.
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری،‌دار الکتب الإسلامیہ، تہران.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمدأبوالفضل ابراہیم، دارالتراث، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
  • طوسی، رجال، انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین، ۱۴۱۵ق.
  • مجلسی، بحارالأنوار، مؤسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ق.
  • مفید، الإرشاد، انتشارات کنگره جہانی شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ ق.