سلیمان بن رزین
سلیمان بن رزین حضرت امام حسین ؑ کا غلام اور بصرے کے بزرگوں کی طرف آپ کی جانب سے سفیر تھا ۔ جب حضرت امام حسین ؑ کا خط عبید اللہ بن زیاد کے ہاتھ لگا تو اس نے سلیمان کی شہادت کا حکم دیا ۔ پس وہ قیام امام حسین ؑ کے قیام کا پہلا شہید ہے ۔
امام ؑ کا بصرے کے اشراف کے نام خط
حضرت امام حسین ؑ جب مکہ میں قیام پذیر تھے تو آپ نے بصرے کے اشراف کے نام ایک خط لکھا اور سلیمان بن رزین کے ہاتھ روانہ کیا[1]۔امام نے اپنے ایک ہی خط کو بصرے کے ان پانچ بزرگوں کے نام لکھا :مالک بن مسمع بکری، احنف بن قیس تمیمی، منذر بن جارود عبدی، مسعود بن عمرو ازدی، قیس بن ہیثم و عمرو بن عبیدالله بن معمر[2]۔
خط کا مضمون
'اما بعد : فان اللہ اصطفیٰ محمد صلی اللّٰہ علیہ (وآلہ ) وسلم علی خلقہ، أکرمہ بنبوّتہ،واختارہ لرسالتہ ، ثم قبضہ اللّٰہ الیہ و قد نصح لعبادہ وبلغ ما أرسل بہ صلیّ اللّٰہ علیہ (وآلہ )وسلّم و کنّاأھلہ وأولیاء ہ و أوصیائہ و ورثتہ وأحق الناس بمقامہ فی الناس ، فاستأثر علینا قومنا بذالک ، فرضینا و کرھنا الفرقة واحببنا العافےة ، نحن نعلم انّا أحقّ بذالک الحق المستحق علینا ممن تولاّہ و قد أحسنو ا و أصلحوا و تحروا الحق قد بعثت رسول ألیکم بھذاالکتاب وأنا أدعوکم الی کتاب اللّٰہ و سنّة نبےّہ صلّی اللّٰہ علیہ(و آلہ) وسلّم فانّ السنّة قد اُمیتت وأن البدعةقد اُحییت و أن تسمعو ا قول و تطیعوا أمر أھدکم سبیل الر شاد،والسلام علیکم و رحمة اللّٰہ[3]
امابعد : خداوند عالم نے محمد صلی اللہ علیہ (وآلہ ) وسلم کو اپنی مخلو قات میں چن لیا اور اپنی نبوت کے ذریعے انہیں با کرامت بنایا،اپنی رسالت کے لئے انھیں منتخب کر لیا، پھرخدا وند عالم نے ان کی روح کو قبض کرلیا ۔حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت ۖ نے بندگا ن خدا کی خیر خواہی فرمائی ہے اور وہ سب کچھ پہنچایا جس چیز کے ہمراہ ان کو بھیجا گیا تھا۔ جان لو کہ ہم ان کے اہل ، اولیا، اوصیاء اور وارث ہیں جو دنیا کے تمام لوگوں میں ان کے مقام و منزلت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں لیکن ہماری ہی قوم نے ظلم وستم کر کے ہمارا حق چھین لیا ۔ ہم اس پر راضی ہو گئے، افتراق کو بُرا سمجھا اور امت کی عافیت کو پسند کیا جبکہ یہ بات ہم کو بخوبی معلوم ہے کہ اس حق کے سب سے زیادہ مستحق ہم ہی ہیں اور اب تک جن لوگوں نے حکومت کی ہے ان میں نیکی ، صلح اورحق کی آزادی میں ہم ہی اولی ہیں۔ اب میں نے تمہارے پاس اپنا یہ خط روانہ کیا ہے اور میں تمہیں کتاب خدا اور اس کے نبی ۖ کی سنت کی طرف دعوت دے رہا ہوں ؛ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ سنت کو مردہ اور بدعت کو زندہ کیا گیا ہے۔ اب اگر تم میری بات سنتے ہواورمیرے کہے پر عمل کرتے ہو تومیں تم کو رشد و ہدایت کے راستے کی ہدایت کروں گا.
سلیمان کی شہادت
چار افراد نے تو خط کے پہنچنے کی خبر کو چھہائے رکھا لیکن بصرے کے حاکم عبید اللہ بن زیاد کے سسر منذر بن جارود نے اس ڈر سے کہ یہ ابن زیاد کا ہی مکر وفریب نہ ہو، خط اور خط لانے والے کو اس کے حوالے کر دیا ۔ابن زیاد ایک دن بعد کوفہ جانا چاہتا تھا ، اس نے خط پڑھا اور نامہ رسان کی گردن اڑانے کا حکم دیا (پس اس کے سپاہیوں نے اسے اسے قتل کر دیا ) ۔[4]ایک نقل کے مطابق اسے سولی پر چڑھایا گیا[5]۔
سلیمان بن رزین کا نام غیر مشہور زیارت ناحیہ میں یوں مذکور ہے :
السَّلامُ عَلی سُلَیمانَ مَوْلَی الْحُسَینِ بْنِ أمیرِالمؤمنینَ وَلَعَنَ اللَّهُ قاتِلَهُ سُلَیمانَ بْنَ عَوْفِ الْحَضْرَمِی
حوالہ جات
مآخذ
- سماوی، محمد، إبصارالعین فی أنصارالحسین، دانشگاه شہید محلاتی، قم، اول، ۱۴۱۹ ق.
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، دارالتراث، بیروت، دوم، ۱۳۸۷ ق.
- سید بن طاووس، اللہوف.